الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 468)
شطرنج کے ساتھ اگر جو ابھی ہو تب بھی اس کے ناجائز ہونے پر اتفاق ہے ہی اگر جوانہ ہو تب بھی اکثر فقہاء کے نزدیک گنا ہ اور حرام ہے۔ حضرت علیؓ کا کچھ شطرنج کھیلنے والوں پر گزر ہوا تو فرمایا: یہ کیسے بت ہیں جن پر تم جھکے پڑے ہو’’ ما ھذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون‘‘
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو شطرنج سے دل چسپی پیدا ہوجاتی ہے وہ واقعی اور حقیقی مسائل سے بے توجہ ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ایسا کھیل ہے کہ انسان کے اندر جسمانی تکان نہیں ہوتی اور وہ بلا قید و تحدید وقت کھیلتا چلا جاتا ہے، جو کھیل جسمانی مشقت اور ورزش کے ہوتے ہیں ان کو مسلسل اور بہت دیر تک کھیلا نہیں جا سکتا۔ اسی لئے فقہاء نے شطرنج اور عام کھیلوں کے درمیان فرق کیا ہے اس لئے صحیح یہی ہے کہ اگر قمار اور جوانہ ہو تب بھی شطرنج کراہت سے خالی نہیں۔
مجھے خیال ہوتا ہے کہ فی زمانہ کرکٹ کا مروّجہ کھیل شطرنج ہی کے حکم میں ہے اور ضروری اور حقیقی مسائل سے غفلت پیدا کرنے میں کہا جا سکتا ہے کہ شطرنج سے بھی بڑھ کر ہے اور یہی حکم کیرم بورڈ اور لوڈو وغیرہ کا ہونا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب
نکاح وطلاق
انسانی کے اندر جو طبعی تقاضے رکھے گئے ہیں ان میں ایک اہم چیز اپنی صنف مخالف کی طرف رحجان ومیلان ہے، بچپن میں یہ جذبہ محدود ہوتا ہے لیکن انسان جوں جوں بلوغ کی طرف قدم بڑھاتا ہے اس تقاضائے طبعی میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اس کی شدت مخالف کی ایک ایک ادا اور اس کے حرکت و سکون کا ایک ایک سماں اس آگ کو بھڑکاتا اور شعلہ بار کرتا جاتا ہے۔ پھر رب کائنات نے اپنی اس حسین اور خوبصورت دنیا میں قدم قدم پر ایسے محرکات و دواعی رکھ دئیے ہیں جو اس کے تقاضائے صنفی کو حرکت دیتے اور بڑھاتے رہتے ہیں، چاند کی ٹھنڈک، گلاب کی رنگت، موتیوں اور بیلوں کی خوشبو ، بادنسیم کے جھونکے، ساون کی بہاراور برسات کا نکھار، ان میں سے کوئی چیز نہیں جو انسان کے نفسانی جذبات کے لئے مہمیزکاکام نہ کرتی ہوں اور پھر خود انسان نے اپنے ان جذبات کی نشوونما، بقاء وارتقاء کے لئے کچھ سامان نہیں کیا ہے؟ نغموں کی شیرینی اور شاعروں کی خیال آرائی اور بلند پروازی ان سب سے سوا ہے۔
غور کرو کہ فاطر کائنات کی طرف سے قرار واطمینان سے محرومی اور اضطراب و بے سکونی کے یہ سامان حضرت انسان کے لئے کیوں کئے گئے ہیں؟ اسی لئے کہ انسان کے ورع و احتیاط ، اطاعت و فرمانبرداری اور تقویٰ ورضا جوئی کا امتحان لیا جا سکے اور اس سے بڑھ کر دوسرا مقصود یہ ہے کہ نسل انسانی کی افزائش اور اس میں تسلسل برقرار رہے، پھر افزائش نسل کی ایک صورت یہ ہوسکتی تھی کہ عصمت انسانی بھی ہو اور پانی کی طرح عام اور بے قید ہو۔ لیکن اس میں جو بے اعتدالی ،بے غیرتی و بے حیائی، منافست باہمی، نسل انسانی کی اپنی شناخت سے محرومی اور اعتماد و اعتبار کا فقدان ظہور میں آتا اور اس سے معاشرہ میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا وہ محتاج اظہار نہیں، تاریخ میں کئی ایسے مراحل آئے ہیں جب حیوان نما انسانوں اور شیطان حقیقی کو شرمندہ کردینے والے شیطانوں نے اس کا تجربہ کیا ہے، ایسا تجربہ کہ جس کے ذکر اور تصور سے بھی حیا کا لہو ٹپکتا ہے، روم پروہ دور انحطاط جب طوائف بننا معاشرہ کے لئے ایک آئیڈیل تھا اور مزدک کی وہ تحریک جس میں ماں اور بہن بیٹی کی تمیز بھی روا نہیں تھی، اس کی شرمناک مثالیں ہیں اور افسوس کہ مغرب کی جاہلیت جدیدہ نے ایک بار پھر تہذیب و ثقافت کے پیرہن میں ملبوس ہو کر اسی تاریخ بدانجام کو دہرانے کی سعی کی ہے۔ ’’ والی اللّٰہ المشتکی‘‘
اس افراط کے مقابلہ میںاس تفریط کا ظہور ہوا کہ مردوزن کے رشتۂ صنفی کو بہر طور ایک ناپاکی اورنجاست تصور کر لیا گیا اور ناقابل عفوگناہ ٹھہرایا گیا،روم میں بھی بے قید اباحت کے مقابلہ یہی ردعمل پیدا ہوا اور ایران میں بھی مزدک کی تحریک کے مقابلہ میںمانی کی تحریک شروع ہوئی جس نے رہبانیت کوجنم دیا اور اس رہبانیت نے فکروخیال میں ایسی شدت پیدا کردی کہ اولاد کی نگاہ میں خود ماں باپ کا وجود ایک گناہ ٹھہرا، بلکہ انسانوں کو خود اپنے آپ سے گھن آنے لگی کہ وہ بھی ایک گناہ اور غلطی کا نتیجہ ہے، اس فکری بے اعتدالی سے انسانی سماج میں جونفرت بے رحمی اور بے مروتی وجود میں آئے گی اور انسانی معاشرت سے فرار کے جذبات پر وان چڑھیں گے نسل انسانی کی افزائش میں جو کمی واقع ہوگی اور فطرت انسانی پر غیر طبعی روک لگانے کی وجہ سے جو اخلاقی نفسیاتی اور طبی نقصانات ہوں گے وہ ظاہر ہیں۔
اسلام نے جو دین فطرت ہے اور ایک طرف فطرت انسانی کی رعایت بھی کرتاہے اور دوسری طرف اس کی تہذیب بھی، اس نے اس باب میں بھی وہی اعتدال و توازن کی راہ اختیار کی ہے۔ ایک طرف جائز راستہ سے اس تقاضے کی تکمیل کے لئے نکاح کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن قرار دیا اور دوسری طرف زنا کے بارے میں اسی درجہ سختی اور شدت برتی۔
واقعہ ہے کہ جو شخص بھی نکاح کے بارے میں اسلام کے معتدل ومتوازن تصورات کا مطالعہ کرے گا، اس کو فطرت کی میزان پر پر کھے گا اور مذاہب عالم کے نقطۂ نظر سے مقابلہ کرے گا اس کی روح وجد میں آئے گی اور اس کی زبان دل بے ساختہ اسلام کی قانون فطرت سے ہم آہنگی ، اعتدال وتوازن اور رب کا ئنات کی طرف سے اس کے نزول وحصول کا اعتراف کرے گا کہ’’ان الدین عنداللّٰہ الا سلام‘‘
نکاح کی حوصلہ افزائی
اسلام نے نکاح کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ اسے پسند کیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے اور تجرد کی زندگی کو منع کیا ہے، مسلم سماج کے بے نکاح لوگوں کو نکاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد ہوا:’’ وانکحواالایمی منکم‘‘ عورتوں کی تجردکی زندگی کو روکتے ہوئے فرمایا گیا:’’فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن ‘‘انبیاء کے اوصاف میں یہ بات شمارکی گئی کہ وہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہوا کرتے تھے:’’ ولقد ارسلنارسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ‘‘اپنے صالح بندوں کی اس دعا کو سراہا گیا کہ وہ سکون بخش بیوی اور اولاد کے لئے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں:’’ ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریّٰتنا قرۃ اعین‘‘حدیثیں بھی کثرت سے نکاح کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں موجود ہیں، آپﷺ نے نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور ہی نکاح کرلے’’ من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج‘‘ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ ارادہ کیا کہ وہ نکاح نہیں کریں گے تو آپﷺ نے اس پر ناپسند یدگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب خشیت ہوں اس کے باوجود عورتوں سے نکاح کرتا ہوں تو جس نے میرے طریقہ سے انحراف کیا وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔ آپﷺ نے نکاح کونہ صرف اپنی سنت بلکہ اللہ کے رسولوں اور نبیوں کی سنت قرار دیا۔ نیز آپﷺ نے نکاح کی حاجت پیدا ہونے کے بعد ابتداء عمر ہی میں نکاح کو پسند فرمایا اور اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ عمل اس کی شیطان کے دام سے حفاظت کرتا ہے۔ بعض صحابہؓ نے اس لئے تجرد کی زندگی گزارنے کی اجازت چاہی کہ اپنا وقت زیادہ سے زیادہ عبادت میں استعمال کرسکیں لیکن آپﷺ نے اس کو بھی ناپسند فرمایا اور اجازت نہیں دی، خود پیغمبراسلام ﷺ نے مختلف قبائل میں متعدد نکاح فرمائے ہیں۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 469)
نکا ح کا حکم
نکاح کے بارے میں ان تاکیدات اور خود لوگوں کی ضرورت وحالات کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے تعیین کی ہے کہ کن حالات میں شرعی نقطہ نظر سے نکاح کی کیا اہمیت ہوگی؟
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو تو نکاح واجب ہوگا تاکہ اپنے آپ کو پاک دامن رکھ سکے اور حرام سے بچا رہے۔ جنسی تقاضہ کے اعتبار سے نکاح کی حاجت رکھتا ہو لیکن اس درجہ شدید تقاضہ نہ ہو کہ نکاح نہ کرنے کی صورت میں گناہ میں پڑ جائے۔ اپنے نفس کے بارے میں مطمئن ہو تو ایسے شخص کو نکاح کرلینا چاہئے۔ بعضوں نے ان حالات میں نکاح کو مسنون اور بعضوں نے مستحب لکھا ہے مگر اصل میں ان حالات میں نکاح سنت سے کم درجہ نہیں اور جن حضرات نے مستحب لکھا ہے ان کا بھی مقصود یہی ہے۔ روایات اس بارے میں جس کثرت اور قوت کے ساتھ منقول ہیں ان کابھی یہی تقاضہ ہے۔
وہ شخص جس میں جنسی خواہش نہ ہو اور صنفی تعلقات سے معذور ہو، خواہ پیدائشی طور پر ایسا ہو، یا درازی عمر اور بیماری وغیرہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہو، اس کو نکاح نہیں کرناچاہئے اس لئے کہ وہ نکاح کے واجبات کی ادائیگی اور بیوی کی عصمت وعفت کی حفاظت سے قاصر و عاجز ہے۔ ہاں اگر کوئی سن رسیدہ شخص اپنی عمر ہی کے لحاظ سے سن رسیدہ عورت سے نکاح کر لے تاکہ بڑھاپے میں ایک دوسرے کی خدمت کر سکیں تو مضائقہ نہیں۔ اس لئے کہ اس کے اس عمل کی وجہ سے عورت کی بے عفتی کا اندیشہ نہیں۔
زمانۂ جاہلیت کے نکاح
اسلام سے پہلے نکاح کے نام پر مختلف ایسے طریقے رائج تھے جو فحاشی و بے حیائی کی بدترین مثال تھے، چنانچہ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جاہلیت میں تین قسم کے نکاح ہوتے تھے۔(۱) پیشہ ور فاحشہ عورتیں اپنے دروازے پر جھنڈا نصب کر دیتیں جو ان کے پیشہ کی علامت ہوتی، ایسی عورتوں کے پاس مرد آتے، اس کو’’ نکاح رایات‘‘ کہاجاتا۔
(۲)دوسری قسم’’ نکاح رہط‘‘ کی تھی، ایک قبیلہ یاعلاقہ کے متعدد لوگ ایک عورت سے مقاربت کرتے اور وہ عورت ان کے علاوہ کسی اور مرد سے تعلق نہیں رکھتی تھی، پر ولادت کے بعد مشابہت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان میں سے کسی ایک کی طرف مولود بچہ کی نسبت کرتی۔
(۳)تیسری قسم’’نکاح استخبار‘‘ کی تھی ، عورت شریف اور اچھے لڑکے کے حصول کے لئے مختلف قبائل کے ممتاز لوگوں سے جنسی تعلق قائم کرتی۔ اسلام نے نکاح کے ان تمام حیاسوز طریقوں کو منع کردیااور نسوانیت کو اس تذلیل و اہانت سے نجات بخشی۔
اسلام کاطریق نکاح
اسلام نے نکاح کا جو طریقہ مقرر کیا وہ نہایت آسان، سادہ، صرفہ اور اخراجات کے لحاظ سے سہل ہے۔ اسلام کے طریقہ نکاح کا خلاصہ یہ ہے کہ دوبالغ مرد عورت دوگواہوں کے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو قبول کرلیں۔ عاقدین میں کوئی ایک یادونوں نابالغ ہوں تو ان کے اولیاء کا نکاح کو قبول کرنا اور معاملہ کو طے کرنا ضروری ہوگا۔ لڑکی بالغہ ہو تو احناف کے نزدیک اس کی طرف سے ولی کا مجلس نکاح میں ایجاب و قبول کا طے کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر وہ خود بھی نکاح کو قبول کرلیں تو کافی ہے اس لئے کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ الایم احق بنفسھا من ولیھا‘‘لڑکی خود اپنے نفس کی زیادہ حقدار ہے قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر خودعورت کی طرف نکاح کی نسبت کی ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے کسی ولی کے توسط کے بغیر نکاح کیا اور یہی شریعت کے عام اصول وقواعد کا تقاضہ ہے ۔اس لئے کہ نکاح ایک عقداور معاملہ ہے اور شریعت نے تمام عقود اور معاملات میں عورت کی شخصیت کو ہر طرح مستقل مانا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ عورت کی طبعی حیاکا تقاضہ ہے کہ اس کی پسند اور رضامندی کو ملحوظ رکھاجائے لیکن براہ راست ایجاب وقبول کی ذمہ داری اس پر نہ رہے۔ اس بنا پر شریعت نے بالغہ لڑکی کی طرف سے بھی ولی کی وساطت کو بہتر اور مستحب قراردیا اور یہی منشا ہے ان روایات کا جن میں عورت کے نکاح کے لئے ولی کی ضرورت ظاہرکی گئی ہے اور اس کی تاکید کی گئی ہے…دوسرے فقہاء نے عورتوں کے نکاح کے لئے ولی کی موجودگی کو ایک ضروری شرط مانا ہے۔ نکاح کے اس سیدھے سادے طریقہ کا دوسری اقوام کے طریقۂ نکاح سے موازنہ کیاجائے تو اسلام کی شان رحمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے نکاح کے معاملہ میں اعلام و اظہار کو پسند کیا ہے اسی لئے نکاح کے لئے گواہوں کی موجودگی کو ضروری قراردیا گیا۔ نکاح کے اعلان کا حکم فرمایاگیا ہے اور اعلان نکاح کے لئے دف وغیر ہ بجانے کی اجازت دی گئی ہے۔ مسجد میں نکاح کرنے کو بہتر قراردیا گیا ہے جہاں فطری طور پر لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے پھر اس کے ساتھ دعوت ولیمہ بھی جوڑ دی گئی ہے تاکہ اعزہ واقرباء دوست احباب پوری طرح واقف ہوجائیں لیکن فی زمانہ عقد نکاح کے لئے جو تکلفات کئے جاتے ہیں ،دوردراز سے نکاح میں شرکت کے لئے آتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر باراتیں جاتی ہیں اورلڑکی والوں کو ان کے لئے پر تکلف کھانوں کا نظم کرنا پڑتا ہے، پھر تمام دوست احباب اور اعزہ و اقرباء بارات میں شرکت کو اپنا حق جانتے ہیں، یہ تمام مزاج شریعت کے قطعاً مغائر، ناپسندیدہ اور غلط ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ گواہان نکاح کے علاوہ کچھ صالحین اور نیک لوگوں کو جمع کرلینا آداب نکاح میں سے ہے۔
متعہ
نکاح کے اس شریفانہ طریقہ کے علاوہ اور کوئی صورت اسلام نے روانہیں رکھی، اس کے سوا جتنی صورتیں تھیں ان میں سے کوئی بھی بے حیائی سے خالی نہیں … اس میں شبہ نہیں کہ اسلام نے ابتدائً زمانۂ جاہلیت کے ایک اور طریقۂ نکاح ’’نکاح متعہ‘‘ کو جائز رکھا تھا جس میں ایک یا چند دن کے لئے باہم مقررہ مہر پر نکاح کیا جاتا تھا لیکن بعد کو چل کررسول اللہﷺ نے اس کو بھی منع فرمادیا۔ ایک روایت میں آپﷺ نے صاف ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اب قیامت تک کے لئے متعہ کو حرام قراردیا ہے۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شدت سے متعہ کی حرمت کے قائل تھے اور اس سلسلہ میں انہوں نے عبداللہ بن عباسؓ کی فہمائش بھی کی تھی۔عبداللہ بن عباسؓ کی طرف بعض لوگوں نے متعہ کے جواز کی نسبت کی ہے حالانکہ وہ بھی ابتدائً اضطرار کی حالت میں نکاح متعہ کے جواز کے قائل تھے، ایسے اضطرار میں کہ جس میں انسان کے لئے’’سور‘‘ تک کھانا جائز ہوجاتا ہے لیکن بعد میں انہوں نے اس سے رجوع فرما لیا تھا۔ اس لئے متعہ کی حرمت پراُمت کا اجماع ہے اور صرف روافض ہی ہیں جو اس شنیع طریقہ کو جائز قرار دیتے ہیں۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 470)
نکاح حلالہ
نکاح متعہ سے قریبی ایک اور مسئلہ اس نکاح کا ہے جو طلاق مغلظہ کی وجہ سے علیحدہ ہونے والی عورت کو اس کے شوہر اول کے لئے حلال کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے … صورتِ حال یہ ہے کہ شریعت نے تین طلاق کو روکنے اور مرد کو متنبہ کرنے کی غرض سے تین طلاق کے بعد عورت کو اس پر کلیۃً حرام قراردیا ہے اور اب دوبارہ ازدواجی رشتہ کے حلت کی ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ کسی مرد کے نکاح میں جائے اور صنفی تعلقات کے ذریعہ وہ ایک دوسرے سے محظوظ ہوں،اب اس کے بعد وہ شوہر اول کے لئے حلال ہوجاتی ہے کیونکہ ظاہرہے کہ وہ ایک غیرت مند شوہر کی غیرت کے لئے شدید چوٹ کا درجہ رکھتی ہے۔
مگر بعض لوگوں نے اس کے لئے یہ بہانا تلاش کرلیا کہ وہ کسی مطلقہ عورت کا کسی مرد سے دن دودن کا نکاح کرالیتے ، وہ مردہمبستری کے بعداسے طلاق دے دیتاتاکہ وہ شوہر اول کے نکاح میں آسکے اور نکاح کے وقت یہ جان رہا ہوتا کہ وہ محض عارضی اور وقتی ضرورت کی تکمیل کے لئے نکاح کررہا ہے اورا س عورت کے ساتھ مستقل ازدواجی زندگی گزارنے میں سنجیدہ نہیں، نکاح کی یہ صورت بعینہٖ متعہ کے مماثل ہے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ نکاح متعہ میں عاقدین معاہدئہ نکاح کے وقت صراحۃً اس نکاح کے عارضی اور وقتی ہونے کا اظہار کردیتے ہیں اور اس نکاح میں یہ بات ان کے دل میں ہوتی ہے زبان تک نہیں آتی، اس لئے رسول اللہﷺ نے شدت کے ساتھ اس پر ناگواری کا اظہار فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجی ہے جو ایک صاحب ایمان کو بے چین کردینے اور تڑپا دینے کے لئے کافی ہے، البتہ اگر کوئی شخص ایساکر ہی گزرے تو نکاح منعقد ہو گا یانہیں؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔
تمام فقہاء کی رائے یہی ہے کہ نکاح منعقد ہوجائے گا، وہ عورت شوہر اول کے لئے حلال ہوجائے گی۔ البتہ فقہاء حنابلہ اور احناف میں قاضی ابویوسف ایسے نکاح کو تحلیل کے لئے ناکافی قراردیتے ہیں…صحیح یہی ہے کہ گو ایسا شخص عنداللہ سخت عاصی اور گناہگار ہے اور یہ طرز عمل مذموم اور نہایت ناپسندیدہ ہے لیکن حلت پیدا کرنے کے لئے کافی ہے ،اس لئے کہ خود اس حدیث میں بھی شوہر دوم کو حلال قرار دینے والا( محلل) اور شوہر اول کو محلل لہ( جس کے لئے عورت کو حلال کیا گیا) قرار دیا گیا ہے اور اسلامی قانون میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ ایک فعل بجائے خود ممنوع اور ناپسندیدہ رہتا ہے لیکن اس سے جو نتائج اور اثرات متعلق ہوتے ہیں وہ بہر حال ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
نکاح کے مقاصد
اب ایک نظر ان مقاصد پر بھی ڈالنا مناسب ہوگا جن کے لئے اسلام نے نکاح کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اس کو معاملات سے بڑھ کرعبادات کے خانہ میں جگہ دی ہے اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کے بڑے طبقہ کی نگاہ میں تأہّل کی زندگی تجرد کی اس زندگی سے افضل ہے جس میں نفل عبادت میں اپنا وقت مصروف رکھا جائے کہ احکام ہمیشہ مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور مقاصد کوسمجھے بغیر نہ اس شعبہ کے متعلق کسی نظام حیات کے مزاج و مذاق کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ احکام کی تفصیلات کو۔
اسلام کی نگاہ میں نکاح کا اصل مقصود تو الدوتناسل ہے، اس لئے قرآن مجید نے بیوی کو مرد کے لئے کھیتی قراردیا ہے۔ ’’فاتواحرثکم انی شئتم‘‘ پیغمبر اسلام ﷺ نے مناکحت کی ترغیب دیتے ہوئے اس کو افزائش اُمت کا باعث فرمایا’’ تناکحواتناسلوا‘‘ بعض روایات میں خاص طور پر ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ہدایت فرمائی جس میں تولید کی قوت وصلاحیت زیادہ ہو’’تزوجواالودود الولود‘‘ قرآن نے صالحین اور نیکوکار بندوں سے ایک ساتھ بیوی اور اولاد دونوں کی دعا کرائی ہے۔’’ھب لنامن ازواجنا وذریّٰتنا قرۃ اعین‘‘ یہ ساری باتیں اسلام کے اس تصور کو واضح کرتی ہیں کہ نکاح کا اصل، بنیادی اور اساسی مقصود نسل انسانی کی افزائش ہے،اسی لئے شریعت اسلامی اصولی طور پر ضبط ولادت کے نظریہ کی حامی نہیں ہے جس کا آگے ذکر آئے گا۔
نکاح کا دوسرا اہم مقصد عفت وعصمت کی حفاظت ہے اور فطری طریقہ پر انسان کی نفسانی ضرورت کی تکمیل ۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے نکاح کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، آپﷺ نے فرمایا:نکاح انسان کو بدنگاہی سے بچاتا ہے اور بے عفتی سے حفاظت کرتا ہے’’ فانہ اغض للبصر واحصن للفرج‘‘ قرآن مجید نے شادی شدہ مرد وعورت کو’’ محصن‘‘ اور ’’ محصنہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی قلعہ بند کے ہیں۔ گویا نکاح کے ذریعہ انسان اپنے آپ کو عفت و عصمت کے قلعہ میں محفوظ کرلیتا ہے اور شیطان اس پر تسلط حاصل نہیں کر پاتا۔
انسان کی طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ دوسرے انسان کے ذریعہ سکون اور قرار حاصل کرتا ہے ، وہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں کی ممتا ،باپ کی شفقت اور بھائی بہنوں کا پیار اور دل کا قرار ہوتا ہے اور جوں جوں بڑاہوتاجاتا ہے ان رشتوں سے اس کا جذباتی اور والہانہ لگائو کم ہوتا جاتا ہے اور بیوی اس کمی کو پورا کرتی ہے اور اگر نیک اور صالح ہو تو قلب کی ٹھنڈک اور ذہن و دماغ کی راحت کا سامان بن جاتی ہے، پھر جوں جو ں عمرڈھلتی جاتی ہے اولاد کی محبت بیوی کی محبت پر غالب ہوتی جاتی ہے لیکن موت تک اس کے لئے اصل سامان سکون، حزن و مسرت کی شریک ، دل کے زخموں کا مرہم اور خلوت و جلوت کی ہمراز ودمساز یہی بیوی ہوتی ہے، اسی لئے قرآن نے کہا(لتسکنواالیھا) اور میاں بیوی کے باہمی تعلق کے لئے نہایت عمدہ تعبیر’’ لباس‘‘ کا استعمال فرمایا کہ تم دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس ہو (ھن لباس لکم وانتم لباس لھن) کہ لباس سے زیادہ کوئی چیز جسم انسانی کی ہمراز، انسان کے خوبی و خامی سے باخبر اور موسموں کی شدت سے صحت کی محافظ نہیں ہوتی۔
غور کیاجائے تو نکاح کے تمام احکام انہی تینوں مقاصد کے گردگردش کرتے ہیں، عدت اور ثبوت نسب کے تمام احکام اور تعلق ازدواجی کی بابت تمام ہدایات اسی لئے ہیں کہ افزائش نسل کی ضرورت پوری ہو اور نسل انسانی کی شناخت باقی رہے۔
نکاح سے پہلے منگیتر کو دیکھنے کی اجازت، زنا کی حرمت اور بیوی سے زن و شوہر کے تعلق کی ترغیب ، ایک دوسرے کے مقتضیات نفس کی رعایت کی ہدایت، مردوں کے لئے ایک تاچار بیویوں کی اجازت وغیرہ احکام کا مقصود محض عفت و پاکدامنی اور عصمت انسانی کا تحفظ ہے۔
رشتہ میں زوجین کی پسند اور ضروری امور میں کفاء ت کا لحاظ ،حسن معاشرت کے احکام ،طلاق کی ممانعت ، لیکن جہاں نفرت نے محبت و سکون کے لئے جگہ باقی نہ رکھی ہو، وہاں طلاق اور خلع کی اجازت اور بعض خاص امراض اور اعذار کی وجہ سے عورت کے مطالبہ تفریق ، یہ اور اس طرح کے بہت سے احکام ہیں جو اس لئے ہیں کہ زوجین کے درمیان محبت وسکون کی فضا برقرار رہے بلکہ پروان چڑھے۔
(جاری ہے)
