طلاق سے متعلق حالیہ قانون اور ملتِ اسلامیہ کے لئے لائحہ عمل، دوم

(۶) ملک کے موجودہ حالات اور قانونِ شریعت سے متعلق سازشوں اور خود مسلمانوں کی جہالت و بے شعوری کے پس منظر میں یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اس وقت فقہاء اور اربابِ افتاء کو بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ غور اس جذبہ سے ہو کہ دین و شریعت فقہی مسالک سے بڑھ کر ہے، جو احکام قرآن مجید سے ثابت ہوں، جو احکام ایسی صحیح و معتبر احادیث سے ثابت ہوں کہ ان سے مختلف مفہوم کی حامل کوئی اورحدیث موجود نہیں ہو، اور جن مسائل کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، ائمہ متبوعین اور سلف صالحین رحمہم اللہ کا اجماع ہو، یہ سب قطعی ہیں، ان میں کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ یہ دین کے حدود اربعہ ہیں، جیسے تعد ازدواج کی ممانعت کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ یہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے، طلاق کا حق مرد کو حاصل ہے، اس کے خلاف کوئی بات قابل قبول نہیں ہوسکتی، کیوں کہ خود قرآن مجید سے اس کا ثبوت ہے، مسلمان اور مشرک مرد و عورت کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا، کیوں کہ اس پر قرآن مجید کی صراحت موجود ہے۔
اس کے مقابلہ کچھ احکام اجتہادی نوعیت کے ہیں، خواہ اس لئے کہ قرآن مجید میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، اس میں ایک سے زیادہ معنوں کی گنجائش ہے، یا اس لئے کہ اس سلسلہ میں حدیثیں بظاہر متعارض ہیں، یا ان کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اختلاف رائے رہا ہے، یا اس لئے کہ اس میں قیاس کی دو مختلف جہتیں پائی جاتی ہیں، یہ اجتہادی مسائل ہیں اور کسی مسئلہ کے اجتہادی (مجتہد فیہ) ہونے کی واضح علامت یہ ہے کہ ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہو۔
چوں کہ ہندوستان دارالکفر ہے، جس کو فقہاء دارالاسلام کے مقابلہ میں ‘دارالجہل’ کہتے ہیں، یہاں مسلمان عمومی طورپر احکام شریعت سے نابلد ہیں، وہ اس موقف میں بھی نہیں ہیں کہ شریعت کے مطابق قانون سازی کرواسکیں تاکہ غلط کاروں کو غلطی سے روکا جاسکے، نہ بیت المال ہے، جس سے مطلقہ اور بے سہارا بچوں کی ضروریات پوری ہوں، نہ شریعت کے مزاج کے مطابق عدالتی نظام ہے کہ کم وقت اور کم اخراجات میں انصاف حاصل ہو، تو ایسی صورت حال میں علماء کرام کو اُمت کے لئے راہ نجات تلاش کرنی چاہئے، یعنی طلاق کی جن صورتوں میں ایک مسلک فقہی کے مطابق طلاق واقع ہوجاتی ہے، دوسرے مسلک فقہی کے مطابق طلاق نہیں ہوتی، اور دونوں کے پاس دلیل شرعی موجود ہے، ترجیح دینے میں اختلاف واقع ہوا ہے، اور کسی خاص مسئلہ میں اگر دوسرے مسلک فقہی کو قبول کرلیا جائے تو طلاق واقع ہونے کا تناسب کم ہوسکتا ہے، تو ان صورتوں میں اس دوسرے نقطۂ نظر کو قبول کرلیا جائے، یہ دین سے بے دینی کی طرف سفر نہیں ہے، بلکہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے حالات کے تحت ایک نقطۂ نظر کی بجائے دوسرے نقطۂ نظر کو اختیار کرنا ہے تاکہ جزوی طور پر چاہے ہم ایک مسلک سے عارضی طورپر باہر نکل آئیں لیکن شریعت کے دائرہ سے باہر نہ جائیں اور علماء و فقہاء کا یہ عمل اپنی خواہش نفس کی اتباع اور اپنے مفاد کے لئے نہیں ہوگا، کیوں کہ اس سے خود ان کا کوئی مفاد متعلق نہیں ہے، بلکہ یہ اُمت کے لئے سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ہوگا، جو اس دین کا مزاج ہے اور جس پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل رہا ہے۔
ہر دور میں فقہاء اپنے زمانہ کے احوال کے لحاظ سے بعض مسائل میں اس طریقہ کو اختیار کرتے رہے ہیں، احناف کے یہاں بلخ و خوارزم کے علماء کرام کا بہت سے مسائل میں اپنے مسلک کے مشہور نقطۂ نظر سے اختلاف معروف ہے، خود ہندوستان میں مسلمان خواتین کی مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فسخ نکاح کے باب میں متعدد مسائل میں فقہ مالکی کو اختیار کیا ہے ،نیز عورت کے مرتد ہونے کے باوجود نکاح کے ختم نہ ہونے کے سلسلہ میں ظاہر روایت– جس کو مسلک حنفی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے– سے عدول کیا ہے۔
اس لئے دو نکات پر علماء کو غور کرنا چاہئے، ایک یہ کہ وہ کیا صورتیں ہیں جن میں احناف کے یہاں طلاق واقع ہوجاتی ہے اور اہل سنت کے چاروں مشہور فقہی مسالک میں سے بعضوں کے یہاں واقع نہیں ہوتی، تواس میںاجتماعی غوروفکر کرکے اس دوسرے نقطۂ نظر کو اختیار کرلیا جائے — دوسرے: عورتیں اپنے جائز حقوق بھی آسانی سے حاصل نہیں کرپاتیں، مطلقہ اور بے سہارا عورتوں کا نفقہ جن رشتہ داروں پر واجب ہے، وہ اس سلسلہ میں اپنے آپ کو ذمہ دار نہیں سمجھتے، بلکہ اپنی ذمہ داری کو تسلیم بھی نہیں کرتے، یہاں تک کہ بعض دفعہ باپ بھی مطلقہ بیوی کے زیر پرورش اپنے بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری ادا نہیں کرنا چاہتا، ان حالات میں طلاق کے بعد عورت کو شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے کوئی ایسی رقم دلانے کی کوشش کی جائے، جس سے اس کا گذران ہوسکے، مثلاً بعض فقہاء کے نزدیک اگر نکاح کے وقت عورت کوئی شرط لگادے، جیسے یہ شرط کہ میرا مہر پچیس ہزار ہے، لیکن اگر شوہر طلاق دیدے تو میرا مہر پانچ لاکھ ہوگا، یا جیسے بعض فقہاء کے نزدیک ہر مطلقہ کے لئے متاع واجب ہے اور متاع کی کوئی ایک ہی مقدار متعین نہیں ہے، تو دارالقضاء، شرعی پنچایت، مسلم سماج مطلقہ کو ایک مناسب رقم طلاق دینے والے شوہر سے ادا کروائے، تاکہ اس کا دوسرا نکاح ہوسکے، یا وہ اس رقم کی سرمایہ کاری کرکے اپنی زندگی کے گذران کا کوئی نظم کرسکے، یا مرد پربعض علماء کی رائے کے مطابق مالی جرمانہ عائد کیا جائے، اور وہ رقم عورت کے حوالہ کردی جائے، اس پر غور کیا جانا چاہئے، علماء و فقہاء کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ صرف کسی بات کاجائز و ناجائز ہونا بتادیں اور سبک بار ہوجائیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُمت جن مسائل سے دوچار ہے، ان کا حل بھی بتائیں اور ان کے لئے راستہ نکالیں، فقہاء نے اسی لئے حِیَل کا باب رکھا ہے، تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا حل نکالا جاسکے، اگرچہ بعض لوگوں نے اس پر تنقید کی ہے، لیکن وہ اس حقیقت کو سامنے نہیں رکھ سکے کہ یہ فقہاء کی ایک مخلصانہ کوشش ہے، جس کا مقصد حرام کو حلال کرنا نہیں ہے بلکہ حرام سے باہر آنے کا راستہ نکالنا ہے۔
(۷) مسلمانوں کو اس بات سے بڑی مایوسی ہوئی کہ لوک سبھا میں بی جے پی نے تو اپنے معلنہ ایجنڈے پر کام کیا، لیکن کانگریس نے اپنے اوپر سیکولرزم کا جو غازہ مل رکھا تھا، وہ بھی پوری طرح دُھل گیا اور کانگریس کا حقیقی چہرہ تمام لوگوں نے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا، اس سے بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ حیدرآباد کے ایک مسلم نمائندہ کے سوا کسی مسلم ممبرپارلیمنٹ کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ کھل کر بل کی مخالفت کرے، حالانکہ کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں نے وہپ جاری کرکے بل کی مخالفت سے روکابھی نہیں تھا، ان حضرات کی خاموشی نے مسلمانوں کو بہت مایوس کیا، بِل پاس ہونے سے زیادہ صدمہ مسلمان نمائندوں کی اس خاموشی سے ہوا، اورغیرمسلموں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ مسلمان بھی اس بل کے ساتھ ہیں، ورنہ مسلم ممبران نے لوک سبھامیں اس کی مخالفت کی ہوتی، حیدرآباد کے مسلم رکن پارلیمان سے ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں کو سیاسی اختلاف ہو، لیکن اس مسئلہ میں ان کی جرأت، دینی حمیت، ملی غیرت اور اپنے مقدمہ کو پیش کرنے کی بہترین صلاحیت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔
اب ملک میں مسلمان ارکان اسی علاقہ سے منتخب ہوتے ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی ہے اور مسلمان ہونے ہی کی بناپر پارٹیاں انھیں اُمید وار بناتی ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو اپنے نمائندوں کا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے، اور الیکشن کا موقع آئے تو ان سے عہد لینا چاہئے کہ وہ قانون ساز اداروں میں ملت کے وفاداررہ کرکام کریں گے، خاص کر ایسی صورت میں کہ آج کل مسلمانوں کو پارٹی کی بنیاد پر بھی غیرمسلموں کا ووٹ نہیں مل پاتاہے، چنانچہ یہی حضرات اگر غیر مسلم علاقہ سے الیکشن لڑیں تو شاید ان کی ضمانت بھی نہ بچ سکے، ہمیں دلتوں سے سبق حاصل کرناچاہئے کہ جب اس طبقہ سے مربوط کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو تمام دلت اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، تو کیا ہم داعی ٔ امت ہونے کے باوجود ان سے بھی گئے گذرے ہوگئے۔
یہ تواللہ کا شکر ہے کہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن نے عقل کے ناخن لئے اور قریب قریب متحدہ طور پر اس بل کو رد کیا، اللہ کرے کہ یہ بل مکمل طور پر ختم ہوجائے، یا ایسی تبدیلیوں کے ساتھ پاس ہو جو شریعت سے ہم آہنگ ہو۔
(۸) اس قانون سازی کے موقع پر ایک بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ بہت سے لوگوں نے خود اپنی ملی قیادت کو مطعون کرنا شروع کردیا اور تاثر دیا کہ یہ سب بورڈ کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے، یہ نہایت ہی ناسمجھی کی بات ہے، حقیقت یہ ہے کہ بورڈ نے اس سلسلہ میں اپنی کوشش میں ذرا بھی کوتاہی نہیں کی ہے، اس بل کے نقائص خاص کر عورتوں کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق بورڈ کے اجلاس عاملہ لکھنؤ میں ایک جامع اور واضح نوٹ مرتب کیا گیا، اور یہ نوٹ مسلم ممبران پارلیامنٹ اور اپوزیشن لیڈروں نیز وزیراعظم اور وزیرقانون کو بھیجا گیا، ایک مسلم رکن پارلیامنٹ، جو بورڈ کے بھی ممبر ہیں، نے مسلم ممبران پارلیامنٹ سے گفتگوکی، راجیہ سبھا میں اس بل کو روکنے کے لئے صدر محترم اور جنرل سکریٹری صاحب نے ایک سہ رکنی وفد تشکیل دیا، جو بورڈ کے ایک سکریٹری، ایک ترجمان اور ایک خاتون رکن پر مشتمل تھا، اس نے مختلف اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی، بورڈکے ایک اور سکریٹری نے لکھنؤ میں ایک اہم اپوزیشن پارٹی کے ذمہ داروں سے بات کی، خود اس حقیر کی تحریک پر کشمیر اور گجرات کے دو بڑے عالم اور فقہ وفتاویٰ کی مرجع ومقبول شخصیتوں نے وہاں موجود ایسے اپوزیشن لیڈروں سے گفتگو کی، جو اپنی پارٹی میں مؤثر حیثیت کے حامل ہیں، اوراس کامثبت جواب ملا، بورڈ کے بعض ارکان، آندھراپردیش، تلنگانہ، تامل ناڈو اور کلکتہ میں بھی اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کی، اس کے نتیجہ میں راجیہ سبھا میں بل پاس نہیں ہوسکا۔
ہمیں یہ بات پیش نظررکھنی چاہئے کہ ہندوستان کی فرقہ پرست طاقتوں کی آنکھوں میں سب سے زیادہ چبھن بورڈ ہی کے وجود سے ہے، لوک سبھا میں بعض بی جے پی ممبران نے تقریرکرتے ہوئے خاص طور پر بورڈ کو نشانہ بنایا، اورشریعت کے تمام مخالفین کی تحریروں اور تقریروں میں بورڈ ہی ہدف بنتا ہے، اس سے ہمیں حقیقی صورت حال کا اندازہ کرنا چاہئے کہ شریعت کے مخالفین کس کو اپنے راستہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں؟ بورڈ صرف ایک ادارہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی تمام تنظیموں، جماعتوں اور مکاتب فکر کا مجموعہ ہے، اور یہ بات ملت اسلامیہ کے لئے لائق صد افتخار ہیکہ مخالف قوتیں لاکھ بوکھلائیں لیکن وہ بورڈ کے وزن کوتسلیم کرنے پر مجبور ہیں، چنانچہ اس مجوزہ قانون میں بھی بورڈ کاحوالہ دیا گیا ہے، اور ماضی قریب میں سپریم کورٹ کا جو فیصلہ صادر ہوا ہے، اس میں بھی بورڈ کے حوالہ سے بعض باتیں کہی گئی ہیں، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خود اپنی قیادت پر بے اعتمادی آپ کے مخالفین کے مقصد کو پورا کرنے میں مددگار ہوجائے گی، دشمن یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان عوام اور ان کی مخلص و بے لوث قیادت کے درمیان فاصلہ پیدا ہوجائے، تاکہ حکومت کے خلاف بولنے والی کوئی مؤثر زبان باقی نہیں رہے۔
ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ حکومت جب آپ کے خلاف قانون بناتی ہے، تو ضروری نہیں کہ اس کا سبب آپ کی طرف سے کیس کو صحیح طورپر پیش نہیں کرپانا ہی ہو، بلکہ حکومت کی بدنیتی بھی اس کا سبب ہوسکتی ہے، اور اِس وقت قانون سازی کا یہی محرک رہا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کے بارے میں بننے والے قانون کے بارے میں خود مسلمانوں سے تو مشورہ کیا گیا ہوتا، اس لئے مسلمانوں کو اس نازک موقع پر سمجھداری اور عقلمندی کا ثبوت دینا چاہئے، ورنہ یہ ایسا ہی ہوگا کہ آپ کے دوست کی ناک پر مکھی بیٹھے اور آپ مکھی بھگانے کے لئے ایسا وار کردیں کہ اپنے دوست ہی کی ناک توڑ ڈالیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کا حل یہی ہے کہ ہم خود مسلمانوں میں شعور پیدا کریں، اپنے آپ کو احکام شریعت پر ثابت قدم رکھیں، نکاح و طلاق سے متعلق سماجی برائیوں کو دُور کرنے کی مؤثر کوشش کریں، پورے ملک میں کاؤنسلنگ سنٹر کا جال بچھادیں، مسلمانوں میں مزاج بنائیں کہ وہ اپنے مسائل کو اپنے سماج ہی میں حل کرلیں، اپنے آپ کو مالی زیر باری سے اور عدالتوں کو مقدمات کے بوجھ سے بچائیں، نیز ایسے واقعات سے ہمت و حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے، اگر ہم خود شریعت پر عمل کرنے کا تہیہ کرلیں تو کوئی طاقت ہمیں اس سے روک نہیں سکتی، اس کے ساتھ ساتھ علماء، خطباء، اربابِ افتاء، مساجد کے ذمہ داران اور سیاسی ماہرین کو وہ کردار ادا کرنا چاہئے، جو موجودہ حالات میں ان سے مطلوب ہیں۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی