انتخابِ مضامین (۴)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 594)
سر سید نے قرآن مجید کی جو تفسیر اردو میں لکھی ہے اس میں تمام معجزات کا انکار ہے، جہاں بھی انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والتسلیم کے معجزات کا ذکرآتا ہے وہاں سر سید صاحب ان کی ایسی مادی تعبیر کرتے ہیں ان کا اعجاز ہی ختم کردیتے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزہ میں مذکور ہے کہ’’کالطود العظیم‘‘ پانی پہاڑ کی طرح بن گیا اور بیچ میں راستے بن گئے جن پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم گزر گئی اور اسی راستہ پر جب فرعون گزرنے لگا تو وہ غرق آب ہوگیا۔ سر سید صاحب اس معجزہ کی اہمیت اور اس کا اعجاز ختم کرنے کے لیے اس کی تعبیریوں کرتے ہیں کہ یہ جوار بھاٹا تھا کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ سمندر میں جوار بھاٹا اُٹھتا ہے کہ کبھی پانی زیادہ ہوجاتا ہے اور کبھی کم گو یاان کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا دریا سے گزرجانا اورفرعون کا دریا میں غرق ہوجانا یہ کوئی معجزہ نہ تھا بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے گزرنے کا وقت دریا کے اُتار چڑھائو کے مادی اسباب کے مطابق پانی کم ہوگیا اور فرعون کے گزرنے کے وقت پانی چڑھ گیا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں’’انی قد جئتکم بایۃ من ربکم‘‘ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لایا ہوں وہ نشانیاں تھیں’’ابریٔ الاکمہ و الابرص‘‘( میں ٹھیک کردیتا ہوں مادرزاداندھے اور ابرص کو) مگر سر سید کہتے ہیں کہ یہ کوئی معجزہ نہیں بلکہ اس زمانہ میں طب اور ڈاکٹری عروج پر تھی یہ اسی کا کرشمہ تھا۔
اسی طرح سر سید صاحب نے سیرت پر’’خطبات احمدیہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف فرمائی اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ اس وقت کے یوپی کے ایک انگریز گورنر’’سرولیم میور‘‘ نے’’دی لائف آف محمد‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنی گندی اور متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے حضور اکرمﷺ کے خلاف خوب زہر اُگلا۔ اس وقت مسلمانوں میں غیرت و حمیت دینی موجود تھی چنانچہ سرسید صاحب نے اسی حمیت دینی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے جواب میں’’خطبات احمدیہ‘‘ لکھی اور جواب لکھتے لکھتے خود بھٹک گئے اور ہر وہ حدیث جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھی یا وہ احادیث جن پر انگریزی مؤلف نے اعتراضات کئے، ان کا جواب دینے کے بجائے صاف طور پر ان احادیث کا ہی انکار کردیا مثلاً شق صدر کے متعلق سرسید صاحب لکھتے ہیں:
’’الم نشرح لک صدرک‘‘یہ آیت شق صدر کے متعلق ہے اس میں سینہ کے چیر پھاڑ کا کوئی ذکر نہیں اور اس کے اصلی اور اصطلاحی معنی جیسے کہ اکثر مفسرین نے بھی تسلیم کیا ہے اس کشادگی کے ہیں جو دل اور سینے میں عقلی اور روحانی وسعت سے عرفان الہٰی اور وحی کے منبع ہونے کے لیے لکھی گئی تھی۔‘‘ (خطبات احمدیہ :ص ۲۲۰)
جو روایات شق صدر کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو ہشامی ، واقدی، دارمی اور شرح السنہ کے حوالہ سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ روایتیں جو ہشامی، واقدی میں بیان ہوئی ہیں یا وہ روایتیں جو شرح السنہ اور دارمی میں مذکور ہیں صحت سے بہت دور ہیں اور محققین علماء اسلام ان کو محض ناقابل اعتبار سمجھتے ہیں اور بے ہودہ افسانے جو محض جہلا کے خوش کرنے کے قابل ہیں خیال کرتے ہیں پس عیسائی مؤرخوں نے اس بات میں بڑی غلطی کی ہے کہ ان نامعتبر روایتوں کی بنیاد پر اسلام پر اعتراض کرتے ہیں۔‘‘( خطبات احمدیہ :ص ۲۲۰)
معراج کے بارے میں سرسید صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ ﷺکو خواب کی حالت میں یہ سب کچھ دکھایاگیا اس سے زیادہ اس کی اور کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ معراج کے متعلق اور معراج کے ان واقعات کے متعلق( جو حضورﷺ کو پیش آئے) وارد شدہ تمام احادیث ناقابل اعتباراور بے بنیاد قصے ہیں۔ اسی وجہ سے اگر کوئی معراج کا انکار کرتے ہوئے معراج سے متعلق احادیث کا انکار بھی کردے تو سر سید صاحب کے نزدیک اس کے ایمان میں بالکل خلل نہیں آئے گا۔ لکھتے ہیں:
’’شق صدر اور معراج اگر مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں تو بہت سیدھا سادا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کے جسم مبارک میں یااس واقعہ کے خواب ہونے سے انکار کردے اور یہ کہے کہ اس قسم کی کوئی چیز ظہور پذیر نہیں ہوئی تھی اور یہ تمام روایتیں جو اس واقعہ کے حقیقی یا مثالی وقوع کو بیان کرتی ہیں بلا استثنا بالکل غلط اور سراسر بے اصل، موضوع اور جعلی ہیں تو بھی اس کے ایمان میں ذرہ برابر بھی خلل واقع نہ ہوگا بلکہ وہ پورا اور پکا اور سچا مسلمان رہے گا۔(خطبات احمد یہ :ص ۷۱۲)
یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ معراج نہ جسمانی ہوئی ہے اور نہ منامی اور نہ عالم مثال میں اور اس سلسلہ میں جو روایتیں وارد ہوئی ہیں وہ سب کی سب لغو جھوٹ، جعلی اور موضوع ہیں ایساعقیدہ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ یہ توعین ایمان ہے اور ایمان بھی ایسا جو تحقیق و تفتیش کے بعد حاصل ہوا ہو۔ اسی کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’اگر کوئی مسلمان مذکورہ بالاعقیدہ پر ایمان رکھ کر ان سب روایتوں کو جو معراج کے قصے میں آئی ہیں نہ مانے اور سب کو موضوع اور نہایت قابل الزام خیال کر کے چھوڑ دے تو اس کے دین وایمان میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا اور وہ اس شخص کے ہم پایہ ہوگا جو کسی چیز پر بلا تحقیق و تفتیش کے ایمان نہیں لاتا۔‘‘( خطبات احمد یہ :ص ۷۱۲)
اصل بات یہ ہے کہ سر سید کے نزدیک انبیاء علیہم السلام عام انسانوں کی طرح تھے۔ ان سے مافوق الفطرت اورخرق عادت کوئی کام سرزد نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے معجزات کا انکار کیا اور ان کے نزدیک یہ تمام معجزات سراسر لغو، بیہودہ افسانے اور بے بنیاد قصے ہیں جو محض جہلا کو خوش کرنے کے لیے گھڑ لیے گئے ہیں اور علماء نے اپنی نادانی کی وجہ سے ان کا انکار کرنے کے بجائے اپنی کتابوں میں جگہ دیدی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سر سید صاحب یورپین مستشرقین کے پروپیگنڈے سے صرف متاثر ہی نہیں بلکہ ان سے مرعوب بھی تھے یہی وجہ تھی کہ اسلام کے جن عقائد پر بھی ان کی طرف سے اعتراضات ہوتے تو سرسید صاحب کی کوشش ہوتی کہ ان کا جواب دینے کے بجائے ان عقائد ہی کو اسلامی عقائد کی فہرست سے نکال دیا جائے حالانکہ جن باتوں کا انکار سرسید صاحب نے محض عقلیت کی بنا پر کیا تھا آج سائنس دانوں نے ان کو ثابت کردیا اور عملی طور پر پیش کر کے دکھادیا ہے۔ مستشرقین اور ان کے خوشہ چیں سرسید کے لیے یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ ایک زندہ انسان کا سینہ چاک کر کے اس کا دل نکال کر جسم سے علیحدہ کردیاجائے اور اس کے باوجود وہ زندہ رہے ۔مگر آج سائنس نے صرف یہی نہیں کہ سینہ چاک کر کے دل علیحدہ کردیا بلکہ اس دل میں ٹکڑے کر دئیے جاتے ہیں پھر بھی انسان زندہ رہتا ہے۔
٭…٭…٭