متفرق مسائل


نائیلون کی مروّجہ جرابوں اور سوتی جرابوں پر مسح کا حکم
سوال:- موزوں پر مسح کرنا جائز ہے، ربڑ کے موزے کے علاوہ واٹر پروف موزے وغیرہ اور نائیلون کی جرابیں، سوتی جرابیں، ان پر مسح جائز ہے یا نہیں؟ واضح طور پر صحیح ثبوت کے ساتھ باحوالہ تحریر فرمائیں۔
جواب:- چمڑے یا ربڑ کے موزے اگر اتنے موٹے ہوں کہ محض اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے یا لاسٹک باندھے بغیر خود کھڑے رہیں تو ان پر مسح دُرست ہے، نائیلون کی مروّجہ جرابیں پتلی ہوتی ہیں ان پر مسح دُرست نہیں۔

واللہ اعلم
۲۵؍۲؍۱۳۹۱ھ
(فتویٰ نمبر ۲۹۳/۲۲ الف)

سوال:- صلوٰۃ التسبیح شعبان کی پندرھویں کو باجماعت پڑھنے کا ہمارا ارادہ ہو رہا ہے، یہ صحیح ہے یا نہیں؟
جواب:- صلوٰۃ التسبیح نفلی نماز ہے، اور اس کی جماعت حنفیہ کے مسلک میں مکروہِ تحریمی ہے، لہٰذا یہ نماز تنہا پڑھنی چاہئے۔(۱)

واللہ سبحانہ اعلم
۲؍۱۰؍۱۳۹۵ھ
(فتویٰ نمبر ۱۷۰۸/۳۰ د)
غسلِ جنابت میں سر کا تیل چھڑانا ضروری نہیں
سوال:- کیا غسلِ جنابت میں سر کا تیل چھڑانا ضروری ہے؟ اور تکیہ، بستر وغیرہ کا دھونا ضروری ہے؟
جواب:- غسلِ جنابت میں سر کا تیل چھڑانا ضروری نہیں، تاہم چھڑادیں تو بہتر ہے۔
فی الدر المختار: ولا یمنع الطھارۃ ونیم ۔۔۔۔ وحناء ولو جرمہ، بہ یفتی ودرن ووسخ ۔۔۔۔، وکذا دھن ودسومۃ، وفی رد المحتار  أی کزیت وشیرج بخلاف نحو شحم وسمن جامد۔ (شامی  ج:۱  ص:۱۰۴)۔(۱)
سوال:- تیل لگے ہوئے سر پر کوئی پرندہ بیٹ کردے تو صرف پانی سے بال دھونا کافی ہے یا تیل چھڑانا ضروری ہے؟
جواب:- جانور کی بیٹ چھڑالینی چاہئے، تیل چھڑانے کا حکم اُوپر آگیا، اور جتنی چکناہٹ کا ازالہ ممکن ہو، کرلے اور جس کا ازالہ متعذر ہو وہ معاف ہے۔

واللہ سبحانہ اعلم
۱۳؍۶؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر  ۵۸۸/۲۸   ب)
جمعہ کی سنتوں کی تعداد
۱:- جمعہ کی سنتوں کی تعداد
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ پڑھنے کا طریقہ

سوال۱:- جمعہ کے بعد کتنی سنتیں پڑھنی چاہئیں؟
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ کس طرح پڑھنی چاہئے؟ اور اس میں کیا پڑھیں؟
جواب۱:- جمعہ کے بعد چھ رکعات مسنون ہیں، پہلے چار، پھر دو پڑھیں تو بہتر ہے، اور اس کے برعکس بھی جائز ہے۔
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ کا کوئی الگ طریقہ نہیں، نہ کوئی خاص قراء ت مقرّر ہے، بلکہ اور نمازوں ہی کی طرح پڑھی جائے۔

واللہ سبحانہ اعلم
۲۲؍۱؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر  ۱۵۶/۲۸   الف)

بغیر سترہ کے نمازی کے آگے سے گزرنے کی تفصیل
سوال:- نمازی کے سامنے سے گزرنے کی جیسا کہ حدیث شریف میں سخت ممانعت آئی ہے، حسبِ ذیل صورتوں میں گزرنے والے کے لئے کیا حکم ہے؟
الف:- اگر نمازی بحالتِ قیام یا قومہ سجدہ گاہ پر نظر کئے ہوئے ہے تو ضرورت مند کتنا فاصلہ چھوڑ کر گزرے؟
ب:- اگر اس کی نظر بحالتِ مذکورہ سجدہ گاہ سے آگے پڑ رہی ہو؟
ج:- اگر نمازی رُکوع یا سجدے میں ہے؟
د:- اس مسئلے میں چھوٹی اور بڑی مسجد کا الگ الگ کیا حکم ہے؟ اور کم از کم کتنی بڑی مسجد کو ’’مسجدِ کبیر‘‘ کہا جائے گا؟
جواب:- الف:- اگر مسجد چھوٹی سی ہے تو نمازی کے آگے سے بغیر سترہ کے بالکل نہیں گزرنا چا ہئے، اور اگر مسجد بڑی ہے یا
ب،ج:- کھلی جگہ میں نماز پڑھ رہا ہے تو اتنے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ نظر رکھے تو اسے گزرنے والا نظر نہ آتا ہو، جو تقریباً سجدے کی جگہ سے دو گز کے فاصلے تک ہوتا ہے۔ رُکوع، سجدہ، قیام، قومہ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اور قیام کی حالت میں اگر نماز پڑھنے والا سجدے کی جگہ سے آگے دیکھ رہا ہو تب بھی گزرنے کے لئے فاصلہ اتنا ہی معتبر ہوگا جو اُوپر بیان کیا گیا۔ لما فی رد المحتار: ومقابلہ ما صححہ التمرتاشی وصاحب البدائع واختارہ فخر الاسلام ورجحہ فی النھایۃ والفتح أنہ قدر ما یقع بصرہ علی المار لو صلّی بخشوع أی رامیا ببصرہ الی موضع سجودہ۔ (شامی)۔(۱)
د:- تقریباً چالیس ہاتھ سے کم رقبے کی مسجد ’’چھوٹی‘‘ کہلائے گی، اور اس سے زائد بڑی۔ قال الشامیؒ: قولہ ومسجد صغیر ھو أقل من ستین ذراعًا، وقیل: من أربعین، وھو المختار کما أشار الیہ فی الجواھر۔ (قھستانی، شامی)۔(۲) واللہ سبحانہ اعلم
(۱، ۲) وفی الھندیۃ ج:۱ ص:۷۹ (طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) وان کان لا یمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظا مع الضاد ۔۔۔۔ اختلف المشائخ، قال أکثرھم لا تفسد صلاتہ، ھٰکذا فی فتاویٰ قاضی خان وکثیر من المشائخ أفتوا بہ۔ نیز ضؔ کے مخرج سے متعلق تفصیل کے لئے مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ کا رسالہ ’’رفع التضاد عن حکم الضاد‘‘ جواہر الفقہ ج:۱ ص:۳۲۵ ملاحظہ فرمائیں۔