حضور اکرمﷺ کی سیرت


مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 597)
حضور اکرمﷺ کی سیرت کے بیان میں مسلمانوںاور غیر مسلموں نے ہزاروں، لاکھوں کتابیں لکھیں اور سیرت نبویہ اور حدیث کی کتابوں کو ان کے مصنفوں سے سینکڑوں اور ہزاروں اشخاص نے ایک ایک حرف سن کر اور سمجھ کر دوسروں تک پہنچایا، حدیث کی پہلی کتاب مؤطا امام مالک اس کے مصنف امام دارالہجرہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے چھ سو آدمیوں نے سنا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جامع صحیح کو صرف ان کے ایک شاگردفریری سے ساٹھ ہزارآدمیوں نے سنا۔

بہرحال مسلمانوں نے حضور اکرمﷺ کی سیر ت کو محفوظ رکھا اور اس پر مختلف تصانیف چھوڑیں اور ان تصانیف کا سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہر شخص اس میں حصہ لینا اپنے لیے قابل فخر اور باعث سعادت سمجھتا ہے۔

امت نے یہی نہیں کیا کہ آپﷺ کی زندگی کو محفوظ کر لیا بلکہ آپﷺ کی زندگی کو بیان کرنے والوں اور آپﷺ کے افعال واقوال نقل کرنے والوں کی زندگیاں تک محفوظ کرلیں۔

صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تذکرہ و حالات میں اس قدر شرح و بسط کے ساتھ کتابیں لکھی گئیں کہ دیکھنے والا حیران رہ جائے۔ حافظ ابن حجر کی اصابہ،ابن عبدالبر کی استیعاب ،ابن اثیر کی اسدالغابہ قابل ذکر ہیں، صحاح ستہ کے رواۃ کے حالات میں تہذیب الکمال اور اس کی تلخیص تہذیب التہذیب موجود ہے اور وہ رواۃ جو متروکین و مجروحین ہیں ان کے مستقل تذکرے لکھے گئے۔لسان المیزان اور میزان الاعتدال اسی قسم کے رواۃ کے تذکرے میں ہیں۔

بہرحال احادیث کی حفاظت کے سلسلہ میں علماء امت نے فن رجال مرتب کیا اور باعدہ رواۃ حدیث کے حالات بیان کئے اور ان پر جرح و نقد کا سلسلہ قائم کیا اور تدوین حدیث میں اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی حدیث درمیان میں منقطع نہ ہو،اگر راویان حدیث کا سلسلہ کہیں ٹوٹا بھی ہے تو اس کی نشاندہی بھی کردی ہے، یہ سب حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ کا اعجاز اور امت محمدیہ کا امتیاز ہے۔

مسلمان سید سلیمان ندویؒ ،علامہ شبلی نعمانیؒ کا قول نقل کرتے ہیں:

’’کسی زمانہ کے حالات مدت کے بعد قلم بند کیے جاتے ہیں تو یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی بازاری افواہیں قلمبند کرلی جاتی ہیں جن کے راویوں کا نام ونشان تک معلوم نہیں ہوتا۔ ان افواہوں میں سے وہ واقعات انتخاب کر لیے جاتے ہیں جو قرائن وقیاسات کے مطابق ہوتے ہیں، تھوڑے زمانے کے بعدیہی خرافات ایک دلچسپ تاریخی کتاب بن جاتے ہیں۔ یورپ کی اکثر یورپین تصنیفات اسی اصول پر لکھی گئی ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اس فن سیرت کا جو معیار قائم کیا وہ اس سے بہت ہی زیادہ بلند تھا، اس کا پہلا اصول یہ تھاکہ جو واقعہ بیان کیا جائے اس شخص کی زبان سے بیان کیا جائے جو خود شریک واقعہ تھا اور اگر خود نہ تھا تو شریک واقعہ تک تمام راویوں کے نام بہ ترتیب بیان کئے جائیں ۔ اس کے ساتھ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ جو اشخاص اس سلسلہ روایت میں آئے کون لوگ تھے؟کیسے تھے؟ان کے مشاغل کیا تھے؟ان کا چال چلن کیسا تھا ؟سمجھ کیسی تھی؟ثقہ تھے یا غیر ثقہ؟سطحی الذہن تھے یا نکتہ رس؟ عالم تھے یا جاہل ؟ ان جزئی باتوں کا پتہ لگانا سخت مشکل تھا لیکن سینکڑوں ،ہزاروں محدثین نے اپنی عمریں اسی کا م میں صرف کردیں۔ ایک ایک شہر گئے اور راویوں سے ملے، ان کے متعلق ہر قسم کے حالات دریافت کئے۔ انہی تحقیقات کے ذریعہ سے اسماء الرجال کا وہ عظیم الشان فن ایجا د کیا جس کی بدولت کم ازکم کئی لاکھ شخصیتوں کے حالات معلوم ہو سکتے ہیں۔ (خطباتِ مدراس)

احکام شرعیہ میں رائے عامہ کی حیثیت

۱۹۶۲؁ء میں جب پاکستان کا دوسرا دستور نافذ ہو اتو اس کے تحت قانون سازی کے اس اصول کو صراحتاً تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی قانون اسلام کے منافی نافذ نہیں ہوگا نیز پاکستان کے مسلمان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر جلد از جلد اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلام کے بنیادی تصورات اور اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں اور انہیں ایسی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں گی جن کی مدد سے وہ ان تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی گذارنے کا مفہوم سمجھ سکیں۔

چنانچہ دستور کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت صدر مملکت کو’’اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل‘‘ کے قائم کرنے کا اختیار دیا گیا تاکہ یہ ’’مشاورتی کونسل‘‘ پاکستان کے قانون سازاداروں کو ہر شعبۂ زندگی سے متعلق اسلام کے تصورات اورر اصولوں کی رہنمائی کرے نیز یہ جائز ہ بھی لیتی رہے کہ آیا کوئی زیر تجویز یا مجوزہ قانون اسلام کے منافی تو نہیں ہے۔

دستور مذکور کی دفعہ ۲۰۷ کے تحت صد رمملکت کو’’ادارہ تحقیقات اسلام‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرنے کا بھی اختیار دیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے متعلق ایسی تحقیقات کرے جن سے صحیح اسلامی بنیادوں پر مسلم معاشرہ کی تشکیل میں مدد مل سکے۔

مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی نے صحیح اسلامی بنیادوں پر معاشرہ کی تشکیل میں مدددینے کے سلسلہ میں’’ جوکارہائے نمایاں‘‘ انجام دئیے ہیں ان کی داستان بڑی طویل ہے جس سے قارئین بینات بخوبی واقف ہیں۔

اسی سلسلہ تحریفات کی ایک کڑی وہ فتنہ ہے جو پچھلے دنوں’’بغیر اللہ‘‘ کا نام لئے ذبح کے سلسلہ میں اس ادارہ کی طرف سے اُٹھا یاگیا، جس کا مقصد وحید یہ تھا کہ اس ملک میں مشینی ذبح کی راہ ہموار کرے جس کے جاری کرنے کی بارہا کوششیں کی گئیں البتہ اسلام پسند طبقہ کے مسلسل احتجاجوں پر ملتوی کرنا پڑتا تھا۔ یہ فتنہ اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ آپ کے سامنے ہے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے ایک کتابچہ ہے جس کو’’ادارہ تحقیقات اسلامی‘‘ کی طرف سے ’’…کے احکام‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا ہے اس کو جناب محمد سرور صاحب نے ترتیب دیا ہے، جو ادارئہ تحقیقات اسلامی کے نقیب ماہنامہ ’’فکر و نظر‘‘کے مدیر شہیر ہیں، اس کتابچہ میںجناب ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے فتویٰ کی تصویب و تائید کی گئی ہے اور اس کے حق میں بزعم خویش دلائل کے انبار جمع کرنے کی بے معنی کوشش کی گئی ہے۔

٭…٭…٭