متفر ق مسائل


امام کے شرعی اوصاف

سوال:- ایک امام جو تمام اوقات کی نماز پڑھاتا ہو، اس کے شرعی اوصاف کیا ہونے چاہئیں؟ کیا اس میں جسمانی اعضاء کا بھی لحاظ ہے؟ مثلاً جس شخص کا ہاتھ پیدائشی طور پر مفلوج ہو، یا پیدائشی چھوٹا ہو اور وہ تکبیر کے وقت ہاتھ کانوں تک نہ لے جاسکتا ہو، کیا اس عذر کا شخص نماز پڑھانے کا اہل ہے؟
جواب:- سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ امام، بارگاہِ خدواندی میں مسلمانوں کی درخواست پیش کرنے کے لئے ایک نمائندہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے شریعت کی طرف سے اس کے کچھ مخصوص اوصاف مقرّر کئے گئے ہیں، تاکہ یہ نمائندہ مسلمانوں کے شایانِ شان ان کی نمائندگی کرسکے۔ ان اوصاف میں سے بعض تو لازمی ہیں، اور جس شخص میں یہ اوصاف نہ پائے جاتے ہوں اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، اور بعض اوصاف ایسے ہیں کہ ان کے بغیر نماز ہوجاتی ہے، مگر مکروہ رہتی ہے، اور بعض اوصاف صرف مستحسن اور پسندیدہ ہیں، ان کے بغیر نماز میں کوئی کراہت نہیں آتی، مگر بہتر یہ ہے کہ امام اسی شخص کو بنایا جائے جس میں یہ اوصاف بھی موجود ہوں۔
لازمی اوصاف جن کے بغیر مقتدیوں کی نماز ہی نہیں ہوسکتی، مندرجہ ذیل ہیں:-
۱:- امام مسلمان ہو، بالغ ہو، دیوانہ نہ ہو، نشے میں نہ ہو۔
۲:- نماز کا طریقہ جانتا ہو۔
۳:- نماز کی تمام شرائط وضو وغیرہ اس نے پوری کر رکھی ہوں۔
۴:- کسی ایسے مرض میں مبتلا نہ ہو، جس کی وجہ سے اس کا وضو قائم نہ رہتا ہو، مثلاً مسلسل نکسیر وغیرہ (ایسے شخص کو فقہاء معذور کہتے ہیں، ایسا شخص اپنے جیسے معذور کی امامت تو کرسکتا ہے، مگر تندرست لوگوں کا امام نہیں بن سکتا)۔
۵:- رُکوع اور سجدے پر قادر ہو، اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ رُکوع سجدے پر قادر نہ ہو تو تندرست لوگوں کی امامت نہیں کرسکتا۔
۶:- گونگا، توتلا یا ہکلا نہ ہو۔
اور دُوسری قسم کے اوصاف جن کے بغیر نماز مکروہ رہتی ہے، مندرجہ ذیل ہیں:-
۱:- صالح ہو، یعنی کبیرہ گناہوں میں مبتلا نہ ہو۔
۲:- فاسد العقیدہ نہ ہو۔
۳:- نماز کے ضروری مسائل سے واقف ہو۔
۴:- قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح طریقے سے کرسکتا ہو۔
۵:- کسی ایسے جسمانی عیب میں مبتلا نہ ہو جس کی وجہ سے اس کی پاکیزگی مشکوک ہوجائے، یا لوگ اس سے گھن یا اس کا استخفاف کرتے ہوں۔ اسی وجہ سے نابینا، مفلوج، ابرص وغیرہ کے پیچھے نماز پڑھنے کو فقہاء نے خلافِ اَوْلیٰ قرار دیا ہے، لیکن یہ کراہت اسی وقت ہے جب اس سے بہتر دُوسرا امام مل سکتا ہو، اگر اس سے بہتر نہ مل سکے تو کوئی کراہت نہیں ہے۔ (شامی ج:۱ ص:۵۲۳ تا ۵۲۵)
یہ تمام اوصاف تو قانونی انداز کے تھے، ان کے علاوہ چونکہ امامِ مسجد اپنے محلے کا دینی مرکز اور ایک طرح سے مربی بھی ہوتا ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ مندرجہ ذیل مزید اوصاف اس میں پائے جاتے ہوں:-
حاضرین میں علمِ دین اور تلاوتِ قرآن کے اعتبار سے سب سے زیادہ بلند رُتبہ ہو۔
خوش اخلاق، شریف النسب، باوقار اور وجیہ ہو۔
صفائی، ستھرائی، تقویٰ اور طہارت کا خیال رکھتا ہو۔
مستغنی طبیعت رکھنے والا اور سیر چشم ہو، اور محلے کی دینی تربیت کے لئے جتنے اوصاف کی ضرورت ہے، وہ اس میں پائے جاتے ہوں۔
محلے کی مساجد میں امام کا انتخاب کرتے وقت ان اوصاف کی رعایت کرلی جائے تو محلے میں ایک نہایت خوشگوار دینی ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بالا تشریح کے بعد آپ کے تمام سوالات کا جواب خودبخود واضح ہوجاتا ہے۔ جس شخص کے ہاتھ اتنے چھوٹے ہوں کہ وہ کانوں تک نہ پہنچتے ہوں تو اگر اس میں کوئی اور عیب نہیں ہے تو اس کے پیچھے بلاکراہت نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم
۲۵؍محرّم ۱۳۸۷ھ

امام کا تکبیر کے وقت بیٹھے رہنا اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا
سوال:- جب تکبیر شروع ہوتی ہے تو امام صاحب بیٹھے رہتے ہیں، اور ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوتے ہیں، یہ صحیح ہے یا نہیں؟
جواب:- صحیح طریقہ یہ ہے کہ تکبیر کی ابتداء ہی میں تمام مقتدی کھڑے ہوکر صفیں دُرست کرلیں، اور بعض مقامات پر جو رواج ہوگیا ہے کہ امام اور مقتدی باہر سے آکر بیٹھ جانے کا اہتمام کرتے ہیں اور ’’حی علی الفلاح‘‘ سے پہلے کھڑا ہونے کو بُرا جانتے ہیں، یہ طرزِ عمل دُرست نہیں۔ فقہاء نے جو لکھا ہے کہ ’’حی علی الفلاح‘‘ پر کھڑے ہوجانا چاہئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’حی علی الفلاح‘‘ کہنے کے بعد کوئی بیٹھا نہ رہے، یہ مطلب نہیں کہ پہلے کھڑا ہونا ناجائز ہے۔ اس مسئلے کی پوری تفصیل جواہر الفقہ(۲) مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں موجود ہے۔ تفصیل کے لئے اس کی طرف رُجوع فرمالیں۔

واللہ سبحانہ اعلم
۲۵؍۱۰؍۱۳۹۶ھ
(فتویٰ نمبر ۲۴۴۸/۲۷ ہ)

۱:- جمعہ کی سنتوں کی تعداد
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ پڑھنے کا طریقہ

سوال۱:- جمعہ کے بعد کتنی سنتیں پڑھنی چاہئیں؟
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ کس طرح پڑھنی چاہئے؟ اور اس میں کیا پڑھیں؟
جواب۱:- جمعہ کے بعد چھ رکعات مسنون ہیں، پہلے چار، پھر دو پڑھیں تو بہتر ہے، اور اس کے برعکس بھی جائز ہے۔
۲:- سنتِ غیرمؤکدہ کا کوئی الگ طریقہ نہیں، نہ کوئی خاص قراء ت مقرّر ہے، بلکہ اور نمازوں ہی کی طرح پڑھی جائے۔

واللہ سبحانہ اعلم
۲۲؍۱؍۱۳۹۷ھ
(فتویٰ نمبر  ۱۵۶/۲۸   الف)

تصویر والے کمرے میں نماز پڑھنے کا حکم
سوال:- جس کمرے میں کسی مرد یا عورت کا فوٹو آویزاں ہو تو اس جگہ نماز ہوسکتی ہے یا نہیں؟
جواب:- جس مکان میں کسی ذی رُوح کی تصویر لگی یا لٹکی ہو اس میں نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، اور سب سے زیادہ کراہت اس تصویر میں ہے جو نمازی کے سامنے جانبِ قبلہ میں ہو، پھر وہ جو نمازی کے سر پر معلق ہو، پھر وہ جو اس کے داہنے ہو، پھر وہ جو بائیں جانب ہو، اور سب سے کم کراہت اس میں ہے کہ نمازی کے پیچھے کسی دیوار وغیرہ میں ہو، اور اگر تصویر قدموں کے نیچے ہو تو اس وقت بھی بعض فقہاء کے نزدیک کراہت ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ہے، لہٰذا پرہیز اس سے بھی کرنا چاہئے۔ کذا فی رد المحتار ج:۱ ص:۴۳۵، باب ما یفسد الصلٰوۃ ویکرہ فیھا۔(۱)

واللہ اعلم
۲۲؍۱۱؍۱۳۹۶ھ
(فتویٰ نمبر ۲۵۹۶/۲۷ و)