فیس بک؛ رحمت یا زحمت؟ Spy Agency Turns to Facebook for Recruiting
ایس اے ساگر
معروف سوشل ویب سائٹ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران سوچا بھی نہیں ہوگا کہ 2004 کے دوران وہ جس کام کا آغازکررہے ہیں، ایک دن وہ مقبولیت کی کس انتہا کو پہنچے گا۔ ابتدا میں بھلے ہی اس ویب سائٹ کا استعمال یونیورسٹی کے اندر صرف طالب علموں تک محدود تھا لیکن یہ نقابل تردید حقیقت ہے کہ بعد میں ویب سائٹ کا نیٹ ورک بوسٹن کی دوسری یونیورسٹیوں تک بھی پھیل گیا۔ یہاں تک کہ2006 کے آخر تک اس کا نیٹ ورک پوری دنیا تک پھیلا دیا گیا۔ ویب سائٹ کو بنانے کا مقصد بظاہر صارفین کے درمیان آپسی جان پہچان اور سماجی رابطوں کوفروغ بخشنا تھا۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ویب سائٹ کی انتہائی تیز رفتار مقبولیت کی وجہ سے آج صورتحال یہ ہے کہ اس کو انٹر نیٹ پر دنیا کے اہم ترین مجازی حلقے کی حیثیت حاصل ہے۔ ویب سائٹ پر پیش کردہ آفیشل اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2011 کے آخر تک اس ویب سائٹ کے فعال اراکین کی تعداد 85 کروڑ تھی۔ نوبت یہاں آن پہنچی ہے کہ اب اس دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہر ماہ فیس بک استعمال کرتا ہے۔ گزشتہ برس فیس بک کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو مارک زکربرگ نے فیس بک پر لکھا کہ: ”آج صبح، فیس بک کمیونٹی باضابطہ طور پر دو ارب افراد پر مشتمل ہوگئی ہے۔“ مزید یہ کہ اس کو عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بڑے پیمانے پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ویب سائٹ 70 زبانوں میں دستیاب ہے اور اس کے نگران کار ابھی مزید زبانوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
فائدہ و نقصان دونوں کا خدشہ:
فیس بک کی دنیا میں آپ اپنی بات کا اظہار اور ابلاغ، لکھ کر اور زبانی طور پر (chatting) دونوں طرح کرسکتے ہیں اور ابلاغ کے ان ذرائع میں لوگوں کیلئے فائدہ و نقصان دونوں کے امکانات اور خدشات لاحق ہیں۔ مگر ان کے علاوہ اور بہت سے پہلوؤں سے یہ ویب سائٹ اسی طرح کی دیگر ویب سائٹس سے درج ذیل وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت رکھتی ہے:
1: ویب سائٹ استعمال کرنے والوں کی ذاتی معلومات تک رسائی ہونا اور وہ بھی اس طریقے سے کہ معمولی جان پہچان رکھنے والے دو افراد بلکہ اجنبی بھی بغیر باہمی گفتگو کئے اور ایک دوسرے سے ملے بغیر، پوری تفصیل کے ساتھ ایک دوسرے کی ذاتی دلچسپیاں، ذاتی تصاویر، تعلیم، خاندان ، ذریعہ معاش، معاشی حالت، دوست احباب، پسند، ناپسند، ماضی اور حال کی سرگرمیوں اور ماحول، عالمی و مقامی خبروں پر اس کے تبصرے اور آرا عموماً بغیر اس سے دریافت کئے معلوم کرسکتا ہے۔ ذاتی معلومات تک ایسی تفصیلی رسائی کے منفی اور ناخوشگوار نتائج پہلے ہی سامنے آچکے ہیں۔ کچھ مثالیں ہم یہاں درج کئے دیتے ہیں۔
2: سماجی تعلقات استوار کرنے کی سہولت نے دو محبت کرنے والے افراد (یعنی لڑکا اور لڑکی) کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے خاندان کے علم میں لائے بغیر اپنے پرانے تعلقات کو پھر سے بحال کرلیں۔ نتیجہ یہ کہ ناشائستہ اور غیر شرعی روابط کا پھر سے آغاز ہوا اور نوبت لڑکا یا لڑکی کی موجودہ شریکِ حیات سے بے وفائی اور بالآخر طلاق تک جاپہنچی۔
معاشرتی و سماجی جرائم:
مصر کے سرکاری ادارے’قومی تحقیقی مرکز برائے معاشرتی و سماجی جرائم‘ کی ایک ٹیم نے فیس بک ویب سائٹ پر اپنے متعدد ہفتوں کے مطالعہ کے بعد ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں انھوں نے اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے نتیجے میں معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات کے سنگین نتائج کو یکجا کیا ہے۔ بہت سی اہم باتوں کے علاوہ انھوں نے نوٹ کیا کہ”اس ویب سائٹ کے بہت سے وزیٹرز اپنی پہلی محبت کو پانے اور سابقہ تعلقات کو بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے اور یوں انھوں نے اپنے خاندان سے باہر غیر شرعی اور ناشائستہ تعلقات کو از سرِ نو استوار کرلیا۔ یہ صورتحال ایک مسلمان خاندان کی زندگی اور شادی ایسے مضبوط خاندانی رشتے کیلئے کہ بہت خطرناک ہے۔
جاسوسی ایجنسیوں سے لاحق خطرات:
بعض غیر ملکی جاسوسی ایجنسیوں نے فیس بک کے کچھ اراکین کو خود ان کے اپنے بارے میں انہی کی مہیا کردہ تفصیلات دیکھ کر، جس سے ان کی معاشی صورتحال، سماجی رتبے اور روزمرہ کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا تھا، ان تفصیلات کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے انھیں مجبور کیا کہ وہ ان کیلئے جاسوسی کی خدمات سر انجام دیں۔ حتی کہ ایک غیر ملکی اخبار نے ایک ایسے یہودی جاسوسی نیٹ ورک کا پتہ لگایا ہے جو خاص طور پر مسلمانوں اور عرب ممالک کے نوجوانوں کو جاسوسی کے کام کیلئے بھرتی کرتا تھا۔ محیط ویب سائٹ پر ایک فرانسیسی اخبار (25 جمادی الاولی 1431 ھ) کے حوالے سے ان یہودی ہتھکنڈوں کی کہانی بیان کی گئی جن کے ذریعے یہودی، فیس بک ممبرز کو اپنے اداروں کیلئے انھیں ڈرا دھمکاکر، بلیک میل کرکے یا لالچ دے کر جاسوسی کے کام پر مجبور کرتے ہیں اور بالآخر انھیں اپنا ایجنٹ بنا لیتے ہیں۔ فرنچ یونیورسٹی کے کالج برائے نفسیات کے پروفیسر اور کتاب ”انٹرنیٹ کی شر انگیزیاں” کے مصنف گیرلڈ نائر بیان کرتے ہیں: ”یہ نیٹ ورک مئی 2001 میں دریافت ہوا۔ یہ نیٹ ورک اس خاص گروپ کا حصہ تھا جسے اسرائیلی جاسوسی کے خاص ادارے براہِ راست چلاتے ہیں۔ اور جن کے قیام کا خاص مقصد تیسری دنیا کے نوجوانوں کو جاسوسی کیلئے بھرتی کرنا ہے۔ خصوصا ان عرب ریاستوں، جو اسرائیل کے لئے دشمنی کے جذبات رکھتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جنوبی امریکہ کے نوجوانوں کو اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر فوکس کیا جاتا ہے۔ درحقیقت، جاسوسی نیٹ ورکس کیلئے بھرتیوں کا یہ عمل تو فیس بک ویب سائٹ کی تاسیس سے بھی پہلے کا جاری ہے۔ البتہ فیس بک اور اسی طرح کی دوسری ویب سائٹ نے جاسوسی نیٹ ورکس اور سراغرساں ایجنسیوں کو یہ سہولت ضرور فراہم کی ہے کہ وہ جاسوسی کے لئے مناسب افراد کی بھرتی، ان ویب سائٹس پر انھی افراد کی مہیا کردہ معلومات کی روشنی میں اور منتخب افراد سے براہ راست چیٹنگ کے ذریعے اپنی بھرتیوں کا عمل آسان بناسکیں۔
ذاتی معلومات اور شناخت پر نقب زنی:
فیس بک اراکین کی ذاتی معلومات کو دیکھتے ہوئے ان کی شناخت کو چرانا اور اس کے ذریعے ان کے بینک اکانٹس میں نقب زنی عرف ہیک (hack) کرلیناصورتحال کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔ اس ویب سائٹ کے عالمی سطح پر وسیع پھیلاؤ نے اسے ایک ایسی گلوبل چیٹ سائٹ بنا دیا ہے جو دنیا جہان سے لوگوں کو اکٹھا کرکے ایک دوسرے کے قریب لے آئی ہے۔ فیس بک ویب سائٹ کی اس سہولت نے کہ لوگ ویب سائٹ کی سوشل سرگرمیوں میں براہِ راست داخل ہوئے بغیر (جیسے ہاٹ میل ، یاہو میل اور سکائپ کے میسنجرز) ایک دوسرے سے گفتگو کرسکتے ہیں، معاملے کو سنگین بنادیا ہے اور بالخصوص جب آپ کو ویب سائٹ کا پروگرام یہ سہولت بھی مہیا کرے کہ آپ اپنے ساتھی سے گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی متحرک تصویر بھی ملاحظہ کرسکیں (یعنی ویب کیم کے ذریعے چیٹنگ کرنے کی سہولت) تو خلوت میں کی گئی ایسی گپ شپ عموما منفی نتائج پر ختم ہوتی ہے اور اس بات کا ان لوگوں کو بخوبی اندازہ ہے جو انٹرنیٹ اور میسینجرز کو استعمال کرتے ہیں۔ چیٹنگ کرنے کے منفی نتائج اور بالعموم اس کے نتیجے میں معصیت پر مبنی مراسم کے پیدا ہونے کے علاہ مختصراً اس کے مضر اثرات درج ذیل ہیں:
بیش قیمت وقت کا ضیاع:
عقلمند مسلمان کو احساس کرنا چاہئے کہ اس کی زندگی کا دورانیہ مختصر ہے اور وہ دنیا پر ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ آخرِ کار ایک دن اسے اپنے پروردگار سے ملنا ہے جو اس سے پوچھے گا کہ میں نے تمھیں جوانی دی، تو اس متاعِ عزیز کو کہاں خرچ کیا؟ تمھیں زندگی بخشی، تو کہاں صرف کی اور کیسے گزاری؟ سو صاحبِ بصیرت کو سوچنا چاہئے کہ اس امت کی پہلی نسلیں اور اس امت کے علما اس زندگی اور اس کی قلیل مدت کے بارے میں کیا سوچا کرتے تھے؟
ابنِ عقیل حنبلی رحمة اللہ علیہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ”مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں اپنی زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع کروں، اس لئے جب میں تقریر و تدریس اور علمی بحث و مباحثہ سے فارغ ہوتا ہوں یا جب میں کتاب پڑھنا بند کرتا ہوں تو آرام کے لئے لیٹتے ہیں میں نئے خیالات کے لئے غور و خوض اور سوچ بچار شروع کر دیتا ہوں اور جو علمی نکات میں اپنے درس اور کتابوں کے لئے اکٹھے کرتا ہوں، ان کو اپنی استراحت کے دوران ہی عمیق غور و فکر سے پختہ کرلیتا ہوں۔ اور میں اپنا علم بڑھانے میں بہت ہی زیادہ حریص ہوں۔ اب جبکہ میری عمر 80 برس ہے تو میرا علم کی تحصیل کا شوق اس وقت سے بھی زیادہ بڑھ چکا ہے جب میری عمر صرف برس تھی۔“
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”آدمی کا تمام وقت اس کی دنیاوی زندگی اور ہمیشہ کی زندگی کی میں محصور ہے۔ اب یہ ہمیشہ کی زندگی اس کے لئے ہمیشہ کی رحمت بنتی ہے یا زحمت، اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح گزارتا ہے۔ وقت سرعت رفتار سے گزر جاتا ہے۔ اب اگر وہ شخص اس وقت کو خدا کی مدد سے خدا کی رضا کے حصول میں صرف کرے تو اس کا وہ وقت جو اس نے فضول میں گنوادیا تو وہ اس کے کھاتے میں نہیں لکھا جائے گا۔ اور اگر وہ شخص جانوروں کی طرح اس وقت کو گزارے، سستی، کاہلی، غفلت8، فضول عیاشیوں اور نفس کی بے لگام خواہشات پوری کرنے میں ہی سارا وقت برباد کردے اور صورتحال یہ ہو کہ اگر اس کے وقت کا قیمتی ترین حصہ علیحدہ کیا جائے تو وہ اس کے سونے اور کاہلی و غفلت کے حصے میں آئے تو پھر ایسی زندگی سے تو موت اس کے لئے بہتر ہے۔
مستحکم خاندان کی بربادی:
مردوں اور عورتوں میں گناہ گارانہ تعلقات کا قائم ہونا جو بالآخر ایک مستحکم خاندان کی بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔
مصر کے قومی مرکز کے مطالعے میں، جس کا کہ اوپر حوالہ دیا گیا، میں کہا گیا ہے کہ:
”طلاق کے ہر پانچ میں سے ایک کیس کی بنیادی وجہ یہ سامنے آئی کہ زوجین میں سے ایک کو اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے ساتھی نے انٹرنیٹ اور فیس بک کے ذریعے اپنی پرانی محبت کو ڈھونڈ نکالا ہے اور اب ان کے درمیان دوبارہ عشق و محبت کے تعلقات بحال ہوگئے ہیں ۔“ ہم اس پہلے بہت سے فتاوی میں عورت اور مرد کے درمیان بات چیت، میل جول ابلاغ و اظہار کے جدید ذرائع کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات قابل تشویش ہیں۔
مثبت پہلو سے انکار نہیں:
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے میں بہت سے فائدے بھی ہیں، جن سے صاحب بصیرت اور عقلمند لوگ مستفید ہوتے ہیں اور جو لوگوں کو سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کرنے کے بے حد خواہشمند ہیں۔ایسے لوگ اپنے نیک مقاصد کیلئے ابلاغ کے جدید ترین ذرائع کو بہت خوبی اور ذہانت سے استعمال کرتے ہیں جیسے انٹرنیٹ، موبائل فونز اور سیٹلائٹ چینلز وغیرہ۔ یہ لوگوں کی زندگیوں میں داخل ہو کر ان کو ان کے دین اور ان کے رب کی طرف بلاتے ہیں، یوں دین کی بخوبی خدمت کرتے ہیں۔ خصوصا اجتماعی طور پر کی گئی ایسی تمام سرگرمیاں قابل تحسین ہیں جو نیک مقاصد کے حصول کے لیے جدید ذرائع کو بطور چینل کے استعمال کرتی ہیں اور اس میں یہ فائدہ بھی ہے کہ اجتماعی سرگرمیوں کی نسبت اس قسم کی انفرادی کوششوں کو جدید ذرائع ابلاغ میں زیادہ مزاحمت درپیش ہوتی ہے۔ تاہم فیس بک ویب سائٹ کی مفید باتوں میں سے چند یہ ہیں:
مسائل کے احسن جوابات:
کبار علمااور داعیین کے ذاتی پیجز ، جس میں لوگوں کے لئے پندو نصائح کے علاہ ان کو درپیش مسائل کے احسن جوابات دئیے جاتے ہیں۔ خصوصا وہ پیجز جو کسی ٹیم ورک کی صورت میں کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ ٹیم ورک کی صورت میں اس ٹیم کی قیادت، گروپ کے بانی اور ٹیم ممبرز میں مضبوط سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ ٹیم ممبرز متنوع دینی، سماجی، ثقافتی، سیاسی و تعلیمی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ تصاویر، آڈیو اور ویڈیو کلپس، مفید مضامین، مختصر و لمبی تحریروں اور کتابوں کے لنکس، اچھی ویب سائٹس کے لنکس، مختلف موضوعات پر تبصرہ و اظہار خیال، آپس میں مشورہ، تعمیری بحث مباحثہ اور گروپ کی صورت میں سوال و جواب کی تیز و آسان سہولیات اس ویب سائٹ کی ایسی خصوصیات ہیں جو اسے نہ صرف تکنیکی طور پر اس طرح کی دیگر ویب سائٹ سے ممتاز کرتی ہیں بلکہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کا جواز بھی عطا کرتی ہیں۔
عالم اسلام میں درپیش واقعات کی خبر رسانی:
بین الاقوامی اداروں اور کمپنیوں کا اس ویب سائٹ کے استعمال کنندگان کو عالم اسلام میں درپیش واقعات کی خبر رسانی، مقبوضہ علاقوں کی صورتحال سے آگاہی، عالم اسلام کی مزاحمتی قوتوں کی اپ ڈیٹس فراہم کرنا، خصوصا ان خبروں کو جنھیں کافر میڈیا خصوصی طور پر نظر انداز کرتا ہے، جنھیں بہ زور دبا دیا جاتا ہے یا ایسی خبروں کے سورسز یعنی میگزین، ویب سائٹ، فورم وغیرہ کو بلاک کردیا جاتا ہے۔
مفید، کار آمد اور معلوماتی مواد تک رسائی:
دوستوں، رشتے داروں اور خصوصا ان لوگوں جو دور دراز مقامات پر ہیں، ان سے بات چیت اور گفتگو کے آسان مواقع فراہم ہونا۔ تعلقات کو قائم و دائم رکھنے اور رشتوں کو مضبوط بنانے میں کمیونیکیشن بہت اچھا اثر ڈالتی ہے اور اس کی اسلام میں حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ فیس بک کا ممبر بننے کے حوالے سے جہاں تک شرعی حکم کا تعلق ہے یہ بات اس شخص کی نیت پر منحصر ہے، جو اس کا رکن بننا چاہ رہا ہے۔ اگر تو وہ کوئی صاحب علم ہے، یا طالب علم ہے یا کسی دعوتی گروپ کا حصہ ہے تو پھر اس بات کی اجازت ہے اور ان فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے جو اس ویب سائیٹ کی طرف سے لوگوں کو دئیے جا رہے ہیں، یہ عمل مفید بھی ہے۔ لیکن اس شخص کے لئے جو اسے تخریبی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے یا ان افراد کے لیے جن کے بہکنے کی یا کسی تخریبی گروہ کا حصہ بن جانے کی یا دیر مخرب اخلاق سرگرمیوں میں مشغول ہونے یا فتنوں میں مبتلا نہ ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی، خصوصا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، تو ایسے افراد کے لئے شرعاً اس کا رکن بننے کی اجازت نہیں ہے۔
مستند علما کے چینلز کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع:
وہ شخص جو حقائقِ وقت سے آگاہ ہے، اور اس صنعتی دور کی پیدا کردہ تعیشات، منہ زور خواہشات، حلال حرام کی تفریق کیے بغیر لذتوں کی طلب، خاندانی و سماجی رشتوں کے کمزور ہوتے بندھن، اور وہ فتنے جو ہم سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں ان سے بخوبی آگاہ ہے، تو ایسی صورتحال میں وہ کسی فقیہ یا مفتی پر اعتراض نہیں کرے گا جو کسی ایسی شے سے منع کر رہے ہیں جس میں جزوی یا کلی طور پر نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی شے میں موجود قلیل فائدہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اب مکمل طور پر جائز ہوگئی ہے کیونکہ کسی بھی شخص کے لیے یہ خدشہ ہمیشہ موجود رہے گا کہ وہ اس شے کے قلیل فائدے سے صرفِ نظر کرکے اس کے کثیر نقصان میں مبتلا ہوجائے خصوصا جبکہ غیر شرعی لذتوں اور فتنوں کی طرف شیطان ہمہ وقت انسان کو بھٹکاتا رہتا ہے۔ اگر کسی شے کے اچھے اور مفید طلب پہلو زیادہ ہیں اور برے اور نقصان دہ پہلو کم ہیں تب ہی ہم مکمل وثوق اور اطمینان کے ساتھ اس چیز کے جائز ہونے کا حکم دے سکتے ہیں۔ اگر چہ پہلے پہل ہمارے بعض علما حضرات سیٹلائٹ چینلز کے بارے میں ان میں موجود خالص شر اور نقصان کی وجہ سے بہت سخت موقف رکھتے تھے، تا ہم بعد میں جب ان میں عظیم مفید طلب کام شروع ہوئے اور مکمل اسلامی چینلوں کی بنیادیں رکھی گئیں اور ان چینلوں کے لیے ایسے ناظرین دستیاب ہو گئے جو صرف انھی اسلامی چینلز کی طلب رکھتے تھے، تو یہ نقطہ نظر کہ یہ چینلز جائز ہیں، بھی اپنی جگہ پر ثابت ہوگیا۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مستند علمائےکرام ان چینلز کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور بہت سے مفید پروگرامز ان کی بدولت ناظرین کیلئے پیش کئے جاتے ہیں۔
صالح اور شرعی رہنمائی کی ضرورت:
وہ شخص جو فیس بک اور اس طرح دیگر ویب سائٹس پر اپنے آپ کو غیر شرعی امور کے ارتکاب سے بچا نہیں سکتا اور اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا، تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ ان ویب سائٹس کا حصہ بنے۔ یہ جواز صرف اسی شخص کے لئے مخصوص ہے جو شرعی رہنمائی کے مطابق انھیں استعمال کرے، اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور اپنی خواہشات پر قابو رکھنے کا پر سیکھ چکا ہو اور جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ ان ویب سائٹس کے استعمال سے اپنی ذات کو نفع پہنچائے گا اور دوسرے اس کی ذات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ صارفین کو ظاہر و پوشیدہ فتنوں سے محفوظ رکھے۔ اور سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کرے!