دوکان و مکان میں قرآن خوانی کا شرعی حکم

دوکان و مکان میں قرآن خوانی
اور
اس کی اجرت کا شرعی حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
بعض احباب دوکانوں یامکانوں میں چالیس دن سورۃ بقرہ یا قرآن مجید شروع سے ترتیب وار تلاوت کرتے ہیں اور پھر چالیس دن پورا ہونے کے بعد پڑھوانے والے سے طے شدہ رقم وصول کرتے ہیں، ایسے رقم متعین کرکے قرآن مجید پڑھنا اور پڑھوانا جائز ہے یا نہیں اور یہ متعین رقم اجرت قرآن میں شمار ہوگی یا نہیں؟
المستفتی:
عمار احمد،
اصالت پورہ
مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
قرآن کریم پڑھنے کی دو شکلیں ہوتی ہیں اور دونوں کی حیثیت اور حکم بالکل الگ الگ ہے
(۱) قرآن کریم کی تلاوت نماز میں کی جائے اور اس میں اصل مقصد نماز کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن اور ختم قرآن بھی ہو، جیسے تراویح میں ختم قرآن ہوا کرتا ہے، اسی طرح قرآن کریم پڑھنے میں تلاوت اور اس کا ثواب مقصود ہو، جیسے کہ میت کو ثواب پہنچانے کے لئے تلاوت کی جاتی ہے، ایسی شکل میں تلاوت کی اجرت لینا، اسی طرح ختم قرآن کی اجر ت لینا ناجائز اورحرام ہے اور دینے والے کے لئے دینا بھی جائز نہیں جس کی ممانعت خود قرآن کریم میں آئی ہے۔
===========
وَلَا تَشْتَرُوْا بِآَیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ۔(سورۃ البقرہ:۴۱)
===========
ولایصح الاستئجار علی القراء ۃ وإہدائہا إلی المیت؛ لأنہ لم ینقل عن أحد الأئمۃ الإذن في ذلک، وقد قال العلماء: إن القاري إذا قرء لأجل المال، فلاثواب لہ، فأي شیئ یہدیہ إلی المیت۔ (شامي، کتاب الاجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الإستئجار علی الطاعات، زکریا ۹/۷۸، کراچي۶/۵۷)
===========
(۲) خود قرآن پڑھنے میں اصل مقصد تلاوت اور ثواب نہ ہو؛ بلکہ خیر وبرکت یا شفاء مقصود ہو، تو ایسی صورت میں قرآن کریم پڑھنا جھاڑ پھونک کے قبیل سے ہے کہ قرآن پڑھ کر برکت حاصل ہوجائے یا شفاء حاصل ہوجائے تو اس کی اجرت لینا دینا جائز ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں حضرا صحابہ کرام ؓ کا کسی دشمن کے سانپ یا بچھو کے ڈسنے پر سورۂ فاتحہ پڑھ کرکچھ لینا دینا ثابت ہے، اگرچہ اس کی ایک تاویل یہ بھی ہے کہ دشمنوں کا مال کسی بھی طریقہ سے لینا جائز ہے۔
===========
عن أبي سعید الخدري رضی اللہ عنہ-إلی- فجعل یقرأ بأم القرآن، ویجمع بزاقہ ویتفل، فبرأ فأتوا بالشاء فقالوا: لانأ خذہ حتی نسأل النبي صلی اللہ علیہ وسلم فسألوہ فضحک وقال وماأدراک أنہا رقیۃ خذوہا واضربوا لي بسہم۔ (صحیح البخاري، باب الرقي بفاتحۃ الکتاب، النسخۃ الہندیۃ ۲/۸۵۴، رقم: ۵۵۱۲، ف: ۵۷۳۶، السنن الکبری للنسائي ۹/۲۸۸، رقم: ۱۰۸۰۰)
==========
لأن المتقدمین المانعین الاستئجار مطلقا جوزوا الرقیۃ بالأجرۃ، ولوبالقرآن کما ذکرہ الطحاوی لأنہا لیست عبادۃ محضۃ بل من التداوی۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات، کراچي۶/۵۷، زکریا۹/۷۹)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۸؍جمادی الثانی ۱۴۲۹ھ
فتاوی قاسمیہ جلد 4 ص155
===========================
واللہ اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاہری سہارنپوری
……
قرآن خوانی کا کیا حکم ہے؟ پہلے زمانے میں کس طریقے سے کرتے تھے، اب ہم لوگ کس طریقے سے کریں؟ نیز قرآن خوانی وایصالِ ثواب درست ہے یا نہیں؟ مفصل جواب دیں۔
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
بلا کسی التزام کے قرآن کریم پڑھ کر کسی کو ثواب پہنچانا فی نفسہٖ درست ہے؛ لیکن اگر قرآن خوانی میں صراحۃً یا عرفاً اجرت یا نذانہ کا لین دین ہو، جیسا کہ آج کل مروجہ قرآن خوانی کی تقریبات میں ہوتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ روپئے، پیسے یا کھانے پینے کے بدلہ جو قرآن پڑھا جاتا ہے تو خود پڑھنے والے ہی کو ثواب نہیں ملتا تو میت کو کہاں سے ثواب ملے گا۔
(مستفاد: احسن الفتاوی کراچی ۱؍ ۳۶۱-۳۶۲)
وأما قراء ۃ القرآن وإہداء ہا لہ تطوعا بلا أجرۃ، فہذا یصل إلیہ کما یصل ثواب الصوم والحج۔ (رسائل ابن عابدین ۱؍۱۷۵)
ویقرأ من القرآن ما تیسر لہ ثم یقول: اللّٰہم أوصل ثواب ما قرأنا إلیٰ فلان أو إلیہم۔ (شامی کراچی ۲؍۲۴۳، شامی زکریا ۳؍۱۵۱)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ بالأجرۃ لا یجوز۔ (شامي زکریا ۹؍۷۷)
بل الضرر صار في الاستئجار علیہ حیث صار القرآن مکسبا وحرفۃ یتجربہا، وصار القاري منہم لا یقرأ شیئا لوجہ اللّٰہ تعالی بل لا یقرأ إلا للأجرۃ، وہو الریاء المحض الذي ہو أرادہ العمل لغیر اللّٰہ تعالی، فمن أین یحصل لہ الثواب الذي طلب المستأجر أن یہدیہ لمیتہ۔ (شرح عقود رسم المفتی ۳۸)
وفي ہٰذا الباب حدیث أخرجہ الإمام البیہقي في السنن الکبریٰ۔ (۶؍۴۵۴
عکس: کتاب النوازل، جلد: اول، صفحہ: 613