نماز کے بعد صلوٰۃ وسلام

مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 622)
نماز کے بعد صلوٰۃ وسلام
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ آج کل عموماً مساجد میں نماز جمعہ کے بعد اور اس کے علاوہ اور اقامت میں صلوٰۃ وسلام پڑھنے کا رواج ہے۔ کیا اس کا ثبوت کتاب اللہ یا احادیث رسولﷺ یا خیر القرون سے ہے؟ واضح رہے کہ صلوٰۃ وسلام نہ پڑھنے والوں کو مورد اعتراض ٹھہرایا جاتا ہے۔

الجواب باسمہٖ تعالیٰ

اس امت مرحومہ پر خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کے احسانات بے حد وبے حساب ہیں، آپﷺ نے کفرو شرک کی نجاست وغلاظت سے پاک کیا، اللہ تک پہنچنے کا صحیح راستہ امت کو بتلایا، انسان کی فلاح وکامیابی کا نسخہ کیمیا بلا کم و کاست اس تک پہنچایا، ہدایت وضلالت کا فرق واضح کیا اور ایک ایسا ابدی نظام حیات عطاء فرمایا جس پر چل کر امت دنیا کی کامیابی اور آخرت کی فلاح وکامرانی حاصل کرسکتی ہے وغیر ذلک۔

ایسے محسن کے احسانات کا بدلہ نہ دینا بہت بڑی ناشکری اور نا سپاسی تھی لیکن امت کس طرح بدلہ دے سکتی ہے؟ اور کس طرح اس سے عہدہ بر آہوسکتی ہے؟ اس مقصد کے لئے اللہ تبارک نے اپنے نبیﷺ پر درود وسلام بھیجنے کا حکم فرمایا، درود شریف حقیقت میں نبی کریمﷺ کے احسانات عظیمہ کا اقرار اور آپﷺ کی ذات اقدس سے اپنے تعلق کا اظہار اور آپ ﷺکے احسانات کا بدلہ نہ دے سکنے کا اعتراف ہے اسی لئے قرآن کریم میں اس کا حکم دیا گیا ہے، احادیث نبویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں اس کے فضائل وبرکات بیان کئے گئے اور درود وسلام نہ بھیجنے والوں کی مذمت کی گئی ہے احادیث اس باب میں کثیر ہیں، فقہاء امت نے اس کے بارے میں مستقل احکام بیان کئے ہیں۔

فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ جب بھی آپﷺ کا نام نامی زبان پر آئے درود شریف پڑھنا واجب ہے۔

قال الطحاوی ویجب کلما ذکر وجعل فی التحفۃ قول الطحاوی اصح وھو المختار (شرح المنیۃ ص ۳۸۰)
والمعتمد من المذہب قول الطحاوی کذا ذکر الباقلانی(رد المحتار ص ۴۸۳ ج۱)
اس کے علاوہ عمر میں ایک صلوٰۃ وسلام پڑھنا فرض ہے، نماز میں سنت اور عام اوقات میں بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو مستحب ہے۔

الغرض درود شریف پڑھنا بڑی نیکی کا کام اور بہت فضیلت وبرکت کی چیز ہے، البتہ اعمال حسنہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسی وقت قبول ہوں گے جبکہ ان کو اس طریقہ پر انجام دیا جائے جو طریقہ جناب رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور ائمہ مجتہدینؒ سے ثابت ہے، اگر اس طریقہ سے تجاوز کیا گیا اور خود ساختہ طریقے ایجاد کئے گئے، اسی طرح اعمال کے درجات، ایجاد بندہ کے طور پر مرتب کئے گئے تو بجائے اجروثواب کے حبط اعمال وگناہ کا اندیشہ ہے دیکھئے نماز کس قدر اہم عبادت ہے جس کی فرضیت دین کا ایک رکن ہے، لیکن اگر کوئی شخص نماز کو ان اوقات میں پڑھے جن کی ممانعت حدیث میں بیان کی گئی ہے یا بجائے پانچ نمازوں کے چھ نمازیں قرار دے بتلائیے ایسے شخص کو کیا کہا جائے گا۔

اتباع سنت، اعمال حسنہ کی روح ہے اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک اتباع سنت سب سے زیادہ محبوب چیز تھی اور اس میں تھوڑی سی بھی تبدیلی کو یہ حضرات بہت بڑی معصیت اور سنگین جرم شمار کرتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کا حصہ نہ رکھے یعنی یہ امر ضروری نہ سمجھے کہ امام کے لئے سلام کے بعد داہنی طرف بیٹھنا ضروری ہے۔ میں نے جناب رسول اللہﷺ کو بائیں طرف بیٹھتے ہوئے بھی دیکھا ہے حدیث اس طرح ہے:

عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال لا یجعلن احدکم للشیطان شیئا من صلاتہ یری حقا…الخ

اس کے ذیل میں علامہ طیبیؒ شارح مشکوٰۃ المصابیح لکھتے ہیں:

’’وفیہ ان من اصرعلی امر مندوب وجعلہ عزماً ولم یعمل بالرخصۃ فقد اصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من اصرعلی بدعۃ ومنکر‘‘
اس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی امر مستحب کو ضروری سمجھے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو شیطان کا دائو اس پر چل گیا (کہ شیطان نے اسے گمراہ کردیا) جب کسی مستحب کو ضروری سمجھنے کا یہ حکم ہے تو اندازہ لگائو کہ کسی بدعت یا منکر کو ضروری سمجھنے والے کا کیا حال ہوگا۔

فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کوئی حکم سنت یا بدعت کے درمیان دائر ہو تو ترک سنت راجح ہوگا فعل بدعت کے مقابلے میں۔ چنانچہ ’’درمختار‘‘ میں باب مکروہات الصلوٰۃ میں لکھا ہے:

وقلب الحصاللنھی الالسجودہ التام فیرخص مرۃ وترکھا اولی، قال الشامی قولہ وترکھا اولی لانہ اذاتردد الحکم بین سنۃ وبدعۃ کان ترک السنۃ راجحاً علی فعل البدعۃ(ص ۶۰۰ ج ۱)
فقہاء کرامؒ نے اس امر پر بار بار تنبیہ کی ہے کہ عوام کسی غیر فرض کو فرض نہ بنالیں۔

قال فی الفتح وقیدہ فی التحفۃ بکونہ علی وجہ لا یعلم العوام ذلک کی لایعتاد وافیظنہ الجھال زیادۃ علی رمضان (رد المحتار ص ۱۲۱ ج ۲)
واضح رہے کہ کسی غیر فرض کو فرض سمجھنا اور اس کے نہ کرنے والے پر نکیر واعتراض کرنا بدعت ہے اور بدعت کا ارتکاب کرنا اسلام میں بدترین معصیت ہے۔ اعاذناللہ منھا

جمعہ کی نماز کے بعد اس طرح صلوٰۃ وسلام پڑھنا جس کا آج کل بعض مساجد میں رواج ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین اور ائمہ کرامؒ کسی سے ثابت نہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک جماعت کو مسجد میں بلند آواز سے درود پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے ان کو مسجد سے نکال دیا اور فرمایا: میں تم کو بدعتی سمجھتا ہوں، حدیث اس طرح ہے:

’’عن ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ اخرج جماعۃ من المسجد یھللون ویصلون علی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جھراً وقال لھم ماارکم الامبتدعین (ردالمحتار ص ۳۵۰ج ۵)
واخرجہ الدارمی فی مسندہ، واللّٰہ اعلم (ص ۳۸)