بعض مسائل واحکام


مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 623)
اوریہ دونوں تہوار دوعظیم واقعات سے وابستہ ہیں عید الفطر نزول قرآن کی یاد گار ہے اور عید الاضحی ذبح کی عظیم یادگار ہے۔

عیدا لفطر میں دوسری وجہ مسرت اور شاد مانی کی یہ ہے کہ یہ دن وہ ہے جس میں مسلمان اپنے روزوں سے فارغ ہوتے ہیں اس لئے دو فرحتیں حاصل ہوتی ہیں ایک فرحت طبعی جو ان کوروزہ کی عبادت شاقہ سے فراغت پانے سے اور فقیر کو صدقات لینے سے حاصل ہوتی ہے اور ایک فرحت عقلی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبادت مفروضہ ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمانے کی وجہ سے اور ان کے اہل وعیال کو دوسرے سال تک سلامتی وعافیت سے رکھنے کا انعام عطاء فرمانے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔

دوسری اقوام کے تہوار کھیل کود اور گناہوں سے بھرپور ہوتے ہیں بعض قوموں میں ان کے قومی تہواروں کے دن گناہ جائز ہی نہیں بلکہ عبادت بن جاتے ہیں، اس کے برخلاف برگزیدہ دین نے پانچ نمازوں کے علاوہ ایک ایک نماز کا مزید اضافہ ان دونوں دنوں میں فرماکر مسلمان کی ا س حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائی کہ مسلمان مسرت اور شادمانی کے موقع پر بھی ذکر، تسبیح، تہلیل، تکبیر، عبادت سے غافل نہیں ہوتا بلکہ ان میں اضافہ ہی کردیتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ان دونوں دنوں میں زیب وزینت کے ساتھ ذکر الہٰی اور ابواب بندگی کو بھی شامل کیا تاکہ مسلمانوں کا اجتماع محض کھیل کود ہی نہ ہو بلکہ ان کا اجتماع اعلاء کلمۃ اللہ کی روح کو اپنے اندر لئے ہوئے ہو۔‘‘

بعض مسائل واحکام
(۱) عیدین کی نماز واجب ہے۔ (۲) عیدین کے خطبہ کا سنناجمعہ کی طرح واجب ہے یعنی اس وقت بولنا، کھانا، پینا، سلام وجواب سلام وغیرہ سبب ممنوع ہیں۔ (۳) بلا عذر عیدین کی نماز چھوڑنا گمراہی وبدعت ہے۔ (۴) نماز عید کے پڑھنے کا طریقہ، دل سے یا زبان سے نیت کرکے تکبیر تحریمہ (اللہ اکبر) کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء (سبحانک اللھم) اخیر تک پڑھیں، پھر تین مرتبہ اللہ اکبر کہیں اور ہر ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی مانند دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ان میں ہر تکبیر کے بعد ہاتھ لٹکادیں اور ہر تکبیر کے بعد امام اتنی دیر تک توقف کرے کہ اس میں تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جاسکتا ہو اور یہ توقف مجمع کی کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ لٹکائیں بلکہ حسب دستور ناف پر باندھ لیں اور امام اعوذ باللہ وبسم اللہ آہستہ پڑھ کر سورہ فاتحہ اور پھر کوئی سورہ جہر سے پڑھے اور مقتدی خاموش رہیں … اور اس کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیریں اس طرح کہے جس طرح پہلی رکعت میں کہی تھیں لیکن یہاں تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ نہ باندھے بلکہ لٹکائے رکھے پھر بغیر ہاتھ اٹھائے ہوئے چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور حسب معمول نماز پوری کرے۔

عیدن کے حسب ذیل امور سنت یا مستحب ہیں
۱۔عیدین کے روز جلدی جاگنا اور صبح کی نماز اپنے محلہ کی مسجد میں پڑھنا(۲) غسل کرنا(۳) مسواک کرنا(۴) جو کپڑے اس کے پاس ہیں ان میں سے اچھے کپڑے پہننا (۵) خوشبو لگانا (۶) عید الفطر کے روز فجر کے بعد عید گاہ کو جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا (۷) جس پر صدقہ فطر واجب ہے اس کا نماز سے پہلے ادا کرنا (صدقہ نصف صاع یعنی پونے دو سیر گیہوں آٹا یا اس کی قیمت ہے) (۸) فرحت وخوشی کا اظہار کرنا۔ (۹) حسب طاقت صدقہ وخیرات میں کثرت کرنا۔ (۱۰) عید گاہ کی طرف جلدی سے جانا (۱۱) عید گاہ کی طرف وقار اور اطمینان کے ساتھ جانا اور جن چیزوں کا دیکھنا جائز نہیں ہے ان سے آنکھیں نیچے رکھنا۔ (۱۲) عید الفطر کی نماز کے لئے عید گاہ کو جاتے ہوئے راستے میں آہستہ تکبیر کہتے ہوئے جانا اور عید الاضحی کے روز راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے اور جب عید گاہ میں پہنچ جائے تو تکبیر کہنا بند کردے ایک روایت کے مطابق جب نماز شروع ہو اس وقت بند کرے، تکبیر یہ ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد (۱۳) دوسرے راستہ سے واپس آنا (۱۴) آپس میں مبارک باد دینا مستحب ہے (۱۵) عیدین کی نماز سے واپس آنے کے بعد گھر پر چار رکعت نماز نفل پڑھنا مستحب ہے۔ (مسائل واحکام ماخوذ از عمد الفقہ)

ذبح کا مسنون طریقہ اور مشینی ذبح کے متعلق شرعی مسائل
’’بینات‘‘ کے گزشتہ شمارہ میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان کا ایک فتویٰ زیر عنوان مندرجہ بالا نظر نواز ہوا۔ حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی کا جواب باصواب کافی وافی ہے اور اس پر اضافہ مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی ادارہ بینات کی طرف سے حکم ملا ہے کہ میں بھی چند سطریں تحریر کروں۔ لہٰذا تعمیل حکم ہے۔ یہ چند سطریں حوالہ قرطاس ہیں۔

سائل کا پہلا سوال تھا:
’’احادیث میں جو طریقہ ذبح مذکور ہے۔ یعنی حلق اور لبہ پر چھری چاقو وغیرہ دھار دار آلہ سے ذبح یا نحر کرنا امر تعبدی نہیں بلکہ امر عادی ہے۔ عرب میں چونکہ اس طرح جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے بھی چند ہدایات کے ساتھ اسی طریقہ کو قائم رکھا ہے۔ لہٰذا مسلمان یا کتابی بسم اللہ کہہ کر جس طریق پر بھی جانور ذبح کریں ذبح حلال ہوگا۔ یہ قول صحیح ہے یا نہیں؟‘‘

(جاری ہے)
بعض مسائل واحکام
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 624)
معلوم نہیں کہ سائل کی مراد ’’امر تعبدی‘‘ اور ’’امر عادی‘‘ سے کیا ہے۔ اگر اس سے مراد ائمہ اصول کی اصطلاح ہے تو اس اعتبار سے تو ذبح کا مسنون طریقہ امر تعبدی میں داخل ہے۔ امر تعبدی اور امر عادی کی تشریح امام ابوا سحاق الشاطبی نے اس طرح فرمائی ہیـ:

ما لم یعقل معناہ علی التفصیل من المامور بہ اوالمتھی عنہ فھو المراد بالتعبدی وما عقل معناہ وعرفت مصلحتہ او مفسدتہ فھو المراد بالعادی، فالطھارات والصلوات والصیام والحج کلھا تعبدی، والبیع والنکاح والشراء والطلاق والاجارات والجنایات کلھا عادی کان احکامھا معقولۃ المعنی
’’شریعت میں جس کام کے کرنے کا حکم دیا جائے یا جس سے روکا جائے۔ اگر اس کی حقیقت وغایت پوری تفصیل کے ساتھ سمجھ میں نہ آئے تو وہ ’’امر تعبدی‘‘ ہے اور اگر اس کی حقیقت پوری تفصیل وتوضیح کے ساتھ سمجھ میں آجائے۔ اس کی مصلحت یا مضرت پوری طرح واضح ہوجائے تو وہ ’’امر عادی‘‘ ہے۔ لہٰذا وضو غسل وغیرہ نماز، روزہ، حج سب کے امور تعبدیہ ہیں۔ خریدوفروخت، نکاح، طلاق، اجارات، جنایات وعقوبات (جرائم وسزائیں) امور عادیہ ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ شریعت محمدیہ نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا جن کے کرنے سے منع کیا ہے وہ دو قسم پر ہیں۔ ایک قسم تو یہ ہے جن کی حقیقت ومصلحت اور غرض وغایت پوری طرح ذہن انسانی میں نہیں آتی۔ اگرچہ اس کی بعض حکمتیں اور بعض فوائد سمجھ میں آجاتے ہیں۔ وہ امور ’’تعبدیہ‘‘ کہلاتے ہیں کہ وہاں مقصود اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری ہوتا ہے۔ خواہ وہ ہماری سمجھ میں پوری طرح آئے یا نہ آئے۔ وضو، غسل، نماز،روزہ، حج امور تعبدیہ میں داخل ہیں۔ کیونکہ پورے اور کامل طریقہ پر ان کے حکم ومصالح عقل انسانی سے بالاتر ہیں۔ برخلاف ’’امور عادیہ‘‘ کے کہ ان کی غرض وغایت منفعت ومضرت پوری طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔

اس بیان کی روشنی میں جب ہم زکوٰۃ شرعی (ذبح کے طریقہ) کو دیکھتے ہیں تو و ہ ہم کو ’’امور تعبدیہ‘‘ میں داخل نظر آتا ہے۔ کیونکہ اس طریقہ کی کچھ حکمتیں اور فوائد معلوم ہوتے ہوئے بھی یہ دعویٰ نہیں کیاجاسکتا ہے کہ اس کی پوری غرض وغایت ہماری سمجھ میں آگئی۔ یہ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طریقہ خاص سے ذبح کرنے سے دم مسفوح آسانی سے نکل جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی چند سوالات ذہن انسانی میں پیدا ہوئے۔ مثلاً ان موٹی موٹی رگوں کو کاٹنے کا حکم کیوں دیا؟ دوسری رگوں کے کاٹنے سے بھی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ذکوٰۃ غیر اختیاری میں دوسرا طریقہ ہی اختیار کیا گیا ہے۔ غرض اس کی غرض وغایت اور پوری حکمتیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ لہٰذا اس کو امر تعبدی ہی کہا جائے گا۔

پھر بالفرض اگرہم ذبح کے شرعی طریقہ کو اس اصطلاح کے بموجب ’’امور عادیہ‘‘ میں شمار بھی کرلیں تب بھی اس سے لازم نہیں آتا کہ اس طریقہ کو تبدیل کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے۔ کیونکہ امور عادیہ میں بھی ہم شریعت کے احکام کی بجا آوری کے پابندی ہیں اور شریعت کے مقررہ طریقہ کے خلاف دوسرا طریقہ نکالنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس لئے کہ امور عادیہ میں بھی تعبد کے معنی پائے جاتے ہیں۔

خریدو فروخت وغیرہ معاملات امور عادیہ ہیں لیکن ان میں سے کسی کو اختیار نہیں ہے کہ شرعی احکام کو تبدیل کردے اور شریعت نے صحیح، فاسد، باطل، مکروہ کی جو حد بندیاں کی ہیں، ان کو توڑ دے۔ دیکھئے امام الشاطبی اسی حقیقت کو بیان فرمارہے ہیں:

’’ولا بدفیھا من التعبد اوھی مقیدۃ بامور شرعیۃ لا خیرۃ للمکلف فیھا… واذا کان کذلک فقد ظھر اشتراک القسمین فی معنی التعبد‘‘
امور عادیہ میں بھی تعبد کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی شرعی احکام کے ساتھ مقید ہیں اور مکلف کو ان میں کسی قسم کا اختیار نہیں ہے۔ لہٰذا واضح ہوگیا کہ دونوں قسمیں امور تعبدیہ اور عادیہ تعبد کے معنی میں شریک ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آئمہ مجتہدین نے ذبح کے صرف طریقہ مسنون کو جائز اور صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے طریقوں کو باطل اور کالعدم سمجھا اور کسی دوسرے طریقہ سے ذبح کئے ہوئے جانور کو حرام اور مردار بتلایا ہے۔ امام شافعیؒ اپنی بے نظیر کتاب ’’الام‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’الزکوٰۃ وجھان،وجہ فیما قدر علیہ الذبح والنحروفیھا لم یقدر علیہ مانالہ الانسان بسلاح بیدہ اور میہ بیدہ فھی عمل ھداہ اوما احل اللّٰہ عزوجل من الجوارح المعلمات التی تاخذ یفعل الانسان کما یصیب السھم،فاما الحفرۃ فانھا لیست واحداً من ذاکان فیھا اسلاہ یقتل اولم یکن ولو ان رجلاً نصب سیفاً اورمحاثم اضطر صیداً الیہ فاصابہ نذکاہ لم یحل اکلہ لانھا ذکاۃ بغیر فعل احد‘‘
’’زکوٰۃ کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ تو زکوٰۃ اختیاری کا ہے اور وہ ذبح یا نحر ہے۔ دوسرا طریقہ زکوٰۃ غیر اختیاری کا ہے۔ اس میں اپنے ہاتھ سے تیر مارنا یا کسی ہتھیار سے کام لینا یا شکاری جانوروں سے شکار کرنا وغیرہ صورتیں داخل ہیں اور ان سب میں انسانی فعل وعمل کو دخل ہے۔گڑھا کھود کر کسی جانور کو اس میں گرا کر مار دینا زکوٰۃ شرعی کے طریقوں میں داخل نہیں ہے۔ خواہ گڑھے میں ہتھیار ہوںیا نہ ہوں۔ اسی طرح اگر ایک شخص نے تلوار یا نیزہ گاڑ لیا، پھر کسی جانور کو اس کی طرف بھگایا اور اس سے ذبح ہوگیا تو اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بلا کسی تخصیص کے ذبح کرنے کے ذبح ہوا۔

امور تعبدیہ کا ایک خاصہ یہ ہے کہ ان میں فرائض، سنن، فضائل، مستحبات شریعت کی جانب سے بیان کئے جاتے ہیں ۔ امور عادیہ میں فرائض، سنن ، فضائل بیان نہیں کئے جاتے۔

(جاری ہے)
بعض مسائل واحکام۔۳
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی نور اللہ مرقدہ (شمارہ 625)
اس لحاظ سے بھی زکوٰۃ شرعی ’’امور تعبدیہ‘‘ میں شامل معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے لئے مذکورہ بالا احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مسلمانوں نے اسی بناء پر ہمیشہ ذبیحہ کے مسئلہ کو اہمیت دی اور ذبح کی خدمت ایسے لوگوں کے سپرد کی جو ان کے مسائل سے پوری طرح واقف ہوں اور امین ہوں۔ المدخل میں ہے:

جانوروں کو شرعی طور پر ذبح کرنا ایک امانت ہے لہٰذا اس خدمت کو ایسے لوگوں کے سپرد کرنا چاہئے جو امین ہوں اور دینی امور میں تہمت زدہ نہ ہوں کیونکہ اس کے خصوصی احکام ہیں۔ مثلاً فرائض، سنن، فضائل، شرائط صحت، شرائط فساد۔ اسی طرح یہ کہ کس ذبیحہ کا کھانا جائز ہے اور کس کا نہیں اور کونسا ذبیحہ مکروہ ہے اور کس میں اختلاف ہے اور جب یہ بات ہے تو لازم ہے کہ ذبح کی خدمت انجام دینے والے ایسے لوگ ہوں جو مسائل سے واقف، قابل بھروسہ اور امانت دار ہوں۔

اس کے ایک صفحہ کے بعد ہے:

میں اپنے وطن فاس میں اسی طریقہ پر عمل پاتا ہوں کہ وہاں مویشی کے مالک ذبح نہیں کرتے بلکہ دیندار باخبر لوگ اس کے لئے مقرر ہیں اور وہ ذبح کرتے ہیں۔

عہد رسالتﷺ میں ذبح اور نحر کی خدمت جلیل القدر صحابہ کے ذمہ تھی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت زبیر، عمرو بن العاص، عامر بن کریز، خالد بن اسید بن ابی العیص الاموی رضی اللہ عنہم کا نام لیا جاتا ہے۔

ذبیحہ کے مسائل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے کسی نے شکایت کی کہ مدینہ منورہ کے قصاب جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال نکالنا شروع کردیتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں اعلان کرایا، اس اعلان میں لوگوں کی غلطی بھی واضح اور زکوٰۃ شرعی کی بھی نشاندہی کی تاکہ لوگ اس سے غفلت نہ برتیں۔ اعلان کے الفاظ یہ تھے:

’’الزکوٰۃ فی الحق واللبۃ لمن قدر ولا تجعلوا الانفس حتی تزھق‘‘
زکوٰۃ اختیاری کا محل حلق اور لبہ ہے اور پوری طرح جان نکلنے سے پہلے کھال اُتارنے میں جلدی نہ کرو۔

سائل کی مراد اگر یہ ہے کہ بعثت سے قبل جو امور اہل عرب کیا کرتے ہوں اور نبی کریمﷺ نے بعثت کے بعد انہی طریقوں کوبرقرار رکھا ہو وہ امور عادیہ ہیں اور اس طرح نہ ہوں وہ امور تعبدیہ ہیں۔ سو یہ اصطلاح ہی خود ساختہ ہے اور مستشرقین کی خانہ ساز ہے۔ اس اصطلاح کے بموجب نماز، روزہ، حج، طواف، سعی وغیرہ امور عادیہ بن جائیں گے۔ پھر اس کے ساتھ دوسرا مقدمہ بھی لگالیجئے کہ امور عادیہ میں طریقے تبدیل کئے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا یہ نتیجہ ظاہر ہے کہ ساری شریعت تبدیل ہوسکتی ہے۔ العیاذ باللہ

حقیقت یہ ہے کہ اہل عرب میں بہت سے طریقے دین حنیف یعنی دین ابراہیمی کے باقی تھے۔ ان میں سے بعض تو علی حالہٖ باقی تھے اور بعض ترمیم واضافہ کے ساتھ، جناب رسول اللہﷺ مستقل پیغمبر اور خاتم الانبیاء ہونے کے ساتھ ہی دین حنیف کے مجدد تھے اور آپﷺ کا لایا ہوا دین اس کی تکمیلی شکل تھا۔ اس لئے آپﷺ نے ان طریقوں کو ہدایت ربانی کے ماتحت ختم نہیں کیا بلکہ ضروری ہدایت کے بعد امت مسلمہ میں جاری رکھا اور اہل عرب کے ترمیم واضافہ کو حذف کرکے ان کو عملی شکل میں ظاہر کیا۔ مستشرقین اس کو اپنی جہالت سے ’’رسم ورواج‘‘ کی پیروی کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ سب طریقے تعبدی ہیں اور دین کے اجزاء ہیں۔ ہشام کلبی کا بیان ہے:

اہل عرب نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے دین کو بہت کچھ تبدیل کردیا تھا۔ بتوں کی پرستش شروع کردی تھی اور دوسری قوموں کی تقلید میں مشرکانہ عقائد داخل کرلئے تھے۔ لیکن بایں ہمہ ان میں بہت سی باتیں دین ابراہیم کی باقی تھیں۔ چنانچہ بیت اللہ کی تعظیم، طواف، حج، عمرہ، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف، جانوروں کوذبح کرنا اور اس قسم کے امور ابھی تک باقی تھے۔ اگرچہ ان میں بعض چیزیں ان لوگوں نے شامل کرلی تھیں۔

اور یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اہل عرب جانوروں کو نحر یا ذبح کرتے تھے۔ کتاب الاصنام میں ہے:’’فکانوا ینحرون ویذبحون‘‘ (یہ لوگ نحر کرتے تھے اور ذبح کرتے تھے)

شاہ ولی اللہ دہلویؒ حجۃ اللہ البالغہ میںفرماتے ہیں:

’’ولم تزل سنتھم الذبح فی الحلق والنحر فی اللبۃ ما کانوا یخنفون ولا یبعجون‘‘
’’اہل عرب میں برابر یہ طریقہ رہا کہ وہ حلق میں ذبح اور لبہ میں نحر کرتے تھے اور جانوروں کا نہ تو گلا گھونٹتے تھے اور نہ ان کا پیٹ پھاڑتے تھے۔‘‘

اسلام نے اسی طریقہ کو اختیار کیا اور قرآن وحدیث وآثار میں اس کے فرائض، سنن، مستحبات، شرائط صحت، شرائط فساد بتلائے اور مستقل ہدایات دیں،بالآخر ’’کتاب الذبائح‘‘ اسلامی قانون کا ایک اہم باب قرار پایا۔ جس کے اصول وقواعد قاضی ابوالید ابن رشد نے اس طرح شمار کرائے ہیں:

والقول المحیط بقواعد ھذاالکتاب فی خمسۃ ابواب الباب الاول فی معرفۃ محل الذبح والنحروھوالمذبوح والمنحورالباب الثانی فی معرفۃ الذبح والنحرالباب الثالث فی معرفۃ الآلۃ التی بھا یکون الذبح والنحرالباب الرابع فی معرفۃ شروط الذکاۃ الباب الخامس فی معرفۃ الذابح والناحر
’’کتاب الذبائح‘‘ کے قواعد وکلیات کو اس طرح پانچ بابوں میں منحصر کیا جاسکتا ہے: پہلا باب ذبح اور نحر کے محل کے بارے میں اور وہ جانور ہے جس کو ذبح یا نحر کیا جاسکتا ہے۔ دوسرا باب ذبح اور نحر کی پہچان کے بارے میں۔ تیسرا باب آلہ کے بارے میں جس سے ذبح یا نحر کیا جاسکتا ہے۔ چوتھا باب زکوٰۃ شرعی کی شرائط کے بارے میں۔ پانچواں باب ذبح یا نحر کرنے والے کے بارے میں۔

(جاری ہے)