باغات اور پھلوں کی خریدوفروخت

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ

باغات اور پھلوں کی خریدوفروخت
خریدوفروخت کی بعض صورتیں جو مروّج ہیں اور ایسی ہے کہ شرعی اور فقہی اعتبار سے ان کا جواز مشکوک ہے یا ان کی بعض صورتیں ناجائز ہیں ایسے مسائل میں ایک باغات اور پھلوں کی خرید وفروخت بھی ہے۔
باغات کی خریدو فروخت کی ممکنہ اور مروّجہ صورتیں یہ ہیں:
۱)پھل ابھی آئے بھی نہ ہوں اور باغ فروخت کردیاجائے جیساکہ بعض اوقات ایک یا کئی کئی سال کے لئے باغات فروخت کردئیے جاتے ہیں۔
۲)پھل نکل آئے لیکن ابھی ابتدائی حالت میں ہوں، انسانی استعمال کے لائق نہ ہوئے ہوں اور ان کو بیچ دیاجائے۔
۳)کچھ پھل نکل آئے، کچھ ابھی نہیں نکلے بلکہ مستقبل میں ان کا نکلنا متوقع ہو اور موجودہ اور آئندہ نکلنے والے دونوں طرح کے پھل فروخت کردئیے جائیں۔
۴)پھل نکل آئے اور انسانی استعمال کے لائق بھی ہوگئے جس کو فقہ و حدیث میں ’’بدوصلاح‘‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
پھر آخر الذکرتینوں صورتوں(۲،۳،۴) میں تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
الف)خریدار سے طے پا گیا کہ وہ پھل فوراً توڑ لے گا۔
ب)طے ہوا کہ پھل پکنے تک درخت پر باقی رہے گا۔
ج)نہ فوراً توڑنا طے پایا، نہ پھل پکنے تک درخت پر اس کا باقی رکھنا ، بلکہ اس سے خاموشی اختیار کی گئی۔
اس طرح یہ چار صورتیں دراصل دس صورتوں پر مشتمل ہیں:
۱)پہلی صورت کہ پھلوں کے نکلنے سے قبل ہی اس کو بیچ دیاجائے، یہ جائز نہیں اس سے متعلق صریح و صحیح روایات موجود ہیں، حدیث میں اسی کو’’ بیع معادمہ‘‘یا ’’بیع سنین‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۲)پھل نکل آیا لیکن قابل استعمال نہ ہو، ایسا پھل اگر اس شرط پر خرید کیا جائے کہ خریدارا سے فواً توڑلے گا تو یہ صورت بالاتفاق درست ہے۔
ابن قدامہ کہتے ہیں:تاہم اگر خرید وفروخت کا معاملہ طے پاجانے کے بعد خریدار نے خواہش کی کہ ابھی تیارہونے تک اس کو درخت پر رہنے دیا جائے اور درخت بیچنے والے نے اس کو قبول کر لیا تو اس میں بھی مضائقہ نہیں (المغنی:۴/۷۲)
علاء الدین سمر قندی کا بیان ہے:’’فان کان ذلک باذن البائع جاز و طاب لہ الفضل‘‘(تحفۃ الفقہائ:ص۵۶)
اسی طرح پھل تیار ہونے سے پہلے ہی خرید کرلیا اور خرید وفروخت کے معاملہ کے وقت یہ طے نہ پایا کہ پھل ابھی توڑے گایا اسے تیار ہونے تک باقی رکھے گا، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس صورت میں بھی معاملہ درست ہوجائے گا، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک درست نہیں ہوگا۔
احناف نے گو اس کو جائز رکھا ہے لیکن ان کے یہاں بھی واجب ہے کہ اس طرح معاملہ طے پاجانے کے بعد خریدار پھل توڑلے، اس کوحق نہیں ہے کہ درخت پر پھل باقی رکھے۔ ’’و علی المشتری قطعہا فی الحال اذا باع مطلقا او بشرط القطع‘‘ (عالمگیری:۳/۱۰۹)
اور اگر معاملہ اس شرط کے ساتھ طے پاجائے کہ مالک پھل درخت پر رہنے دے گا تاآنکہ پھل پک نہ جائے تو ائمہ ثلاثہ کے ہاں تو بیع فاسد ہوگی ہی، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی درست نہ ہوگی۔کیونکہ خریدوفروخت کے معاملہ میں خریدار نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے جس میں اس کے لئے منفعت ہے اور ایسی شرط سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے۔
۳) کچھ پھل نکل آئے اور کچھ نہیں نکلے بلکہ مستقبل میں ان کا نکلنا متوقع ہو، اب مالک باغ تمام پھلوں کو فروخت کرتا ہے۔ ان کو بھی جو نکل آئے اور ان کو بھی جو نہیں نکلے تو امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور احمدرحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز نہیں۔
اسی طرح اگر پھل قابل استعمال ہوگئے اور باغ کے باقی پھل ابھی قابل استعمال نہیں ہوں تو بھی امام شافعی واحمد کے برخلاف امام مالک نے اس کی اجازت دی ہے بشرطیکہ باغ کے تمام درخت ایک ہی پھل کے ہوں، احناف کے ہاں عام اصول کے مطابق نکلے ہوئے پھلوں کے ساتھ ان پھلوں کی فروخت درست نہ ہوگی جوابھی نکلے ہی نہ ہوں، یہی فقہاء احناف کے یہاں ظاہر روایت ہے۔
دوسری طرف عوام میں بڑھتا ہوا تعامل، کہ کچھ پھل آتے ہی باغ فروخت کر دیا جاتا ہے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے بعض فقہاء نے اس میں نرم روی اختیار کی ہے۔ چنانچہ ابن نجیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے نقل کیا ہے کہ امام فضلی کہتے ہیں کہ لوگوں کا انگور کی خریدوفروخت میں ایسی نوعیت کا تعامل ہوگیا ہے اور اب ان کو اس سے روکنے میں حرج ہے، اس لئے استحساناً میں اس کوجائز قرار دیتا ہوں، نیز امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے درخت پر لگے ہوئے گلاب کی خریدوفروخت کی اجازت دی ہے حالانکہ گلاب کے پھول یکبار گی نہیںنکلتے اور کھلتے ہیں، بلکہ یکے بعد دیگرے نکلتے ہیں۔
بعد کے فقہاء نے عام تعامل کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلہ میں امام فضلی ہی کی رائے پر عمل کیا ہے پھر چونکہ مارکیٹ میں جو کچھ پھل آتا ہے وہ اسی طریق پر اس لئے پھل کا کھانا ہی حرام ہوجائے گا۔ پس اب اس طرح کی خریدوفروخت نے ضرورت کا درجہ اختیار کرلیا ہے لہٰذا جس طرح انسانی ضرورت کی رعایت کرتے ہوئے آپﷺ نے’’ سلم‘‘ کی اجازت دے دی حالانکہ وہ ایک شے معدوم کو فروخت کرناہے اس طرح پھلوں کی خریدوفروخت کی اس نوعیت کے معاملات کو بھی درست کہنا چاہئے۔
۴)پھل نکل آئے اور انسانی استعمال کے قابل بھی ہوگئے جس کو حدیث میں’’بدوصلاح‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، ائمہ ثلاثہ مالک رحمہ اللہ تعالیٰ ،شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ اور احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس صورت میں بہرحال خرید وفروخت درست ہے، چاہے غیر مشروط خریدوفروخت ہو یا فوراً توڑنے کی شرط ہو یا پھل کی تیاری تک درخت پر رکھنے کی، نیز خریدار کو غیر مشروط معاملہ یا پھل کی تیاری تک درخت پر رکھنے کی شرط کی صورت میںحق حاصل ہوگا کہ پھل کی تیاری تک پھل درخت پر رہنے دیا جائے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ و ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پھل کے درخت پر ایک عرصہ لگے رہنے کی شرط لگا دی جائے تو بیع درست نہ ہوگی، امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل کی ہے کہ اگر پھل تیار ہوچکے ہوں تو ایسی شرط لگانے میں مضائقہ نہیں اور یہ شرط معتبر بھی ہوگی اور اگر پھل تیار ہونے سے پہلے اس طرح کا معاملہ ہو تو درست نہ ہوگا۔ عموم بلویٰ کے تحت طحاوی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔
ابن نجیم و حصکفی وغیرہ کے بیان کے مطابق اسی پر فتویٰ بھی ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 494)
پھلوں کی فروخت میں مروّج استثناء
ایک خاص عرف بعض علاقوں میں یہ ہے کہ خریدار پھل کی کچھ متعین مقدار مالک کو دیا کرتا ہے جس کو بعض مقامات پر ’’ڈالی‘‘ یا’’جنس‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اس صورت میں اگر باغ کے ایک درخت کی تعیین کرلی جائے کہ اس کا پھل خود مالک لے گا تب تو جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں ،اس لئے فقہاء نے فروخت میں کسی متعین درخت کے استثناء کو درست قرار دیا ہے لیکن اگر درخت کے بجائے پھل کی مقدار مستثنیٰ کی کہ اتنے پھل مالک کو دئیے جائیں گے جیسا کہ آج کل عام طور پر مروّج ہے تو یہ صورت مالکیہ کے یہاں جائز ہے احناف کے یہاں جائز نہیں۔
’’ولا یجوز ان یبیع ثمرۃ و یستثنی منھا ارطالا معلومۃ خلافا لمالک‘‘اور امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ اور احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی بھی وہی رائے ہے جو احناف کی ہے۔میراخیال یہ ہے کہ اولاً تو تعامل کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ میں بھی مالکیہ کی رائے اختیار کر لی جائے تو نامناسب نہیں، دوسرے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ احناف کے یہاں متفق علیہ نہیں ہے، صاحب ہدایہ کا کہنا ہے کہ یہ حسن بن زیاد کی روایت ہے ورنہ ظاہر روایت کا تقاضا ہے کہ اس کو جائز ہونا چاہئے اس لئے کہ جب وہ متعینہ مقدار فروخت کی جاسکتی ہے تو فروخت سے اس کا استثناء بھی کیا جا سکتا ہے:’’مایجوزایراد العقد علیہ بانفراد لا یجوز استثناء ہ من العقد‘‘(ہدایہ:۳/۱۱)
مولانا تھانویؒ نے بھی اس’’جنس‘‘ یا ’’ڈالی‘‘ کو تعامل کی بنا پر جائز قرار دیاہے۔
حقوق کی خریدوفروخت
ہمارے زمانہ میں اشیاء اور املاک کی طرح حقوق بھی خریدے اور بیچے جاتے ہیں، بلکہ بعض حقوق تو ایسے ہیں کہ معاشی اعتبار سے ا ن کی اہمیت عام اصول و جائداد کے مقابلہ کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، سوال یہ ہے کہ ایسے حقوق اس لائق ہیں کہ ان کی خریدوفروخت کی جاسکے؟ اس سلسلہ میں حاصل یہ ہے کہ بعض حقوق محض دفع ضرر کے لئے دیئے گئے ہیں، حالانکہ اصلاً انسان کو یہ حقوق حاصل نہ ہونے چاہئے تھے ۔مثلاً حق شفعہ، حق حضانت وپرورش، شوہر پر عورت کا حق عدل وغیرہ ۔ یہ حقوق ضرورۃً انسان کو دئیے جاتے ہیں اس لئے اگر کوئی شخص ان حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ان حقوق کا ضرورت مند نہیں ہے، لہٰذا اب وہ ان حقوق کے باب میں حقدار ہی باقی نہ رہا، ایسے حقوق کی نہ خریدوفروخت درست ہے نہ کسی اور طور اس کا عوض وصول کرنا جائز ہے۔ شامی نے موصی لہ کے حق خدمت اور شفیع کے حق شفعہ کے درمیان فرق کرتے ہوئے اس نکتہ پر روشنی ڈالی ہے:
’’وحاصلہ ان ثبوت حق الشفعۃ للشفیع وحق القسم للزوجۃ وکذلک حق الخیار فی النکاح للمخیرۃ انما ھو لدفع الضرر عن الشفیع والمرأۃ وماثبت لذلک لایصح الصلح عنہ… اما حق الموصی لہ بالخدمۃ فلیس کذلک بل ثبت لہ علی وجہ البر و الصلۃ فیکون ثابتالہ اصالۃ فیصح الصلح عنہ اذا نزل عنہ لغیرہ‘‘(ردالمحتار:ج۴ص۱۶)
دوسری قسم کے حقوق وہ ہیں جو حکم شرعی یا ایسے عرف کی بنا پر( جو شریعت کے عمومی مصالح سے مطابقت رکھتے ہوں) اصالۃً کسی شخص کے لئے ثابت ہوں یہ بھی دوطرح کے ہیں، بعض وہ ہیں جو ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل کئے جا سکتے ہیں، دوسرے وہ جن کا ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف انتقال نہیں ہو سکتا، ان کی خریدوفروخت بھی نہیں ہو سکتی کہ خریدوفروخت کے لئے انتقالِ ملک ضروری ہے اور یہ حقوق قابل انتقال نہیں ہیں۔ ہاں بطریق صلح و تنازل ( دست برداری) اس کا عوض وصول کیا جاسکتا ہے ، ان حقوق کی فروخت کے جائز نہ ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آپﷺ نے حق ولاء کے خریدوفروخت اور اس کے ہبہ سے منع فرمایا ہے۔ اور دست برداری اختیار کر کے عوض وصول کرنے کی دلیل قصاص وخلع ہے جس میں مقتول کا وارث حق قصاص اور شوہر بیوی پر’’ملکیت نکاح‘‘ سے باہم طے شدہ معاوضہ کے بدلہ دست کش ہو سکتا ہے اور یہ شریعت کے مسلّمات اورفقہاء کے متفقات میں سے ہے۔ رہ گئے وہ حقوق جن کی منتقلی ممکن ہے ’’مال‘‘ کے حکم میں ہیں اور ان کی خریدوفروخت درست ہے۔
اس تفصیل کے مطابق حقوق و منافع کی فروخت کی جو صورتیں فی زمانہ رائج ہوگئی ہیں وہ یہ ہیں:
خلو یعنی حق راہ اجارہ کی فروخت جس کو ’’پگڑی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حق ایجاد، حق تالیف، رجسٹرڈ ٹریڈ مارک اور ناموں کی فروخت نیز فضا کی فروخت ، اور یہ سب ہی جائز ہیں۔
سود
معیشت کے باب میں شریعت اسلامی نے جس چیز کو سب سے زیادہ ناپسند کیا ہے اور اس پر نفریں بھی بھیجی ہے وہ سود ہے۔ قرآن مجید نے کھلے لفظوں میں سودخوری کی ممانعت فرمائی: ’’ یاایھاالذین امنوالاتاکلواالربوا ‘‘قرآن میں ایک موقعہ پر سود خوروں کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کیف و حال کے ساتھ قبر سے اٹھیں گے کہ گویا آسیب نے ان کو ہوش و حواس سے محروم کردیا ہو اور کیوں نہ ہو کہ سود خوری ہے ہی ایسی لعنت جس کوحرص و ہوس،دنیا طلبی اور بیش ازبیش حصول دنیا کا جنون بے قابو کر کے رکھ دیتا ہے اور غریبوں اور کمزوروں کے پسینہ اور خون سے اس کو قندونبات کی لذت کا احساس ہونے لگتا ہے اس لئے قیامت میں ہو ش و حواس سے اس کی یہ محرومی اس کے جرم کے عین مطابق حال سزا ہے۔’’ ولا یظلم ربک احداً‘‘
پیغمبر اسلام ﷺ نے سخت غیظ و غضب اور تنبیہ و توبیخ کے لہجہ میں سود کی ممانعت فرمائی ہے، ارشاد ہواکہ سود کے ۷۲ درجہ گناہ ہیں اور اس میں کمتر گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ سود کا ایک درہم حالت اسلام میں تینتیس بار زنا سے بڑھ کر ہے۔ ایک روایت میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی آبادی میں سود اور زنا کی کثرت ہوجاتی ہے تو پھر ان پرعذاب الہٰی کا ظہور ہوتا ہے۔ ایک موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ جب کسی قوم میں سود عام ہوجاتا ہے تو اس پر قحط مسلط کیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے نہ صرف سود کے کھانے کو منع فرمایا بلکہ سود کے معاملہ میں کسی طرح کے تعاون کو بھی ممنوع قراردیا ، خود زبان رحمت مآبﷺ کے ذریعہ سود لینے والے ،دینے والے، گواہ بننے والے اور سود ی کاروبار رکھنے والے سب لوگوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔
بنک انٹرسٹ
سود ایسے اضافہ کو کہتے ہیں جس کے مقابلہ میں معاملہ کے دوسرے فریق کی طرف سے کوئی عوض نہ ہو، یہی تعریف تقریباً دوسرے اہل علم نے بھی کی ہے۔ سود کی اس تعریف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سود چاہے کسی وقتی ضرورت کے تحت قرض پر لیاجائے یا تجارتی قرض پر، وہ بہر صورت حرام ہے کیونکہ حدیث اور فقہاء کی تصریحات سے سود کی جو حقیقت سامنے آتی ہے اس میں دونوں ہی طرح کے سود شامل ہیں۔
(جاری ہے)
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 495)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ بینک وغیرہ جو لوگوں کی رقوم کو تجارتی اغراض کے لئے استعمال کرتا ہے اس کی طرف سے ملنے والا نفع’’سود‘‘ میں داخل نہیں ہے کیونکہ اس سے غریبوں کا استحصال نہیں ہوتا۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ:
۱)آپﷺ نے کسی تفریق کے بغیر ہر طرح کے قرض پر نفع کے حصول کو ناجائز قرار دیا ہے، ارشاد ہوا’’کل قرض جر نفعا فھوربا‘‘
۲)یہ رائے اس اصول پر مبنی ہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں سود خوری کی جو کیفیت پائی جاتی تھی، آیت ربا میں صرف اسی صورت کی ممانعت تسلیم کی جائے گی، لیکن یہ فقہاء کے اس اصول مقررہ کے خلاف ہے کہ نصوص میں ہمیشہ الفاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ اس کے موقعۂ ورود کا،’’ العبرۃ العموم اللفظ لالخصوص المورد‘‘
۳)خود زمانۂ نبوت میں بھی تجارتی قرضوں اور سودی قرضوں کا رواج تھا لیکن ربا کی حرمت سے متعلق آیات و روایات میں تجارتی وغیر تجارتی قرضوں میں کسی طرح کی تفریق نہ کی جانی اس بات کی علامت ہے کہ ممانعت کا یہ حکم تجارتی قرضوں کو بھی شامل ہے۔
۴)یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ تجارتی قرضوں میں استحصال نہیں ہوتا کیونکہ تاجر کو اس سرمایہ کے استعمال میں نقصان بھی ہوسکتا ہے، کبھی نہ نفع اورنہ نقصان کی صورت بھی پیش آسکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ نفع کے مقرر کردہ تناسب کے برابر بھی نفع حاصل نہ ہوسکے۔
بینک انٹرسٹ کا مصرف
اس تفصیل کی روشنی میں بینک سے حاصل ہونے والا نفع رباہے جس کو بینک میں چھوڑنے سے ایک سودی کاروبار کا تعاون ہوتا ہے اور کبھی ایسی رقوم کا استعمال اسلام کے خلاف بھی ہوتا ہے، اس لئے اس رقم کا نکال لینا اور نکال کر فقراء و مساکین پر یار فاہی امور میں خرچ کردینا واجب ہے۔ البتہ مساجد کی تعمیر میں اس کا استعمال اس کی عظمت و حرمت کے خلاف ہے اس لئے اس سے منع کیا جائے گا۔
سودی قرض لینا کب جائز ہے؟
سودی قرض لینا کب جائز ہے؟ ابن نجیم نے اس بارے میں لکھا ہے کہ حاجت مندوں کے لئے سودی قرض لینے کی گنجائش ہے۔ لیکن یہ مسئلہ کہ کس حاجت کو شرعی حاجت شمار کیا جائے گا؟فقہاء کی صراحتوں سے اصولی طور پر اس سلسلہ میں یہ بات منقح ہوتی ہے کہ:
۱)عام حالات میں محض معیار زندگی کی بلندی ،خو ب سے خوب تر کی تلاش کے پیش نظر سودی قرض لینا جائز نہیں۔
۲)ضرورت یعنی ایسے حالات میں جبکہ کھانے کپڑے، علاج وغیرہ کی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے سودی قرض کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور فاقہ مستی کی نوبت ہو تو سودی قرض لینا جائز ہے۔
۳)حاجت کے تحت بھی یعنی جب سودی قرض نہ لینے کی شکل میں شدید مشقت یا ضرر کااندیشہ ہوتو بھی سودی قرض لینے کی گنجائش ہے، جیسے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لئے اس پر مجبور ہو۔
مشقت کی ایسی صورتوں میں جو اجتماعی بن گئی ہوں، حکم نسبتاً زیادہ خفیف ہے۔اشخاص و افراد کے لئے سودی قرض کب حاجت بن جاتا ہے اور کب نہیں؟ اس کا اندازہ ان کے شخصی حالات، ان کے علاقے اور خاندان کے معیار زندگی سے کیا جائے گا۔
رہن کے مال سے فائدہ اُٹھانا
اسلام نے سود کا دروازہ بند کرنے کے لئے قرض کا دروازہ کھولا ہے بلکہ قرض کے ذریعہ غریبوں اور کمزوروں کی مدد کی حوصلہ افزائی کی ہے اور زکوٰۃ کی ایک مستقل مد مقروضوں کی اعانت کو قرار دیا ہے۔’’ وللغارمین‘‘قرض پر بطور وثیقہ اور ثبوت کے رہن رکھنے کی بھی اجازت دی گئی ہے اور یہ بھی قرآن ہی نے بتادیا ہے کہ مال مرہون پر قبضہ ہی برقرار رکھنے کا حق ہوگا، نفع اٹھانے کا حق نہیں ہوگا۔’’ فان لم تجدواکاتباً فرھٰن مقبوضۃ‘‘ خود رسول اللہﷺ نے اپنی زرہ مبارک ایک یہودی کے پاس رہن رکھ کر کچھ کھانے کی اشیاء خرید فرمائی تھیں۔ لیکن چونکہ اسلام میں قرض پر کسی بھی طرح کا نفع اٹھانا حرام ہے اورپیغمبر اسلامﷺ نے اس کو سود قرار دیا ہے’’کل قرض جرنفعا فھوربا‘‘ اور سود کے بارے میں حقیقت سود تو کجاشبہ سود بھی ناقابل برداشت ہے اس لئے راہن کے سامان سے فائد ہ اٹھانا جائز نہیں ہوگا۔
اس میں شبہ نہیں کہ بعض فقہاء احناف نے مالک کی اجازت سے رہن سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سود کا حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا بہر حال ناجائز ہے گورضامندی اور خوشی سے حاصل کیا جائے ۔ خاتم الفقہا ء علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلو پر توجہ کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فقیہ عبداللہ سمرقندی مالک کی اجازت سے بھی سامان رہن سے فائدہ اٹھانے کو ناجائز قرار دیتے تھے، پھر بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ اگر قرض دیتے وقت سامان رہن سے فائدہ کی شرط لگادی ہو تب ناجائز ہوگا اور سود ہوگا ورنہ نہیں، علامہ شامی نے اس’’ اگر مگر‘‘ پر خود تبصرہ کیا ہے اور لکھا ہے:
’’لوگوں کے عمومی حالات یہ ہیں کہ لوگوں کا مقصود دے کر نفع حاصل کرنا ہوتا ہے، ایسانہ ہو تو وہ طالب قرض کو درہم نہ دیں اور یہ شرط کے درجہ میں ہے اس لئے کہ رواج شرط کے درجہ میں ہے اور یہ بات اس صورت کے ممنوع ہونے کو متعین کردیتا ہے۔‘‘(شامی:ج۵ص۳۱۰،۳۱۱)
پس قول فیصل، رائے صحیح ، مذہب محتاط اور اسلام کے اصول عامہ سے ہم آہنگ یہی بات ہے کہ سامان رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا قرض دہندہ کے لئے جائز نہیں، نہ مقروض کی اجازت سے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر۔ فی زمانہ رہن کی زمین کی کاشت و پیداواری اور مکان کی رہائش وغیرہ سے انتفاع کا جورواج ہو گیا ہے وہ قطعاً ناجائز خلاف شریعت اور سود میں داخل ہے۔
فروخت پر شرط واپسی
آج کل شہروں میں بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جتنا روپیہ قرض لینا یا دینا ہوتا ہے، مقروض اپنا مکان قرض دینے والے کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ فروخت کردیتا ہے کہ وہ جب قرض ادا کر ے گا تو اپنا مکان واپس لے لے گا اور پھر وہ بدستور اس کی ملک میں آجائے گا۔
فقہاء کے یہاں اس کو بیع بالوفائ، رہن معاد، بیع امانت اور بیع اطاعت سے تعبیر کیا جاتا ہے، شریعت کے اصول کے مطابق اگر کوئی ایسی شرط لگا دی جائے جو تقاضائے خرید وفروخت کے خلاف ہو تو خریدوفروخت درست نہیں ہوئی، یہاں چونکہ اس معاملہ کے ساتھ یہ شرط بھی لگادی گئی ہے کہ ایک مدت کے بعد وہ شے واپس کردینی ہوگی اور یہ بیع کے اصول اور تقاضوں کے خلاف ہے، اس لئے معاملہ درست نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ عملاً اس کی صورت بالکل رہن کی سی ہے اور فقہاء نے بھی ایک طرف اس کے غیر معمولی تعامل اور دوسری طرف فقہی قباحت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کو رہن کی حیثیت سے جائز رکھا ہے، اب اس معاملہ کو رہن قرار دینے کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ اس خریدار کو جس کی حیثیت دراصل رہن رکھے گئے مال کے امین کی ہے اور جسے فقہ کی اصطلاح میں’’مرتہن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اس سے استفادہ کا کچھ حق نہیں ہوگا۔
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 496)
’’ وہ بیع جس کا آج کل ہمارے زمانہ میں سود سے بچنے کے لئے حیلہ کیا جارہا ہے اور لوگ اس کو بیع وفاء کا نام دیتے ہیں درحقیقت’’ رہن‘‘ ہے، نہ وہ اس کا مالک ہے اور نہ ہی مالک کی اجازت کے بغیر اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، درخت کا جو پھل وہ کھائے یا درخت کو جو نقصان پہنچائے وہ اس کا ضامن ہوگا۔‘‘(رد المحتار:ج۵ص۲۴۶)
رشوت
شریعت میں کمائی کے جن طریقوں کی سخت مذمت کی گئی ہے ان میں ایک رشوت بھی ہے۔ رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ ایک حدیث میں تو آپﷺ نے ان دونوں پر اپنی زبان مبارک سے لعنت بھیجی ہے۔
رشوت ظلم نہ کرنے کے لئے حاصل کی جانے والی رقم بھی ہے اور جائز حق دینے پر لی جانے والی رقم بھی۔ لینا تو بہر طور حرام ہے البتہ اپنی جان و مال، عزت و آبرو کے تحفظ اور انصاف اور جائز حق کے حصول کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے۔ اسی طرح کسی دشمن اسلام کے شر سے حفاظت کے لئے اس کو رشوت دی جائے یہ بھی جائز ہے، جیسا کہ خود حضورﷺ مفسد شعراء کی زبان بندی کے لئے دیا کرتے تھے۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس قسم کی ناجائز رقوم ہدیہ یا انعام کے نام پر دی جائیں تب بھی وہ رشوت ہی ہیں، اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ قاضی کے لئے قریبی رشتہ داروں اور وہ لوگ جو پہلے سے تحفہ دینے کے عادی نہ ہوں یا دیتے رہتے ہوں لیکن اس مقدار میں نہ دیا کرتے ہوں یا قاضی کے اجلاس میں ان کا مقدمہ ہو تو ان کا تحفہ یادعوت قبول کرنا جائز نہیں۔ علامہ شامی رحمہ اللہ تعالیٰ نے لکھا ہے کہ یہی حکم گائوں اور مختلف شعبوں کے ذمہ داروں ،حکومت کی طرف سے مقررہ مفتیوں ، حکومت کے عُمّال، مارکیٹ کے ذمہ داران وغیرہ کا بھی ہے بلکہ مقروض قرض دہندہ کو خلاف عادت تحفہ دے تو یہ بھی اسی حکم میں ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات عیاں ہے کہ دفتروں اور آفسوں میں کام کرنے والے لوگ اپنے مفوضہ فرائض کی انجام دہی پر انعام وغیرہ کے نام سے جو وصول کرتے ہیں اور جو قبیح اور غیر شرعی رواج کے تحت معمول میں داخل ہوگئے ہیں قطعاً ناجائز اور حرام ہیں، رشوت ہیں اور ان کا واپس کر دینا واجب ہے۔
قماروجوا
اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ہر شخص کو خود اپنی محنت اور جدوجہد سے نفع حاصل کرنا چاہئے، محنت کے بغیر محض دوسروں کا استحصال کر کے فائدہ اٹھانے کو اسلام ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، اسی لئے تجارت کو نہ صرف جائز بلکہ بہترقرار دیا گیا ہے کہ اس میں تاجر اپنی محنت اور ذہانت کا حاصل وصول کرتا ہے اور سود کو ناجائز اور حرام کیا گیا کہ اس میں سود خور کسی محنت کے بغیر غریبوں اور مفلسوں کا استحصال کر کے سرمایہ بڑھاتارہتا ہے۔
قمار میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے۔ قمار کا اطلاق ہر ایسے معاملہ پر ہوتا ہے جونفع اور نقصان کے درمیان دائر ہو، مثلاً لاٹری کا ٹکٹ ہے اگر کوئی شخص پانچ روپیہ میں خرید کرتا ہے تو اسے نفع کی بھی امید ہے اور نقصان کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ایک لاکھ روپیہ کا مجوزہ انعام مل جائے اور عین ممکن ہے یہ پانچ روپیہ بھی واپس نہ آئے، یا مثلاً دوآدمی میں دوڑ کا مقابلہ ہو کہ اگر تم آگے بڑھ گئے تو تم کو پانچ روپے دے دیں گے اور ہم بڑھ گئے تو تم کو ہمیں دینا ہوگا، یہاں معاملہ نفع اور نقصان کے درمیان دائر ہے، اس لئے’’قمار‘‘ ہوگا۔
یہاں بھی دراصل وہی بات پائی جاتی ہے کہ حاصل ہونے والا نفع کسی محنت کا معاوضہ نہیں ہے اور جو نقصان پہنچاہے اس کی کوئی معقول اور منصفانہ وجہ نہیں ہے۔
جس شخص کو لاٹری کے ایک لاکھ روپے مل گئے، اس نے یہ رقم ذاتی محنت اور جہدوکاوش سے حاصل نہیں کی ہے اور جس کے پانچ روپیہ رائیگاں گئے اس کے یہ پانچ روپے کسی معقول وجہ کے بغیر اس ایک لاکھ روپے حاصل کرنے والے کے ہاتھ چلے گئے۔
اس کو’’شرکت‘‘ اور’’مضاربت‘‘ پر قیاس نہیں کرنا چاہئے، وہاں نفع اور نقصان معاملہ کے ہر دوفریق کو یکساں طور پر پہنچتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک کو نفع ہواور دوسرا نقصان اُٹھائے، اس طرح نفع اور نقصان کا مدار’’اتفاق‘‘ نہیں ہے بلکہ ان کی ذاتی محنت اور کاوش ہے جبکہ قمار میں ایک فریق مکمل فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا فریق مکمل نقصان۔نیز نفع و نقصان کی بنیاد محنت نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔
قمار کے نقصانات
قمار کے جو اخلاقی اور تمدنی اثرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ بجائے خود ایسے ہیں کہ ان سے منع کیا جائے۔ اس کی وجہ سے حرص و لالچ پیدا ہوتی ہے آدمی خودغرض اور ہوس پرست بن جاتا ہے، باہم حسدوڈاہ کی نفسیات جاگتی ہے، آپس میں نفرت و عناد جڑ پکڑتی ہے اور سعی و محنت کے بجائے اسی طرح بیٹھے بٹھائے کھانے کمانے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ ہیں:
’’قمار سے حاصل ہونے والا مال حرام اور باطل ہے اس لئے کہ یہ لوگوں سے ان کا مال چھیننا اور جہالت ، حرص ولالچ اور غلط آرزوئوں کے پیچھے چلنا ہے…تمدن اور تعاون میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے ،نقصان اٹھانے والا خاموش رہ جائے تو غصہ اور افسوس کے ساتھ خاموش رہے گا،لڑے تو ایک ایسی بات پر لڑے گا جس کا سبب وہ خود بنا ہے، فائدہ اٹھانے والا اس جوئے سے لذت اندوز ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں گرفتار رہتا ہے اور یہ حرص کسی مقام پر جا کر رکتی نہیں ہے۔ اس کاسلسلہ چل پڑے تو معیشت کونقصان ہوگا، باہمی مخاصمت بڑھے گی، معاشی تگ و دوٹھپ پڑجائے گی اور اس تعاون سے جو تمدن کی بنیاد ہے، لوگوں میں اعراض پیدا ہوجائے گا، اگر آپ نے کسی جوئے خور کو دیکھا ہے تو آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہوگا۔‘‘(حجۃ اللہ البالغہ: ج۲ ص۹۸)
جوئے کے نقصانات کا اہم پہلویہ ہے کہ ایک عادت سی بن جاتی ہے ایک شخص ہارتا اور نقصان اٹھاتا جاتا ہے اور پھر اپنی بقیہ پونجی کو ایک موہوم فائدہ اور جیت کی امید پر لگاتا چلاجاتا ہے، اکثراوقات یہ مدہوشی انسان کو مکمل قلاش اور دریوزہ گر بنا کر چھوڑتی ہے او ر کبھی کبھی تو معاملہ اس حدتک فزوں ہوجاتا ہے کہ لوگ مال و سرمایہ سے گزر کر عزت و آبرو کا سودا کرنے اتر آتے ہیں اور بیوی بیٹی تک کی بازی لگا چھوڑتے ہیں۔’’العیاذ باللہ‘‘
قمارایام جاہلیت میں
ایام جاہلیت میں قمار کا رواج بہت زیادہ تھا، اس کی زیادہ رائج صورت یہ تھی کہ ان کے پاس کچھ پانسے ہوتے تھے جن پر مختلف مقدار لکھی رہتی تھی، مثلاً تہائی (ثلث) آدھا(نصف) وغیرہ بعض پر’’لا‘‘(نہیں) لکھا ہوتا تھا، اب جس کے نا م پر جو پانسا نکلا اسی کے بقدراس کو حصہ ملتا تھا اور جس کے نام پر’’لا‘‘ ہوتا وہ بالکل محروم قرار پاتا تھا، حالانکہ جس شے کی تقسیم کی جاتی اس میں سب ہی کے سرمائے یکساں طور پر لگتے تھے۔ اسی کو وہ’’ازلام‘‘ کہا کرتے تھے۔