حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ اور تدفین کس طرح ہوئی اور خلافت کیسے طے ہوئی؟
س… نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی نمازِ جنازہ کس نے پڑھائی؟ اور آپ کی تدفین اور غسل میں کن کن حضرات نے حصہ لیا؟ اور آپ کے بعد خلافت کے منصب پر کس کو فائز کیا گیا اور کیا اس میں بالاتفاق فیصلہ کیا گیا؟
ج… ۳۰/صفر (آخری بدھ) کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوصال کی ابتدا ہوئی، ۸/ربیع الاوّل کو بروز پنجشنبہ منبر پر بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بہت سے اُمور کے بارے میں تاکید و نصیحت فرمائی۔ ۹/ربیع الاوّل شبِ جمعہ کو مرض نے شدّت اختیار کی، اور تین بار غشی کی نوبت آئی، اس لئے مسجد تشریف نہیں لے جاسکے، اور تین بار فرمایا کہ: “ابوبکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں!” چنانچہ یہ نماز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور باقی تین روز بھی وہی امام رہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں، جن کا سلسلہ شبِ جمعہ کی نمازِ عشاء سے شروع ہوکر ۱۲/ربیع الاوّل دوشنبہ کی نمازِ فجر پر ختم ہوتا ہے۔
علالت کے ایام میں ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں (جو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ بنی) اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو وصیت فرمائی:
“انتقال کے بعد مجھے غسل دو اور کفن پہناوٴ اور میری چارپائی میری قبر کے کنارے (جو اسی مکان میں ہوگی) رکھ کر تھوڑی دیر کے لئے نکل جاوٴ، میرا جنازہ سب سے پہلے جبریل پڑھیں گے، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر عزرائیل، ہر ایک کے ہمراہ فرشتوں کے عظیم لشکر ہوں گے، پھر میرے اہلِ بیت کے مرد، پھر عورتیں بغیر امام کے (تنہا تنہا) پڑھیں، پھر تم لوگ گروہ در گروہ آکر (تنہا تنہا) نماز پڑھو۔”
چنانچہ اسی کے مطابق عمل ہوا، اوّل ملائکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھی، پھر اہلِ بیت کے مردوں نے، پھر عورتوں نے، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، پھر عورتوں نے، پھر بچوں نے، سب نے اکیلے اکیلے نماز پڑھی، کوئی شخص امام نہیں تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل حضرت علی کرّم اللہ وجہہ نے دیا، حضرت عباس اور ان کے صاحبزادے فضل اور قثم رضی اللہ عنہم ان کی مدد کر رہے تھے، نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو موالی حضرت اُسامہ بن زید اور حضرت شقران رضی اللہ عنہما بھی غسل میں شریک تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سحولی (موضع سحول کے بنے ہوئے) سفید کپڑوں میں کفن دیا گیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے روز (۱۲/ربیع الاوّل) کو سقیفہ بنی ساعدہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعتِ خلافت ہوئی، اوّل اوّل مسئلہٴ خلافت پر مختلف آراء پیش ہوئیں، لیکن معمولی بحث و تمحیص کے بعد بالآخر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے انتخاب پر اتفاق ہوگیا اور تمام اہلِ حل و عقد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کس نے پڑھائی تھی؟
س… نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ہوئی تھی یا نہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ کس نے پڑھائی تھی؟ براہِ کرم جواب عنایت فرمائیں کیونکہ آج کل یہ مسئلہ ہمارے درمیان کافی بحث کا باعث بنا ہوا ہے۔
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ عام دستور کے مطابق جماعت کے ساتھ نہیں ہوئی، اور نہ اس میں کوئی امام بنا، ابنِ اسحاق وغیرہ اہلِ سِیَر نے نقل کیا ہے کہ تجہیز و تکفین کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ مبارک حجرہٴ شریف میں رکھا گیا، پہلے مردوں نے گروہ در گروہ نماز پڑھی، پھر عورتوں نے، پھر بچوں نے، حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نشر الطیب میں لکھتے ہیں:
“اور ابنِ ماجہ میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: جب آپ کا جنازہ تیار کرکے رکھا گیا تو اوّل مردوں نے گروہ در گروہ ہوکر نماز پڑھی، پھر عورتیں آئیں، پھر بچے آئے، اور اس نماز میں کوئی امام نہیں ہوا۔”
(نشر الطیب ص:۲۴۴ مطبوعہ تاج کمپنی)
علامہ سہیلی “الروض الانف” (ج:۲ ص:۳۷۷ مطبوعہ ملتان) میں لکھتے ہیں:
“یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور ایسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ہی سے ہوسکتا تھا، ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وصیت فرمائی تھی۔”
علامہ سہیلی نے یہ روایت طبرانی اور بزار کے حوالے سے، حافظ نورالدین ہیثمی نے مجمع الزوائد (ج:۹ ص:۲۵) میں بزار اور طبرانی کے حوالے سے اور حضرت تھانوی نے نشر الطیب میں واحدی کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:
“ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر نماز کون پڑھے گا؟ فرمایا: جب غسل کفن سے فارغ ہوں، میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جانا، اوّل ملائکہ نماز پڑھیں گے، پھر تم گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔”
سیرة المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں طبقات ابنِ سعد کے حوالے سے حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا ایک گروہ کے ساتھ نماز پڑھنا نقل کیا ہے۔
بے نمازی کے لئے سخت سزا ہے، اس کی نماز جنازہ ہو یا نہ ہو؟
س… ایک مولانا نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بے نمازی کا جنازہ نہیں پڑھایا، یہاں کہ ایک لاکھ اُنتیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی کبھی بے نمازی کا جنازہ تو کیا ان کے ہاتھ کا پانی تک نہیں پیا، اور حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی نے کبھی بے نمازی کا جنازہ نہیں پڑھایا۔ آپ سے عرض یہ ہے کہ آپ بھی انہی کے پیروکار ہیں، آپ تمام مولانا بے نمازی کا جنازہ پڑھانے سے ایک ساتھ بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ ایسا ہی کریں تو شاید ہی کوئی بے نمازی رہے؟
ج… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو کوئی “بے نمازی” ہوتا ہی نہیں تھا، اس زمانے میں تو بے ایمان منافق بھی لوگوں کو دِکھانے کے لئے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ حضرت پیرانِ پیر، حضرت امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے، اور امام احمد بن حنبل کے مذہب میں تارکِ صلوٰة کے بارے میں دو روایتیں ہیں، ایک یہ کہ جو شخص تین نماز بغیر عذرِ شرعی کے محض سستی کی وجہ سے چھوڑ دے وہ کافر و مرتد ہے، اور اپنے ارتداد کی وجہ سے واجب القتل ہے، قتل کے بعد نہ اسے غسل دیا جائے، نہ کفن، اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے، ممکن ہے حضرت پیرانِ پیر اسی قول پر عمل فرماتے ہوں۔ دُوسری روایت یہ ہے کہ وہ ہے تو مسلمان، لیکن بطور سزا اس کو قتل کیا جائے گا اور قتل کے بعد اس کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا، اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ امام ابنِ قدامہ نے “المغنی” میں اس مسئلے کو بہت تفصیل سے لکھا ہے، اہلِ علم اس کی طرف رُجوع فرمائیں۔
(المغنی مع الشرح الکبیر ج:۲ ص:۲۹۸-۳۰۱)
امام مالک اور امام شافعی کا مذہب وہی ہے جو اُوپر امام احمد کی دُوسری روایت میں ذکر کیا گیا کہ تارکِ صلوٰة کافر تو نہیں، مگر اس کی سزا قتل ہے، اور قتل کے بعد اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا، اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔
(شرح مہذب ج:۳ ص:۱۳)
امامِ اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک تارکِ صلوٰة کو قید کردیا جائے اور اس کی پٹائی کی جائے یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں مرجائے، مرنے کے بعد جنازہ اس کا بھی پڑھا جائے گا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بے نمازی کی سزا بہت ہی سخت ہے، لیکن اس کا جنازہ جائز ہے، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ترکِ صلوٰة کے گناہ سے بچائے۔
بے نمازی کی نمازِ جنازہ
س… ایک گاوٴں میں ایک انسان مرگیا، وہ بہت بے نمازی تھا، اس گاوٴں کے امام نے کہا کہ: میں اس کا جنازہ نہیں پڑھتا، اس جھگڑے کی وجہ سے گاوٴں والے دُوسرا مولوی لائے اس نے یہ فتویٰ دیا کہ بے نمازی کا جنازہ ہوسکتا ہے، لہٰذا اس دُوسرے مولوی صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی، براہ کرم ہمیں قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ بے نمازی کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟
ج… بے نمازی اگر خدا و رسول کے کسی حکم کا منکر نہیں تھا تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہئے، گاوٴں کے مولوی صاحب نے اگر لوگوں کو عبرت دِلانے کے لئے جنازہ نہیں پڑھا تو انہوں نے بھی غلط نہیں کیا، اگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ اس کا جنازہ دُرست ہی نہیں، تو یہ غلط بات ہوتی۔
بے نمازی کی لاش کو گھسیٹنا جائز نہیں، نیز اس کی بھی نمازِ جنازہ جائز ہے
س… ہمارے محلے میں ایک صاحب رہتے تھے، ان کا انتقال ہوگیا، انہیں کسی نے کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا، اس لئے لوگوں نے ان کی لاش کو چالیس قدم گھسیٹا اور پھر دفنادیا، مجھے بڑی حیرت ہوئی، ایک بزرگ سے دریافت کیا کہ ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک بھی نماز نہ پڑھے تو اس کے لئے حکم ہے کہ اس کی لاش کو چالیس قدم گھسیٹا جائے؟
ج… نماز نہ پڑھنا کبیرہ گناہ ہے، اور قرآنِ کریم اور حدیث شریف میں بے نمازی کے لئے بہت سخت الفاظ آئے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص نماز سے منکر نہ ہو تو اس کی لاش کی بے حرمتی جائز نہیں، اور اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے گا، البتہ اگر وہ نماز کی فرضیت کا قائل ہی نہیں تھا تو وہ مرتد ہے، اس کا جنازہ جائز نہیں۔
غیرشادی شدہ کی نمازِ جنازہ جائز ہے
س… کئی لوگوں سے سنا ہے کہ مرد اگر ۲۲ سال کی عمر سے زیادہ ہوجائے اور شادی نہ کرے اور غیرشادی شدہ ہی فوت ہوجائے تو اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھانی چاہئے، کیا یہ قرآن و حدیث سے صحیح ہے؟ اور اگر کوئی تعلیم حاصل کر رہا ہو اور شادی نہ کرنا چاہے تو اس کے متعلق تحریر فرمائیں۔
ج… آپ نے غلط سنا ہے، غیرشادی شدہ کا جنازہ بھی اسی طرح ضروری اور فرض ہے جس طرح شادی شدہ کا، لیکن نکاح عفت کا محافظ ہے۔
نمازِ جنازہ کے جواز کے لئے ایمان شرط ہے نہ کہ شادی
س… اگر کوئی آدمی شادی نہ کرے اور مرجائے تو اس پر جنازہ جائز نہیں، اس طرح اگر کوئی عورت شادی نہ کرے یا اس کا رشتہ نہ آئے اور شادی نہ ہوسکے تو کیا اس کا جنازہ جائز ہے؟ آج کل لڑکیوں کی بہتات ہے، اور بہت سی لڑکیوں کی عمر زیادہ ہوجاتی ہے، لیکن ان کا رشتہ نہیں آتا، اور ان کا اسی حالت میں انتقال ہوجاتا ہے۔
ج… یہ غلط ہے کہ اگر کوئی آدمی شادی نہ کرے اور مرجائے تو اس کا جنازہ جائز نہیں، کیونکہ جنازہ کے جائز ہونے کے لئے میّت کا مسلمان ہونا شرط ہے، شادی شدہ ہونا شرط نہیں۔
خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ معاشرے کے ممتاز لوگ نہ ادا کریں
س… ایک شخص نے خودکشی کرلی، نمازِ جنازہ کے وقت حاضرین میں اختلافِ رائے ہوگیا، اس پر قریب کے دو مولوی صاحبان سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، تھوڑی دیر بعد پھر ایک دارالعلوم سے ٹیلی فون پر معلوم ہوا کہ ایک خاص گروہ کے لوگ یعنی مفتی، عالم، دین دار وغیرہ نہ جنازہ پڑھاسکتے ہیں اور نہ ہی جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔ اب جو فریق نمازِ جنازہ میں شامل تھا وہ غیرشامل فریق سے کہتا ہے کہ تم لوگ ثواب سے محروم رہے ہو، اور دُوسرا فریق پہلے فریق سے کہتا ہے کہ تم نے گناہ کیا ہے۔ از راہ کرم آپ دونوں فریقین کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں۔
ج… خودکشی چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اس لئے فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ مقتدا اور ممتاز افراد اس کا جنازہ نہ پڑھیں، تاکہ لوگوں کو اس فعل سے نفرت ہو، عوام پڑھ لیں، تاہم پڑھنے والوں پر کوئی گناہ ہوا اور نہ ترک کرنے والوں پر، اس لئے دونوں فریقوں کا ایک دُوسرے پر طعن و الزام قطعاً غلط ہے۔
مقروض کی نماز میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت اور ادائیگی قرض
س… میں نے “رحمة للعالمین” کی جلد دوم صفحہ:۴۲۱ پر پڑھا ہے کہ جو مسلمان قرض چھوڑ کر مرے گا میں اس کا قرض ادا کروں گا، جو مسلمان ورثہ چھوڑ کر مرے گا اسے اس کے وارث سنبھالیں گے۔
ج… یہ حدیث جو آپ نے “رحمة للعالمین” کے حوالے سے نقل کی ہے، صحیح ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقروض کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ دُوسروں کو پڑھنے کا حکم فرمادیتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو آپ مقروض کا قرضہ اپنے ذمہ لے لیتے تھے اور اس کا جنازہ پڑھادیتے تھے۔
شہید کی نمازِ جنازہ کیوں؟ جبکہ شہید زندہ ہے
س… قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: “موٴمن اگر اللہ کی راہ میں مارے جائیں تو انہیں مرا ہوا مت کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں” اس حقیقت سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ شہید زندہ ہے تو پھر شہید کی نمازِ جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نمازِ جنازہ تو مُردوں کی پڑھی جاتی ہے؟
ج… آپ کے سوال کا جواب آگے اسی آیت میں موجود ہے: “وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) شعور نہیں رکھتے۔”
اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم نے شہداء کی جس زندگی کو ذکر فرمایا ہے، وہ ان کی دُنیوی زندگی نہیں، بلکہ اور قسم کی زندگی ہے، جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے، اور جو ہمارے شعور و ادراک سے بالاتر ہے، دُنیا کی زندگی مراد نہیں، چونکہ وہ حضرات دُنیوی زندگی پوری کرکے دُنیا سے رُخصت ہوگئے ہیں، اس لئے ہم ان کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور ان کی تدفین کے مکلف ہیں، اور ان کی وراثت تقسیم کی جاتی ہے، اور ان کی بیوائیں عدّت کے بعد عقدِ ثانی کرسکتی ہیں۔
باغی، ڈاکو اور ماں باپ کے قاتل کی نمازِ جنازہ نہیں
س… قاتل کو سزا کے طور پر قتل کیا جائے یا پھانسی دی جائے؟ اس کی نمازِ جنازہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر والدین کا قاتل ہو اس صورت میں کیا حکم ہے؟ فاسق و فاجر و زانی کی موت پر اس کی نمازِ جنازہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج… نمازِ جنازہ ہر گناہگار مسلمان کی ہے، البتہ باغی اور ڈاکو اگر مقابلے میں مارے جائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھایا جائے، نہ ان کو غسل دیا جائے، اسی طرح جس شخص نے اپنے ماں باپ میں سے کسی کو قتل کردیا ہو، اور اسے قصاصاً قتل کیا جائے تو اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھا جائے گا، اور اگر وہ اپنی موت مرے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے گا، تاہم سربر آوردہ لوگ اس کے جنازے میں شرک نہ کریں۔
قادیانیوں کا جنازہ جائز نہیں
س… موضع داتہ ضلع مانسہرہ جو کہ ربوہ ثانی ہے، میں ایک مرزائی مسمّیٰ ڈاکٹر محمد سعید کے مرنے پر مسلمانانِ “داتہ” نے ایک مسلمان امام کے زیرِ امامت اس قادیانی کی نمازِ جنازہ ادا کی، اور اس کے بعد قادیانیوں نے دوبارہ مسمّیٰ مذکورہ کی نمازِ جنازہ پڑھی، شرعاً امامِ مذکور اور مسلمانوں کے متعلق کیا حکم ہے؟
مسلمان لڑکیاں قادیانیوں کے گھروں میں بیوی کے طور پر رہ رہی ہیں، اور مسلمان والدین کے ان قادیانیوں کے ساتھ داماد اور سسرال جیسے تعلقات ہیں، کیا شریعتِ محمدی کی رُو سے ان کے ہاں پیدا ہونے والی اولاد حلالی ہوگی یا ولد الحرام کہلائے گی؟
عام مسلمانوں کے قادیانیوں کے ساتھ کافروں جیسے تعلقات نہیں، بلکہ مسلمانوں جیسے تعلقات ہیں، ان کے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے اور ان کی شادیوں اور ماتم میں شرکت کرتے ہیں، اور جب ایک دُوسرے سے ملتے ہیں تو “السلام علیکم” کہہ کر ملتے ہیں۔ شادی، ماتم میں کھانے دیتے ہیں، فاتحہ میں شرکت کرتے ہیں، شریعتِ محمدیہ کی رُو سے وہ قابلِ موٴاخذہ ہیں یا کہ نہیں؟ اور شرع کی رُو سے وہ مسلمان ہیں یا کہ نہیں؟
ج… جواب سے پہلے چند اُمور بطور تمہید ذکر کرتا ہوں:
اوّل:… جو شخص کفر کا عقیدہ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو اسلام کی طرف منسوب کرتا ہو، اور نصوصِ شرعیہ کی غلط سلط تأویلیں کرکے اپنے عقائدِ کفریہ کو اسلام کے نام سے پیش کرتا ہو، اسے “زندیق” کہا جاتا ہے۔
علامہ شامی “باب المرتد” میں لکھتے ہیں:
“فان الزندیق یموہ کفرہ ویروج عقیدتہ الفاسدة ویخرجھا فی الصورة الصحیحة وھٰذا معنی ابطال الکفر۔” (شامی ج:۴ ص:۲۴۳ طبع جدید)
ترجمہ:…”کیونکہ زندیق اپنے کفر پر ملمع کیا کرتا ہے، اور اپنے عقیدہٴ فاسدہ کو رواج دینا چاہتا ہے اور اسے بظاہر صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہی معنی ہیں کفر کو چھپانے کے۔”
اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مسوّیٰ شرح عربی موٴطا میں لکھتے ہیں:
“بیان ذالک ان المخالف للدین الحق ان لم یعترف بہ ولم یذعن لہ لا ظاھرًا ولا باطنًا فھو کافر وان اعترف بلسانہ وقلبہ علی الکفر فھو المنافق، وان اعترف بہ ظاہرًا لٰکنہ یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسرہ الصحابة والتابعون واجتمعت علیہ الأمة فھو الزندیق۔” (ص:۱۳۰، مطبوعہ رحیمیہ دہلی)
ترجمہ:…”شرح اس کی یہ ہے کہ جو شخص دینِ حق کا مخالف ہے، اگر وہ دینِ اسلام کا اقرار ہی نہ کرتا ہو، اور نہ دینِ اسلام کو مانتا ہو، نہ ظاہری طور پر اور نہ باطنی طور پر تو وہ کافر کہلاتا ہے، اور اگر زبان سے دین کا اقرار کرتا ہو لیکن دین کے بعض قطعیات کی ایسی تأویل کرتا ہو جو صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہو تو ایسا شخص “زندیق” کہلاتا ہے۔”
آگے تأویلِ صحیح اور تأویلِ باطل کا فرق کرتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“ثم التأویل تأویلان، تأویل لا یخالف قاطعًا من الکتاب والسنة واتفاق الأمة، وتأویل یصادم ما ثبت بقاطع فذالک الزندقة۔” (ص:۱۳۰)
ترجمہ:…”پھر تأویل کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ تأویل ہے جو کتاب و سنت اور اجماعِ اُمت سے ثابت شدہ کسی قطعی مسئلے کے خلاف نہ ہو، اور دُوسری وہ تأویل جو ایسے مسئلے کے خلاف ہو جو دلیلِ قطعی سے ثابت ہے، پس ایسی تأویل “زندقہ” ہے۔”
آگے زندیقانہ تأویلوں کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:
“او قال ان النبی صلی الله علیہ وسلم خاتم النبوة ولٰکن معنی ھذا الکلام انہ لا یجوز ان یسمی بعدہ احد بالنبی واما معنی النبوة وھو کان الانسان مبعوثا من الله تعالٰی الی الخلق مفترض الطاعة معصومًا من الذنوب ومن البقاء علی الخطا فیما یری فھو موجود فی الأمة بعد فھو الزندیق۔”
(مسوّیٰ ج:۲ ص:۱۳۰، مطبوعہ رحیمیہ دہلی)
ترجمہ:…”یا کوئی شخص یوں کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ خاتم النبیین ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا نام نبی نہیں رکھا جائے گا، لیکن نبوّت کا مفہوم یعنی کسی انسان کا اللہ تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کی طرف مبعوث ہونا، اس کی اطاعت کا فرض ہونا، اور اس کا گناہوں سے اور خطا پر قائم رہنے سے معصوم ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اُمت میں موجود ہے، تو یہ شخص “زندیق” ہے۔”
خلاصہ یہ کہ جو شخص اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کے رنگ میں پیش کرتا ہو، اسلام کے قطعی و متواتر عقائد کے خلاف قرآن و سنت کی تأویلیں کرتا ہو، ایسا شخص “زندیق” کہلاتا ہے۔
دوم:… یہ کہ زندیق مرتد کے حکم میں ہے، بلکہ ایک اعتبار سے زندیق، مرتد سے بھی بدتر ہے، کیونکہ اگر مرتد توبہ کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو تو اس کی توبہ بالاتفاق لائقِ قبول ہے، لیکن زندیق کی توبہ قبول ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے، چنانچہ درمختار میں ہے:
“(و) کذا الکافر بسبب (الزندقة) لا توبة لہ وجعلہ فی الفتح ظاھر المذھب لٰکن فی حظر الخانیة الفتویٰ علیٰ انہ (اذا اخذ) الساحر او الزندیق المعروف الداعی (قبل توبتہ) ثم تاب لم تقبل توبتہ ویقتل ولو اخذ بعدھا قبلت۔” (شامی ج:۴ ص:۲۴۱، طبع جدید)
ترجمہ:…”اور اسی طرح جو شخص زندقہ کی وجہ سے کافر ہوگیا ہو اس کی توبہ قابلِ قبول نہیں، اور فتح القدیر میں اس کو ظاہر مذہب بتایا ہے، لیکن فتاویٰ قاضی خان میں کتاب الحظر میں ہے کہ فتویٰ اس پر ہے جب جادُوگر اور زندیق جو معروف اور داعی ہوں، توبہ سے پہلے گرفتار ہوجائیں اور پھر گرفتار ہونے کے بعد توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول نہیں، بلکہ ان کو قتل کیا جائے گا، اور اگر گرفتاری سے پہلے توبہ کرلی تھی تو توبہ قبول کی جائے گی۔”
البحر الرائق میں ہے:
“لا تقبل توبة الزندیق فی ظاھر المذھب وھو من لا یتدین بدین ․․․․ وفی الخانیة قالوا ان جاء الزندیق قبل ان یوٴخذ فاقر انہ زندیق فتاب عن ذالک تقبل توبتہ وان اخذ ثم تاب لم تقبل توبتہ ویقتل۔”
(ج:۵ ص:۱۳۶، دار المعرفہ بیروت)
ترجمہ:…”ظاہر مذہب میں زندیق کی توبہ قابلِ قبول نہیں، اور زندیق وہ شخص ہے جو دین کا قائل نہ ہو، اور فتاویٰ قاضی میں ہے کہ اگر زندیق گرفتار ہونے سے پہلے خود آکر اقرار کرے کہ وہ زندیق ہے، پس اس سے توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول ہے، اور اگر گرفتار ہوا پھر توبہ کی تو اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، بلکہ اسے قتل کیا جائے گا۔”
سوم:… قادیانیوں کا زندیق ہونا بالکل واضح ہے، کیونکہ ان کے عقائد اسلامی عقائد کے قطعاً خلاف ہیں، اور وہ قرآن و سنت کی نصوص میں غلط سلط تأویلیں کرکے جاہلوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ خود تو وہ پکے سچے مسلمان ہیں، ان کے سوا باقی پوری اُمت گمراہ اور کافر و بے ایمان ہے، جیسا کہ قادیانیوں کے دُوسرے سربراہ آنجہانی مرزا محمود لکھتے ہیں کہ:
“کل مسلمان جو حضرت مسیحِ موعود (یعنی مرزا) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیحِ موعود کا نام بھی نہیں سنا، وہ کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں۔”
(آئینہٴ صداقت ص:۳۵)
مرزائیوں کے ملحدانہ عقائد حسبِ ذیل ہیں:
۱:… اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص منصبِ نبوّت پر فائز نہیں ہوسکتا، اس کے برعکس قادیانی نہ صرف اسلام کے اس قطعی عقیدے کے منکر ہیں، بلکہ ․․․نعوذ باللہ․․․ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوّت کے بغیر اسلام کو مردہ تصوّر کرتے ہیں، چنانچہ مرزا غلام احمد کا کہنا ہے کہ:
“ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ جس دین میں نبوّت کا سلسلہ نہ ہو وہ مردہ ہے، یہودیوں، عیسائیوں، ہندووٴں کے دین کو جو ہم مردہ کہتے ہیں تو اسی لئے کہ ان میں اب کوئی نبی نہیں ہوتا، اگر اسلام کا بھی یہی حال ہوتا تو پھر ہم بھی قصہ گو ٹھہرے۔ کس لئے اس کو دُوسرے دینوں سے بڑھ کر کہتے ہیں، آخر کوئی امتیاز بھی ہونا چاہئے ․․․․․ ہم پر کئی سالوں سے وحی نازل ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کئی نشان اس کے صدق کی گواہی دے چکے ہیں، اس لئے ہم نبی ہیں، امرِ حق کے پہنچانے میں کسی قسم کا اخفاء نہ رکھنا چاہئے۔” (ملفوظات مرزا جلد:۱۰ ص:۱۲۷ طبع شدہ ربوہ)
۲:… اسلام کا قطعی عقیدہ ہے کہ وحیٴ نبوّت کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بند ہوچکا ہے، اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحیٴ نبوّت کا دعویٰ کرے وہ دائرہٴ اسلام سے خارج ہے، لیکن قادیانی، مرزا غلام احمد کی خود تراشیدہ وحی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسے قرآنِ کریم کی طرح مانتے ہیں، قرآنِ کریم کے ناموں میں سے ایک نام “تذکرہ” ہے، قادیانیوں نے مرزا غلام احمد کی “وحی” کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا ہے، اور اس کا نام “تذکرہ” رکھا ہے، یہ گویا قادیانی قرآن ہے، ․․․نعوذ باللہ․․․ اور یہ قادیانی وحی کوئی معمولی قسم کا الہام نہیں جو اولیاء اللہ کو ہوتا ہے، بلکہ ان کے نزدیک یہ وحی، قرآنِ کریم کے ہم سنگ ہے، ملاحظہ فرمائیے:
۱:… “اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں، ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرّہ کے خدا کی اس کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی۔”
(ایک غلطی کا ازالہ ص:۶، طبع شدہ ربوہ)
۲:… “مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ توریت اور انجیل اور قرآنِ کریم پر۔”
(اربعین ص:۱۱۲، طبع شدہ ربوہ)
۳:… “میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دُوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں، اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے اُوپر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔”
(حقیقة الوحی ص:۲۲۰ طبع شدہ ربوہ)
۳:… اسلام کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معجزہ دِکھانے کا دعویٰ کفر ہے، کیونکہ معجزہ دِکھانا صرف نبی کی خصوصیت ہے، پس جو شخص معجزہ دِکھانے کا دعویٰ کرے، وہ مدعیٴ نبوّت ہونے کی وجہ سے کافر ہے، شرحِ فقہِ اکبر میں علامہ مُلَّا علی قاری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
“التحدی فرع دعوی النبوة ودعوی النبوة بعد نبینا صلی الله علیہ وسلم کفر بالاجماع۔”(ص:۲۰۲)
ترجمہ:…”معجزہ دِکھانے کا دعویٰ فرع ہے، دعویٴ نبوّت کی، اور نبوّت کا دعویٰ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بالاجماع کفر ہے۔”
اس کے برعکس قادیانی، مرزا غلام احمد کی وحی کے ساتھ اس کے “معجزات” پر بھی ایمان رکھتے ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کو ․․․نعوذ باللہ․․․ قصے اور کہانیاں قرار دیتے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی صورت میں نبی ماننے کے لئے تیار ہیں جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو بھی نبی مانا جائے، ورنہ ان کے نزدیک نہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں اور نہ دینِ اسلام، دین ہے، مرزا غلام احمد لکھتے ہیں:
“وہ دین، دین نہیں ہے اور نہ وہ نبی، نبی ہے، جس کی متابعت سے انسان خدا تعالیٰ سے اس قدر نزدیک نہیں ہوسکتا کہ مکالماتِ الٰہی سے مشرف ہوسکے، وہ دین لعنتی اور قابلِ نفرت ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ صرف چند منقول باتوں پر (یعنی اسلامی شریعت پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے، ناقل) انسانی ترقیات کا انحصار ہے اور وحیٴ الٰہی آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے، سو ایسا دین بہ نسبت اس کے کہ اس کو رحمانی کہیں، شیطانی کہلانے کا زیادہ مستحق ہے۔”
(رُوحانی خزائن ج:۲۱ ص:۳۰۶، ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصہ پنجم ص:۱۳۹)
“یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وحیٴ الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور آئندہ کو قیامت تک اس کی کوئی بھی اُمید نہیں۔ صرف قصوں کی پوجا کرو، پس کیا ایسا مذہب کچھ مذہب ہوسکتا ہے کہ جس میں براہِ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا ․․․․․ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس زمانے میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہوگا، میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں نہ کہ رحمانی۔”
(رُوحانی خزائن ج:۲۱ ص:۳۵۴، ضمیمہ براہینِ احمدیہ حصہ پنجم ص:۱۸۳)
“اگر سچ پوچھو تو ہمیں قرآنِ کریم پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اسی (مرزا) کے ذریعے ایمان حاصل ہوا، ہم قرآنِ کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے آپ (مرزا) کی نبوّت ثابت ہوتی ہے۔ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ (مرزا) کی نبوّت کا ثبوت ملتا ہے، نادان ہم پر اعتراض کرتا ہے کہ ہم حضرت مسیحِ موعود (مرزا) کو نبی مانتے ہیں، اور کیوں اس کے کلام کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں، وہ نہیں جانتا کہ قرآنِ کریم پر یقین ہمیں اس کے کلام کی وجہ سے ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت پر یقین اس (مرزا) کی نبوّت سے ہوا ہے۔”
(مرزا بشیرالدین کی تقریر “الفضل” قادیان جلد:۳ موٴرخہ ۱۱/جولائی ۱۹۲۵ء)
مرزا صاحب کی مندرجہ بالا دونوں عبارتوں سے واضح ہے کہ اگر مرزا صاحب پر وحیٴ الٰہی کا نزول تسلیم نہ کیا جائے اور مرزا غلام احمد کو نبی نہ مانا جائے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت بھی ان کے نزدیک ․․․نعوذ باللہ․․․ باطل ہے، اور دینِ اسلام محض قصوں کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ مرزا صاحب ایسے اسلام کو لعنتی، شیطانی اور قابلِ نفرت قرار دے کر اس سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ سب دہریوں سے بڑھ کر اپنے دہریہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں، مسلمانوں کو نظرِ عبرت سے دیکھنا چاہئے، کیا اس سے بڑھ کر کوئی کفر و اِلحاد اور زندقہ اور بددینی ہوسکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دینِ اسلام کو اس طرح پیٹ بھر کر گالیاں نکالی جائیں؟
۴:… مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم “محمد رسول اللہ” ہیں، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اشتہار “ایک غلطی کا ازالہ” میں اپنے الہام کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود “محمد رسول اللہ” ہے ․․․نعوذ باللہ․․․۔ چونکہ قادیانی، مرزا غلام احمد کی “وحی” پر قطعی ایمان رکھتے ہیں، اس لئے وہ مرزا آنجہانی کو “محمد رسول اللہ” مانتے ہیں اور جو شخص مرزا کو “محمد رسول اللہ” نہ مانے، اسے کافر سمجھتے ہیں۔
۵:… قرآنِ کریم اور احادیثِ متواترہ کی بنا پر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اُٹھالیا گیا اور وہ قربِ قیامت میں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے، لیکن مرزائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی، عیسیٰ ہے، اور قرآن و حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی جو خبر دی گئی ہے، اس سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہے۔
قادیانیوں کے اس طرح بے شمار زندیقانہ عقائد ہیں جن پر علمائے اُمت نے بہت سی کتابیں تالیف فرمائی ہیں، اس لئے مرزائیوں کا کافر و مرتد اور ملحد و زندیق ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔
چہارم:… نمازِ جنازہ صرف مسلمانوں کی پڑھی جاتی ہے، کسی غیرمسلم کا جنازہ جائز نہیں، قرآنِ کریم میں ہے:
“ولا تصل علیٰ احد منھم مات ابدًا ولا تقم علیٰ قبرہ انھم کفروا بالله ورسولہ وماتوا وھم فاسقون۔” (التوبہ:۸۳)
ترجمہ:…”اور ان میں کوئی مرجائے تو اس (کے جنازے) پر کبھی نماز نہ پڑھ اور نہ (دفن کے لئے) اس کی قبر پر کھڑے ہوجئے، کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ حالتِ کفر ہی میں مرے ہیں۔”
اور تمام فقہائے اُمت اس پر متفق ہیں کہ جنازہ کے جائز ہونے کے لئے شرط ہے کہ میّت مسلمان ہو، غیرمسلم کا جنازہ بالاجماع جائز نہیں، نہ اس کے لئے دُعائے مغفرت کی اجازت ہے، اور نہ اس کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کرنا ہی جائز ہے۔
ان تمہیدات کے بعد اب بالترتیب سوالوں کا جواب لکھا جاتا ہے۔
جواب، سوالِ اوّل:… جن مسلمانوں نے مرزائی مرتد کا جنازہ پڑھا ہے، اگر وہ اس کے عقائد سے ناواقف تھے تو انہوں نے بُرا کیا، اس پر ان کو اِستغفار کرنا چاہئے، کیونکہ مرزائی مرتد کا جنازہ پڑھ کر انہوں نے ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کیا ہے۔
اور اگر ان لوگوں کو معلوم تھا کہ یہ شخص مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی مانتا ہے، اس کی “وحی” پر ایمان رکھتا ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کا منکر ہے، اس علم کے باوجود انہوں نے اس کو مسلمان سمجھا اور مسلمان سمجھ کر ہی اس کا جنازہ پڑھا تو ان تمام لوگوں کو جو جنازہ میں شریک تھے، اپنے ایمان اور نکاح کی تجدید کرنی چاہئے، کیونکہ ایک مرتد کے عقائد کو اسلام سمجھنا کفر ہے، اس لئے ان کا ایمان بھی جاتا رہا، اور نکاح بھی باطل ہوگیا۔ ان میں سے کسی نے اگر حج کیا تھا تو اس پر دوبارہ حج کرنا بھی لازم ہے۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی ضروری ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک کسی مسلمان کا جنازہ جائز نہیں، یہاں تک کہ مسلمانوں کے معصوم بچے کا جنازہ بھی قادیانیوں کے نزدیک جائز نہیں، چنانچہ قادیانیوں کے خلیفہ دوم مرزا محمود اپنی کتاب “انوارِ خلافت” میں لکھتے ہیں:
“ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیراحمدی (یعنی مسلمان) تو حضرت مسیحِ موعود (غلام احمد قادیانی) کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے، لیکن اگر کسی غیراحمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیحِ موعود کا منکر نہیں؟
میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات دُرست ہے تو پھر ہندووٴں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟ کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذہب ہوتا ہے شریعت وہی مذہب بچے کا قرار دیتی ہے، پس غیراحمدی کا بچہ غیراحمدی ہوا، اس لئے اس کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے، پھر میں کہتا ہوں کہ بچہ گناہگار نہیں ہوتا، اس کو جنازے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بچے کا جنازہ تو دُعا ہوتی ہے اس کے پسماندگان کے لئے اور اس کے پسماندگان ہمارے نہیں، بلکہ غیراحمدی ہوتے ہیں، اس لئے بچے کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے۔” (انوارِ خلافت ص:۹۳)
اخبار “الفضل” موٴرخہ ۲۳/اکتوبر ۱۹۲۲ء میں مرزا محمود کا ایک فتویٰ شائع ہوا کہ:
“جس طرح عیسائی بچے کا جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا ہے، اگرچہ وہ معصوم ہی ہوتا ہے، اسی طرح ایک غیراحمدی کے بچے کا بھی جنازہ نہیں پڑھا جاسکتا ہے۔”
چنانچہ اپنے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے چوہدری ظفراللہ خان نے قائدِاعظم کا جنازہ نہیں پڑھا، اور منیر انکوائری عدالت میں جب اس کی وجہ دریافت کی گئی تو انہوں نے کہا:
“نمازِ جنازہ کے امام مولانا شبیر احمد عثمانی، احمدیوں کو کافر، مرتد اور واجب القتل قرار دے چکے تھے، اس لئے میں اس نماز میں شریک ہونے کا فیصلہ نہ کرسکا، جس کی امامت مولانا کر رہے تھے۔” (رپورٹ تحقیقاتی عدالت پنجاب ص:۲۱۲)
لیکن عدالت سے باہر جب ان سے یہ بات پوچھی گئی کہ آپ نے قائدِاعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا؟ تو انہوں نے جواب دیا:
“آپ مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر سمجھ لیں یا مسلمان حکومت کا کافر نوکر۔” (“زمیندار” لاہور ۸/فروری ۱۹۵۰ء)
اور جب اخبارات میں چوہدری ظفراللہ خان کی اس ہٹ دھرمی کا چرچا ہوا تو جماعتِ احمدیہ ربوہ کی طرف سے اس کا جواب یہ دیا گیا:
“جناب چوہدری محمد ظفراللہ خان پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ نے قائدِاعظم کا جنازہ نہیں پڑھا، تمام دُنیا جانتی ہے کہ قائدِاعظم احمدی نہ تھے، لہٰذا جماعتِ احمدیہ کے کسی فرد کا ان کا جنازہ نہ پڑھنا کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں۔”
(ٹریکٹ ۲۲، احراری علماء کی راست گوئی کا نمبر، ناشر مہتمم نشر و اشاعت انجمن احمدیہ ربوہ ضلع جھنگ)
قادیانیوں کے اخبار “الفضل” نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
“کیا یہ حقیقت نہیں کہ ابوطالب بھی قائدِاعظم کی طرح مسلمانوں کے بہت بڑے محسن تھے، مگر نہ مسلمانوں نے آپ کا جنازہ پڑھا اور نہ رسولِ خدا نے۔”
(“الفضل” ربوہ ۲۸/اکتوبر ۱۹۵۲ء)
کس قدر لائقِ شرم بات ہے کہ قادیانی تو مسلمانوں کو ہندووٴں، سکھوں اور عیسائیوں کی طرح کافر سمجھتے ہوئے نہ ان کے بڑے سے بڑے آدمی کا جنازہ پڑھیں اور نہ ان کے معصوم بچوں کا، کیا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ قادیانی مرتد کا جنازہ پڑھے؟ کیا اس کی غیرت اس کو برداشت کرسکتی ہے․․․؟
جواب، سوالِ دوم:… جب یہ معلوم ہوا کہ قادیانی، کافر و مرتد ہیں، تو اسی سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کسی مسلمان لڑکی کا نکاح مرزائی مرتد سے نہیں ہوسکتا، اسلام کی رُو سے یہ خالص زنا ہے، اگر کسی مسلمان نے لاعلمی اور بے خبری کی وجہ سے کسی مرزائی کو لڑکی بیاہ دی ہے تو اس کا فرض ہے کہ علم ہوجانے کے بعد اپنے گناہ سے توبہ کرے اور لڑکی کو قادیانیوں کے چنگل سے واگزار کرائے۔
واضح رہے کہ مرزائیوں کے نزدیک مسلمانوں کی وہی حیثیت ہے جو ہمارے نزدیک یہودیوں اور عیسائیوں کی ہے، مرزائیوں کے نزدیک مسلمانوں سے لڑکیاں لینا تو جائز ہے، لیکن مسلمانوں کو دینا جائز نہیں، مرزا محمود کا فتویٰ ہے:
“جو شخص اپنی لڑکی کا رشتہ غیراحمدی لڑکے کو دیتا ہے، میرے نزدیک وہ احمدی نہیں، کوئی شخص کسی کو غیرمسلم سمجھتے ہوئے اپنی لڑکی اس کے نکاح میں نہیں دے سکتا۔”
“سوال:… جو نکاح خواں ایسا نکاح پڑھائے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب:… ایسے نکاح خواں کے متعلق ہم وہی فتویٰ دیں گے جو اس شخص کی نسبت دیا جاسکتا ہے، جس نے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح ایک عیسائی یا ہندو لڑکے سے پڑھ دیا ہو۔
سوال:… کیا ایسا شخص جس نے غیراحمدیوں سے اپنی لڑکی کا رشتہ کیا ہے، وہ دُوسرے احمدیوں کو شادی میں مدعو کرسکتا ہے؟
جواب:… ایسی شادی میں شریک ہونا بھی جائز نہیں۔”
(اخبار “الفضل” قادیان ۲۳/مئی ۱۹۲۱ء)
پس جس طرح مرزا محمود کے نزدیک وہ شخص مرزائی جماعت سے خارج ہے جو کسی مسلمان لڑکے کو اپنی لڑکی بیاہ دے، اسی طرح وہ مسلمان بھی دائرہٴ اسلام سے خارج ہے جو قادیانیوں کے عقائد سے واقف ہونے کے بعد کسی مرتد مرزائی کو اپنی لڑکی دینا جائز سمجھے، اور جس طرح مرزا محمود کے نزدیک کسی مرزائی لڑکی کا نکاح کسی مسلمان لڑکے سے پڑھانا ایسا ہے جیسا کہ کسی ہندو یا عیسائی سے، اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ کسی مرزائی مرتد کو داماد بنانا ایسا ہے جیسے کسی ہندو، سکھ، چوہڑے کو داماد بنالیا جائے۔
جواب، سوالِ سوم:…کسی مسلمان کے لئے مرزائی مرتدین کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک کرنا حرام ہے، ان کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، ان کی شادی غمی میں شرکت کرنا یا ان کو اپنی شادی غمی میں شریک کرانا حرام اور قطعی حرام ہے۔ جو لوگ اس معاملے میں رواداری سے کام لیتے ہیں وہ خدا اور رسول کے غضب کو دعوت دیتے ہیں، ان کو اس سے توبہ کرنی چاہئے، اور مرزائیوں سے اس قسم کے تمام تعلقات ختم کردینے چاہئیں۔ قادیانی خدا اور رسول کے دُشمن ہیں اور خدا و رسول کے دُشمنوں سے دوستانہ تعلقات رکھنا کسی موٴمن کا کام نہیں ہوسکتا۔
قرآن مجید میں ہے:
“لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّوٴْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللهَ وَرَسُوْلَہ، وَلَوْ کَانُوٓا اٰبَآئَھُمْ اَوْ اَبْنَآئَھُمْ اَوْ اِخْوٰنَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ، اُوْلٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ، وَیُدْخِلُھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْأَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا، رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ، اَوْلٰٓئِکَ حِزْبُ اللهِ، اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللهِ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔” (المجادلہ:۲۲)
ترجمہ:…”جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں، گو وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہوں، ان لوگوں کے دِلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے، اور ان (کے قلوب) کو اپنے فیض سے قوّت دی ہے، (فیض سے مراد نور ہے) اور ان کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے، یہ لوگ اللہ کا گروہ ہے، خوب سن لو! کہ اللہ ہی کا گروہ فلاح پانے والا ہے۔”
(ترجمہ حضرت تھانوی)
اخیر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے آئین میں قادیانیوں کو “غیرمسلم اقلیت” قرار دیا گیا، لیکن قادیانیوں نے تاحال نہ تو اس فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور نہ انہوں نے پاکستان میں غیرمسلم شہری (ذمی) کی حیثیت سے رہنے کا معاہدہ کیا ہے، اس لئے ان کی حیثیت ذمیوں کی نہیں بلکہ “محارب کافروں” کی ہے، اور محاربین سے کسی قسم کا تعلق رکھنا شرعاً جائز نہیں۔
قادیانی مردے کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور فاتحہ دُعا و اِستغفار کرنا حرام ہے
س… قادیانی مردے کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا جانا، فاتحہ پڑھنا، گھر میں جاکر سوگ اور اظہارِ ہمدردی کرنا، ایصالِ ثواب کے لئے قرآن خوانی میں شرکت کرنا کیسا ہے؟
ج… قادیانی، کافر و مرتد اور زندیق ہیں، ان کے دفن میں شرکت کرنا، ان کی فاتحہ پڑھنا، ان کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا حرام ہے، مسلمانوں کو ان سے مکمل قطع تعلق کرنا چاہئے۔
قادیانی مردہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا ناجائز ہے
س… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس سلسلے میں کہ بعض دفعہ قادیانی اپنے مردے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کردیتے ہیں، اور پھر مسلمانوں کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کو نکالا جائے، تو کیا قادیانی کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں؟ اور مسلمانوں کے اس طرزِ عمل کا کیا جواز ہے؟
ج… قادیانی غیرمسلم اور زندیق ہیں، ان پر مرتدین کے اَحکام جاری ہوتے ہیں، کسی غیرمسلم کی نمازِ جنازہ جائز نہیں، چنانچہ قرآنِ کریم میں اس کی صاف ممانعت موجود ہے، ارشادِ خداوندی ہے:
“ولا تصل علیٰ احد منھم مات ابدًا ولا تقم علی قبرہ انھم کفروا بالله ورسولہ وماتوا وھم فاسقون۔” (التوبہ:۸۴)
ترجمہ:…”اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مرجاوے کبھی اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر، وہ منکر ہوئے اللہ سے اور اس کے رسول سے اور وہ مرگئے نافرمان۔”
(ترجمہ حضرت شیخ الہند)
اسی طرح کسی غیرمسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، جیسا کہ آیتِ کریمہ کے الفاظ “ولا تقم علیٰ قبرہ” سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے قبرستان ہمیشہ الگ الگ رہے، پس کسی مسلمان کے اسلامی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے، علامہ سعدالدین مسعود بن عمر بن عبداللہ التفتازانی (المتوفی ۷۹۱ھ) “شرح المقاصد” میں ایمان کی تعریف میں مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اگر ایمان دِل و زبان سے تصدیق کرنے کا نام ہو تو اقرار رُکنِ ایمان ہوگا، اور ایمان تصدیق مع الاقرار کو کہا جائے گا، لیکن اگر ایمان صرف تصدیقِ قلبی کا نام ہو:
“فان الاقرار حینئذ شرط لاجراء الأحکام علیہ فی الدنیا من الصلاة علیہ وخلفہ، والدفن فی مقابر المسلمین والمطالبة بالعشور والزکاوات ونحو ذٰلک۔”
(شرح المقاصد ج:۲ ص:۲۴۸ مطبوعہ دار المعارف النعمانیہ لاہور)
ترجمہ:…”تو اقرار اس صورت میں، اس شخص پر دُنیا میں اسلام کے اَحکام جاری کرنے کے لئے شرط ہوگا، یعنی اس کی نمازِ جنازہ، اس کے پیچھے نماز پڑھنا، اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا، اس سے زکوٰة و عشر کا مطالبہ کیا جانا اور اس طرح کے دیگر اُمور۔”
اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی اسلامی حقوق میں سے ایک ہے، جو صرف مسلمان کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ کہ جس طرح کسی غیرمسلم کی اقتدا میں نماز جائز نہیں، اس کی نمازِ جنازہ جائز نہیں، اور اس سے زکوٰة و عشر کا مطالبہ دُرست نہیں، ٹھیک اسی طرح کسی غیرمسلم مردے کو مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ دینا بھی جائز نہیں، اور یہ کہ یہ مسئلہ تمام اُمتِ مسلمہ کا متفق علیہ اور مُسلَّمہ مسئلہ ہے، جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں، چنانچہ ذیل میں مذاہبِ اربعہ کی مستند کتابوں سے اس مسئلے کی تصریحات نقل کی جاتی ہیں، والله الموفق!
فقہِ حنفی:… شیخ زین الدین ابن نجیم المصری (المتوفی ۹۷۰ھ) “الاشباہ والنظائر” کے فنِ اوّل قاعدہٴ ثانیہ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“قال الحاکم فی الکافی من کتاب التحری: واذا اختلط موتی المسلمین وموتی الکفار فمن کانت علیہ علامة المسلمین صلی علیہ ومن کانت علیہ علامة الکفار ترک، فان لم تکن علیھم علامة والمسلمون اکثر غسلوا وکفنوا وصلی علیھم وینوون بالصلاة والدعاء للمسلمین دون الکفار، ویدفنون فی مقابر المسلمین، وان کان الفریقان سواء او کانت الکفار اکثر لم یصل علیھم، ویغسلون ویکفنون ویدفنون فی مقابر المشرکین۔”
(الاشباہ والنظائر ج:۱ ص:۱۵۲، مطبوعہ ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی)
ترجمہ:…”امام حاکم “الکافی” کی کتاب التحری میں فرماتے ہیں: اور جب مسلمان اور کافر مردے خلط ملط ہوجائیں تو جن مُردوں پر مسلمانوں کی علامت ہوگی ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، اور جن پر کفار کی علامت ہوئی ان کی نمازِ جنازہ نہیں ہوگی۔ اور اگر ان پر کوئی شناختی علامت نہ ہو تو اگر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو سب کو غسل و کفن دے کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، اور نیت یہ کی جائے گی کہ ہم صرف مسلمانوں پر نماز پڑھتے ہیں اور ان کے لئے دُعا کرتے ہیں، اور ان سب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، اور اگر دونوں فریق برابر ہوں یا کافروں کی اکثریت ہو تو ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، ان کو غسل و کفن دے کر غیرمسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔”
نیز دیکھئے: “نفع المفتی والسائل” از مولانا عبدالحی لکھنوی (المتوفی ۱۳۰۴ھ) اواخر کتاب الجنائز۔
مندرجہ بالا مسئلے سے معلوم ہوا کہ اگر مسلمان اور کافر مردے مختلط ہوجائیں اور مسلمانوں کی شناخت نہ ہوسکے تو اگر دونوں فریق برابر ہوں، یا کافر مُردوں کی اکثریت ہو تو اس صورت میں مسلمان مُردوں کو بھی اشتباہ کی بنا پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہ ہوگا، اسی سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ جو مردہ قطعی طور پر غیرمسلم، مرتد قادیانی ہو اس کا مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بدرجہ اَوْلیٰ جائز نہیں، اور کسی صورت میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
نیز “الاشباہ والنظائر” فن ثانی، کتاب السیَر، باب الردة کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“واذا مات او قتل علی ردتہ لم یدفن فی مقابر المسلمین ولا اھل ملّة وانما یلقی فی حفرة کالکلب۔”
(الاشباہ والنظائر ج:۱ ص:۲۹۱، مطبوعہ ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی)
ترجمہ:…”اور جب مرتد مرجائے یا ارتداد کی حالت میں قتل کردیا جائے تو اس کو نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ کسی اور ملت کے قبرستان میں، بلکہ اسے کتے کی طرح گڑھے میں ڈال دیا جائے۔”
منددرجہ بالا جزئیہ قریباً تمام کتبِ فقہیہ میں کتاب الجنائز اور کتاب السیَر، باب المرتد میں ذکر کیا گیا ہے، مثلاً: در مختار میں ہے:
“اما المرتد فیلقی فی حفرة کالکلب۔”
ترجمہ:…”لیکن مرتد کو کتے کی طرح گڑھے میں ڈال دیا جائے۔”
علامہ محمد امین بن عابدین شامی اس کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“ولا یغسل ولا یکفن ولا یدفع الی من انتقل الی دینھم، بحر عن الفتح۔”
(رد المحتار ج:۲ ص:۲۳۰، مطبوعہ کراچی)
ترجمہ:…”نہ اسے غسل دیا جائے، نہ کفن دیا جائے، نہ اسے ان لوگوں کے سپرد کیا جائے جن کا مذہب اس مرتد نے اختیار کیا۔”
قادیانی چونکہ زندیق اور مرتد ہیں، اس لئے اگر کسی کا عزیز قادیانی مرتد ہوجائے تو نہ اسے غسل دے، نہ کفن دے، نہ اسے مرزائیوں کے سپرد کرے، بلکہ گڑھا کھود کر اسے کتے کی طرح اس میں ڈال دے، اسے نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، بلکہ کسی اور مذہب و ملت کے قبرستان یا مرگھٹ، مثلاً: یہودیوں کے قبرستان اور نصرانیوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی جائز نہیں۔
فقہِ مالکی:… قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ المالکی الاشبیلی المعروف بابن العربی (المتوفی ۵۴۳ھ) سورة الاعراف کی آیت:۱۷۲ کے تحت متأوّلین کے کفر پر گفتگو کرتے ہوئے “قدریہ” کے بارے میں لکھتے ہیں:
“اختلف علماء المالکیة فی تکفیرھم علیٰ قولین، فالصریح من اقوال مالک تفکیرھم۔”
ترجمہ:…”علمائے مالکیہ کے ان کی تکفیر میں دو قول ہیں، چنانچہ امام مالک کے اقوال سے صاف طور پر ثابت ہے کہ وہ کافر ہیں۔”
آگے دُوسرے قول (عدمِ تکفیر) کی تضعیف کرنے کے بعد امام مالک کے قول پر تفریع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“فلا یناکحوا ولا یصلی علیھم فان خیف علیھم الضیعة دفنوا کما یدفن الکلب۔
فان قیل: واین یدفنون؟ قلنا: لا یوٴذی بجوارھم مسلم۔”
(اَحکام القرآن لابن العربی جلد: دوم صفحات مسلسل:۸۰۲، مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:…”پس نہ ان سے رشتہ ناتا کیا جائے، نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اور اگر ان کا کوئی والی وارث نہ ہو اور ان کی لاش ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو کتے کی طرح کسی گڑھے میں ڈال دیا جائے۔
اگر یہ سوال ہو کہ انہیں کہاں دفن کیا جائے؟ تو ہمارا جواب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو ان کی ہمسائیگی سے ایذا نہ دی جائے (یعنی مسلمانوں کے قبرستانوں میں انہیں دفن نہ کیا جائے)۔”
فقہِ شافعی:… الشیخ الامام جمال الدین ابو اسحاق ابراہیم بن علی بن یوسف الشیرازی الشافعی (المتوفی ۴۷۶ھ) اور امام محی الدین یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:
“قال المصنف رحمہ الله ولا یدفن کافر فی مقبرة المسلمین ولا مسلم فی مقبرة الکفار۔
الشرح: اتفق اصحابنا رحمھم الله علیٰ انہ لا یدفن مسلم فی مقبرة کفار، ولا کافر فی مقبرة مسلمین، ولو ماتت ذمیة حامل بمسلم ومات جنینھا فی جوفھا ففیہ اوجہ (الصحیح) انھا تدفن بین مقابر المسلمین والکفار، ویکون ظھرھا الی القبلة لأن وجہ الجنین الی ظھر امّہ ھٰکذا قطع بہ ابن الصباغ والشاشی وصاحب البیان وغیرھم وھو المشھور۔”
(شرح مہذب ج:۵ ص:۲۸۵ مطبوعہ بیروت)
ترجمہ:…”مصنف فرماتے ہیں: اور نہ دفن کیا جائے کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں، اور نہ کسی مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں۔
شرح: اس مسئلے میں ہمارے اصحاب (شافعیہ) کا اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں اور کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا، اور اگر کوئی ذمی عورت مرجائے جو اپنے مسلمان شوہر سے حاملہ تھی، اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مرجائے تو اس میں چند وجہیں ہیں، صحیح یہ ہے کہ اس کو مسلمانوں اور کافروں کے قبرستان کے درمیان الگ دفن کیا جائے گا، اور اس کی پشت قبلے کی طرف کی جائے گی، کیونکہ پیٹ کے بچے کا منہ اس کی ماں کی پشت کی طرف ہوتا ہے، ابن الصباغ، شاشی، صاحب البیان اور دیگر حضرات نے اسی قول کو جزماً اختیار کیا ہے، اور یہی ہمارے مذہب کا مشہور قول ہے۔”
فقہِ حنبلی:… الشیخ الامام موفق الدین ابو محمد عبداللہ بن احمد بن محمد بن قدامة المقدسی الحنبلی (المتوفی ۶۲۰ھ) “المغنی” میں اور امام شمس الدین ابوالفرج عبدالرحمن بن محمد بن احمد بن قدامة المقدسی الحنبلی (المتوفی ۶۸۲ھ) “الشرح الکبیر” میں لکھتے ہیں:
“مسألة: قال: وان ماتت نصرانیة وھی حاملة من مسلم دفنت بین مقبرة المسلمین ومقبرة النصاریٰ، اختار ھذا احمد، لأنھا کافرة لا تدفن فی مقبرة المسلمین فیتأذوا بعذابھا، ولا فی مقبرة الکفار لأن ولدھا مسلم فیتأذی بعذابھم، وتدفن منفردة، مع أنہ روی عن واثلة بن الأسقع مثل ھٰذا القول، وروی عن عمر أنھا تدفن فی مقابر المسلمین، قال ابن المنذر: لا یثبت۔ ذٰلک قال اصحابنا ویجعل ظھرھا الی القبلة علی جانبھا الأیسر لیکون وجہ الجنین الی القبلة علی جانبہ الأیمن، لأن وجہ الجنین الی ظھرھا۔”
(المغنی مع الشرح الکبیر ج:۲ ص:۴۲۳، مطبوعہ بیروت ۱۴۰۳ھ)
ترجمہ:…”اور اگر نصرانی عورت جو اپنے مسلمان شوہر سے حاملہ تھی، مرجائے تو اسے (نہ تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ نصاریٰ کے قبرستان میں، بلکہ) مسلمانوں کے قبرستان اور نصاریٰ کے قبرستان کے درمیان الگ دفن کیا جائے، امام احمد نے اس کو اس لئے اختیار کیا ہے کہ وہ عورت تو کافر ہے، اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا کہ اس کے عذاب سے مسلمان مُردوں کو ایذا نہ ہو، اور نہ اسے کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا کیونکہ اس کے پیٹ کا بچہ مسلمان ہے، اسے کافروں کے عذاب سے ایذا ہوگی، اس لئے اس کو الگ دفن کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ یہ بھی حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے اسی قول کے مثل مروی ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جو مروی ہے کہ ایسی عورت کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ روایت حضرت عمر سے ثابت نہیں۔ ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ اس نصرانی عورت کو بائیں کروٹ پر لٹاکر اس کی پشت قبلے کی طرف کی جائے تاکہ بچے کا منہ قبلے کی طرف رہے، اور وہ داہنی کروٹ پر ہو، کیونکہ پیٹ میں بچے کا چہرہ عورت کی پشت کی طرف ہوتا ہے۔”
مندرجہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ یہ شریعتِ اسلامی کا متفق علیہ اور مُسلَّم مسئلہ ہے کہ کسی غیرمسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جاسکتا، شریعتِ اسلامی کا یہ مسئلہ اتنا صاف اور واضح ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا حوالہ دیا ہے، چنانچہ جھوٹے مدعیانِ نبوّت کے بارے میں مرزا نے لکھا ہے:
“حافظ صاحب یاد رکھیں کہ جو کچھ رسالہ قطع الوتین میں جھوٹے مدعیانِ نبوّت کی نسبت بے سروپا حکایتیں لکھی گئی ہیں وہ حکایتیں اس وقت تک ایک ذرّہ قابلِ اعتبار نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ مفتری لوگوں نے اپنے اس دعویٰ پر اصرار کیا اور توبہ نہ کی، اور یہ اصرار کیونکر ثابت ہوسکتا ہے جب تک اسی زمانے کی کسی تحریر کے ذریعے سے یہ امر ثابت نہ ہو کہ وہ لوگ اسی افترا اور جھوٹے دعویٴ نبوّت پر مرے، اور ان کا کسی اس وقت کے مولوی نے جنازہ نہ پڑھا اور نہ وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔”
(تحفة الندوة ص:۷، رُوحانی خزائن ج:۱۹ ص:۹۵ مطبوعہ لندن)
اسی رسالے میں آگے چل کر لکھا ہے:
“پھر حافظ صاحب کی خدمت میں خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ میرے توبہ کرنے کے لئے صرف اتنا کافی نہ ہوگا کہ بفرضِ محال کوئی کتاب الہامی مدعیٴ نبوّت کی نکل آوے، جس کو وہ قرآن شریف کی طرح (جیسا کہ میرا دعویٰ ہے) خدا کی ایسی وحی کہتا ہو، جس کی صفت میں لاریب فیہ ہے، جیسا کہ میں کہتا ہوں، اور پھر یہ بھی ثابت ہوجائے کہ وہ بغیر توبہ کے مرا اور مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں اس کو دفن نہ کیا۔”
(تحفة الندوة ص:۱۲، رُوحانی خزائن ج:۱۹ ص:۹۹-۱۰۰ مطبوعہ لندن)
مرزا غلام احمد قادیانی کی ان دونوں عبارتوں سے تین باتیں واضح ہوئیں، ایک یہ کہ جھوٹا مدعیٴ نبوّت کافر و مرتد ہے، اسی طرح اس کے ماننے والے بھی کافر و مرتد ہیں، وہ کسی اسلامی سلوک کے مستحق نہیں۔
دوم یہ کہ کافر و مرتد کی نمازِ جنازہ نہیں، اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے۔
سوم یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبوّت کا دعویٰ ہے، اور وہ اپنی شیطانی وحی کو ․․․نعوذ باللہ․․․ قرآنِ کریم کی طرح سمجھتا ہے۔
پس اگر گزشتہ دور کے جھوٹے مدعیانِ نبوّت اس کے مستحق ہیں کہ ان کو اسلامی برادری میں شامل نہ سمجھا جائے، ان کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی جائے، اور ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے تو مرزا غلام احمد قادیانی (جس کا جھوٹا دعویٴ نبوّت اظہر من الشمس ہے) اور اس کی ذُرِّیتِ خبیثہ کا بھی یہی حکم ہے کہ نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اور نہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے دیا جائے۔
رہا یہ سوال کہ اگر قادیانی چپکے سے اپنا مردہ مسلمانوں کے قبرستان میں گاڑدیں تو اس کا کیا کیا جائے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ علم ہوجانے کے بعد اس کا اُکھاڑنا واجب ہے، اور اس کی چند وجہیں ہیں:
اوّل:… یہ کہ مسلمانوں کا قبرستان مسلمانوں کی تدفین کے لئے وقف ہے، کسی غیرمسلم کا اس میں دفن کیا جانا “غصب” ہے، اور جس مردہ کو غصب کی زمین میں دفن کیا جائے اس کا نبش (اُکھاڑنا) لازم ہے، جیسا کہ کتبِ فقہیہ میں اس کی تصریح ہے، کیونکہ کافر و مرتد کی لاش جبکہ غیرمحل میں دفن کی گئی ہو، لائقِ احترام نہیں، چنانچہ امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب الصلوٰة میں باب باندھا ہے: “باب ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیة ․․․․الخ” اور اس کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے کہ مسجدِ نبوی کے لئے جو جگہ خریدی گئی اس میں کافروں کی قبریں تھیں:
“فأمر النبی صلی الله علیہ وسلم بقبور المشرکین فنبشت۔”
(صحیح بخاری ج:۱ ص:۶۱ مطبوعہ حاجی نور محمد اصح المطابع)
ترجمہ:…”پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو اُکھاڑنے کا حکم فرمایا، چنانچہ وہ اُکھاڑ دی گئیں۔”
حافظ ابنِ حجر، امام بخاری کے اس باب کی شرح میں لکھتے ہیں:
“أی دون غیرھا من قبور الأنبیاء وأتباعھم لما فی ذالک من الاھانة لھم بخلاف المشرکین فانھم لا حرمة لھم۔” (فتح الباری ج:۱ ص:۵۲۴ مطبوعہ دار النشر لاہور)
ترجمہ:…”مشرکین کی قبروں کو اُکھاڑا جائے گا، انبیائے کرام اور ان کے متبعین کی قبروں کو نہیں، کیونکہ اس میں ان کی اہانت ہے، بخلاف مشرکین کے، کہ ان کی کوئی حرمت نہیں۔”
حاففظ بدرالدین عینی (المتوفی ۸۵۵ھ) اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں:
“(فان قلت) کیف یجوز اخراجھم من قبورھم والقبر مختص بمن دفن فیہ فقد حازہ فلا یجوز بیعہ ولا نقلہ عنہ۔
(قلت) تلک القبور التی أمر النبی صلی الله علیہ وسلم بنبشھا لم تکن أملاکا لمن دفن فیھا بل لعلھا غصبت، فلذٰلک باعھا ملاکھا، وعلی تقدیر التسلیم أنھا حبست فلیس بلازم، انما اللازم تحبیس المسلمین لا الکفار، ولہٰذا قالت الفقھاء اذا دفن المسلم فی أرض مغصوبة یجوز اخراجہ فضلا عن المشرک۔” (عمدة القاری ج:۲ ص:۳۵۹، طبع دارالطباعة العامرہ)
ترجمہ:…”اگر کہا جائے کہ مشرک و کافر مُردوں کو ان کی قبروں سے نکالنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ جبکہ قبر، مدفون کے ساتھ مختص ہوتی ہے، اس لئے نہ اس جگہ کو بیچنا جائز ہے اور نہ مردے کو وہاں سے منتقل کرنا جائز ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قبریں جن کے اُکھاڑنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا غالباً دفن ہونے والوں کی ملک نہیں تھیں، بلکہ وہ جگہ غصب کی گئی تھی، اس لئے مالکوں نے اس کو فروخت کرایا، اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ جگہ ان مُردوں کے لئے مخصوص کردی گئی تھی، تب بھی یہ لازم نہیں، کیونکہ مسلمانوں کا قبروں میں رکھنا لازم ہے، کافروں کا نہیں، اسی بنا پر فقہاء نے کہا ہے کہ جب مسلمان کو غصب کی زمین میں دفن کردیا گیا ہو تو اس کو نکالنا جائز ہے، چہ جائیکہ کافر و مشرک کا نکالنا۔”
پس جو قبرستان کہ مسلمانوں کے لئے وقف ہے، اس میں کسی قادیانی کو دفن کرنا اس جگہ کا غصب ہے، کیونکہ وقف کرنے والے نے اس کو مسلمانوں کے لئے وقف کیا ہے، کسی کافر و مرتد کو اس وقف کی جگہ میں دفن کرنا غاصبانہ تصرف ہے، اور وقف میں ناجائز تصرف کی اجازت دینے کا کوئی شخص بھی اختیار نہیں رکھتا، بلکہ اس ناجائز تصرف کو ہر حال میں ختم کرنا ضروری ہے، اس لئے جو قادیانی، مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا ہو اس کو اُکھاڑکر اس غصب کا ازالہ کرنا ضروری ہے، اور اگر مسلمان اس تصرفِ بے جا اور غاصبانہ حرکت پر خاموش رہیں گے اور اس غصب کے ازالہ کی کوشش نہیں کریں گے تو سب گناہگار ہوں گے، اور اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہوگی کہ جگہ مسجد کے لئے وقف ہو، اس میں گرجا اور مندر بنانے کی اجازت دے دی جائے، یا اگر اس جگہ پر غیرمسلم قبضہ کرکے اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرلیں تو اس ناجائز تصرف اور غاصبانہ قبضے کا ازالہ مسلمانوں پر فرض ہوگا، اسی طرح مسلمانوں کے قبرستان میں جو کہ مسلمانوں کے لئے وقف ہے، اگر غیرمسلم قادیانی ناجائز تصرف اور غاصبانہ قبضہ کرلیں تو اس کا ازالہ بھی واجب ہوگا۔
دُوسری وجہ یہ ہے کہ کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا مسلمان مُردوں کے لئے ایذا کا سبب ہے، کیونکہ کافر اپنی قبر میں معذّب ہے، اور اس کی قبر محلِ لعنت و غضب ہے، اس کے عذاب سے مسلمان مُردوں کو ایذا ہوگی، اس لئے کسی کافر کو مسلمانوں کے درمیان دفن کرنا جائز نہیں، اور اگر دفن کردیا گیا ہو تو مسلمانوں کو ایذا سے بچانے کے لئے اس کو وہاں سے نکالنا ضروری ہے، اس کی لاش کی حرمت کا نہیں، بلکہ مسلمان مُردوں کی حرمت کا لحاظ ضروری ہے۔ امام ابوداوٴد نے کتاب الجہاد “باب النھی عن قتل من اعتصم بالسجود” میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے:
“أنا بریٴ من کل مسلم یقیم بین أظھر المشرکین۔ قالوا: یا رسول الله! لم؟ قال: لا ترایا نارھما۔” (ابوداوٴد ج:۱ ص:۳۵۶، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)
ترجمہ:…”میں بری ہوں ہر اس مسلمان سے جو کافروں کے درمیان مقیم ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ فرمایا: دونوں کی آگ ایک دُوسرے کو نظر نہیں آنی چاہئے۔”
نیز امام ابوداوٴد نے آخر کتاب الجہاد “باب فی الاقامة بأرض الشرک” میں یہ حدیث نقل کی ہے:
“من جامع المشرک وسکن معہ فانہ مثلہ۔”
(ابوداوٴد ج:۲ ص:۲۹ ایچ ایم سعید کراچی)
ترجمہ:…”جس شخص نے مشرک کے ساتھ سکونت اختیار کی وہ اسی کی مثل ہوگا۔”
پس جبکہ دُنیا کی عارضی زندگی میں کافر و مسلمان کی اکٹھی سکونت کو گوارا نہیں فرمایا گیا، تو قبر کی طویل ترین زندگی میں اس اجتماع کو کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے؟
تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے قبرستان کی زیارت اور ان کے لئے دُعا و اِستغفار کا حکم ہے، جبکہ کسی کافر کے لئے دُعا و اِستغفار اور ایصالِ ثواب جائز نہیں، اس لئے لازم ہوا کہ کسی کافر کی قبر مسلمانوں کے قبرستان میں نہ رہنے دی جائے، جس سے زائرین کو دھوکا لگے اور وہ کافر مُردوں کی قبر پر کھڑے ہوکر دُعا و اِستغفار کرنے لگیں۔
مرزا غلام احمد کے ملفوظات میں ایک بزرگ کا حسبِ ذیل واقعہ ذکر کیا گیا ہے:
“ایک بزرگ کسی شہر میں بہت بیمار ہوگئے، اور موت تک کی حالت پہنچ گئی، تب اپنے ساتھیوں کو وصیت کی کہ مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا، دوست حیران ہوئے کہ یہ عابد زاہد آدمی ہیں، یہودیوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی کیوں خواہش کرتے ہیں، شاید اس وقت حواس دُرست نہیں رہے۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟ بزرگ نے کہا کہ تم میرے فقرے پر تعجب نہ کرو، میں ہوش سے بات کرتا ہوں، اور اصل واقعہ یہ ہے کہ تیس سال سے میں دُعا کرتا ہوں کہ مجھے موت طوس کے شہر میں آوے، پس اگر آج میں یہاں مرجاوٴں تو جس شخص کی تیس سال کی مانگی ہوئی دُعا قبول نہیں ہوئی، وہ مسلمان نہیں ہے، میں نہیں چاہتا کہ اس صورت میں مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہوکر اہلِ اسلام کو دھوکا دوں اور لوگ مجھے مسلمان جان کر میری قبر پر فاتحہ پڑھیں۔”
(مرزا غلام احمد قادیانی کے ملفوظات ج:۷ ص:۳۹۶ مطبوعہ لندن)
اس واقعے سے بھی معلوم ہوا کہ کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس سے مسلمانوں کو دھوکا ہوگا اور وہ اسے مسلمان سمجھ کر اس کی قبر پر فاتحہ پڑھیں گے۔
حضراتِ فقہاء نے مسلم و کافر کے امتیاز کی یہاں تک رعایت کی ہے کہ اگر کسی غیرمسلم کا مکان مسلمانوں کے محلے میں ہو تو اس پر علامت کا ہونا ضروری ہے کہ یہ غیرمسلم کا مکان ہے، تاکہ کوئی مسلمان وہاں کھڑا ہوکر دُعا و سلام نہ کرے، جیسا کہ کتاب السیر باب اَحکام اہل الذمة میں فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے۔
خلاصہ یہ کہ کسی غیرمسلم کو خصوصاً کسی قادیانی مرتد کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، اور اگر دفن کردیا گیا ہو تو اس کا اُکھاڑنا اور مسلمانوں کے قبرستان کو اس مردار سے پاک کرنا ضروری ہے۔
نوزائیدہ بچے میں اگر زندگی کی کوئی علامت پائی گئی تو مرنے کے بعد اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی
س… ہمارے گاوٴں میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، آواز کرتا ہے یا روتا ہے، علامتِ زندگی پائی جاتی ہے، اذان کی مہلت نہیں ملتی اور بچہ دو چار سانس کے بعد مرجاتا ہے۔ گاوٴں کے رہنے والے اس بچے کو اس وجہ سے کہ بچے کے کان میں اذان نہیں ہوئی اس لئے بچے کا جنازہ نہیں پڑھواتے، اور نہ ہی بچے کی میّت کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں، قبرستان کی دیوار کے باہر دفن کرتے ہیں، اگر آپ کے خیال میں نمازِ جنازہ پڑھنی جائز ہے تو اس صورت میں جنازہ اتنے عرصے سے نہ پڑھنے کا کفارہ کیا ہے؟
ج… جس بچے میں پیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت پائی جائے، اس کا جنازہ ضروری ہے، خواہ دو تین منٹ بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا ہو، ایسے بچوں کا جنازہ اس وجہ سے نہ پڑھنا کہ ان کے کان میں اذان نہیں کہی گئی، جہالت کی بات ہے، اور ناواقفی کی وجہ سے اب تک جو ایسے جنازے نہیں پڑھے گئے، ان پر توبہ اِستغفار کیا جائے، یہی کفارہ ہے۔
حاملہ عورت کا ایک ہی جنازہ ہوتا ہے
س… ہمارے گاوٴں میں ایک عورت فوت ہوگئی، اس کے پیٹ میں بچہ تھا، یعنی زچگی کی تکلیف کے باعث فوت ہوگئی، اس کا بچہ پیدا نہیں ہوا، ہمارے امام صاحب نے ان کا جنازہ پڑھایا، اب کئی لوگ کہتے ہیں کہ اس کے دو جنازے ہونے چاہئے تھے، دلائل اس طرح دیتے ہیں کہ فرض کرو ایک حاملہ عورت کو قتل کرتا ہے تو اس پر دو قتل کا الزام ہے۔
ج… جو لوگ کہتے ہیں کہ دو جنازے ہونے چاہئے تھے، وہ غلط کہتے ہیں، جنازہ ایک ہی ہوگا، اور دو مُردوں کا اکٹھا جنازہ بھی پڑھا جاسکتا ہے، جبکہ بچہ ماں کے پیٹ ہی میں مرگیا ہو، اس کا جنازہ نہیں۔
اگر پانچ چھ ماہ میں پیداشدہ بچہ کچھ دیر زندہ رہ کر مرجائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ ہوگی؟
س… اگر کسی عورت کا پانچ چھ ماہ کے دوران مرا ہوا بچہ پیدا ہوتا ہے، یا پیدا ہونے کے بعد وہ دُنیا میں آکر کچھ سانس لینے کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملتا ہے، تو دونوں صورتوں میں نہلانے، کفنانے اور نمازِ جنازہ کے بارے میں بتائیں۔
ج… جو بچہ پیدائش کے بعد مرجائے اس کو غسل بھی دیا جائے اور اس کا جنازہ بھی پڑھا جائے، خواہ چند لمحے ہی زندہ رہا ہو، لیکن جو بچہ مردہ پیدا ہوا اس کا جنازہ نہیں، اسے نہلاکر اور کپڑے میں لپیٹ کر بغیر جنازے کے دفن کردیا جائے، مگر نام اس کا بھی رکھنا چاہئے۔
نمازِ جنازہ مسجد کے اندر پڑھنا مکروہ ہے
س… اکثر یہاں دیکھا جاتا ہے کہ جنازہ محراب کے اندر رکھ کر محراب کے سرے پر امام کھڑے ہوجاتے ہیں اور مقتدی حضرات مسجد میں صف آرا ہوجاتے ہیں، بعد میں نمازِ جنازہ پڑھادی جاتی ہے۔ کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ اور عذر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جگہ کی کمی کی وجہ سے ایسا کرنا پڑتا ہے۔
ج… مسجد میں نمازِ جنازہ کی تین صورتیں ہیں، اور حنفیہ کے نزدیک علی الترتیب تینوں مکروہ ہیں، ایک یہ کہ جنازہ مسجد میں ہو اور امام و مقتدی بھی مسجد میں ہوں، دوم یہ کہ جنازہ باہر ہو اور امام و مقتدی مسجد میں ہوں، سوم یہ کہ جنازہ امام اور کچھ مقتدی مسجد سے باہر ہوں اور کچھ مقتدی مسجد کے اندر ہوں، اگر کسی عذرِ صحیح کی وجہ سے مسجد میں جنازہ پڑھا تو جائز ہے۔
نمازِ جنازہ کی جگہ فرض نماز ادا کرنا
س… کیا یہ بات صحیح ہے کہ جہاں نمازِ جنازہ پڑھائی جاتی ہے وہاں فرض نماز نہیں پڑھ سکتے؟
ج… یہ تو صحیح نہیں کہ جہاں نمازِ جنازہ پڑھائی جاتی ہو وہاں فرض نماز نہیں پڑھ سکتے، البتہ مسئلہ اس کے برعکس ہے کہ جو مسجد نمازِ پنج گانہ کے لئے بنائی گئی ہو وہاں بغیر عذر کے جنازہ کی نماز مکروہ ہے۔
نمازِ جنازہ کے لئے حطیم میں کھڑے ہونا
س… حرم شریف میں تقریباً روزانہ کسی نہ کسی نماز کے بعد جنازہ ہوتا ہے، اکثر لوگ حطیم میں کھڑے ہوکر نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں، جبکہ امام مقامِ ابراہیم کے پاس کھڑا ہوتا ہے، تو کیا حطیم میں نمازِ جنازہ ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
ج… متقدمین سے تو یہ مسئلہ منقول نہیں، البتہ علامہ شامی نے ایک رُومی عالم کی گفتگو نقل کی ہے کہ وہ اس کو دُرست نہیں سمجھتے تھے، اور علامہ شامی نے لکھا ہے کہ: وہ خود کو صحیح سمجھتے ہیں۔ (ج:۲ ص:۲۵۶ طبع جدید) جہاں تک مجھے معلوم ہے عام نمازوں میں بھی اور نمازِ جنازہ میں بھی لوگوں کو حطیم شریف میں کھڑے نہیں ہونے دیا جاتا۔
نمازِ جنازہ حرمین شریفین میں کیوں ہوتی ہے؟
س… تازہ شمارے میں آپ نے فرمایا ہے کہ جہاں پنج گانہ نماز باجماعت ہوتی ہے وہاں نمازِ جنازہ مکروہ ہے۔ جبکہ کعبہ شریف، مسجدِ نبوی اور دیگر مسجدوں میں اسی جگہ نمازِ جنازہ پڑھاتے ہیں، تو کیا نہیں پڑھنا چاہئے؟
ج… عذر اور مجبوری کی حالت مستثنیٰ ہے، حرمین شریفین میں اتنی بڑی جگہ میں اتنے بڑے مجمع کا بہ سہولت منتقل نہ ہوسکنا کافی عذر ہے۔
بازار میں نمازِ جنازہ مکروہ ہے
س… ہمارے بازار میں اکثر نمازِ جنازہ ہوتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک بھی رُک جاتا ہے اور لوگوں کا آنا جانا بھی رُک جاتا ہے، جبکہ قریبی روڈ پر اس کے لئے جگہ بھی بنی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی یہاں پڑھائی جاتی ہے، تو کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟
ج… کسی مجبوری کے بغیر بازار میں اور راستے میں نمازِ جنازہ پڑھانا مکروہ ہے۔
فجر و عصر کے بعد نمازِ جنازہ
س… امامِ اعظم ابوحنیفہ کے مسلک پر چلنے والوں کے لئے نمازِ صبح کے بعد جب تک سورج طلوع نہ ہوجائے اور عصر کی فرض نماز کے بعد جب تک مغرب کی فرض نماز نہ ہوجائے، کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہئے، اکثر و بیشتر جب اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حرمین شریفین کی زیارت نصیب کراتا ہے تو وہاں اکثر یہ واقعہ پیش آتا ہے، صبح کی فرض نماز کے بعد فوراً یعنی اِدھر سلام پھیرا اور اُدھر نمازِ جنازہ ہونے لگتی ہے، تو ایسی حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اور ایسا ہی عصر کی نماز کے بعد ہوتا ہے، تو ایسی حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ نمازِ جنازہ پڑھیں کہ نہیں؟
ج… فجر و عصر کے بعد نوافل جائز نہیں (ان میں دوگانہ طواف بھی شامل ہے)، مگر نمازِ جنازہ، سجدہٴ تلاوت اور قضا نمازوں کی اجازت ہے، اس لئے نمازِ جنازہ ضرور پڑھنی چاہئے۔
نمازِ جنازہ سنتوں کے بعد پڑھی جائے
س… ہمارے علاقے کی مسجد میں چند دنوں سے یہ ہو رہا ہے کہ کسی بھی نماز کے اوقات میں اگر کوئی جنازہ آجاتا ہے تو مسجد کے امام صاحب فرض نماز کے فوراً بعد نمازِ جنازہ پڑھادیتے ہیں، جبکہ دُوسری مساجد اور ہماری مسجد میں پوری نماز کے بعد نمازِ جنازہ ہوا کرتی تھی، مگر اب چند روز سے ہماری مسجد میں فرض نماز کے فوراً بعد نمازِ جنازہ ہوجاتی ہے، اور اس طرح کافی نمازی قبرستان تک جنازے میں شریک ہونے سے رہ جاتے ہیں، آپ سے گزارش یہ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں فرض نماز کے فوراً بعد نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
ج… اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ فرض نماز کے بعد جنازہ پڑھا جائے، پھر سنتیں پڑھی جائیں، لیکن درمختار میں بحر سے منقول ہے کہ فتویٰ اس پر ہے کہ جنازہ سنتوں کے بعد پڑھا جائے۔
جوتے پہن کر نمازِ جنازہ ادا کرنی چاہئے یا اُتار کر؟
س… نمازِ جنازہ میں کھڑے ہوتے وقت اپنے پاوٴں کے جوتے اُتارلیں یا نہیں؟ دیکھا گیا ہے کہ جوتے اُتار کر پیر جوتوں کے اُوپر رکھ لیتے ہیں، یہ عمل کیسا ہے؟ براہِ کرم بتائیے کہ ننگے پیر صحیح ہے یا جوتے سمیت یا جوتوں کے اُوپر؟
ج… جوتے اگر پاک ہوں تو ان کو پہن کر جنازہ پڑھنا صحیح ہے، اور اگر پاک نہ ہوں تو نہ ان کو پہن کر نمازِ جنازہ پڑھ سکتے ہیں، اور نہ ان پر پاوٴں رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنا دُرست ہے، اور اگر اُوپر سے پاک ہوں، مگر نیچے سے پاک نہ ہوں تو ان پر پاوٴں رکھ لیں، زمین خشک یعنی پاک ہو تو ننگے پیر کھڑے ہونا صحیح ہے۔
عجلت میں نمازِ جنازہ تیمم سے پڑھنا جائز ہے
س… اگر نمازِ جنازہ بالکل تیار ہو اور انسان پاک ہو تو بغیر وضو کیا نمازِ جنازہ ہوجائے گی؟ اگر وضو کرنے بیٹھے تو نمازِ جنازہ ہوچکی ہوگی، اس صورت میں کیا نمازِ جنازہ ہوجائے گی؟ اگر نہیں ہوگی تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟
ج… اگر یہ اندیشہ ہو کہ اگر وضو کرنے لگا تو نمازِ جنازہ فوت ہوجائے گی، ایسی صورت میں تیمم کرکے نمازِ جنازہ میں شریک ہوجائے، لیکن یہ تیمم صرف نمازِ جنازہ کے لئے ہوگا، دُوسری نمازیں اس تیمم سے پڑھنا جائز نہیں، بلکہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔
بغیر وضو کے نمازِ جنازہ
س… گزشتہ دنوں ہمارے کالج میں غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھائی گئی، وہ اس طرح کہ کالج بس سے اُترتے ہی چند طلبہ نے کہا کہ غائبانہ نمازِ جنازہ ہو رہی ہے، اس میں شرکت کریں۔ ہم لوگ اس وقت بغیر وضو کے تھے، بلکہ تقریباً تمام طلبہ ہی بے وضو تھے، لیکن وضو کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ ساتھی طلبہ ہمیں اپنے سے الگ نہ سمجھیں، مجبوراً ہم نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی، اس نمازِ جنازہ میں ہندو طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی، آپ یہ بتائیے کہ کیا غائبانہ نمازِ جنازہ ہوگئی؟ اور ہمارے بے وضو شرکت کا کفارہ کیا ہے؟
ج… حنفیہ کے نزدیک تو غائبانہ نمازِ جنازہ ہوتی ہی نہیں، آپ کو اگر اس میں شرکت کرنی ہی تھی تو تیمم کرکے شریک ہونا چاہئے تھا، طہارت کے بغیر نمازِ جنازہ جائز نہیں، اس کا کفارہ اب کیا ہوسکتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگئے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہندو طلبہ اس میں کیوں شامل ہوئے؟
نمازِ جنازہ کے لئے صرف بڑے بیٹے کی اجازت ضروری نہیں
س… اکثر مولوی نمازِ جنازہ پڑھانے سے قبل پوچھ لیتے ہیں کہ میّت کا بڑا بیٹا کون ہے؟ میرے خیال میں بڑے بیٹے کی شریعت کی رُو سے کوئی اہمیت نہیں، مولوی حضرات کو میّت کے وارث کا پوچھنا چاہئے، وارث بھائی بھی ہوسکتا ہے، دوست بھی، کیا اس سلسلے میں بڑے بیٹے کی شرط ضروری ہے؟ کیا بڑے بیٹے کی شرعی شرط ہے؟
ج… جنازے کے لئے ولی سے اجازت لی جاتی ہے، اور چونکہ (باپ کے بعد) لڑکا سب سے مقدم ہے، اور لڑکوں میں سب سے بڑے لڑکے کا حق مقدم ہے، اس لئے اس سے اجازت لینا مقصود ہوتا ہے، ویسے بغیر اجازت کے بھی نمازِ جنازہ ادا ہوجاتی ہے۔
سیّد کی موجودگی میں نمازِ جنازہ دُوسرا شخص بھی پڑھا سکتا ہے
س… ہمارے ہاں ایک جنازہ ہوگیا، وہاں کے لوگوں نے امام صاحب کو کہا کہ سیّد موجود نہیں ہے، اس لئے نمازِ جنازہ ادا نہ کریں، کیا سیّد کی غیرموجودگی میں جنازہ نہیں ہوسکتا؟ قرآنِ پاک کی روشنی میں تفصیلی جواب دیں۔
ج… جنازہ پڑھانے کا سب سے زیادہ حق دار میّت کا ولی ہے، اس کے بعد محلے کا امام، بہرحال سیّد کی غیرموجودگی میں نمازِ جنازہ صحیح ہے، اور یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جب تک سیّد موجود نہ ہو دُوسرا شخص نماز نہیں پڑھا سکتا، بلکہ سیّد کی موجودگی میں بھی دُوسرا شخص نمازِ جنازہ پڑھا سکتا ہے۔
جس کی نمازِ جنازہ غیرمسلم نے پڑھائی، اس پر دوبارہ نماز ہونی چاہئے
س… نئی کراچی سیکٹر ۵-ڈی میں ایک غیرمسلم گروہ کی مسجد ہے، فلاح دارین، اس کے پیش امام کا تعلق ایک دیندار جماعت سے ہے جو چن بشویشور کو مانتے ہیں، لیکن یہ ظاہر نہیں کرتے ہیں، لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں، جب ان کو علم ہوتا ہے تو پچھتاتے ہیں۔ یہاں ایک صاحب کا انتقال ہوگیا جو سنی عقیدہ تھے، ان کی نمازِ جنازہ اس مسجد کے امام صاحب نے پڑھائی۔ آپ یہ بتائیں کہ سنی عقیدہ رکھنے والوں کی نمازِ جنازہ قادیانی امام پڑھا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو دوبارہ نماز کا کیا طریقہ ہوگا؟
ج… دیندار انجمن کے لوگ قادیانیوں کی ایک شاخ ہے، اس لئے یہ لوگ مسلمان نہیں، اس امام کو امامت سے فوراً الگ کردیا جائے۔ غیرمسلم، مسلمان کا جنازہ نہیں پڑھا سکتا، اگر کسی غیرمسلم نے مسلمان کا جنازہ پڑھایا ہو تو دوبارہ جنازہ کی نماز پڑھنا فرض ہے، اور اگر بغیر جنازے کے دفن کردیا گیا ہو تو تمام مسلمان گناہگار ہوں گے۔
نمازِ جنازہ کا طریقہ
س… نمازِ جنازہ کا طریقہ کیا ہے؟
ج… نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں ہوتی ہیں، پہلی تکبیر کے بعد ثنا، دُوسری کے بعد دُرود شریف، تیسری کے بعد میّت کے لئے دُعا، اور چوتھی کے بعد سلام۔
نمازِ جنازہ کی نیت کیا ہو؟ اور دُعا یاد نہ ہو تو کیا کرے؟
س… نمازِ جنازہ کی دُعا یاد نہ ہو تو کیا پڑھنا چاہئے؟ اور کس طرح نیت کی جائے؟
ج… نمازِ جنازہ میں نمازِ جنازہ ہی کی نیت کی جاتی ہے، پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھتے ہیں، دُوسری تکبیر کے بعد نماز والا دُرود شریف پڑھتے ہیں، تیسری تکبیر کے بعد میّت کے لئے دُعا پڑھتے ہیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیتے ہیں، دُعا یاد نہ ہو تو یاد کرنی چاہئے، جو نیچے لکھی ہوئی ہے، جب تک دُعا یاد نہ ہو: “اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَالْمُوٴْمِنَاتِ” پڑھتا رہے یا خاموش رہے۔
دُعائیں یہ ہیں:
بالغ میّت کے لئے دُعا:
“اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا، اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہ مِنَّا فَاَحْیِہ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہ مِنَّا فَتَوَفَّہ عَلَی الْاِیْمَانِ۔”
نابالغ بچے کے لئے دُعا:
“اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَّمُشَفَّعًا۔”
نابالغ بچی کے لئے دُعا:
“اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا لَنَا فَرَطًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَّاجْعَلْھَا لَنَا شَافِعَةً وَّمُشَفَّعَةً۔”
نمازِ جنازہ میں دُعائیں سنت ہیں
س… کیا نمازِ جنازہ میں دُعا پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟
ج… نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں فرض ہیں، اور دُعائیں سنت ہیں، اگر کسی کو دُعائیں یاد نہ ہوں تو صرف تکبیر ہی کہنے سے فرض ادا ہوجائے گا۔ لیکن نمازِ جنازہ کی دُعا سیکھ لینی چاہئے، کیونکہ اس کے بغیر میّت کی شفاعت سے بھی محروم رہے گا اور نماز بھی خلافِ سنت ہوگی۔
بچوں اور بڑوں کی اگر ایک ہی نمازِ جنازہ پڑھیں تو بڑوں والی دُعا پڑھیں
س… حرمین شریفین میں بچے اور بڑوں کی نمازِ جنازہ ساتھ پڑھنی پڑتی ہیں، اس صورت میں کون سی دُعا ادا کی جائے گی؟
ج… اجتماعی نمازِ جنازہ میں وہی دُعا پڑھیں گے جو بڑوں کی نمازِ جنازہ میں پڑھتے ہیں، اس میں بچے کے لئے بھی دُعا شامل ہوجائے گی۔
جنازہ مرد کا ہے یا عورت کا، نہ معلوم ہو تو بالغ والی دُعا پڑھیں
س… نمازِ جنازہ کی جماعت کھڑی ہوچکی ہے، ایک شخص بعد میں پہنچتا ہے اور نمازِ جنازہ میں شامل ہوجاتا ہے، ابھی اس کو یہ معلوم نہیں کہ جنازہ کس کا ہو رہا ہے؟ آیا کہ میّت مرد، عورت یا بچہ کون ہے؟ ایسی صورت میں وہ کیا نیت کرے اور کیا پڑھے؟
ج… مرد و عورت کے لئے دُعائے جنازہ ایک ہی ہے، البتہ بچے، بچی کے لئے دُعا کے الفاظ الگ ہیں، تاہم بچے کے جنازہ میں بھی اگر بالغ مرد و عورت والی دُعا پڑھ لی جائے تو صحیح ہے، اس لئے بعد میں آنے والوں کو اگر علم نہ ہو تو وہ مطلق نمازِ جنازہ کی نیت کرلیں اور بالغوں والی دُعا پڑھ لیا کریں۔
نمازِ جنازہ میں رُکوع و سجود نہیں ہے
س… نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کس طرح پڑھی جاتی ہیں؟ یعنی رُکوع، سجود وغیرہ کرتے ہیں یا نہیں؟ دُوسرے یہ کہ میں نے نویں جماعت کی اسلامیات میں پڑھا تھا کہ یہ چار تکبیریں چار رکعتوں کی قائم مقام ہوتی ہیں۔
ج… نمازِ جنازہ میں اذان، اقامت، رُکوع، سجدہ نہیں، بس پہلی تکبیر کہہ نیت باندھ لیتے ہیں، ثنا پڑھ کر دُوسری تکبیر کہتے ہیں، دُرود شریف پڑھ کر تیسری تکبیر کہی جاتی ہے، اور میّت کے لئے دُعا کی جاتی ہے، اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیتے ہیں، یہ چار تکبیریں گویا چار رکعتوں کے قائم مقام سمجھی جاتی ہیں۔
نمازِ جنازہ میں سورہٴ فاتحہ اور دُوسری سورة پڑھنا کیسا ہے؟
س… میں ایک میّت کے جنازے میں شریک ہوا، جب نیت باندھ لی تو امام نمازِ جنازہ زور سے پڑھنے لگا، جس میں سورتیں تلاوت کر رہے تھے، مثلاً: سورہٴ فاتحہ، سورہٴ اِخلاص، دُرود شریف وغیرہ۔ سلام پھیرنے کے بعد مقتدی ایک دُوسرے کے ساتھ بحث کرنے لگے، مہربانی فرماکر قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جواب دیں۔
ج… نمازِ جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورہٴ فاتحہ کے امام شافعی و امام احمد قائل ہیں، امام مالک اور امام ابوحنیفہ قائل نہیں، بطور حمد و ثناء پڑھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں، سورہٴ اِخلاص پڑھنے کا ائمہ اربعہ میں سے کوئی قائل نہیں، اسی طرح نمازِ جنازہ میں اُونچی قرأت کا بھی ائمہ اربعہ میں سے کوئی قائل نہیں۔
نمازِ جنازہ کی ہر تکبیر میں سر آسمان کی طرف اُٹھانا
س… کیا نمازِ جنازہ کی ہر تکبیر میں سر آسمان کی طرف اُٹھانا چاہئے؟
ج… جی نہیں!
نمازِ جنازہ کے دوران شامل ہونے والا نماز کس طرح پوری کرے؟
س… نمازِ جنازہ ہو رہی ہے اور ایک آدمی جو دُوسری یا تیسری تکبیر میں پہنچتا ہے تو اب وہ کیا پڑھے گا؟ اور جو تکبیریں باقی ہیں ان کو کیسے ادا کرے گا، اور اگر اس کو پتہ ہی نہیں کہ کتنی تکبیریں ہوئی ہیں تو پھر کیا پڑھے گا؟
ج… ایسے شخص کو چاہئے کہ امام کی اگلی تکبیر کا انتظار کرے، جب اگلی تکبیر ہو تب نماز میں شریک ہوجائے، اور جتنی تکبیریں اس کی رہ گئی ہوں، امام کے سلام پھیرنے اور جنازہ کے اُٹھائے جانے سے پہلے صرف اتنی تکبیریں کہہ کر سلام پھیردے، جب امام کے ساتھ شامل ہو تو جو دُعا و ثنا پڑھ سکتا ہے پڑھ لے، اس کی نماز ہوجائے گی۔
اگر نمازِ جنازہ میں مقتدی کی کچھ تکبیریں رہ جائیں تو کیا کرے؟
س… جس طرح نماز باجماعت میں کوئی رکعت رہی ہو تو اس کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پوری کرلیتے ہیں، اسی طرح اگر نمازِ جنازہ میں ایک یا دو تکبیریں چھوٹ جائیں تو اس کو کس طرح ادا کریں گے؟
ج… یہ شخص امام کے سلام پھیرنے کے بعد جنازے کے اُٹھائے جانے سے پہلے اپنی باقی ماندہ تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دے، اس کو ان تکبیروں میں کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں، صرف تکبیریں پوری کرکے سلام پھیردے۔
نمازِ جنازہ کے اختتام پر ہاتھ چھوڑنا
س… نمازِ جنازہ میں چوتھی تکبیر کے بعد ہاتھ دونوں چھوڑنے چاہئیں یا جب دائیں طرف سلام پھیریں تو دائیں ہاتھ کو چھوڑیں، اور جب بائیں طرف سلام پھیریں تو بائیں ہاتھ کو چھوڑیں؟
ج… دونوں طرح دُرست ہے۔
نمازِ جنازہ کے بعد دُعا مانگنا
س… نمازِ جنازہ پڑھنے کے فوراً بعد دُعا مانگنی جائز ہے؟
ج… جنازہ خود دُعا ہے، اس کے بعد دُعا کرنا سنت سے ثابت نہیں، اس لئے اس کو سنت سمجھنا یا سنت کی طرح اس کا التزام کرنا صحیح نہیں۔
نمازِ جنازہ کے بعد اور قبر پر ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا
س… نمازِ جنازہ کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا، قبر کے سامنے ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا، قبر کے سرہانے اور پائینتی دُعا پڑھتے وقت اُنگلی شہادت کی رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ کیا اس کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے؟
ج… جنازہ کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دُعا کرنا بدعت ہے، قبر پر دُعا جائز ہے، قبر کے سرہانے سورہٴ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پائینتی کی جانب سورہٴ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا بھی جائز ہے، قبر پر اُنگلی رکھنا ثابت نہیں۔
میّت کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی تو کیا کرے؟
س… ۱۹۴۷ء میں انڈیا سے پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستے میں ہی بمقام وزیرآباد میری والدہ انتقال کرگئیں، اس وقت حالات اس طرح تھے کہ ہم فاقوں کے مارے ہوئے اور بے گھر تھے، علاوہ ازیں خطرات بھی تھے، ہم میں دین سے ناواقفیت بھی تھی، ان اسباب کی وجہ سے ہم نے بغیر جنازہ کے ہی صرف چار آدمیوں نے والدہ محترمہ کو دفن کردیا، اب جبکہ خدا نے علمِ دین سے واقفیت عطا فرمائی ہے، سوچتا ہوں کہ ہم نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، اس کے حل کے لئے اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟
ج… میّت کی نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ ہے، اس فرض کو نہ ادا کرنے کی وجہ سے سب لوگ گناہگار ہوئے، اب دُعا و اِستغفار کے سوا اس کا کوئی تدارک نہیں ہوسکتا۔
نوٹ:… اگر کسی کو نمازِ جنازہ کی دُعائیں یاد نہ ہوں تو وضو کرکے جنازے کے سامنے کھڑے ہوکر نمازِ جنازہ کی نیت باندھ کر تکبیر کہہ کر سلام پھیر دے تب بھی فرض ادا ہوجائے گا۔
جنازے کا ہلکا ہونا نیکوکاری کی علامت نہیں
س… سنا ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا جنازہ ہلکا (بے وزن) ہوگا تو وہ نیکوکار ہوگا، اور جس کا جنازہ بھاری ہوگا وہ گناہگار ہوگا، کیا یہ سچ ہے؟
ج… یہ خیال غلط ہے!
جنازے کے ساتھ ٹولیاں بناکر بلند آواز سے کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھنا بدعت ہے
س… بعض لوگ جنازے کے ساتھ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں بناکر بلند آواز کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھتے رہتے ہیں، اور بعض اس کی مخالفت کرتے ہیں، آپ ذرا یہ بتائیے کہ کیا صحیح ہے، میں آپ کا دِل کی گہرائیوں سے مشکور و ممنون ہوں گا۔
ج… فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
“وعلی متبعی الجنازة الصمت ویکرہ لھم رفع الصوت بالذکر وقرائة القراٰن کذا فی شرح الطحاوی فان اراد ان یذکر الله یذکر فی نفسہ کذا فی فتاویٰ قاضی خان۔” (ج:۱ ص:۱۶۲)
ترجمہ:…”جنازے کے ساتھ چلنے والوں کو خاموش رہنا لازم ہے، اور بلند آواز سے ذکر کرنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا مکروہ ہے، (شرح طحاوی) اور اگر کوئی شخص ذکر اللہ کرنا چاہے تو دِل میں ذکر کرے۔”
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے ٹولیاں بناکر کلمہ طیبہ پڑھنے کے جس رواج کا ذکر کیا ہے وہ مکروہ، بدعت ہے، اور جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ صحیح کرتے ہیں، البتہ کلمہ طیبہ وغیرہ زیرِ لب پڑھنا چاہئے۔
متعدّد بار نمازِ جنازہ کا جواز
س… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ شرعِ متین اس بارے میں کہ میّت کی نمازِ جنازہ ایک بار ہونی چاہئے، یا زیادہ بار؟ کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک بار ہی ہونی چاہئے، جبکہ علمائے کرام کی نمازِ جنازہ تین بار ہوئی ہے؟
ج… اگر میّت کے ولی نے نمازِ جنازہ پڑھ لی ہو تو جنازے کی نماز دوبارہ نہیں ہوسکتی، اور اگر اس نے نہ پڑھی ہو تو وہ دوبارہ پڑھ سکتا ہے، اور اس دُوسری جماعت میں دُوسرے لوگ بھی جنہوں نے پہلے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، شریک ہوسکتے ہیں۔
غائبانہ نمازِ جنازہ
س… کچھ روز پہلے، بلکہ اب تک افراد کی بڑی تعداد نے غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی، اور یہاں تک کہ مدینہ منوّرہ اور مکہ مکرّمہ میں بھی ملک کی ایک بڑی ہستی کی نمازِ جنازہ غائبانہ طور پر ادا کی گئی، آپ سے پوچھنا یہ مقصود ہے کہ حنفی مسلک میں کیا غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرنا دُرست ہے؟ اگر نہیں تو کس مسلک میں دُرست ہے؟ اور مدینہ منوّرہ اور مکہ مکرّمہ کے امام صاحب کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیونکہ ہمارے علاقے کی مسجد کے امام جو ایک سند یافتہ جید عالم ہیں اور اپنے مسائل کی تصحیح ہم انہی کے بتائے ہوئے طریقے پر کرتے ہیں، انہوں نے احادیث کی کتب سے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ غائبانہ نمازِ جنازہ احناف کے نزدیک دُرست نہیں ہے۔
ج… غائبانہ نمازِ جنازہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک جائز نہیں، البتہ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جائز ہے، حرمین شریفین کے ائمہ امام احمد کے مقلد ہیں، اس لئے اپنے مسلک کے مطابق ان کا غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔
غائبانہ جنازہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک جائز نہیں
س… کیا کسی شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جاسکتی ہے؟ کیونکہ پندرہ روزہ “تعمیرِ حیات” (لکھنوٴ) میں مولانا طارق ندوی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ: احناف کے یہاں جائز نہیں ہے، اس کے برعکس “معارف الحدیث” جلد ہفتم میں مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں کہ جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا انتقال ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے اس کی اطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی اطلاع دی اور مدینہ طیبہ میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی، دونوں مسائل کی وضاحت کیجئے۔
ج… امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک غائبانہ نمازِ جنازہ جائز نہیں، جیسا کہ مولانا طارق ندوی نے لکھا ہے، نجاشی کا غائبانہ جنازہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا تھا اس کو نجاشی کی خصوصیت قرار دیتے ہیں، ورنہ غائبانہ جنازہ کا عام معمول نہیں تھا، امام شافعی قصہ نجاشی کی وجہ سے جواز کے قائل ہیں، امام احمد کے مذہب میں دو روایتیں ہیں، ایک جواز کی، دُوسری منع کی۔
نمازِ جنازہ میں عورتوں کی شرکت
س… کیا عورت نمازِ جنازہ میں شرکت کرسکتی ہے؟ یعنی جماعت کے پیچھے عورتیں کھڑی ہوسکتی ہیں؟
ج… جنازہ مردوں کو پڑھنا چاہئے، عورتوں کو نہیں، تاہم اگر جماعت کے پیچھے کھڑی ہوجائیں تو نماز ان کی بھی ہوجائے گی۔