حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 497)
قرآن مجید
عربوں میں چونکہ قمار کا رواج بہت قدیم اور بڑی کثرت سے تھا، اس لئے اس کی حرمت میں تدریج سے کام لیا گیا، پہلے مرحلہ میں صرف اس قدر کہا گیا کہ جوئے کے نقصانات اس کے فائدے سے زیادہ ہیں:
یسئلونک عن الخمر…الخ
’’لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کرتے ہیں، کہہ دیجئے کہ اس میں بڑا گناہ ہے ، لوگوں کے لئے گو نفع بھی ہے مگر نقصان نفع سے بڑھ کر ہے۔‘‘(بقرہ)
یہاں’’میسر‘‘ سے مراد قمار ہے ،دوسرے مرحلہ میں نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر اس کی حرمت کا اعلان کردیا گیا بلکہ اس کے لئے انتہائی تاکید اور سخت تنبیہ کا اسلوب اختیار کیا گیا، چنانچہ ارشاد ہوا:
یاایہاالذین امنواانما الخمر والمیسر…الخ
’’ اے اہل ایمان ! شراب ،جوا، بت اور پانسے ناپاک اور شیطانی کام ہیں، ان سے بچو، امید ہے کہ اس طرح تم کامیاب ہوگے، شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و نفرت پیدا کر دے اور تم کو ذکر خداوندی اورنماز سے روک دے پھر کیا تم لوگ اس سے رکوگے؟؟‘‘(مائدہ:۹۰،۹۱)
احادیث میں بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے، آپﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے ساتھی سے کہے، آئو تمہارے ساتھ جوا کھیلیں، اسے صدقہ کرنا چاہئے۔ یعنی صرف جوئے کی دعوت بھی اتنا بڑا جرم ہے کہ صدقہ کے ذریعہ اس کا کفارہ ادا کر دینا چاہئے، چہ جائے کہ خود جو ا کھیلنا یا جوئے کا کاروبار کرنا… اسی لئے رسول اللہﷺ نے ایسے تمام تجارتی معاملات اور کاروبار کو ممنوع قرار دیا ہے جس میں قمار اور جواپایا جاتا ہو۔
لاٹری او رمعمے
لاٹری میں بھی قمار اور ربادونوں ہی پایاجاتا ہے اس لئے کہ جو ٹکٹ خرید کرتا ہے اگر اس کے نام سے لاٹری نکلے جو اکثر اوقات روپیہ ہی کی صورت میں ہوتی ہے تو لین دین کے معاملہ( عقد معاوضہ) میں ایک طرف سے کم اور دوسری طرف سے زیادہ معاوضہ ہوجائے گا اور یہی’’ ربوا‘‘ ہے، دوسرے اس میں نفع و نقصان مبہم اور خطرہ میں رہتا ہے کہ اگر نام نکل آیا تو نفع ہوگا نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی۔ پھر یہ نفع ٹکٹ خرید نے والوں کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بخت و اتفاق ہے کہ اسی کا نام نکل آیا… ایسے ہی مبہم اور زیر خطر نفع ونقصان کو قمار کہتے ہیں،اس لئے قمار بھی پایا گیا۔
امام ابو بکر جصاص رازیؒ لکھتے ہیں:
’’جوئے کی حرمت اور ’’مخاطرہ‘‘ کے جوا ہونے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں،ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کی مخاطرہ جوا ہے۔‘‘(احکام القرآن:ج۱ص۳۸۸)
قریب قریب یہی نوعیت معمہ کی بھی ہے اس میں بھی معمہ پر کرکے بھیجنے والا فیس ادا کرتا ہے حل صحیح نکل آیا تو زیادہ رقم ملتی ہے ورنہ اصل پیسے بھی واپس نہیں ہوتے، ہاں اگر معمہ بھیجنے والوں سے کوئی فیس نہ لی جائے تو یہ صورت درست ہوگی اور اس رقم کی حیثیت خالص انعام کی قرار پائے گی۔
انشورنس
قمار آمیز کاروبار جو آج کل جاری ہیں، ان میں سرفہرست انشورنس کا مسئلہ ہے، گوانشورنس کی صورتوں اور پالیسیوں میں خاصا تنوع پایا جاتا ہے لیکن عام طور پر وہ دو مفاسد سے خالی نہیں ہیں، ایک سود، دوسرے قمار…سود تو ہر صورت میں ہے، اس لئے کہ جمع شدہ رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور منافع گویا اس مہلت کا معاوضہ ہے، اسی کا نام ربوا ہے، اور اگر مدت مقررہ سے قبل موت واقع ہوگئی تو قمار بھی پایا گیا کیونکہ مال حاصل ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد ایک ایسی چیز کو بنایا جارہا ہے جس کا موجود ہونا اور نہ ہونا مبہم ہے، اسی کو فقہاء ’’ خطر‘‘ اور ’’مخاطرہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی تمام چیزوں کو قمار قرار دیتے ہیں۔ ’’لاخلاف بین اہل العلم فی تحریم القمار وان المخاطرۃ من القمار‘‘ یہاں بھی یہی صورت ہے کہ مقررہ میعاد کے درمیان موت یا عضو یاکاروبار کے ضائع یا ہلاک ہونے کی وجہ سے جو نفع متوقع ہے اس کا حاصل ہونا اور نہ ہونا موقع خطر میں ہے کہ اگر یہ چیزیں سلامت رہ گئیں تو یہ نفع حاصل نہ ہوسکے گا اور چونکہ کم رقم دے کر زیادہ رقم حاصل کی جارہی ہے، اس لئے سود بھی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے
لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں ہندومسلم فسادات کی کثرت اور ان فسادات کا اتفاقاً پیش نہ آنا بلکہ بعض جماعتوں اور تحریکوں کی طرف سے مسلمانوں کی جان و املاک کی ہلاکت و بربادی کی سعی نے یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ بہ حالت موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے انشورنس کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟ اور اس کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس سلسلہ میں علماء کی ایک جماعت جواز کا فیصلہ کرچکی ہے حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے جماعتی اعتبار سے جان و مال اور کاروبار کا انشورنس فقہی اصطلاح کے اعتبار سے’’حاجت‘‘ کا درجہ ضرور اختیار کر گیا ہے اور عمومی اور اجتماعی نوع کی حاجتیں ضرورت ہی کا درجہ رکھتی ہیں (الاشباہ والنظائر للسیوطی: ص۱۷۹) بلکہ فقہاء نے تو انفرادی حاجت کی بنا پر بھی سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے۔’’ویجوز للمحتاج الا ستقراض بالربح‘‘(الاشباہ والنظائر لابن نجیم مع الغمز:ج۱ص۲۹۴) اور دفع ضرر ہی کافی نہیں بلکہ کسی چیز کے تعامل اور رواج کو بھی حاجت کی کیفیت پیدا ہونے کے لئے کافی تصور کیا گیا ہے ’’ ومنھا الافتاء بصحۃ بیع الوفاء حین کثرالدین علی اہل بخاری وھکذا بمصر وقد سموہ بیع الامانۃ‘‘(الاشباہ والنظائر :ایضاً) اسی طرح جن چیزوں میں کاریگروں سے غیر موجود مصنوعات کے خریدنے کا رواج ہو، ان میں رواج و تعامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہاء نے’’ استصناع‘‘ کی اجازت دی ہے:
’’ثم انما جاز الاستصناع فیما للناس فیہ تعامل اذا بین وصفاً علی وجہ یحصل التعریف اما فیما لاتعامل فیہ… لم یجز‘‘(قاضی خان:ج۱ص۴۹۹)
اسی طرح حاجت کی بنا پر’’ضمان درک‘‘ (’’ضمان درک‘‘ سے مراد یہ ہے کہ خریدار بیچنے والے سے سامان لینے کے علاوہ مزید ضمانت حاصل کرے کہ اگر اس سامان کا کوئی حقدار نکل آئے تو وہ اس سامان کی قیمت وصول کرے گا)وغیرہ کی گنجائش سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنے جان و مال اور تجارت و صنعت وغیرہ کے سلسلہ میں جس ضرر شدید سے دوچار ہیں وہ مذکورہ حاجتوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس لئے اجتماعی حاجت کی بنا پر ہندوستان کے موجودہ حالات میں جان ومال اور تجارت و صنعت کا انشورنس جائز ہوگا۔
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 498)
دوسرے امت کا اختلاف رحمت ہے اور جہاں دقت پیدا ہوجائے وہاں اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علماء کے مشورہ سے قول ضعیف پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے جیساکہ شامی نے لکھا ہے(ردالمحتار) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دارالحرب میں عقود فاسدہ کے ذریعہ حصول مال مسلمان کے لئے جائز ہے، یہ رائے گو دلائل کے اعتبار سے مرجوح ہے لیکن بے اصل نہیں ہے، ایسا ملک جو دارالحرب ہو لیکن اہل اسلام سے اس کی مصالحت ہوگئی ہو اور گویا اس کی حیثیت معاہدین کی ہوگئی ہو، امام محمد کی حسب تحریر ان سے بھی عقود فاسدہ جائز ہے۔
’’اگر دارالحرب کے لوگ اہل اسلام سے صلح کرلیں پھر کوئی مسلمان ان کے ملک میں جائے اور دودرہم کے بدلہ ایک درہم خرید کر لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اس لئے کہ اس مصالحت کی وجہ سے ان کا ملک دارالاسلام نہیں بن جاتا‘‘(الشرح الکبیر:ج۴ص۱۴۹۳)
ہندوستان میں بھی یہاں کی حکومت اور غیر مسلم شہریوں کو ایک حد تک ’’موادعین‘‘ کی فہرست میں رکھا جاسکتا ہے۔پس ایک طرف مسلمانوں کی یہ اجتماعی حاجت اور دوسری طرف فقہ حنفی میں یہ گنجائش اس بات کا جواز فراہم کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو جان ، مال ، تجارت وکاروبار کے انشورنس کی اجازت دی جائے۔
اس سلسلہ میں ۱۵،۱۶ دسمبر ۱۹۶۵ء کو مجلس تحقیقات شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ نے ایک نشست بلائی تھی جس میں کچھ نمائندہ اہل علم نے شرکت کی تھی اس اجتماع نے انشورنس کے سلسلہ میں جو متوازن بصیرت افروز اور حقیقت پسندانہ رائے قائم کی ہے۔ وہ یوں ہے:
’’مجلس یہ رائے رکھتی ہے کہ اگر چہ انشورنس کی سب شکلوں کے لئے رباوقمار (سوداور جوا) لازم ہے اور ایک کلمہ گو کے لئے ہر حال میں اصول پر قائم رہنے کی کوشش کرنا ہی واجب ہے لیکن جان ومال کے تحفظ وبقا کا جو مقام شریعت اسلامیہ میں ہے مجلس اسے بھی وزن دیتی ہے۔ نیز مجلس اس صورت حال سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتی کہ موجودہ دور میں نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی ریاستوں سے انشورنس انسانی زندگی میں اس طرح دخیل ہو گیا ہے کہ اس کے بغیر اجتماعی اور کاروباری زندگی میں طرح طرح کی دشواریاں پیش آتی ہیں اور جان و مال کے تحفظ کے لئے بھی بعض حالات میں اس سے مفرممکن نہیں ہوتا۔ اس لئے ضرورت شدیدہ کے پیش نظراگر کوئی شخص اپنی زندگی یا اپنے مال یا اپنی جائیداد کا بیمہ کرائے تو مذکورہ بالا ائمہ کرام کے قول کی بنا پر اس کی شرعاً گنجائش ہے۔
اوپر کی عبارت میں لفظ’’ضرورت شدیدہ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جان یا اہل و عیال یا مال کے ناقابل برداشت نقصان کا قوی اندیشہ ہو۔
’’ضرورت شدیدہ‘‘موجود ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ مجلس کے نزدیک مبتلیٰ بہ (جو شدید دشواریوں میں مبتلا ہو کر بیمہ کرانا چاہتا ہو) کی رائے پرمنحصر ہے جو خود کو عنداللہ جو اب دہ سمجھ کر علماء کے مشورہ سے قائم کرے۔‘‘
موجودہ انشورنس کا اقتصادی نقصان
ویسے انشورنس کا موجودہ نظام غیر اسلامی ہونے کے علاوہ معاشی اعتبار سے بھی نظرثانی کا محتاج ہے۔ موجودہ نظام میں بینک کی طرح اصل فائدہ چندسرمایہ داروں کو حاصل ہوتا ہے، انہیں کے پاس دولت کا ارتکاز ہوتا جاتا ہے اور عام لوگوں کو اس سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس کاتناسب بہت معمولی ہوتا ہے۔
مثلاً اگر ایک سال میں اس اسکیم میں ایک سو آدمی شریک ہوں اور ان سے ایک لاکھ روپے حاصل ہوں تو انشورنس کمپنی ان کو تجارت ،صنعت، مختلف کاروبار میں لگا کر بے پناہ فائدہ بٹورتی ہے، اس کا فائدہ ۹۰ فیصد حصہ چند سرمایہ داروں کی جیب میں جاتا ہے، عام شرکاء کے حصہ میں جو نفع ملتا ہے اس کی مجموعی قدر حاصل ہونے والے منافع کا ۱۰/فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا، اگر ایک دوممبر کی موت ہوئی تو کمپنی جغرافیائی حالات اور سابقہ ریکارڈ کی روشنی میں پہلے سے اس کو ملحوظ رکھتی ہے۔
اقتصادی لحاظ سے یہ بات زیادہ مفید اور بہتر ہوتی ہے کہ چندآدمیوں میں دولت کا ارتکاز ہونے کے بجائے وہ زیادہ سے زیادہ ہاتھوں میں پھیلے اور گردش میں رہے، اس طرح غربت کم ہوگی اور نفع میں عام لوگوں کو شرکت کا موقع ملے گا، اس لئے اسلام نے شرکت اور مضاربت کے اصول پر کاروبار کا نظام رکھا ہے تاکہ حاصل ہونے والے نفع سے کاروبار کے تمام شرکاء یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔
زراعت و کاشت کاری
تجارت کے بعد دوسرااہم ذریعہ معاش زراعت اور کاشتکاری ہے، رسول اللہﷺ نے زراعت کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ہے،حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمان کوئی درخت یاکھیتی لگائے اور اس میں سے انسان، درندہ، پرندہ یا چوپایہ کھائے تو وہ اس کے لئے صدقہ ہوجاتا ہے، اسی لئے بعض صحابہ خاص اہتمام سے درخت لگایا کرتے تھے۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے خاص اسی نیت سے درخت لگانا نقل کیا ہے۔ حضرت حسن سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ شہد مکھی اور درخت باعث برکت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہزار ترقی اور صنعتی ارتقاء کے باوجود آج بھی زمین ہی انسان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اسی کے ذریعہ نہ صرف غذا بلکہ علاج و ادویہ کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں، اسی لئے اسلام نے اس کی بڑی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ زمین کا خواہ مخواہ افتادہ رہنا اور اس کی قوت کاشت سے فائدہ نہ اٹھانا ناپسندیدہ بات ہے چنانچہ اگر ایسی افتادہ زمین ہو جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’موات‘‘ کہتے ہیں تو اسے جو بھی آباد کرے جائز ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ایسی سرکاری غیر مزروعہ زمین سرکار کی اجازت سے کاشت کی جا سکتی ہے۔ پھر اگر تین سال گزر جائیں اور وہ کوئی فائدہ نہ اٹھائے تو زمین اس سے لے کر دوسرے کے حوالہ کردی جائے گی تاکہ دوسروں کو استفادہ کا موقع مل سکے۔ امام شافعی ؒاور امام احمدؒ کے نزدیک تو ایسی افتادہ زمین کی آباد کاری کے لئے حکومت سے اجازت کا حصول بھی ضروری نہیں۔
البتہ دوسرے مشاغل کی طرح کاشت کاری میں بھی اتنا غلو اور اشتعال کہ دوسرے فرائض سے غفلت ہوجائے مناسب نہیں، چنانچہ حضورﷺ نے ابو امامہ باہلی کے گھر میں کھیتی باڑی کا سامان دیکھا تو فرمایا کہ جس قوم کے گھروں میں یہ آتا ہے وہاں ذلت بھی آجاتی ہے۔ غالباً ایسا اس لئے فرمایا گیا کہ کھیتی باڑی کرنے والے نہ جہاد اور دفاع کی تیاری کرپاتے ہیں اور نہ اسفار، اس کی وجہ سے ان کے اندر بزدلی اور بزدلی کی وجہ سے ذلت پیدا ہوجاتی ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 500)
کاشت میں بٹائی داری
شریعت میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ ایک شخص کے پاس اسباب و وسائل ہوں اور دوسرے کے پاس صلاحیت ہو اور ان دونوں کے مجموعہ سے جو پیدا وار حاصل ہو وہ دونوں میں تقسیم ہوجائے’’ مضاربت ‘‘ کا ماحصل یہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کاشتکاری میں بھی یہ بات کہ ایک شخص کی زمین ہو اور دوسرے شخص کی طرف سے محنت ہو، جائز ہے یا نہیں اور اسی زمین کی پیداوار دونوں میں تناسب کے لحاظ سے تقسیم ہوجائے ؟ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، رسول اللہﷺ نے اہل خیبر کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ طے کیا تھا کہ وہ کھیتی کریں اور نصف پیداوار آپﷺ کے حوالہ کریں۔ اس سے بٹائی داری کا جواز معلوم ہوتا ہے، دوسری طرف رافع بن خدیج اور بعض دوسرے راویوں کی روایت ہے کہ آپﷺ نے اس سے منع فرمایا، اس سے ناجائز ہونا معلوم ہوتا ہے۔
لیکن درحقیقت ان دنوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں۔ اصل میں اس طرح کاشتکاری اور نفع کی دونوں میں تقسیم جائز ہے بشرطیکہ زمینوں کے کسی خاص حصہ کی پیداوار یا متعینہ مقدار فریقین میں سے کوئی اپنے لئے مخصوص نہ کرلے اس لئے کہ ممکن ہے زمین کے اسی حصہ میں پیداوار ہو یا اتنی مقدار ہی میں غلہ نکلے تو ایسی صورت میں دوسرافریق بالکل محروم رہ جائے گا اس لئے یہ شکل جائز نہیں۔
اس حدیث کی جو تاویل کی گئی ہے اس کی تائید خود امام بخاری کی روایت سے ہوتی ہے ، امام بخاری نے رافع بن خدیج سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ زمین میں ایک متعین گوشہ مالک زمین کے لئے چھوڑ دیتے تھے ،اس سے منع کیاگیا۔
چنانچہ امام ابو حنیفہؒ نے گو بٹائی داری کو مکمل منع کیا ہے لیکن آپ کے بعض تلامذہ اور اکثر فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے، ہاں اس صورت کو منع کیا ہے جبکہ زمین کا مخصوص حصہ یا پیداوار کی ایک مخصوص مقدار فریقین میں سے کوئی اپنے لئے مخصوص کرلے اور اس پر فتویٰ ہے۔
کچھ اور احکام
’’مزارعت‘‘ کی تفصیلات باہمی معاہدہ اور عرف کے تحت طے پائیں گی،بیج مالک کی طرف سے ہویا کاشتکار کی طرف سے؟ یہ عرف وعادت پر موقوف ہے، اسی طرح کھیتی مکمل ہونے کے بعد اس کی کٹائی اور گھر پہنچائی کس کے ذمہ ہے ، ان سب میں لوگوں کا عام عرف اور تعامل اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کی روشنی میں اس کا فیصلہ ہوگا۔‘‘
صنعت و حرفت
صنعت و حرفت کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے بہتر کمائی کیا ہے؟ فرمایا: آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ صنعت و حرفت جاننے والے مسلمان کو پسند فرماتا ہے۔ صنعت و حرفت میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی انسانی خدمت اور حفاظت و جہاد کے تمام اسباب آجاتے ہیں، مسلمانوں نے ابتدائی دور ہی سے اس طرف بڑی توجہ دی ہے اور سائنسی ترقی میں بڑا کردار ادا کیا ہے، بدقسمتی سے ۱۷ ویں صدی سے جب یورپ نے اس سمت میں تیز گامی کے ساتھ سفر طے کیا تو مسلمانوں نے اپنی سست انگاری اور غفلت کی وجہ سے اس میدان سے بالکل اپنے کو الگ تھلگ کرلیا جس کے سنگین نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ’’والی اللّٰہ المشتکی‘‘
دوبنیادی اصول
صنعت و حرفت میں صرف دواصول سامنے رہنے چاہئیں اور وہ یہ کہ اس کے ذریعہ گناہ میں براہ راست تعاون نہ ہوتا ہو، مثلاً مورتیوں اور مجسموں کا بنانا جائز نہیں، زنّارکا بنانا جائز نہیں کہ وہ برادران وطن کے یہاں ایک مذہبی شعار کا درجہ رکھتی ہے، اس طرح ذی روح کی تصاویر اور ان کے مجسمے بنانا جائز نہیں کہ خودحضورﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ اپنی مصنوعات کو ایسے لوگوں سے فروخت کرنا جو اس کے ذریعہ فتنہ برپا کرسکتے ہوں، جائز نہیں، مثلاً مخالف اسلام قوتوں کو اسلحہ فراہمی جائز نہیں ہوگی کہ اس کا استعما ل غلط ہوگا، اسی پر دوسری مصنوعات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اجارہ ومزدوری
کسب معاش کا تیسرا ذریعہ مزدوری اور ملازمت ہے ،اس معاملہ کو فقہ کی اصطلاح میں اجارہ اور کام کرنے والے کو اجیر کہتے ہیں، مزدور کا مسئلہ چونکہ اہم ترین مسائل میں سے ہے اس لئے اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔
مزدوروں کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس کو گزشتہ نصف صدی کے اہم ترین مسائل میں شمار کیا جاسکتا ہے او ریہ فطری بات ہے، دنیا کی ساری بہاردراصل انہی کے دم سے ہے، بلند قامت عمارتیں ہوں، صاف ستھری سڑکیں ہوں یا دیہات کے سبزہ زار کھیت اور بل کھاتی ہوئی نہریں ، سب کو انہی کے خون و پسینہ اور قوت بازو سے غذاملتی ہے، یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ معاشی ترقی اور خوشحالی میں سب سے کم حصہ مزدوروں ہی کو ملتا ہے حالانکہ و ہ سب سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔
یہاں اس بات کی وضاحت دینی مناسب ہو گی کہ جب ہم مزدور کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے صرف وہ جفاکش طبقہ ہی مراد نہیں ہوتاجو جسمانی محنتوں اور مشقوں کے کام کرتا ہے بلکہ وہ ملازمین بھی مراد ہوتے ہیں جو لکھنے پڑھنے یا دوسرے دماغی قسم کے کام کرتے ہیں۔
اسلام نے دوسرے شعبۂ ہائے زندگی کی طرح اس باب میں بھی مفصل اور واضح ہدایات دی ہیں جس میں آجر اور مزدور دونوں ہی کے حقوق کی رعایت ہے اور اعتدال و توازن بھی ہے۔
مزدوروں کی اہمیت
سب سے پہلے تو اسلام نے مزدوروں کو ایک بلند مقام اور منصب کا حامل قرار دیا اور عام طور پر جو اس طبقہ کو کمتر اور حقیر گر دانا جاتا تھا جواب تک باقی ہے،کی نفی کی ہے، آپﷺ نے فرمایا:
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ یا دس سال تک حضرت شعیب علیہ السلام کی مزدوری کی۔
حلال روزی کی تلاش میں محنت و کاوش کو عنداللہ پورے ایک سال امام عادل کے ساتھ جہاد سے افضل قرار دیا گیا۔
چھوٹے بچے، ماں باپ اور خود اپنی کفالت کے لئے دوڑ دھوپ( سعی) کو آپﷺ نے اللہ کی راہ میں جدوجہد بتایا۔
آپﷺ نے فرمایا کہ سب سے پاکیزہ عمل یہ ہے کہ آدمی خود اپنے ہاتھوں کمائے۔
اور خدا کے نبی حضرت دائود علیہ السلام اپنے ہاتھوں ہی کی کمائی کھایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ایسے مؤمن بندہ کو پسند کرتا ہے جو صنعت و حرفت سے واقف ہو اور اس سے کام لیتا ہو’’ ان اللّٰہ یحب العبد المومن المحترف‘‘
آپﷺ نے فرمایا: تمام انبیاء علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں اور فرمایا: خود میں بھی چند قیراطوں پر مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔
کاشتکاری کو مبارک کہا گیا اور اس کا حکم دیا گیا۔
ایک بار آپﷺ نے حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا: سب سے حلال وہ ہے جس میں دونوں پائوں چلیں ، ہاتھ کام کریں اور پیشانی عرق آلود ہو۔
ان ہدایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مزدوروں کو ایک معزز اور مؤقر مقام حاصل ہے اور دوسرے پیشوں اور طبقوں سے ان کی حیثیت کم نہیں ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 501)
اُجرت کی مقدار
اس کے بعد مزدوروں کے حقوق کا مسئلہ آتا ہے جس میں سب سے بنیادی اور اولین چیز اُجرت کی مقدار کا تعین ہے۔ اس پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے جس میں حضورﷺ نے غلاموں کے سلسلہ میں درج ذیل ہدایات دی ہیں:
’’وہ تمہارے بھائی ہیں جن کو خدا نے تمہارے ماتحت رکھا ہے، لہٰذا خدانے جس کے ماتحت اس کے بھائی کو کیا ہواس کو چاہئے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھائے، جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے، اس کو ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو اس کے لئے دشوار ہو اور اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر اس کی مدد کرے۔‘‘
پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم کا اس ہدایت پر مکمل عمل تھا، ان کے غلام اور خدام ان کے ساتھ ہی وہی کھانا کھاتے تھے جو وہ خود کھاتے ، غلاموں اور ان کے مالکوں کے کپڑے ایک ہی معیار کے ہوتے تھے۔ ایک بار ایک ہی قسم کی چادر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام اوڑھے ہوئے تھے، ایک شخص نے عرض کیا: آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ وہ چادر بھی خود اوڑھ لیں تاکہ اس کا جوڑا ہوجائے اور غلام کو کوئی اور چادر دے دیں۔ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کرتے ہوئے حضورﷺ کی اسی ہدایت کا حوالہ دیا کہ جو خود پہنو وہی اس کو پہنائو۔
اس سے معلوم ہواکہ مزدوروں اور ملازمین کی اجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم ازکم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں اس کا معیار زندگی مالکین اور افسروں کے مساوی اور یکساں ہو۔
دوسرے اجرت کی مقدار اتنی ہو کہ وہ اہل وعیال کی بھی اسی طرح پرورش کر سکے، حسب ضرورت خادم رکھ سکے اور مکان بناسکے۔ آپﷺ نے فرمایا جو شخص ہمارا عامل (ملازم ) بنے اسے چاہئے کہ بیوی حاصل کرلے، خادم نہ ہو تو ایک خادم رکھ لے اور مکان نہ ہو تو ایک مکان فراہم کرلے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد فرمایا: میرا ذریعہ معاش میرے اہل و عیال کے لئے کافی تھا، اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول کردیا گیا ہوں اس لئے ابو بکر کے عیال اسی سرکاری مال میں سے کھائیں گے اور ابو بکر مسلمانوں کے لئے کام کریں گے۔
اُجرت کی ادائیگی
اُجرت کے سلسلے میں اس اصولی ہدایت کے بعد… کہ ان کی جملہ ضرورت زندگی کی تکمیل کی جائے۔ اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اُجرت کی مقدار پہلے ہی واضح کردی جائے اور مبہم نہ رکھا جائے۔
’’ ان رسول اللّٰہﷺ نھی استجارۃ الاجیر حتی بین لہ اجرہ‘‘
’’رسول اللہﷺ نے کسی مزدور سے کام لینے سے منع فرمایا ہے تا آنکہ اس کی اجرت واضح کردی جائے۔‘‘
پھر آپﷺ کا معمول تھا کہ کسی کو اس کی مزدوری کم نہ دیتے تھے۔
آپﷺ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کے دن میں ان کا دشمن ہوں گا۔ا ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے لے اور اجرت نہ دے۔’’رجل استاجراجیرافاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ‘‘
مزدور کی اجرت جلد سے جلد ادا کردینی چاہئے، آپﷺ نے فرمایا: مزدور کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔ ’’اعطوا الاجیر اجرہ قبل ان یجف عرقہ‘‘
فقہاء نے لکھا ہے کہ اجرت ادا کرنے کی تین صورتیں ہیں، یا تو خود آجر قبل ازکام اجرت دے دے ،یا مزدور نے پیشگی مزدوری دینے کی شرط لگادی ہو۔اب بھی اس کو کام سے پہلے ہی مزدوری دینی ہوگی یامزدور اپنے کام کی تکمیل کردے تو کام کی تکمیل کے ساتھ اجرت ادا کرنی ہوگی۔
کاموں کی مقدار
مزدور سے کتنا کام لیاجائے؟ اسلام نے اس کی بھی وضاحت کردی ہے۔
آپﷺ نے فرمایا: غلاموں سے کوئی ایساکام نہ لو جوان کی طاقت اور قدرت سے ماوراء ہو۔
یہ ایک اصول ہے جس کی روشنی میں کام کی نوعیت، مقدار،اوقات تینوں ہی کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اصول صحت کی رو سے جن کاموں کو روزانہ چھ گھنٹے کیا جا سکتا ہے ان ملازمین کے لئے یہی اوقات کارہوں گے اور جوکام آٹھ گھنٹے کئے جا سکتے ہیں ان کے لئے روزانہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہوگی۔
عموماً بعض لوگ کم عمر بچوں یادراز عمر بوڑھوں سے اتنا ہی کام لینا چاہتے ہیں جتنا جوان اور توانا آدمیوں سے۔ اسلامی تعلیم کے تحت یہ غلط اور ظالمانہ حرکت ہے جس پر قانون کے ذریعہ پابندی بھی عائد کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جو مستقل ملازمین ہیں، ضروری ہے کہ ان کے لئے ہفتہ میں ایک دن آرام کے لئے رکھا جائے ، اپنے اقرباء اور رشتہ داروں سے ملنے کے لئے تعطیل لازمی ہو اور بیماروں کے لئے خصوصی رخصتیں ہوں، فقہ کی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔
حسن سلوک
مزدوروں کے ساتھ مالکین اور ذمہ داروں کا کیا سلوک ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں۔’’انھم اخوانکم ‘‘ یعنی ان سے سلوک حاکمانہ نہیں بلکہ برادرانہ ہونا چاہئے۔ قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بحیثیت آجر یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں:
وما ارید ان اشق علیک ستجدنی ان شاء اللّٰہ من الصلحین
’’میں تم کو تکلیف دینا نہیں چاہتا، ان شاء اللہ تم مجھے صالح و نیک پائو گے۔‘‘
گو آجر کا سلوک مزدور کے ساتھ ایسا ہو کہ اس کو تکلیف اور کسی بھی طرح کی ذہنی، جسمانی یا عملی مشقت نہ دے اور اس کے ساتھ نیک سلوک روارکھے۔ حضورﷺکی حیات طیبہ میں ہمیں اس کا عملی نمونہ یوں ملتا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ آپﷺ کے خاص خدام میںسے تھے اور بچپن سے جوانی تک آپﷺ کے ساتھ رہے مگر کبھی اس کی نوبت نہیں آئی کہ آپﷺ نے اونہہ بھی کہا ہو یا پوچھا ہو یہ کیوں کیا؟ اور یہ کیوں نہیں کیا؟ آپﷺ کے خادموں میں ایک یہودی لڑکا تھا، وہ بیمار پڑا تو آپﷺ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ اسی حسن سلوک کا ایک حصہ یہ کہ اگر کوئی مشکل کام اس کو سونپا جائے تو اس کی انجام دہی میں بذات خود بھی مدد کرے۔
منافع میں شرکت
اسلام اس بات کو بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے کہ مزدور کا روباری نفع میں شریک ہوں،’’مضاربت‘‘ کی اصل یہی ہے، مضاربت یہ ہے کہ ایک شخص کا سرمایہ ہے اور دوسرے آدمی کا عمل اور محنت ۔ پھر اس سے جو نفع حاصل ہو اس کو باہم متعینہ تناسب مثلا ًپچاس فی صد وغیرہ میں تقسیم کردیا جائے۔ یہاں دوسرے فریق کو جو کچھ نفع مل رہا ہے، وہ عامل ہی کی حیثیت سے ہوگا۔ اس کی طرف اس حدیث میں بھی اشارہ موجود ہے جس میں آپﷺ نے کھانا پکانے والے خادم کو کھانے میں سے کم ازکم ایک دولقمہ کھلانے کی تلقین کی ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 502)
حقوق کا تحفظ
مزدوروں کے حقوق کے سلسلے میں اسلام نے صرف اخلاقی ہدایات ہی سے کام نہیں لیابلکہ اس کو قانونی تحفظ بھی بخشا ہے اور حکومت کے لئے مداخلت کی گنجائش رکھی ہے۔ چنانچہ قاضی ابو الحسن ماوردی(۴۵۰ھ)’’ محتسب‘‘ کے فرائض پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی شخص مزدور و ملازم (اجیر) پر زیادتی کرے مثلاً اجرت کم دے یا کام زیادہ لے تو محتسب ایسا کرنے سے روکے اور حسب درجات دھمکائے اور اگر زیادتی اجیر کی طرف سے ہو مثلاً کام کم کرے اور اجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی روکے اور دھمکائے اور اگر ایک دوسرے کی بات کا انکار کریں تو فیصلے کا حق حاکم کو ہے۔‘‘(الاحکام السلطانیہ للماوردی مترجم: ص۳۹۹ باب۲۰)
نقصانات کی ذمہ داری
سوال یہ ہے کہ مزدور یا ملازم سے کوئی چیز ضائع ہو جائے تو اس کا ضامن کون ہوگا؟ اس سلسلہ میں تھوڑی تفصیل ہے،مزدوری اور ملازمت کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ معاملہ کی بنیاد کام ہو، دوسرے یہ کہ معاملہ کی اساس وقت ہو، پہلے کی مثال سلائی وغیرہ ہے کہ آپ کسی اور کو کپڑا سینے کو دیں۔ یہاں وہ وقت کا پابند نہیں ہے بلکہ کا م کا پابند ہے کہ کپڑا سی کردے، دوسرے کی مثال اس طرح ہے کہ کسی کو آپ مدرس مقرر کریں کہ وہ روزانہ پانچ یا چھ گھنٹے تعلیم دے،یہاں وہ وقت کا پابند اور اس میں حاضری کا مکلف ہے چاہے طلبہ ہوں یا نہ ہوں اور پڑھانے کی نوبت آئے یا نہ آئے، اسی طرح دن بھر کے لئے کسی مزدور کو مکان کی تعمیر کے لئے رکھا جائے، یہاں وہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ دن بھر اپنا وقت دے۔
پہلی قسم کے ملازم کو’’اجیر مشترک‘‘ اور دوسری قسم کے ملازم کو’’ اجیر خاص‘‘ کہتے ہیں، اجیر مشترک سے کوئی چیز ضائع ہوجائے تو وہ خود اس کا ضامن ہوگا اور تاوان ادا کرے گا۔ اجیر خاص سے اس کی زیادتی اور ارادہ کے بغیر جو سامان ضائع ہوجائے وہ اس کا ذمہ دار نہ ہوگا۔
بندھو امزدور
بندھو امزدور کی ظالمانہ رسم باوجود اس تمدنی ارتقاء اور علم و روشن خیالی کے اب بھی بعض علاقوں میں موجود ہے مگر اسلام میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسلام اس کو انسان کا خالص نجی مسئلہ تصور کرتا ہے کہ وہ کسی کا کام کرے یا نہ کرے، نہ صرف ایک فرددوسرے فرد کو بلکہ حکومت بھی کسی فرد اور شہری کو اس پر مجبور نہیں کر سکتی سوائے اس کے کہ کبھی ایسے خصوصی حالات پیدا ہوجائیں کہ قومی اور اجتماعی مصلحت کے تحت افراد کو کسی عمل پر مجبور کرنا پڑے۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے نکاح، خریدوفروخت وغیرہ دوسرے معاملات کی طرح اس میں بھی طرفین کی رضامندی اور آمادگی کو ضروری قرار دیا ہے۔ اسی طرح اسلام میںہر شخص کو نقل و حرکت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آمدورفت کی آزادی حاصل ہے اور یہ اس کا خالصتاً ذاتی اور شخصی مسئلہ ہے۔ وہ جہاں اور جس شہر و علاقہ میں جا کرمزدوری اور ملازمت کرنا چاہے کر سکتا ہے۔
(ومن یہاجر فی سبیل اللّٰہ یجد فی الارض مرٰغماکثیراوسعۃ)
مزدوروں کی ذمہ داریاں
جہاں مزدوراور ملازمین کے یہ حقوق ہیں وہیں ان کی ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے دومختصر لفظوں میں اشارہ کردیا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس بنیاد پر اپنا ملازم متعین کیا وہ ان کی صاحبزادی کی یہ اطلاع تھی کہ:
یاابت استئجرہ ان خیرمن استئجرت القوی الامین
’’ ابا جان ان کو مزدور رکھ لیجئے، بہترین مزدور جسے آپ رکھیں گے وہ ہوگا جو طاقت ور اور امانت دار ہو۔‘‘
یہاں اچھے مزدور کی دوصفات بیان کی گئی ہیں، ایک قوت و صلاحیت اور دوسرے امانت و دیانت۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلیت کے بغیر کسی کام کی ذمہ داری نہ لے، اس لئے فقہاء نے فاتر العقل طبیب’’ الطبیب الماجن‘‘ کو علاج سے روک دینے کا حکم دیا ہے۔
دوسرے یہ کہ وہ اپنے کام ،ذمہ داریوں اور سونپی گئی اشیاء کے معاملہ میں امانت دار اور دیانت دار ہو، اگر مفوضہ کام میں وہ قصداً کوئی نقص رہنے دے یا متعینہ وقت کا اپنی ذمہ داریوں کے لئے پورا پورا استعمال نہ کرے تو یہ بات دیانت کے خلاف ہوگی، چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ
عدل کے ساتھ وزن کرو، میں یہ بھی داخل ہے کہ ملازمین اپنے اوقات ملازمت کا پوراپورا خیال رکھیں۔
امانت میں یہ بھی داخل ہے کہ رشوت نہ لے، رشوت یہ ہے کہ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کا الگ سے پیسہ وصول کرلے، حضورﷺ نے اس سے بڑی شدت سے منع فرمایا ہے، رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں ہی دوزخ میں ہیں’’ الراشی والمرتشی کلاھمافی النار‘‘ رشوت صرف وہی نہیں ہے جو رشوت کے نام پر لی جائے بلکہ وہ رقم بھی رشوت میں داخل ہے جو عام لوگ کسی عہد ے سے متاثر ہوکر ’’ہدیہ اور‘‘ نذر و نیاز‘‘ کے نام سے پیش کریں، رشوت کی یہ وہ قسم ہے جس میں اچھے خاصے دیندار لوگ بھی مبتلا ہیں، چنانچہ فرمایا: جو شخص کسی کے لئے سفارش کرے، وہ اس کے لئے تحفہ بھیجے اور وہ اس کو قبول کرلے، اس نے بہت بڑا سود لیا ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عاملوں کو ہدایا و تحائف بیت المال میں جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی لئے فقہاء نے قاضی کے لئے فریقین مقدمہ سے ہدیہ قبول کرنے کو ناجائز قراردیا ہے۔
ناجائز ملازمتیں
ایسی چیزوں کی ملازمت اور مزدوری جائز نہیں ہے جو معصیت اور گناہ ہو، اس لئے کہ جس طرح گناہ کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح گناہ کے لئے سبب اور ذریعہ بننا اور اس میں تعاون بھی ناجائز ہے اور جو جس درجہ کا گناہ ہے اس میںتعاون بھی اسی درجہ کا گناہ ہے۔ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیںـ:
’’لا یجوز الاستجار علی شیء من الغناء والنوح و المزامیر… ولا اجر لھم فی ذلک‘‘
ترجمہ: مزامیر ،نوحہ زنی اور گانے بجانے وغیرہ کے کاموں پر کسی کو اجیر رکھنا درست نہیں ہے اور وہ اجرت کے حقدار نہیں ہوتے ہیں۔‘‘(عالمگیری:ج۴ص۴۴۹)
ظاہر ہے جب ان کاموں کے لئے ملازم رکھنا درست نہ ہوگا اور اگر کوئی شخص معاملہ طے ہوجانے کے بعد یہ کام کر ہی لے تو اجرت واجب نہ ہوگی تو خود کسی شخص کا ایسی ملازمت اختیار کرنا کیونکر جائز ہوگا اور اس ملازمت کا فائدہ ہی کیا ہوگا جس پر کوئی مزدوری نہ ملے؟
اسی حکم میں سینما ہال کی ملازمت ،گانے بجانے کے کام، انشورنس کی ایجنسی اور انشورنس اور بینک کی ایسی ملازمتیں ہیں جن میں سودی کاروبار لکھنا پڑے یا اس میں لین دین کرنا پڑے۔
٭…٭…٭