دین مبین کے دومأخذقرآن و حدیث


انتخابِ مضامین (۱)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ زمین پر رہ کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے اور ان کو اپنے جسم اورروئے زمین پر نافذ کرکے حق نیابت و خلافت ادا کردے۔ اس کے لیے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کے جسم کی پرورش اور تربیت کا انتظام فرمایا اور اس کی جسمانی ضرورت کو پورا کرنے کے اسباب و وسائل مہیا کئے، وہاں اس کی روح کی تربیت اور نشوونما کے اسباب بھی پیدا کئے اور روح کو کثافتوں اور آلودگیوں سے پاک کرکے اس کو جلا بخشنے کے لیے جن نفوس قدسیہ کا اللہ تعالیٰ نے انتخاب کیا انہیں پیغمبر،رسول اور نبی کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ یہ سلسلہ روز اول سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ تک جاری رہا۔

ان نفوسِ قدسیہ کا تعلق اورربط اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے، اسی ربط و تعلق کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایات کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ نفوس قدسیہ ان ارشادات ربانی اور ہدایات آسمانی کی روشنی میں نسل انسانی کی علمی و عملی تربیت فرماتے رہتے ہیں۔

دین مبین کے دومأخذقرآن و حدیث:
ان پیغامات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کبھی القاء فی القلب کی صورت میں ہوتا تھا اور کبھی فرشتہ کے ذریعہ یہ پیغامات انبیاء ورسل تک پہنچتے تھے۔ ارشاد ربانی ہے:

ماکان لبشران یکلمہ اللّٰہ الاوحیااومن وراء حجاب اویرسل رسولا فیوحی باذنہ مایشاء(سورۃ الشوریٰ پ۲۵)

’’کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے( رو دررو) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعہ یاپردے کے پیچھے یا فرشتہ بھیجے جو اللہ کے حکم سے وحی پہنچائے جو اللہ چاہے۔

اور پھر فرشتہ جو وحی لے کر آتاہے تو ضروری نہیں کہ آسمانی صحیفہ کی شکل میں ہو بلکہ بسااوقات فرشتہ کی زبانی یا نفث فی الروع( دل میں پھونک دینے) کی شکل میں ہوتی ہے۔

فرشتہ کے ذریعہ جو پیغام پہنچتا ہے وہ اگر الفاظ کی شکل میں منضبط ہو کر آسمانی صحیفہ کی شکل میں آئے تو اسے’’کتاب اللہ‘‘اور وحی متلو سے تعبیر کیاجاتا ہے اور جو پیغام فرشتہ کی زبانی فرشتہ کے واسطے کے بغیر آتا ہے اسے’’وحی غیر متلو‘‘ اور حدیث سے تعبیر کیاجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس صورت میں تمام احکام شرعیہ کا مدار یقینا کسی کتاب یا کسی آسمانی صحیفہ پر نہیں ہو سکتا بلکہ نبی اور رسول کی معصوم ذاتِ گرامی پر ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ ہر بات وحی الہٰی کے ذریعہ کہتے ہیں۔ ارشادِ خداوندی ہے:

وماینطق عن الھویٰ ان ھوالا وحی یوحیٰ
’’وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ تو وحی ہوتی ہے جو بھیجی جاتی ہے۔‘‘( سورۃ النجم آیت ۳،۴ پ ۲۷)

یہی وجہ ہے کہ جس طرح کتاب اللہ پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح نبی اور رسول کا ہر حکم بھی واجب الاطاعت ہے، اللہ تعالیٰ نے خود واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ:

وما آتاکم الرسول فخذوہ ومانھا کم عنہ فانتھوا(سورۃ الحشر رکوع ۱ آیت ۷ پ۲۸)

’’جو تم کو رسول حکم دیں اس کو قبول کرو اور جس سے تمہیں منع کریں اس سے باز آجائو۔‘‘

دین اسلام ایک وسیع نظام حیات ہے جو عقائد و عبادات، احکام و معاملات، آداب واخلاق ، معاشرت و معیشت، جہاد وقتال، صلح و جنگ ،حکومت و سیاست وغیرہ تمام تر مسائل پر حاوی ہے اور ان تمام مسائل کا احاطہ تعلیمات نبوی اور احادیث نبویہ علی صاحبہاالصلوٰۃ و التسلیمات ہی کئے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے احکام کا قرآن کریم میں صراحتاً ذکر تک نہیں اور بعض احکام کا اجمالی ذکر پایا جاتا ہے، جن کی تفصیل احادیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے۔ بہرحال اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ دین اسلام کا تفصیلی اور عملی نقشہ احادیث نبویہ علی صاحبہاالصلوٰۃ و التسلیمات کے بغیر نہ تیار ہو سکتا ہے اور نہ ہی دین متین کی تکمیل وتشریح تعلیمات نبوی کے بغیر ممکن ہے۔

حدیث کے خلاف سازش:
دین اسلام جو ابدی دین ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے سرچشمۂ ہدایت ہے اس دین کے دواصلی مأخذ اور اس دین کو روشن رکھنے والی دونوں مشعلوں قرآن و حدیث کی حفاظت ازحد ضروری تھی تاکہ یہ دونوں مشعلیںہر قسم کے طوفانوں اور جھگڑوں سے محفوظ اسلام کو روشن اور تابندہ رکھیں۔

متن قرآن کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ رب العالمین نے اپنے ذمہ لیا اور اعلان فرمایا:

انانحن نزلناالذکرو انالہ لحافظون(سورۃ الحجر رکوع نمبر ۱ آیت نمبر۹ پ ۱۴)
’’بلاشبہ ہم نے اس ذکر( قرآن) کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘

اب قرآن کریم کے الفاظ میں تغیر وتبدل تو ممکن نہ تھا اس لیے دشمنانِ اسلام جو کسی صورت اسلام کو پھلتا پھولتا ہوا دیکھنا پرداشت نہیں کر سکتے تھے انہوں نے اسلام کے عقائد و احکام کو بے وقعت بنانے اور سادہ لوح مسلمانوں کو ان سے برگشتہ کرنے کے لیے ایک طرف تو قرآن کے معانی بیان کرنے میں تحریف وتاویل سے کام لے کر اپنے الحادو زندقہ کو تقویت پہنچائی اور دوسری طرف اپنی عنان توجہ حدیث کی طرف مبذول کی تاکہ احادیث کا وہ ذخیرہ جس سے دین کی تشکیل و تکمیل ہوئی ہے اسے ناقابل اعتبار قرار دے دیاجائے۔

وضع حدیث:
اس کے لیے ایک کوشش تو یہ ہوئی کہ ملحدین نے بہت سی احادیث اپنی طرف سے گھڑ کر صحیح احادیث وروایات کے ساتھ خلط ملط کر کے مسلمانوں میں پھیلادیں اور پھر خود ہی اس کا جابجا اعلان کیا کہ ہم نے صحیح احادیث کے ساتھ ہزاروں کے حساب سے اپنی گھڑی ہوئی احادیث ملادی ہیں اور مقصد یہ تھا کہ ا س طرح سے مسلمانوں کا اعتبار احادیث پر نہیں رہے گا اور جو والہانہ شغف احادیث کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔

وضع حدیث کا مقابلہ:
لیکن دشمنانِ اسلام اپنی اس مذموم کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے دین مبین اور سنن سید مرسلین کی حفاظت اور بقاء کے لیے ایسے رجال کا رپیدا فرمائے جنہوں نے حفاظت حدیث کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں اور صحیح احادیث کو ضعیف اور موضوع احادیث سے ممتاز وجدا کرنے کے لیے مستقل علوم وفون مدون کئے جن کی تعداد سوکے قریب تک پہنچتی ہے، جس کی روشنی میں ایک ایک حدیث کی چھان بین کر کے تمام ذخیرئہ احادیث کوامت کے سامنے پیش کردیا اور صاف طور پر منقح کردیا کہ یہ حدیث صحیح ہے اور یہ موضوع۔

ان علماء نے صرف روایات ہی کی تحقیق نہیں کہ بلکہ ایک ایک راوی پر جرح وتعدیل کر کے ان کی چھان پھٹک کی اور ہر ایک پر ثقہ، ضعیف، کذاب، وضاع کا حکم لگایا اور اس طرح ہر چیز کو منقح کر کے پیش کیا جس کی وجہ سے حدیث سے اُمت کا لگائو اور بڑھ گیا۔

٭…٭…٭