مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 595)
ان عقل کے پیچ و خم میں اُلجھنے والوں کے لیے یہ بات ناقابل تسلیم تھی کہ آپﷺ ایک ہی رات میں بیت اللہ سے بیت المقدس اور پھر ساتوں آسمانوں سے ہو کر واپس آگئے، جبکہ آج ایسی تیزرفتار سواریا ں اور دوسری چیزیں ایجاد ہوگئیں جو چند لمحوں میں کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہیں اور اسی پر بس اکتفا نہیں بلکہ انسان کی محنت اور کوشش جاری ہے،لہٰذا جب ایک انسان یہ کر سکتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ اس پر قادر نہیں کہ وہ اپنے ایک محبوب اور پیارے بندے کو راتوں رات بیت اللہ سے بیت المقدس اور ساتوں آسمانوں پر بلالے،اور پھر اسی رات واپس اپنی جگہ پہنچادے، آج کل یورپ کا فلسفہ تبدیل ہو رہا ہے اور کل تک جن باتوں کا انکار کیا جاتا تھا آج سائنس نے ان کو ثابت کردیا ہے بلکہ آج یورپ ان عقائد اور حقائق کا سب سے بڑا مدعی ہے۔ کل تک جو یورپ ڈارون کے نظریۂ ارتقاء سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو بندر کہلوانا پسند کرتا تھا آج وہ اس نظریہ کی تردید میں پیش پیش ہے، اور اسی طرح یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہو کر اسلامی عقائد پر اعتراض کرنے والوں کے لیے خود یورپ نے ہی مشکلات پیدا کردی ہیں۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے قادیانیت اور انکار حدیث:
قادیانی اور مرزائی فرقہ جو مرزا غلام احمد کا پیروکار اور جو انگریز کا خودکاشتہ پودا ہے جس کو انگریز نے اپنے مذموم مقاصد( مسلمانوں میں افتراق و انتشار پیدا کرنے اور ان میں جذبۂ جہاد ختم کرنے اور ان کو اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ کرنے) کے لیے نبی بنایا تھا ان میں حدیث کا انکار پایاجاتا ہے، انہوں نے بھی ان تمام احادیث کا جو حضور اکرمﷺ کی ختم نبوت کے متعلق وارد ہوئی ہیں انکار کیا ہے۔
فتنۂ مودودیت اور انکار حدیث:
آج کل جدید فتنوں میں ایک فتنہ مودودیت بھی ہے۔ اس میں بھی انکار حدیث کا عنصر شامل ہے۔
مودودی صاحب اور ان کے پیروکار حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مناقب کا انکار کر کے آپ پر اعتراض کرتے ہیں ،جبکہ وہ مناقب احادیث سے ثابت ہیں اور آپ کی خلافت پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ آپ خلیفہ راشد ہیں اور خلافت راشدہ وہ ہوتی ہے جو علیٰ منہاج النبوۃ(نبوت کے طرز پر ہو) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیغمبرﷺ کچھ دن اور زندہ رہتے تو وہی کام کرتے جو خلفائے راشدینؓ نے کئے۔ تو خلفائے راشدینؓ کے کام بعینہٖ حضور اکرمﷺ کے کام ہیں اور خلافت راشدہ پر اعتراض نبوت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم پر اعتراض سمجھاجائے گا۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اعتراض کرنا، ان کی خلافت کو عبوری کہنا اور یہ کہنا کہ ایک وقت میں دوخلیفہ ہو سکتے ہیں قابل ملامت ہے، بالکل اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی خلافت پر اعتراض کرنا بھی قابل ملامت ہے۔
اسی طرح مودودی صاحب اور ان کے متبعین بعض صحابہ کرام علیہم اجمعین کو قابل تنقید سمجھتے ہیں اور یہ راگ الاپتے ہیں کہ تنقید اور چیز ہے اور تنقیص اور چیز ہے، حالانکہ ہر تنقید میں تنقیص ہوتی ہے۔
پھر صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہمیں کچھ کہنے کا کیا حق ہے صحابہ کرامؓ حملۃ الدین( دین کے حامل) ہیں جنہوں نے حضورﷺ کی ایک ایک ادا کو ،دین کے ایک ایک جز کو، قرآن کے نزول کی ہر ہر کیفیت کو محفوظ کر کے دوسروں تک پہنچایااگر صحابہ کرامؓ نہ ہوتے تو نہ قرآن محفوظ ہوتا اور نہ حدیث محفوظ ہوتی ،نہ دین محفوظ ہو تا نہ شریعت محفوظ ہوتی، صحابہ کرامؓ کا امت پر کس قدر احسان عظیم ہے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور اکرمﷺ کی اس سیرت کا مقدمہ ہیں جو آپ کی نبوت کا معجزہ ہے اور اس کا ایک حصہ ہیں، آپﷺ کی سیرت طیبہ صحابہ کرامؓ کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی بلکہ آپﷺ کی سیرت میں جو آراستگی جوحسن و جمال اور علم و عمل کا جو کمال پایا جاتا ہے اس کامکمل ظہور صحابہ کرامؓ کی وجہ سے ہے کہ کس طور پر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کی تربیت کی،کس طور پر ان کی اصلاح اور کس طرح آپﷺ نے نورہدایت سے ان کے دل ودماغ کو منور کیا۔
غرضیکہ یہ تمام باتیں ،صحابہ کرامؓ کے مناقب کا انکار، اہل بیت کے مناقب کا انکار، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مناقب کا انکار، محدثین، ائمہ مجتہدین، فقہاء امت اور علماء کا انکار ان سب کی تہہ میں انکار حدیث ہے اور یہ فتنہ انکار حدیث تمام فتنوں کا جامع اور ان کامأ خذو مرجع ہے۔
فتنوں کا سدباب:
چونکہ دین اسلام ایک ابدی اور دائمی مذہب و دین ہے جو قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سرچشمۂ ہدایات اور مینارئہ نور ہے اور خاتم النبیین حضور اکرمﷺ پر سلسلہ نبوت ختم ہوچکا ہے، آپ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر اس دین کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے علماء کے سپرد کی ہے اور ان علماء کو انبیاء کا وارث قراردیا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں ملحدین اور زالغین کے گروہ پیداہوئے ،وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کا مقابلہ کرنے اور ان کو دندان شکن جواب دینے کے لیے ہر دور میں علماء کرام کی جماعتوں کوتیار فرمایا جنہوں نے ہر فتنہ کا بھر پور مقابلہ کیا اور ان کے تمام اعتراضات کا مسکت جواب دیا اور ان کے شکوک و شبہات کا تارپود بکھیرکررکھ دیا کیونکہ خاتم الانبیاء محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کی زبان وحی ترجمان سے اعلان ہوچکا تھا:
یحمل ھذاالعلم من کل خلف عدولہ ینفون عن تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتاویل الجاھلین(مشکوٰۃ کتاب العلم)
’’اس علم دین کی امانت کونسل درنسل امت کے برگزیدہ اہل علم اُٹھاتے رہیں گے جو حد سے تجاوز کرنے والوں کی تحریف اور اہل باطل کی دینی چوریوں اور جاہلوں کی تاویلوں کا پردہ چاک کریں گے۔‘‘
چنانچہ علماء کرام نے جہاں دوسرے فتنوں کا مقابلہ کیا وہاں اس انکار حدیث کے فتنے کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور باقاعدہ طور پر اس فتنہ کا سب سے پہلے حضرت امام شافعیؒ نے مقابلہ کیا جنہوں نے ’’الرسالہ‘‘ نامی کتاب لکھی اور اس میں حجیت حدیث پر بحث کی اور منکرین اور ان کے اعتراضات پر سیر حاصل بحث کی اور اسی طرح اپنی مشہور و معروف کتاب’’ الام‘‘ میں بھی اس موضوع پر گفتگو کی ،اس کے بعد ہر دور کے علماء کرام نے مستقل اس پر کام کیا اورکتابیں لکھیں اور یہ سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے۔
٭…٭…٭