’’الہدیٰ انٹرنیشنل‘‘ کے افکار و عقائد کا حکم


سوال:- حضرت جناب مفتی صاحب، زیدت معالیہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سائلہ نے اسلام آباد کے ایک ادارے ’’الہدیٰ انٹرنیشنل‘‘ سے ایک سالہ ڈپلومہ کورس اِن اسلامک اسٹڈیز ( One Year Diploma Course in I.S ) کیا ہے۔ سائلہ اس ادارے میں طلبِ علم کی جستجو میں گئی تھی اور ان کے خفیہ عقائد سے ناواقف تھی، ایک سالہ کورس کے بعد ان کے عقائد کچھ صحیح معلوم نہ ہوئے تو سوچا کہ علمائے کرام سے فتویٰ طلب کیا جائے، تاکہ اُمتِ مسلمہ کی بیٹیوں تک عقائدِ صحیحہ کو پہنچاکر ان کو گمراہی سے بچایا جاسکے۔ ہماری اُستاد اور ’’الہدیٰ انٹرنیشنل‘‘ کی نگران محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کے نظریات کا نچوڑ پیشِ خدمت ہے۔
۱:- اِجماعِ اُمت سے ہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا۔
۲:- غیرمسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات کی ہم نوائی۔
۳:- تلبیسِ حق و باطل۔
۴:- فقہی اختلافات کے ذریعے دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا۔
۵:- آسان دین۔
۶:- آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا۔
اب ان بنیادی نکات کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے:-
۱:- اِجماعِ اُمت سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کرنا:
۱:- قضائے عمری سنت سے ثابت نہیں، صرف توبہ کرلی جائے، قضا ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۲:- ۳ طلاقوں کو ایک شمار کرنا۔
۳:- نفلی نمازوں، صلوٰۃ التسبیح، رمضان میں طاق راتوں خصوصاً ۲۷ویں شب میں اجتماعی عبادت کا اہتمام اور خواتین کے جمع ہونے پر زور دینا۔
۲:- غیرمسلم، اسلام بیزار طاقتوں کے خیالات کی ہم نوائی:
۱:- مولوی (عالم)، مدارس اور عربی زبان سے دُور رہیں۔
۲:- علمائ، دین کو مشکل بناتے ہیں، آپس میں لڑتے ہیں، عوام کو فقہی بحثوں میں اُلجھاتے ہیں۔ بلکہ ایک موقع پر تو فرمایا کہ: اگر آپ کو کسی مسئلے میں صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف سے لیں، لیکن علماء کی بات نہ لیں۔
۳:- مدارس میں گرامر، زبان سکھانے، فقہی نظریات پڑھانے میں بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے، قوم کو عربی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ لوگوں کو قرآن صرف ترجمے سے پڑھایا جائے۔
ایک موقع پر کہا (ان مدارس میں جو ۷، ۷، ۸، ۸ سال کے کورس کرائے جاتے ہیں، یہ دین کی رُوح کو پیدا نہیں کرتے، اپنی فقہ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں) اشارہ درسِ نظامی کی طرف ہے۔
۴:- وحیدالدین خان کی کتابیں طالب علموں کی تربیت کے لئے بہترین ہیں، نصاب میں بھی شامل ہیں اور اسٹالز پر بھی رکھی جاتی ہیں، کسی نے احساس دِلایا کہ ان کے بارے میں علماء کی رائے کیا ہے؟ تو کہا کہ: ’’حکمت، مؤمن کی گمشدہ میراث ہے‘‘۔
۳:- تلبیسِ حق و باطل:
۱:- تقلید شرک ہے، (لیکن کون سی برحق ہے اور کس وقت غلط ہے؟ یہ کبھی نہیں بتایا)۔
۲:- ضعیف حدیث پر عمل کرنا تقریباً ایک جرم بناکر پیش کیا جاتا ہے (جب بخاری میں صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے تو ضعیف کیوں قبول کی جائے؟)۔
۴:- فقہی اختلافات کے ذریعے دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا:
۱:- اپنا پیغام، مقصد اور متفق علیہ باتوں سے زیادہ زور دُوسرے مدارس اور علماء پر طعن و تشنیع۔
۲:- ایمان، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کے بنیادی فرائض، سنتیں، مستحبات، مکروہات سکھانے سے زیادہ اختلافی مسائل میں اُلجھادیا گیا، (پروپیگنڈا ہے کہ ہم کسی تعصب کا شکار نہیں اور صحیح حدیث کو پھیلا رہے ہیں)۔
۳:- نماز کے اختلافی مسائل رفعِ یدین، فاتحہ خلف الامام، ایک وتر، عورتوں کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت، ان سب پر صحیح حدیث کے حوالے سے زور دیا جاتا ہے۔
۴:- زکوٰۃ میں غلط مسائل بیان کئے جاتے ہیں، خواتین کو تملیک کا کچھ علم نہیں۔
۵:- آسان دین:
۱:- دین مشکل نہیں، مولویوں نے مشکل بنادیا ہے، دین کا کوئی مسئلہ کسی بھی امام سے لے لیں، اس طرح بھی ہم دین کے دائرے میں ہی رہتے ہیں۔
۲:- حدیث میں آتا ہے کہ آسانی پیدا کرو، تنگی نہ کرو، لہٰذا جس امام کی رائے آسان معلوم ہو وہ لے لیں۔
۳:- روزانہ یٰسین پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں، نوافل میں اصل صرف چاشت اور تہجد ہے، اِشراق اور اَوّابین کی کوئی حیثیت نہیں۔
۴:- دین آسان ہے، بال کٹوانے کی کوئی ممانعت نہیں، اُمہات المؤمنین میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے۔
۵:- دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پکنک، پارٹیاں، اچھا لباس، زیورات کا شوق، محبت، مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اﷲِ۔
۶:- خواتین دین کو پھیلانے کے لئے گھر سے ضرور نکلیں۔
۷:- محترم کا اپنا عمل طالب علموں کے لئے حجت ہے، محرَم کے بغیر تبلیغی دوروں پر جانا، قیام اللیل کے لئے راتوں کو نکلنا، میڈیا کے ذریعے تبلیغ (ریڈیو، ٹی وی، آڈیو)۔
۸:- آداب و مستحبات کی رعایت نہیں، خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن چھوتی ہیں، آیات پڑھتی ہیں، قرآن کی کلاس میں قرآن کے اُوپر نیچے ہونے کا احساس نہیں۔
۶:- متفرقات:
۱:- قرآن کا ترجمہ پڑھاکر ہر معاملے میں خود اجتہاد کی ترغیب دینا۔
۲:- قرآن و حدیث کے فہم کے لئے جو اکابر علمائے کرام نے علوم سیکھنے کی شرائط رکھی ہیں، ان کو بیکار، جاہلانہ باتیں اور سازش قرار دینا۔
۳:- کسی فارغ التحصیل طالبہ کے سامنے دین کا کوئی حکم یا مسئلہ رکھا جائے تو اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلی گلی، محلے محلے ’’الہدیٰ‘‘ کی برانچز کھلی ہوئی ہیں، اور ہر قسم کی طالبہ خواہ ابھی اس کی تجوید ہی دُرست نہ ہوئی ہو آگے پڑھا رہی ہے، اور لوگوں کو مسائل میں بھی اُلجھایا جارہا ہے۔
گھر کے مردوں کا تعلق عموماً مسجد سے ہے (جہاں نماز کا طریقہ فقہِ حنفی کے مطابق ہے)، گھر کی عورتیں مردوں سے اُلجھتی ہیں کہ ہمیں مساجد کے مولویوں پر اعتماد نہیں۔
مطلوبہ سوالات:
۱:- مذکورہ بالا تمام مسائل کی شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں۔
۲:- محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے اس طریقۂ کار کی شرعی حیثیت، نیز محترمہ کی گلاسگو یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۳:- ان کے اس کورس میں شرکت کرنا، لوگوں کو اس کی دعوت دینا، اور ان سے تعاون کرنے کی شرعی نقطۂ نظر سے وضاحت فرمادیجئے، جزاکم اﷲ خیرًا أحسن الجزائ۔
مستفتیہ مسز سیما افتخار
One Year Diploma Holder from Al-Huda International Islamabad
جواب:- سوال میں جن نظریات کا ذکر کیا گیا ہے، خواہ وہ کسی کے بھی نظریات ہوں، ان میں سے اکثر غلط ہیں، بعض واضح طور پر گمراہانہ ہیں، مثلاً: اِجماعِ اُمت کو اہمیت نہ دینا، تقلید کو علی الاطلاق شرک قرار دینا، جس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں اُمتِ مسلمہ کی اکثریت جو ائمۂ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرتی رہی ہے، وہ مشرک تھی، یا یہ کہنا کہ قضائے عمری فوت شدہ نمازوں کو قضا کرنے کی ضرورت نہیں،(۱) صرف توبہ کافی ہے۔ بعض نظریات جمہور اُمت کے خلاف ہیں، مثلاً: تین طلاقوں کو ایک قرار دینا۔ بعض بدعت ہیں، مثلاً: صلوٰۃ التسبیح کی جماعت یا قیام اللیل کے لئے راتوں کو اہتمام کے ساتھ لوگوں کو نکالنا یا خواتین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی ترغیب۔ بعض انتہائی گمراہ کن ہیں، مثلاً: قرآنِ کریم کو صرف ترجمے سے پڑھ کر پڑھنے والوں کو اجتہاد کی دعوت، یا اس بات پر لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ جس مذہب میں آسانی پائیں، اپنی خواہشات کے مطابق اسے اختیار کرلیں، یا کسی کا اپنے عمل کو حجت قرار دینا۔ اور ان میں سے بعض نظریات فتنہ انگیز ہیں، مثلاً: علماء و فقہاء سے بدظن کرنا، دینی تعلیم کے جو ادارے اسلامی علوم کی وسیع و عمیق تعلیم کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ان کی اہمیت ذہنوں سے کم کرکے مختصر کورس کو علمِ دین کے لئے کافی سمجھنا، نیز جو مسائل کسی امامِ مجتہد نے قرآن و حدیث سے اپنے گہرے علم کی بنیاد پر مستنبط کئے ہیں، ان کو باطل قرار دے کر اسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دینا اور اس پر اصرار کرنا۔
جو شخصیت یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو، اور اس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو، وہ نہ صرف یہ کہ بہت سے گمراہانہ، گمراہ کن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے، بلکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، اور اگر کوئی شخص سہولتوں کی لالچ میں اس قسم کی کوششوں سے دین کے قریب آئے گا بھی، تو مذکورہ بالا فاسد نظریات کے نتیجے میں وہ گمراہی کا شکار ہوگا، لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت ان نظریات کی حامل اور مبلغ ہو، اور اپنے دُروس میں اس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو، اس کے درس میں شرکت کرنا اور اس کی دعوت دینا، ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں، خواہ اس کے پاس کسی قسم کی ڈگری ہو، اور گلاسگو یونیورسٹی کی ڈگری بذاتِ خود اسلامی علوم کے لحاظ سے کوئی قیمت نہیں رکھتی، بلکہ غیرمسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مستشرقین نے اسلامی تحقیق کے نام پر اسلامی اَحکام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور دین کی تحریف کا ایک سلسلہ عرصۂ دراز سے شروع کیا ہوا ہے۔
ان غیرمسلم مستشرقین نے، جنھیں ایمان تک کی توفیق نہیں ہوئی، اس قسم کے اکثر ادارے درحقیقت اسلام میں تحریف کرنے والے افراد تیار کرنے کے لئے قائم کئے ہیں، اور ان کے نصاب و نظام کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے – اِلَّا ما شاء اﷲ- اکثر و بیشتر دجل و فریب کا شکار ہوکر عالمِ اسلام میں فتنے برپا کرتے ہیں۔ لہٰذا گلاسگو یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی کوئی ڈگری نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے مستند عالم ہونے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ اس سے اس کے دینی فہم کے بارے میں شکوک پیدا ہونا بھی بے جا نہیں۔
دُوسری طرف بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کیں، اور عقائدِ فاسدہ کے زہر سے محفوظ رہے، اگرچہ ان کی تعداد کم ہے، لہٰذا یہ ڈگری نہ کسی کے مستند عالم ہونے کی علامت ہے، اور نہ محض اس ڈگری کی وجہ سے کسی کو مطعون کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ اس کے عقائد و اعمال دُرست ہوں۔
مذکورہ بالا جواب ان نظریات پر مبنی ہے جو سائلہ نے اپنے استفتاء میں ذکر کئے ہیں، اب کون شخص ان نظریات کا کس حد تک قائل ہے؟ اس کی ذمہ داری جواب دہندہ پر نہیں ہے۔
واللہ سبحانہ اعلم
۲۱؍۴؍۱۴۲۲ھ
(فتویٰ نمبر ۱/۴۸۶)