حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
شوہر اگر بچہ کی ولادت کے فوراً بعد اس بات سے انکار کردے کہ وہ اس کا بچہ ہے یا اس وقت انکار کردے جب مبارک باد وغیرہ دی جاتی ہے تو قاضی جہاں لعان کے ذریعے میاں بیوی میں علیحدگی کردے گا وہیں یہ بھی ہوگا کہ بچہ کا نسب اس مرد سے ثابت نہیں ہوگا اور وراثت وغیرہ اس سے نہیں ملے گی لیکن اگر مبارک باد وغیرہ کا وقت گزر گیا اور اس کے بعد اس نے بچہ کے ولدالزنا ہونے کا دعویٰ کیا تو لعان کے ذریعہ ان دونوں میں علیحدگی کرادی جائے گی مگر بچہ کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوگا۔ تاہم خیال رہے کہ محض شک اور احتمال وامکان کی بنا پر بیوی پر اتنا بڑ االزام دھرنا سخت گناہ ہے اور مبغوض عمل ہے۔ لعان اسی وقت ہے جبکہ ایک شخص اپنی بیوی کو عین زنا میں دیکھے اور اس بدکاری میں ملوث پائے۔
ایلاء و ظہار
رشتہ ازدواجی میں جو چیزیں حرام اور باعث گناہ ہیں ان میں ایلاء اور ظہار بھی ہے۔ ایلاء سے مراد بیوی سے تعلق ازدواجی نہ رکھنے کی قسم کھا لینا ہے، ایسی صورت میں اگر چار ماہ تک بیوی سے صحبت نہیں کی تو بیوی پر ازخود طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔
ظہاریہ ہے کہ اپنی بیوی یا اس کے کسی حصہ کو محرم رشتہ دار یا اس کے کسی ایسے حصہ سے تشبیہ دے جس کو دیکھنا حرام ہے، ظہارچونکہ ایک گناہ اور بیوی کو اذیت پہنچانا ہے اس لئے گناہ اور معصیت ہے اور اس کی سزا یہ ہے کہ مقررہ کفارہ جب تک ادا نہ کرے بیوی سے مباشرت نہیںکر سکتا۔ ظہار کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام یا باندی کو آزاد کرے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دومہینے روزہ رکھے یہ بھی نہ ہو سکتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے…یہ سزائوں کا متعین کیا جانا اور کفارات کا واجب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ایلاء وظہار گناہ اور اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ باتیں ہیں۔
خاندانی منصوبہ بندی
موجودہ زمانے کے سماجی مسائل میں ایک اہم مسئلہ ضبط ولادت اور خاندانی منصوبہ بندی کا ہے، بعض مغربی مفکرین نے معاشی و سائل اور مسائل کے درمیان توازن باقی رکھنے کے لئے ضبط تولید کے نظریہ کو ایک ضرورت کا درجہ قرار دے کر پیش کیا ہے۔ اسلام بنیادی طور پر معاشی و جوہ کے تحت خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں نہیں ہے اس کا ایقان ہے کہ جو خدا کائنات میں ضرورت مند انسانوں اور حیوانوں کو پیدا کرتا ہے، وہی خدا مناسب حال وسائل معاش اور غذائی پیداوار میں بھی اضافہ کرتا رہتا ہے کہ وہ رزّاق بھی ہے اور علیم وقدیر بھی۔
ہاں بعض اوقات خصوصی طبی ضروریات کے تحت یہ بات درست ہے کہ متعلق افراد ضرورۃً ضبط ولادت کی بعض صورتیں اختیار کرلیں۔ ضبط ولادت کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام بھی الگ الگ ہیں، اس لئے مختلف صورتوں کے بارے میں الگ الگ احکام لکھے جاتے ہیں۔
مستقل منع حمل
منع حمل کی ایسی صورت جو مستقل طور پر قوت تولید کو ختم کردے جس کے لئے ہمارے زمانے میں مردوں کی نس بندی اور عورتوں کا آپریشن کیاجاتا ہے ،اصلاً حرام ہے۔ قدیم زمانہ میں اس کے لئے’’ اختصائ‘‘ کی صورت اختیار کی جاتی تھی۔ بعض صحابہؓ نے خود کو خصی کرنا چاہا تاکہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت کے لئے یکسو کرسکیں تو آپﷺ نے منع فرمایا ۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضورﷺ نے اس کی اجازت دی ہوتی توہم لوگ خصی ہوجاتے۔’’ رد رسول اللّٰہﷺ علی عثمان بن مظعون التبتل ولواذن لاختصینا‘‘ (بخاری ومسلم)اسی بنا پر فقہاء نے بھی ’’ اختصائ‘‘ کو حرام قراردیا ہے۔ قاضی ابو الحسن ماوردی لکھتے ہیں:’’ ویمنع من خصاء الادمیین والبھائم ویؤدب علیہ‘‘(الاحکام السلطانیہ) حافظ ابن حجرؒ نے نہ صرف اختصاء بلکہ ایسی ادویہ کے استعمال کو بھی حرام قرار دیا ہے جو قوت تولید کو ختم کر دے اور اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔
’’و الحجۃ فیہ انھم اتفقوا علی منع الجب و الخصاء فیلحق بذلک مافی معناہ من التداوی بالقطع اصلاً‘‘(فتح الباری)
نفخ روح کے بعد اسقاط
اسقاط حمل کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے ہمیں اس کے دومرحلوں پر غور کرنا چاہئے۔ ایک صورت یہ ہے کہ حمل میں جان پیدا ہوچکی ہے۔ حدیث کے مطابق استقرار حمل کے چار ماہ یعنی ۱۲۰ دن بعد روح پیدا ہوتی ہے ، غالباً ’’ علم الجنین‘‘ کے جدید ماہرین بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ روح پیدا ہونے کے بعد اسقاط حمل بالا جماع حرام ہے، احمد علیش مالکی فرماتے ہیں:’’والتسبب فی اسقاطہ بعد نفخ الروح فیہ محرم اجماعا وھومن قتل النفس‘‘(فتح العلی المالکی:ج۱ص۳۹۹)
اور فتاویٰ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ میں ہے:
’’اسقاط الحمل حرام باجماع المسلمین وھومن الواد الذی قال تعالیٰ فیہ واذاالموؤدۃ سئلت بای ذنب قتلت‘‘(ج۴ص۲۱۷)
البتہ اگربچہ بطن مادر میں زندہ ہو اور اس کے ساتھ اسقاط کے بغیر ماں کی زندگی بچانا ممکن نہ ہو تو اس وقت اسقاط کی اجازت ہونی چاہئے، اس لئے کہ ان دونوں ضرر میں سے ماں کی موت بڑاضرر ہے اور بچہ کی موت کم تر ضرر۔ نیز ماں کا زندہ وجود مشاہدو معائن ہے اور بچہ کا مظنون جیسا کہ فقہاء نے استحساناً ان مسلمانوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے جنہیں کفار اپنے لشکر کے آگے ڈھال بنائے رہیں کہ مملکت اسلامیہ کا اہل اسلام کے ہاتھ سے نکل جانا چند مسلمانوں کی موت کے مقابلہ میںبڑا ضرر ہے۔
یہاں ان عبارتوں سے شبہ ہوسکتا ہے جن میں ایک شخص کی جان لے کر دوسرے کی جان بچانے کو فقہاء نے منع کیا ہے، مثلاً ابن نجیم کی یہ عبارت کہ’’لان احیاء نفس بقتل نفس اخری لم یرد فی الشرع‘‘(البحر الرائق: ج۸ ص۲۰۵) یا شرح السیر الکبیر کی یہ عبارت کہ’’ ان المسلم لایحل لہ ان یقی ورحہ بروح من مثلہ فی الحرمۃ‘‘ مگر اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب دونوں زندگیاں اور دونوں وجود ایک درجہ کے ہوں اور یہاں ماں کا وجود مشاہد ہے جبکہ بچہ کی زندگی موہوم ہے۔
نفخِ روح سے قبل اسقاط
نفخِ روح سے پہلے اسقاط حمل کے متعلق بعض فقہاء کی عبارتوں سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو مطلقاً جائز اور درست سمجھتے ہیں، اس طرح کی تحریریں احناف، شوافع اور حنابلہ تینوں ہی کے یہاں موجود ہیں۔ البتہ مالکیہ اور شوافع میں امام غزالیؒ نے نفخ روح سے پہلے بھی اسقاط حمل کو مطلقاً جائز قرار دیا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ احناف شوافع اور حنابلہ کے ہاں بھی یہ جواز اس صورت میں ہے جب کوئی عذر در پیش ہو، بلا عذر اسقاط ممنوع اور گناہ کا باعث ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:’’لا یخفی انھا تاثم اثم القتل لواستبان خلقہ ومات بفعلھا‘‘ ( یہ بات ظاہر ہے کہ اگر اس کی تخلیق ظاہر ہوجائے اور عورت کے کسی فعل کی وجہ سے اس کی موت ہو تو اس کو قتل کا گنا ہ ہوگا)(رد المحتار:ج۵ص۵۱۹)
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 482)
اعضاء کے ظہور سے پہلے اور اسقرار حمل کے بعد بھی اسقاط جائز نہیں ’’ انہ یکرہ فان الماء بعد ماوقع فی الرحم مالہ الحیاۃ فیکون لہ حکم الحیاۃ کمافی بیضۃ صید الحرم‘‘(اعضاء کے ظہور سے پہلے بھی اسقاط مکروہ ہے کیونکہ مادئہ منویہ کے رحم میں جانے کے بعد اب اس کا مآل حیات اور زندگی ہے لہٰذاوہ زندہ وجود کے حکم میں ہوگا جیسا کہ حرم کے شکار کے انڈے کا حکم ہے۔(رد المحتار:ج۵ص۵۵۲)
پس یہ بات قریب قریب بے غبار ہے کہ نفخِ روح سے قبل بھی اسقاط حمل جائز نہیں،البتہ کسی ایسے عذر کی بنا پر جو عندالشرع معتبر ہے، اسقاط حمل جائز ہوگا اور ظہیریہ اور عالمگیری وغیرہ میں جہاں مطلقاً اسقاط حمل کا جوازمذکور ہے وہاں حالت عذر ہی میں اسقاط حمل مراد ہے، یہ اعذار دو طرح کے ہوسکتے ہیں، ایک وہ جن کا تعلق خود جنین سے ہو مثلاً خلقی نقص، جسمانی اعتبار سے عدل اعتدال یا خطرناک موروثی امراض کا وجود۔ ان اعذار کی بنا پر اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے اس لئے کہ جب ’’ استبانت خلق‘‘ سے پہلے بعض شرائط کے ساتھ اس مقصد کے لئے بھی اسقاط کی اجازت دی ہے کہ زیر پرورش بچہ کی رضاعت متاثر نہ ہو اور زیربحث صورت میں خود پیدا ہونے والے بچہ کو پیدائش کے بعد جس ضرر قوی کا اندیشہ ہے وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے رضاعت والے ضرر سے بڑھ کر ہے اس لئے ان صورتوں میں بدرجہ اولیٰ اسقاط جائز ہونا چاہئے۔
دوسری قسم کے اعذار وہ ہیں جن کا تعلق’’ ماں‘‘ سے ہو، مثلاً ماں کی جان کو خطرہ ہو، دماغی توازن متاثر ہونے کا اندیشہ ہو، جسمانی یاد ماغی طور پر معذور ہونے کی وجہ سے بچہ کی پرورش کرنے کی اہل نہ ہو اور دوسرے رشتہ داربھی نہ ہوں جن سے توقع ہو کہ وہ اس بچہ کی پرورش کریں گے، زنا بالجبر سے حاملہ ہوگئی ہو، ان تمام صورتوں میں نفخ روح سے پہلے اسقاط جائز ہوگا کیونکہ فقہاء نے اس سے کم ترقسم کے اعذار پر بھی اسقاط کی اجازت دی ہے، البتہ اگر ماں باپ یوں ہی اولاد نہ چاہیں اور اس غرض کے لئے اسقاط کرائیں یاماں کی عام صحت پر اثر پڑنے کا اندیشہ ہو لیکن کسی غیر معمولی مرض کا امکان نہ ہو تو ایسی صورتوں میں نفخ روح سے قبل بھی اسقاط حمل درست نظر نہیں آتا۔
مانع حمل ادویہ
عارضی منع حمل کی یہ صورت کہ ایسی ادویہ استعمال کی جائیں کہ مردکا مادئہ منویہ عورت کے جسم کے داخلی حصہ میں پہنچ جائے لیکن تولید کے لائق باقی نہ رہے، یہ بھی بلاعذر جائز نہیں۔ شمس الائمہ سرخسی حنفیؒ فرماتے ہیں:
’’مادئہ منوریہ رحم میں جب تک فاسد نہ ہو اس وقت تک زندگی قبول کرنے کا اہل ہوتا ہے لہٰذا اس کو ہلاک کرنے پر تاوان واجب کئے جانے کے مسئلہ میں وہ زندہ وجود کی طرح ہے جیسا کہ محرم شکار کا انڈا توڑ دے تو وہ جزاواجب ہونے کے حق میں خود شکار کے درجہ میں ہے۔‘‘ (مبسوط:۲۶/۸۷)
شیخ احمد علیش مالکی لکھتے ہیں:
’’منع حمل کے لئے ادویہ کا استعمال جائز نہیں اور جب رحم منی کو قبول کرلے توزوجین یا ان میں سے ایک یا آقا کے لئے اعضاء کی تخلیق سے پہلے بھی قول مشہور کے مطابق اسقاط کی تدبیر کرنا جائز نہیں۔‘‘(فتح العلی المالکی:ج۱ص۳۹۹)
مانع حمل کے خارجی ذرائع
عارضی منع حمل کے لئے نرودھ کا استعمال کرنا یا عورت کے رحم پر کوئی غلاف چڑھا دینا بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ اوائل اسلام میں’’ عزل‘‘ کا ذکر ملتا ہے، عزل کی اباحت اور کراہت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے اور اکثر شروح حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے، تاہم اکثر صحابہ اور سلف صالحین اس کو مکروہ ہی سمجھتے تھے۔ احناف کی طرف منسوب ہے کہ وہ اس کو بلاکراہت مباح سمجھتے ہیں لیکن ابن ہمام کا بیان ہے کہ مشائخ احناف میں بھی بعض اس کی کراہت کے قائل ہیں۔’’فی بعض اجوبۃ المشائخ الکراھیۃ فی بعضھا عدمھا‘‘ مشہور حنفی محدث ملاعلی قاری نے عزل کے متعلق حدیث کے اس فقرہ’’ذلک الواد الخفی‘‘ کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’لا یدل علی حرمۃ العزل بل یدل علی الکراھۃ‘‘(مرقاۃ المفاتیح:ج۳ص۴۴۱) حقیقت یہ ہے کہ احادیث کے لب ولہجہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
نرودھ کا عزل کے حکم میں ہونا تو واضح ہے۔ لوپ بھی اسی حکم میں ہے، اسی لئے فقہاء نے مرد کے عزل کرنے کے درست ہونے کو جس طرح عورت کی رضا مندی پر مشروط رکھا ہے اسی طرح عورت کے فم رحم کے کسی طرح بند کرنے کو بھی مرد کی رضامندی پر مشروط کیا ہے۔’’یجوزللمرأۃ ان تسد فم الرحم منھا من وصول ماء الرجل الیہ لاجل منع الحمل واشترط صاحب البحر لذلک اذن الزوج‘‘ (ردالمحتار:ج۲ص۴۱۲) اور غور کیا جائے تو مقام مخصوص پر مانع حمل دوائوں کا لگانا بھی اسی حکم میں ہے، اس لئے کہ عزل اور لوپ کے استعمال سے…مادئہ منویہ عورت کے رحم میں داخل ہی نہیں ہوپاتا اور اس قسم کی ادویہ کے استعمال سے بھی مرد کے مادۂ منویہ کے تولیدی جراثیم مرجاتے ہیں اورعورت کے رحم تک پہنچ نہیں سکتے۔
پس چونکہ عزل مکروہ ہے اس لئے بلاعذر منع حمل کے ان ذرائع کا استعمال بھی مکروہ ہے اس سلسلہ میں بعض اعذار خاص طورپر قابل ذکر ہیں۔مثلاً:
ماں کے لئے ہلاکت کا خطرہ ہو، ان کی دماغی صحت یا جسمانی کمزوری یاکسی شدید مرض کا اندیشہ ہو، ماں بچہ کی پرورش کے لائق نہ ہو اور کوئی متبادل نظم نہ ہو، بچہ کے شدید امراض میں ابتلاء کا امکان ہو، دوبچوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھنا مقصود ہو، یہ اور اس طرح کے اعذار ہیں کہ ان کی وجہ سے ایسے عارضی موانع کا استعمال درست ہے، اس لئے کہ فقہاء نے اس سے کمتر امر مثلاً بچوں سے متوقع نافرمانی اور بدسلوکی کے خوف سے بھی عزل کی اجازت دی ہے، فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’رجل عزل عن امرأتہ بغیر اذنھا یخاف من الولد السوء فی ھذاالزمان فظاھر جواب الکتاب ان لایسعہ وذکر ھھنا یسعہ لسوء الزمان‘‘ (عالمگیری:ج۴ص۱۱۲)
چھوٹا خاندان رکھنے کے لئے اس کا استعمال درست نہیں کہ ’’تزوجواالودود الولود‘‘(حدیث) کے خلاف ہے، سماجی دل چسپی کے لئے سلسلۂ تولید پر تحدید بھی صحیح نہیں اور یہ اسلام کی منشا اور صنف نازک کے فرائض مادری کے خلاف ہے، حسن وجمال کے تحفظ کے لئے لوگوں نے اس کو جائز رکھا ہے مگرجذبۂ حسن آرائی کو عورت کے فطری فرائض پر تفوق دینا بھی صحیح نہیںنظر آتا، اس لئے یہ اعذار عند الشرع ناقابل اعتبار ہیں، ہاں اگر خصوصی حالات کی وجہ سے ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے عورت کسب معاش پر مجبور ہو تو اس کو اجازت دی جاسکتی ہے، اسی طرح اقتصادی نقطۂ نظر سے اس وقت جو تحریک تحدید نسل کی چل رہی ہے وہ بے شک جاہلیت قدیمہ کی صدائے بازگشت ہے اور ’’لا تقتلوا اولاد کم خشیۃ املاق‘‘ کے تحت ناجائز ہے کیونکہ آیت کریمہ میں صرف’’قتل اولاد‘‘ ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ ’’خشیۃ املاق‘‘ کے تصور کو بھی مذموم قرار دیا گیا ہے۔
٭…٭…٭
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 483)
فطری طریقہ
عارضی منع حمل کی یہ صورت کہ اس کے لئے کسی فعل کا ارتکاب نہ کیاجائے بلکہ ان مخصوص ایام میں مجامعت سے باز رہا جائے جن میں طبی تحقیق کے مطابق اسقرار کا زیادہ امکان ہو، فی نفسہٖ جائز ہے لیکن اگر ایسی نیت ہو جس کو شریعت کا مزاج قبول نہ کرتا ہو تو مکروہ ہوگا۔
ضبطِ تولید میں تعاون
’’منع حمل‘‘ کی جو صورتیں جائز نہیں، مسلمان ڈاکٹروں کے لئے ان میں تعاون کرنادرست نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ معصیت میں تعاون کی ممانعت فقہاء کے نزدیک مسلمہ ہے۔ خلاصۃ الفتاویٰ میں ہے’’ ولواجر نفسہ من ذمی لیعصر لہ فیتخذ خمرا یکرہ‘‘ (ج۴ص۳۴۶)اور اس معاملہ میں مسلمان اور کافر کے درمیان تفریق صحیح نظر نہیں آتی، اس لئے کہ معصیت میں تعاون خود کافروں کے ساتھ درست نہیں گو ان کے دین میں اس کی اجازت ہو۔ فقہاء نے لکھا ہے:
’’رجل لہ اب ذمی او امرأۃ ذمیۃ لیس لہ ان یقودہ الی البیعۃ ولہ ان یقودہ من البیعۃ الی منزلہ لان الذھاب الی البیعۃ معصیۃ والی المنزل لا‘‘(خلاصۃ الفتاویٰ:ج۴ص۳۴۷)
طلاق
شریعت کی نگاہ میں نکاح ایک پاکیزہ،ٹھوس اور پائیدار رشتہ ہے، اسلام چاہتا ہے کہ جن دومردوعورت نے نکاح کی صورت میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے اور ایک دوسرے کا ساتھی بن کررہنے کا عہد کیا ہے وہ ہمیشہ اس پر قائم رہیں اور معمولی معمولی باتوں اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی وقتی اُلجھنوں کی وجہ سے اس مضبوط رشتہ کو ڈھانہ دیں۔
طلاق چونکہ اسی رشتہ کے توڑنے کا نام ہے، اس لئے فطری بات ہے کہ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ شیطان کو سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی پیداکردی جائے۔ حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جو عورت بلاوجہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ آپﷺ نے نکاح کا حکم دیا اور طلاق سے منع فرمایا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح مزہ چکھنے اور ایک عورت یا مرد کی لذت اٹھا کر پھر اس سے جدائی اختیار کرنے والے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا۔
ایک اور روایت میں آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک حلال چیزوںمیں طلاق سے زیادہ کوئی شے مبغوض نہیں۔ اسی لئے فقہاء نے بھی شدید ضرورت کے بغیر طلاق دینے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ علامہ ابن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ بلاضرورت طلاق دینا مکروہ ہے۔ ایک اور بزرگ سے طلاق کا حرام ہونا نقل کرتے ہیں کیونکہ یہ خود اس مرد کے لئے اور اس کی بیوی دونوں کے لئے نقصان کا باعث ہے۔ اور حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ نہ اپنا نقصان کرو اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچائو۔’’لاضررولا ضرار‘‘ مشہور حنفی عالم علامہ سرخسیؒ فرماتے ہیں:
’’محض ضرورت ہی کے موقع پر طلاق دینا جائز ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ذائقہ چشی کرنے والے اور بہت زیادہ طلاق دینے والے پر اور جس عورت نے اپنے شوہر سے ناواجبی خلع کا مطالبہ کیا اس پر خدا اور تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور اس طرح کے الفاظ اس مرد کے بارے میں بھی مروی ہیں جو اپنی بیوی سے خلع کرے کہ یہ نعمت خداوندی کی ناشکری ہے۔‘‘ (المبسوط: ج۶ص۲)
رسول اللہﷺ نے اس امر کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ضرورت کون سی ہے جس کی وجہ سے طلاق دی جاسکتی ہے؟ ارشاد ہوا: ’’لا تطلق النساء الا من ریبۃ‘‘ عورتوں کو طلاق نہ دی جائے مگر اس وقت جبکہ اس کا کردار مشکوک ہو۔ یوں صرف کردار کے مشکوک ہونے پر ہی موقوف نہیں، حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی طلاق اور میاں بیوی کی جدائی ایک ضرورت اور مجبوری بن جاتی ہے۔ کسی وجہ سے زندگی کی راہ پر ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں ہوتا اور حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ایک دوسرے سے علیحدہ رہ کر ہی زندگی بسرکرنے میں دونوں کے لئے عافیت رہتی ہے۔ ان حالات میں جیسا کہ مذکورہوا شریعت ایک ناپسندید ضرورت سمجھ کر اس کی اجازت دیتی ہے۔
ابتدائی تدبیریں
تاہم قرآن یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ طلاق پہلے ہی مرحلہ میں نہیں دینی چاہئے، بلکہ ایسی تمام صورتوں کو عمل میں لانا چاہئے جن کے ذریعہ اصلاح حال ہوسکے اور آپسی اختلاف دور ہوجائے ، اگر اس طرح بنائو ہوجائے تو طلاق نہ دے، ارشاد ہے:
’’جن عورتوں سے تم کو نافرمانی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھائو اور بستروں پر ان کو علیحدہ کردو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہوجائیں تو ان پر سختی کے لئے بہانہ نہ ڈھونڈو۔‘‘(نسائ:۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے وعظ و نصیحت اور سمجھائو سے کام لیا جائے اگر یہ کافی نہ ہو تو اپنی ناراضگی کے سنجیدہ اظہار کے لئے اپنی خوابگاہ اور بستر علیحدہ کرلو یعنی وقتی طور پر پر اس سے مباشرت کرنا چھوڑ دو۔پھر اگر یہ گریز بھی عورت کی اصلاح نہ کرسکے تو مناسب حدوں میں اس کی فطری کمزوری اور نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے تھوڑی سی مار پیٹ بھی کرسکتے ہو۔ اب اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو ایک بہتر رفیق زندگی کی طرح اس کے ساتھ رہو…ان تمام صورتوں کو اختیار کرنے کے باوجود اصلاح حال نہ ہوسکے اور عورت بے جانافرمانی و زیادتی پرآمادہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ آپس میں اس بگاڑ کو دور کرنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا ان حالات میں قرآن کا حکم ہے:
’’ اگر ان دونوں میں اختلاف کا شدید اندیشہ ہو تو مرد اور عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک پنچ( حکم) کو بھیجواگر یہ دونوں واقعی اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا، بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔‘‘(نسائ:۳۵)
یعنی دوسرے سمجھدار، دیندار اور ہمدردافراد کے ذریعہ باہم مصالحت کی کوشش کی جائے گی اور س طرح آپسی خلش دور ہوجائے تو دونوں میاں بیوی کی طرح زندگی بسرکریں گے لیکن اگر اس ثالثی کی کوششوں کے باوجود دونوں میں موافقت پیدا نہ ہوسکے، ایک دوسرے سے متنفر ہوں اور عورت کی طرف سے نامناسب حد تک مسلسل عدول حکمی اور نافرمانی ہو رہی ہو تو اب شریعت طلاق کی اجازت دیتی ہے۔
طلاق کے سدِّباب میں خواتین کا کردار
عورتیں بھی طلاق کے واقعات کم کرنے میں بڑا اور مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں، ان کو چاہئے کہ مختلف طریقوں سے شوہر کو اپنی طرف راغب اور مائل رکھیں اور کوئی ایسی بات پیش نہ آنے دیں جو باہم نفرت اور آپسی اختلاف کا باعث بن سکتی ہے ۔اس کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پوری طرح شوہر کی مزاج شناس ہوں، وہ زندگی کے ہر گوشہ میں اس بات کا اندازہ لگاتی رہیں کہ وہ کس بات اور کس عمل سے خوش ہوتا ہے اورکن باتوں سے ناخوش؟ پھر اگر کبھی ناراض ہوجائے تو اس کی کیا مرغوب چیز ہے جس کا سہار لے کر اس کو خوش کیا جا سکتا ہے؟
(جاری ہے)
الفقہ
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ
(شمارہ 484)
کس بات اور کس ضرورت کے اظہار کے لئے مناسب وقت کیا ہے؟ جن خواتین نے اس رمز کو جان لیا اور اپنی ازدواجی زندگی میں اس کا خیال رکھا، ان کی زندگی ہمیشہ خوشگوار رہے گی اور انشاء اللہ طلاق کی نوبت نہ آئے گی۔
یہ تو ایک اصولی بات ہے اس کے علاوہ چند عمومی باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہئے:
اول یہ کہ مرد جب تھک کر اپنے کام سے واپس آئے، اس وقت پوری خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرے اور فوراً اپنی ایسی ضرورت نہ پیش کردے جو مرد کے لئے پریشانی کا باعث ہو۔ حدیث میں نیک بیوی کی خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے۔ عورت اس حدیث کا مصداق اسی وقت ہوسکتی ہے جب اس پر عمل کرے۔
دوسرے یہ کہ مرد کے لئے اپنے آپ کو سجا سنوار کر رکھے اور پوری طرح زیپائش و آرائش کرے۔ شریعت دوسروں کے لئے زیبائش و آرائش کی اجازت نہیں دیتی جبکہ شوہر کے لئے اس کو پسند کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے شوہر عفیت و پاکدامن رہتا ہے، بدنگاہی سے بچتا ہے اوردوسری عورتوں کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی۔
تیسرے اس بات کا خاص خیال رکھے کہ ایسے مردوں سے انتہائی بے توجہی برتے جن سے تعلق شوہر کو ناپسند گزرے، غیر محرم سیتو یوں بھی شریعت پردہ کا حکم دیتی ہے، لیکن خصوصاً ان لوگوں سے جائز حدوں میں بھی ربط نہیں رکھنا چاہئے جو شوہرکو ناپسند ہوں، اس معاملہ میں مرد کی طبیعت فطری طور پر بہت حساس واقع ہوتی ہے۔
چوتھے ، شوہر سے اپنی ضروریات کے مطالبہ میں ایسا رویہ نہ اختیار کرے جس سے خود غرضی کا اظہار ہوتا ہو یا ایسا محسوس ہوتا ہو کہ گویا وہ شوہر کی حریف ہے۔ مثلاًشوہر کے پاس کپڑے ہوں یا ں نہ ہوں ،اپنے لئے کپڑوں کا مطالبہ یا اگر شوہر کپڑا لائے تو اس کا مقابلہ۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ قناعت اورکفایت شعاری کی راہ اختیار کرے اور اپنے مقابلہ میں شوہر اور دوسرے اہل خانہ کی ضرورت کو مقدم رکھے، اس طرح جب وہ شوہر کے دل میں اپنا گھر بنالے گی تو خود بخود مردوہ کام کرے گا جو وہ چاہتی ہے۔
ان کے علاوہ کھانے اور پکوان میں ایساتنوع کہ مرد کا رحجان ہوٹلوں کی طرف نہ رہے، نیز اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ دوسروں کے پاس شوہر کی شکایت نہ کرے بلکہ اگر کبھی رنجش اور کبید گی پیدا ہوگئی تو اپنے ہی حدتک اس کو محدود رکھے۔
طلاق کس طرح دی جائے؟
پھر اب بھی ایک دفعہ تین طلاقیں نہ دے دے بلکہ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ پاکی کی حالت میں(جس بیوی سے مباشرت نہ کی ہو) لفظ’’ طلاق‘‘ کے ذریعہ صرف ایک طلاق دی جائے۔ اس طلاق کے بعد اس کو یہ حق رہے گا کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے تک اگر اپنے فیصلہ پریشیمانی یا عورت کی طرف سے ندامت کا اظہار اور بہترزندگی کا وعدہ ہو تو بیوی کو لوٹا لے اور اگر وہ علیحدگی کے فیصلہ پر اٹل رہے تو یوں ہی چھوڑ دے، عدت گرزنے کے بعد خودبخود یہ رشتہ ختم ہوجائے گا۔
اگر اب بھی پشیمانی ہوئی اور زوجین کو خیال آیا کہ اس رشتہ کو باقی رہنا چاہئے تو ازسر نو نکاح کرسکتا ہے۔ اگر پھر طلاق کی نوبت آٗئی تو پھر بھی بیوی کو لوٹانے کی گنجائش باقی رہے گی لیکن اگر اس کے باوجود اصلاح حال نہ ہوپائے تو آخری چارئہ کار کے طور پر تیسرے بارطلاق دے سکتا ہے لیکن یہ اجازت بالکل آخری درجہ میں ہے۔ ایک ہی دفعہ تنے طلاقیں دے دینا سخت گناہ اور معصیت ہے۔ رسول اللہﷺ کو ایک بار ایک ہی شخص کو بیک وقت تین طلاق دینے کی اطلاع دی گئی تو آپﷺ جوش غضب میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں اور کتاب اللہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ آپﷺ اس قدرخفا تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ کیا میں اس کو قتل ہی نہ کردالوں؟ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے تو ایسے شخص کو کوڑے بھی لگائے ہیں۔
لیکن اگر ایک ہی مجلس میں یاعورت کے ایک ہی طہر میں تین مختلف اوقات میں تنیوں طلاقیں دے ہی دی جائیں تو تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،حضرت حفص بن مغیرہ نے اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس کو عہد رسالت ہی میں ایک ہی کلمہ مین تین طلاقیں دے دیں تو حضورﷺ نے ان کی بیوی کو ان سے علیحدہ کردیا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی عائشہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں۔ بعد کو بیوی کے ملال کا علم ہوا تو رونے لگے اور فرمایا کہ اگر میں نے اپنے نانا ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طاقیں دے دیں وہ عورت اس کے لئے حلال نہیں ہوتی یہاں تک کہ دوسرے شخص سے شادی کرلے تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔
جب طلاق دینا ممنوع ہے!
ایسا طہر یعنی پاکی کی حالت میں جس میں صحبت کرچکا ہو، طلاق دینا جائز نہیں، طلاق ایسے طہر میں دی جائے جس میں ہم بستری کی نوبت نہ آئی ہو۔
فطلقوھن لعدتہن
’’عورت کی عدت کا لحاظ کرتے ہوئے طلاق دو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی شرح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ طالق ایسے طہر میں دی جائے جس میں صحبت نہ کی گئی ہو۔ الطلاق فی طھر غیر جماع‘‘
نیزحالت حیض میں طلاق دینے پر بھی حضورﷺ نے سخت تنبیہ فرمائی ہے۔ اس لئے کہ اس زمانہ میں عورتوں کے مزاج میں فطری طور پر تیزی اور چڑچڑاہت پیداہوتی ہے اور جسمانی ربط جودونوں کی باہمی دلچسپی اور ایک دوسرے سے وابستگی موجود ہے کہ شاید ایسے ہی وقتی نزاع کی وجہ سے طلاق دے دی گئی ہو۔ عین ممکن ہے کہ یہ اقات بیت جائیں اور پھر ان کے تعلقات معمول پر آجائیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کوحیض کے زمانے میں طلاق دے دی ۔سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کیا، آپﷺ سن کر برہم ہوئے اورفرمایا کہ اسے حکم دے دو کہ رجوع کرے اور جب وہ حیض سے پاک ہوجائے تب طلاق دے۔ ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت ابن عمر کو اس فعل پر تو بیخ فرمائی اور طلاق کے طریقہ کی اس طرح تعلیم دی:
’’ ابن عمر! تم نے غلط طریقہ اختیار کیا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ طہر کا انتظار کرو پھر ایک ایک طہر پرایک ایک طلاق دو۔ پھر جب وہ تیسری مرتبہ پاک ہو تو اس وقت طلاق دے دو یا س کو روک لو۔‘‘
پس اثرات اورنتائج کے لحاظ سے طلاق تین طرح کی ہوتی ہے۔ طلاق رجعی۲۔طلاق بائن۳۔طلاق مغلظہ۔
طلاق رجعی
طلاق رجعی وہ طلاق ہے جس میں رشتہ نکاح عادت گرزجانے کے بعد ختم ہوتا ہے ۔عدت کے درمیان شوہر اپنی بیوی کو نئے نکاح کے بغیر لوٹا سکتا ہے اس کے لئے بیوی کی رضامندی بھی ضروری نہیں ہے۔ شوہر کی طرف سے تکطرفہ اقدام کافی ہے۔
(جاری ہے)