کفریاتِ پرویز (۱)

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 612)
کفریاتِ پرویز
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا:اخوف مااخاف علی امتی کل منافق علیھم اللسان( مجھے سب سے زیادہ ڈرا پنی امت پر ہر اس منافق سے ہے جو زبان داں ہو) مسٹر پرویز بھی ان ہی منافقین میں داخل ہیں جن کو کچھ اردو لکھنے کا سلیقہ آگیا ہے اور انہوں نے اپنے اس سلیقہ سے بجائے اس کے کہ ادب اردو کی کچھ خدمت کرتے مذہب کو تختہ مشق بنا رکھا ہے اور اس طرح جو قلم کہ لیلیٰ مجنوں کے خطوط یا کسی ادبی افسانے کے لئے وقف ہوتا وہ اب دین و مذہب کی تحریف میں منہمک ہے، ہمارے ملک کی جو آبادی اردو پڑ ھی لکھی ہے ان میں سے جو لوگ مذہبی معلومات کے حامل ہیں وہ تو ان کی انشاء پردازی سے مسحور نہیں ہو سکتے لیکن ہماری نئی پود جودینی معلومات کے سلسلہ میں بالکل خالی الذہن ہے وہ ان کی ملمع کاری کے فریب میں آجاتی ہے اور یہی نسل اصل میں ان کی شکار گاہ ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے اپنے اس مقالہ میں مسٹر پرویز کی کفریات کو مختصر انداز میں اس طرح جمع کردیا ہے کہ ان کو پڑھ کر ایک ادنیٰ مسلمان بھی ان شاء اللہ مسٹر پرویز کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوگا، یوں مسٹر پرویز کے کفر کے متعلق علماء کا متفقہ فتویٰ عرصہ ہوا کہ شائع ہوچکا ہے۔‘‘(ادارہ)

۲)جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اُڑاتے ہوں ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات ،نشست وبر خاست وغیرہ بھی حرام ہے۔

۳)جو کافر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے۔

۴)مرتد کو سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے۔ اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں یہاں تک کہ اگر پیاس سے جاں بلب ہو کرتڑپ رہا ہو تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے۔

۵)جو کافر مرتد اور باغی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوں ان سے خرید و فروخت اور لین دین، جبکہ اس سے ان کو تقویت حاصل ہوتی ہو، جائز نہیں بلکہ ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے ان کی جارحانہ قوت کو مفلوج کردینا واجب ہے۔

۶)مفسدودں سے اقتصادی مقاطعہ کرنا ظلم نہیں بلکہ شریعت اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوہ رسول اللہﷺ ہے۔

۷)اقتصادی اور معاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدین، موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں: قتل کرنا ، شہر بدر کرنا، ان کے گھروں کو ویران کرنا، ان پر ہجوم کرنا وغیرہ

۸)اگر محارب کافروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زد میں آجائیں تو اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی،ہاں اصالۃً عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں۔

۹)ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کرے تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار کے اندر ہوں اور ظاہر ہے کہ عوام کے اختیار میں مکمل مقاطعہ ہی ایک ایسا اقدام ہے جو مؤثر بھی ہے اور پر امن بھی۔

۱۰)مکمل مقاطعہ صرف کافروں اور مفسدوں سے ہی جائز نہیں بلکہ کسی سنگین نوعیت کے معاملہ میں ایک مسلمان کو بھی یہ سزا دی جا سکتی ہے۔

۱۱)زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر اندرونی طور پر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعہ اسلامی نصوص کو عقائد خبیثہ پرچسپاں کرتا ہو، اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدتر ہے کہ کافر اور مرتد کی توبہ باتفاق قابل قبول ہے مگر بقول شامی زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے، نہ کلمہ، نہ اس کی توبہ ہی قابل التفات ہے الّایہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برأت کا اعلان کرے۔

ان اصول کی روشنی میں زیر بحث فرد یا جماعت کی حیثیت اور ان سے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی و سیاسی مقاطعہ( یامکمل سوشل بائیکاٹ) کا شرعی حکم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔( بینات ذوالحجہ ۱۳۹۵ھ)

اللہ ورسول:

ا)… اللہ ورسول سے مراد ہی ’’مرکزِ ملت (Central Athority ) ہے اور اولی الامر سے مفہوم ’’افسرانِ ماتحت‘‘ (معارف القرآن ازپرویزج ۲ ص ۶۲۶)

۲)…قرآن کریم میں جہاں اللہ اور رسول کا ذکر آیا ہے اس سے مراد مرکزِ نظام حکومت ہے۔ (معارف القرآن ازپرویز ج۴ص ۶۲۳)

۳)…بالکل واضح ہے کہ اللہ اور رسول سے مراد ’’مرکز حکومت‘‘ ہے۔( معارف القرآن ازپرویز ج ۴ ص ۲۵۴)

۴)…اللہ اور رسول سے مراد ہی ’’مرکز ملت‘‘ ہے۔( ج ۴ ص ۶۵۴)

۵)…اللہ اور رسول سے مراد’’مسلمانوں کا امام‘‘ ہے۔( ج ۴ ص ۶۴۴)

۶)…بعض مقامات پر اللہ اور رسول کے الفاظ کے بجائے قرآن اور رسول کے الفاظ بھی آئے ہیں جن کا مفہوم بھی وہی ہے یعنی ’’مرکز ملت‘‘ جو قرآنی احکام کو نافذ کرے۔ ( ج ۴ ص ۶۳۰)

۷)…قرآن کریم میں مرکز ملت کو اللہ اور رسول کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔( ج۴ ص ۶۳۱)

اللہ اور رسول کی اطاعت:

۱)…’’اللہ اور رسول کی اطاعت‘‘ سے مراد مرکزی حکومت کی اطاعت ہے جو قرآنی احکام کو نافذ کرے گی۔( اسلامی نظام ازپرویز ص ۸۶)

۲)…اللہ اور رسول یعنی’’مرکز نظام ملت‘‘ کی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے۔( معارف ج ۴ ص ۶۳۱۱)

۳)… رسول اللہ کے بعد’’خلیفۃ الرسول‘‘ رسول اللہ کی جگہ لے لیتا ہے اور اب خدا اور رسول کی اطاعت سے مراد یہی جدید مرکز ملت کی اطاعت ہوتی ہے۔( معارف ج ۴ ص ۲۸۶۱)

۴)…اس آیت مقدسہ میں عام طور پر اولی الامر سے مراد لئے جاتے ہیں ارباب حکومت(مرکزی اور ماتحت سب کے سب)

اور اس کی تشریح یوں کی جاتی ہے کہ اگر قوم کو حکومت سے اختلاف ہوجائے تو اس کے تصفیہ کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن( اللہ) اور حدیث( رسول ) کو سامنے رکھ کر مناظرہ کیا جائے اور جو ہار جائے فیصلہ اس کے خلاف ہوجائے ۔

ذراغور فرمائیے کہ دنیا میں کوئی نظام حکومت اس طرح قائم بھی رہ سکتا ہے کہ جس میں حالت میں یہ ہو کہ حکومت ایک قانون نافذ کرے اور جس کا جی چاہے اس کی مخالفت میں کھڑا ہوجائے اور قرآن و احادیث کی کتابیں بغل میں داب کر مناظرہ کا چیلنج دیدے…

٭…٭…٭
کفریاتِ پرویز (۲)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 613)
کفریاتِ پرویز
اس آیت مقدسہ کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ اس میں اللہ اور رسول سے مراد’’مرکز ملت‘‘(Central Athority ) اور اولی الامر سے مفہوم افسران ماتحت، اس سے مطلب یہ ہے کہ اگر کسی مقامی افسر سے کسی معاملہ میں اختلاف ہوجائے تو بجائے اس کے کہ وہیں مناقشہ شروع کردو امرمتنازع فیہ کو مرکزی حکومت کے سامنے پیش کردواسے مرکزی حکومت کی طرف(Refer)کر دو، مرکز کا فیصلہ سب کے لئے واجب التسلیم ہوگا۔( اسلامی نظام ص ۱۱۰)

رسول کو قطعاً یہ حق نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے:

’’یہ تصور قرآن کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے کہ اطاعت اللہ کے سوا کسی اور کی بھی ہو سکتی ہے۔حتی کہ خود رسول اللہﷺ کے متعلق واضح اور غیر مبہم الفاظ میںبتلادیا گیا ہے کہ اسے بھی قطعاً یہ حق حاصل نہیں ہے کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے، لہٰذا اللہ اور رسول سے مراد وہ مرکز نظام دین ہے جہاں سے قرآنی احکام نافذ ہوں‘‘( معارف ج ۴ ص ۶۱۶)

رسول کی حیثیت:
۱)…’’اور تو اور انسانوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہستی ( محمدﷺ) کی پوزیشن بھی اتنی ہی ہے کہ وہ اس قانون کا انسانوں تک پہنچانے والا ہے، اسے بھی کوئی حق نہیں کہ کسی پر اپنا حکم چلائے خدا اپنے قانون میںکسی کو شریک نہیں کرتا۔‘‘

۲)…پھر اسے بھی سوچئے کہ محبت رسول سے مفہوم کیا ہے؟ یہ مفہوم قرآن نے خود متعین کردیا ہے جب نبی اکرمﷺ خود موجود تھے توبہ حیثیت مرکز ملت آپﷺ کی اطاعت فرض اولین تھی۔

رسول اللہ کی اطاعت اس لئے نہیں کہ وہ زندہ نہیں:
عربی زبان میں اطاعت کے معنی ہی کسی زندہ کے احکام کی تابعداری ہے، اسلامی نظام میں اطاعت امام موجودکی ہوگی جو قائم مقام ہوگا خدا اور رسول کا یعنی’’مرکز نظام حکومت اسلامی‘‘

ختم نبوت کامطلب:
۱)…ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ اب دنیا میں انقلاب شخصیتوں کے ہاتھوں نہیں بلکہ تصورات کے ذریعہ رونما ہوا کرے گا اور انسانی معاشرہ کی باگ ڈور اشخاص کی بجائے نظام کے ہاتھ میں ہوا کرے گی۔

۲)…اب سلسلہ نبوت ختم ہوگیا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ اب انسانوں کو اپنے معاملات کے فیصلے آپ کرنے ہوں گے صرف یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کا کوئی فیصلہ ان غیر متبدل اصولوں کے خلاف نہ ہو جائے جو وحی نے عطا کئے ہیں اور جواب قرآن کی دفتین میں محفوظ ہیں۔

۳)…تم نے دیکھ لیا سلیم! کہ ختم نبوت کا مفہوم یہ تھا کہ اب انسانوں کو صرف اصولی راہ نمائی کی ضرورت ہے، ان اصولوں کی روشنی میں تفصیلات وہ خود متعین کریں گے لیکن ہمارے ہاں یہ عقیدہ پیدا ہوگیا( اور اسی عقیدے پر مسلمانوں کا عمل چلا آرہا ہے) کہ زندگی کے ہر معاملہ کی ہر تفصیل بھی پہلے سے متعین کردی گئی ہے اور ان تفاصیل میں اب کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا، یہ عقیدہ اس مقصد عظیم کے منافی ہے جس کے لئے ختم نبوت کا انقلاب عمل میں آیا تھا۔

قرآن عبوری دور کے لئے:
۱)…اب رہا یہ سوال کہ اگر اسلام میں ذاتی ملکیت نہیں تو پھر قرآن میں وراثت وغیرہ کے احکام کس لئے دئیے گئے ہیں؟سواس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن انسانی معاشرے کو اپنے متعین کردہ پروگرام کی آخری منزل تک آہستہ آہستہ بتدریج پہنچاتا ہے۔ اس لئے وہ جہاں اس پروگرام کی آخری منزل کے متعلق اصول اور احکام متعین کرتا ہے عبوری دور کے لئے بھی ساتھ کے ساتھ راہنمائی دیتا چلا جاتا ہے، وراثت، قرضہ، لین دین، صدقہ و خیرات سے متعلق احکام اس عبوری دور سے متعلق ہیں جس میں سے معاشرہ گزر کر انتہائی منزل تک پہنچتا ہے۔

۲)…قرآن میں صدقہ و خیرات وغیرہ کے لئے جس قدر ترغیبات و تحریصات یا احکام وضوابط آتے ہیں وہ سب اسی عبوری دور(Transitional Period) سے متعلق ہیں ۔

۳)…اس نظام کے قیام کے بعد کوئی مفلس اور محتاج باقی نہیں رہ سکتا، لہٰذا مفلسوں اور محتاجوں کے متعلق اس قسم کے احکام صرف عبوری دور سے متعلق ہیں۔

شریعت محمدیہ منسوخ:
۱)…’’طلوع اسلام‘‘ بار بار متنبہ کرتا رہتا ہے اوراب پھر ملت کو متنبہ کرتا ہے کہ خدا کے لئے ان چور دروازوں کو بند کرو، دین کی بنیاد صحیح قرآن اور فقط قرآن ہے جو ابدالآباد تک کے لئے واجب العمل ہے، روایات اس عہد مبارک کی تاریخ ہیں کہ رسول اللہﷺ والذین معہ نے اپنے عہد میں قرآنی اصول کو کس طرح متشکل فرمایا تھا، یہ اس عہد مبارک کی شریعت ہے قرآنی اصول کی روشنی میں کسی فرد واحد کوجزئیات مستنبط کر کے اپنے عہد کے لئے شریعت بنادینے کا حق نہیں ہے، خواہ وہ کتنا ہی اتباع محمدی( بقول مرزا) یا کتنا ہی مزاج شناسی رسول( بقول مودودی) کا دعویدار کیوں نہ ہو بلکہ یہ حق صرف صحیح قرآنی خطوط پر قائم شدہ مرکز ملت اور اس کی مجلس شوریٰ کا ہے کہ وہ قرآنی اصول کی روشنی میں صرف ان جزئیات کو مرتب و مدون کر سکے جن کی قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی پھریہ جزئیات ہر زمانے میں ضرورت پڑنے پر تبدیل کی جا سکتی ہیں یہی اپنے زمانے کے لئے شریعت ہیں۔

۲)…اگر رسول اللہﷺ کی متعین فرمودہ جزئیات کو قرآنی جزئیات کی طرح قیامت تک واجب الاتباع( یعنی ناقابل تغیر و تبدل) رہنا تھا توقرآن نے ان جزئیات کو بھی خود ہی کیوں نہ متعین کردیا؟یہ سب جزئیات ایک ہی جگہ مذکور اور محفوظ ہوجائیں … اگر خدا کا منشاء یہ ہوتا کہ زکوٰۃ کی شرح قیامت تک لئے اڑھائی فی صد ہونی چاہئے تو وہ اسے قرآن میں خود نہ بیان کردیتا، اس سے ہم ایک نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ منشائے خدا وندی تھا ہی نہیں کہ زکوٰۃ کی شرح ہرزمانے میں ایک ہی رہے۔

ساری شریعت میں ردوبدل:
۱)…قرآن کے ساتھ انسان کو بصیرت عطا ہوئی ہے اس لئے جن امور کی تفصیل قرآن نے خود بیان نہیں کی ان کی تفصیل قرآنی اصولوں کی روشنی میں ازروئے بصیرت متعین کی جائے گی یہی رسول اللہﷺ نے کیا اور ہمارے لئے بھی ایسا کرنا منشائے قرآنی اور سنت رسول اللہ کے عین مطابق ہے، اس باب میں اخلاق ،معاملات اور عبادات میں کوئی تفریق و تخصیص نہیں اگر تفریق مقصود ہوتی تو عبادات کی جزئیات قرآن خود ہی متعین کردیتا۔

۲)…جس اصول کا میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا ہے وہ قانون اور عبادات دونوں پر منطبق ہوگا، یعنی اگر جانشین رسول اللہ( قرآنی حکومت) نماز کی کسی جزئی شکل میں جس کا تعین قرآن نے نہیں کیا اپنے زمانے کے کسی تقاضے کے ماتحت کچھ ردوبدل ناگزیر سمجھے تو وہ ایسا کرنے کی اصولاً مجاز ہوگی۔
کفریاتِ پرویز (۳)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 614)
کفریاتِ پرویز
انکار حدیث:
۱)مسلمان کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے جو سازش کی گئی اس کی پہلی کڑی یہ عقیدہ پیدا کرنا تھا کہ رسول اللہﷺ کو اس وحی کے علاوہ جوقرآن میں محفوظ ہے ایک اور وحی بھی دی گئی تھی جو قرآن کے ساتھ بالکل قرآن کے ہم پایا( مثلہ معہ) ہے یہ وحی روایات میں ملتی ہے اس لئے روایات عین دین ہیں، یہ عقیدہ پیدا کیا اور اس کے ساتھ ہی روایات سازی کا سلسلہ شروع کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے روایات کا ایک انبار جمع ہوگیا۔ اس طرح اس دین کے مقابل جو اللہ نے دیا تھا ایک اور دین مدون کر کے رکھ دیا اور اسے’’اتباع رسول اللہ‘‘ قرار دے کر امت کو اس میں اُلجھا دیا۔

مسلمانوں کا مذہب حدیث یعنی جھوٹ ہے:
۲)بہر حال جھوٹ پہلی سازش کے ماتحت بو لا گیا یا بعد میں’’اہلیان مسجد‘‘ نے’’نیک کاموں‘‘ کے لئے اس جھوٹ کی حمایت کی، نتیجہ دونوں کا ایک ہے یعنی یہ جھوٹ مسلمانوں کا مذہب بن گیا وحی غیر متلو اس کا نام رکھ کر اسے قرآن کے ساتھ قرآن کی مثل ٹھہرادیا گیا۔

احادیث کا مذاق اُڑانا:
آئیے ہم آپ کو چند ایک نمونے دکھائیں ان ’’احادیث مقدسہ‘‘ کے جو حدیث کی صحیح ترین کتابوں میں محفوظ ہیں اور جو ملّا کی غلط انگہی اور کوتاہ اندیشی سے ہمارے دین کا جزو بن رہی ہیں، دیکھئے کہ ان احادیث کی روسے وہی جنت جس کے حصول کا قرآنی طریقہ اوپر مذکور ہے کتنے سستے داموں ہاتھ آجاتی ہے لیجئے اب روایات کی رو سے جنت کے ٹکڑے خریدئیے دیکھئے کتنی سستی کی جاری ہے۔

مصافحہ:سب سے پہلے السلام علیکم کیجئے اور ہاتھ ملائیے، لیجئے جنت مل گئی ابو دائود کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جب دو مسلمان مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے جدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا ہے۔ اب مسجد میں چلئے اور وضو کیجئے جنت حاضر ہے۔

وضو سے جنت:مسلم شریف کی حدیث ہے کہ وضو کرنے والے کے تمام گناہ پانی کے ساتھ ٹپک جاتے ہیں یہاں تک کہ پانی کا آخری قطرہ ہر عضو کے آخری گناہ کو ساتھ لے کر ٹپکتا ہے۔ کہئے کس قدر سستی رہی جنت! وضو کیا تو تمام گناہ اس کے پانی میں بہہ گئے اور اگر ساتھ دورکعتیں نفل بھی پڑھ لئے تو خود رسول اللہﷺ سے بھی آگے آگے جنت میں پہنچ گئے۔

اس سے بھی آسان:مسلم کی حدیث ہے کہ جو شخص مؤذن کے جواب میں اذان کے الفاظ دہراتا ہے تو یہ شخص جنت میں جائے گا۔

گناہ:جسے قانون کی اصطلاح میں جرم کہا جاتا ہے اسے مذہب کی زبان میں گناہ کہتے ہیں جرم ایک مرتبہ بھی کم نہیں ہو تا لیکن عادی مجرم کے لئے تو سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوتی اس کے برعکس مُلّا کے مذہب نے جرائم کے لئے ایسا لائسنس دے رکھا ہے کہ صبح سے شام تک جر م پر جرم کئے جائو لیکن ساتھ نمازیں بھی پڑھتے جائو سب جرم معاف ہوتے جائیں گے۔

باجماعت نماز:ترمذی کی حدیث ہے کہ چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے والا دوزخ اور نفاق دونوں سے بری کردیا جاتا ہے ۔لیجئے ایک چلہ پورا کرلیجئے اور عمر بھر کے لئے جو جی میں آئے کیجئے دوزخ میں آپ کبھی نہیں جا سکتے۔

(احادیث نبوی کے ساتھ تمسخر و استہزاء کا یہ سلسلہ اس کتاب کے ص ۱۲۵ تک چلا گیا ہے)

آج اسلام دنیا میں کہیں نہیں:
اس تیرہ سو سال کے عرصہ میں مسلمانوں کا سارا زور اسی میں صرف ہوتا رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو قرآن سے پہلے زمانے کے مذہب میں تبدیل کردیا جائے چنانچہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور آج جو اسلام مروّج ہے وہ زمانہ قبل از قرآن کا مذہب ہو تو ہو قرآنی دین سے اس کاکو ئی واسطہ نہیں۔

ذات باری تعالیٰ:
اور چونکہ’’خدا‘‘ عبارت ہے ان صفات عالیہ سے جنہیں انسان اپنے اندر منعکس کرناچاہتا ہے اس لئے قوانین خداوندی کی اطاعت درحقیقت انسان کی اپنی فطرت عالیہ کے نوایس کی اطاعت ہے۔

آخرت سے مراد مستقبل:
قرآن ماضی کی طرف نگاہ رکھنے کی بجائے ہمیشہ مستقبل کو سامنے رکھنے کی تاکید کرتا ہے اسی کا نام ایمان بالآخرت ہے اور یہ بجائے خویش بہت بڑاانقلاب ہے جسے رسالت محمدﷺ نے انسانی نگاہ میں پیدا کیا ہے یعنی ہمیشہ نگاہ مستقبل پر رکھنی’’وبالا خرۃ ھم یوقنون‘‘ اس زندگی میں بھی مستقبل پر اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی۔

جنت وجہنم:
بہرحال مرنے کے بعد کی’’جنت اور جہنم‘‘ مقامات نہیں ہیں انسانی ذات کی کیفیات ہیں۔

ملائکہ:
۱)اس سے ظاہر ہے کہ ان مقامات میں’’ملائکہ‘‘ سے مرادوہ نفسیاتی محرکات ہیں جو انسانی قلوب میں اثرات مرتب کرتے ہیں۔

۲)قرآن کریم نے’’ملائکہ‘‘ پر ایمان کو اجزائے ایمان میں سے قرار دیا ہے یعنی ایک شخص کے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ، کتب ،رسل ، آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ ملائکہ پر بھی ایمان لائے۔

سوال یہ ہے کہ ملائکہ پر ایمان کے معنی کیا ہیں؟
اس کے معنی یہ ہیں کہ ملائکہ کے متعلق وہ تصوررکھا جائے جو قرآن نے پیش کیا ہے اور انہیں وہی پوزیشن دی جائے جو قرآن نے ان کے لئے متعین کی ہے۔’’ملائکہ‘‘ کے متعلق قرآن میں ہے کہ انہوں نے آدم کو سجدہ کیا یعنی وہ آدم کے سامنے جھک گئے۔ جیسا کہ آدم کے عنوان میں بتایا جا چکا ہے آدم سے مراد خود آدمی( یا نوع انسان) ہے لہٰذا ملائکہ کے آدم کے سامنے جھکنے سے مراد یہ ہے کہ یہ قوتیں وہ ہیں جنہیں نسان مسخر کر سکتا ہے انہیں انسان کے سامنے جھکا ہوا رہنا چاہئے، کائنات کی جو قوتیں ابھی تک ہمارے علم میں نہیں آئیں انہیں چھوڑئیے جو قوتیں ہمارے علم میں آچکی ہیں ان کے متعلق صحیح ایمان یہ ہوگا کہ ان سب کو انسان کے سامنے جھکنا چاہیے۔

اب ظاہر ہے کہ جس قوم کے سامنے کائناتی قوتیں نہیں جھکتیں وہ قوم( قرآن کی رو سے) صف آدمیت میں شمار ہونے کے بھی قابل نہیں، چہ جائیکہ اسے جماعت مومنین کہا جائے( کیونکہ مومن کا مقام عام آدمیوں کے مقام سے کہیں اونچا ہے)

٭…٭…٭
کفریاتِ پرویز (۴)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 615)
کفریاتِ پرویز
جبریل:
انکشاف حقیقت کی روشنی (ذریعہ یا واسطہ) کو جبریل سے تعبیر کیا گیا ہے۔

قرآن پاک کے مفہوم میں الحاد:
نمونہ کے طور پر صرف سورہ فاتحہ کا مفہوم پیش کیا جاتا ہے جو اس کی سات آیتوں کی نمبر وار تشریح ہے۔

۱)زندگی کا ہر حسین نقشہ اور کائنات کا ہر تعمیری گوشہ، خالق کائنات کے عظیم القدر نظام ربوبیت کی ایسی زندہ شہادت ہے جو ہر چشم بصیرت سے بے ساختہ داد تحسین لے لیتی ہے۔

۲)وہ نظام جو تمام اشیائے کائنات اور عالمگیر انسانیت کو ان کی مضمر صلاحیتوں کی نشوونما سے تکمیل تک کے لئے جا رہا ہے، عام حالات میں بتدریج اور ہنگامی صورتوں میں انقلابی تغیر کے ذریعے ۔

۳)انسان کو یہ تمام سامان نشو ونما بلا مزدور معاوضہ ملتا ہے لیکن اس کی ذات کی نشوونما اور اس کے مدارج کا تعین اس کے اعمال کے مطابق ہوتا ہے جن کے نتائج خدا کے اس قانون مکافات کی رو سے مرتب ہوتے ہیں جس پر اسے کامل اقتدار حاصل ہے۔

۴)اے عالمگیر انسانیت کے نشوونما دینے والے! ہم تیرے اسی قانون عدل وربوبیت کو اپنا ضابطہ حیات بناتے اور اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں تو ہمیں اس کی توفیق عطا فرما کہ ہم تیرے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق اپنی صلاحیتوں کی بھرپور اور متناسب نشوونما کر سکیں اور پھر انہیں تیرے ہی بتائے ہوئے طریق کے مطابق صرف کریں۔

۵)ہماری آرزو یہ ہے کہ ہر پروگرام اور طریق جو انسانی زندگی کو اس کی منزل مقصود تک لے جانے کی سیدھی اور متوازن راہ ہے نکھر اور ابھر کر ہمارے سامنے آجائے۔

۶)یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر پچھلی تاریخ میں سعادت مند جماعتیں زندگی کی شادابی و خوشگواری سرفراز ی و سربلندی اور سامانِ زیست کی کشادگی و فراوانی سے بہرہ یاب ہوئی تھیں۔

۷)اور ان کا انجام ان سوختہ بخت اقوام جیسا نہیں ہوا تھا جو اپنے انسانیت سوزجرائم کی وجہ سے یکسر تباہ و برباد ہوگئیں یا جو زندگی کے صحیح راستہ سے بھٹک کر اپنی کوششوں کو نتائج بدوش نہ بنا سکیں اور اس طرح ان کاکاروان حیات، ان قیاس آرائیوں کے سراب اور توہم پرستیوں کے پیچ و خم میں کھو کر رہ گیا۔

(پرویز کی پوری کتاب مفہوم القرآن اسی تحریف و الحاد سے بھرپور ہے، جس کا نمونہ آپ نے ملاحظہ فرمایا،اب تک اس کتاب کے چار پارے شائع ہوچکے ہیں۔

آدم علیہ السلام:
ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ’’آدم‘‘ جس کے جنت سے نکلنے کا قصہ قرآن کریم کے مختلف مقامات میں آیا ہے نبی تھے قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی قرآن کریم نے مختلف مقامات پر قصۂ آدم کی جو تفاصیل بیان کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت سے نکلنے والا آدم کوئی خاص فرد نہیں تھا بلکہ انسانیت کا تمثیلی نمائندہ تھا بالفاظ دیگر قصۂ آدم کسی خاص فرد( یاجوڑے) کا قصہ نہیں بلکہ خود’’ آدمی‘‘ کی داستان ہے عاقبت سنوارنے کے لئے ہے اس نے جس قدر حکم دے رکھے ہیں ان کے متعلق یہ کبھی نہ پوچھو کہ ان کی غایت کیا ہے یہ خداکی باتیں ہیں جو خدا ہی جان سکتا ہے، مذہب میں عقل کا کوئی کام نہیں تم صرف یہ سمجھ لو کہ فلاں بات کا حکم ہے اس لئے اسے کرنا ہے اور اس کا ثواب تمہارے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور یہ تمام پرزیاں قیامت کے دن ترازو میں رکھ کر تولی جائیں گی اور جنت میں لے جانے کا ذریعہ بن جائیں گی۔

نظریۂ ارتقاء:
یہ سوال کہ دنیا میں’’سب سے پہلا انسان‘‘کس طرح وجود میں آگیا ذہن انسانی کے لئے وجہ ہزار حیرت و استعجاب رہا ہے، چنانچہ مذاہب میں جن میں تو ہم پرستی نے حقائق کی جگہ لے رکھی ہے اس عقیدے کے حل میں عجیب و غریب افسانہ طرازیوں سے کام لیا گیا ہے لیکن قرآن کریم نے اس کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہے جس کی طرف علم و بصیرت کے انکشافات راہ نمائی کئے جارہے ہیں سائنس میں متشکل ہوگئے یعنی سب سے پہلے کوئی ایک فرد صورت انسانی میں جلوہ گر نہیں ہوا بلکہ ایک نوع وجود پذیر ہوئی ان متنوع مراحل کی تفصیل قرآن کریم کی آیات جلیلہ میںعجیب انداز میں سمٹی ہوئی ہے۔

ارکان اسلام:
اسلام نظام زندگی میں تبدیلی اس دن سے ہوگئی جب دین مذہب سے بدل گیا اب ہماری صلوٰۃ وہی ہے جو مذہب میں پوجا پاٹ یا ایشور بھگتی کہلاتی ہے ہمارے روزے وہی ہیں جنہیں مذہب میں برت کہتے ہیں ہماری زکوٰۃ وہی شے ہے جسے مذہب دان خیرات کہہ کر پکارتا ہے، ہمارا حج مذہب کی یاترا ہے ہمارے ہاں یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ اس سے ’’ثواب‘‘ ہوتا ہے مذہب کے ہاں اسی کو پن کہتے ہیں اور ثواب سے نجات( مکتی یا salvation) ملتی ہے آپ نے دیکھا کہ کس طرح دین( نظام زندگی) یکسر مذہب بن کررہ گیا اب یہ تمام عبادات اس لئے سرانجام دی جاتی ہیں کہ یہ خدا کا حکم ہے ان امور کو نہ افادیت سے کچھ تعلق ہے نہ عقل و بصیرت سے کچھ واسطہ آج ہم بھی اسی مقام پر ہیں جہاں اسلام سے پہلے دنیا تھی۔

نماز:
۱)عجم میں مجوسیوں( پارسیوں) کے ہاں پرستش کی رسم کو نماز کہا جاتا تھا( یہ لفظ ہی ان کے ہاں کا ہے اور ان کی کتابوں میں موجود ہے) لہٰذا صلوٰۃ کی جگہ نماز نے لے لی اور قرآن کی اصطلاح اقیمواالصلوٰۃ کا ترجمہ ہو گیا نماز پڑھو جب گاڑی نے اس طرح پٹڑی بدلی تو اس کے پہیئے کا ہر چکر اسے منزل سے دور لے جاتا گیا چنانچہ اب حالت جسے قرآن نے تمثیلی انداز میں بیان کیا ہے اس داستان کا آغاز انسان کی اس حالت سے ہوتا ہے جب اس نے قدیم(Primitire) انفرادی زندگی کی جگہ پہلے پہل تمدنی زندگی(Social Life) شروع کی۔

حضورﷺ کو کوئی حسی معجزہ نہیں دیا گیا:
۱)رسول اکرمﷺ کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ نہیں دیا گیا۔

۲)مخالفین بار بار نبی اکرمﷺ سے معجزات کا تقاضا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر بار ان کے مطالبہ کو یہ کہہ رد کردیتا ہے کہ ہم نے رسول کو کوئی حسی معجزہ نہیں دیا، اس کے معجزات صرف دو ہیں:

۱)یہ کتاب جس کی مثل و نظیر کوئی پیش نہیں کر سکتا۔

۲)خود اس رسول کی اپنی زندگی جو سیرت و کردار کے بلند ترین مقام پر فائز ہے، ان کے علاوہ اگر تم معجزات دیکھنا چاہتے ہو تو قل انظروا ماذا فی السموت والارض ارض و سماوات پر غور کرو قدم قدم پر معجزات دکھائی دیںگے، غور کرو سلیم! نبی اکرمﷺ کو تو کوئی حسی معجزہ نہیں دیا جاتا۔

۳)نبی اکرمﷺ کو قرآن کے سوا( جو عقلی معجزہ) ہے کوئی اور معجزہ نہیں دیاگیا۔

٭…٭…٭