فارمی مرغی اور انڈے کا حکم Farmi murghi Hen Farms


فارمی مرغی اور انڈے کا حکم Farmi murghi Hen Farms
# فقہیات #

=== فارمی مرغی اور انڈے کا حکم ===

اس وقت فارمی مرغی اور اس کے انڈے ایک بڑی تعداد میں عوام کی عمومی غذا کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں کہ اس کو بطور غذا استعمال بھی کیا جارہا ہے اور بطور مال اس کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے، تاہم آئے دن اس کے متعلق کچھ باتیں سننے کو ملتی ہیں اس لئے اس کی بابت کچھ احکام شرعیہ فتاوی کی روشنی میں پیش خدمت ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)

*1- پہلے* یہ سمجھیں کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے سوائے گوشت کے کہ اس میں اصل حرمت ہے جب تک کہ دلیل حلّت (حلال ہونے کی دلیل قائم نہ ہوجائے) چنانچہ مرغی کے گوشت کو بھی اس بھی اسی اعتبار سے دیکھا جائے گا اور اس کے انڈے کا مدار بھی اس کے گوشت پر ہے۔

*2- دوسرا* کسی بھی حلال چیز کو حرام قرار دینے یا حرام چیز کو حلال قرار دینے سے قبل احتیاط کی ضرورت ہے، مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں :
کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ :
*ایک* اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔
*دوسرا* اگر عقیدةً حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے۔
*تیسرا* یہ ہے کہ نہ عقیدةً حرام سمجھے، نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے، یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلا کراہت جائز ہے، بعض صوفیائے کرام سے جو ترکِ لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
(معارف القرآن سورہ تحریم)

*3- تیسرا* یہ ہے کہ اگر کوئی حلال چیز ہو مگر وہ طبی اعتبار سے مضر سمجھی جاتی ہو تو وہ قابل ترک تو قرار دی جاسکتی ہے تاہم اس کو حرام قرار دینا کسی طرح شرعا جائز نہیں جب تک اس پر شرعی دلیل سے حرمت قائم نہ ہوجائے۔

*4- چوتھا* کسی بھی چیز کو حلال و حرام قرار دینا دیانات سے تعلق رکھتا ہے اور دیانات میں مسلم کی خبر کا اعتبار ہے، غیر مسلم کی بات کا اعتبار نہیں۔

*5- پانچواں* اگر کسی چیز کی حقیقت و ماہیت اس طور پر بدل جائے کہ اس کا نام و خواص اور شکل و صورت و اوصاف بالکلیہ بدل جائیں تو اس کو فقہاء کی اصطلاح میں تبدیل ماہیت اور انقلاب حقیقت کہا جاتا ہے اور ایسی صورت میں اگر وہ حرام چیز حلال بن جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، یہ بات واضح رہے کہ انقلاب حقیقت ممکن ہے جیسا کہ حضرت علامہ شامی رحمہ اللہ کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی بات ثبوت تک پہنچتی ہے:
*”وَالظَّاہِرُ أنَّ مَذْہَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَالله اعلم․ (رد المحتار: 239/1، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)*
ترجمہ: اور ظاہر سی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجاست کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں (رد المحتار) تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔

● حضرت مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
انقلابِ حقیقت سے مراد کیا ہے؟ تو واضح ہوکہ انقلابِ حقیقت سے مرادیہ ہے کہ وہ شے فی نفسہ اپنی حقیقت چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں متبدل ہوجائے، جیسے شراب سرکہ ہوجائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا وغیرہ کہ ان صورتوں میں شراب نے فی نفسہ اپنی حقیقت خمریہ اور خون نے اپنی حقیقت دمویہ اور نطفہ نے اپنی حقیقت منویہ چھوڑدی اور دوسری حقیقتوں میں متبدل ہوگئے، حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت دیا جاسکتا ہے کہ حقیقت اولیٰ منقلبہ کے آثار مختصہ اس میں باقی نہ رہیں۔(کفایت المفتی و فتاوی مظاہر علوم)

● حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب رحمہ اللہ نے انقلابِ ماہیت کو اپنے الفاظ میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے:
”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت و کیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار و امتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)

● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ :
صورت اور اوصاف سہ گانہ (رنگ، بو، مزہ) کی تبدیلی سے تحویلِ حقیقت ہو جاتی ہے، گو کسی شئی کا قوام اور مادہ باقی رہے، جیسے شراب سرکہ بن جائے تو اصل مادہ باقی رہتا ہے، اوصاف اور اثرات میں تبدیلی آتی ہے۔(قاموس الفقہ 94/2)

اب اس کے بعد فارم کی مرغیوں اور اس کے انڈوں کی بابت فتاوی کی روشنی میں اجمالی عرض ہے کہ *فارمی مرغی اور اس کے انڈے از روئے شرع حلال ہیں البتہ اس مرغی کے استعمال سے اجتناب لازم ہے جو گندگی کھاتی ہو جس کی وجہ سے اس کا گوشت بدبو دار ہوجائے*

تفصیلی فتاوی ملاحظہ فرمائیں :

*فارمی مرغی کے کھانے کا حکم :
● آج کل تقریباً ہر ملک میں مشینی سفید مرغی کا کاروبار عام ہے اور مرغیوں کی پرورش کے لئے ایسی خوراک دی جاتی ہے جس میں خون کی آمیزش کی جاتی ہے، جس سے مرغی جلد جوان ہوتی ہے اور اس غذا کی وجہ سے مرغی کے اندر خود بخود انڈے دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس قسم کی مرغی کا حکم یہ ہے کہ اگر مرغی کی غذا کا غالب حصہ اگر حرام ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے، اس کو تین دن بند رکھا جائے اور حلال غذا دی جائے، اس کے بعد کھایا جائے، اور ان کی خوراک میں حلال غالب ہو تو کھانا جائز ہے۔(فتاوی یوسفی جلد ١٠)

● اگر پولٹری فارم میں مرغیوں کو خنزیر کی چربی یا اس طرح کی چیزوں سے تیارشدہ کھانا کھلایا جائے تو ایسی مرغیوں کو کھاسکتے ہیں، البتہ اگر ان مرغیوں سے خنزیر کی بو آرہی ہو تو عارضی طور پر ان کو کچھ دن الگ رکھ کر حلال غذا کھلائی جائے اور جب ان سے بو زائل ہوجائے اس وقت ان کو ذبح کرکے کھایا جائے۔(جواب : 25162 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

● فارم والی مرغی حلال ہے، حرام غذا کا اثر (مستہلک) ختم ہونے کے بعد کراہت بھی ختم ہوجاتی ہے، در مختار میں ہے کہ :
*{ حل أکل جدي غذی بلبن خنزیر لأن لحمه لا یتغیر وما غذي به یصیر مستہلکا لا یبقی له أثر }* (جواب : 46011 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

● کسی جانور کا خون اگرچہ مال متقوم نہیں کہ اس کو فروخت کیا جائے لیکن بسا اوقات عرف کی وجہ سے ضرورت کے تحت ایک غیر مال بھی مال بن جاتا ہے اور فقہاء اسلام نے اس کی بیع کو جائز قرار دیا ہے، مثلاً گوبر وغیرہ تو صورتِ مسئولہ کے مطابق آجکل جانوروں کے خون سے چونکہ فارمی مرغیوں کی خوراک بنتی ہے اور ضرورت کے تحت عموماً اس کا کاروبار ہوتا ہے، اس لئے بناء بر عرف اس کو مال سمجھا جائے گا اور مذکورہ صورت میں تو وہ خون خون ہی نہیں رہتا بلکہ جل کر راکھ بن جا تا ہے، اس لیے جلے ہوئے خون کی تجارت بلا شک و شبہ جائز ہے۔
*لما قال العلامۃ ظفراحمد العثمانی رحمہ اللہ :
یہ بیوپار جائز ہے…… ان اقوال کا مقتضاء یہ ہے کہ اگر کسی وقت خون کی قیمت بھی عرفاً ہوجائے تو اس کی بیع وشراء صحیح ہے اور خون کی راکھ تو پاک ہے، اس کی بیع صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(امدادالاحکام :٣٥٤،٣٥٥/٣ کتاب البیوع)
(فتاویٰ حقانیہ : ٥٦/٦)

(از فتاوی فریدیہ، عنوان : خون کے جل کر راکھ ہو جا نے پر اس کی تجارت کا حکم)

*فارمی مرغی کے انڈے کا شرعی حکم :
کسی بھی جانور کے حلال و حرام ہونے میں اس کی ماں کا اعتبار ہوتا ہے اور یہی حکم اس کے انڈے کا ہے، اگر اس کی ماں حلال ہے تو وہ بھی حلال ہے اور اگر اس کی ماں حرام ہے تو وہ بھی حرام ہے، جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فارمی مرغی حلال ہے تو اس کے انڈے بھی حلال ہونگے۔
● حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
جانوروں میں بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر ماں حلال ہے تو بچہ بھی حلال ہے، اگر ماں حرام ہے تو بچہ بھی حرام ہے، اگر گدھی کے ساتھ گھوڑا وطی کرے اس سے خچر پیدا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حرام ہوگا، اگر گائے کے ساتھ گدھا وطی کرے تو اس سے بچھڑا پیدا ہوا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حلال ہوگا، اب امید ہے کہ امریکن گائے کا سوال اور اس پر اشکال بھی حل ہوجائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
(دارالعلوم دیوبند ١٤٠١/٦/١٠)

● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
مرغی اور اس کے انڈے کا حلال ہونا حدیث سے ثابت ہے(الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۸۲٤ ۔ محشی) اور اس پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے (المغنی :١٠١/١ محشی) اس میں کوئی تفریق نہیں کہ نر کے اختلاط کے بعد انڈے ہوئے ہوں، یا اس کے بغیر، اگر تنہا مرغی سے بھی انڈا حاصل ہو تو ظاہر ہے کہ یہ انڈا مرغی کا جزو ہے، پھر اس انڈے سے بچہ ہو تو وہ بچہ بھی اس مرغی کا جزو قرار پایا، اور جب مرغی خود پاک اور حلال ہے تو اس سے حاصل ہونے والے اجزاء سوائے پیشاب، پائخانہ اور خون کے وہ بھی پاک ہونگے، اس لئے جیسے فطری نظام کے تحت ہونے والے انڈے اور بچے حلال ہیں، اسی طرح یہ بھی حلال ہیں۔
(کتاب الفتاوی جلد ٤)

● فتاوی بینات جلد ٤ میں ہے :
جس شبہ کا سائل نے اظہار کیا ہے کہ *باہر ممالک میں مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کی چربی و فضلہ کا استعمال ہوتاہے* تو یہ کئی وجوہ سے حرمت کی وجہ نہیں ہوسکتی :

1- اس وجہ سے کہ مرغیوں کی خوراک میں ان اشیاء کا استعمال قلیل مقدار میں ہوتا ہے، جبکہ دیگر اشیاء غالب ہوتی ہیں اور اعتبار غالب ہی کا ہوتا ہے۔

2- اس وجہ سے کہ مرغیوں کے نجاست کھانے کے بعد اس کی ماہیت اور حقیقت بدل جاتی ہے جس کی بناء پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، البتہ اگر نجس غذا کی وجہ سے گوشت میں بدبو پیدا ہوجائے تو گوشت کا کھانا جائز نہیں ہوگا، کما فی الشامیة :
*{تحبس الجلالة حتی یذھب نتن لحمہا وقدر بثلاثة ایام لدجاجة…. ولو أکلت النجاسة وغیرها بحیث لم ینتن لحمها حلت کما حل اکل جدی غذی بلبن خنزیر لان لحمہ لایتغیر وما غذی به یصیر مستہلکا لایبقی له اثر}*
*(قولہ:حلت) وعن هذا قالوا: لابأس باکل الدجاج لانه یخلط ولا یتغیر لحمه*
(الدر المختارمع رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحة:٣٤٠،٣٤٢/٦)

*{لایکون نجسا…. ولاملح کان حماراً او خنزیرا ولا قذر وقع فی بئر فصار حمأۃ لانقلاب العین وبه یفتی، وفی الشامیة: لان الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومها فکیف بالکل؟۔۔۔ ونظیرہ فی الشرع : النطفة نجسة وتصیر علقة وهی نجسة وتصیر مضغة فتطہر}*
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارۃ ،باب الانجاس:۱؍۳۲۵،۳۲۷۔ط: ایچ ایم سعیدکراچی)

*مرغی کو ذبح کرنے کے بعد چند احتیاط :
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اگر اس کی آلائش اور گندگی نکالنے سے پہلے کھولتے ہوئے گرم پانی میں اتنی دیر ڈال دیا جائے کہ جس سے اس کی نجاست گوشت میں سرایت کرجائے تو ایسی صورت میں مرغی کا گوشت ناپاک ہوجائے گا اور اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، گویا گوشت کا ناپاک ہونا دو شرطوں کے ساتھ مقید ہے :
1- پانی کا غلیان (جوش) کی حد تک گرم ہونا۔
2- مرغی کو اتنی دیر پانی میں رکھنا کہ نجاست کا اثر گوشت میں سرایت کرجائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مرغی بیچنے والے اس طرح سے مرغیاں ذبح کرتے ہیں کہ جس میں مذکورہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، تو ان کا یہ عمل غیر شرعی ہوگا اور اس طریقے پر جو مرغیاں ذبح کی جائیں گی، ان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔
*{قال الحصکفي: وکذا دجاجة ملقاة حالة علی الاء للنتف قبل شقہا – قال ابن عابدین: والعلةُ -اللہ اعلم- تشربها النجاسة بواسطة الغلیان، وعلیه اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس، لکن العلة المذکورة لا تثبت مالم یمکث اللحم بعد الغلیان زمانا یقع فی مثلہ التشرب والدخول فی باطن اللحم- إلخ}* (الدر المختار مع رد المحتار: ٥٤٤/١ ط: زکریا)
(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)

ناشر : دارالریان کراتشی