چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے پارہ عمّ کی ترتیب بدلنا جائز ہے
س… نماز میں قرآن شریف اُلٹا پڑھنا یعنی پہلی سورة آخر کی اور دُوسری سورة پہلے کی پڑھنا دُرست نہیں ہے، مگر قرآن شریف کے تیسویں پارے میں سورتیں قل سے شروع ہوکر عمّ پر ختم ہوتی ہیں، یعنی اُلٹا قرآن شریف لکھا ہوا ہے، جو اکثر مدرسوں میں طلبہ کو پڑھایا جاتا ہے، کیا اس طرح پڑھنا جائز ہے؟
ج… چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے ہے، تاکہ وہ چھوٹی سورتوں سے شروع کرسکیں۔
قرآن مجید میں نسخ کا علی الاطلاق انکار کرنا گمراہی ہے
س… جنگ راولپنڈی میں مولانا ․․․․․․ صاحب نے اپنے تأثرات و مشاہدات کے کالم میں لکھا ہے کہ: “میں قرآنِ حکیم کی کسی آیت کو منسوخ نہیں مانتا۔” میرے خیال میں یہ عقیدہ دُرست نہیں ہے، اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج… میری رائے آپ کے ساتھ ہے، قرآن مجید میں نسخ کا علی الاطلاق انکار کرنا گمراہی ہے۔
قرآنِ کریم کی سب سے لمبی آیت سورہٴ بقرہ کی آیت:۲۸۲ ہے
س… “معلوماتِ قرآن” جو کہ “عثمان غنی ظاہر” نے لکھی ہے، میں پڑھا ہے کہ قرآن شریف کی سب سے لمبی آیت آیت الکرسی ہے، آیت الکرسی کم و بیش ۵ لائنوں میں ہے، جبکہ میں نے قرآن شریف میں ایک اور آیت اس سے بھی لمبی دیکھی ہے، جو کہ سات لائنوں میں ہے، اور یہ آیت سورة الحج کی پانچویں آیت ہے، آپ ضرور بتائیں کہ قرآن شریف کی سب سے لمبی آیت کون سی ہے؟ آیا وہ آیت جو کہ میں نے کتاب میں پڑھی ہے، یا وہ جو میں نے قرآن شریف میں دیکھی ہے؟
ج… قرآنِ کریم کی سب سے لمبی آیت سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر:۲۸۲ ہے، جو آیتِ مداینہ کہلاتی ہے، آیت الکرسی زیادہ لمبی نہیں، مگر شرف و مرتبہ میں سب سے بڑی ہے، اور سیّد الآیات کہلاتی ہے۔
قرآن مجید کو چومنا جائز ہے
س… ہمارے گھر کے سامنے مسجد میں ایک دن ہمارا پڑوسی قرآن شریف کی تلاوت کر رہا تھا، جب تلاوت کرچکا تو قرآن شریف کو چوما، تو مسجد کے خزانچی نے ایسا کرنے سے روکا، اور کہا کہ: قرآن شریف کو نہیں چومنا چاہئے۔ وضاحت کریں کہ یہ شخص صحیح کہتا ہے یا غلط؟ میں بھی قرآن شریف پڑھ کر چومتا ہوں، اور ہمارے گھر والے بھی۔
ج… قرآن مجید کو چومنا جائز ہے۔
قرآنی حروف والی انگوٹھی پہن کر بیت الخلاء نہ جائیں
س… گزارش ہے کہ لوگ اکثر آیاتِ قرآنی وغیرہ انگوٹھیوں پر کندہ کراتے ہیں، براہِ کرم آپ ہمیں یہ بتائیں کہ ان انگوٹھیوں کو کس طریقے سے پہن کر بیت الخلاء جایا جائے؟ یا انہیں اُتار کر بیت الخلاء جایا جائے؟ ہم نے انگوٹھی پر حروفِ مقطعات یعنی ص، ن وغیرہ کندہ کرائے ہیں، اس کے لئے بھی بتائیں، کیا مسئلہ ہے؟
ج… انگوٹھی پر آیت یا قرآنی کلمات کندہ ہوں تو ان کو بیت الخلاء میں لے جانا مکروہ ہے، اُتار کر جانا چاہئے۔
تختہٴ سیاہ پر چاک سے تحریر کردہ قرآنی آیات کو کس طرح مٹائیں؟
س… جب کلاس میں بلیک بورڈ پر قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں تو اس کے بعد ان کو مٹادیا جاتا ہے، اور پھر ان الفاظ کی چاک زمین پر بکھر، یعنی پھیل جاتی ہے، اور وہی ہمارے پاوٴں کے نیچے آتی ہے، اس کے لئے کیا ہونا چاہئے؟ اس کا جواب ہم نے یہ دیا کہ وہ جب مٹ جاتی ہیں تو چاک قرآنی آیات کے الفاظ نہیں ہوتے وہ تو صرف چاک ہوتی ہے۔ لیکن ایک شخص نے ہمیں ایک مثال دے کر لاجواب کردیا کہ تعویذ کو بعض لوگ پانی میں گھول کر پیتے ہیں، کاغذ پر تو کچھ لکھا ہوتا ہے، لیکن جب یہ گھل جاتا ہے تو وہ الفاظ تو نہیں رہتے، پھر اسے لوگ کیوں پیتے ہیں؟
ج… یہ تو ظاہر ہے کہ مٹادینے کے بعد قرآنِ کریم کے الفاظ نہیں رہتے، لیکن بہتر یہ ہے کہ اس چاک کو گیلے کپڑے سے صاف کردیا جائے۔
بوسیدہ مقدس اوراق کو کیا کیا جائے؟
س… قرآنِ پاک کے بوسیدہ اوراق کو کیا کیا جائے؟ ہمارے لطیف آباد میں ایک واقعہ ایسا رونما ہوا کہ ایک مسجد کے موٴذّن نے قرآنِ پاک کے بوسیدہ اوراق ایک کنستر میں رکھ کر جلائے، موٴذّن اپنے فالتو اوقات میں چھولے فروخت کرتا ہے اور محنت کرکے کماتا ہے، حج بھی کیا ہے، اور عمرہ بھی ادا کیا ہے، اور مسجد کا کام بھی خوش اُسلوبی سے ادا کرتا ہے، مگر قرآنِ پاک کے اوراق کو جلانے پر اس کے خلاف خطرناک ہنگامہ اُٹھ کھڑا ہوا، اسے فوری طور پر مسجد سے نکال دیا گیا، بعد میں پولیس نے اسے گرفتار بھی کرلیا۔ اب آپ از رُوئے شریعت یہ بتائیں کہ واقعی موٴذّن سے گناہ سرزد ہوا ہے؟ قرآنِ پاک کے بوسیدہ اوراق از رُوئے شریعت کون کون سے طریقے سے ضائع کرسکتے ہیں؟ اس پر تفصیلی روشنی ڈالئے۔
ج… مقدس اوراق کو بہتر یہ ہے کہ دریا میں یا کسی غیرآباد کنویں میں ڈال دیا جائے، یا زمین میں دفن کردیا جائے، اور بصورت مجبوری ان کو جلاکر خاکستر (راکھ) میں پانی ملاکر کسی پاک جگہ جہاں پاوٴں نہ پڑتے ہوں، ڈال دیا جائے۔ آپ کے موٴذّن نے اچھا نہیں کیا، لیکن اس سے زیادہ گناہ بھی سرزد نہیں ہوا، جس کی اتنی بڑی سزا دی گئی، لوگ جذبات میں حدود کی رعایت نہیں رکھتے۔
اخبارات و جرائد میں قابلِ احترام شائع شدہ اوراق کو کیا کیا جائے؟
س… عرض و گزارش یہ ہے کہ میں نے جناب صدرِ پاکستان کی خدمت میں اس مفہوم کا ایک عریضہ بھیجا تھا کہ آج کل نشر و اشاعت میں دین کا جو ذخیرہ اخبارات وغیرہ میں آرہا ہے وہ بہرحال بھلا اور وقت کی ضرورت کے عین مطابق ہے، لیکن اس سلسلے میں یہ پہلو بھی غور و فکر کا ہے کہ ایسے تمام اخبارات وغیرہ جب ردّی ہوکر بازار میں آتے ہیں تو پھر ان متبرک مضامین کی بڑی بے حرمتی ہوتی ہے، پہلے مساجد میں کسی مجلس خیر کی طرف سے ایسی ہدایات آویزاں تھیں کہ ایسے ردّی کاغذات مسجدوں میں محفوظ کرادیا کریں، ان کو احترام کے ساتھ ختم کردیا جایا کرے گا۔ پھر سابق وزارتِ اُمورِ مذہبی نے بھی اس کے لئے جگہ جگہ کنستر رکھوائے تھے، مگر اب یہ انتظامات نظر نہیں آرہے، عوام ہی کچھ کرتے ہیں اور پریشان ہوجاتے ہیں۔ رائے ناقص میں اخبارات وغیرہ کو ایسی ہدایت کی جائے کہ وہ اشتہارات میں بسم اللہ کے بجائے ۷۸۶ طبع کریں، اور قرآنی آیات و احادیث کے ساتھ یہ ہدایت بھی طبع کرتے رہیں کہ یہ حصہ ردّی میں دینا گناہ ہے، اسے تراش کر احترام کے ساتھ ختم کیا جائے۔
میرے عریضے کے جواب میں مجھے اطلاع دی گئی کہ میرا خط ضروری کاروائی کے لئے وزارتِ نشر و اشاعت اسلام آباد بھیج دیا گیا ہے۔ اسی زمانے میں الفاظ کی بے حرمتی کے متعلق آپ سے بھی سوال کیا، اور آپ نے جواب دیا کہ یہ بے ادبی ایک مستقل وبال ہے، اس کا حل سمجھ میں نہیں آتا، حکومت اور سب کے تعاون کے بغیر اس سیلاب سے بچنا ممکن نہیں۔ میں نے اخبار سے یہ حصہ تراش کر برائے غور اپنے خط میں شامل کرنے کے لئے اپنے عریضے کے ساتھ وزارتِ نشر و اشاعت کو بھجوا دیا۔ اخبار جنگ کراچی میں حکومت کی ہدایات اور جو فیصلہ شامل ہوا ہے اس کے تراشے میں اس عریضے کے ساتھ جناب کو بھیج رہا ہوں، میری رائے میں اس مرحلے پر عوام سے جو یہ چاہا گیا کہ وہ ایسی عبارتوں کو اسلامی اور شرعی اَحکام کے مطابق تلف کیا کریں، اس میں عوام کے لئے اسلامی اور شرعی اَحکام کی وضاحت بھی ہوجائے تو عوام کا کام آسان ہوجائے گا، اور ایسی وضاحت کا انتظام آپ جیسے محترم ہی مناسب اور صحیح طور پر فرماسکتے ہیں، جو خالی از ثوابِ دارین نہ ہوگا۔
ج… اس سلسلے میں چند اُمور قابلِ ذکر ہیں:
اوّل:… اخبارات و جرائد کے ذریعہ اسمائے مبارکہ کی بے حرمتی ایک وبائی شکل اختیار کرگئی ہے، اس لئے حکومت کو بھی، اخبارات کو بھی اور عام مسلمانوں کو بھی اس سنگینی کا پورا پورا احساس کرنا چاہئے، عوام کو احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ جو عبارت سرکاری گشتی مراسلے میں دی گئی ہے، اخبارات اسے مسلسل نمایاں طور پر شائع کرتے رہیں۔
دوم:… سرکاری طور پر اس کا اہتمام ہونا چاہئے کہ ایسے منتشر اوراق جن میں قابلِ احترام چیز لکھی ہوئی ہو، ان کی حفاظت کے لئے مساجد میں، رفاہی اداروں میں اور عام شاہراہوں پر جگہ جگہ کنستر رکھوا دئیے جائیں، اور عوام کو ہدایت کی جائے کہ جس کو بھی کسی جگہ ایسا قابلِ احترام کاغذ پڑا ہوا ملے اسے ان ڈبوں میں محفوظ کردیا جائے۔
سوم:… ایسے کاغذات کو تلف کرنے کی بہتر صورت یہ ہے کہ انہیں سمندر میں یا دریا میں یا کسی بے آباد جگہ میں ڈال دیا جائے، یا کسی جگہ دفن کردیا جائے جہاں پاوٴں نہ آتے ہوں، اور آخری درجے میں ان کو جلانے کے بعد خاکستر میں پانی ملاکر کسی ایسی جگہ ڈال دیا جائے جہاں پاوٴں نہ آتے ہوں۔
قرآنی آیات کی اخبارات میں اشاعت بے ادبی ہے
س… جنگ کوئٹہ میں ایک قدیم نادر قلمی قرآن مجید کا عکس شائع ہوا تھا، دیکھ کر بے حد دُکھ ہوا کہ اس میں سورہٴ قریش میں ایک لفظ چھوٹا ہوا ہے، (اخبار کا ٹکڑا بھیج رہا ہوں) لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ بتائیں ہم غلطی پر ہیں؟ یہ قرآنی نسخہ بارہا چھپ چکا ہوگا اور کافی عرصہ پرانا بھی ہے، تو کیا آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا جو اسے صحیح کیا جاتا؟ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اس کے بارے میں تفصیل سے جواب دیں اور یہ بھی بتائیں کہ اخبار میں قرآنی آیات کا چھاپنا اتنا ضروری ہے کہ اس کی بے ادبی کو مدِنظر رکھے بغیر چھاپ دیا جائے؟ قلات میں اکثریت ہندو گھرانوں کی ہے، اس لئے ہر ہندو کے ہاتھ میں اخبار ہوتا ہے، اور ان کے لئے عام اخبار کی خبریں اور قرآنی آیات سب برابر ہیں، اور ہم مسلمان بھائی اخباروں کو کہاں تک سنبھال سکتے ہیں؟
ج… آپ نے جو اخباری تراشہ بھیجا ہے، اس میں آیت واقعی غلط چھپی ہوئی ہے، جو افسوسناک بات ہے، میں قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کو اخبار میں چھاپنا بھی بے ادبی سمجھتا ہوں۔
قرآن مجید کو الماری کے اُوپری حصے میں رکھیں
س… عرض یہ ہے کہ مجھے ایک اُلجھن درپیش آگئی ہے، میں قرآن مجید اپنی بک شیلف کی نچلی دراز میں رکھتی ہوں، اچانک میرے ذہن میں خیال ہوا ہے کہ صوفے کی سطح دراز سے اُونچی ہے، اس لئے نعوذ باللہ کہیں قرآن پاک کی بے حرمتی نہ ہوتی ہو؟ دراز بند ہے، مہربانی فرماکر مجھے ٹھیک سے بتائیں میں آپ کی بہت مشکور ہوں گی۔
ج… قرآن مجید چونکہ الماری میں بند ہوتا ہے، اس لئے بے حرمتی تو نہیں، مگر بہتر یہی ہے کہ اسے اُونچا رکھ دیجئے۔
قرآن مجید کو نچلی منزل میں رکھنا جائز ہے
س… قرآن کو اُونچی جگہ رکھا جاتا ہے، لیکن اگر مکان ایک سے زائد منزلوں پر مشتمل ہو تو کیا قرآن کو نچلی منزل میں رکھنے سے اس کی بے ادبی نہیں ہوتی؟ جبکہ اُوپر کی منزلوں میں لوگ چلتے پھرتے، سوتے غرض ہر کام کرتے ہیں۔
ج… نچلی منزل میں قرآنِ کریم کے ہونے کا کوئی حرج نہیں۔
قرآن مجید پر کاپی رکھ کر لکھنا سخت بے ادبی ہے
س… کیا قرآن شریف کے اُوپر کوئی کاپی وغیرہ رکھ کر لکھنا چاہئے؟
ج… کیا کوئی مسلمان جس کے دِل میں قرآن مجید کا ادب ہو، قرآن مجید پر کاپی رکھ کر لکھ سکتا ہے؟
ٹی وی کی طرف پاوٴں کرنا جبکہ اس پر قرآنِ کریم کی آیات آرہی ہوں
س… بسااوقات لیٹ کر ٹی وی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں، اس دوران پاوٴں بھی ٹی وی کی طرف ہوتے ہیں، اور تخت ٹی وی سے اُونچا ہوتا ہے، اور قرآن شریف کی آیات ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں، تو کوئی گناہ ہے یا نہیں؟ اور گناہگار کون ہوگا دیکھنے والا یا ٹی وی پروگرام دکھانے والا؟
ج… یہ ایک نہیں، بلکہ تین گناہوں کا مجموعہ ہے:
۱:… ٹی وی دیکھنا بذاتِ خود حرام ہے۔
۲:… اس حرام چیز کا قرآنِ کریم کے لئے استعمال حرام۔
۳:…قرآنِ کریم کے نقوش کی طرف پاوٴں پھیلانا بے ادبی ہے۔
پروگرام دیکھنے اور دکھانے والے سب اس کے وبال میں شریک ہیں۔
دِل میں پڑھنے سے تلاوتِ قرآن نہیں ہوتی، زبان سے قرآن کے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے
س… اکثر قرآن خوانی میں لوگ خاص کر عورتیں تلاوت اس طرح کرتی ہیں جیسے اخبار پڑھتے ہیں، آواز تو درکنار لب تک نہیں ہلتے، دِل میں ہی پڑھتی ہیں، ان سے کہو تو جواب ملتا ہے: ہم نے دِل میں پڑھ لیا ہے، مرد تلاوت کی آواز سنیں گے تو گناہ ہوگا۔
ج… قرآن مجید کی تلاوت کے لئے زبان سے الفاظ ادا کرنا شرط ہے، دِل میں پڑھنے سے تلاوت نہیں ہوتی۔
بغیر زبان ہلائے تلاوت کا ثواب نہیں، البتہ دیکھنے اور تصوّر کرنے کا ثواب ملے گا
س… بعض لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں لیکن ہونٹ نہیں ہلاتے، دِل میں خیال کرکے پڑھتے ہیں۔
ج… تلاوت زبان سے قرآن مجید کے الفاظ کی ادائیگی کا نام ہے، اس لئے اگر زبان سے نہ پڑھے اور صرف دِل میں خیال کرے تو تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا، صرف آنکھوں سے دیکھنے اور دِل میں تصوّر کرنے کا ثواب مل جائے گا۔
تلاوت کے لئے ہر وقت صحیح ہے
س… یہاں پر سعودی عرب میں اذان کے بعد اور ہر باجماعت نماز سے پہلے اکثر لوگ قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے ہیں، جمعہ کے روز بھی ایسا ہوتا ہے، کیا دن میں کسی خاص وقت کا خیال کئے بغیر ایسا عمل صحیح ہے؟
ج… قرآنِ کریم کی تلاوت دن رات میں کسی وقت بھی منع نہیں، ہر وقت تلاوت کی جاسکتی ہے۔
طلوعِ آفتاب کے وقت تلاوت جائز ہے
س… جب سورج طلوع ہونے کا وقت ہو تب نماز پڑھنا منع کیا گیا ہے، کیا اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرسکتے ہیں یا نہیں؟
ج… اس وقت قرآنِ کریم کی تلاوت جائز ہے۔
زوال کے وقت تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار جائز ہیں
س… قرآن خوانی کے بارے میں یہ سوال تھا کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد دُوسرے روز یا کسی بھی روز قرآن خوانی ہوتی ہے، ایک صاحب نے کہا کہ اب قرآن خوانی کا ٹائم نہیں ہے، زوال کا وقت ہونے والا ہے، کیا اس وقت قرآن خوانی کرسکتے ہیں؟
ج… زوال کے وقت قرآنِ کریم کی تلاوت اور دیگر ذکر و اذکار جائز ہیں، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ اب قرآن خوانی کا وقت نہیں، یہ الگ بحث ہے کہ آج کل قرآن خوانی کا جو رواج ہے اس میں لوگوں نے بہت سی غلط چیزیں بھی شامل کرلی ہیں۔
عصر تا مغرب تلاوت، تسبیح کے لئے بہترین وقت ہے
س… عصر سے لے کر مغرب کے وقت تک قرآن پاک پڑھنا چاہئے یا نہیں؟ کہتے ہیں کہ یہ زوال کا وقت ہوتا ہے۔
ج… عصر سے مغرب کا وقت تو بہت ہی مبارک وقت ہے، اس وقت ذکر و تسبیح اور تلاوتِ قرآن مجید میں مشغول ہونا بہت ہی پسندیدہ عمل ہے۔
تلاوتِ قرآن کا افضل ترین وقت
س… قرآن پڑھنے کا افضل ترین وقت کون سا ہے؟ تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے، میرے دِل میں قرآن و نماز پڑھنے کا جذبہ بہت شوق سے اُبھرا، سردیوں کے دن تھے چھوٹے، تمام وقت کام میں مصروف رہتی، نماز کا وقت تو مل جاتا لیکن قرآن عموماً رات کے گیارہ یا بارہ بجے پڑھنے بیٹھ جاتی۔ ترجمہ کے ساتھ مجھے بہت لطف آتا، کیونکہ رات کا وقت بہت سکون کا ہوتا ہے، سمجھ کر پڑھنا بہت اچھا لگتا ہے، مگر یہ جان کر بہت دُکھ ہوا کہ ایک دن میرے شوہر فرمانے لگے، بلکہ ناراض بھی ہوئے کہ یہ کون سا وقت ہے؟ خدانخواستہ بیوہ عورتیں اس وقت پڑھا کرتی ہیں! تم عصر میں یا علی الصباح پڑھا کرو، میرے شوہر خود قرآن کے حافظ اور دینی علوم سے آگاہ ہیں، ان کی زبان سے یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ وہ میرا قرآن پڑھنے کا غلط مقصد نکال رہے ہیں، جبکہ میرے دِل میں کہیں بھی ایسا خیال نہ تھا، نہ مجھے یہ پتہ تھا کہ میں اس وقت پڑھوں گی تو لوگ ہم میاں بیوی میں کشیدگی سمجھیں گے، نہ یہ مقصد تھا کہ میری آواز سن کر پڑوسی مجھے بہت نیک پارسا سمجھیں، میں تو خود کو بے حد گناہگار تصوّر کرتی ہوں۔ بہرحال اس دن سے دِل کچھ ایسا ہوگیا کہ نماز و قرآن کی طرف دِل راغب نہیں ہوتا، دُنیا جہان کے کاموں میں لگی رہتی ہوں، البتہ ضمیر بے حد ملامت کرتا ہے، موت کا تصوّر کسی لمحے کم نہیں ہوتا۔
ج… آپ کے شوہر کا یہ کہنا تو محض ایک لطیفہ تھا کہ اس وقت بیوہ عورتیں پڑھا کرتی ہیں، ویسے یہ خیال ضرور رہنا چاہئے کہ ہمارے طرزِ عمل سے دُوسرے کو تکلیف نہ پہنچے، گیارہ بجے کا وقت عموماً آرام کا وقت ہوتا ہے، اور اس وقت آپ کے پڑھنے سے دُوسروں کی نیند اور راحت میں خلل واقع ہوسکتا ہے۔ آپ کے لئے مناسب یہ ہے کہ کام کاج نمٹاکر نمازِ عشاء پڑھ کر جس قدر جلدی ممکن ہو سوجایا کریں، آخرِ شب میں تہجد کے وقت اُٹھ کر کچھ نوافل پڑھ کر قرآنِ کریم کی تلاوت کرلیا کریں (اور عورتوں کو تلاوت بھی آہستہ کرنی چاہئے، اتنی بلند آواز سے نہیں کہ آواز نامحرموں تک جائے)، سردیوں میں تو انشاء اللہ اچھا خاصا وقت مل جایا کرے گا، اور گرمیوں میں اگر اس وقت تلاوت کا وقت نہ ملے تو نمازِ فجر کے بعد کرلیا کریں، یہ موزوں ترین وقت ہے۔ اور آپ نے جو لکھا ہے کہ جس دن سے آپ کے شوہر نے آپ کو بے وقت پڑھنے پر ٹوکا ہے، اس دن سے نماز و قرآن کی طرف دِل راغب نہیں ہوتا، اس سے آپ کے نفس کی چوری نکل آئی، اگر آپ نماز و تلاوت رضائے الٰہی کے لئے کرتی تھیں تو اب اس سے بے رغبتی کیوں ہوگئی؟ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تلاوت کرنے پر نفس کا کوئی چھپا ہوا مکر تھا، اس سے توبہ کیجئے، خواہ رغبت ہو یا نہ ہو، نماز و تلاوت کا اہتمام کیجئے، مگر بے وقت نہیں۔
قرآنی آیات والی کتاب کو بغیر وضو ہاتھ لگانا
س… اقرأ ڈائجسٹ میں قرآنی آیات اور ان کا ترجمہ لکھا ہوتا ہے، براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا اسے بغیر وضو مطالعہ کیا جاسکتا ہے؟ اسی طرح کچھ اور کتابیں یا اخبار جن میں قرآنی آیات یا صرف ان کا ترجمہ احادیثِ نبوی یا ان کا ترجمہ تحریر ہوتا ہے، وضو کے بغیر پڑھی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
ج… دینی کتابیں جن میں آیاتِ شریفہ درج ہوں، ان کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا جائز ہے، مگر آیات شریفہ کی جگہ ہاتھ نہ لگایا جائے۔
بغیر وضو قرآن مجید پڑھنا جائز ہے، چھونا نہیں
س… قرآن شریف کو چھونے کے لئے یا ہاتھ میں لینے کے لئے یا کوئی آیت دیکھنے کے لئے وضو کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ کیونکہ انسان بغیر وضو کے بھی پاک ہوتا ہے، شاید قرآن شریف کے اُوپر ہی جو آیت درج ہوتی ہے اس کا مفہوم بھی ایسا ہی ہے کہ پاک لوگ چھوتے ہیں یہ کتاب، وغیرہ، اُمید ہے ہماری رہنمائی فرمائیں گے۔
ج… بغیر وضو کے قرآن مجید پڑھنا جائز ہے، مگر ہاتھ لگانا جائز نہیں۔
نابالغ بچے قرآنِ کریم کو بلاوضو چھوسکتے ہیں
س… چھوٹے بچے بچیاں مسجد، مدرسے میں قرآن پڑھتے ہیں، پیشاب کرکے آبدست نہیں کرتے، بلاوضو قرآن چھوتے ہیں، معلم کا کہنا ہے کہ جب تک بچے پر نماز فرض نہیں ہوتی، تب تک وہ بلاوضو قرآن چھو سکتا ہے۔ چار پانچ سال کے اکثر بچے بار بار پیشاب کو جاتے ہیں، ریاح آتی رہتی ہے، ان کے لئے ہر دس پندرہ منٹ پر وضو کرنا بہت مشکل کام ہے۔ دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کتنی عمر کے بچے بلاوضو قرآن چھوسکتے ہیں؟
ج… چھوٹے نابالغ بچوں پر وضو فرض نہیں، ان کا بلاوضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا دُرست ہے۔
قرآن مجید اگر پہلے نہیں پڑھا تو اَب بھی پڑھ سکتے ہیں
س… قرآنِ کریم کو عربی زبان میں پڑھ کر ہی ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے یا کہ اُردو زبان میں ترجمہ پڑھ کر بھی ثواب حاصل ہوگا؟ کیونکہ مجھے عربی نہیں آتی۔
ج… قرآن عربی میں ہے، اُردو میں تو اس کا ترجمہ ہوگا، اور اس کا ثواب قرآن کی تلاوت کا ثواب نہیں، آپ نے اگر قرآن مجید نہیں پڑھا، تو اَب بھی پڑھ سکتے ہیں۔
دِل لگے یا نہ لگے قرآن شریف پڑھتے رہنا چاہئے
س… میں قرآن شریف کی تعلیم حاصل کر رہا ہوں، اللہ کا شکر ہے میں اب تک ۱۹ پارے پڑھ چکا ہوں، اور اب پڑھنے میں دِل نہیں لگ رہا ہے، آپ کوئی وظیفہ تحریر کردیں آپ کی مہربانی ہوگی جس پر عمل کرنے سے تعلیم حاصل کرنے کو میرا دِل لگ جائے، نماز کے بعد دُعا کرتا ہوں کہ اے رَبّ! میرے علم میں اضافہ فرما۔
ج… بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ خواہ دِل لگے یا نہ لگے وہ ضرور کئے جاتے ہیں، مثلاً: دوائی پینے کو دِل نہیں چاہتا، مگر صحت کے خیال سے پی جاتی ہے، اسی طرح قرآن مجید بھی باطنی صحت کے لئے ہے، خواہ دِل لگے یا نہ لگے پڑھتے رہیں، انشاء اللہ دِل بھی لگنے لگے گا۔
قرآن مجید کو فقط غلاف میں رکھ کر مدتوں نہ پڑھنا موجبِ وبال ہے
س… آج کل یہ عام ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نہیں ہوتی، صرف قرآن مجید گھر میں، ہوٹلوں اور دُکانوں میں اُونچی جگہ میں نظر آتا ہے، غلاف پر بہت سارا گرد و غبار جمع ہوتا ہے، کیا قرآن مجید کو ایسی جگہوں میں رکھنا جائز ہے؟
ج… قرآن مجید کو اُونچی جگہ پر تو رکھنا ہی چاہئے، باقی مدتوں اس کی تلاوت نہ کرنا لائقِ شرم اور موجبِ وبال ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت نہ کرنے والا، عظیم الشان نعمت سے محروم ہے
س… اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا تو کہیں وہ گناہ کا مرتکب تو نہیں ہوتا؟
ج… قرآن مجید کی تلاوت نہ کرنے والا گناہگار تو نہیں، لیکن ایک عظیم الشان نعمت سے محروم ہے۔
سگریٹ پیتے ہوئے قرآنِ کریم کا مطالعہ یا ترجمہ پڑھنا خلافِ ادب ہے
س… ایک شخص قرآنِ حکیم کا مطالعہ معنی سمجھنے کے لئے کر رہا ہے، اُردو کی مدد سے وہ الفاظ اور عبارت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے، اور اس دوران سگریٹ پی رہا ہے، اس کا یہ فعل کہاں تک دُرست ہے؟ کیا وہ سگریٹ پینے سے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے، جبکہ سگریٹ یا حقہ پینے سے وضو نہیں ٹوٹتا؟
ج… سگریٹ یا حقہ پینے سے وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن جو شخص قرآنِ کریم کے اتنے احترام سے بھی عاری ہے، اسے قرآنِ پاک کا فہم کیا خاک نصیب ہوگا؟ اور پھر وہ بے چارہ خالی اُردو ترجمے سے کیا سمجھے گا؟ انا لله وانا الیہ راجعون!
سوتے وقت لیٹ کر آیت الکرسی پڑھنے میں بے ادبی نہیں
س… آیت الکرسی جو میں رات کو پڑھ کر سوتی ہوں، لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب لیٹ جاتی ہوں تو یاد آتا ہے، لیٹ کر پڑھنے سے بے ادبی تو نہیں ہوتی؟ ضرور بتائیے۔
ج… لیٹ کر پڑھنا جائز ہے، بے ادبی نہیں۔
تلاوت کرنے والے کو نہ کوئی سلام کرے، نہ وہ جواب دے
س… جب کوئی آدمی کلامِ پاک کی تلاوت کر رہا ہو، ایسی حالت میں اسے سلام دیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ اگر سلام دے دیا جائے تو کیا اس پر جواب دینا واجب ہوجاتا ہے؟
ج… اس کو سلام نہ کیا جائے، اور اس کے ذمہ سلام کا جواب بھی ضروری نہیں۔
ہر تلاوت کرنے والے کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ کہاں ٹھہرے؟ کہاں نہیں؟
س… رُموزِ اوقاف قرآن مجید کو ادا کرنا کیا ہر مسلمان کا فرض ہے یا صرف قاری لوگوں کے لئے ضروری ہے؟
ج… کس لفظ پر، کس طرح وقف کیا جائے؟ اور کہاں وقف ضروری ہے، کہاں نہیں؟ یہ بات جاننا ہر قرآن مجید پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے، اور یہ زیادہ مشکل نہیں، کیونکہ قرآن مجید میں اس کی علامات لگی ہوتی ہیں، باقی فن کی باریکیوں کو سمجھنا ماہرین کا کام ہے۔
مسجد میں تلاوتِ قرآن کے آداب
س… مسجد میں جب اور لوگ بھی نماز و تسبیح میں مشغول ہوں تو کیا تلاوت باآواز بلند جائز ہے؟
ج… اتنی بلند آواز سے تلاوت کرنا جائز نہیں جس سے کسی کی نماز میں خلل پڑے۔
اگر کوئی شخص قرآن پڑھ رہا ہو تو کیا اس کا سننا واجب ہے؟
س… مولانا صاحب! احقر خود اس ماہِ مبارک میں نماز، روزہ، تلاوت کرتا ہے، گھر کے تقریباً جملہ افراد بھی یہ عمل کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ گھر میں جبکہ زیادہ تر لوگ قرآنِ کریم (بلند آواز میں) پڑھ رہے ہوں، تو کیا ہم وہ سنیں یا ہم کچھ ذاتی اور دُنیاوی کام بھی اس وقت کرسکتے ہیں؟ میں کافی شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہوں کہ آخر قرآنِ کریم کی تلاوت کے دوران کہاں تک کاموں کو روکوں؟ اُمید ہے کہ آپ مدد فرمائیں گے اور احقر کو جواب دیں گے، قرآنِ کریم سے مجھے بے حد محبت ہے، میں خود پڑھتا ہوں، مگر میں نے ایک حدیث پڑھی ہے کہ اسے تب تک پڑھو جب تک دِل چاہے۔
ج… جو شخص اپنے طور پر قرآن پڑھ رہا ہو، اس کا سننا واجب نہیں، اور گھر والوں کے لئے بھی بہتر یہ ہے کہ آہستہ پڑھیں۔
سورة التوبہ میں کب بسم الله الرحمن الرحیم پڑھے اور کب نہیں؟
س… قرآن مجید کی سورتوں میں صرف ایک سورہٴ توبہ کی ابتدا بسم الله الرحمن الرحیم سے نہیں ہے، اگر کوئی شخص بغیر بسم اللہ پڑھے ہی سورہٴ توبہ کی تلاوت شروع کردے اور درمیان میں ہی رُک کر دُوسرے دن اسی جگہ سے تلاوت شروع کردے تو بسم اللہ پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
ج… سورہٴ برأت (توبہ) کے شروع میں بسم اللہ شریف نہ لکھنے کی وجہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ اس سورة کے مضامین چونکہ اس سے پہلے کی سورہٴ انفال سے ملتے جلتے ہیں، اس لئے ہمیں خیال ہوا کہ یہ سورہٴ انفال کا جز نہ ہو، پس احتمالِ جزئیت کی بنا پر بسم اللہ نہیں لکھی گئی، اور مستقل سورة ہونے کے احتمال کی بنا پر اس کو ماقبل کی سورة سے ممتاز کردیا گیا، گویا جز ہونے یا نہ ہونے کے دونوں پہلووٴں کی رعایت ملحوظ رکھی گئی۔ اس سورة کے شروع میں بسم اللہ شریف پڑھنے کا حکم یہ ہے کہ اگر اُوپر سے پڑھتا آرہا ہو تب تو بسم اللہ پڑھے بغیر ہی سورہٴ توبہ شروع کردے، اور اگر اس سورة سے تلاوت شروع کی ہے تو عام معمول کے مطابق اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کر شروع کرے، اسی طرح اگر اس سورة کے درمیان تلاوت روک دی تھی، تو آگے جب تلاوت شروع کرے تب بھی اعوذ باللہ کے بعد بسم اللہ پڑھ کر شروع کرے۔
قرآن شریف کی ہر سطر پر اُنگلی رکھ کر “بسم اللہ الرحمن الرحیم” پڑھنا
س… میں نے سنا اور دیکھا بھی ہے کہ اکثر ایسے لوگ جو قرآن شریف کی ہر سطر پر “بسم الله الرحمن الرحیم” پڑھتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس طرح دو قرآن ختم کرنے سے ایک قرآن ختم کرنے کا ثواب ملتا ہے، ان لوگوں کا یہ فعل کیا دُرست ہے؟
ج… اس سے قرآنِ کریم کی تلاوت کا ثواب نہیں ملتا، اور قرآن مجید پر بلاوجہ اُنگلی پھیرنا فضول حرکت ہے، صرف بسم اللہ پڑھنے کا ثواب مل جائے گا۔
بغیر سمجھے قرآنِ پاک سننا بہتر ہے یا اُردو ترجمہ پڑھنا؟
س… رمضان المبارک میں تراویح پڑھی جاتی ہیں، میں تراویح پڑھنے بہت کم گیا ہوں، مجھے ڈر ہے کہ کہیں گناہ تو نہیں کر رہا ہوں؟ ہمیں عربی زبان سمجھ نہیں آتی، اسی لئے قرآن مجید تو پڑھ سکتے ہیں لیکن سمجھ نہیں سکتے، تراویح میں پورا قرآن ختم کیا جاتا ہے، مگر جو چیز سمجھ میں نہیں آئے اسے عبادت کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اگر میں اس مبارک مہینے میں نمازِ عشاء کے بعد قرآن شریف کا اُردو ترجمہ پڑھوں تاکہ مجھے کچھ سبق حاصل ہو اور میں اپنے دوست و احباب تک کو ان کی اپنی زبان میں قرآنی واقعات بتاوٴں، تو کیا مجھے تراویح نہ پڑھنے کا گناہ ملے گا؟ جبکہ تراویح میں آنے والے طرح طرح کے خیالات، حافظ جی کی تیزی اور قرآن کی ناسمجھی کی وجہ سے میرے خالی ذہن میں داخل ہوجاتے ہیں، جو سوائے گناہ کے اور کچھ نہیں۔
ج… آپ کی تحریر چند مسائل پر مشتمل ہے، جن کو بہت ہی اختصار سے ذکر کرتا ہوں:
۱:… تراویح میں پورا قرآن مجید سننا سنتِ موٴکدہ ہے، اور اس سے محروم رہنا بڑی سخت محرومی ہے، دُوسری کوئی عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔
۲:…قرآن مجید پڑھنا مستقل عبادت ہے، خواہ معنی سمجھے یا نہ سمجھے، اور قرآن مجید سمجھنا الگ عبادت ہے، اگر آپ کو قرآنِ کریم کے سمجھنے کا شوق ہے تو یہ بڑی سعادت ہے، تاہم الفاظِ قرآن کی تلاوت کو ․․․نعوذ باللہ․․․ بے کار سمجھنا غلط ہے۔ تلاوتِ آیات کو اللہ تعالیٰ نے مستقل طور پر مقاصدِ نبوّت میں شمار فرمایا ہے، اور تلاوت کی مدح فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوتِ قرآن کے بہت سے فضائل بیان فرمائے ہیں، اس لئے تلاوت کو فضول سمجھنا، خدا اور رسول کی تکذیب اور قرآنِ کریم کی توہین کے ہم معنی ہے۔ ہمارے شیخ حضرتِ اقدس مولانا محمد زکریا کا رسالہ “فضائلِ قرآن” ملاحظہ فرمالیا جائے۔
۳:… قرآن مجید سیکھنے کا یہ طریقہ نہیں کہ آپ اس کا ترجمہ بطور خود پڑھ لیا کریں، کیونکہ اوّل تو یہی معلوم نہیں کہ جو ترجمہ آپ کے زیرِ مطالعہ ہے، وہ کسی دیندار آدمی کا ہے یا کسی بے دین کا، موٴمن کا ہے یا کافر کا؟ اور یہ کہ اس نے منشائے الٰہی کو ٹھیک سمجھا بھی ہے یا نہیں؟ سمجھا ہے تو اسے ٹھیک طریقے سے تعبیر بھی کرپایا ہے یا نہیں؟ اور پھر یہ کہ ترجمہ پڑھ کر آپ صحیح بات سمجھ سکیں گے؟ کہیں فہم میں کوئی لغزش تو نہیں ہوگی؟ اس کے اطمینان کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہوگا، اور خدانخواستہ غلط مفہوم سمجھ کر اسے دُوسروں کو بتائیں گے، تو افتراء علی اللہ کا اندیشہ ہے۔ شاہی فرامین کی ترجمانی کے لئے کیسے کیسے ماہرین رکھے جاتے ہیں، بڑا ظلم ہوگا اگر ہم قرآن فہمی کے لئے کسی استعداد و مہارت کی ضرورت ہی نہ سمجھیں، اور محض ترجمہ خوانی کا نام قرآن فہمی رکھ لیں۔ الغرض قرآن فہمی کا طریقہ یہ نہیں کہ محض اُردو ترجمہ پڑھ لینے کو کافی سمجھ لیا جائے، بلکہ اگر یہ شوق ہو تو کسی محقق عالم کی صحبت میں قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے لئے ضروری استعداد پیدا کی جائے۔
۴:… پھر جناب نے تراویح کے وقت ہی کو ترجمہ خوانی کے لئے کیوں تجویز فرمایا؟ جو عبادات شریعت نے مقرّر کی ہیں، ان کو حذف کرکے اپنے خیال میں قرآن فہمی میں مشغول ہونا گویا صاحبِ شریعت کو مشورہ دینا ہے کہ اس کو فلاں عبادت کی جگہ یہ چیز مقرّر کرنی چاہئے تھی، اور یہ بات آدابِ بندگی کے یکسر منافی ہے، بندہ کا فرض تو یہ ہونا چاہئے کہ جس وقت اس کی جو ڈیوٹی لگادی جائے، اسی کو بجالائے، ترجمہ خوانی کا اگر شوق ہے تو اس کے لئے آپ سیر و تفریح اور آرام و طعام کے مشاغل حذف کرکے بھی تو وقت نکال سکتے ہیں۔
۵:… آپ کا یہ ارشاد بھی اس ناکارہ کے نزدیک اصلاح کا محتاج ہے کہ: “اپنے دوست احباب تک ان کو ان کی زبان میں قرآنی واقعات بتاوٴں” آدمی کو ہدایتِ الٰہی کا مطالعہ کرتے وقت یہ نیت کرنی چاہئے کہ جو ہدایت مجھے ملے گی اس پر خود عمل کروں گا، اسی عمل کا ایک شعبہ یہ بھی ہے کہ جو صحیح مسئلہ معلوم ہو، وہ دُوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی بتایا جائے، لیکن ہم کو اپنی اصلاح کی سب سے پہلے فکر ہونی چاہئے اور قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کا مطالعہ صرف اسی نیت سے کرنا چاہئے۔
۶:… تراویح میں حافظ صاحب ایسے مقرّر کئے جائیں جو الفاظِ قرآن کو صحیح صحیح ادا کریں، تیز روی میں الفاظ کو خراب نہ کریں۔
۷:… نماز میں جو خیالات بغیر قصد و اختیار کے آئیں نہ وہ گناہ ہیں، نہ ان پر موٴاخذہ ہے، ان خیالات سے پریشان ہونا غلط ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ آدمی نماز کی طرف متوجہ رہنے کی کوشش کرتا رہے، خیالات بھٹکتے ہیں تو بھٹکتے رہیں، ان کی طرف التفات ہی نہ کرے، بلکہ بار بار نماز کی طرف متوجہ ہوتا رہے، انشاء اللہ اس کو کامل نماز کا ثواب ملے گا۔
اُردو میں تلاوت کرنا
س… جناب مسئلہ یہ ہے کہ اگر قرآن اُردو میں پڑھا جائے تو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ عربی میں پڑھنے سے، یا عربی میں پڑھنا ہی بہتر ہے؟ کیونکہ عربی میں قرآن مجید پڑھ تو لیتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے، سمجھ نہیں سکتے، جبکہ قرآن مجید کو جب تک سمجھا اور اس پر عمل نہ کیا جائے، اس کا پڑھنا بے کار ہے۔
ج… اُردو ترجمہ پڑھنے سے قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا، تلاوت کا ثواب صرف قرآنِ کریم کے الفاظ کے ساتھ مخصوص ہے، سمجھنے کے لئے تلاوت کرنے کے بعد اس کا ترجمہ اور تفسیر پڑھ لی جائے، لیکن قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب اس کے اپنے الفاظ کی تلاوت سے ہوگا۔
اور قرآن مجید کی بے سمجھے تلاوت کو بے کار کہنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی تلاوت کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں، یہ فضائل قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت کے ہیں، خواہ معنی و مفہوم کو سمجھے یا نہ سمجھے۔
قرآن مجید پڑھنے کا ثواب فقط ترجمہ پڑھنے سے نہیں ملے گا
س… ترجمے والے قرآن پاک کا ترجمہ پڑھتے ہیں، کیا اس طرح قرآن شریف پڑھنے سے اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا عربی میں (جو کہ اس کی اصل شکل ہے) پڑھنے سے ملتا ہے؟
ج… قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت کے بغیر صرف ترجمہ پڑھنے سے قرآن مجید پڑھنے کا ثواب نہیں ملے گا۔
قرآن مجید کے الفاظ کو بغیر معنی سمجھے ہوئے پڑھنا بھی عظیم مقصد ہے
س…اگر ایک آدمی عربی میں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اور وہ صرف طوطے کی طرح پڑھے جاتا ہے، مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ اس نے جو کچھ پڑھا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ صرف اسے اتنا پتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب پڑھ رہا ہوں، اب اس کا کیا مقصد ہوا؟ اس شخص کا اس طرح سے قرآن مجید پڑھنا اس کے واسطے محض انگریزی یا یونانی پڑھنے کے مترادف ہوا، اگر اسے ان کے معانی نہیں آتے، کیا اس شخص کو بغیر معنی کے قرآن مجید پڑھنے کا ثواب ملے گا؟ حالانکہ قرآن مجید پڑھنے کا مقصد اور مطلب تو یہ ہے کہ اس مقدس کتاب کو خوبصورتی سے پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، اگر مقصد صرف پڑھنے تک محدود رہے تو اس کا کیا فائدہ؟
ج… قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت ایک مستقل وظیفہ ہے، جس کی قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں ترغیب دی گئی ہے، اور اس کو مقاصدِ نبوّت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) میں سے ایک مستقل مقصد قرار دیا گیا ہے، اور قرآنِ کریم کے الفاظ کو طوطے کی طرح رٹنے، حفظ کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کا اجر و ثواب بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنا ایک مستقل وظیفہ ہے، اس کا الگ اجر و ثواب ہے، اور سمجھ کر اس کے اَحکام پر عمل کرنا یہ سب سے اہم تر مقصد ہے، اور ایک مسلمان کو اپنی ہمت و بساط کے مطابق کلام اللہ کی تلاوت بھی کرنی چاہئے، اس کے الفاظ بھی یاد کرنے چاہئیں، اس کے معنی و مفہوم کو بھی ضرور سمجھنا چاہئے، اور ارشاداتِ خداوندی پر عمل بھی کرنا چاہئے، مگر بے سمجھے پڑھنے کو بے فائدہ کہنا دُرست نہیں، بلکہ گستاخی و بے ادبی ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہے۔
معنی سمجھے بغیر قرآن پاک کی تلاوت بھی مستقل عبادت ہے
س… میرا سوال یہ ہے کہ قرآن پاک بغیر سمجھے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں، جب تک اس کے معنی نہ پڑھے جائیں، لیکن کیا یہ جائز ہے کہ ہم جو رُکوع پڑھنا چاہیں صرف اس کے معنی پڑھ لیں، یعنی بغیر تلاوت کے؟
ج… قرآن مجید کی تلاوت ایک مستقل عبادت اور اعلیٰ ترین عبادت ہے، اس کے مفہوم و معنی کو سمجھنا مستقل عبادت ہے، اور پھر اس پر عمل کرنا الگ عبادت ہے۔ قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین وظائف ذکر فرمائے گئے ہیں:
۱: تلاوتِ آیات۔ ۲:تعلیمِ کتاب و حکمت۔ ۳: تزکیہ۔
یہ انہی تین عبادتوں کی طرف اشارہ ہے جو اُوپر ذکر کی گئی ہیں، اس لئے معنی سمجھے بغیر قرآنِ کریم کی تلاوت کو بے کار سمجھنا غلط ہے، کیا یہ نفع کم ہے کہ قرآنِ کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں؟ بہرحال قرآن مجید کی تلاوت تو ہر مسلمان کا وظیفہ ہونا چاہئے، خواہ معنی سمجھے یا نہ سمجھے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ توفیق اور ہمت دے تو معنی سمجھنے کی کوشش کی جائے، مگر صرف قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھ کر قرآن مجید کی آیت کا مفہوم اپنے ذہن سے نہ گھڑ لیا جائے، بلکہ جہاں اِشکال ہو اہلِ علم سے سمجھ لیا جائے۔
قرآن مجید سمجھ کر پڑھے یا بے سمجھے، صحیح ہے، لیکن نیا مطلب گھڑنا غلط ہے
س… روزنامہ جنگ موٴرخہ ۱۵/دسمبر ۱۹۸۲ء کے صفحہ:۳ پر ایک حدیث بحوالہ مسلم رقم ہے، عنوان ہے: “طلبِ علم کا صلہ” اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درج ہے کہ: “جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر (مسجد) میں اکٹھے ہوکر اللہ کی کتاب پڑھتے اور اس پر بحث و گفتگو کرتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمانی سکون نازل ہوتا ہے، رحمت ان کو ڈھانک لیتی ہے، فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اپنے فرشتوں کی مجالس میں فرماتے ہیں۔” اس حدیث شریف میں قرآن شریف پڑھنے اور اس کے معانی و حکمت پر گفتگو اور بحث کرنے کی برکات کا ذکر ہے، اور اشارہ ملتا ہے کہ لوگ قرآنِ کریم کے معانی و مطالب اور حکمت و فلسفہ کو موضوعِ گفتگو بنائیں، اور یوں اس کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کریں۔ لیکن فی زمانہ دیکھا گیا ہے کہ قرآنِ کریم کی صرف تلاوت یعنی پڑھ لینے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے اور اللہ سے ثواب (اجر) حاصل کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے، یہ رویہ نہ صرف کم علم عوام کا ہے بلکہ اچھے پڑھے لکھے بھی قرآنِ کریم کی لفظی تلاوت سے آگے بڑھنا ضروری نہیں سمجھتے۔ یہی نہیں بلکہ اکثر علماء قرآنِ کریم کے مطالب اور حکمت پر بحث و گفتگو سے مسلمانوں کو منع کرتے ہیں اور صرف تلاوت کو ثواب کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی پر زور دیتے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ اس بات پر روشنی ڈالیں کہ اس حدیث شریف کی روشنی میں مسلمانوں کو کون سی عملی راہ اختیار کرنی چاہئے؟
نیز یہ بات کس حد تک دُرست ہے کہ قرآنِ کریم کو بغیر سمجھے بھی تلاوت کی جائے تو بھی ثواب (اجر) ملتا ہے؟ عموماً ہم کوئی بھی کتاب پڑھتے ہیں، تو اسے سمجھتے ہیں، ورنہ پڑھتے ہی نہیں، بغیر سمجھے کسی کتاب کا پڑھنا عجیب سی بات ہے، پھر قرآنِ کریم جو انسانوں کے لئے ایک مستقل حقیقی سرچشمہ ہدایت ہے، اسے سمجھے بغیر یعنی یہ معلوم کئے بغیر کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہدایت اور رہنمائی ہے تو پڑھنے سے ثواب کے کیا معنی ہیں؟ اور ثواب یعنی اجر تو اس ہدایت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، ایک مسلمان کے لئے ایمان و عمل کی شرائط بھی اسی صورت میں پوری ہوسکتی ہیں کہ قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھا جائے، اس سوال پر بھی روشنی ڈالئے تاکہ مسلمانوں کی فلاح کا راستہ کھل سکے۔
ج… قرآنِ کریم کی تلاوت کا ثواب الگ ہے، جو صحیح احادیث میں وارد ہے، اور قرآنِ کریم کے معانی و مطالب کو سیکھنے کا ثواب الگ ہے، جہاں تک مجھے معلوم ہے کسی عالمِ دین نے قرآنِ کریم کے معنی و مفہوم کو سمجھنے سے منع نہیں کیا، البتہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ انہوں نے قرآنِ کریم کو سمجھا نہیں ہوتا، مگر وہ اپنی طرف سے کسی آیت کا مطلب گھڑکر بحث شروع کردیتے ہیں، ایسی بحث سے علماء ضرور منع کرتے ہیں، کیونکہ ایک تو اس بحث کا منشاء جہلِ مرکب ہے، پھر ایسی بحث کی حدیث میں مذمت بھی آئی ہے، چنانچہ جامع صغیر (ج:۱ ص:۱۴۴) میں مستدرک حاکم کے حوالے سے جو حدیث نقل کی ہے: “الجدال فی القرٰن کفر” یعنی قرآن میں کج بحثی کرنا کفر ہے۔ الغرض قرآنِ کریم کی تلاوت کو بیکار سمجھنا بھی صحیح نہیں، قرآنِ کریم کے مطالب سیکھنے اور پڑھنے کی کوشش نہ کرنا بھی غلط ہے، اور قرآنِ کریم کا صحیح علم حاصل کئے بغیر بحث شروع کردینا بھی غلط ہے۔
قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر عالم سے تصدیق کرنا ضروری ہے
س… وہ لوگ جنہیں کسی بھی وجہ سے قرآن مجید پڑھنے کا موقع نہیں ملا، مگر اب ان کا تجسّس مقدس کتاب پڑھنے کے بارے میں بڑھ رہا ہے، اور اب وہ عمر کی اس حد میں پہنچ چکے ہیں کہ عربی زبان میں پڑھنا مشکل ہوگیا ہے، تو وہ ترجمہ ہی پڑھ کر اپنے علم کو وسعت دینا چاہتے ہیں، اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔ اگر کسی صاحب نے آپ کے جوابات کو غور سے پڑھا ہوگا تو وہ ایسا کرنے سے ضرور گریز کرے گا، کیونکہ اسے یہ پتہ چلا ہوگا کہ محض ترجمہ پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اب اسے جو بھی تھوڑا سا ثواب ملنے کا امکان تھا، اس سے بھی محروم رہ جائے گا، اس طرح گناہ کا موجب کون ہوگا؟
ج… ایک ایسا شخص جو عربی الفاظ پڑھنے سے قاصر ہے، وہ اگر “اُردو قرآن” پڑھے گا تو اسے قرآن مجید کی تلاوت کا ثواب نہیں ملے گا۔ رہا صرف “اُردو قرآن” پڑھ کر اَحکامِ خداوندی کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا! یہ جذبہ تو بہت قابلِ قدر ہے، مگر تجربہ یہ ہے کہ بغیر اُستاذ کے نہ یہ قرآنِ کریم کا مفہوم صحیح سمجھے گا، نہ منشاءِ خداوندی کے مطابق عمل پیرا ہوسکے گا۔ ایسے حضرات کو واقعی قرآنِ کریم سمجھنے کا شوق ہے تو ان کے لئے مناسب تدبیر یہ ہے کہ وہ کسی عالمِ حقانی سے سبقاً سبقاً پڑھیں اور اگر اتنی فرصت بھی نہ ہو تو کم از کم اتنا ضرور کریں کہ اُردو ترجمہ دیکھ کر جو مفہوم ان کے ذہن میں آئے اس پر اعتماد نہ کریں، بلکہ کسی عالم سے اس کی تصدیق کرالیا کریں کہ ہم نے فلاں آیت کا جو مفہوم سمجھا ہے، آیا صحیح سمجھا ہے؟ اور اس سے بھی اچھی صورت یہ ہے کہ کسی عالمِ حقانی کے مشورے سے کسی تفسیر کا مطالعہ کیا کریں اور اس میں جو بات سمجھ میں نہ آئے وہ پوچھ لیا کریں۔
امریکہ کی مسلم برادری کے تلاوتِ قرآن مجید پر اِشکالات کا جواب
س… کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں:
ہم قرآن شریف کو عربی میں کیوں پڑھتے ہیں، جبکہ ہم عربی نہیں سمجھتے؟ اس کی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی، اسلام کی مشہور و معروف کتابوں میں اگر اس کی وجہ نہیں ہے، تو پھر عقلی وجہ ایسا کرنے کی کوئی سمجھ میں نہیں آتی، یہ بتایا جائے کہ کون سا طریقہ بہتر ہے، عربی میں قرآن شریف کی تلاوت کرنا یا اس کا انگریزی ترجمہ پڑھنا؟ یہاں امریکہ میں زندگی بہت مصروف ہے، اور لوگوں کے پاس بہت سارے کام کرنے کا وقت نہیں ہے، لہٰذا یہاں مسلمان مرد و عورت کہتے ہیں کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ وہ وضو کرکے کسی کونے میں بیٹھ کر قرآن نہیں پڑھ سکتے، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔
کافر مذاق کرتے ہیں کہ صرف ایک قرآن پڑھنے کے لئے کتنے کام کرنے پڑتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک مقدس کتاب ہے، لیکن بائبل بھی مقدس کتاب ہے اور ہم وہ کتاب کسی بھی وقت میں پڑھ سکتے ہیں، ہم زیادہ تر رات کو سوتے وقت بستر میں پڑھتے ہیں۔ کیا قرآن بھی اس طریقے سے پڑھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا وجہ ہے؟
ج… آپ کے سوال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ چند اجزاء پر مشتمل ہے، اس لئے مناسب ہے کہ ان پر الگ الگ گفتگو کی جائے اور چونکہ یہ آپ کا ذاتی مسئلہ نہیں، بلکہ آپ نے امریکہ کی مسلم برادری کی نمائندگی کی ہے، اس لئے مناسب ہوگا کہ قدرے تفصیل سے لکھا جائے۔
۱:… آپ دریافت کرتے ہیں کہ ہم قرآنِ کریم کو عربی میں کیوں پڑھتے ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہے؟
تمہیداً پہلے دو مسئلے سمجھ لیجئے! ایک یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت نماز میں تو فرض ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، (میں یہاں یہ تفصیلات ذکر نہیں کرتا کہ نماز میں قرأت کی کتنی مقدار فرض ہے؟ کتنی مسنون ہے؟ اور یہ کہ کتنی رکعتوں میں فرض ہے؟ اور کس کے ذمہ فرض ہے؟)۔ لیکن نماز سے باہر قرآنِ کریم کی تلاوت فرض و واجب نہیں، البتہ ایک عمدہ ترین عبادت ہے، اس لئے اگر کوئی شخص نماز سے باہر ساری عمر تلاوت نہ کرے تو کسی فریضے کا تارک اور گناہگار نہیں ہوگا، البتہ ایک بہترین عبادت سے محروم رہے گا، ایسی عبادت جو اس کی رُوح و قلب کو منوّر کرکے رشکِ آفتاب بناسکتی ہے، ایسی عبادت جو اس کی قبر کے لئے روشنی ہے، اور ایسی عبادت جو حق تعالیٰ شانہ سے تعلق و محبت کا قوی ترین ذریعہ ہے۔
دُوسرا مسئلہ یہ کہ جس شخص کو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنی ہو، خواہ وہ نماز کے اندر تلاوت کرے یا نماز سے باہر، اس کو قرآنِ کریم کے اصل عربی متن کی تلاوت لازم ہے، تلاوتِ قرآن کی فضیلت صرف عربی متن کی تلاوت پر حاصل ہوگی، وہ اس کی اُردو، انگریزی یا کسی اور زبان کے ترجمہ پڑھنے پر حاصل نہیں ہوگی، اس لئے مسلمان قرآنِ کریم کے عربی متن ہی کی تلاوت کو لازم سمجھتے ہیں، ترجمہ پڑھنے کو تلاوت کا بدل نہیں سمجھتے اور اس کی چند وجوہات ہیں:
پہلی وجہ:… قرآنِ کریم ان مقدس الفاظ کا نام ہے جو کلامِ الٰہی کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے، گویا قرآنِ کریم حقیقت میں وہ خاص عربی الفاظ ہیں جن کو قرآن کہا جاتا ہے، چنانچہ متعدّد آیاتِ کریمہ میں قرآنِ کریم کا تعارف قرآنِ عربی یا لسانِ عربی کی حیثیت سے کرایا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“وکذٰلک أنزلنٰہ قراٰنًا عربیًّا” (۲۰:۱۱۳)
“قراٰنًا عربیًّا غیر ذی عوج لعلھم یتّقون”(۳۹:۲۸)
“انّا أنزلنٰہ قراٰنًا عربیًّا لعلکم تعقلون” (۱۲:۳)
“کتٰب فصلت اٰیٰتہ قراٰنًا عربیًّا” (۴۱:۷)
“وکذٰلک أوحینا الیک قراٰنًا عربیًّا” (۴۲:۳)
“انّا جعلنٰہ قراٰنًا عربیًّا لعلکم تعقلون” (۴۳:۳)
“وکذٰلک أنزلنٰہ حکمًا عربیًّا” (۱۳:۳۷)
“وھٰذا کتٰب مصدق لسانًا عربیًّا” (۴۶:۱۲)
“وھٰذا لسان عربی مبین” (۱۶:۱۰۳)
“بلسان عربی مبین” (۲۶:۱۹۵)
اور جب یہ معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم، عربی کے ان مخصوص الفاظ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے، تو اس سے خودبخود یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر قرآنِ کریم کے کسی لفظ کی تشریح متبادل عربی لفظ سے بھی کردی جائے تو وہ متبادل لفظ قرآن نہیں کہلائے گا، کیونکہ وہ متبادل لفظ منزل من الله نہیں، جبکہ قرآن وہ کلامِ الٰہی ہے جو جبریلِ امین علیہ السلام کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، مثلاً: سورہٴ بقرہ کی پہلی آیت میں: “لا ریب فیہ” کے بجائے اگر “لا شک فیہ” کے الفاظ رکھ دئیے جائیں تو یہ قرآن کی آیت نہیں رہے گی۔
الغرض جن متبادل الفاظ سے قرآنِ کریم کی تشریح یا ترجمانی کی گئی ہے وہ چونکہ وحیٴ قرآن کے الفاظ نہیں، اس لئے ان کو قرآن نہیں کہا جائے گا۔ ہاں! قرآنِ کریم کا ترجمہ یا تشریح و تفسیر ان کو کہہ سکتے ہیں، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنے فہم کے مطابق ترجمہ و تشریح کیا کرتا ہے، پس جس طرح غالب# کے اشعار کا مفہوم کوئی شخص اپنے الفاظ میں بیان کردے تو وہ غالب# کا کلام نہیں، بلکہ غالب# کے کلام کی ترجمانی ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کا ترجمہ، خواہ کسی زبان میں ہو، وہ کلامِ الٰہی نہیں، بلکہ کلامِ الٰہی کی تشریح و ترجمانی ہے، اب اگر کوئی شخص اس ترجمہ و تشریح کا مطالعہ کرے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس نے کلامِ الٰہی کو پڑھا، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے قرآنِ کریم کا ترجمہ پڑھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان جو فرق ہے، وہی فرق اس کے اپنے کلام اور مخلوق کی طرف سے کی گئی ترجمانی کے درمیان ہے۔ اب جو شخص حق تعالیٰ شانہ سے براہِ راست ہم کلامی چاہتا ہو اس کے لئے صرف مخلوق کے کئے ہوئے ترجمہ و تفسیر کا دیکھ لینا کافی نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لئے براہِ راست کلامِ الٰہی کی تلاوت لازم ہوگی۔ ہر مسلمان کی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ وہ قرآنِ کریم کا مفہوم خود اس کے الفاظ سے سمجھنے کی صلاحیت و استعداد پیدا کرے، لیکن اگر کسی میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہو تب بھی قرآنِ کریم کی تلاوت کے انوار و تجلیات اسے حاصل ہوں گے، اور وہ تلاوت کے ثواب و برکات سے محروم نہیں رہے گا، خواہ معنی و مفہوم کو وہ سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک پھل یا مٹھائی لاتے ہیں، مجھے نہ تو اس کا نام معلوم ہے، نہ میں اس کے خواص و تأثیرات سے واقف ہوں، اس لاعلمی کے باوجود اگر میں اس پھل یا شیرینی کو کھاتا ہوں تو اس کی حلاوت و شیرینی اور اس کے ظاہری و باطنی فوائد سے محروم نہیں رہوں گا۔
دُوسری وجہ :… بعض لوگ جو کلامِ الٰہی کی لذّت سے ناآشنا ہیں اور جنھیں کلامِ الٰہی اور مخلوق کے کلام کے درمیان فرق و امتیاز کی حس نہیں، ان کا کہنا ہے کہ قرآنِ کریم کے پڑھنے سے مقصود اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنا اور اس کے اَحکام و فرامین کا معلوم کرنا ہے، اور یہ مقصود چونکہ کسی ترجمہ و تفسیر کے مطالعے سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، لہٰذا کیوں نہ صرف ترجمہ و تفسیر پر اکتفا کیا جائے؟ قرآنِ کریم کے الفاظ کے سیکھنے سکھانے اور پڑھنے پڑھانے پر کیوں وقت ضائع کیا جائے؟ مگر یہ ایک نہایت سنگین علمی غلطی ہے، اس لئے کہ جس طرح قرآنِ کریم کے معانی و مطالب مقصود ہیں، ٹھیک اسی طرح اس کے الفاظ کی تعلیم و تلاوت بھی ایک اہم مقصد ہے، اور یہ ایسا عظیم الشان مقصد ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ نبوّت میں اوّلین مقصد قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
“ربّنا وابعث فیھم رسولًا منھم یتلوا علیھم اٰیاتک ویعلمھم الکتٰب والحکمة ویزکیھم انک أنت العزیز الحکیم۔” (۲:۱۲۹)
ترجمہ:…”اے ہمارے پروردگار! اور اس جماعت کے اندر انہیں میں کا ایک ایسا پیغمبر بھی مقرّر کیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کریں اور ان کو (آسمانی) کتاب کی اور خوش فہمی کی تعلیم دیا کریں، اور ان کو پاک کردیں، بلاشبہ آپ ہی ہیں غالب القدرت کامل الانتظام۔”(ترجمہ حضرت تھانوی)
“کما أرسلنا فیکم رسولًا منکم یتلوا علیکم اٰیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتٰب والحکمة ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون۔” (۲:۱۵۱)
ترجمہ:…”جس طرح تم لوگوں میں ہم نے ایک (عظیم الشان) رسول کو بھیجا تمہیں میں سے، ہماری آیات (واَحکام) پڑھ پڑھ کر تم کو سناتے ہیں، اور (جہالت سے) تمہاری صفائی کرتے رہتے ہیں، اور تم کو کتاب (الٰہی) اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں، اور تم کو ایسی (مفید) باتیں تعلیم کرتے رہتے ہیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)
“لقد منّ الله علی الموٴمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم یتلوا علیھم اٰیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔”
(۳:۱۶۴)
ترجمہ:…”حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا، جبکہ ان میں ان ہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں، اور ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں، اور بالیقین یہ لوگ قبل سے صریح غلطی میں تھے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)
“ھو الذی بعث فی الأمیین رسولًا منھم یتلوا علیھم اٰیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔” (۶۲:۲)
ترجمہ:…”وہی ہے جس نے (عرب کے) ناخواندہ لوگوں میں ان ہی (کی قوم) میں سے (یعنی عرب میں سے) ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، اور ان کو (عقائدِ باطلہ اور اخلاقِ ذمیمہ سے) پاک کرتے ہیں، اور ان کو کتاب اور دانشمندی (کی باتیں) سکھلاتے ہیں، اور یہ لوگ (آپ کی بعثت کے) پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے۔”
(ترجمہ حضرت تھانوی)
جس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائضِ نبوّت میں سے اوّلین فریضہ قرار دیا گیا ہو، اُمت کا اس کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ غیرضروری ہے، کتنی بڑی جسارت اور کس قدر سوءِ ادب ہے․․․!
تیسری وجہ:… قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: “اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ” (الحجر:۹) یعنی “ہم نے ہی یہ قرآن نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔” قرآنِ کریم کی حفاظت کے وعدے میں اس کے الفاظ کی حفاظت، اس کے معنی کی حفاظت، اس کی زبان و لغت کی حفاظت سب ہی کچھ شامل ہے، اور عالمِ اسباب میں حفاظت کا یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک جماعتوں کی جماعتیں قرآنِ کریم کی خدمت میں مشغول رہیں، اور انشاء اللہ قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ گویا حفاظتِ قرآن کے ضمن میں ان تمام لوگوں کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے جو قرآنِ کریم کی خدمت کے کسی نہ کسی شعبے سے منسلک ہیں، ان خدامِ قرآن میں سرفہرست ان حضرات کا نام ہے جو قرآنِ کریم کے الفاظ کی حفاظت میں مشغول ہیں، اور قرآنِ کریم کے الفاظ کی تعلیم و تعلّم میں لگے ہوئے ہیں، خواہ حفظ کر رہے ہوں یا ناظرہ پڑھتے پڑھاتے ہوں، اور اسی وعدہٴ حفاظت کی کارفرمائی ہے کہ آج کے گئے گزرے زمانے میں (جس میں بقول آپ کے قرآن پڑھنے کی فرصت کس کو ہے؟) لاکھوں حافظِ قرآن موجود ہیں۔ جن میں چھ سات سال تک کے بچے بھی شامل ہیں، اب اگر الفاظِ قرآن کی تلاوت کو غیرضروری قرار دے کر اُمت اس کے پڑھنے پڑھانے کا شغل ترک کردے تو گویا قرآنِ کریم کا وعدہٴ حفاظت ․․․نعوذ باللہ․․․ غلط ٹھہرا۔ مگر اس وعدہٴ محکم کا غلط قرار پانا تو محال ہے، ہاں! یہ ہوگا کہ اگر بالفرض اُمت قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت اور اس کے پڑھنے پڑھانے کو ترک کردے تو حق تعالیٰ شانہ ان کی جگہ ایسے لوگوں کو بروئے کار لائیں گے جو اس وعدہٴ الٰہی کی تکمیل میں بسر و چشم اپنی جانیں کھپائیں گے، گویا اُمت کا اُمت کی حیثیت سے باقی رہنا موقوف ہے، قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت اور تعلیم و تعلّم پر، اگر اُمت اس فریضے سے منحرف ہوجائے تو گردن زدنی قرار پائے گی اور اسے صفحہٴ ہستی سے مٹادیا جائے گا، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
“وان تتولوا یستبدل قومًا غیرکم ثم لا یکونوا أمثالکم۔” (محمد:۳۸)
ترجمہ:…”اور اگر تم روگردانی کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری جگہ دُوسری قوم پیدا کردے گا، پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ شانہ نے جہاں قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے، وہاں اسی حفاظتِ قرآن کے ضمن میں ان تمام علوم کی حفاظت کا بھی وعدہ ہے، جو قرآنِ کریم کے خادم ہیں، ان علومِ قرآن کی فہرست پر ایک نظر ڈالیں تو ان میں بہت سے علوم ایسے نظر آئیں گے جن کا تعلق الفاظِ قرآن سے ہے، ان علوم کا اجمالی تعارف حافظ سیوطی نے “الاتقان فی علوم القرآن” میں پیش کیا ہے، موصوف نے علومِ قرآن کو بڑی بڑی ۸۰ انواع میں تقسیم کیا ہے، اور ہر نوع کے ذیل میں متعدّد انواع درج کی ہیں، مثلاً: ایک نوع کا عنوان ہے: “بدائع القرآن” اس کے ذیل میں حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
“۵۸ویں نوع “بدائع القرآن” میں اس موضوع پر ابنِ ابی الاصبغ (عبدالعظیم بن عبدالواحد بن ظافر المعروف بابن ابی الاصبغ المصری المتوفی ۶۵۴ھ) نے مستقل کتاب لکھی ہے، اور اس میں قریباً ایک سو انواع ذکر کی ہیں۔”
(الاتقان ج:۲ ص:۸۳)
الغرض قرآنِ کریم کے مقدس الفاظ ہی ان تمام علوم کا سرچشمہ ہیں، قرآنِ کریم کے معنی و مفہوم کا سمندر بھی انہی الفاظ میں موجزن ہے، اگر خدانخواستہ اُمت کے ہاتھ سے الفاظِ قرآن کا رشتہ چھوٹ جائے تو ان تمام علوم کے سوتے خشک ہوجائیں گے اور اُمت نہ صرف کلامِ الٰہی کی لذّت و حلاوت سے محروم ہوجائے گی، بلکہ قرآنِ کریم کے علوم و معارف سے بھی تہی دامان ہوجائے گی۔
چوتھی وجہ:… کلامِ الٰہی کی تلاوت سے جو انوار و تجلیات اہلِ ایمان کو نصیب ہوتی ہیں، ان کا احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں، یہ حدیث تو آپ نے بھی سنی ہوگی کہ قرآنِ کریم کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
“جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اس کے لئے اس کے بدلے میں ایک نیکی ہے، اور ہر نیکی دس گنا ملتی ہے (پس ہر حرف پر دس نیکیاں ہوئیں)، اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہے، نہیں! بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے، اور میم ایک حرف ہے (پس الٓمٓ پڑھنے پر تیس نیکیاں ملیں)۔” (مشکوٰة ص:۱۸۶)
قرآنِ کریم کی تلاوت کے بے شمار فضائل ہیں، جو شخص تلاوتِ قرآن کے فضائل و برکات کا کچھ اندازہ کرنا چاہے، وہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی نوّر اللہ مرقدہ کے رسالہ “فضائلِ قرآن” کا مطالعہ کرے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیوں کا جو وعدہ ہے، یہ تمام اجر و ثواب اور یہ ساری فضیلت و برکت قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت پر ہی ہے، محض انگریزی، اُردو ترجمہ پڑھ لینے سے یہ اجر حاصل نہیں ہوگا۔ پس جو شخص اس اجر و ثواب، اس برکت و فضیلت اور اس نور کو حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ قرآنِ کریم کے الفاظ کی تلاوت کرے، جن سے یہ تمام وعدے وابستہ ہیں، والله الموفق لکل خیر وسعادة!
جہاں تک قرآنِ کریم کے ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کا تعلق ہے! قرآنِ کریم کا مفہوم سمجھنے کے لئے ترجمہ و تفسیر کا مطالعہ بہت اچھی بات ہے، ترجمہ خواہ اُردو میں ہو، انگریزی میں ہو، یا کسی اور زبان میں ہو، البتہ اس سلسلے میں چند اُمور کی رعایت رکھنا ضروری ہے:
اوّل:…وہ ترجمہ و تفسیر مستند ہو اور کسی محقق عالمِ ربانی کے قلم سے ہو، جس طرح شاہی فرامین کی ترجمانی کے لئے ترجمان کا لائقِ اعتماد اور ماہر ہونا شرط ہے، ورنہ وہ ترجمانی کا اہل نہیں سمجھا جاتا، اسی طرح احکم الحاکمین کی ترجمانی کے لئے بھی شرط ہے کہ ترجمہ کرنے والا دینی علوم کا ماہر، مستند اور لائقِ اعتماد ہو، آج کل بہت سے غیرمسلموں، بے دینوں اور کچے پکے لوگوں کے تراجم بھی بازار میں دستیاب ہیں، خصوصاً انگریزی زبان میں تو ایسے ترجموں کی بھرمار ہے جن میں حق تعالیٰ شانہ کے کلام کی ترجمانی کی بجائے قرآنِ کریم کے نام سے خود اپنے افکار و خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ جس شخص کے دین و دیانت پر ہمیں اعتماد نہ ہو، اس کے ترجمہ قرآن پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ اس لئے جو حضرات ترجمہ و تفسیر کے مطالعے کا شوق رکھتے ہوں، ان کا فرض ہے کہ وہ کسی لائقِ اعتماد عالم کے مشورے سے ترجمہ و تفسیر کا انتخاب کریں، اور ہر غلط سلط ترجمہ کو اُٹھاکر پڑھنا شروع نہ کردیں۔
دوم:… ترجمہ و تفسیر کی مدد سے آدمی نے جو کچھ سمجھا ہو اس کو قطعیت کے ساتھ قرآنِ کریم کی طرف منسوب نہ کیا جائے، بلکہ یہ کہا جائے کہ میں نے فلاں ترجمہ و تفسیر سے یہ مفہوم سمجھا ہے، ایسا نہ ہو کہ غلط فہمی کی وجہ سے ایک غلط بات کو قرآنِ کریم کی طرف منسوب کرنے کا وبال اس کے سر آجائے، کیونکہ منشائے الٰہی کے خلاف کوئی بات قرآنِ کریم کی طرف منسوب کرنا اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا ہے، جس کا وبال بہت ہی سخت ہے۔
سوم:… قرآنِ کریم کے بعض مقامات ایسے دقیق ہیں کہ بعض اوقات ترجمہ و تفسیر کی مدد سے بھی آدمی ان کا احاطہ نہیں کرسکتا، ایسے مقامات پر نشان لگاکر اہلِ علم سے زبانی سمجھ لیا جائے، اور اگر اس کے باوجود وہ مضمون اپنے فہم سے اُونچا ہو تو اس میں زیادہ کاوش نہ کی جائے۔
۲:…آپ دریافت فرماتے ہیں کہ: “کون سا طریقہ بہتر ہے، عربی میں قرآن شریف کی تلاوت کرنا یا اس کا انگریزی ترجمہ پڑھنا؟”
ترجمہ پڑھنے کی شرائط تو میں ابھی ذکر کرچکا ہوں، اور یہ بھی بتاچکا ہوں کہ ترجمے کا پڑھنا، قرآنِ کریم کی تلاوت کا بدل نہیں۔ اگر دو چیزیں متبادل ہوں یعنی ایک چیز دُوسری کا بدل بن سکتی ہو، وہاں تو یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کون سی چیز بہتر ہے؟ جب ترجمے کا پڑھنا، قرآنِ کریم کی تلاوت کا بدل ہی نہیں، نہ اس کی جگہ لے سکتا ہے تو یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ قرآنِ کریم کے اجر و ثواب اور انوار و تجلیات کے لئے تو مسلمانوں کو قرآن ہی کی تلاوت کرنی چاہئے، اگر معنی و مفہوم کو سمجھنے کا شوق ہو تو اس کے لئے ترجمہ و تفسیر سے بھی مدد لی جاسکتی ہے، اور اگر دونوں کو جمع کرنے کی فرصت نہ ہو تو بہتر صورت یہ ہے کہ ترجمے کے بجائے قرآنِ کریم کی تو تلاوت کرتا رہے اور دین کے مسائل اہلِ علم سے پوچھ پوچھ کر ان پر عمل کرتا رہے۔ اس صورت میں قرآنِ کریم کی تلاوت کا اجر و ثواب بھی حاصل ہوتا رہے گا، اور قرآنِ کریم کے مقاصد یعنی دینی مسائل پر عمل کرنے کی بھی توفیق ہوتی رہے گی۔ لیکن اگر تلاوت کو چھوڑ کر ترجمہ خوانی شروع کردی تو تلاوتِ قرآن سے تو یہ شخص پہلے دن ہی محروم ہوگیا، اور ظاہر ہے کہ صرف ترجمہ پڑھ کر یہ شخص قرآنِ کریم کا ماہر نہیں بن سکتا، نہ دینی مسائل اخذ کرسکتا ہے، اس طرح یہ شخص دین پر عمل کرنے کی توفیق سے بھی محروم رہے گا۔ اور یہ سراسر خسارے کا سودا ہے!
آپ نے یہ عذر لکھا ہے کہ:
“یہاں امریکہ میں زندگی بہت مصروف ہے، اور لوگوں کے پاس بہت سارے کام کرنے کا وقت نہیں، لہٰذا یہاں مسلمان مرد اور عورت کہتے ہیں کہ ہم قرآن نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ وہ وضو کرکے کسی کونے میں بیٹھ کر قرآن نہیں پڑھ سکتے جو ان کی سمجھ میں نہیں آتا۔”
آپ نے دورِ جدید کے مرد و زن کی بے پناہ مصروفیات کا جو ذکر کیا ہے، وہ بالکل صحیح ہے، اور یہ صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں، بلکہ قریباً ساری دُنیا کا مسئلہ ہے، آج کا انسان مصروفیت کی زنجیروں میں جس قدر جکڑا ہوا ہے اس سے پہلے شاید کبھی اس قدر پابندِ سلاسل نہیں رہا ہوگا۔
آپ غور کریں گے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہماری ان بے پناہ مصروفیات کے دو بڑے سبب ہیں، ایک یہ کہ آج کے مشینی دور نے خود انسان کو بھی ایک خودکار مشین بنادیا ہے، مشینوں کی ایجاد تو اس لئے ہوئی تھی کہ ان کی وجہ سے انسان کو فرصت کے لمحات میسر آسکیں گے، لیکن مشین کی برق رفتاری کا ساتھ دینے کے لئے خود انسان کو بھی مشین کا کردار ادا کرنا پڑا۔
دوم یہ کہ ہم نے بہت سی غیرضروری چیزوں کا بوجھ اپنے اُوپر لاد لیا ہے، آدمی کی بنیادی ضرورت صرف اتنی تھی کہ بھوک مٹانے کے لئے اسے پیٹ بھر کر روٹی میسر آجائے، تن ڈھانکنے کے لئے اس کو کپڑا میسر ہو، اور سردی گرمی سے بچاوٴ کے لئے جھونپڑا ہو، لیکن ہم میں سے ہر شخص قیصر و کسریٰ کے سے ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے کا متمنی ہے، اور وہ ہر چیز میں دُوسروں سے گوئے سبقت لے جانا چاہتا ہے، خواجہ عزیزالحسن مرحوم کے بقول:
یہی تجھ کو دُھن ہے رہوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی، ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یوں ہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
وہ لادین اور بے خدا قومیں جن کے سامنے آخرت کا کوئی تصوّر نہیں، جن کے نزدیک زندگی بس یہی دُنیا کی زندگی ہے، اور جن کے بارے میں قرآنِ کریم نے فرمایا ہے:
“ان الذین لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیٰوة الدنیا واطمأنوا بھا والذین ھم عن اٰیاتنا غافلون، اولٰئک مأواھم النار بما کانوا یکسبون۔” (۱۰:۷،۸)
ترجمہ:…”البتہ جو لوگ اُمید نہیں رکھتے ہمارے ملنے کی، اور خوش ہوئے دُنیا کی زندگی پر اور اسی پر مطمئن ہوگئے، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر ہیں، ایسوں کا ٹھکانا ہے آگ، بدلہ اس کا جو کماتے تھے۔” (ترجمہ حضرت شیخ الہند)
وہ اگر دُنیوی مسابقت کے مرض میں مبتلا ہوتیں اور دُنیوی کرّ و فرّ اور شان و شوکت ہی کو معراجِ کمال سمجھتیں، تو جائے تعجب نہ تھی، لیکن اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) جن کے دِل میں عقیدہٴ آخرت کا یقین ہے اور جن کے سر پر آخرت کے محاسبہ کی، وہاں کی جزا و سزا کی اور وہاں کی کامیابی و ناکامی کی تلوار ہر وقت لٹکتی رہتی ہے، ان کی یہ آخرت فراموشی بہت ہی افسوسناک بھی ہے اور حیرت افزا بھی!
ہم نے غیروں کی تقلید و نقالی میں اپنا معیارِ زندگی بلند کرنا شروع کردیا، ہمارے سامنے ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشِ زندگی موجود تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نمونے موجود تھے، اکابر اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین کی مثالیں موجود تھیں، مگر ہم نے ان کی طرف آنکھ اُٹھاکر دیکھنا بھی پسند نہ کیا، بلکہ اس کی دعوت دینے والوں کو احمق و کودن سمجھا، اور معیارِ زندگی بلند کرنے کے شوق میں زندگی کی گاڑی پر اتنا نمائشی سامان لاد لیا کہ اب اس کا کھینچنا محال ہوگیا، گھر کے سارے مرد و زن، چھوٹے بڑے اس بوجھ کے کھینچنے میں دن رات ہلکان ہو رہے ہیں، رات کی نیند اور دن کا سکون غارت ہوکر رہ گیا ہے، ہمارے اعصاب جواب دے رہے ہیں، نفسیاتی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، علاج معالجے میں ۷۵ فیصد مسکن دوائیاں استعمال ہو رہی ہیں، خواب آور دوائیں خوراک کی طرح کھائی جارہی ہیں، ناگہانی اموات کی شرح حیرت ناک حد تک بڑھ رہی ہے، لیکن کسی بندہٴ خدا کو یہ عقل نہیں آتی کہ ہم نے نمود و نمائش کا یہ بارِ گراں آخر کس مقصد کے لئے لاد رکھا ہے؟ نہ یہی خیال آتا ہے کہ اگر موت اور موت کے بعد کی زندگی برحق ہے، اگر قبر کا سوال و جواب اور ثواب و عذاب برحق ہے، اگر حشر و نشر، قیامت کے دن کی ہولناکیاں اور جنت و دوزخ برحق ہیں، تو ہم نمود و نمائش کا جو بوجھ لادے پھر رہے ہیں، اور جس کی وجہ سے اب چشم بددُور ہمیں قرآنِ کریم کی تلاوت کی بھی فرصت نہیں رہی، یہ قبر و حشر میں ہمارے کس کام آئے گا؟
“سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا!”
کا تماشا شب و روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، نمود و نمائش اور بلند معیارِ زندگی کے خبطی مریضوں کو ہم خالی ہاتھ جاتے ہوئے دن رات دیکھتے ہیں، لیکن ہماری چشمِ عبرت وا نہیں ہوتی۔
ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ آدمی جب مرتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ: اس نے آگے کیا بھیجا؟ اور لوگ کہتے ہیں کہ: اس نے پیچھے کیا چھوڑا؟
(مشکوٰة ص:۴۴۵)
اب جب ہمارا انتقال ہوگا، جب ہمیں قبر کے تاریک خلوت خانے میں رکھ دیا جائے گا اور فرشتے پوچھیں گے کہ: یہاں کے اندھیرے کی روشنی قرآنِ کریم کی تلاوت ہے، یہاں کی تاریکی دُور کرنے کے لئے تم کیا لائے ہو؟ تو وہاں کہہ دیجئے گا کہ ہماری زندگی بڑی مصروف تھی، اتنا وقت کہاں تھا کہ وضو کرکے ایک کونے میں بیٹھ کر قرآنِ کریم پڑھیں۔
اور جب میدانِ حشر میں بارگاہِ خداوندی میں سوال ہوگا کہ جنت کی قیمت ادا کرنے کے لئے کیا لائے؟ تو وہاں کہہ دیجئے کہ میں نے بڑی سے بڑی ڈگریاں حاصل کی تھیں، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اتنے بڑے عہدوں پر فائز تھا، میں نے فلاں فلاں چیزوں میں نام پیدا کیا تھا، بہترین سوٹ زیبِ تن کرتا تھا، شاندار بنگلے میں رہتا تھا، کاریں تھیں، بینک بیلنس تھا، میرے پاس اتنی فرصت کہاں تھی کہ آخرت کی تیاری کروں، پانچ وقت مسجد میں جایا کروں، روزانہ کم سے کم ایک پارہ قرآنِ کریم کی تلاوت کیا کروں، تسبیحات پڑھوں، دُرود شریف پڑھوں، خود دین کی محنت میں لگوں اور اپنی اولاد کو قرآن مجید حفظ کراوٴں․․․․․؟ مجھے بتائیے! کہ کیا مرنے کے بعد بھی قبر اور حشر میں بھی ہم اور آپ یہی جواب دیں گے کہ: جناب! امریکی مردوں اور عورتوں کے پاس اتنی فرصت کہاں تھی کہ باوضو ایک کونے میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کیا کریں؟ نہیں․․․! وہاں یہ جواب نہیں ہوگا، وہاں وہ جواب ہوگا جو قرآنِ کریم نے نقل کیا ہے:
“أن تقول نفس یٰحسرتٰی علیٰ ما فرّطت فی جنب الله وان کنت لمن الساخرین۔” (الزمر:۵۶)
ترجمہ:…”کبھی (کل قیامت کو) کوئی شخص کہنے لگے کہ: افسوس میری اس کوتاہی پر جو میں نے خدا کی جناب میں کی ہے، اور میں تو (اَحکامِ خداوندی پر) ہنستا ہی رہا۔”
(ترجمہ حضرت تھانوی)
جب مرنے کے بعد ہمارا جواب وہ ہوگا جو قرآنِ کریم نے نقل کیا ہے تو یہاں یہ عذر کرنا کہ فرصت نہیں، محض فریبِ نفس نہیں تو اور کیا ہے․․․؟
حدیث شریف میں ہے:
“الکیس من دان نفسہ وعمل لما بعد الموت، والعاجز من اتبع نفسہ ھواہا وتمنی علی الله۔”
(مشکوٰة ص:۴۵۱)
ترجمہ:…”دانشمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو رام کرلیا اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے محنت کی، اور احمق ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگادیا اور اللہ تعالیٰ پر آرزوئیں دھرتا رہا۔”
ان تمام اُمور سے بھی قطعِ نظر کرلیجئے! ہماری مصروف زندگی میں ہمارے پاس اور بہت سی چیزوں کے لئے وقت ہے، ہم اخبار پڑھتے ہیں، ریڈیو، ٹیلیویژن دیکھتے ہیں، دوست احباب کے ساتھ گپ شپ کرتے، سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں، تقریبات میں شرکت کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے لئے ہمارے پاس فالتو وقت ہے، اور ان موقعوں پر ہمیں کبھی عدیم الفرصتی کا عذر پیش نہیں آتا، لیکن جب نماز، روزہ، ذکر و اذکار اور تلاوتِ قرآن کا سوال سامنے آئے تو ہم فوراً عدیم الفرصتی کی شکایت کا دفتر کھول بیٹھتے ہیں۔
امریکہ اور دیگر بہت سے ممالک میں ہفتے میں دو دن کی تعطیل ہوتی ہے، ہفتے کے ان دو دنوں کے مشاغل کا نظام ہم پہلے سے مرتب کرلیتے ہیں، اور اگر کوئی کام نہ ہو تب بھی وقت پاس کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور تجویز کرلیا جاتا ہے، لیکن تلاوتِ قرآن کی فرصت ہمیں چھٹی کے ان دو دنوں میں بھی نہیں ہوتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ فرصت نہ ہونے کا عذر محض نفس کا دھوکا ہے، اس کا اصل سبب یہ ہے کہ دُنیا ہماری نظر کے سامنے ہے، اس لئے ہم اس کے مشاغل میں منہمک رہتے ہیں، موت اور آخرت کا دھیان نہیں، اس لئے موت کے بعد کی طویل زندگی سے غفلت ہے، نہ اس کی تیاری ہے، اور نہ تیاری کا فکر و اہتمام۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ عذر تراشی کے بجائے اس مرضِ غفلت کا علاج کیا جائے، قیامت کے دن یہ عذر نہیں چلے گا کہ پاکستانی یا امریکی مردوں، عورتوں کو مصروفیت بہت تھی، ان کو ذکر و تلاوت کی فرصت کہاں تھی؟
۳:… آپ نے لکھا ہے کہ:
“کافر مذاق اُڑاتے ہیں کہ صرف ایک قرآن پڑھنے کے لئے کتنے کام کرنے پڑتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ وہ ایک مقدس کتاب ہے، لیکن بائبل بھی مقدس کتاب ہے، اور ہم وہ کتاب کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں، ہم زیادہ تر رات کو سوتے وقت بستر میں پڑھ سکتے ہیں، کیا قرآن بھی اس طریقہ سے پڑھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیا وجہ ہے؟”
آپ نے کافروں کے مذاق اُڑانے کا جو ذکر کیا ہے، اس پر آپ کو ایک لطیفہ سنتا ہوں، کہتے ہیں کہ ایک ناک والا شخص نکٹوں کے دیس چلا گیا، وہ “نکو آیا! نکو آیا” کہہ کر اس کا مذاق اُڑانے لگے، چونکہ یہ پورا ملک نکٹوں کا تھا، اس لئے اس غریب کی زندگی دُوبھر ہوگئی اور اسے اپنی ناک سے شرم آنے لگی، وہیں سے ہمارے یہاں “نکو بنانے” کا محاورہ رائج ہوا۔ آپ کی مشکل یہ ہے کہ آپ نکٹوں کے دیس میں رہتے ہیں، اس لئے آپ کو اپنی ناک سے شرم آنے لگی ہے، اگر آپ کو یہ احساس ہوتا کہ عیب آپ کی ناک کا نہیں، بلکہ ان نکٹوں کی ناک کے غائب ہونے کا ہے، تو آپ کو ان کے مذاق اُڑانے سے شرمندگی نہ ہوتی۔
جس بائبل کو وہ مقدس کلام کہتے ہیں، وہ کلامِ الٰہی نہیں، بلکہ انسانوں کے ہاتھوں کی تصنیفات ہیں، مثلاً: “عہدنامہ جدید” میں “متی کی انجیل”، “مرقس کی انجیل”، “لوقا کی انجیل”، “یوحنا کی انجیل” کے نام سے جو کتابیں شامل ہیں، یہ وہ کلامِ الٰہی نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے نازل ہوا تھا، بلکہ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چار سوانح عمریاں ہیں، جو مختلف اوقات میں ان چار حضرات نے تصنیف فرمائی تھیں۔ لطف یہ ہے کہ ان کی تصنیف کا اصل نسخہ بھی کہیں دُنیا میں موجود نہیں، ان بے چاروں کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ محض ترجمہ ہی ترجمہ ہے، اصل متن غائب ہے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن ترجموں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ۱۸۸۰ء میں جو نسخہ شائع ہوا تھا اس کا مقابلہ ۱۹۸۰ء کے نسخے سے کرکے دیکھئے، دونوں کا فرق کھل کر سامنے آجائے گا۔
ان چار انجیلوں کے بعد اس مجموعے میں “رسولوں کے اعمال” کی کتاب شامل ہے، یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے حالات پر مشتمل ہے، اس کے بعد چودہ خطوط جناب پولوس کے ہیں، جو انہوں نے مختلف شہروں کے باشندوں کو لکھتے تھے، اس کے بعد یعقوب، پطرس، یوحنا اور یہودا کے خطوط ہیں، اور آخر میں یوحنا عارف کا مکاشفہ ہے۔ اب غور فرمائیے! کہ اس مجموعے میں وہ کون سی چیز ہے جس کے ایک ایک حرف کو کلامِ الٰہی کہا جائے؟ اور وہ ٹھیک اسی زبان میں محفوظ ہو جس زبان میں وہ نازل ہوا تھا؟ ان حضرات نے انسانوں کی لکھی ہوئی تحریروں کو کلامِ مقدس کا نام دے رکھا ہے، مگر چونکہ وہ کلامِ الٰہی نہیں ہیں، اس لئے وہ واقعی اس لائق ہیں کہ ان کو بغیر طہارت کے لیٹ کر پڑھا جائے، لیکن آپ کے ہاتھ میں وہ کلامِ الٰہی ہے جس کے ایک حرف میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، اور وہ آج ٹھیک اسی طرح تروتازہ حالت میں موجود ہے، جس طرح کہ وہ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا، اس نکتے پر دُنیا کے تمام اہلِ عقل متفق ہیں کہ یہ ٹھیک وہی کلام ہے جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلامِ الٰہی کی حیثیت سے دُنیا کے سامنے پیش کیا تھا، اور اس میں ایک حرف کا بھی تغیر و تبدل نہیں ہوا، چنانچہ انگریزی دور میں صوبہ متحدہ کے لیفٹیننٹ گورنر سر ولیم میور، اپنی کتاب “لائف آف محمد” (صلی اللہ علیہ وسلم) میں لکھتے ہیں:
“یہ بالکل صحیح اور کامل قرآن ہے، اور اس میں ایک حرف کی بھی تحریف نہیں ہوئی، ہم ایک بڑی مضبوط بنا پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ قرآن کی ہر آیت خالص اور غیرمتغیر صورت میں ہے۔ اور آخرکار ہم اپنی بحث کو “ون ہیم” صاحب کے فیصلے پر ختم کرتے ہیں، وہ فیصلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جو قرآن ہے، ہم کامل طور پر اس میں ہر لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سمجھتے ہیں، جیسا کہ مسلمان اس کے ہر لفظ کو خدا کا لفظ خیال کرتے ہیں۔”
(مأخوذ از تنبیہ الحائرین ص:۴۱، از مولانا عبدالشکور لکھنوی)
الغرض مسلمانوں کے پاس الحمدللہ کلامِ الٰہی عین اصل حالت میں اور انہی الفاظ میں موجود ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے تھے، اس لئے مسلمان جس ادب و تعظیم کے ساتھ کلامُ اللہ کی تلاوت کریں بجا ہے، ایک بزرگ مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمالِ بے ادبی ست
ترجمہ:…”آپ کا پاک نام اس قدر مقدس ہے کہ میں اگر ہزار مرتبہ منہ کو مشک و گلاب کے ساتھ دھووٴں تب بھی آپ کا نام لینا بے ادبی ہے۔”
اس لئے اگر کافر آپ کو طعنہ دیتے ہیں تو ان کے طعنے کی کوئی پروا نہ کیجئے، ان کے یہاں طہارت کا کوئی تصوّر ہی نہیں، وہ ظاہری ٹیپ ٹاپ اور صفائی کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں، مگر نہ انہیں کبھی پانی سے استنجا کرنے اور گندگی کی جگہ کو پاک کرنے کی توفیق ہوئی ہے، اور نہ انہوں نے کبھی غسلِ جنابت کیا۔ جب طہارت، وضو اور غسل ان کے مذہب ہی میں نہیں تو باوضو ہوکر وہ اپنی کتاب کو کیسے پڑھیں گے؟ یہ اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کی خصوصیت ہے کہ ان کو قدم قدم پر پاک اور باوضو رہنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور یہ اس اُمت کا وہ امتیازی وصف ہے جس کے ساتھ قیامت کے دن اس اُمت کی شناخت ہوگی کہ جن اعضاء کو وضو میں دھویا جاتا ہے وہ قیامت کے دن چمک رہے ہوں گے۔ کتابُ اللہ نور ہے، اور وضو بھی نور ہے، اس لئے کتابُ اللہ کا ادب یہی ہے کہ اس کو باوضو اور باادب پڑھا جائے، تاہم اگر کسی کو قرآنِ کریم کی کچھ آیات یا سورتیں زبانی یاد ہوں، ان کو بے وضو بھی پڑھنا جائز ہے، اور بستر پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ البتہ اگر غسل فرض ہو تو غسل کئے بغیر قرآنِ کریم کی تلاوت زبانی بھی جائز نہیں۔ اسی طرح حیض و نفاس کی حالت میں بھی عورت تلاوت نہیں کرسکتی، اور اگر آدمی کو غسل کی حاجت تو نہ ہو لیکن وضو کا موقع نہ ہو، تو یہ بھی جائز ہے کہ قرآن مجید کے اوراق کسی کپڑے وغیرہ سے اُلٹتا رہے اور دیکھ کر تلاوت کرتا رہے۔ الغرض بڑی ناپاکی کی حالت میں تو قرآنِ کریم کی تلاوت جائز نہیں، لیکن وضو نہ ہونے کی حالت میں تلاوت جائز ہے، البتہ قرآنِ کریم کو بے پردہ ہاتھ لگانا، بے وضو جائز نہیں۔
چلتے پھرتے قرآن کی تلاوت اور دُرود شریف پڑھنا اچھا ہے
س… میں روزانہ بازار میں چلتے پھرتے قرآن مجید کی سورتیں جو مجھ کو یاد ہیں پڑھا کرتا ہوں، اور ایک ایک سورة کو دو دو، تین تین مرتبہ پڑھا کرتا ہوں، اور اس کے بعد دُرود شریف بھی بازار میں چلتے پھرتے پڑھا کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں دو باتیں بتادیں ایک تو یہ کہ میرا یہ عمل ٹھیک ہے؟ اور اس میں بے ادبی کا کوئی احتمال تو نہیں ہے؟ دُوسرے یہ کہ میرا اس طرح پڑھنا کہیں اوراد و وظائف میں شمار تو نہیں ہوتا؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اکثر اوراد و وظائف پڑھنے سے وظیفوں کی رجعت بھی ہوجاتی ہے، جس سے انسان کو نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
ج… بازار میں چلتے پھرتے قرآنِ کریم کی سورتیں، دُرود شریف یا دُوسرے ذکر و اذکار پڑھنے کا کوئی مضائقہ نہیں، بلکہ حدیثِ پاک میں بازار میں گزرتے ہوئے چوتھا کلمہ پڑھنے کی فضیلت آئی ہے، اور یہ آپ کو کسی نے غلط کہا کہ اس سے نقصان بھی ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ کا نام لینے میں کیا نقصان؟ ہاں! کسی خاص مقصد کے لئے ورد و وظیفہ کرنا ہو تو کسی سے پوچھے بغیر نہیں کرنا چاہئے۔
ختمِ قرآن کی دعوت بدعت نہیں
س… کیا ختمِ قرآن کی خوشی پر دعوت بدعت ہے؟
ج… بدعت نہیں، بلکہ جائز ہے۔
ختمِ قرآن میں شیرینی کا تقسیم کرنا
س… رمضان المبارک کی ۲۳ویں شب کو مسجد میں بعد از تراویح امامِ مسجد کا سورہٴ عنکبوت اور سورہٴ رُوم پڑھنا، مقتدیوں کا سننا اور مقتدیوں کی لائی ہوئی شیرینی بچوں اور بڑوں میں تقسیم کرنے کا کوئی ثبوت ہے؟
ج… ختمِ قرآنِ کریم کی خوشی میں دعوت، ضیافت اور شیرینی وغیرہ تقسیم کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی اور خرابی نہ پائی جائے، لیکن آج کل جس طرح ختمِ قرآن پر شیرینی تقسیم کرنے کا رواج ہے، یہ جائز نہیں۔ باقی سورہٴ عنکبوت اور سورہٴ رُوم پڑھنا منقول نہیں۔
ختمِ قرآن پر دعوت کرنا جائز ہے اور تحفتاً کچھ دینا بھی جائز ہے
س… ہمارے معاشرے میں جب بچہ قرآن ختم کرتا ہے تو آمین کرائی جاتی ہے، جس میں رشتہ داروں کو کھانا کھلایا جاتا ہے، اور ختم کروانے والے کو تحفتاً کچھ دیا جاتا ہے، کیا یہ اسلام میں جائز ہے؟ کیونکہ اس میں ریاکاری کا پہلو بھی آتا ہے۔
ج… ختمِ قرآن کی خوشی میں کھانا کھلانے کا کوئی حرج نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب سورة البقرہ ختم کی تھی تو اُونٹ ذبح کیا تھا، اسی طرح اگر محبت کی بنا پر بچے کو کوئی ہدیہ یا تحفہ دے دیا جائے، اس کا بھی مضائقہ نہیں۔ لیکن ہمارے یہاں اکثر تکلّفات خلافِ شرع کئے جاتے ہیں، اور ان میں اِخلاص و محبت کے بجائے ریاکاری اور رسم پرستی کا پہلو ہی نمایاں ہوتا ہے۔
ایک دن میں قرآن ختم کرنا
س… ایک عورت یہاں پر تبلیغ کرتی ہے، وہ کہتی ہے کہ آپ لوگ جو عورتیں ایک ساتھ مل کر ختم پڑھتی ہیں وہ ناجائز ہے، کیونکہ ایک دن میں پورا قرآن ختم کرنا منع ہے، ایک قرآن کم از کم تین دن میں ختم کرنا چاہئے۔ اس پر میں نے پوچھا کہ خالق دیناہال یا دُوسری جگہ تراویح میں ایک رات میں پورا ختم کیا گیا، اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا کہ: یہ لوگ بھی سخت گناہگار ہیں۔ برائے مہربانی صحیح صورتِ حال سے ہم کو آگاہ کریں۔
ج… حدیث میں تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم کرنے کی ممانعت آئی ہے، کیونکہ اس صورت میں تدبر و تفکر نہیں ہوسکتا، مطلقاً ممنوع نہیں، کیونکہ بہت سے سلف سے ایک رات میں قرآنِ کریم ختم کرنا بھی منقول ہے۔ عورتیں جہاں مل کر قرآنِ کریم ختم کرتی ہیں، اس میں دُوسری خرابیاں ہوسکتی ہیں، مثلاً: عورتوں کا بن ٹھن کر آنا، صحیح تلاوت نہ کرنا، تلاوت کے دوران دُنیا بھر کی باتیں نمٹانا، وغیرہ، وغیرہ۔ تاہم اگر چند آدمی مل کر ختم کریں تو حدیث کی ممانعت کے تحت داخل نہیں، کیونکہ حدیث میں ایک آدمی کے تین دن سے پہلے ختم کرنے کو منع فرمایا ہے نہ کہ چند آدمیوں کے ختم کرنے کو۔ اور آپ نے جو خالق دیناہال میں تراویح کا حوالہ دیا ہے، یہ بھی صحیح نہیں، تراویح میں ایک رات میں جو قرآنِ کریم ختم کیا جاتا ہے وہ اتنی تیزی سے پڑھا جاتا ہے کہ الفاظ صحیح طور پر سمجھ میں نہیں آتے، اس طرح پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے۔
شبینہ قرآن جائز ہے یا ناجائز؟
س… ہمارے قرب و جوار میں چند حفاظ نے جمع ہوکر یہ پروگرام بنایا ہے کہ وہ ہر ماہ میں ایک شب شبینہ کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سال بھر میں قرآنِ پاک سے تعلق رکھنے کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں تاکہ قرآن ضبط بھی رہ سکے، اور محبت بھی برقرار رہ سکے۔ اس میں کچھ غیرحافظ لوگ بھی ذوق و شوق سے شرکت کرتے ہیں، واضح رہے کہ ان کے لئے کوئی چندہ نہیں کیا جاتا ، نہ ہی حافظ کچھ لیتے ہیں، اور نہ ہی کسی کو زبردستی قرآن سننے پر مجبور کیا جاتا ہے، اعلان یہی ہوتا ہے کہ جو صاحب چاہیں اور جس قدر چاہیں شبینہ قرآن میں شرکت کرسکتے ہیں۔ ایسی محفل میں قرآن سنانے یا سننے کے لئے شرکت کرنا قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم رکھتا ہے؟
ج… حضراتِ فقہاء نے تین سے زیادہ افراد کا جماعت کے ساتھ نوافل پڑھنا مکروہ لکھا ہے، پس اگر امام تراویح پڑھائے تو یہ شبینہ صحیح ہے، اور اگر امام نفل کی جماعت کراتا ہے تو یہ شبینہ جائز نہیں۔
۲۷ویں شب رمضان کو شبینہ اور لائٹنگ کرنا کیسا ہے؟
س… ۲۷ویں شب کو شبینہ اور لائٹنگ کرنا کیسا ہے؟
ج… شبینہ جائز ہے، بشرطیکہ مفاسد سے خالی ہو، ورنہ صحیح نہیں، بے ضرورت روشنی کرنا کوئی مستحسن بات نہیں۔
ریڈیو کے دینی پروگرام چھوڑ کر گانے سننا
س… میرے گھر میں ریڈیو ہے، مجھے نغمے سننے کا بہت شوق ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ریڈیو اسٹیشن سے تلاوتِ کلامِ پاک یا کوئی مذہبی پروگرام نشر ہو رہا ہوتا ہے، تو دُوسرے اسٹیشن سے میرے پسندیدہ گانے نشر ہو رہے ہوتے ہیں، میں بالآخر تمام مذہبی پروگراموں کو چھوڑ کر گانے سننے لگتا ہوں، کیا یہ جائز ہے؟
ج… خود آپ کا ضمیر کیا اسے جائز کہتا ہے؟ گانے سننا بجائے خود حرام ہے، تلاوت بند کرکے گانے سننا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟
تلاوتِ کلامِ پاک اور گانے ریڈیو یا کیسٹ سے سننا
س… اگر تلاوتِ کلامِ پاک کو کیسٹ یا ریڈیو سے سنا جائے تو اس کا ثواب حاصل نہیں ہوتا، تو اس اُصول کے مطابق موسیقی اگر ریڈیو یا کیسٹ میں سنی جائے تو اس کا گناہ بھی نہ ہونا چاہئے!
ج… گانے کی آواز سننا حرام ہے، اس کا گناہ ہوگا۔ تلاوت کی آواز تلاوت نہیں اس لئے تلاوت سننے کا ثواب نہیں ہوگا، البتہ اگر آپ قرآنِ کریم کے صحیح تلفظ کو سیکھنے کے لئے سنتے ہیں تو اس کا اجر ضرور ملے گا۔
کیا ٹیپ ریکارڈ پر تلاوت ناجائز ہے؟
س… آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ ٹیپ پر تلاوت کرنے سے تلاوت کا ثواب نہیں ملتا، اور نہ اس کے سننے سے تلاوت کا سجدہ واجب ہوتا ہے، تو گزارش ہے کہ اس زمانے میں تو ٹیپ ریکارڈ نہیں تھا، اس لئے قرآن و سنت سے اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ملتی، لیکن آج کل کے دور میں تو یہ ایک آلہ ہے جس کو استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ جہاد میں ہوائی جہاز اور ٹینک وغیرہ، قرآن و سنت کی روشنی میں وجوہات درج کیجئے۔
ج… ٹیپ پر تلاوت کو ناجائز تو میں نے بھی نہیں کہا، مگر سجدہٴ تلاوت واجب ہونے کے لئے تلاوتِ صحیحہ شرط ہے، اور ٹیپ سے جو آواز نکلتی ہے وہ عقلاً و شرعاً صحیح نہیں، اس لئے اس پر تلاوت کے اَحکام بھی جاری نہیں ہوں گے۔
ٹیپ ریکارڈ پر صحیح تلاوت و ترجمہ سننا موجبِ برکت ہے
س… میں قرآنِ کریم کے مکمل کیسٹ خریدنا چاہتا ہوں جو باترجمہ ہیں، پوچھنا یہ ہے کہ ٹیپ ریکارڈ پر تلاوت و ترجمہ سننا کیسا ہے؟ ثواب ہوتا ہے کہ نہیں؟ آپ سے مشورہ لینا ہے کہ “قرآن کیسٹ سیٹ” لوں یا نہ لوں۔
ج… اب یہ تو آپ نے لکھا نہیں کہ کیسٹ پر کس کی تلاوت اور ترجمہ ہے؟ ترجمہ و تلاوت اگر صحیح ہیں تو ان کے خریدنے میں کوئی حرج نہیں، تلاوت سننے کا ثواب تو نہیں ہوگا، بہرحال قرآنِ کریم کی آواز سننا موجبِ برکت ہے۔
تلاوت کی کیسٹ سننی کافی ہے یا خود بھی تلاوت کرنی چاہئے؟
س… میرا ایک دوست ہے جو خود قرآن شریف نہیں پڑھتا بلکہ ٹیپ ریکارڈ کی کیسٹ کے ذریعہ روز قرآن شریف سنتا ہے، حالانکہ میری اس سے بحث ہوئی تو کہنے لگا کہ قرآن شریف پڑھنا کوئی ضروری نہیں، مسلمان صرف سن کر بھی عمل کرسکتا ہے۔ یہ اُلجھن میرے ذہن میں گھومتی رہی اس کو دُور کرنے کے لئے ایک مولوی صاحب سے ملا، انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ خود پڑھنے اور سننے کا ثواب ایک ہی ہے۔ اب میرے ذہن میں بات نہیں آتی کہ جب ایک مسلمان خود قرآن شریف پڑھا ہوا ہے تو خود کیوں نہیں تلاوت کرتا ہے؟ آپ بتائیے اور میری اُلجھن دُور کریں کہ کیا قرآنِ پاک صرف دُوسروں کی زبان سے سننا چاہئے اور خود تلاوت نہ کی جائے؟ جبکہ وہ خود لکھا پڑھا ہو، آخر کیوں؟
ج… قرآن مجید کے بہت سے حقوق ہیں، ایک حق اس کی تلاوت کرنا بھی ہے، اور اس کے اَحکام کا سننا اور ان پر عمل کرنا بھی اس کا حق ہے، اسی طرح بقدرِ ہمت اس کو حفظ کرنا بھی اس کا حق ہے، ان تمام حقوق کو ادا کرنا چاہئے۔ البتہ قرآن مجید پڑھنا، قرآن مجید سننے سے زیادہ افضل ہے۔ اور ٹیپ ریکارڈ کی تلاوت کو اکثر علماء نے تلاوت میں شمار نہیں کیا ہے۔
ٹیپ ریکارڈ کی تلاوت کا ثواب نہیں، تو پھر گانوں کا گناہ کیوں؟
س… روزنامہ جنگ میں ہر ہفتہ آپ کا کالم تقریباً باقاعدگی سے پڑھتا رہا ہوں، اس میں بعض اوقات آپ کے جواب متعلقہ مسئلہ کے مزید اُلجھاوٴ کا باعث بن جاتے ہیں، اور کبھی کبھی جواب وضاحت طلب رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے سائل ہی نہیں، بلکہ دُوسرے قارئین کی اُلجھن دُور نہیں ہوپاتی۔ مثال کے طور پر آپ نے فرمایا ہے کہ ٹیپ ریکارڈ کی تلاوت واقعتا تلاوت نہیں ہے، اس سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوگا، نہ تلاوت کا ثواب ملے گا۔ اگر یہ واقعتا تلاوت نہیں ہے تو پھر ریڈیو اور ٹیلیویژن سے تلاوت کا جواز ختم ہوجائے گا، یہی نہیں جب اس کا ثواب بھی نہیں ہے تو پھر ٹیپ ریکارڈ سے فحش گانے سننا بھی باعثِ عذاب نہیں ہوگا، اور پھر فلمیں دیکھنے سے بھی کیا بُرائی پیدا ہوسکتی ہے؟ دُوسری بات سجدہٴ تلاوت کی ہے، تو یہ ناچیز یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیت کسی بھی ذریعہ سے کسی مسلمان کے کان تک پہنچے یا وہ خود تلاوت کرے اس پر سجدہٴ تلاوت واجب ہوجائے گا۔ یہ آپ کی بات تسلیم کرلی جائے تو پھر عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں دُور دُور تک صف بند نمازی جو نماز ادا کرتے یا رُکوع و سجود پیش امام کے ساتھ کرتے ہیں، وہ بھی بے معنی ہوکر رہ جائے گا، اس لئے کہ ان نمازوں میں خصوصاً لاوٴڈ اسپیکر کا استعمال عام ہے۔ ہاں! ٹیپ ریکارڈر پر تلاوت سے نماز ادا نہ کرنے کا جواز تو ہے اس لئے کہ باجماعت نماز کے لئے پیش امام کا ہونا لازم ہے، لیکن سجدہٴ تلاوت کا واجب نہ ہونا اور اس کی سماعت کا کسی ثواب کا باعث نہ ہونا عقل و فہم سے بعید باتیں ہیں۔
ج… جناب کی نصیحتیں بڑی قیمتی ہیں، میں دِل سے ان کی قدر کرتا ہوں، اور ان پر جناب کا شکرگزار ہوں۔ یہ ناکارہ اپنے محدود علم کے مطابق مسائل حزم و احتیاط سے لکھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر قلتِ علم اور قلتِ فہم کی بنا پر کبھی جواب میں غلطی یا لغزش کا ہوجانا غیرمتوقع نہیں، اس لئے اہلِ علم سے بار بار اِلتجا کرتا ہے کہ کسی مسئلے میں لغزش ہوجائے تو ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ اس کی اصلاح ہوجائے۔
۱:… اس تمہید کے بعد گزارش ہے کہ آنجناب کی نصیحت کے مطابق اس مسئلہ میں دُوسرے اہلِ علم سے بھی رُجوع کیا، ان کی رائے بھی یہی ہے کہ ٹیپ ریکارڈر پر تلاوت سننے سے سجدہٴ تلاوت لازمی نہیں آتا، پاکستان کے مفتیٴ اعظم مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ “آلاتِ جدیدہ” میں تحریر فرماتے ہیں:
“ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ جو آیتِ سجدہ سنی جائے اس کا وہی حکم ہے جو گراموفون کے ریکارڈ کا ہے کہ اس کے سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوتا، کیونکہ سجدہٴ تلاوت کے وجوب کے لئے تلاوتِ صحیحہ شرط ہے، اور آلہ بے جان بے شعور سے تلاوت متصوّر نہیں۔” (ص:۲۰۷)
۲:… جناب کا یہ شبہ صحیح نہیں کہ: “اگر یہ تلاوت نہیں تو ریڈیو اور ٹیلیویژن سے تلاوت کا جواز ختم ہوجائے گا۔” ریڈیو پر جو تلاوت نشر ہوتی ہے، وہ عموماً پہلے ریکارڈ کرلی جاتی ہے، بعد میں نشر کی جاتی ہے، اس لئے اس کا حکم وہی ہے جو ٹیپ ریکارڈ کی آواز کا ہے کہ وہ تلاوتِ صحیحہ نہیں، مگر ریکارڈ کرانا جائز ہے۔ حضرت مفتی صاحب “آلاتِ جدیدہ” میں لکھتے ہیں: “اس مشین پر تلاوتِ قرآنِ پاک اور دُوسرے مضامین کا پڑھنا اور اس میں محفوظ کرانا جائز ہے۔” (حوالہ بالا) پس اس کے تلاوتِ صحیحہ نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر تلاوت کرنا ہی ناجائز ہوجائے۔ البتہ کسی اور سبب سے ممانعت ہو تو دُوسری بات ہے، مثلاً: ٹیلیویژن پر تصویر بھی آتی ہے، اور یہ شرعاً حرام ہے، اور جو چیز حرام اور ملعون ہو اس کو قرآن مجید کے لئے استعمال کرنا بھی حرام ہے، اور ریڈیو کا استعمال اکثر گانے بجانے کے لئے ہوتا ہے، اس لئے بعض اہلِ علم نے اس پر تلاوت کو بے ادبی قرار دیا ہے، اور اس کی مثال ایسی ہے کہ جو برتن نجاست کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس میں کھانا کھاتے ہوئے ایک سلیم الفطرت شخص کو گھن آئے گی، چنانچہ حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:
“اگرچہ ریڈیو کے استعمال کرنے والوں کی بدمذاقی نے زیادہ تر گانے بجانے اور بدمذاقی میں لگا رکھا ہے، اسی وجہ سے بعض علماء نے اس پر تلاوتِ قرآن کو دُرست نہیں سمجھا، لیکن دُوسرے مفید مضامین کی بھی اس میں خاصی اہمیت پائی جاتی ہے، اس لئے یہ صحیح ہے کہ اس کو آلاتِ لہو و طرب کے حکم میں داخل نہیں کیا جاسکتا، اور ریڈیو کی جس مجلس میں تلاوت ہوتی ہے، وہ مجلس بھی لہو و لعب اور لغو باتوں سے الگ ہوتی ہے۔” (ص:۱۶۲)
۳:… جناب کا یہ شبہ بھی سمجھ میں نہیں آیا کہ اگر ٹیپ ریکارڈر کی تلاوت، تلاوتِ صحیحہ نہیں، نہ اس سے تلاوت سننے کا ثواب ہے، تو گانے سننے کا گناہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ تلاوت کے خاص شرعی اَحکام ہیں، جو تلاوتِ صحیحہ پر مرتب ہوتے ہیں، ٹیپ ریکارڈ کی آواز تلاوتِ صحیحہ نہیں، محض تلاوت کی آواز ہے، چنانچہ اگر اذان ٹیپ کرلی جائے تو موٴذّن کی جگہ پانچوں وقت ٹیپ ریکارڈ بجادینے سے گو اذان کی آواز تو آئے گی، لیکن اس کو اذان نہیں کہا جائے گا، نہ اس سے اذان کی سنت ادا ہوگی، اسی طرح ٹیپ کی ہوئی تلاوت بھی تلاوت کے قائم مقام نہیں۔ لیکن شریعت نے گانے کی آواز سننے کو مطلقاً حرام قرار دیا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ:
“دو آوازیں ایسی ہیں کہ دُنیا و آخرت میں ملعون ہیں، ایک خوشی کے موقع پر باجے تاشے کی آواز، دُوسری مصیبت کے موقع پر نوحے کی آواز۔” (جامع صغیر)
اس لئے گانے کی آواز خواہ کسی ذریعے سے بھی سنی جائے اس کا سننا حرام ہے، لہٰذا تلاوت پر گانے کی آواز کو قیاس کرنا صحیح نہیں۔
۴:… اور جناب کا یہ ارشاد ہے کہ: “قرآن مجید کی آیتِ سجدہ خواہ کسی بھی ذریعے سے کسی مسلمان کے کانوں تک پہنچے یا وہ خود تلاوت کرے، اس پر سجدہٴ تلاوت واجب ہوجائے گا۔” تلاوتِ صحیحہ کی حد تک تو صحیح ہے، مطلقاً صحیح نہیں، مثلاً: کسی سوئے ہوئے شخص نے آیتِ سجدہ تلاوت کی، نہ اس پر سجدہ واجب ہے، نہ اس کے سننے والے پر، کیونکہ سونے والے کی تلاوت، تلاوتِ صحیحہ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی پرندے کو آیتِ سجدہ رٹادی گئی تو اس کے پڑھنے سے بھی سننے والوں پر سجدہٴ تلاوت واجب نہیں، چونکہ پرندے کا پڑھنا تلاوتِ صحیحہ نہیں۔ اسی طرح اگر کسی نے آیتِ سجدہ تلاوت کی، کسی شخص نے خود اس کی تلاوت تو نہیں سنی، مگر اس کی آواز پہاڑ یا دیوار یا گنبد سے ٹکراکر اس کے کان میں پڑی تو اس صدائے بازگشت کے سننے سے بھی سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوگا۔ الغرض اُصول یہ ہے کہ تلاوتِ صحیحہ کے سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب ہوتا ہے، ٹیپ ریکارڈ کی آواز تلاوتِ صحیحہ نہیں، اس لئے اس کے سننے سے سجدہٴ تلاوت واجب نہیں ہوتا ہے۔
۵:…آپ نے جو لاوٴڈ اسپیکر کا حوالہ دیا ہے، وہ بھی یہاں بے محل ہے، کیونکہ لاوٴڈ اسپیکر آواز کو دُور تک پہنچتا ہے، اور مقتدیوں تک جو آواز پہنچتی ہے وہ بعینہ امام کی تلاوت و تکبیر کی آواز ہوتی ہے، ٹیپ ریکارڈر اس آواز کو محفوظ کرلیتا ہے، اب جو ٹیپ ریکارڈ بجایا جائے گا وہ اس تلاوت کا عکس ہوگا جو اس پر کی گئی، وہ بذاتِ خود تلاوت نہیں، اس لئے ایک کو دُوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔
جو باتیں اس ناکارہ نے گزارش کی ہیں، اگر اہلِ علم اور اہلِ فتویٰ ان کو غلط قرار دیں تو اس ناکارہ کو ان سے رُجوع کرلینے میں کوئی عار نہیں ہوگی، اور اگر حضراتِ اہلِ علم اور اہلِ فتویٰ ان کو صحیح فرماتے ہیں تو میرا موٴدّبانہ مشورہ ہے کہ ہم عامیوں کو ان کی بات مان لینی چاہئے، فقہ کے بہت سے مسائل ایسے باریک ہیں کہ ان کی وجہ ہر شخص کو آسانی سے سمجھ میں نہیں آسکتی، واللہ الموفق!
پی آئی اے کو فلائٹ میں بجائے موسیقی کے تلاوت سنانی چاہئے
س… میں نے طویل عرصہ قبل ایک تجویز پی آئی اے کو پیش کی تھی کہ اندرونِ ملک ہر پرواز کے شروع میں کچھ منٹ (کم سے کم) پندرہ منٹ اور پرواز کے آخری وقت میں کچھ منٹ (کم سے کم) پندرہ منٹ کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت کے ٹیپ مسافروں کو سنائے جائیں، کیونکہ اب تک ان وقتوں میں موسیقی کی فرسودہ دُھنیں سنائی جاتی رہی ہیں۔ جبکہ ان وقتوں میں اگر مسافروں کو قرآنِ پاک کی تلاوت کے ٹیپ سنائے جائیں تو ان سے ایمان کو تقویت حاصل ہوگی اور سفر بخیر و خوبی گزر جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ سفر رہے گا۔ یہ تھی میری تجویز جو کہ ایک اسلامی مملکت کی فضائی سروس سے متعلق ادارے کو پیش کی گئی تھی جو کہ اسلامی شعائر کی ترویج کے سلسلے میں ایک اچھی کوشش ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اس کا جواب پی آئی اے نے جو دیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس ادارے میں کس قسم کے ذہن مسلط ہیں جو یہ تو یہ تو چاہتے ہیں کہ موسیقی کی دُھنیں بجتی رہیں، لیکن یہ نہیں چاہتے کہ خدا کا کلام مسافروں کو سنایا جائے، بلکہ یہ عذر پیش کیا جارہا ہے کہ اس سے بے حرمتی کا اندیشہ ہے، کیونکہ مسافروں میں سارے مسلمان تو سفر نہیں کرتے، چند غیرمذہب لوگوں کے سفر کرنے کی بنا پر باقی تمام مسلمانوں کو اس نیک عمل سے محروم رکھنا تو سمجھ میں نہیں آتا ہے، اگر یہی طریقہ ہے اسلامی نظام اور اسلامی سوچ رائج کرنے کا تو اس پورے پاکستان میں بھی غیرمذہب کے لوگ رہتے ہیں، چنانچہ ان کی بنا پر اسلامی نظام بھی رائج نہ کیا جائے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس سے بے حرمتی کا اندیشہ ہو، یہ کمزور دلیل سمجھ میں نہیں آئی۔ براہِ کرم آپ میری تجویز کا مطالعہ کریں اور اگر میں دُرست ہوں تو اس کو رائج کروانے کے لئے آپ بھی کوشش کریں کہ آپ کی تحریر میری تحریر سے بہت مضبوط ہے، اس کارِ نیک میں ضرور حصہ لیں، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے، آمین!
ج… آپ کی تجویز بہت اچھی ہے، بے حرمتی کا عذر تو بالکل ہی لغو اور مہمل ہے، البتہ یہ عذر ہوسکتا ہے کہ شاید غیرمسلم اس کو پسند نہ کریں، مگر یہ عذر بھی کچا ہے۔ قرآنِ کریم کی حلاوت و شیرینی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی صحیح انداز میں پڑھنے والا ہو تو غیرمسلم برادری بھی اسے نہ صرف پسند کرتی ہے بلکہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہئے اور موسیقی شرعاً ناجائز اور گناہ ہے، اس کا سلسلہ بند کردینا چاہئے۔
قرآن کی تعلیم پر اُجرت
س… میں جمعیت تعلیم القرآن کی طرف سے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتی ہوں، لوگوں کو تعلیم مفت دی جاتی ہے اور قاعدے بھی مفت تقسیم کئے جاتے ہیں، لیکن مجھے تنخواہ جمعیت کی طرف سے ملتی ہے، جبکہ میں قرآن پڑھانے کا پیسہ لینا حرام سمجھتی ہوں۔ میرا کوئی ذریعہٴ معاش نہیں ہے، مجھے لوگوں نے کہا کہ تم بچوں کو قرآن کی تعلیم دو، ہر بچے سے دس دس روپے لو، تمہارا گزارا ہوجائے گا۔ لیکن میرا ضمیر کہتا ہے کہ میں بھوکی رہوں گی لیکن کبھی پیسے لے کر قرآن نہیں پڑھاوٴں گی۔ اب جبکہ میں ایک اسلامی ادارے کی طرف سے لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتی ہوں، تو میرا اس طرح قرآن کی تعلیم پر تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ میرا دِل مطمئن نہیں ہے اس تنخواہ سے، میں اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ اللہ پاک تو اپنی رحمت سے مجھے کہیں اور سروس دِلادے، تو جتنے عرصے میں نے تنخواہ لے کر قرآن کی تعلیم دی ہے، اتنے عرصے بغیر تنخواہ کے تعلیم دوں گی۔ آپ مجھے یہ بتائیے کہ قرآن کی تعلیم کے پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟
ج… قرآن مجید کی تعلیم پر تنخواہ لینا جائز ہے، اس لئے آپ کو جو جمعیت تعلیم القرآن کی طرف سے تنخواہ ملتی ہے، اس کو وظیفہ سمجھ کر قبول کرلیا کریں اور قرآن مجید رضائے الٰہی کے لئے پڑھائیں۔
مرد اُستاذ کا عورتوں کو قرآن مجید پڑھانے کی عملی تربیت دینا
س… خواتین اساتذہ کو ناظرہ قرآن مجید کے پڑھانے کی عملی تربیت مرد اساتذہ سے دِلوائی جاسکتی ہے یا نہیں، جبکہ اُستاذ اور شاگرد کے درمیان کسی قسم کا پردہ بھی حائل نہ ہو؟ نیز یہ کہ کیا اس سلسلے میں یہ عذر معقول ہے کہ خواتین کی تربیت کے لئے خواتین اساتذہ موجود نہیں ہیں، لہٰذا مرد اساتذہ سے تعلیم دِلوائی جارہی ہے۔
ج… اگر ناظرہ تعلیم دینا اس قدر ضروری ہے، تو کیا پردہ کا خیال رکھنا اس سے زیادہ ضروری نہیں؟ ایک ضروری کام کو انجام دینے کے لئے شریعت کے اتنے اہم اُصول کی خلاف ورزی سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ناظرہ تعلیم اس قدر اہم ہے اور یقینا ہے، تو پردہ اور دیگر اسلامی اور اخلاقی اُمور کا خیال رکھتے ہوئے کسی دیندار، متقی اور بڑی عمر کے بزرگ سے چند عورتوں کو ناظرہ تعلیم کی تربیت اس طرح دے دی جائے کہ آگے چل کر وہ خواتین دُوسری عورتوں کو اس تعلیم کی تربیت دے سکیں۔
نامحرَم حافظ سے قرآنِ کریم کس طرح پڑھے؟
س… مولانا صاحب! قاری صاحب سے جو کہ نامحرَم ہوتا ہے، اگر کوئی لڑکی ان سے قرآنِ پاک حفظ کرنا چاہے، تو آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ گناہ تو نہیں ہوگا؟ کیونکہ میری کزن قاری صاحب سے قرآن شریف حفظ کر رہی ہے۔
ج… نامحرَم حافظ سے قرآنِ کریم یاد کرنا، پردہ کے ساتھ ہو تو گنجائش ہے، بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو، مثلاً: دونوں کے درمیان تنہائی نہ ہو، اگر فتنے کا احتمال ہو تو جائز نہیں۔
قریب البلوغ لڑکی کو بغیر پردے کے پڑھانا دُرست نہیں
س… مراہقہ لڑکی کو قرآن مجید پڑھانا کیسا ہے؟ آج کل جو حفاظِ کرام یا مولوی صاحبان مسجد میں بیٹھ کر مراہقہ لڑکیوں کو پڑھاتے ہیں، ان کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… قریب البلوغ لڑکی کا حکم جوان ہی کا ہے، بغیر پردے کے پڑھانا موجبِ فتنہ ہے۔
بُری جگہ پر قرآن خوانی کا ہر شریک گناہگار اور معاوضہ والی قرآن خوانی کا ثواب نہیں
س… ایک سوال کے جواب میں آپ نے صرف گناہ کے کام کے لئے قرآن خوانی کرانے والوں کے بارے میں لکھا تھا، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ایسے مولوی یا دُوسرے لوگ جو ایسی جگہوں پر قرآن خوانی کے لئے جاتے ہیں، وہ کس گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں؟ نیز یہ کہ مدرسہ وغیرہ میں پڑھانے والے مولوی پیسے لے کر بچوں کو قرآن خوانی میں لے جائیں تو کیا یہ جائز ہے؟ اور اس کا ثواب مرحوم کو پہنچتا ہے کہ نہیں؟
ج… پہلے مسئلہ کا جواب تو یہ ہے کہ قرآن خوانی کرانے والے اور کرنے والے دونوں کا ایک ہی حکم ہے اور دونوں گناہگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔ اور ایصالِ ثواب کے لئے معاوضہ لے کر قرآن خوانی کرنا صحیح نہیں، اور ایسی قرآن خوانی کا نہ پڑھنے والے کو ثواب ہوتا ہے، نہ میّت کو پہنچتا ہے۔
ناجائز کاروبار کے لئے آیاتِ قرآنی آویزاں کرنا ناجائز ہے
س… وڈیو گیمز کی ایک دُکان میں تیز میوزک کی آواز، نیم عریاں تصویریں دیواروں پر لگی ہوئیں، جدید دور کے ترجمان لڑکے لڑکیاں گیمز کھیلنے میں مصروف اور کھلے ہوئے قرآن کا فریم لگا ہوا، دُکان کے مالک لڑکے سے کہا کہ یہ قرآن کی بے حرمتی ہے کہ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے تم نے اس کا فریم بھی لگایا ہوا ہے؟ کہنے لگا کہ یہ ان تمام چیزوں سے اُوپر ہے۔ پوچھا: کیوں لگایا؟ بولا: برکت کے لئے! اس سے پہلے کہ میں کوئی قدم اُٹھاوٴں آپ سے عرض ہے کہ کیا ایسے مقامات پر قرآن یا اس کی آیات کا لگانا جائز ہے؟ اگر یہ بے حرمتی ہے تو مسلمان کی حیثیت سے ہماری کیا ذمہ داری ہوگی؟ کیونکہ یہ چیزیں اب اکثر جگہوں پر دیکھی جاتی ہیں۔
ج… ناجائز کاروبار میں “برکت” کے لئے قرآن مجید کی آیات لگانا، بلاشبہ قرآنِ کریم کی بے حرمتی ہے۔ مسلمان کی حیثیت سے تو ہمارا فرض ہے کہ ایسے گندے اور حیاسوز کاروبار ہی کو نہ رہنے دیا جائے، جس گلی، جس محلے میں ایسی دُکان ہو لوگ اس کو برداشت نہ کریں۔ قرآنِ کریم کی اس بے حرمتی کو برداشت کرنا، پورے معاشرے کے لئے اللہ تعالیٰ کے قہر کو دعوت دینا ہے۔
سینما میں قرآن خوانی اور سیرتِ پاک کا جلسہ کرنا خدا اور اس کے رسول سے مذاق ہے
س… کیا سینما گھروں میں قرآن شریف رکھا جاسکتا ہے؟ اور کیا وہاں پر سیرتِ پاک کا کوئی جلسہ منعقد ہوسکتا ہے؟ اور کیا وہاں پر قرآن خوانی ہوسکتی ہے؟
ج… سینماوٴں میں قرآن خوانی اور سیرت کے جلسے کرنا خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔
دفتری اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت اور نوافل کا ادا کرنا
س… سرکاری ملازمت میں دفتری اوقات کار میں قرآن شریف کا پڑھنا پڑھانا یا نفل نمازیں پڑھنا کس حد تک جائز ہے؟
ج… اگر دفتر کے کام میں حرج ہوتا ہو تو جائز نہیں، اور اگر کام نمٹاکر فارغ بیٹھا ہو تو جائز بلکہ مستحسن ہے۔
قرآن یاد کرکے بھول جانا بڑا گناہ ہے
س… اگر کوئی شخص اپنے بچپن میں قرآن شریف پڑھ لے اور پھر چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر پابندی سے نہ پڑھنے کی صورت میں قرآن شریف بھول جائے تو اس کے لئے لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی قرآن شریف پڑھ کر بھول جاتا ہے اور اسے دوبارہ یاد نہ کرے تو وہ حشر کے دن نابینا ہوکر اُٹھے گا اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اگر یہ بالکل صحیح ہے تو اس گناہ کا کفارہ کیسے ادا کیا جائے؟ اور اس کا شرعی حل کیا ہے؟ ذرا جواب وضاحت سے تحریر کریں۔
ج… قرآن مجید یاد کرکے بھول جانا بڑا سخت گناہ ہے، اور احادیث میں اس کا سخت وبال آیا ہے۔ اس کا تدارک یہی ہے کہ ہمت کرکے دوبارہ یاد کرے اور ہمیشہ پڑھتا رہے، اور جب بھول جانے کے بعد دوبارہ پڑھ لیا اور پھر ہمیشہ پڑھتا رہا، مرتے دَم تک نہ بھولا تو قرآن مجید بھولنے کا وبال نہیں ہوگا۔
قرآن مجید ہاتھ سے گر جائے تو کیا کرے؟
س… اگر قرآنِ پاک ہاتھ سے گرجائے تو اس کے برابر گندم خیرات کردینا چاہئے، اگر کوئی دینی کتاب مثلاً: حدیث، فقہ وغیرہ ہاتھ سے گرجائے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟
ج… قرآنِ کریم ہاتھ سے گرجانے پر اس کے برابر گندم خیرات کرنے کا مسئلہ جو عوام میں مشہور ہے، یہ کسی کتاب میں نہیں۔ اس کوتاہی پر توبہ و اِستغفار کرنا چاہئے اور صدقہ خیرات کرنے کا بھی مضائقہ نہیں۔
قبر میں قرآن رکھنا بے ادبی ہے
س… کیا میّت کے ساتھ قبر میں قرآن مجید یا قرآن مجید کا بعض حصہ یا کوئی دُعا یا کلمہ طیبہ رکھنا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث، فقہِ حنفی اور سلف صالحین کے تعامل کی روشنی میں تفصیل سے وضاحت فرمائیں، مہربانی ہوگی۔
ج… قبر میں مردے کے ساتھ قرآن مجید یا اس کا کچھ حصہ دفن کرنا ناجائز ہے، کیونکہ مردہ قبر میں پھول پھٹ جاتا ہے، قرآن مجید ایسی جگہ رکھنا بے ادبی ہے۔ یہی حکم مقدس کلمات کا ہے، سلف صالحین کے یہاں اس کا تعامل نہیں تھا۔
تلاوت کی کثرت مبارک ہے اور سورتوں کے موٴکل ہونے کا عقیدہ غلط ہے
س… میں قرآن پاک کی تلاوت کے ساتھ ساتھ صبح و شام چند سورتوں یٰسین، رحمن، مزمل، النساء، فجر اور اللہ تعالیٰ کے اسمائے مبارکہ کی تلاوت کرتی ہوں۔ شام میں سورہٴ یٰسین، سجدہ اور ملک، مغرب میں واقعہ، مزمل کی۔ میری والدہ مجھے اکثر ٹوکتی ہیں کہ اتنی عمر میں اتنا زیادہ نہیں پڑھتے، کیونکہ میری بڑی بہن نے میری والدہ کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ جب کنواری لڑکیاں اتنی عبادت کرنے لگتی ہیں تو پھر ان کی شادی اتنی جلدی نہیں ہوتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اس وقت تو اس کا دھیان میری طرف ہے، شادی کے بعد اس کا دھیان بٹ جائے گا۔ دُوسرے ایک صاحب نے یہ کہا کہ ہر سورة کا ایک موٴکل ہوتا ہے، اور یٰسین کا موٴکل شیر کی شکل کا ہوتا ہے، یہ موٴکل پڑھنے والے پر یا اس کے آس پاس رہتے ہیں جس سے دُوسروں پر اس کی ہیبت سوار ہوجاتی ہے، اور اس کے کاموں میں رُکاوٹ پیدا ہوتی ہے، یعنی رشتے والے آنے سے پہلے ہی بھاگ جاتے ہیں۔
اس قسم کی باتوں سے میں نے اپنی تلاوت صرف قرآنِ پاک تک محدود کرلی ہے، لیکن میرا دِل مطمئن نہیں ہے، کیونکہ جو چیزیں ہمارا دین ایمان اور سب کچھ ہیں وہ کیسے ہمارے کاموں میں رُکاوٹ بن سکتی ہے؟ لیکن یہ سوچ کر میں نے اپنی تلاوت محدود کرلی ہے کہ والدہ کی ناراضگی کے باعث پتہ نہیں یہ شرفِ قبولیت بھی حاصل کرتی ہیں یا نہیں؟ مہربانی فرماکر آپ اس مشکل کو حل کردیجئے، جتنا جلدی ممکن ہوسکے، آپ کی مہربانی ہوگی تاکہ میری والدہ کی غلط فہمی دُور ہوجائے اور وہ مجھے پڑھنے سے منع کرنا چھوڑ دیں، آپ کی تاحیات مشکور رہوں گی۔
ج… آپ کی بہن اور والدہ کا خیال صحیح نہیں، البتہ تلاوت و عبادت میں اپنی صحت اور تحمل کا لحاظ ازبس ضروری ہے، اتنا کام نہ کیا جائے جس سے صحت پر اثر پڑے۔ اور باقی جن صاحب نے یہ کہا کہ ہر سورة کا ایک موٴکل ہوتا ہے اور سورہٴ یٰسین کا موٴکل شیر ہے، یہ بالکل ہی لغو اور غلط بات ہے، اور اس کی جو خاصیت ذکر کی ہے، وہ بالکل من گھڑت ہے۔
گجراتی رسم الخط میں قرآنِ کریم کی طباعت جائز نہیں
س… ہماری برادری میں گجراتی زبان کا رواج عام ہے، یعنی لوگ زیادہ تر گجراتی زبان میں ہی لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ قرآنی سورتیں مثلاً: سورہٴ یٰسین وغیرہ گجراتی زبان میں لکھ لیتے ہیں، اور اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ ایک صاحب پورا قرآن شریف گجراتی میں چھپوانا چاہتے ہیں، یعنی اس کی زبان تو عربی ہو، مگر اسکرپٹ یا حروفِ تہجی گجراتی ہوں، تو اس طرح قرآن شریف چھپوانا اور اس کی تلاوت کرنا شرعی نقطہٴ نظر سے کیسا ہے؟ کیونکہ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ اس طرح تلفظ میں فرق آنے کا امکان ہے۔ لہٰذا آپ سے موٴدّبانہ گزراش ہے کہ اس مسئلے کا واضح جواب قرآن و سنت کی روشنی میں مرحمت فرمائیں تاکہ اگر یہ جائز ہو تو ہم چھپوائیں۔ بہت سے لوگ عربی نہیں پڑھ سکتے لیکن یہی متن گجراتی حروف میں ہو تو بآسانی تلاوت کرسکتے ہیں، واضح رہے کہ سورہٴ یٰسین، سورہٴ رحمن اور دیگر دُعائیں وغیرہ اسی طرح شائع ہو رہی ہیں، یعنی حروف گجراتی اور متن عربی۔
ج… قرآنِ کریم کا رسم الخط متعین ہے، اس رسم الخط کو چھوڑ کر کسی دُوسرے رسم الخط میں قرآنِ کریم چھاپنا جائز نہیں، اور یہ عذر کہ لوگ عربی نہیں پڑھ سکتے، فضول ہے، اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو آدمی قرآنِ کریم سیکھ سکتا ہے۔
مونوگرام میں قرآنی آیات لکھنا جائز نہیں
س… انسٹیٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ (سولجر بازار)، انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاوٴنٹینٹ آف پاکستان (کلفٹن) اور نہ جانے کئی تعلیمی اداروں کے مونوگرام میں قرآنی آیات اور کسی مونوگرام میں احادیثِ مبارکہ لکھی جاتی ہیں۔ یہ مونوگرام کم و بیش ہر دستاویزات، خطوط وغیرہ پر چسپاں کئے جاتے ہیں یا چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ جس پر بے وضو ہاتھ لگائے جاتے ہیں، کئی کاغذات کو ردّی سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ آیا اسلامی تاریخ میں کبھی مونوگرام پر قرآنی آیات لکھی جاتی تھیں؟ کیا اس طرح اس کا استعمال بے ادبی نہیں؟ کیا اس بے ادبی کی ذمہ دار کونسل ممبر انسٹیٹیوٹ وغیرہ نہیں؟ کیا حکومتِ پاکستان نہیں؟ کیا اس بے ادبی کا عذاب ان پر نازل نہ ہوگا؟
ج… مونوگرام پر قرآنی آیات لکھنا، جبکہ ان کی بے ادبی کا اندیشہ غالب ہے، صحیح نہیں، جو ادارہ بھی اس بے ادبی کا مرتکب ہوگا، وبال اسی کے ذمہ ہے۔
قرآن شریف کی خطاطی میں تصویر بنانا حرام ہے
س… ہماری یونیورسٹی یعنی جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری میں کچھ روز پیشتر دیوار گیر خطاطی کے دو نمونے آویزاں کئے گئے ہیں، دونوں نمونے کافی دیدہ زیب ہیں، اور خطاط نے ان پر کافی محنت کی ہے، لیکن ان میں سے ایک نمونے میں سورة العادیات کی آیات نمبر ایک تا پانچ کو اس طرح پینٹ کیا گیا ہے کہ ان سے گھوڑوں کی مکمل اَشکال کا اظہار ہوتا ہے، جو سرپٹ دوڑ رہے ہوں۔ فنکار نے غالباً ان آیات کے مفہوم کو تصویری شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ سے میرا سوال یہ ہے کہ آیا قرآنی آیات کو حیوانی اَشکال کی صورت میں تحریر کیا جاسکتا ہے؟ آیا یہ ان اَحکام کی رُو سے غلط نہیں جن کے مطابق جاندار اشیاء کی تصاویر بنانے کو حرام قرار دیا گیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس قسم کی تصویر کو یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری میں آویزاں کرنا مناسب ہوگا؟ اس سوال کا جواب وضاحت سے دے کر ممنون فرمائیں۔
ج… قرآنِ کریم کی آیاتِ شریفہ کی تصویری خطاطی حرام ہے، اور قرآنِ کریم کی بے ادبی بھی ہے، جیسے کسی ناپاک چیز پر آیات لکھنا خلافِ ادب اور ناجائز ہے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو چاہئے کہ اس کو صاف کردیں۔
قرآنی آیات کی کتابت میں مبہم آرٹ بھرنا صحیح نہیں
س… اکثر و بیشتر ٹیلیویژن، اخباروں اور رسالوں میں قرآن شریف کی آیات کو مصوّری اور فنِ خطاطی کے ساتھ مختلف ڈیزائنوں میں تحریر کیا جاتا ہے، جس سے پڑھنے والے اکثر آیاتِ قرآنی کو غلط پڑھنے کے مرتکب ہوجاتے ہیں، اور وہ آیاتِ قرآنی سمجھ میں مشکل سے آتی ہیں۔ اکثر و بیشتر میرے ساتھ یہ ہوا ہے کہ آیات کچھ ہیں اور پڑھی کچھ اور جاتی ہیں، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
ج… آیاتِ کریمہ کو اس انداز سے لکھنا کہ غلط پڑھی جائیں جائز نہیں۔
مسجد کے قرآن مجید گھر لے جانا دُرست نہیں
س… جیسا کہ آپ کو بھی علم ہے کہ مساجد میں قرآنِ حکیم لاتعداد الماریوں میں رکھے ہوتے ہیں، لیکن ان کی تلاوت کم کی جاتی ہے، اگر کوئی آدمی اپنے لئے یا اپنے بچوں کے لئے مسجد سے قرآن مجید لے آتا ہے، اس صورت میں اس کے لئے کیا حکم ہے؟ قرآنِ حکیم مسجد سے لانے کے لئے متولّی سے اجازت لینی ہوگی یا نہیں؟ کیا قرآنِ حکیم کا ہدیہ جو بازار میں ملتا ہے، اس کا ہدیہ مسجد میں دینا ہوگا یا نہیں؟
ج… مسجد میں رکھے ہوئے قرآن مجید کے نسخے اگر مسجد کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو کسی اور مسجد یا مدرسہ میں منتقل کردئیے جائیں، ان کو گھر لے جانا دُرست نہیں ہے۔
حاجیوں کے چھوڑے ہوئے قرآنِ کریم رکھنا چاہیں تو ان کی قیمت کا صدقہ کردینا چاہئے
س… ان دنوں حاجی حضرات حج کرکے واپس آرہے ہیں، سعودی عرب میں ان حاجیوں کو قرآن شریف کا ایک نادر تحفہ ملتا ہے، جو حاجی صاحبان ساتھ پاکستان لے آتے ہیں، بعض حاجی ان قرآن شریف کو ہوائی جہاز پر ہی بھول جاتے ہیں یا پھر چھوڑ جاتے ہیں۔ کیونکہ میں جہاز پر کام کرتا ہوں اس لئے یہ قرآن شریف مجھے ملا، پی آئی اے سیکورٹی بھی ان کو نہیں لیتی، کیونکہ ان پر نام تو ہوتا ہی نہیں، اس لئے یہ قرآن ان حاجیوں کو واپس کرنا ممکن نہیں، اور پھر قرآن شریف کو جہاز پر چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں، کیونکہ بے حرمتی ہوتی ہے۔ لہٰذا ان قرآن شریفوں میں سے ایک قرآن میں اپنے گھر لے آیا ہوں پڑھنے کے لئے۔ اب سوال اس بات کا ہے کہ میرے ساتھ جو میرے ساتھ کام کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ قرآن شریف گھر لے جانا جائز نہیں، بلکہ کسی مسجد میں رکھ دیں، مجھے وہ قرآن شریف جو سعودی عرب کا چھپا ہوا ہے، بہت پسند ہے، اس لئے پڑھنے کی غرض سے میں گھر لے گیا ہوں، اب میرے دِل میں ساتھیوں نے یہ شک ڈال دیا ہے کہ ثواب نہیں ملے گا اور ناجائز بھی ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کہ یہ جائز ہے کہ نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟
ج… غالب خیال یہ ہے کہ بعض حاجی صاحبان قرآنِ کریم کے ان نسخوں کو قصداً چھوڑ جاتے ہیں یا تو اس لئے کہ وہ پڑھے ہوئے نہیں ہوتے، یا اس وجہ سے کہ وہ اس رسم الخط سے مانوس نہیں ہوتے۔ اس صورت میں تو ان نسخوں کو جو شخص بھی اُٹھائے اس کے لئے جائز ہے، مگر چونکہ یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی بھول گیا ہو، اس صورت میں ان کا مالک کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے، اس لئے احتیاط کی بات یہ ہے کہ آپ اس قرآنِ کریم کو رکھنا چاہیں تو اس کی قیمت صدقہ کردیں۔