تحریر : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آپ اسے 11 منٹ ، 4 سیکنڈز میں پڑھ سکتے ہیں۔
دھر اخبارات میں کئی خبریں عامل حضرات کی گرفتاری سے متعلق سامنے آئی ہیں ، پریشان حال لوگ ان کے پاس دین کی نسبت سے آتے ہیں ، ایسے لوگوں کی طرف سے ضرورت مندوں کا استحصال ، ان سے غیر معمولی مقدار میں رقوم کی وصولی ، یہاں تک کہ عزت و آبرو پر بھی دست درازی کے واقعات حد درجہ افسوسناک ہیں ، اچھے اور برے واقعات سماج میں دن و رات پیش آتے رہتے ہیں ، اور جب کسی معاشرہ میں برائی کا دور دورہ ہوجاتا ہے ، اور جرائم روز مرہ کا معمول بن جاتے ہیں ، تو لوگوں کی نگاہ میں ان واقعات کی اہمیت کم ہوجاتی ہے ، کوئی بات کتنی بھی نامناسب ہو ، لیکن جب آنکھیں انھیں دیکھنے اور کان ان کے سننے کے خوگر ہوجائیں ، تو اس کی سنگینی اور شناعت کا احساس کم سے کم ہوتاجاتا ہے ، لیکن یہی واقعات اگر دینی مراکز اور دینی شخصیتوں کی نسبت سے سامنے آئیں ، تو دل پر چوٹ لگتی ہے ، اور دین اور اہل دین کا اعتماد و اعتبار مجروح ہوتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کو شفاء اور مومن کے لئے رحمت قرار دیا ہے ، وننزل من القرآن ماہو شفاء و رحمۃ للمؤمنین ، (اسراء : ۸۲ ) — اصل میں تو قرآن مجید دل کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے ، وہ کفر و شرک اور نفاق کی بیماری سے قلب کو نجات عطا کرتا ہے ، شفاء لما فی الصدور ، ( یونس : ۵۷ ) — لیکن کیا اﷲ کی یہ ’ کتابِ اعجاز ‘ جسم انسانی کے لئے بھی باعث شفاء ہے ؟ اس میں اختلاف ہے ، اور اکثر اہل علم اور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید سے شفاء جسمانی بھی حاصل ہوتی ہے ، ( تفسیر قرطبی : ۱۰/۳۱۶ ، نیل الاوطار : ۸/۲۱۲ ) — رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ بچھو گزیدہ شخص پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا گیا اور اﷲ تعالیٰ نے شفاء عطا فرمائی ، ( نیل الاوطار : ۸/۲۱۵ ) — خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات میں سورۂ فاتحہ اور سورۂ فلق و ناس کے ذریعہ شفاء جسمانی کا ذکر موجود ہے ۔
اسی طرح بعض بیماریوں سے شفاء کے لئے دُعائیں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول ہیں ، بعض دُعائیں مطلق بیماری کے لئے ہیں ، اور بعض دُعائیں متعین بیماریوں کے لئے ، مشہور محدث امام ابوزکریا نوویؒ نے ماثور دُعاؤں اور اذکار کو ’’ کتاب الأذکار ‘‘ کے نام سے جمع فرمایا ہے ، یہ ایک ضخیم کتاب ہے ، اور اس میں ایسی بہت سی دُعائیں موجود ہیں — نیز یہ بات عقل و خرد کے بھی خلاف نہیں، جن مادی دواؤں کو ہم کھاتے اور ان سے صحت یاب ہوتے ہیں ، ان میں یہ خصوصیت اور نافعیت خالق کائنات ہی کی پیدا کی ہوئی ہے ، تو اگر اﷲ تعالیٰ وہی تاثیر وصلاحیت الفاظ اور کلمات میں پیدا کردیں تو یقینا یہ بھی باعث تعجب نہیں ہے ، اس پر انسانی تجربات بھی شاہد ہیں ، بہت سے مواقع پر کسی آیت کے پڑھنے یا دَم کرنے یا کسی دُعاء کے پڑھنے کی وجہ سے شفاء حاصل ہوتی ہے ، اور انسان عملاً اس کا تجربہ کرتا ہے ، اسی لئے صحیح یہی ہے کہ دُعائیں بھی ، قرآنی آیات بھی اور اﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ بھی شفاء کی تاثیر رکھتے ہیں ، اور یہ اسباب کے درجہ میں ہیں ، اصل شفاء اﷲ ہی کی مشیت اور اسی کے حکم سے ہے ۔
روحانی عمل کے ذریعہ علاج کی مختلف صورتیں ہیں ، دُعاء کرنا ، کوئی آیت ، ذکر یا دُعاء پڑھ کر دَم کرنا ، قرآن مجید کی آیت ، دُعاء یا اﷲ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کو لکھنا اور اسے دھوکر پینا اور لکھا ہوا تعویذ گلے میں لٹکانا — جہاں تک شفاء کی دُعاء کرنے کی بات ہے ، خواہ اپنے لئے یا دوسرے کے لئے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ، ام المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ پر دایاں ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ دُعاء فرماتے تھے :
اللہم رب الناس ، اذہب البأس ، وأشف أنت الشافی ، لا شفاء إلا شفاء ک ، شفاء لا یغادر سقما ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۵۳۵۱ ، باب دعاء العائد للمریض)
اے اﷲ ! انسانیت کے پروردگار ! تکلیف کو دور کردیجئے اور شفاء عطا فرمائیے ، کہ آپ ہی شفاء عطا فرماسکتے ہیں ، ایسی شفاء جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے ۔
حضرت عثمان بن ابوالعاص ؓسے مروی ہے ، کہ مجھے اسلام قبول کرنے کے بعد سے جسم میں درد کا احساس رہتا تھا ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جہاں پر تکلیف ہو ، وہاں ہاتھ رکھو ، تین دفعہ بسم اﷲ کہو ، اور سات دفعہ پڑھو :
اعوذ بعزۃ اﷲ و قدرتہ من شرما أجد وأحاذر ۔
( مسلم،حدیث نمبر:۲۲۰۲ ، باب استحباب وضع یدہ علی موضع الألم مع الدعاء)
میں اﷲ تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کی پناہ میں آتا ہوں ، ان چیزوں کی شر سے جس سے میں دو چار ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں ۔
دوسری صورت پڑھ کر دَم کرنے اور پھونکنے کی ، یہ بھی حدیث سے ثابت ہے ، حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم کا سونے کے وقت معمول مبارک تھا کہ سوتے وقت قل ہو اﷲ احد ، قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے اوپر دَم فرماتے ۔ ( بخاری، حدیث نمبر : ۵۰۱۷ ، باب فضل المعوذات )
— حضرت عائشہؓ ہی سے یہ بھی روایت ہے کہ جب گھر کے لوگوں میں کوئی بیمار پڑتا ، تو اس پر بھی آپ معوذات یعنی سورۂ فلق اور سورۂ ناس پڑھ کر دَم فرمایا کرتے ، پھر جب آپ مرض وفات کی حالت میں تھے ، تو حضرت عائشہؓ آپ پر دَم کیا کرتی تھیں ، ( مسلم ، حدیث نمبر : ۵۶۷۰ ) — پھونکنے اور دَم کرنے کو حدیث میں رقیہ ( راء پرپیش ) سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور صراحتاً آپ سے اس کی اجازت ثابت ہے ، حضرت عوف بن مالکؓ راوی ہیں کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں جھاڑ پھونک کرتے تھے ، ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا ، آپ نے فرمایا کہ مجھ پر پیش کرو ، کہ اگر اس میں کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، لا بأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ( مسلم ، حدیث نمبر : ۵۶۸۸ ) — جب براہ راست جھاڑ پھونک کی اجازت ہے ، تو اگر پانی پر دَم کیا جائے اور اسے مریض کو پلایا جائے ، یا تیل پر دَم کیا جائے اور اس سے جسم کی مالش کی جائے ، تو یہ صورت بھی درست ہونی چاہئے ۔
یہ صورت کہ کسی برتن پر قرآن مجید کی آیت یا دُعاء زعفران یا کسی اور شیٔ سے لکھی جائے اور اسے دھوکر پلایا جائے ، ثابت ہے ، علامہ ابن تیمیہؒ نے حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے ایک طویل دُعاء نقل کی ہے ، جس کی ابتداء ’’ بسم اﷲ ، لاالہ الا اﷲ الحلیم الکریم ، سبحان رب العرش العظیم ، الحمد ﷲ رب العالمین‘‘سے ہوتی ہے ، کہ اس دُعاء کو صاف برتن میں لکھ کر اسے پلایا جائے ، اور بعض روایتوں میںیہ بھی ہے کہ ناف سے متصل چھینٹیں ماری جائیں ، اسی سے استدلال کرتے ہوئے علامہ موصوف لکھتے ہیں :
ویجوز أن یکتب للمصاب وغیرہ من المرضی شیئا من کتاب اﷲ و ذکرہ بالمداد المباح ویغسل ویسقیٰ ۔ ( فتاویٰ ابن تیمیہ : ۱۹/۶۴ )
بیمار اور مبتلائے مصیبت شخص کے لئے اﷲ تعالیٰ کی کتاب یا ذکر میں سے کچھ جائز روشنائی سے لکھنا ، دھونا اور پلانا جائز ہے ۔
البتہ جیساکہ علامہ ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے ، یہ ضروری ہے کہ جس چیز سے لکھا جائے وہ پاک ہو ، اور جس چیز پر لکھا جائے وہ بھی پاک ہو ، تاکہ قرآن مجید کی بے احترامی نہ ہو ، کیوںکہ قرآن کی بے احترامی سخت گناہ ہے ، بلکہ جانتے ، بوجھتے ایسا کرنے میں کفر کا اندیشہ ہے ، لہٰذا خون سے قرآنی آیات و اذکار کو لکھنا جائز نہیں ۔
عمل کی چوتھی صورت لکھا ہوا تعویذ ہے ، لکھا ہوا تعویذ گلے میں لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ تعویذ لکھ کر گلے میں لٹکانا ، بازو یا کسی اور حصے میں باندھنا جائز نہیں ، دوسری رائے اس کے جائز ہونے کی ہے ، بشرطیکہ مشرکانہ کلمات سے خالی ہو ، اور یہی رائے زیادہ درست معلوم ہوتی ہے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شیاطین وغیرہ سے حفاظت کی دُعاء بتائی تھی ، حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ اپنے بچوں کو یہ دُعاء باضابطہ یاد دلاتے تھے ، اور جواُن میں سے بڑے نہیں ہوئے تھے ان کے لئے دُعاء لکھ کر ان کو پہنادیتے تھے ،ومن لم یدرک کتبہا و علقہا علیہ، ( مصنف ابن ابی شیبہ : ۸/۳۹ ) — علامہ ابن ابی شیبہ نے مختلف تابعین سے نقل کیا ہے کہ وہ تعویذ لکھنے اور اسے پہنانے کے قائل تھے ، مشہور محدث سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں ، کہ اگر چمڑے پر لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، عطاء ، مجاہد ، محمد بن سیرین ، ضحاک بڑے پایہ کے تابعی علماء گذرے ہیں اور صحابہ کے صحبت یافتہ ہیں ، ان سب سے لکھے ہوئے تعویذ کا جواز منقول ہے ، حضرت عائشہؓ اور ائمہ مجتہدین میں سے امام احمد کی طرف بھی یہی بات منسوب کی گئی ہے ، ( دیکھئے : الموسوعۃ الفقہیہ :۱۳/۳۳ ) — علامہ ابن تیمیہ نے عورت کے درد زہ کے سلسلہ میں جو دُعاء لکھی اور دھوکر پلانے کی بات فرمائی ہے ، اس میں کاغذ پر لکھنے اور عورت کے بازو میں باندھ دینے کا بھی ذکر آیا ہے ، اس طرح حضرت عبداﷲ بن عباسؓ جیسے جلیل القدر صحابی سے بھی لکھے ہوئے تعویذ کا جواز ثابت ہے ۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ص سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ جھاڑ پھونک اور تعویذ ( تمیمہ ) لٹکانا شرک ہے ، اور اسی کی وجہ سے ہمارے زمانہ کے بعض اہل علم اس کو مطلقاً منع کرتے ہیں ، لیکن اگر حدیث کے الفاظ پر غور کیا جائے تو حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کا منشاء اور تھا ، اس روایت میں یہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی زوجہ ایک یہودی کے پاس جھاڑ پھونک کے بارے میں جایا کرتی تھیں ، اسی بابت حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے یہ تنبیہ فرمائی تھی ، ( دیکھئے : ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۳۸۸۳ ) — اس لئے آپؓ کا منشاء غیر مسلموں کے پاس جھاڑ پھونک کرانے اور ان سے تعویذ لینے کی ممانعت کا تھا ، کیوںکہ ان سے علاج کرانے میں اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ وہ مشرکانہ کلمات کا استعمال کرتے ہوں ، اسی لئے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے جھاڑ پھونک کو بھی شرک قرار دیا ، حالاںکہ پھونکنا اور دَم کرنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ۔
جھاڑ پھونک ہو ، لکھ کر اور دھوکر پلانا ہو ، یا لکھا ہوا تعویذ ہو ، ہر صورت میں چند باتیں ضروری ہیں ، جس کو حافظ ابن حجرؒ نے اس طرح لکھا ہے :
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تین شرطیں پائی جائیں تو جھاڑ پھونک جائز ہے ، اول یہ کہ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہو ، یا اﷲ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کا ذکر کیا جائے ، دوسرے عربی زبان میں ہو ، یا ایسی زبان میں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ، تیسرے اس بات کا یقین ہو کہ یہ جھاڑ پھونک بذات خود مفید و مؤثر نہیں ، اصل مؤثر اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ ( فتح الباری : ۱۰/۱۹۵ )
اﷲ تعالیٰ کے کلام اور اسماء و صفات کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے ، کہ اﷲ ہی سے مدد اور شفاء کا طلب گار ہو اور شرک کا شائبہ تک پیدا نہ ہو ، عربی زبان میں ہونا اس کے مفہوم سے آگہی بھی اسی لئے ضروری ہے کہ کوئی مشرکانہ کلمہ شامل نہ ہوجائے ، تیسری شرط بھی اسی لئے ہے کہ انسان کا خدا پر یقین رہے ، گویا اصل یہی ہے کہ جھاڑ پھونک اور تعویذ شرک سے خالی ہو ، جیساکہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : لا بأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، (مسلم ، حدیث نمبر : ۵۶۸۸) — اسی سے یہ بات بھی نکل آئی کہ غیر مسلموں کے پاس تعویذ اور عمل کے لئے نہیں جانا چاہئے ، کیوںکہ اس صورت میں مشرکانہ تعویذ اور جھاڑ پھونک میں مبتلا ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے ؛ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کی روایت گذر چکی ہے کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کو اسی وجہ سے منع فرمایا تھا ، ہاں ، مسلمان عامل غیر مسلموں کا علاج کرسکتا ہے ، کیوںکہ یہ انسانی خدمت ہے ، اورانسانی نقطۂ نظر سے ایک دوسرے کی مدد کرنا واجب ہے ؛ چنانچہ حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت سے بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں کے قافلہ نے ایک غیر مسلم سردارِ قبیلہ کا علاج کیا تھا ۔ ( نیل الاوطار : ۸/۲۱۵ )(جاری)
تحریر : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آپ اسے 10 منٹ ، 19 سیکنڈ میں پڑھ سکتے ہیں۔
سب سے اہم مسئلہ عامل حضرات کے طرز عمل اور ان کے رویہ کا ہے ، اس سلسلہ میں چند اُمور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے :
اول یہ کہ اجنبی عورتوں کے سلسلہ میں جو شرعی احکام ہیں ، عاملین ان سے مستثنیٰ نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس بات سے بہت شدت سے منع فرمایا ہے کہ مرد کی کسی غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی ہو ، اس لئے غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا جائز نہیں ۔
دوسرے شریعت میں اس سے بھی زیادہ ممانعت غیر محرم کو ہاتھ لگانے کی ہے ، کیوںکہ اس سے زیادہ فتنہ کا اندیشہ ہے ، مادی طریقۂ علاج میں بعض دفعہ جسم کے کسی حصہ کودیکھنے یا چھونے کی ضرورت پیش آتی ہے ، کیوںکہ جسمانی کیفیت ہی کے ذریعہ مرض کی تشخیص ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ روحانی طریقۂ علاج میں مرض کی تشخیص کے لئے اس کی ضرورت نہیں ، اس لئے اس صورت کو ڈاکٹری معائنہ پر قیاس نہیں کرنا چاہئے ، یہی حال غیر محرم کا چہرہ دیکھنے کا بھی ہے ، کہ اگر جوان لڑکی یا خاتون ہو ، تو چہرہ کا پردہ بھی ضروری ہے ، عام طورپر عامل حضرات ان اُمور کے بارے میں احتیاط نہیں برتتے ، نتیجۂ کار خود فتنہ سے دوچار ہوتے ہیں ، دوسروں کو فتنہ میں مبتلا کرتے ہیں ، اور دین و اہل دین کی رسوائی کا باعث بنتے ہیں ۔
تیسرے جھوٹ سے احتیاط بھی ضروری ہے ، جب بھی کوئی شخص عملیات کی دنیا میں پہنچتا ہے ، تو ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص یا تو جادو کا شکار ہے ، یا اس پر جنات سوار ہے ، گویا بیماریاں دنیا سے اٹھ چکی ہیں ، پیسہ حاصل کرنے کی غرض سے خواہ مخواہ ہر شخص کو اس وہم میں مبتلا کردیا جاتا ہے کہ وہ مسحور یا آسیب زدہ ہے ، یقینا تمام عامل حضرات ایسا نہیں کرتے ، لیکن ان میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے ، یہ جھوٹ دھوکہ کو بھی شامل ہے ، اس لئے گناہ بالائے گناہ ہے ۔
چوتھی بہت ہی قابل توجہ چیز یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے نہ کہ توڑنے کا ، اور غیب کی باتوں سے اﷲ ہی واقف ہیں ، لیکن عام طورپر عامل حضرات اپنے زیر علاج لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ تم کو فلاں شخص نے جادو کردیا ہے ، تم پرتمہارے سسرال والوں کی طرف سے سحر ہے ، وغیرہ ، اس طرح کی باتوں کی وجہ سے کئی خاندان بکھر گئے ہیں ، والدین اور اولاد کے درمیان ، ساس اور بہو اور بھائی اور بھائی کے درمیان خلیج حائل ہوگئی ہے ، میاں بیوی کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی ہوچکی ہے ، یہاں تک کہ بعض اوقات ماں بیٹی کے تعلقات میں ایسا بگاڑ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے کی روادار نہیں ، اﷲ اور اس کے رسول نے ہمیں مسلمانوں کے دلوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے ، لیکن ایسی باتوں کے ذریعہ دل جڑنے کے بجائے ٹوٹتے ہیں ۔
جادو ایک اَن دیکھی چیز ہے ، انسان اس سلسلہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ جادو کس نے کیا ہے ؟ بعض دفعہ تو لوگ آنے والوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہیں ، اگر ساس بہو کے تعلقات کشیدہ ہیں ، نند ، بھاوج میں کھچاؤ ہے ، یا بھائیوں میں کچھ اختلاف ہے ، تو ان رشتہ داروں کی طرف نسبت کردی جاتی ہے ، اور کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں آدمی فوراً ان کا یقین بھی کرلیتا ہے ، بعض عامل حضرات بقول ان کے جنوں سے اگلواتے ہیں ، جو کہتے ہیں کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے ، جن ایک ایسی مخلوق ہے ، جو انسانوں کے وجود میں سماسکتی ہے ، اس لئے یہ بات ممکن ہے کہ واقعی یہ بولنے والا جن ہی ہو ، لیکن سوال یہ ہے کہ حضرت انسان جن کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ، وہ تو اس قدر جھوٹ بولتے ہیں ، اوررائی کو پہاڑ بنانا جانتے ہیں ، تو کیا کسی جن کی بات کی سچائی پر یقین کیا جاسکتا ہے ؟
جادو کرنے کو حدیث میں شرک قرار دیا گیا ہے ، گویا کسی کو جادو گر کہنا یا کس پر جادو کرانے کا الزام لگانا دراصل اس پر کفر یا ایک کفریہ کام میں شرکت کا الزام لگانا ہے ، اور حدیث میں کسی مسلمان کو کافر کہنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے ، اسی لئے فقہاء نے بھی کسی پر کفر کا حکم لگانے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنے کی تلقین کی ہے ، لیکن بعض عامل حضرات کو کسی خاص شخص یا رشتہ دار کی طرف جادو کی نسبت کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ہوتی ، اختلاف پیدا ہوتا ہے ، اور اختلاف میں شدت بڑھتی جاتی ہے ، یہاں تک بعض دفعہ قتل و خون کی نوبت بھی آجاتی ہے ، — عامل حضرات کو چاہئے کہ یا تو صرف مطلوبہ دُعاء بتادیں ، تکلیف کے سبب کے بارے میں یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہیں ، یا اگر سحر یا آسیب بتائیں تو کسی کی نشاندھی سے گریز کریں ، اور صاف کہہ دیں کہ اس کا علم اﷲ کو ہے ، ہم اس سلسلہ میں کوئی صحیح اور یقینی بات نہیں کہہ سکتے ۔
چھٹی قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ کو اختیار کرتے ہیں ، ان کا یقین اﷲ تعالیٰ کی ذات کے بجائے ان اعمال پر اور بعض دفعہ عمل کرنے والے ’’ باباؤں ‘‘ پر قائم ہوجاتا ہے ، اس سے لوگوں میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی پیدا ہوجاتی ہے ، بیماریوں کے لئے معالجین کے پاس جانے کے بجائے لوگ عاملین کے یہاں چکر لگاتے رہتے ہیں ، اور اگر مسلمان عاملین سے فائدہ نہیں ہوا ، تو غیر مسلم عاملین تک پہنچتے ہیں ، ہر طرح کے مشرکانہ فعل پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، خواتین خاص طورپر اس میں آگے ہوتی ہیں ، مال و اسباب بھی ضائع کرتی ہیں ، عزت و آبرو سے بھی ہاتھ دھوتی ہیں ، اور اپنا ایمان بھی گنواتی ہیں ، اس لئے عامل حضرات کو چاہئے کہ ان کا عمل قرآنی آیات ، ماثورہ دُعاؤں ، اسماء حسنیٰ اور احادیث میں منقول اذکار تک محدود رکھیں ، اور خاص کر لوگوں کو اس بات کا یقین دلائیں کہ شفاء اﷲ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے ، ہمارے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔
ایک اہم مسئلہ تعویذ پر اجرت لینے کا بھی ہے ، بنیادی طورپر جھاڑ پھونک اور تعویذ انسانی خدمت ہے ، اور اس کو خدمت ہی کے پہلو سے انجام دینا چاہئے ، سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے ، یہ تو مسئلہ کا اخلاقی پہلو ہے ، — لیکن فقہی اعتبار سے کیا تعویذ کی اجرت لی جاسکتی ہے ؟ اس سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے ، اکثر اہل علم نے اس کو جائز قرار دیا ہے ، کیوںکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے تیس سواروں پر مشتمل ایک دستہ روانہ فرمایا ، جن میں وہ بھی شامل تھے ، یہ دستہ ایک عرب آبادی کے پاس سے گذرا ، وہاں اس نے قیام کیا ، اور مقامی لوگوں سے خواہش کی کہ ان کی ضیافت کریں ، لوگوں نے انھیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ، اتفاق کہ سردار قبیلہ کو بچھویا سانپ نے ڈس لیا ، وہ لوگ ان حضرات کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ ہمارا سردار موت کے قریب ہے ، کیا آپ میں سے کوئی شخص جھاڑ پھونک جاننے والا ہے ؟ حضرت ابوسعید خدریؓ نے کہا ، ہاں ! لیکن ہم کچھ لے کر جھاڑیں گے ، ان لوگوں نے تیس بکریوں کی پیش کش کی ، حضرت ابوسعید خدریؓ نے سات دفعہ سورۂ فاتحہ پڑھ کر ان پر دَم فرمایا ، اﷲ تعالیٰ نے اسے صحت یاب کیا ۔
ان لوگوں نے حسب وعدہ بکریاں بھیج دیں ، چوںکہ حضرت ابوسعیدخدریؓ کا یہ مطالبہ اپنے اجتہاد پر مبنی تھا اور اس سلسلہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی ہدایت نہیں تھی ، اس لئے بعض حضرات نے اسے درست سمجھا اور کھانے میں شریک رہے ، اور بعض نے کھانے سے انکار کردیا ، جب یہ حضرات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو حضرت ابوسعید خدریؓ نے پورا واقعہ بیان کیا ، اول تو آپ نے دریافت کیا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ سے مریض کو دَم کیا جاسکتا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا یہ بات میرے دل میں ( من جانب اﷲ ) ڈالی گئی ، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کھاؤ اور مجھے بھی کھلاؤ ، مختلف محدثین نے اس روایت کو نقل کیا ہے ، ( ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۰۶۳) — اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تعویذ پر اُجرت لی جاسکتی ہے ، اسی لئے اکثر فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے ۔
البتہ بعض فقہاء نے اس سے منع کیا ہے ، جن میں امام ابن شہاب زہریؒ کا نام خاص طورپر قابل ذکر ہے ، کیوںکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید پر اُجرت حاصل کرنا ہے ، ( عمدۃ القاری : ۵/۶۴۷ ) — اس لئے بہتر یہ ہے کہ عملیات کو مستقل ذریعۂ معاش نہ بنایا جائے ، بلکہ دوسرے ذرائع معاش کو اختیار کرتے ہوئے گاہے تعویذ پر کچھ ہدیہ بھی لے لیں ، حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت کے سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پہلے زمانہ میں ہر جگہ قیام کے لئے ہوٹل اور سامان کے لئے بازار دستیاب نہیں ہوتے تھے ، اور ریگستان کا سفر اتنا طویل ہوتا تھا کہ جو سامان لوگ ساتھ لے جاتے ، وہ راستہ میں ختم ہوجاتا تھا ، اس لئے مسافرین کو بڑی دقت کا سامنا ہوتا تھا ، اسی لئے یہ بات قبائلی روایت کے مطابق واجبی اخلاقیات میں شامل تھی ، کہ مسافروں کو مہمان بنایا جائے ، اسی اُصول کے تحت اہل مکہ حج و عمرہ کے لئے آنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کیا کرتے تھے ، پس اس عہد کے عرف کے اعتبار سے آبادی کے لوگوں کا ضیافت سے انکار کرنا دراصل ایک طرح کی حق تلفی تھی ، ممکن ہے اس لئے حضرت ابوسعید خدریؓ نے اپنے عمل کا معاوضہ طلب فرمایا ہو ، — لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اسے مستقل ذریعۂ معاش نہ بنایا جائے اورخدمت کے نقطۂ نظر سے انجام دیا جائے ۔
اور اگر اُجرت لی ہی جائے تو ایسی اُجرت ہونی چاہئے ، جس میں دھوکہ اور غبن فاحش نہ ہو ، دھوکہ سے مراد یہ ہے کہ زیادہ اشیاء منگائی جائیں ، کم خرچ کی جائیں ، اور باقی واپس نہ کی جائیں ، یا جو چیز مطلوب نہیں ہو وہ بھی منگائی جائے ، یا اس کے پیسے وصول کئے جائیں ، — غبن فاحش سے مراد یہ ہے کہ کسی عمل یا وقت کی اتنی اُجرت لی جائے ، جو اس عمل اور وقت کی اُجرت سے بھی زائد ہو ، مثال کے طورپر ایک شخص کی اُجرت ۶؍ گھنٹوں کی دو سو روپئے سے تین سو روپئے تک ہوسکتی ہے ، تو اس کی ایک گھنٹے کی اُجرت ساٹھ روپئے قرار پاتی ہے ، اگر ساٹھ روپئے کے بجائے سو روپئے اِتنے وقت اور محنت کی اُجرت لی جائے تو غبن فاحش ہے ، جسے مکروہ قرار دیا گیا ہے ، اسی لئے اُجرت میں بھی توازن اور اُصول شرع کی رعایت ہونی چاہئے ، ایسی شکایتیں سامنے آتی ہیں کہ بعض اوقات بیوہ عورتوں کو اپنے زیورات فروخت کردینے پڑے ، اور بعض غریب وپریشان حال لوگوں کو آٹو اور رکشا سے بھی دست بردار ہوجانا پڑا ، یہ ایک تکلیف دہ صورت حال ہے ۔
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں ، اور جس کام سے بھی وابستہ ہوں ، ان کے لئے ضروری ہے کہ شریعت کی حدود پر قائم رہیں ، اور اس سے باہر قدم نکالنے کی کوشش نہ کریں ، اس میں آخرت کی حفاظت بھی ہے ، اور دنیا کی فلاح بھی ، اور خاص کر جو لوگ ایسے کام کرتے ہوں ، جن کا رشتہ دین سے جڑا ہوا ہو ، ان کو اپنے کردار کے بارے میں بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے ، کہ ان کی کوتاہیوں سے صرف انھیں کی نہیں ؛ بلکہ دین اور اہل دین کی بدنامی بھی ہوتی ہے ۔