ابدی محارم

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ

امام نوویؒ کا بیان ہے کہ تمام قابل ذکر علماء متفق ہیں کہ عورت سے دبر میں وطی کرنا حرام ہے، وہ پاک ہو یا حیض کی حالت میں ہو… بعض سلف صالحین سے جو دبر میں جماع کا جواز نقل کیا گیا ہے وہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے، سلف نے جس بات کو جائز رکھا ہے وہ یہ کہ عورت کی شرم گاہ ہی میں وطی کی جائے لیکن اس کے لئے ایسی ہیئت اختیار کی جائے کہ مردعورت کی پشت کی طرف سے صحبت کرے’’ فیطامن الدبر لافی الدبر‘‘
دوسرے یہ کہ حیض کی حالت میں بیوی سے مباشرت نہ کی جائے، خود قرآن مجید میں اس کی ممانعت موجود ہے۔ احادیث بھی کثرت سے اس سلسلہ میں وارد ہیں اور اس کی وجہ ظاہر ہے، حیض ایک طرح کی نجاست ہے، انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ و ہ اپنے آپ کو اس سے بچائے نیز اس کے بڑے طبی نقصانات بھی ہیں جن کا طبی کتب میں ذکر کیا گیا ہے، حو حکم حیض کا ہے وہی نفاس یعنی ولادت کے بعد آنے والے خون کا بھی ہے، ’’حیض‘‘ کی حالت میں عورت سے کس حدتک استمتاع جائز ہے اور کیا کچھ ممنوع ہے؟ اس کے لئے کتب فقہ ملاحظہ کی جائیں۔
عزل
جماع کی ایک صورت’’عزل‘‘ ہے یعنی اس طرح مباشرت کی جائے کہ عورت کی شرم گاہ میں مادئہ منویہ کا انزال نہ ہونے پائے، اکثر فقہاء اس کو مکروہ قراردیتے ہیں۔ روایات کا لب ولہجہ مختلف ہے، بعض سے حرمت، بعض سے اباحت اور بعض سے کراہت کے ساتھ جواز ظاہر ہوتا ہے اور زیادہ صحیح یہی ہے کہ کراہت سے خالی نہیں، شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسے بلند پایہ عالم حدیث اور رمزشناس شریعت کا رجحان بھی اسی طرح طرف ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا اگر عورت مجبور نہ ہواور مرد مباشرت کا مطالبہ کرے تو اس کے لئے تعمیل حکم ضروری ہے۔ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ تصحیح نیت کے ساتھ مرد عورت سے ہم بستر ہو تو باعث ثواب ہے کہ آپﷺ نے اس کو صدقہ قرار دیا’’مباضعتک اھلک صدقۃ‘‘لیکن اشتہاء کے بغیر بیوی سے ملا جائے تو یہ باعث ثواب ہے یا نہیں؟ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اب بھی باعث ثواب ہے کہ حصول اولاد کی نیت تو ہے اور یہ نیت بھی نہ ہو تو یہ اس کی جوان بیوی کی عفت و پاکدامنی کی حفاظت میں ممدو معاون تو ہے ہی۔
ابدی محارم
شریعت اسلامی میں جہاںنکاح کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ،اس کو انبیاء کا طریقہ بتایا گیا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے وہیں اس کے لئے مناسب حدیں اور شرطیں بھی مقرر کردی گئی ہیں اور ان شرطوں میں ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ عورت ان لوگوں میں سے نہ ہو جن سے نکاح کرنا حرام ہے، حرمت کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں(۱) ابدی اور دوامی حرمت(۲)وقتی اور عارضی حرمت۔
شریعت میں ابدی حرمت کے تین اسباب ہیں۔
۱…نسب
۲…صہر
۳… رضاعت
نسب سے مراد وہ نسبی رشتے ہیں جن کو قرآن مجید نے نکاح میں مانع قراردیا ہے
۱)اصولی رشتہ دار یعنی ماں اور باپ کا پورا سلسلۂ اجداد (۲)فروعی رشتہ دار یعنی بیٹے اور بیٹی کا پوراسلسلۂ اولاد۔ باپ کے بھائی بہن،ماں کے بھائی، بہن اور خود اپنے بھائی بہن۔
’’صہر‘‘ سے مراد سسرالی رشتہ دار ہے، سسرالی رشتہ داروں میں شوہر اور بیوی کے اصول یعنی آبائی سلسلہ اور فروع یعنی اولادی سلسلہ حرام ہے، البتہ اس سلسلہ میں ایک تفصیل یہ ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کے ساتھ ہی اس کی ماں مرد پر حرام ہوجاتی ہے، چاہے ہم بستری کی نوبت آئی ہو یا نہ آئی ہو۔ لیکن جس عورت سے نکاح کیاجائے اس کی بیٹی اسی وقت حرام ہوگی جبکہ اس عورت سے ہم بستری کرلے، اگر ہم بستری سے پہلے ہی بیوی سے علیحدگی ہوگئی تو اس کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
’’ رضاعت‘‘ یعنی دودھ کی وجہ سے حرمت کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کے تمام اصول یعنی آبائی سلسلہ اور فروع یعنی اولادی سلسلہ نیز شوہر دودھ پینے والے پر حرام ہوں گے لیکن دودھ پینے والے کے دوسرے بھائی بہن اور رشتہ دار سے کوئی حرمت قائم نہ ہوگی۔ گویا دودھ پینے والے کی حرمت اس کی ذات اور اولاد ہی تک محدود ہوگئی اور دود ھ پلانے والی کی حرمت متعدی ہوگئی اور پھیل جائے گی۔
یہ تمام ہی احکام ائمہ اربعہ کے درمیان متفق علیہ ہیں ، دونکات پر اختلاف ہے، اول یہ کہ احناف کے نزدیک کسی عورت کے ساتھ فطری راہ میں زنا یا بلا انزال ودواعی زناکا ارتکاب بھی حرمت مصاہرت کو ثابت کرتا ہے اور اس کا سلسلہ مادری و فروعی وغیرہ اس زانی اور مرتکب کے لئے حرام قرار پاتا ہے۔ لیکن فقہاء کے نزدیک نکاح صحیح ہی اس کی حرمت کو ثابت کرتا ہے۔
دوسرا اختلاف اس بات میں ہے کہ دودھ کی کتنی مقدار سے حرمت رضاعث ثابت ہوگی،احناف اور مالکیہ کے نزدیک ایک گھونٹ بھی حرمت کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ شوافع اور حنابلہ کے نزدیک کم سے کم پانچ گھونٹ سے حرمت ثابت ہے۔ نیز راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ رضاعت اور دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے۔ دوسال کے اندر بچہ دودھ پی لے تب ہی حرمت ثابت ہوگی اس کے بعد دودھ پئے تو حرمت پیدا نہیں ہوگی۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک یہ مدت ڈھائی سال ہے اور اس مدت کے اندر دودھ حرمت رضاعت کا باعث ہے۔ان رشتوں کے حرام قرار دینے کی حقیقی وجہ توخدا ہی کو معلوم ہے البتہ چند باتیں ایسی ہیں جن کو عقل عام بھی سمجھ سکتی ہے۔
اول یہ کہ کچھ قریبی رشتے ایسے ہیں کہ فطرت انسانی خود ان سے ازدواجی اور جنسی تعلقات سے اباء کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لامذہب، خدا سے بے خوف اور محض اپنی عقل کو فیصل بنانے والے گروہ بھی ماں، بہن،بہو، بیٹی،ساس، پھوپھی اور دادی نانی وغیرہ سے ازدواجی تعلقات کو شرم و حیا کے مغائر سمجھتے ہیں، پوری انسانی تاریخ میں چند ہی ایسے بے حیا اور فطرت کے باغی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے حرمت و حجاب کی اس دیوار کو بھی گرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی ہے اور ایسے لوگوں کو کبھی یا کسی قوم میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ دوسرے اگر اتنے قریبی رشتہ داروں میں بھی حرمت کی یہ دیوار قائم نہ ہو، بھائی ،بہنوں، ماں بیٹیوں، سسر اور بہو وغیرہ کے درمیان بھی ازدواجی رشتہ جائز ہو تو کسی شوہر کے لئے اپنی بیوی کی عصمت وعفت اور پاکدامنی پر اعتبار اور اعتماد کرنا مشکل ہوجائے گا۔یہ حرمت ذہن کو اس طرح کے عمل کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتی اور ایک فطری حجاب و حیا کو قائم رکھتی ہے جس سے باہمی اعتبار بھی باقی رہتا ہے، اگرچہ یہ حجاب نہ ہوتو دن رات ساتھ رہنے والے نوجوان بھائیوں اور بہنوں کے درمیان برائی سے مامون نہیں رہا جاسکتا۔
تیسرے جدید ماہرین طب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نہایت قریبی خاندانی رشتہ داروں کے درمیان ازدواجی تعلقات پیدا ہونے والی اولاد کے لئے انتہائی مضر اور شدید قسم کے امراض بالخصوص جنون اورعقلی توازن سے محرومی کا باعث ہوسکتے ہیں۔
٭…٭…٭

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کتاب ’’حلال وحرام‘‘ سے ماخوذ

عارضی محارم
کچھ اقرباء وہ ہیں جن سے عارضی طور پر نکاح حرام ہے اور اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ پہلے سے جو عورت نکاح میں ہے اس کی رشتہ دار دوسری عورت جو اس کے محرم کے درجہ کی ہو اور اگر ان دونوں میں سے کسی ایک کو مرد کو فرض کرلیا جائے تو ان دونوں کے درمیان باہم نکاح جائز نہ ہو، سے نکاح نہیں کیا جا سکتا مثلاً ایک بہن کی موجودگی میں دوسری بہن سے یاپھوپھی یا خالہ اور بھانجی وغیرہ کو نکاح میں جمع کرنا جائز نہیں۔ ہاں اگر ان میں سے ایک سے علیحدگی ہوجائے تو دوسری سے نکاح کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے دوبہنوں کے جمع کرنے کو منع فرمایا ہے۔ حدیث میں پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کے جمع کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔
ان رشتوں کو باہم نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت قطع رحمی کے سدباب کے لئے ہے، سوکنوں کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جس میں فطری طور پر باہم نفرت، عداوت اور مخاصمت و منافقت پیداہو جاتی ہے۔ شریعت اسلامی نہیں چاہتی کہ الفت و محبت اور غم خواری وغم گساری کے رشتوں کو قطع رحمی اور باہمی نفرت کی آگ میں سلگائے اور محبت و مودّت کا خون کردے۔
کتابیہ سے نکاح
شرک وکفر کا ایک ایسا فاصلہ جو اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق اہل ایمان سے رشتۂ نکاح کے لئے رکاوٹ بن جاتا ہے، البتہ اس سے صرف اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی عورتوں کا استثناء ہے کہ مسلمان مرد ان سے نکاح کرسکتے ہیں۔ قرآن خود ناطق ہے:
والمحصنٰت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم(اور ان کی پارسائیں جن کو تم سے قبل کتاب مل چکی ہے ، تمہارے لئے حلال ہیں)(نسائ:۳۲)
اس لئے اہل کتاب عورتوں سے اصولی طور پر نکاح کے جائز ہونے پر کہنا چاہئے کہ اجماع ہے۔ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے’’ نائلہ‘‘ نامی عیسائی خاتون سے نکاح کیا ہے جو بعد کو مسلمان ہوگئیں اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے شام کی ایک یہودی خاتون سے۔ البتہ سوال یہ کہ دارالکفر میں رہنے والی کتابیہ عورت سے نکاح اور اسلامی ملک میں رہنے والی کتابیہ عورت کے درمیان فرق ہے یا نہیں؟
حضرت عبداللہ بن عباسؓ تو دارالکفرکی کتابیہ سے نکاح کو بالکل ہی منع کرتے ہیں لیکن عام فقہاء اس کی کراہت کی طرف مائل ہیں اور یہی فقہاء احناف کی رائے ہے۔’’ و اصحابنایکرھون مناکحات الحرب من اھل الکتاب‘‘(احکام القرآن للجصاص:۳،۳۲۶)
وہ کتابیہ خواتین جو مسلم ممالک میں رہتی ہوں،حضرت عبداللہ بن عمرؓ ان سے بھی نکاح کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ حضرت عمرؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ حضرت حذیفہؓ نے ایک یہودی خاتون سے نکاح کیا تو انہیں مکتوب لکھا اور طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ اس سے احساس ہوتاہے کہ مسلم ممالک میں بھی اہل کتاب خواتین سے نکاح کراہت سے خالی نہیں، اس لئے علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دارالکفر میں کتابیہ سے نکاح مکروہ تحریمی ہے اور دارالاسلام میں مکروہ تنز یہی۔ (والا ولیٰ ان لایفعل)یفیدکراہۃ التنزیہ فی غیر الحربیۃ وما بعدہ یفید کراہۃ التحریم فی الحربیۃ(ردالمحتار)
پس اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی ناپسندیدگی کی وجہ ظاہر ہے۔ مرد کے نہ صرف عمل بلکہ فکر و نظر پر بھی بیوی جس درجہ اثر انداز ہوتی ہے، بچوں کی ذہنی نشوونما میں ماں کا جو طاقت ور کردار ہوتا ہے اور سماج و سوسائٹی کے اصلاح وفساد میں خواتین کا جو حصہ ہے وہ محتاج اظہار نہیں۔ پھر ہمارے زمانہ میں اہل کتاب خواتین اور ان کی سوسائٹی میں جو اباحیت اور اخلاقی انار کی ہے وہ بھی محتاج اظہار نہیں، ان حالات میں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کے بارے میں صحیح نقطۂ نظریہ ہے کہ:
۱)وہ عیسائی اور یہودی عورتیں جو خدا کے وجود اور نبوت کے نظام پر یقین رکھتی ہوں اور دہریہ اور مذہب کی منکر نہ ہوں ان سے نکاح کرنا جائز ہے۔
۲) لیکن یہ نکاح کراہت سے خالی نہیں، مسلم ممالک میں ہو تو مکروہ تنزیہی ہے اور غیر مسلم ملکوں میں ہو تو قریب بہ حرام۔
۳)وہ عورتیںجو نام کی عیسائی یایہودی ہیںلیکن در حقیقت دہریہ اور لامذہب ہوں، ان سے نکاح جائز نہیں۔
۴)وہ عورتیں جو اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی یا یہودی بن گئی ہوں، ان سے بھی نکاح جائز نہیں۔
قادیانی سے نکاح
رہ گیا قادیانی عورتوں سے مسلمان مردوں کا نکاح تو وہ قطعاً حرام اور ناجائز ہے اور وہ اہل کتاب میں نہیں بلکہ زندیق کے حکم میں ہیں۔راقم سطور نے اس سلسلہ میں ایک استفتاء کے جواب میںجو کچھ لکھا ہے اس کانقل کردیا جانا مناسب محسوس ہوتا ہے۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت نے رشتہ مناکحت اور ذبیحہ کی حلت و حرمت کے لحاظ سے اہل کفر کے دودرجے قراردیئے ہیں۔’’اہل کتاب اور کفارومشرکین‘‘اہل کتاب سے نکاح کو جائز قرار دیا گیا اور اہل کفر سے ناجائز ، اسی طرح اہل کتاب کا ذبیحہ حلال قرار دیاگیا اور دوسرے اہل کفر کا ذبیحہ حرام ۔پھر اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام کے سوا کسی ایسے دین پر ایمان رکھتے ہوں جو سماوی ہو اور جن کے پاس ایسی کتاب منزل ہو کہ بعد میں ہونے والی تحریف و تصحیف سے قطع نظر قرآن فی نفسہ ان کے نزول کی تصدیق کرتا ہو۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
وکل من یعتقد دیناسماویالہ کتاب منزل کصحف ابراہیم والشیث وزبورداؤد علیہم السلام فہومن اہل الکتاب فیجوزمناکحتہ واکل ذبائحہ(عالمگیری:ج۲ص۸)
اس طرح اہل کتاب اور اہل کفر جو اپنے کفر کے برملا معترف ہوں، کا معاملہ بالکل واضح ہے، لیکن مسئلہ ان لوگوں کاہے جواپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور اپنے معتقدات کے لحاظ سے اصلاً وہ کافر ہیں، ان کوکس زمرہ میں رکھا جائے گا؟مسلمانوں میں یااہل کتاب میں یاوہ عام کفار کے حکم میں ہوں گے؟
یہ تو ظاہر ہے کہ ان کے عقائد کفریہ کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کا شمار نہ ہوگا اور فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شمار اہل کتاب میں بھی نہ ہوگا بلکہ وہ عام کفار کے حکم میں ہوں گے، نہ ان سے رشتہ نکاح درست ہوگا اور نہ ان کا ذبیحہ حلال ہوگا، فقہاء نے ایسے لوگوں کو’’ زندیق‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور زندیق کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
’’ جو اسلام تو ظاہر کرتا ہو مگر بباطن کفر پر مصر ہو وہ منافق ہے۔حضورﷺ کے زمانہ میں ایسا شخص منافق کہلاتا تھا اور اسی کواب زندیق کہا جاتا ہے۔‘‘(مجمع الفقہ الحنبلی:ج۱ ص۱۴۴)
اسلامی حکومت کے لئے اہل کتاب اور کھلے ہوئے کافروں کا وجود قابل برداشت ہے لیکن ایسے منافقین برداشت نہیں، اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ ان کو قتل کردیا جائے گا اور کھلے مرتد کی توبہ تو قبول کی جائے گی لیکن ایسے زندیق شخص کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
(جاری ہے)