حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 474)
پانچ سودرہم موجودہ ۱۰گرام کے تولہ کے حساب سے ڈیڑھ کلو ۳۰ گرام اور نوسو ملی گرام چاندی ہوتا ہے…ظاہر ہے کہ اس مقدار میں مہرکی تعیین زیادہ بہتر ہے۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں ازواج مطہراتؓ ، بنات طاہراتؓ اور حضرات صحابیاتؓ کے مہر اسی طرح چاندی یاسونے سے مقرر کئے جاتے تھے۔ پس روپیہ یا کسی اور شکل میں مہر مقرر کرنے کی بجائے سونے چاندی کی صورت میں مہر کی تعیین سنت سے قریب بھی ہے اور عورت کے لئے قرین انصاف بھی کہ سکوں کی مقدار دن بہ دن گھٹتی جاتی ہے اور سکوں میں مقرر کیا ہوا مہر ایک عرصہ بعد اپنی قدر کھو دیتا ہے۔
مہر کے احکام
اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا تب بھی نکاح درست ہوجاتا ہے جیسا کہ خود قرآن کے بیان سے ظاہر ہے۔ لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ عقد کے وقت ہی مہر مقرر کر لیاجائے۔ مختلف عورتوں کے لئے مہر کے احکام اس طرح ہیں:
۱)نکاح کے وقت مہر مقررہوچکا ہے اور عورت کے ساتھ تنہائی بھی ہوچکی ہے تو پورامقررہ مہر واجب ہوگا۔
۲)نکاح کے وقت مہر مقرر ہوچکا ہے مگر یکجائی سے پہلے علیحدگی ہوگئی تو نصف مہر مقرر ہ واجب ہوگا۔
۳)نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور شوہر کی بیوی کے ساتھ یکجائی بھی ہوچکی، اب مہر مثل واجب ہوگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عورت کے حق میں اس طرح کا فیصلہ فرمایا اور حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تائید کی اور فرمایا کہ حضورﷺ نے بھی بروع بنت واشق کے بارے میں یہی فیصلہ فرمایا تھا…مہر مثل سے مراد اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا عمومی مہر ہے جو عمر، تموّل، خوبصورتی، عقل و اخلاق اورکنوارپن میں ہمسر ہو۔
۴)اگر مہر بھی مقرر نہ ہوا تھا اور مردوزن کی یکجائی بھی نہ ہوئی کہ نوبت طلاق کی آگئی تو متعہ واجب ہوگا متعہ کی مقدار متعین نہیں بلکہ مرد کی حیثیت اور گنجائش پر منحصر ہے۔’’ علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ‘‘
متعہ کی کم سے کم مقدار کیا ہو؟ اس سلسلہ میں سلف سے مختلف آراء منقول ہیں اور یہ سب رائے اور اجتہاد پر مبنی ہیں۔ حضرت ابن عمرؓکہتے ہیں کہ کم ازکم تیس درہم یااس مالیت کا کوئی اور سامان دے دیا جائے۔حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی رائے تھی کہ ایک خادم، اس سے کم تردرجہ یہ ہے کہ ایک لباس اور آخری درجہ یہ ہے کہ تھوڑا ساخرچ دے دیا جائے یہی رائے حسن بصریؒ اور مالکؒ کی بھی ہے، حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی کو بطور متاع بیس زقاق( اس زمانے کے پیمانے کا نام) شہددیاتھا،قاضی شریحؒ نے اپنی مطلقہ کو بطور متاع پانچ سودرہم دیئے تھے ، امام ابو حنیفہؒ کے استاذ حماد کی رائے تھی کہ عورت کے خاندانی مہر کی نصف رقم دے دی جائے۔ تاہم احناف کے یہاں قول مشہور یہی ہے کہ متاع کی کم سے کم مقدار ایک جوڑا کپڑا ہے۔’’ متعہ‘‘کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار مقرر نہیں، وہ عورت جس سے مردلذت اندوز ہوچکا ہو، مہر کے ساتھ ساتھ اس کو بھی’’متعہ‘‘ دینا مستحب ہے اور یہ بھی قرآن مجید کے اس منشاء کی تکمیل کا ذریعہ ہے کہ جب عورت سے جدائی ہو تو اس وقت بھی حسن سلوک کا دامن نہ چھوٹے،’’ فامساک بمعروف اوتسریح باحسان‘‘
ادائیگی مہر کی اہمیت
مہر کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، قرآن نے اس کو مرد کے فرائض میں شمار کیا ہے۔’’ فاتوھن اجورھن فریضۃ‘‘ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر پورا مہر پیشگی ادا نہ کرسکے تو مہر کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم بستری سے پہلے ادا کر دیا جائے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تو آپﷺ نے خودسیدنا حضرت علیؓ کو وصیت فرمائی:
’’یاعلی لاتدخل علی اھل حتی تقدم لھم شیئا‘‘اے علی! اپنی بیوی سے ملنے سے پہلے ان کو کچھ دے دو۔
یہ تصور کہ مہر علیحد گی کے موقع ہی پر ادا ہو یا شوہر کی موت کے بعد ہی اس کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے، نہایت غیر اسلامی اور جاہلانہ تصور ہے، مہر بھی دوسرے واجبات اور دیون کی طرح ایک دین ہے جس سے جلد ازجلد سبک بار ہوجانا چاہئے۔
افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں بہت سے نوجوان مہر کی تعیین کومحض ایک رسمی عمل سمجھتے ہیں اور اس کی ادائیگی کی نیت تک نہیں رکھتے، یہ سخت گناہ ہے آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے مہر مقررکیا اور اس کی ادائیگی کا ارادہ نہیں ہے تو وہ زانی ہے، بعض روایات میں ہے کہ قیامت کے دن وہ خدا کے حضور ایک زناکار کی حیثیت سے پیش ہوگا ۔قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر مہردے بھی چکا ہے اور نوبت علیحدگی کی آئے تو ہرگز عورت سے اس کو واپس لینے کے حیلے بہانے نہ کرے…کاش یہ تنبیہات اور رسول اللہﷺ کی ہدایات ایسے خدا سے بے خوف لوگوں کے اندر آتش احساس کو سلگانے اور شعور کوجگانے میں ممدومعاون ثابت ہوں۔ و باللّٰہ التوفیق وہویھدی السبیل
رسم جہیز
جہیز کی جو بدبختا نہ رسم اس وقت ہمارے معاشرہ میں نکاح کا جزولازم بن چکی ہے وہ خالصتاً نا منصفانہ بھی ہے اور غیر اسلامی بھی، شریعت نے نکاح کے باب میں اخراجات کی تمام تر ذمہ داری مردوں پر رکھی ہے اور اسی کو ازدواجی مسائل میں مردوں کی قوامیت کی اساس قراردیا گیا ہے۔
الرجال قوامون علی الناس بما فضل اللّٰہ بعضہم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم(مردعورتوں کے نگراں ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی اور اس لئے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے)
اسی لئے مہر، نفقہ، لباس و پوشاک، دوا، علاج اور دوسری ضروریات ولیمہ، مہر نیز بچوں کی کفالت ساری ذمہ داری مردوں کے سر پر رکھی گئی ہیں۔ اسی لیے کتب فقہ میں یہ مسئلہ تو ملتا ہے کہ لڑکی کے اولیاء لڑکوں سے نکاح کے موقعہ پر جس زائد رقم کا مطالبہ کرتے ہیں وہ جائز ہے یا نہیں؟ وہ رشوت کے حکم میں ہے یا نہیں؟ لیکن لڑکوں کی طرف سے جہیز، گھوڑے جوڑے اور تلک کا مطالبہ جائز ہے یا ناجائز؟ غالباً اس کا ذکر نہیں ملتا کہ فقہاء کی نگاہ میں مردوں کی طرف سے ایسی بے شرمی اور مقام مردانہ کے خلاف دریوزہ گری کا تصور تک نہیں تھا۔
یہ یو ں بھی غلط ہے کہ اپنی اولاد میں مساوات ضروری ہے اور لڑکیوں کو رقم خطیر اور کثیراشیاء مجہوزہ کا دینا اور لڑکوں کو اس سے محروم رکھنا صریح ناانصافی اور عدل کے خلاف ہے اور دراصل یہ رسم برادران وطن سے مسلمانوں میں آئی ہے۔ ہندومذہب میں چونکہ عورتوں کے لئے میراث کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ رشتۂ نکاح کے ساتھ ہی عورت کا تعلق اپنے خاندان سے کٹ جاتا ہے، اس لئے لوگ لڑکی رخصت کرتے ہوئے کچھ دے دلا کر بھیجتے تھے۔ اسلام میں نکاح کے بعد بھی عورت کا رشتہ اپنے خاندان سے باقی رہتا ہے اور وہ مستحق میراث بھی رہتی ہے۔
(جاری ہے)
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 475)
اس میں شبہ نہیں کہ رسول اللہﷺ کے حضرت فاطمہؓ کو کچھ ضروری سامان دینے کا ذکر بعض روایات میں آیا ہے: جھز رسول اللّٰہﷺ لفاطمۃ فی خمیل وقربۃ ووسادۃ حشوھا اذخر‘‘
(رسول اللہﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ کو ایک گدا، گھڑا اور ایک تکیہ جس میں اذخر (گھاس) بھری گئی تھی، بطور جہیز عطا فرمایا)
لیکن اس پر مروّجہ رسم جہیز کا اطلاق کئی وجوہ سے غلط ہے۔
اول تو غالباً آپﷺ نے یہ خود اس زرہ کی قیمت سے بنوائے تھے جو آپﷺ کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موقع نکاح کے لئے فروخت کی تھی۔
دوسرے آپﷺکی حیثیت نہ صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ کی تھی بلکہ خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھی سرپرست اور پرورش کنندہ کی تھی اور آپﷺ نے ہی ان کی بھی پرورش فرمائی تھی …صورت حال یہ تھی کہ حضرت علیؓ کا کوئی مکان تھا اور نہ مکان کے لئے مطلوبہ اسباب وسامان ۔ان حالات میں زوجین کے سر پرست اور مربّی ہونے کی حیثیت سے ایک نیا گھر بسانے کے لئے جو سامان مطلوب تھا اس کا آپﷺ نے نظم فرما دیا ۔یہ حضرت فاطمہؓ کاجہیز نہیں تھا بلکہ طرفین کے مربّی اور سرپرست ہونے کی حیثیت سے ایک نئی خانہ آبادی کا انتظام تھا… ایسا سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے علاوہ اور بھی دوسری صاحبزادیاں تھیں جن کو آپﷺ کی طرف سے کچھ دیاجانا ثابت نہیں۔ پس اگر حضرت فاطمہؓ کے لئے آپﷺ کا جہیز دینا تسلیم کیا جائے تو یہ خلاف عدل محسوس ہوتا ہے جو آپﷺ کی ذات والاصفات سے بعید ہے۔
صنفی تعلق
پیغمبر اسلامﷺ نے جہاں زندگی کے تمام گوشوں میں انسانیت کے لئے روشنی چھوڑی اور اپنے اسوئہ حسنہ کے ذریعہ ان کی رہبری فرمائی۔ وہیں جلوت کی طرح خلوت کو بھی اپنے نور ہدایت سے تاریک اور محروم نہ رہنے دیا اور ازدواجی زندگی کے اس صنفی عمل کے لئے بھی مہذب و شائستہ اصول وقواعد مقرر فرمائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جماع سے پہلے یہ کلمات پڑھے جائیں:
بسم اللّٰہ اللھم جنبنا الشیطان وجنب الشیطان مارزقتنا
’’اللہ کے نام سے، اے اللہ! شیطان سے ہماری حفاظت فرما اور ہماری اولاد کی بھی۔‘‘
فرمایا کہ اس کے بعد اس وطی سے حمل ٹھہرجائے تو مولود شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا۔
گویا اس حال میں بھی خدا کی ذات کا استحضار ہو، اولاد کی طلب ہو اور شیطان کی طرف سے نفور ہو ،محض اشتہاء نفس کی تکمیل کا جذبہ کار فرما نہ ہو۔
آداب
جماع اس طرح نہ ہو کہ قبلہ کے استقبال کی نوبت ہو، چانچہ عمرو بن حزم اور عطاء نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔’’لا یستقبل القبلۃ حال الجماع‘‘ اس وقت زیادہ گفتگو بھی نہ کی جائے’’ویکرہ الاکثارمن الکلام‘‘ کہ یہی شرم وحیا اور غیرت کا تقاضہ بھی ہے ۔مکمل پردہ کی حالت ہو، نہ کوئی دیکھ سکے، نہ آواز کا احساس کر سکے، نہ بوس و کنار کے مرحلہ میں کسی کی نگاہ پڑنے پائے۔ خلوت کے راز دوسروں کے سامنے ظاہر بھی نہ کئے جائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: بدترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے اور ایک دوسرے سے ہم آغوش ہو، پھرشوہر اس کے راز کا افشاء کردے۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کیفیت جماع، ایک دوسرے سے تلذذ کے طریقے اور عورت کی جانب سے ظاہر ہونے والے افعال یا اقوال کا دوسروں کے سامنے نقل کرنا حرام ہے۔
یہ بات بھی مستحب ہے کہ جماع سے پہلے دواعیٔ جماع کے ذریعہ عورت کی اشتہا کو پوری طرح برا نگیختہ کر لیا جائے، حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ملاعبت سے پہلے جماع کو منع فرمایا۔’’نھی رسول اللہﷺ عن المواقعۃ قبل الملاعبۃ‘‘
یہ بھی ضروری ہے کہ زوجین جماع میں ایک دوسرے کی رعایت کریں آپﷺ نے فرمایا: جب شوہر بیوی کو اس عمل کے لئے طلب کرے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح شوہروں کو حکم دیا کہ جب تک عورت میں اس درجہ کی شہوت نہ جاگ جائے جیسی تمہاری ہے اس وقت تک جماع نہ کرو کہ ایسا نہ ہو کہ تم فارغ ہوچکو اور ابھی اس کی آگ فرونہ ہونے پائے پھر اگر مرد کو فراغت ہوجائے تو بھی فوراً الگ نہ ہوجائے بلکہ عورت کو مزید موقع دے ’’فلا یعجلھا حتی تقضی حاجتھا‘‘کثرت جماع اگر عورت کے لئے مضر ہوتو اس سے اسی قدر ہم بستری کی جائے جو اس کے لئے قابل برداشت ہو۔’’لو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا‘‘
زوجین کا ایک دوسرے کے اعضاء تناسل اور شہوت انگیز حصوں کا مساس بھی جائز ہے بلکہ امام ابو حنیفہؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ مجھے امید ہے کہ اس پر اجر دیا جائے گا۔’’ ارجوان یعطی الاجر‘‘مباشرت کے وقت بالکل بے لباس ہوجانا مناسب نہیں کہ غیرت وحیا کے خلاف ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ تم ازدواجی ربط کے درمیان بالکل جانوروں کی طرح برہنہ نہ ہوجائو۔
البتہ یہ حکم اخلاقی ہے ورنہ زن و شوہر کے لئے ایک دوسرے کے پورے جسم کو دیکھنا جائز ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ لذت افزونی کے لئے اس موقع پر ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھی جائے ۔ ابن عمرؓ کا یہ قول روایت بالا کے خلاف نہیں، مباشرت کا اصل مقصود زوجین کو عفیف رکھنا ہے اگر کسی کے نفس کی تسکین اس کے بغیر نہیں ہوپاتی تو یقینا اس کے لئے ایسا کرنا ہی بہتر ہوگا۔
خاص ہدایات
پھر انسانی فطرت مزاج وطبیعت اور مذاق و خواہش کے اختلاف کو پیش نظر رکھ کر کسی خاص طریقہ کی تحدید نہیں کی گئی بلک اس کو ہر انسان کے اپنے ذوق وچاہت کے حوالہ کردیا گیا، ارشاد ہوا’’ فاتواحرثکم انی شئتم‘‘ یعنی بیوی جو تمہارے لئے تو الدوتناسل کی کھیتی ہے اس سے جس طرح جنسی ملاپ کرنا چاہو کرو، کھڑے ہو کر ،بیٹھ کر، لیٹ کر یاکسی اور صورت، سامنے سے یاپشت کی جانب سے یاکسی اور طریق سے۔ البتہ اس کے ساتھ چند ہدایتیں بھی کردی ہیں:
اول یہ کہ اس کے لئے غیر فطری راہ اختیار نہ کی جائے۔ یعنی پائخانہ کے مقام کو اس کے لئے استعمال نہ کیا جائے، اس کی طرف ایک لطیف اشارہ خود قرآن مجید میں بھی موجود ہے، چنانچہ بیوی کو کھیتی قرار دیا گیا ظاہر ہے اولاد کی پیداوار اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ فطری مقام میں صحبت کی جائے۔ حدیثیں اس سلسلہ میں کثرت سے وارد ہیں، آپﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مردیاعورت سے پیچھے کی راہ میں ملے، خدا اس کی طرف نظر رحمت نہ ڈالے گا۔
(جاری ہے)
الفقہ
