کفار کے تہواروں میں سامان خریدنا؟

سوال: ہمارے قریب ہندؤں کا ایک مندر ہے جس کی پوجا کے لئے ان ایام میں پورے بھارت بھر سے لوگ آتے ہیں، اس لئے ایک بڑا میلا لگتا ہے، جس میں بہت سے گھریلو سامان اور ضروری چیزیں بہت ارزاں ملتی ہے، بہت سے لوگ اسی بنا پر فقط میلے میں جاتے ہیں ہندو بھی مسلمان بھی، یہ میلہ تقریبا پانچ چھ کلومیٹر تک پھیلا ہوتا ہے، میلا ختم ہونے کے بعد تقریبا ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر وہ مندر ہے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلمانوں کا اس میلے میں مذکورہ اشیاء خریدنے کی غرض سے جانا کیسا ہے؟

جواب: اگر کوئی چیز بازار میں نہ ملتی ہو اور ہنود کے میلے میں ہی ملتی ہو تو خریدنے جانا جائز ہے. لیکن سیر و تفریح کے لئے جانا جائز نہیں ہے. اور اگر وہ چیز عام بازار میں بھی ملتی ہو تو جانا جائز نہیں.
فتاوی محمودیہ.
واللہ تعالی اعلم
………..
کفار کے تہواروں میں مسلمانوں کی شرکت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کل  بعض تہواروں مثلا بلیک فرائیڈے ، ایسٹر ،ہولی ،دیوالی کرسمس،ویلینٹائن ڈے وغیرہ پر عوام الناس (مسلم و غیر مسلم) ان تہواروں میں شریک ہوتے ہیں ۔ دکاندار حضرات  مختلف قسم کی سیل لگاتے ہیں (مختلف ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں ) اور ان خصوصی مواقع کے موافق اشیاء کو اپنی دکانوں پر فروخت کرتے ہیں۔
ان خصوصی مواقع میں سے بعض خالصتا ً مذہبی تہوار ہوتے ہیں (مثلا ً کرسمس ،ہولی،دیوالی ) اور بعض معاشرتی ہیں ( مثلا ً
Black Friday,Mother Day,Father Day وغیرہ) البتہ ان میں بھی بعض میں مذہبی تعلق کسی نہ کسی طرح بن جاتا ہے اور بعض مغربی اقوام کی طرف سے آتے ہیں اور اب دنیا کے مختلف حصوں میں اس کا رواج دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔
سوال:
اب سوال یہ ہے کہ
1۔ کیا ہر قسم کے تہوار یا دن منانے کو  بالکلیہ منع کیا جائے گا یا صرف غیر مسلم اقوام کے مذہبی تہواروں کا منانا منع ہوگا؟ اور کافر اقوام کے معاشرتی دنوں ( مثلا Black Friday,Mother Day,Father Day وغیرہ(کا منانا کیسا ہے؟
2۔ کیا ان موقعوں پر مسلمان تاجروں کا دکان سجانا درست ہے؟
3۔ ان تہواروں کے موقع پر لوگوں کی خریداری کو دیکھتے ہوئے دکاندار مزید ترغیب کے لیے اپنی اشیاء پر ڈسکاؤنٹ آفر کرتے ہیں۔تاکہ لوگ دکان سے زیادہ سے زیادہ سامان خریدیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اپنے تجارتی فوائد کے پیش نظر دکاندار کے لیے ان مواقع پر سیل لگانا جائز ہے؟
بعض احباب کا کہنا ہے کہ یہ تہوار اگرچہ مذہبی ہوں لیکن مغربی تہذیب سے قربت کا ذریعہ بنتے ہیں ، اور ان کی وجہ سے ان کے مذہبی /غیر مذہبی  تہواروں کی شناعت بھی لوگوں کے دلوں سے ختم ہوتی جارہی ہے اس طرح سیل لگانا ان تہواروں کی ترویج کا سبب بھی بنتا ہے لہذا سدا ً  للذریعہ یہ بالکل ممنوع ہونا چاہیے۔
4۔ ان تہواروں کے ساتھ مخصوص یا منسوب یا مروج خاص تحائف/اشیاء کو خریدنا اور بیچنا کیسا ہے؟
مثلا کرسمس،Father Day,Mother Day, Black Friday, Valentine Day  وغیرہ کے گفٹ رکھنا کیسا ہے؟
5۔ مذہبی تہوار کا سامان ( مثلا کرسمس کیک، کرسمس ٹری، غبارے ،ٹوپیاں ،لباس وغیرہ) ایک مسلمان تاجر اس نیت سے خرید کر رکھے تاکہ غیر مسلم کسٹمرز کی ضرورت پوری کرسکے تو کیا اس نیت سے دکان پر کرسمس/ہولی/دیوالی کا سامان  رکھنے کی گنجائش ہوگی؟ نیز یہ واضح رہے  کہ ایک دکاندار اس بات کی تحقیق یا پابندی نہیں کرسکتا کہ خریدار کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔
براہِ کرم جواب دے کر ممنون فرمائیں
والسلام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون ملہم الصواب
(1) غیر مسلموں (مثلا ہندؤوں اور عیسائیوں وغیرہ) کے مذہبی تہوار یا ان کے مذہبی شعار کی تقریبات میں شرکت تشبہ بالکفار کی وجہ سے  سراسر ناجائز ہے۔ احادیث صحیحہ میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ سے تشبہ اور ان کے شعائر کو اپنانے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا۔آنحضرتﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا کہ :”من تشبہ بقوم فھو منھم” ( جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہوگا) نیز جس طرح شرکیہ امور یا ناجائز امور کا ارتکاب  خود ناجائز ہے اسی طرح اپنے کسی عمل سے  ان امور کی تائید و تقویت اور ان امور کے مرتکبین کی رونق بڑھانا بھی ناجائز ہے۔ لہذا ایسٹر، ہولی، دیوالی اور کرسمس وغیرہ مذہبی تہواروں میں  شرکت سے ہر مسلمان پر اجتناب لازم ہے۔واضح رہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار میں شرکت اگر ان تہواروں کی عظمت یا محبت کی وجہ سے ہو تو اس کی بعض صورتوں کو فقہاء کرام نے کفر لکھا ہے۔
من کثر سواد قوم  فھو منھم  ومن رضی علی قوم کان شریک من عملہ (جامع الحدیث 21/345)
قال العلامۃ المناوی فی شرحہ: ای من کثر سواد قوم بان ساکنھم وعاشرھم وناصرھم فھو منھم وان لم یکن من قبیلتھم او بلدھم ۔
فیض القدیر 6/156
وفی الدر المختار  6 /537
قال علیہ الصلوٰۃ والسلام من کثر سواد قوم فھو منھم قلت فاذا کان مکثر سوادھم منھم وان لم یتزی بزیھم فکیف بمن تزیا قالہ الزاھدی
فتاویٰ محمودیہ جلد 29 صفحہ 353 میں ہندؤوں کے مذہبی تہوار میں شرکت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں:
“یہ سب باتیں ناجائز اور گناہ ہیں، اگر ہندؤؤں کے تہوار کی تعظیم کے لیے چندہ دیتا ہے اور شرکت کرتا ہے تو یہ کفر ہے، مسلمان کو ایسے امور سے توبہ ضروری ہے۔”
“رجل اشتری یوم النیروز شیئا لم یکن یشتریہ قبل ذلک ان اراج بہ تعظیم النیروز کما یعظمہ المشرکون  کفر” ( مجموعہ فتاوی 2/215)
صفحہ 355 پر لکھتے ہیں:
” یہ میلے ہندؤوں کے مخصوص قومی اور مذہبی میلے ہیں ، ان میں جا کر ان کی رونق کو بڑھانا ناجائز ہے ،مسلمانوں کو ان سے اجتناب ضروری ہے”
اور جہاں تک غیر مسلموں کے ان تہواروں میں شرکت کا تعلق ہے جو مذہبی نہ ہوں بلکہ صرف معاشرتی ہوں ، مگر بنیادی طور پر غیر مسلموں کی تہذیب و معاشرت سے لیے گئے ہوں تو ان میں بھی مسلمانوں کو شرکت سے بچنا لازم ہے؛ کیونکہ جس چیز کی شریعت میں کوئی بنیاد نہ ہو بلکہ غیر مسلم معاشرے کا طریقہ ہو یا انہی کا چلایا ہوا ہو ،ان کی تہذیب کا حصہ ہو تو مسلمانوں کو ایسے تہوار منانے، ان میں شرکت کرنے اور اپنے قول و عمل سے ان کی رونق بڑھانے سے اجتناب کرنا بھی غیرتِ ایمانی کا تقاضہ ہے۔ لہذا غیر مسلموں کی طرح محض رسم پوری کرنے کی غرض سے مدر ڈے،فادر ڈے یا بلیک فرائیڈے وغیرہ منانے سے بھی مسلمانوں کو حتیٰ الامکان اجتناب کرنا چاہئیے۔ نیز مدر ڈے، فادر ڈے منانے میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس سے یہ تأثر ملتا ہے کہ ماں باپ(والدین) سے سال میں ایک مرتبہ اظہارِ محبت یا ان کی عزت و احترام  کا سال میں ایک مرتبہ خیال کرلینا کافی ہے ،اور اس سے ان کا حق ادا ہوجائیگا ۔ حالانکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے ماں باپ کی عزت و ادب کو ملحوظ رکھنا اولاد پر ہر وقت اور ہر دن لازم ہے، اس کا سال کے کسی خاص دن یا کسی خاص وقت      سے تعلق نہیں۔

فتاویٰ محمودیہ جلد 29 صفحہ 352 میں خلافِ شرع میلوں میں شرکت  کے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے  حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:
” جس طرح خلافِ شرع اور شرکیہ  امور کا ارتکاب ممنوع ہے ایسی جگہ جاکر ان کی رونق میں اضافہ کرنا بھی ممنوع ہے”
(2) جہاں غیر مسلموں کے مذہبی تہوار ہورہے ہوں وہاں مسلمان تاجروں کو دکان سجانے کی غرض سے جانےمیں بھی اوپر مذکور بعض  قباحتیں پائی جاتی ہیں ۔اس لیے اس سے بھی اجتناب چاہیے۔
(3) کسی دکاندار یا تاجر  کے لیے اس نیت سے چیزوں میں ڈسکاؤنٹ کرنا تو درست نہیں کہ اس ڈسکاؤنٹ کو دیکھ کر غیر مسلم اپنے مذہبی تہوار میں ان کو خریدے؛ کیونکہ یہ بھی غیر مسلموں کے مذہبی تہوار میں ایک طرح کی شرکت اور تعاون ہے ۔ البتہ اگر کوئی تاجر اپنے  مفاد کو مدِ نظر رکھ کر کسی ناجائز کام کا ارتکاب کیے بغیر ایسے موقع پر جائز چیزوں کی خریدو فروخت بڑھانے کے لیے چیزوں پر رعایت کی پیشکش کرے تو اس کی گنجائش ہے ، کمائی حرام نہیں۔
(4) جو چیزیں صرف غیر مسلموں کے تہوار ہی کے لیے خاص ہوں ، اور ان کا کوئی دوسرا جائز مصرف نہ ہو ،ایسی چیزوں کی خریدوفروخت ممنوع ہوگی۔
فی البحر الرائق 8/558
قال رحمہ اللہ ( والاعطاء باسم النیروز والمھرجان لایجوز) ای الھدایا باسم ھذین الیومین حرام بل کفر

وقال ابو حفص الکبیر رحمہ اللہ لو ان رجلا عبد اللہ تعالی خمسین سنۃ ثم جاء النیروز واھدی الی بعض المشرکین بیضۃ یرید تعظیم ذلک الیوم فقد کفر وحبط عملہ وقال صاحب جامع الاصغر اذا اھدی یوم النیروز الی مسلم آخر ولم یرد بہ  تعظیم الیوم ولکن علی ما اعتادہ بعض الناس  لا یکفر ولکن ینبغی لہ ان لا یفعل ذلک  الیوم خاصہ ویفعلہ قبلہ او  بعدہ لکیلا یکون تشبیھا  باؤلئک القوم وقد قال من تشبہ بقوم فھو منھم

۔۔۔۔ الجامع الاصغر رجل اشتری یوم النیروز وشیئا یشتریہ الکفرۃ منہ وھو لم یکن یشتریہ قبل ذلک ان اراد بہ تعظیم ذلک الیوم کما تعظمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کفر وان اراد الاکل والشرب والتنعم لایکفر۔

(5) جو چیزیں صرف غیر مسلموں کے تہوار کے لیے مختص نہ ہوں ، بلکہ ان کا کوئی دوسرا جائز استعمال بھی ہو  تو ایسی چیزوں کی خریدو فروخت جائز ہے، تاہم اگر کسی کے بارے میں پہلے سے علم ہو کہ وہ ان چیزوں کی خریداری ان تہواروں میں استعمال کرنے کی غرض سے کررہا ہے اس کے ہاتھ یہ چیزیں فروخت کرنا کراہت سے خالی نہیں۔اس سے بچنا چاہیئے۔
نوٹ: غیر اسلامی تہذیب سے متأثر ہو کر دن منانے اور اس میں چیزوں کی فروخت کا حکم اوپر تحریر کردیا گیا ہے،مسلمان تاجروں کو ایسے دن منانے کے بجائے ،امانت،دیانت اور صداقت کا طریقہ اختیار کرکہ مثالی مسلمان تاجر بننا چاہیئے، اور رمضان المبارک میں جسے شہر المواساۃ یعنی غمخواری کا مہینہ قرار دیا گیا ہے، اپنی چیزوں کو سستے داموں بیچ کر مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیئے ۔ رمضان المبارک،عید الفطر، عید الاضحی وغیرہ کے دنوں میں اگر رعایتی سیل لگائی جائے تو اچھی نیت سے ثواب ملے گااور وہ کاروباری فوائد بھی حاصل ہوں گے جو تاجروں کی کاروباری ضرورت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ دار العلوم کراچی
http://www.suffahpk.com/kuffar-k-tehwarou-mai-muslamnou-ki-shirkat/