قادیانیوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہنے کی ممانعت
سوال:- قادیانی جماعت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور کیا قادیانی اپنی مسجد بناسکتے ہیں یا نہیں؟ اور اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ قانوناً و شرعاً کیا حکم ہے؟ اور کیا ایسے فیصلوں کا قانون بنانا دُرست ہے کہ جس میں قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہ مسجد کے نام سے بنانے کی اجازت دی گئی ہو؟ سائل: امام مسجد سبیل، نیوٹاؤن
جواب:- مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکار، خواہ قادیانی ہوں یا لاہوری باجماعِ اُمت دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، اور ان کا دینِ اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس حقیقتِ واقعی کو ستمبر ۱۹۷۴ء میں آئینی طور پر بھی تسلیم کرلیا گیا ہے، اور اس غرض کے لئے پاکستان کے دستور میں ایسی ترمیم کردی گئی ہے جس پر ملک کے تمام مسلمان متفق ہیں۔
اس ترمیم کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ مرزائیوں کو شعارِ اسلام و مسلمین کے اختیار کرنے سے روکا جائے، خاص طور سے کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ اس مذہب کا ایک امتیازی نشان ہوتی ہے، جس سے اس مذہب اور اہلِ مذہب کی شناخت میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ ’’مسجد‘‘ مسلمانوں کی اس عبادت گاہ کا نام ہے جو صرف اور صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہو، کسی دُوسرے مذہب کے پیرووں کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی عبادت گاہ کو ’’مسجد‘‘ کا نام دے کر لوگوں کو مغالطہ دیں اور ان کی گمراہی کا باعث ہوں، بالخصوص مرزائیوں کا معاملہ یہ ہے کہ مدّت دراز تک اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرکے ناواقف لوگوں کو فریب دیتے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر انہیں ’’مسجد‘‘ کے نام سے اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنے یا اسے اس نام پر برقرار رکھنے کی اجازت دی جائے تو اس کا صریح نتیجہ عام مسلمانوں کے لئے سخت فریب میں مبتلا ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، اور پاکستان جیسی اسلامی مملکت میں ایسے فریب کو گوارا نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا احقر کی رائے میں وہ تمام فیصلے جن میں قادیانیوں یا لاہوریوں کو ’’مسجد‘‘ کے نام سے عبادت گاہ بنانے کی اجازت دی گئی ہے، قرآن و سنت، شریعتِ اسلامی اور مصالحِ مسلمین کے یکسر خلاف ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم
احقر اس تحریر کی تصدیق و تائید کرتا ہے
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
محمد رفیع عثمانی عفا اللہ عنہ
۱۸؍۱۰؍۱۳۹۹ھ
۱۸؍۱۹؍۱۳۹۹ھ
(فتویٰ نمبر ۱۷۳۳/۳۰ د)
