رجعت کا طریقہ

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 485)
رجعت کا طریقہ
طلاق رجعی کا مقصدہی یہی ہے کہ اس طلاق کے بعد پھر سے غورو فکر کا موقع رہے،اس لئے شوہر کو چاہئے کہ عدت گزرنے تک بار بار اس پر غور کرے، کوشش کرے کہ بیوی کی جو کچھ کمزوریاں ہیں وہ دور ہوجائیں اور اس کی چھوٹی اور معمولی کمزوریوں سے درگزرکرجائے۔ بیوی بھی کوئی ایسی بات نہ پیش آنے دے جو کشیدگی اور اختلاف کو بڑھاوادے اور ایک دوسرے کے درمیان نفرت کی خلیج وسیع کردے بلکہ بنائو سنگار اور زیب و زینت کرے، اپنی ادائوں سے شوہر کو لبھانے اور اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غلطیوں کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کرلے۔
اب اگر شوہر عدت کے درمیان رجعت کرنا چاہے تو اس کی سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ دوگواہوں کے سامنے کہہ دے کہ میںنے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی مگر اب نادم ہوں اور اسے لوٹاتا ہوں، یہی رجعت کابہترین طریقہ ہے۔
ویسے اگر گواہ بنائے بغیر تنہائی میں یہ جملہ کہہ دے یا عورت کے ساتھ کوئی ایسی حرکت کر گزرا جو بیوی ہی کے ساتھ کی جاسکتی ہے مثلاً بوسہ لے لیا، مباشرت کر لی یا اس کے جسم کے شہوت انگیز حصوں کو شہوت کے ساتھ چھوئے یا اس کی شرم گاہ کو شہوت کے ساتھ دیکھے تو بھی رجعت کے لئے کافی ہے اور اس عمل کے بعد وہ اس کی بیوی برقرار رہے گی۔
طلاق بائن
طلاق بائن یہ ہے کہ اس کی وجہ سے عورت اور مرد کے درمیان فوراً جدائی پیدا ہوجائے اور طلاق کے ساتھ ہی یکسر رشتۂ نکاح ختم ہوجائے۔ اس طلاق کے بعد عدت کے درمیان تو بیوی کو لوٹا یا نہیں جاسکتا البتہ جب کبھی چاہیں آپسی رضا مندی اور آمادگی سے نیانکاح کرسکتے ہیں۔
یہ طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب الفاظ کنایہ سے طلاق دی جائے یا یوں کہا جائے میں نے تم کو طلاق بائن دے دی، طلاق رجعی بھی عدت گزرنے کے بعد طلاق بائن بن جاتی ہے اور عدت گزرتے ہی فوراً میاں بیوی میں مکمل علیحدگی ہو جاتی ہے، چونکہ طلاق بائن واقع ہونے کے بعد نکاح بالکل ختم ہوجاتا ہے اور عورت اس کی بیوی باقی نہیں رہتی اس لئے اگر ایک دفعہ کے بعد دوبارہ طلاق بائن دے یا عدت میں پھر طلاق بائن دینا چاہے تو یہ دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی مثلاً کہا جائے میں نے تجھے طلاق بائن دی،میں نے تجھے طلاق بائن دی۔ تو ان دونوں میں سے صرف پہلی طلاق واقع ہوگی اور اگر ایک ہی لفظ میں ایک سے زیادہ طلاق دے دے جیسے ’’میں نے تجھ کو دو طلاق بائن دے دی‘‘ تو دونوں طلاق واقع ہوجائیں گی، ہاں اگر طلاق بائن کے بعدصریح لفظوں میں عدت ہی کے درمیان پھر طلاق دے دے( جسے طلاق رجعی کہتے ہیں) تو یہ طلاق بھی واقع ہو جائے گی۔
یکجائی سے پہلے طلاق
وہ عورت جس سے مرد نے ابھی مباشرت نہ کی ہواگر اس کو صریح لفظ طلاق سے بھی ایک طلاق دے دے تو یہ طلاق بائن ہوگی۔ اس کے بعد نکاح کے بغیر بیوی کو لوٹانے کی گنجائش نہیں رہے گی اور اس لئے اگر الگ الگ جملوں میں اس کو دویا تین طلاق دی جائے تو ایک ہی طلاق واقعی ہوگی، دوسری اور تیسری طلاق واقع نہ ہوگی، مثلاً کہے،’’ میں نے تجھے طلاق دی میں نے تجھے طلاق دی‘‘ تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ہاں اگر ایک ہی جملہ میں دو طلاق دے دی تو دونوں پڑجائیں گی، جیسے کہے میں نے تجھ کو دو طلاق دی۔
تیسری طلاق نہ پڑنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں اگر پھر نکاح کرنا چاہیں تو حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی اور دوسری طلاق نہ پڑنے کی وجہ سے آئندہ اگر پھر آپسی رضا مندی سے نکاح ہوا تو شوہر کے لئے مزید دوطلاقوں کی گنجائش رہے گی اور دو طلاق کے بعد بیوی پر طلاق مغلظہ پڑجائے گی۔
خلوتِ صحیحہ
وہ عورت جس سے مرد نے مباشرت تو نہ کی ہو مگر اس طرح یکجا اور تنہا ہوچکے ہوں کہ جنسی عمل کے لئے کوئی شرعی یا طبعی رکاوٹ باقی نہ رہ گئی ہو تو یہ بھی مباشرت ہی کے درجہ میں ہے اور س کا حکم انہی عورتوں کا ہے جن سے ہم بستری ممکن نہ رہے، ایسی یکجائی کو فقہ کی اصطلاح میں’’ خلوت صحیحہ‘‘ کہتے ہیں۔
طلاقِ مغلظہ
طلاق مغلظہ سے ایسی طلاق مراد ہے جس کے نتیجہ میں مرد اس عورت سے دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مردسے نہ ہو جائے اور وہ دوسرا شوہر مباشرت کے بعد طلاق دے دے یا مرجائے اور عورت اس کی طلاق یا موت کی عدت بھی گزارلے ، اب وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال ہو سکتی ہے اور نکاح کر کے پھر سے میاں بیوی کی طرح رہ سکتی ہے۔
طلاق رجعی میں عدت گزرنے کے بعد اور طلاق بائن اور طلاق مغلظہ میں طلاق دینے کے ساتھ ہی میاں بیوی کی حیثیت ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی شخص کی ہوجاتی ہے ۔ ان عورتوں کو اپنے ان سابق شوہروں سے پردہ کرنا چاہئے اور عدت گزرتے ہی شوہر کے گھرسے چلا جانا چاہئے۔
حلالہ
اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ طلاق مغلظہ کے بعد وہ عورت اپنے شوہر کے لئے اس وقت حلال ہوگی جب:
۱)ابھی اس وقت جو طلاق واقع ہوئی ہے اس کی عدت گزرجائے ۔
۲)پھر کسی اور مرد سے صحیح طور پر نکاح کرے۔
۳)نکاح کے بعد وہ مرد اس سے جنسی ملاپ کرے۔
۴)پھر وہ اپنے طور پر طلاق دے دے یا اس کی موت ہوجائے۔
۵)اور عورت اس شوہر کی موت یا طلاق کی عدت گزار لے۔
اسی کو ’’حلالہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
آج کل ایک غلط رسم یہ چل پڑی ہے کہ لوگ اسی نیت سے نکاح کرتے یا کراتے ہیں کہ مباشرت کے بغیر یا مباشرت کے بعد طلاق دے دیں گے اور عورت پھر اپنے سابق شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔ تو اگر مباشرت کے بغیر ہی طلاق دے دی تب وہ اپنے شوہر کے لئے حلال ہی نہیں ہوگی اس لئے کہ دوسرے شوہر کا ہم بستر ہونا ضروری ہے اور حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
اور اگر مباشرت کے بعد طلاق دی تو وہ اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال تو ہو جائے گی مگر جس شخص نے حلالہ کی نیت سے نکاح کیا تھا اور جس نے کرایا تھا دونوں ہی سخت گناہ گار ہوں گے، حضورﷺ نے فرمایا کہ ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہو، ہاں اگر کسی نے ایسی نیت کے بغیر نکاح کیا اور یوں ہی کسی وجہ سے طلاق دے دی تو کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 486)
خلع
جس طرح مرد کے لئے طلاق کا حق دیا گیا ہے اسی طرح عورت کے لئے خلع کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ خلع یہ ہے کہ عورت مرد کو کچھ مال دے کر یا مرد کے ذمہ اس کا جوکچھ باقی ہے اس کو معاف کرکے بدلہ میں طلاق حاصل کرلے اور اس طلاق کے لئے خلع کا لفظ استعمال کرے، اس کی وجہ سے طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔
خلع شریعت میں ایک ناپسندیدہ چیز ہے، اس لئے کہ میاں بیوی کی علیحدگی کی وجہ سے خاندان کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، بال بچوں کی پرورش اس طرح نہیں ہوپاتی جس طرح ہونی چاہئے ۔ اکثراوقات ان کو باپ کی شفقت یا ماں کی ممتا میں سے کسی ایک سے محروم ہونا پڑتا ہے اس لئے جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا چاہئے اور اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ عین ممکن ہے اس ظاہر ی شر میں اللہ تعالیٰ نے کوئی خیر اور بھلائی رکھی ہو۔
حدیث میں ہے کہ جو عورت بلاوجہ خلع کا مطالبہ کرے اس پر خدا، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوتی ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ جس عورت نے کسی خاص اور ضروری سبب کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگی۔ آپﷺ نے بلاضرورت خلع کا مطالبہ کرنے والی عورت کومنافق قرار دیا ہے۔
اس لئے معمولی شکایتوں،چھوٹی چھوٹی باتوں یا محض تجدید لذت اور نیامزہ چکھنے کی خاطر شوہر سے طلاق کا مطالبہ سخت گناہ کی بات ہے۔ اسی طرح ایسی چیزوں پرخلع کا مطالبہ جو شرعاً جائز ہیں نہایت نامناسب اورناپسندیدہ ہے۔ مثلاً ہمارے یہاں عام طور پر شوہر کی دوسری شادی کرلینے کی وجہ سے عورتیں طلاق کا مطالبہ کرنے لگتی ہیں حالانکہ یہ دوسری شادی اس کی طرف سے ظلم اور ناانصافی کا باعث نہ بنے تو جائز اوردرست ہے اور اس پر طلاق کا مطالبہ غلط ہے۔
ہاں اگر کسی وجہ سے اس بات کاقوی اندیشہ ہو کہ وہ دونوں ایک ساتھ زندگی بسر نہ کرسکیں گے، آپس میں سخت نفرت اور تنائو کی فضا پیدا ہوگی اور تعلقات اس مرحلہ میں آئیںگے کہ ایک دوسرے کے حقوق میں کوتاہی کا اندیشہ پیدا ہو تو اب شریعت اس کی اجازت دیتی ہے اور جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو مرد کا بھی فریضہ ہے کہ وہ بیوی کے مطالبہ پر اسے طلاق دے دے اور اپنے لئے کسی نئی ساتھی کا انتخاب کرلے۔
رسول اللہﷺ کے زمانے میں متعددایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ شوہر کے زدوکوب کرنے یا اس کے بدصورت ہونے کی بنا پر بیوی نے خلع کی خواہش کی اور حضورﷺ نے مہر میں دیا ہوا سامان بیوی سے واپس دلاکر شوہرکو حکم دیا کہ وہ طلاق دیدیں اور ہمارے ہندوستانی سماج میں تو عموماًعورتیں اسی وقت اس قسم کے مطالبات کرتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے اور آپسی تنائو اور کشیدگی حددرجہ بڑھ جاتی ہے۔
خلع میں دوباتوں کاپایا جانا ضروری ہے ۔ ایک تو شوہر کا طلاق پر آمادہ ہوجانا، دوسرے عورت کی طرف سے اس کا کچھ معاوضہ۔ اگر شوہر طلاق پر آمادہ نہ ہو تو عورت یکطرفہ اس طرح خلع نہیں کر سکتی جیسے مرد کو طلاق کا اختیار حاصل ہے البتہ اس کے لئے یہ گنجائش رہتی ہے کہ مرد کی واقعی زیادتی اور علیحدگی کے لئے معقول وجہ ثابت کرکے قاضی شرع کے یہاں سے اپنا نکاح توڑڈالے۔
خلع میں عورت کی طرف سے دیئے جانے والے معاوضہ کی حیثیت یوں تو آپسی معاہدہ کی ہے اور وہ دونوں باہم اس کی جو کچھ قیمت طے کریں وہی معاوضہ ہو گا لیکن شریعت نے اس کے لئے کچھ مناسب حدیں مقرر کردی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ اگر زیادتی خود مرد کی جانب سے رہی ہو تو اس کو طلاق کا کچھ معاوضہ نہیں لینا چاہئے اور یوں ہی طلاق دینا چاہئے اس لئے کہ شریعت نے شوہر کے لئے دو ہی راہ رکھی ہیں۔ ایک خوش اسلوبی کے ساتھ رکھنا( امساک بالمعروف)یابھلے طور پر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا( تسریح بالاحسان) اب چونکہ وہ پہلے طریقہ پر عمل نہیں کر پارہا ہے تو اسے اس دوسرے راستہ کا انتخاب کرلینا چاہئے اور اگر خود عورت ہی کی طرف سے زیادتی ہو تو زیادہ سے زیادہ اتنا معاوضہ لینا چاہئے جو بطور مہر مرد نے اس کو دیا ہے اس سے زیادہ بہر حال نہ لے اور اگر ابھی مہر ادا ہی نہ کیا ہو تو اس کی معافی کی شرط پر طلاق دے دے۔
عدت
شوہر سے علیحدگی یا اس کی موت کے بعد شریعت نے ایک مخصوص مدت متعین کی ہے جس میں عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی، اسی مدت کا نام عدت ہے۔ عدت کا مقصود شوہر سے جدائی پر غم و افسوس کا اظہار، اس کی موت پر سوگ اور اس بات کا اطمینان کرلینا ہے کہ اب اس عورت کے رحم میں پہلے شوہر کا مادہ بالکل نہیں ہے اس لئے اب اگر وہ دوسری شادی کرے تو اس کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ نسب میں اختلاط پیدا ہواور اشتباہ ہوجائے کہ جانے بچہ کس مرد کا ہے؟
عدت دوطرح کی ہوتی ہے، طلاق کی عدت اور وفات کی عدت۔
طلاق کی عدت
یہ عدت مختلف عورتوں کے لئے مختلف ہے:
اگر حاملہ ہو تو عدت بچہ کی پیدائش تک ہے، بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی عدت مکمل ہوگئی۔ حاملہ نہ ہو مگر ماہواری کا سلسلہ جاری ہو تو جس پاکی میں طلاق دی گئی ہے اس کے بعد تین حیض تک عدت گزارے گی اور اگر مسنون اور بہتر طریقہ کے خلاف ناپاکی کی حالت میں طلاق دی ہے تو اس ناپاکی کے علاوہ مزید تین حیض عدت گزارنی ہوگی۔ حاملہ نہ ہو اور بچپن کی وجہ سے ابھی خون آنے کی ابتداء ہی نہ ہوئی ہو یا درازی عمر کی وجہ سے ماہواری کا سلسلہ بند ہوگیا ہو تو اس کی عدت تین مہینے ہے ۔ اگر طلاق پہلی تاریخ کو دی تو قمری مہینہ کے حساب سے تین ماہ عدت گزاری جائے گی اور اگر مہینہ کے درمیان میں ایسی نوبت آئے تو نوے دن عدت کے شمار کئے جائیں گے۔ اس عورت کو جس کے ساتھ مرد کی یکجائی کی نوبت ہی نہ آئی ہو، طلاق کی عدت گزارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
طلاق رجعی کی عدت میں عورت کو خوب بنائو سنگار اور زیب وزینت کرنا چاہئے تاکہ اس کی طرف مرد کی طبیعت کا میلان ہو، نیز چونکہ طلاق رجعی کے بعد عدت ختم ہونے تک وہ پہلے ہی شوہر کی زوجیت میں رہتی ہے اس لئے صراحۃً یا اشارۃً کسی دوسرے مرد کے لئے درست نہیں کہ اسے نکاح کا پیغام دے۔
طلاق بائن اور مغلظہ کے بعد عورت فوراً زوجیت سے نکل جاتی ہے اور بیوی باقی نہیں رہتی، لہٰذا اس جدائی پر افسوس کے لئے اسے زیب و زینت سے مکمل احتراز کرنا چاہئے ، خوشبونہ لگائے، شوخ کپڑے نہ پہنے، زیورات بھی استعمال نہ کرے، کریم، پائوڈر، سینٹ اور عطریات وغیرہ سے پرہیز کرے اور اسی مکان میں عدت گزارے جس میں طلاق کا واقعہ پیش آیا ہے کہیں دوسری جگہ نہ جائے اور نہ اس کونکاح کا پیغام دیاجائے۔
(جاری ہے)
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 487)
وفات کی عدت
اسلام سے پہلے ایام جاہلیت میں عدت گزارنے کے بڑے بھیانک، انسانیت سوز اور دردناک طریقے رائج تھے ایسی عورتوں کو پورے سال ایک تنگ و تاریک اور بدبودار کمرہ میں بندکردیا جاتا تھا اور ان پر جانوروں کی غلاظتیں ڈالی جاتی تھیں نیزان بدنصیب اور مصیبت زدہ بیوہ عورتوں کو منحوس اور نامبارک تصور کیا جاتا تھا، ان پر زندگی بھر کے لئے بیوی کی حالت میں دنیا کی تمام نعمتیں حرام ہوجاتی تھیں،ہندو مذہب میں تو بیوی اپنے آپ کو شوہر کے ساتھ جلا ڈالنا مذہبی اور منصبی فریضہ ہی سمجھتی تھی، اسلام نے آکر اس غیر مہذب اور غیر انسانی وحشیانہ طریقہ کی اصلاح کی، ایک طرف انسانیت کی اس مظلوم صنف عورت پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا، دوسری طرف شوہر کے احسانات کی رعایت اور اس کے بلند درجہ کا احترام ملحوظ رکھا۔ عورت کو ہونے والے فطری غم و اندوہ کے اظہار کی جائز صورت نکالی اور نسب کو اختلاط سے محفوظ رکھا۔
شوہر کے انتقال کے بعد سوگ کے بطور جو عدت واجب ہوتی ہے و ہ بالغہ اور نابالغہ دونوں پر ہے ، چاہے ابھی یکجائی کی نوبت آئی ہو یا نہیں۔
اس عدت میں بھی بالغہ عورتوں کے لئے زیبائش و آرائش، زیور،خوشبو، کنگھی کے ذریعہ مانگ نکالنا، بلا ضرورت و بیماری سر میں تیل ڈالنا یا سرمہ لگانا، پان کھانا وغیرہ ممنوع ہے۔
اس عدت کی مدت ان عورتوں کے لئے جو حاملہ نہ ہوں چار مہینے دس دن ہیں اور حاملہ کی عدت یہ ہے کہ ولادت ہو جائے یعنی جب تک اتنا وقت نہ گزر جائے وہ نہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے اور نہ گھر چھوڑ کر ادھر ادھر جاسکتی ہے۔
طلاق بائن اور مغلظہ کی عدت میں ضروری ہے کہ مکمل پردہ ہواور ایک دوسرے کے سامنے بالکل نہ آئے۔ عورت کا اس کے سامنے بدن چھپانا کافی نہیں، اس لئے کہ گزشتہ تعلقات کی بناء پر دونوں میں حجاب کم رہ گیا ہے اور فتنہ کا اندیشہ بڑھ گیا ہے ہاں طلاق رجعی میں پردہ کی ضرورت نہیں …طلاق دی ہوئی عورت کو چاہے وہ ابھی عدت ہی میں ہو شوہر سفر میں ساتھ نہیں لے جاسکتا۔
زانیہ کے احکام
عدت کا مقصد چونکہ سابق رشتہ کا احترام اور اس تعلق کی رعایت ہے اور زنا ایک بدترین اور نارواتعلق کی صورت ہے، اس لئے زنا کی کوئی عدت نہیں ہے یہاں تک کہ اگر وہ حاملہ ہو تو اس حالت میں بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اب اگر اس نے اسی زانی سے نکاح کیا ہے تو وہ کسی انتظار اور مہلت کے بغیر مباشرت بھی کر سکتا ہے اور اگر اس کے ساتھ کسی اور شخص نے نکاح کیاتو نکاح درست ہوگا مگر مباشرت اس وقت تک جائز نہ ہوگی جب تک ولادت نہ ہوجائے۔
کسبِ معاش
انسان گو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی اس کا اصل مقصود ہے لیکن رب کائنات نے اس کو ادراک و احساس اور شعور و جذبا ت کی زبردست قوتوں سے بھی سرفراز فرمایا ہے اور نوع بہ نوع ضرورتیں اور تقاضے بھی اس کے جسم کے ساتھ لگا دئیے ہیں، آنکھوں کو خوش کن مناظر کی تلاش ہے، شامہ عطربیزاور روح افزابوکا طالب ہے، زبان چاہتی ہے کہ اپنے نطق و گویائی کے جو ہر ظاہر کرے اور اس کے لئے بہتر سے بہتر وسائل اختیار کرے، پیٹ اور بھوک کے تقاضے ان سب سے سوا ہیں کہ کیاپانی اور کیاخشکی بلکہ فضا ہر جگہ اس نے اپنی آسودگی کا سامان دریافت کیا ہوا ہے۔ ایک اہم داعیہ فطرت صنفی و نفسانی جذبات کا بھی ہے جس پر نسل انسانی کی افزائش اور اس کی بقاموقوف ہے اس کے علاوہ قلب و نظر اور عقل و خرد کے دسیوں تقاضے ہیں جو اس کی زندگی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، ان سے منہ موڑنااور ان کے گلے گھوٹنا بظاہر اس کے لئے ممکن نہیں۔
دنیا کے بعض مذاہب نے انسان کو اسی انہونی پر مجبور کیا لیکن چونکہ یہ ایک غیر فطری بات تھی، اس لئے مذہب کے بعض غالی اور پر جوش معتقدین نے کچھ دن تو ضرور اس بیڑی کو پہننے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اس بوجھ کوکاٹ پھینکا، اس کے لئے انہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ زندگی کو دین و دنیا کے دوخانوں میں تقسیم کردیا، عباداتی رسوم میں دین کو حکَم بنایا اور زندگی کے عمومی معاملات میں مذہب کو مداخلت سے روک دیا، اس کے مقابلہ میں وہ نظام ہائے حیات ہیں جن کی تاسیس و ترکیب انسانی عقل و دانش کے ہاتھوں ہوئی۔ ان لوگوں نے انسانی عقل و جذبات کو حکَم اور فیصل مانا اور کسی قیدو بند کے بغیر بظاہر انسان کو آزاد اور حقیقتاً اس کی خواہشات کا غلام بنا کررکھ دیا۔
اسلام نے اپنے خاص مزاج کے مطابق دونوں کے درمیان اعتدال وتوازن قائم کیا اور اس کے لئے دین و مذہب اور عبادت وبندگی کے مفہوم میں وسعت اور ہم گیری پیدا کرکے انسانیت کو متوازن ،فطرت سے ہم آہنگ اور انقلابی تصور حیات عطا کیا… اس نے کہا کہ انسانی جسم اللہ کی امانت ہے اور اس کی فطرت خالق کائنات کاعطیہ ہے، اس لئے مناسب حدود میں اس کی رعایت اور حفاظت خالصۃً مذہبی عمل ہے۔ ایک مسلمان مسجد میں ہویا گھر میں، بازاروں میں ہو یا کارخانوں میں ،دفتروں میں ہویا انصاف گاہوں میں، وہ رکوع اور سجدہ میں مشغول ہو یا سڑک پر تپتی ہوئی دھوپ میں ،رکشا چلا رہا ہو، آہ سحر گاہی سے اپنی صبحوں کو گرم رکھتا ہو یا صبح دم اللہ کا نام لے کر اس کی زمین میں ہل جو تتا ہو، تسبیح و وظائف میں مشغول ہو یا اپنے بوڑھے والدین اور کمزور بچوں کی آنتوں کو ٹھنڈی رکھنے کے لئے گرم پسینے بہارہا ہو، اس کے ہاتھ بارگاہ خداوندی میں عرض و نیاز کے لئے اُٹھے ہوئے ہوں یا حلال روزی کے حصول کے لئے سخت کاموں کی وجہ سے کھردرے ہوگئے ہوں، بہر کیف و بہر طور اگر خدا کی مقدر کی ہوئی حلال و طیب رزق کی تلاش مقصود ہو اور خدا کے واجب کئے ہوئے حقوق کی ادائیگی پیش نظر ہو اور ہر موقع اور ہرگام پر خدا کی عدول حکمی سے بچتا ہو، اسی کی رزاقیت پر بھروسہ ہو تو وہ عین حالت عبادت میں ہے اور ایک کاردین میں مشغول ہے کہ جس خداکی خوشنودی کی تلاش میں اس نے مسجد میں جبین بندگی زمین پر رکھ دی تھی، اسی کی اطاعت اورفرماں برداری کے لئے و ہ تجارت گاہوں اورزراعت گاہوں میں اپنے پسینے بھی نثار کررہا ہے…پیغمبر اسلامﷺسے غالباً دست بوسی کا ایک ہی واقعہ منقول ہے اور وہ یہ کہ آپﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ کو بوسہ دیا جس کی ہتھیلیاں محنت و مشقت کی وجہ سے سخت ہوگئی تھی۔
اسلام میں کسبِ معاش کی اہمیت
اسی لئے اسلام میں کسبِ معاش کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ ارشاد فرمایا کہ دین کی یہ روشنی اس لئے ہے کہ تلاش معاش میں سہولت ہو (وجعلناالنہارمعاشا ) زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ بھی تمہارے لئے حصول معاش کا ذریعہ ہے( وجعلنالکم فیہا معٰیش )طلب معاش کو جائز اوردرست قرار دیا گیا ہے۔ کسب معاش کے لئے سفر کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی بلکہ کسب معاش اوراس کے لئے تگ و دو کا حکم فرمایا گیا(فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ)
احادیث بھی کسب معاش کی فضیلت کے سلسلہ میں بھری پڑی ہیں، یہاں تک کہ آپﷺ نے سچے اور امانت دار تاجر کو فرمایا کہ اس کا حشر انبیائ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ آپﷺ نے فرمایا: بہتر آدمی کے لئے مال حلال بہتر شے ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 488)
یہی مزاج بعد میں سلف صالحین کا رہا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں بے کار آدمی کو ناپسندکرتا ہوں، چاہے امور دنیا میں ہو یا امور آخرت میں۔ زید بن مسلمہ کاشت کاری کیا کرتے تھے، حضرت عمرؓ نے ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ اس طرح تمہارے دین کی حفاظت ہوگی اور لوگوں کے سامنے تمہاری شرافت باقی رہے گی۔ ابراہیم نخعی سے پوچھا گیا کہ سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے خود کو عبادت کے لئے فارغ کر لیا ہو؟
فرمایا: سچا تاجر! کیونکہ وہ ناپ تول اور لین دین میں گویا شیطان سے جہاد کرتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھریا مسجد میں بیٹھا رہے اور کہے کہ میں کچھ نہیں کروں گا تا آنکہ میرا رزق خود میرے پاس آجائے، امام احمدؒ نے فرمایا کہ ایسا شخص جاہل ہے۔
گداگری کا سدّباب
اسی لئے اسلام نے قناعت اور توکل کے جاہلانہ اور رہبانی تصور کو رد کردیا، ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور باندھ لوں پھر توکل کروں یا جانور کو کھلا چھوڑدوں پھر توکل کروں؟ ارشاد فرمایا کہ جانور کو باندھ لو پھر توکل کرو۔ یعنی اسباب ظاہری کو اختیار کیا جائے اور اس کے نتیجہ کو اللہ پر چھوڑ دیاجائے، جیسا کچھ بھی نتیجہ ظاہر ہو اس پر راضی رہا جائے، نہ یہ کہ اسباب ہی نہ اختیار کئے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے خوب فرمایا کہ بعض لوگ کسب معاش نہیں کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ!روزی دے حالانکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سونا چاندی نہیں برساتا۔
اسلام گداگری اور بھیک منگی کا سخت مخالف ہے۔حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:یہ بات کہ تم میں سے ایک شخص اپنی پشت پر لکڑی کا گٹھا اٹھائے اس بات سے بہتر ہے کہ دوسرے کے سامنے دست سوال دراز کرے اور چاہے تو اسے دے یا نہ دے، اس لئے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ سوال ایک زخم ہے جس سے انسان اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے، سوائے اس کے کہ امیر اور بیت المال سے مانگا جائے یا بحالت مجبوری سوال کیا جائے۔ ایک صحابی خدمت اقدس میں آئے جو مانگ کر اپنی ضرورت پوری کیا کرتے تھے، ان کے پاس صرف پیالہ اور ٹاٹ تھا ۔ آپ ﷺنے دونوں سامان منگایا،ڈاک لگائی اور دودرہم میں اس کو فروخت کیا ۔ایک درہم اس کی ضروریات کے لئے دیا اور ایک درہم میں کلہاڑی بنا دی تاکہ لکڑی کا ٹ سکے اور بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر سکے۔
اسی لئے فقہاء اسلام نے بیت المال میں ایسے مجبور اور مفلوک لوگوں کا حق رکھا ہے تاکہ مسلمانوں کے سماج کو اس لعنت سے محفوظ رکھا جاسکے اور خود حضورﷺ نے بھی ایسے سائلین اور فقراء کے لئے مستقل حق رکھا کہ ایسے ضرورت مندوں کو بار بار ہاتھ نہ پھیلانا پڑے…نیز نفقہ اور کفالت کا ایک ایسا جامع قانون بنایا کہ سماج کا کوئی بوڑھا اور بچہ، عورت اور اپاہج نیز بے روزگار بالکل بے سہارا نہ ہوجائے۔
کسب معاش میں اعتدال
جہاں آپﷺ نے کسب حلال کی تلقین فرمائی ہے اس کو سراہا ہے اور حوصلہ افزائی فرمائی ہے وہیں یہ بھی ہدایت دی ہے کہ اس میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دولت کی حرص اورطمع بعض اوقات انسان کے ذہن و دماغ پر جنون وآسیب کی طرح سوار ہوجاتی ہے اور وہ اس میں ایسا اندھا ہوجاتا ہے کہ حلال و حرام کی ساری حدوں کوپھلانگ جاتا ہے ،تہذیب و اخلاق کی دیواروں کو ڈھا دیتا ہے اور خدا فراموشی اور خود فراموشی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا کہ دولت مال کی کثرت کا نام نہیں بلکہ قلب کے استغناء کا نام ہے جو کچھ مقدر میںہے وہ مل کر رہے گا اس لئے طلب معاش میں اعتدال سے کام لو’’ فاجعلوافی الطلب‘‘ غزوئہ تبوک کے موقع پر آپﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے خصوصیت سے اس کی تلقین فرمائی اورفرمایا کہ جیسے موت انسان تک پہنچ کر رہتی ہے اسی طرح رزق انسان تک پہنچ کر رہتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے ایسے لوگوں کی تعریف کی ہے جن کے لئے تجارت اور کاروبارِ دنیانمازو زکوٰۃ اور ذکر الہٰی کے لئے رکاوٹ نہیں بنتی تھی ’’رجال لاتلھیہم تجٰرۃ ولابیع عن ذکراللّٰہ واقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ‘‘ اور اسی لئے حدیثوں میں بازار کو خراب جگہ قرار دیا گیا ہے۔’’ ابغض البقاع الی اللّٰہ الاسواق ‘‘کسب معاش میں اعتدال یہ ہے کہ فرائض وواجبات سے غفلت نہ ہو، حرام اور ممنوع طریقوں کا ارتکاب نہ ہو ، حسد اور رقابت کی آگ سے اپنے سینوں کو نہ جلائے اور دین وآخرت کی فکر کی بجائے صرف طلب دنیا کو اپنی تمام فکر اور عمل کا مقصودو مطلوب نہ بنالے۔’’ اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا‘‘
بہتر ذریعہ معاش
مشہور عالم علامہ ماوردیؒ نے لکھا ہے کہ بنیادی طو پر کسب معاش کے تین ذرائع ہیں:
(ا)زراعت(۲) تجارت( ۳)اورصنعت
ان میں سے کون سا ذریعہ معاش زیادہ بہتر ہے،علماء نے اپنے خیال کے مطابق اس کو بھی متعین کرنے کی سعی کی ہے، امام شافعیؒ کا خیال ہے کہ تجارت سب سے افضل ہے۔ خودماوردیؒکی رائے ہے کہ زراعت کی فضیلت زیادہ ہے، امام بخاریؒ نے ایک ہی جگہ ایسی حدیثیں جمع کردی ہیں جو تجارت وزراعت اور صنعت کی اسلام میں اہمیت اور پیغمبر اسلام کی نگاہ میں شرف و فضیلت بتاتی ہیں۔
خیال ہوتا ہے کہ فقہاء نے مختلف ذرائع معاش کے افضل اور بہتر طریقہ کی تعیین کے لئے ناحق مشقت اُٹھائی ہے ،اصل میں شریعت کی نگاہ میں اہمیت ذریعہ معاش کے انتخاب کی نہیں بلکہ طلب معاش میں حلال و حرام کے حدوں پر قائم رہنے کی ہے۔ ابن حجرؒ نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ’’قد یختلف باختلاف الا حوال و الاشخاص‘‘ یعنی حالات اور اشخاص کے فرق کے ساتھ احکام میں بھی فرق ہو سکتا ہے۔
تجارت کی اہمیت
دوسرے ذرائع معاش کی طرح تجارت کو بھی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، گزرچکا ہے کہ آپﷺ نے امانت دار تاجر کو انبیائ،شہدا ء اور صدیقین کا ہم درجہ قرار دیا ،تجارت کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ خود آنحضورﷺ نے تجارت فرمائی ہے، اکثر اکابر صحابہ کا ذریعہ معاش بھی تجارت تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب تک خلیفہ نہیں ہوئے تجارت ہی کو اپنا ذریعہ معاش رکھا۔ سورئہ جمعہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت اور اس میں ملک و بیرون ملک کاروبار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عام معمول تھا، ایک بار آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر ذریعہ معاش کیا ہے؟ ارشاد ہوا: صحیح طریقہ پرتجارت اور اپنے ہاتھ کی محنت’’ عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور‘‘…اسلام سے پہلے تو لوگ تاجر کو’’ سمار‘‘ یعنی دلال کہا کرتے تھے جو ایک قبیح تخاطب تھا، آپﷺ نے اس کے بجائے’’تجار‘‘ کے لئے بہتر نام ’’تاجر‘‘ کا عطا فرمایا۔
جہاں ایک طرف آپﷺ نے تجارت کی اس درجہ فضیلت بیان فرمائی اور تاجروں کی حوصلہ افزائی کی، وہیں دوسری طرف چونکہ اس پیشہ میں جھوٹ دھوکہ دہی وغیرہ کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اس لئے تنبیہ بھی فرمائی اور فرمایا کہ جو تجار بے خوف جھوٹے اور بدمعاملہ ہوں وہ قیامت میں فاجروں کی صورت میں اُٹھائے جائیں گے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 489)
سامان فروخت کی خامیاں چھپائی نہ جائیں
ہر چند کہ شریعت اسلامی میں تجارت اور خریدوفروخت کے احکام بڑی تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیںاور ان کی تفصیلات پر اصول و کلیات سے لے کر عام اور چھوٹی چھوٹی جزئیات تک سب کا احاطہ کئے ہوئے ہے لیکن کچھ ہدایات ایسی ہیں جو بنیادی اور اساسی حیثیت کی حامل ہیں، پہلے ان کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
اس میں پہلی قابل ذکر چیز یہ ہے کہ شریعت میں سامان کے عیوب اور خامیوں کو چھپانا بہت ہی ناپسندیدہ بات ہے۔ ایک بار آپﷺ کا دانے کے ایک ڈھیر پر گزر ہوا۔ آپﷺ نے اندر ہاتھ ڈالا ، اس میں تراوٹ محسوس کی، فرمایا : یہ کیا ہے؟ تاجر نے عرض کیا کہ بارش میں بھیگ گیا ہے، ارشاد ہوا کہ پھر اس بھیگے ہوئے دانے کو اوپر کیوں نہیں رکھاکہ لوگ دیکھ سکیں، پھر فرمایا: جو دھوکا دے ہم میں سے نہیں،’’ من غش فلیس منا‘‘ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسلمان ہوئے اور جانے لگے تو کپڑا پکڑکر کھینچا اور فرمایا کہ ہر مسلمان کے لئے بھلا سوچنا!’’ النصح لکل مسلم‘‘
چنانچہ حضرت جریررضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب بھی کوئی سامان فروخت کرتے تو عیب زدہ حصہ سامنے رکھ دیتے اور اختیار دیتے کہ چاہے تولے اور چاہے توچھوڑ دے۔ حضرت واثلہ بن اسقعؓ کے متعلق مروی ہے کہ ایک شخص نے تین سودینار میں اونٹنی فروخت کی پھر ابھی وہ شخص نکلا ہی تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے چیخ کر آواز دی اور دریافت فرمایا کہ اونٹنی کس چیز کے لئے لی ہے؟ انہوں نے کہا کہ سواری کے لئے ،حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے کھر میں سوراخ ہے اور وہ تیز نہیں چل سکتی، اس شخص نے اونٹنی واپس کردی اور بیچنے والے نے سودرہم کمی کردی، تاجر واثلہ سے کہنے لگا کہ آپ نے میرے معاملہ کو خراب کر دیا۔ حضرت واثلہ نے فرمایا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ کسی سامان کو بیچنا جائز نہیں جبکہ اس کی خامی کا اظہار نہ کردیا جائے اور جو کوئی اس خامی سے واقف ہو اس پر بھی اس خامی کا اظہار واجب ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص عیب چھپائے اور خریدار کو اندھیرے میں رکھے، بعد کو چل کر خریدار اس سے واقف ہو تو خریدار کو اس معاملہ کے باقی رکھنے یا ختم کردینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’ خیار عیب‘‘ کہا جاتا ہے۔
جھوٹ اور دھوکہ
اسی سے قریب تردوسراحکم یہ ہے کہ خریدوفروخت کے کسی معاملہ میں دھوکہ دہی سے کام نہ لیاجائے اور اپنا سامان فروخت کرنے کے لئے جھوٹ نہ بولے آپﷺ نے فرمایا: جو جھوٹ بول کر اپنا سامان فروخت کرے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نگاہ رحمت نہیں فرمائیں گے۔
خریدوفروخت کی مختلف صورتیں جن کو آپﷺ نے اسی وجہ سے منع فرمایا مثلاً آپﷺ نے’’ تلقی جلب‘‘ سے منع فرمایا۔تلقی جلب‘‘ یہ ہے کہ قافلۂ تجارت کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس سے سامان کم دام میں خرید کرلیاجائے اور اسے بازار کی قیمت کے بارے میں غلط باور کرایا جائے۔ ظاہر ہے یہ اصحاب مال کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اسی قسم کے ایک معاملہ کو آپﷺ نے نجش’’ یا’’ تناجش‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔یعنی خریدنے کا ارادہ تو نہ ہو لیکن دوسرے گاہکوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے ایک شخص خواہ مخواہ قیمت بڑھا کر بولے کہ یہ خریداروں کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔ جانور کا دودھ نہ دوہا جائے کہ خریدار دھوکہ کھاجائے اس کو بھی آپﷺ نے منع فرمایا کیونکہ یہ بھی صریح دھوکہ دہی ہے۔
دھوکہ کی وجہ سے خریدوفروخت کی ممانعت کی بہت سی صورتیں ہیں جو حدیث و فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں، اکثر اوقات اس سے شریعت نے صرف حکم اخروی یعنی آخرت کے ثواب و عذاب کو متعلق کیا ہے لیکن بعض اوقات اس سے احکام دنیا بھی متعلق ہیں مثلاً کسی شخص نے ایک سامان خریدکیا اور دوسرے کو یہ کہہ کر فروخت کیا کہ میں اپنی قیمت خرید ہی پر تمہیں بیچ رہا ہوں لیکن قیمت خرید کے بتانے میں دروغ گوئی سے کام لیااور زیادہ بتادی یا کہا کہ قیمت خریدپر اتنا نفع لیتا ہوںحالانکہ اصلاً اس نے زیادہ پیسے لئے تھے تو ان دونوں صورتوں میں جن کو فقہاء کی اصطلاح میں’’ تولیہ‘‘ اور ’’مرابحہ‘‘ کہا جاتا ہے، خریدار کو اس معاملہ کے ختم کردینے یا اس سے زیادہ رقم کے واپس لینے کا حق حاصل ہوگا۔
گراں فروشی
اسلام کے قانون تجارت میں ا س بات کی بھی رعایت کی گئی ہے کہ ان دروازوں کو بند کیا جائے جن سے گراں فروشی پیدا ہوتی ہے اور مصنوعی مہنگائی وجود میں آتی ہے۔ ان میں بنیادی چیز’’ احتکار‘‘ کی نہایت شد و مد سے ممانعت ہے۔
’’ احتکار‘‘ سے مراداشیاء ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی اور بازار میں اس کی مصنوعی قلت پیدا کرنا ہے تاکہ قیمتیں بڑھیں۔ آپﷺ نے فرمایا: احتکار کرنے والا خطا کار محض ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے چالیس دن احتکار کیا اس سے اللہ اور اس کا رسول بری ہے۔ ایک روایت میں آپﷺ نے ذخیرہ اندوزوں کا مزاج یہ بتایا کہ اس کو ارزانی سے افسوس اورگرانی سے خوشی ہوتی ہے۔
بعض فقہاء کے نزدیک احتکار اور ذخیرہ اندوزی صرف غذائی اشیاء میں ممنوع ہے، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ہی اشیاء میں ذخیرہ اندوزی کی ممانعت ہے۔ یہی رائے مالکیہ کی بھی ہے اور واقعہ ہے کہ یہی رائے زیادہ صحیح ہے …فقہاء نے اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ اگر کوئی شخص ذخیرہ اندوزی کرے اور اس سے عام لوگوں کو مشقت ہو تو حکومت جبراً ان کا مالی ذخیرہ فروخت کرا سکتی ہے۔
اسی طرح حدیث میں ایک خاص صورت ’’بیع حاضر للباد‘‘ کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔’’ بیع حاضر للباد‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اہل دیہات اپنا مال لے کر شہر میں آئیں اور شہر کے تجاران کامال لے کر خود شہر میں بیچ دیں کہ یہ دیہاتی کم دام میں سامان فروخت کریں گے اور نتیجہ میں قیمت اترجائے گی، آپﷺ نے اس کو بھی منع فرمایا کہ اس میں عام لوگوں کے لئے مضرت ہے۔
اسباب نزاع کا سدباب
اسی طرح خریدوفروخت یا ایسی تمام صورتیں جو مستقبل میں جھگڑے اور نزاع کا سبب بن سکتے ہوں، شریعت نے اس کو روک دیا ہے، اسی وجہ سے ایسی چیز جو آدمی کے قابو میں نہ ہو، قبضہ میں نہ ہو یا معاملہ کے وقت موجود نہ ہو ، کوبیچنے سے منع فرما دیا۔ کیونکہ یہ چیز مستقبل میں فریقین کے درمیان اختلاف اور نزاع کا باعث بن سکتی تھی۔ اسی طرح ضروری ہے کہ سامان اور قیمت اچھی طرح متعین ہوجائے اگرسامان ادھارہوتب تو ضروری ہے کہ اس سامان کی جنس، اس کے اوصاف، مقام ادائیگی اور مدت وغیرہ متعلقات پوری طرح متعین اور مشخص کردئیے جائیں۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 490)
اسی طرح سامان فروخت سے غیر متعین اور مبہم استثناء کی اجازت نہیں دی گئی۔اگر مختلف قسم کے سکوں کا یکساں رواج ہے تو قیمت میں سکوں کی نوعیت کا متعین کرنا ضروری سمجھا گیا۔ معاملہ خریدوفروخت اس وقت تک قطعی اور مکمل نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ خریدار اس کو دیکھ نہ لے، اسی کو فقہ کی اصطلاح میں’’خیاررئویت‘‘ کہتے ہیں۔ معاملہ کے نفع و نقصان کو اچھی طرح پرکھ لینے کے لئے تین دنوں کی خصوصی مہلت دی گئی جو فریقین میں سے ہر ایک دوسرے سے حاصل کرسکتا ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں’’خیار شرط‘‘ کہتے ہیں… یہ اور اس طرح کے بہت سے احکام ہیں جو ممکن اختلاف اور نزاع کو روکنے کے لئے پیش بندی اور ابتدائی احتیاط کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح ایسی باتیں جو باہم منافست اور رقابت پیدا کرتی ہوں ان کو بھی آپﷺ نے منع فرمایا۔ اس سلسلہ میں حدیث میں دوباتوں کی خصوصیت کے ساتھ ممانعت آئی ہے۔(۱)سوم علی سوم اخیہ اور(۲) بیع علی بیع اخیہ…’’سوم علی سوم اخیہ‘‘ یہ ہے کہ ایک شخص کسی قیمت پر خریدکا معاملہ طے کر رہاہو کہ دوسرا شخص آپہنچے اور اس سے زیادہ قیمت خرید کی پیش کش کرے، ’’بیع علی بیع اخیہ‘‘ یہ ہے کہ ایک شخص کوئی چیز بیچ رہا ہو کہ دوسرا شخص اس سے کم قیمت میں وہی سامان دینے کی پیش کش کرے۔ آنحضورﷺ نے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا کہ اس سے باہم منافست، جذبۂ رقابت اور تکدرپیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، البتہ یہ ممانعت اسی وقت ہے جبکہ سامان کے خریدنے یابیچنے کی طرف اس دوسرے شخص کا میلان ہو چکا ہو۔ نیز اس حکم میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں مساوی ہیں۔
ہاں! اس سے ڈاک والی صورت مستثنیٰ ہے جس میں ایک شخص زیادہ سے زیادہ قیمت کے حصول کے لئے بولی لگاتا ہے اور خود رسول اللہ ﷺ سے اس طرح خرید وفروخت ثابت ہے۔
تجارت کے معاملہ میں بلکہ تمام ہی معاملات اور معاہدات میں شریعت کا عمومی مزاج یہ ہے کہ فریقین کی مکمل رضامندی کے بغیر معاملہ طے نہ ہو اور اس کو ایسی آزادی حاصل ہو جو دوسروں کے لئے نقصان اور ضرر کا باعث نہ ہو، اسی لئے ایسی تمام صورتیں جس میں صاحب معاملہ کی رضامندی کے بغیر کوئی معاملہ اس پر تھوپا جائے شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ اور ممنوع ہے۔ اسلام سے پہلے خریدو فروخت کی متعدد صورتیں رائج تھیں، جن میں مکمل رضامندی کے بغیر آدمی پر کوئی سود لازم ہو جاتا تھا جس کو’’ملامسہ‘‘ اور منابذہ‘‘ کہا کرتے تھے، اسلام نے ایسی تمام صورتوں کو منع کردیا اور قیمت کے معاملہ میں بھی اسلام کا عمومی مزاج یہی ہے کہ حکومت دخل نہیں دے اور طبعی رفتار اورافتاد کے مطابق قیمتوں میں کمی و بیشی ہو۔ ایک بار بعض لوگوں نے خصوصیت سے خواہش کی کہ قیمتیں متعین کردی جائیں۔ آپﷺ نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا اورفرمایا کہ قیمتوں میں گرانی اور ارزانی کرنے والا اللہ ہے۔
لیکن بعض دفعہ لوگ اخلاقی ہدایات کا اثر قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں اور ان کے لئے قانون کی تلوار استعمال کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر فقہاء نے گراں فروشی کے بہت بڑھ جانے کی صورت میں تعیین قیمت کا حکومت کو حق دیا ہے کہ حکومت اصحاب رائے کے مشورہ سے تاجروں کو متعینہ قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔
غبن فاحش
گوشریعت نے نفع کے لئے کوئی خاص مقدار متعین نہیں کی ہے لیکن اتنا نفع لینا جو’’غبن فاحش‘‘ کے درجہ میں آ جائے مکروہ ہے،غبن فاحش سے مراد یہ ہے کہ مختلف واقف کار لوگ ایک سامان کی جو قیمت لگاتے ہوں قیمت ان سب سے بڑھ جائے، اتناکثیر نفع لینا مزاج شریعت کے خلاف ہے، شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے خوب لکھا ہے کہ تاجرانہ نفع کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ محتاج کی ضرورت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے خوب گراں بیچا جائے، دوسرے یہ کہ معمولی نفع لیا جائے اور جلد جلد اس کو استعمال میں لایا جائے، نفع کی یہ دوسری شکل تمدنی تقاضوں کے مطابق بھی ہے اور برکت کا باعث بھی۔
تجارت عبادت میں خلل اندازنہ ہو
تجارت کی ان صورتوں میں کہ شریعت نے ان سے منع کیا ہے، یہ بھی ہے کہ وہ خالص عبادت میں خلل کا باعث بنتی ہو، قرآن مجید نے جمعہ کے بارے میں خصوصیت سے تاکیدکی کہ جب اذان جمعہ ہوجائے تو نماز کے لئے دوڑ پڑو( اذانودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعواالی ذکر اللّٰہ وذرواالبیع) جمعہ کے لئے چونکہ زیادہ وقت مطلوب ہوتا ہے اور نماز کے علاوہ خطبہ بھی ہوتا ہے اس لئے خاص اہتمام سے توجہ دلائی گئی ورنہ ہر نماز اور عبادت کے لئے یہی حکم ہے۔
اسی طرح مساجد خالصۃً اللہ کے ذکر، دین کی دعوت و تذکیر اور عبادت کی جگہ ہے، یہاں خریدوفروخت میں اندیشہ ہے کہ دوسروں کی نماز اور عبادت میں خلل نہ پیدا ہوجائے اس لئے مسجدوں میں خرید وفروخت کو روکا گیا، آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی کو مسجد میں فروخت کرتے یا خرید کرتے ہوئے دیکھو تو کہہ دو کہ خدا تمہاری تجارت کو نفع سے محروم کردے۔’’لااربح اللّٰہ تجارتک‘‘
ایفاء عہد اور دوسرے فریق کی رعایت
تمام معاملات کی طرح اسلام کا تصور یہ ہے کہ خریدو فروخت اور تجارت کے معاملہ میں بھی ایثار،نرمی ،دوسروں کو ترجیح،دیانت و ایمانداری،صدق وراستی، وعدہ کی پابندی اور ایفاء عہد کی ڈگر پر انسان قائم رہے۔
حضرت سوید بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور ایک صاحب کپڑا فروخت کررہے تھے، آپﷺ تشریف لائے، پاجامہ خرید کیا، میرے پاس ایک شخص تھا جو قیمت تولنے اور وزن کرنے پر مامور تھا۔ آپﷺ نے قیمت ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ جھکا کرتولو، ’’زن وارجح‘‘ یعنی وزن میں کچھ زیادہ ہوتوہو کمی نہ ہو۔ ناپ تول کے پیمانے والوں سے فرمایا کہ تم لوگ دوایسی چیز کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جس میں اس سے پہلے کی امتیں ہلاک ہوچکی ہیں۔ کسی کے یہاں قیمت باقی ہو اور اسے مہلت دی جائے یامعاف کردیا جائے تو ارشاد خداوندی ہے کہ قیامت کے دن اسے عرش باری کا سایہ حاصل ہوگا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے پاس کوئی نیکی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ دولت مند تھا اور اپنے غلاموں کو حکم دیا کرتا تھا کہ تنگدست لوگوں سے درگزر کا معاملہ کرو، اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ کہہ کر معاف کردیا کہ ہم معاف کرنے کے زیادہ لائق ہیں اس لئے اسے معاف کردو۔
وفاء عہد کی اہمیت کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کا تین دنوں تک انتظار فرمایا ہے۔ ایساشخص جو قیمت ادا کرنے پر قادر ہو لیکن ٹال مٹول اور وعدہ خلافی کرتا ہو، آپﷺ نے اس کی مذمت فرمائی ہے اور اس کے عمل کو ظلم قراردیا ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 491)
ایسی تجارت جو معصیت میں معاون ہو؟
اسی طرح جو خرید وفروخت معصیت میں تعاون کا ذریعہ ہو، ان کے ذریعہ گناہ کے کاموں کو فروغ ہوتا ہو یاشریعت جن چیزوں کو حرام و ممنوع اور ناقابل استعمال قرار دے کر ناقابل احترام ٹھہراتی ہو، ان کے ذریعہ ان کی تعظیم وتوقیر ہوتی ہو، ایسی تمام صورتوں کو بھی شریعت نے منع کیا ہے کہ اسلام سے وفاداری اور ایمان پر استواری کا یہی تقاضا ہے۔
چنانچہ سور کی خریدوفروخت کو منع کیا گیا ہے، خون اور مردار کی بیع کو نادرست قرار دیا گیا ہے، شراب نوشی کی جازت نہیں دی گئی، تصاویراورذی روح کے مجسمے جو ہرزمانہ میں شرک کا اولین سبب بنے ہیں، کی خریدوفروخت کو جائز نہیں رکھا گیا،اس لئے کہ مجسموں کی خریدو فروخت شرک میں اعانت ہے، شراب فروشی سے شراب نوشی کو تقویت حاصل ہوگی، سور، خون اور مردار کی خریدوفروخت اس کے عظمت و حرمت کا اعتراف ہے جو دین و شریعت کے خلاف ہے، فتنہ کے زمانہ میں اہل فتنہ سے اسلحہ کی فروخت اور اغلام بازی کے عادی شخص سے غلام کی خریدوفروخت کو بھی اس قاعدہ کے تحت فقہاء نے منع کیا ہے، غور کیاجائے تو وہ معاملات جن کو فقہاء نے ’’ بیع باطل‘‘ کے زمرہ میں رکھا ہے وہ اکثر اسی اصول کی بنا پر ممنوع قرار دئیے گئے ہیں۔
بعض بنیادی اصول
تجارت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جس چیزکو فروخت کیا جارہا ہو وہ موجود ہو، معدوم شے بیچنا درست نہیں، مثلاً کوئی شخص یوں کہے: میری گائے کا جو بچہ ہو گا اسے میں نے فروخت کیا تو یہ درست نہیں ہوگا، نیز وہ شے بیچنے والے کی ملکیت میں بھی ہو، بیچتے وقت جو چیز اس کی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہو اس کا بیچنا درست نہیں، اس سے صرف دو صورتیں مستثنیٰ ہیں، سلم اور استصناع، سلم یہ ہے کہ قیمت نقدادا کردی جائے اور سامان جو ابھی بیچنے والے کے پاس موجود نہ ہو لیکن بازار میں دستیاب ہو، ایک مدت کے بعد حاصل کیاجائے، ’’ استصناع‘‘ یہ ہے کہ کاریگر کو پیشگی قیمت ادا کر کے مصنوعات کا آرڈردیاجائے، حالانکہ مصنوعات پہلے سے موجود نہ ہوں۔
خریدوفروخت کے صحیح ہونے کے لئے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ جو چیز بیچی جا رہی ہے وہ مال متقوم ہو یعنی مال بھی ہو اور شریعت اس کو قابل قیمت بھی قرار دیتی ہو۔ متقوم اور قابل قیمت ہونے کامفہوم یہ ہے کہ شرعاً اس سے فائدہ اٹھانا مباح ہو’’ المال المباح الانتفاع بہ شرعا‘‘ (ردالمحتار:ج۳ص۱۰۰)اس بنیاد پر ایسی چیزیں جو حرام ہوں اور شرعاً ان سے فائدہ اٹھانا مباح نہ ہو ان کی خرید وفروخت جائز نہیں ہوگی، حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، آپﷺ نے مسلمانوں کے لئے شراب کی خریدوفروخت کو منع فرمایا۔ اسی طرح آپﷺ نے شکاری کتے کے علاوہ دوسرے کتوں کی قیمت کو منع فرمایا… مردار کے چمڑوں اور بتوں کے فروخت کرنے کو منع فرمایا، فتح مکہ کے موقع پر ارشاد ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب ، مردار، سوراور بتوں کی خرید و فروخت کو حرام قرار دیا ہے۔
انہی روایات سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جن اشیاء کو شریعت ناپاک اور نجس قرار دیتی ہے ان کی خرید وفروخت جائز نہ ہوگی ۔اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آپﷺ نے نرجانور کے مادہ کے ساتھ جفتی کی اجرت لینے کو ناجائز قراردیا۔ اسی لئے فقہاء انسانی فضلہ کی خریدوفروخت کوناجائز قراردیتے ہیں، ہاں اگر اس کے ساتھ مٹی مل گئی اور فضلہ مغلوب ہوگیا تو اب اس کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔
فروختنی سامان قابل انتفاع ہو
خریدو فروخت کے جائز ہونے اور نہ ہونے کا خاص تعلق کسی چیز کے قابل انتفاع ہونے اور نہ ہونے سے بھی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جن چیزوں کی خریدوفروخت کی ممانعت کتاب وسنت سے صراحتاً نہ ثابت ہو اور وہ کسی دور میں اس لائق ہوجائے کہ اس سے نفع اٹھایا جا سکے تو فقہاء اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیتے ہیں، مثلاً عام اصول یہی ہے کہ کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض سانپ وغیرہ کی خریدوفروخت جائز نہیں،لیکن ریشم کے کیڑے اور اس کے انڈے اور شہد مکھی کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے، فقیہ ابواللیث نے جونک کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا ہے اس لئے کہ اس سے علاج میں فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اور علامہ خصکفی نے نقل کیا ہے کہ اسی پر فتویٰ بھی ہے۔ اسی طرح علامہ شامیؒ نے لکھا ہے کہ دوا میں سانپ کا استعمال کیا جاسکتا ہو تو اس کی خریدوفروخت بھی جائز ہوگی۔ بلکہ خصکفی نے ایک اچھا قاعدہ نقل کیا ہے کہ’’ ان جوازالبیع یدور مع حل الانتفاع‘‘ (درمختار:ج۳ص۱۱۱)خنزیر کے بال کی خریدو فروخت بھی اسی بنیاد پر فقہاء کے یہاں جائزقرار پائی ہے، پس حاصل یہ ہے کہ جن اشیاء کی خریدوفروخت کی ممانعت قرآن و حدیث میں صراحتہً مذکور نہیں اور وہ کسی زمانہ میں قابل انتفاع ہوجائیں تو فقہاء اس کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرتے ہیں اور اس کی خرید وفروخت کو جائز قرار دیتے ہیں۔
خریدوفروخت میں شرطیں؟
شریعت یہ بھی چاہتی ہے کہ خریدو فروخت کے معاملہ میں ایسی کوئی شرط نہ لگائی جائے جو معاملہ بیع کے اصل تقاضوں کے خلاف ہو، مثلاً بیع کے ذریعہ خریدار سودے کا مکمل مالک ہوجاتا ہے اور وہ اس میں ہر طرح کے تصرف کا مجاز ہے، اب اگر بیچنے والا ایسی کوئی شرط لگادے جس سے خریدار کے حق تصرف پر تحدید عائد ہوتی ہے تو یہ نامناسب شرط سمجھی جاتی ہے اور معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدو فروخت کے ساتھ شرط لگانے سے منع فرمایا ہے۔’’نھی النبی علیہ السلام عن بیع و شرط‘‘(الطبرانی)
لیکن اگر کوئی شرط عرف و رواج کا درجہ حاصل کرلے تو پھر معاملہ کے ساتھ ایسی شرط عائد کرنے میں کوئی قباحت نہیں، عالمگیری میں ہے:
’’ ایسی شرط کہ شریعت اس کے جواز کے بارے میں واردنہ ہو لیکن وہ مروّج ہو، مثلاً چمڑایا تسمہ اس شرط پر خرید کرے کہ بیچنے والا اس کا جوتا بنا دے تو استحساناً یہ جائز ہوگا اور اگر بایں شرط کہ فروخت کنندہ اس کے لئے اپنے پاس سے استر بنائے تو اس شرط کے ساتھ رواج و تعامل کی وجہ سے خرید وفروخت جائز ہوگی۔‘‘ (ج۳ص۱۳۳)
فی زمانہ بہت سی چیزیں ہیں کہ ان کی خریدوفروخت کے ساتھ کمپنیاں ایک مخصوص مدت کے لئے گارنٹی قبول کرتی ہیں اور اس مدت میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو درستگی کی ضامن ہوجاتی ہیں یا کسی شے کی خریداری پر مزید کوئی اور شے تاجردیا کرتے ہیں۔ یہ صورتیں جائزہوں گی کیونکہ ان کا شمار اب معروف اور مروّج شرائط میں ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 492)
قبضہ کے بعد فروخت
خریدوفروخت اور تجارت کے سلسلہ میں اسلام نے جواحکام دیئے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسی چیز پر قبضہ کے بعد ہی اس کو فروخت کیاجائے بعض روایات میں مطلقاً قبضہ سے پہلے فروخت کوروکا گیا ہے۔ بعض میں یہ ممانعت خاص کھانے پینے کی اشیاء کی بابت منقول ہے،’’ من ابتاع طعاما فلا یبعہ حتی یستوفیہ‘‘اس طرح کی متعدد روایات منقول ہیں، اسی بنا پر امام شافعیؒکے نزدیک تو کسی بھی شے پر قبضہ حاصل کرنے سے پہلے اس کو فروخت کرنا جائز نہیں ۔ امام مالکؒ کے نزدیک یہ حکم صرف غذائی اشیاء کے لئے ہے دوسری اشیاء اس حکم میں داخل نہیں ہیں اور احناف کے نزدیک منقولہ اشیائ(جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکتی ہوں) میں قبضہ ضروری ہے، غیر منقولہ اشیاء کی فروخت قبضہ سے پہلے بھی جائز ہے…جہاں شوافع نے حدیث کے عموم پر عمل کیا ہے مالکیہ نے ان حدیثوں کو اصل قراردیا ہے جن میںصرف غذائی اشیاء پر قبضہ کا ذکر ہے ، وہیں حنفیہ نے مسئلہ کی اصل روح اور شریعت کے منشاء و مقصود پر نظر رکھی ہے۔
احناف کے پیش نظریہ ہے کہ مقصود’’غرر‘‘ یعنی امکانی دھوکہ کا سدباب ہے جب تک کہ کوئی چیز قبضہ میں نہ آجائے احتمال موجود ہے کہ شاید قبضہ ہی میں نہ آپائے، ایسی شکل میں وہ اپنے عہد کو پورا نہیں کرپائے گا، منقول اشیاء میں تو اس طرح کا احتمال موجود ہے لیکن غیر منقولہ اشیاء میں اس کا کوئی احتمال نہیں کہ وہ چیز ضائع ہوجائے یا گم ہوجائے یا چرالی جائے اس لئے صرف منقولہ اشیاء ہی میں فروخت کرنے کے لئے اولاً قبضہ ضروری ہوگا۔
کمیشن ایجنٹ
ہمارے زمانہ میں خریدوفروخت کی بہت سی ایسی صورتیں مروّج ہیں جو ایجنٹ کے ذریعہ ہوتی ہیں، کمپنی اور کارخانہ کا ایجنٹ معاملہ طے کرتا ہے اور خود اس پر کمیشن وصول کرتا ہے …سوال یہ ہے کہ ایجنٹ کا اس طرح کمیشن لینا درست ہوگا؟ اور شرعاً یہ اجرت جائز ہوگی یا نہیں؟
امام بخاریؒ نے اس سلسلہ میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور نقل کیا ہے کہ ابن سیرین، عطاء ،ابراہیم نخعی اور حسن بصری جیسے بلند پایہ علماء ایجنٹ کے کمیشن کو جائز قرار دیتے تھے۔ ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ کوئی شخص کسی کوکپڑا دے اور کہے کہ اس کپڑے کو فروخت کرلو، اتنے روپے سے زیادہ جو قیمت حاصل کروگے وہ تمہاری ہوگی تو اس میں مضائقہ نہیں۔ غالباً خود امام بخاریؒ کا رحجان اس کے جائز ہونے کی طرف ہے اس لئے کہ آگے خود انہوں نے حضورﷺ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ’’المؤمنون عند شروطھم‘‘ ہر مسلمان کو اپنی شرطوں اور معاہدات پر قائم رہنا چاہئے۔ یعنی ایجنٹ اور مالک کے درمیان جو باتیں ہوئی ہوں فریقین کو ان پر قائم رہنا چاہئے۔
ائمہ اربعہ کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہے، امام مالکؒ کے نزدیک سامان فروخت کرنے پر اجرت متعین کرنا جائز ہے بشرطیکہ فروخت کی کوئی مدت بھی متعین کردی ہو، اگر مالک سامان کہے کہ تم یہ سامان فروخت کرو اور اس کے بدلے تم کو ایک درہم دیاجائے گا یا ہر سودینار پر کچھ متعین کردے تو یہ جائز ہے ، یہی رائے امام احمدؒ کی بھی ہے، ابن تین نے لکھاہے کہ اگر مدت متعین کردی جائے کہ اتنی مدت پر تمہیں فروخت کرنا ہے تو ایجنٹ کو دیاجانے والا نفع’’ اجارہ‘‘ ہے۔ اور کوئی مدت متعین نہیں کی توفقہ کی اصطلاح کے مطابق ’’ جعل‘‘ہے۔ (’’جعل‘‘ فقہ مالکی کی ایک مخصوص اصطلاح ہے)
اور ابو عبدالملک نے لکھا ہے کہ اس کی بنیاد عرف پر ہے گو اس طرح اجرت متعین کرنے میں ایک درجہ کا ابہام پایا جاتا ہے لیکن لوگوں کے تعامل کی وجہ سے اس کوجائز قرار دیا گیا ہے۔’’ لکن جوزت لما مضی من عمل الناس علیہ‘‘(عمدۃ القاری:۱۲/۱۳)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ گو امام ابو حنیفہؒ کے مسلک پر کمیشن ایجنٹ کے کاروبار کی بعض صورتیں ایسی ہے جو جواز کے دائرہ سے باہر ہیں لیکن فی زمانہ اس کی کثرت اور ایک حدتک کاروباری دنیا میں اس کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہاء مالکیہ کی رائے کو قبول کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
تالاب میں مچھلیوں کی خریدوفروخت
ہمارے زمانے میں تالاب میں مچھلی کی خرید و فروخت کا معاملہ کثرت سے رائج ہے اور بسا اوقات بعض معاملات اس میں غیر شرعی بھی ہوتے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ اس کے احکام اچھی طرح سمجھ لئے جائیں، کسی چیز کو فروخت کرنے کے لئے دوباتیں ضروری ہیں، اول یہ کہ جو چیز بیچی جارہی ہے وہ بیچنے والے کی ملکیت ہو، یہ تو ظاہر ہی ہے، دوسرے یہ کہ اس کی حوالگی اور سپردگی ممکن ہو، اگر وہ فی الحال اس کے حوالہ کرنے پر قادر نہ ہو تو بیع درست نہ ہوگی مثلاً بھاگے ہوئے جانور یا کسی گم شدہ سامان کو فروخت کیاجائے کہ گو وہ اپنے اصل مالک ہی کی ملکیت ہے لیکن بروقت اس کے حوالہ کرنے پر قادر نہیں ہے۔
مچھلی کے سلسلہ میں بھی یہی تفصیل ہے، اگر مچھلی اس شخص کی ملک میں داخل ہے اور وہ بآسانی اس کے حوالہ کرنے پر قادر بھی ہے تو اب اس کی خرید وفروخت درست ہوگی۔ اگر وہ اس کی سپرد گی پر قادرنہ ہو یا ابھی اس کا مالک ہی نہ ہوا ہو تو خرید و فروخت کا معاملہ جائز نہ ہوگا۔
مچھلی کا مالک بننے کی تین صورتیں ہیں، اول یہ کہ مچھلیوں کی نشوونما کے لئے اس کو بطور خاص کسی تالاب میں رکھا ہو، تو اب اس مچھلی اور اس کی نسل کا وہی مالک قرار پائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مچھلی تو اس نے نہ ڈالی ہو لیکن مچھلیوں کے تالاب میں لانے یا آنے والی مچھلیوں کے واپس نہ جانے کے لئے اس نے کوئی تدبیر کی ہو اب اس تالاب یا حوض میں آنے والی مچھلیوں کا مالک وہی ہوگا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مچھلی کا شکار کر کے اپنے برتن میں محفوظ کرلے۔ چوتھی صورت جس میں آدمی مچھلی کا مالک نہیں ہوپاتا ہے یہ ہے کہ کسی کا تالاب ہو، اس میں ازخود مچھلیاں آجائیں اس کی سعی و کوشش کو اس میں کوئی دخل نہ ہو، یہاں محض یہ بات کہ تالاب اس کی زمین میں واقع ہے کو اس بات کے لئے کافی نہیں سمجھا جائے گا کہ اس زمین کا مالک ان بچوں اور انڈوں کا بھی مالک ہو بلکہ جو بھی اس بچہ یا انڈا کو اٹھا لے وہی اس کا مالک ہے۔’’ اذا افرخ طیر فی ارض رجل فھو لمن اخذہ و کذا اذا باض فیھا‘‘(ہدایہ:ج۳)
مچھلی کے بآسانی مقدور التسلیم یعنی حوالگی پر قادر ہونے کی دوصورتیں ہیں، ایک یہ کہ شکار کے بعد وہ کسی برتن میں محفوظ کر لے جیسا کہ عام طور پر ہوا کرتا ہے یا مچھلی کو کسی ایسے چھوٹے گڑھے میں رکھے جس سے نکالنا آسان اور سہل ہو۔
اب ظاہر ہے کہ جن صورتوں میں آدمی مچھلی کا مالک ہی نہ ہو اس میں تو خریدو فروخت درست ہی نہیں ہے اور جب مچھلی کا مالک ہوجائے تب بھی اسی وقت درست ہوگی جب اوپر ذکر کی گئی دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت پائی جائے۔
٭…٭…٭