اسلامی شریعت میں وراثت کی تقسیم اولا قرابت ورشتہ داری کے اُصول پر مبنی ہے، کسی وارث کے مال دار یا نادار ہونے اور قابلِ رحم ہونے یا نہ ہونے پر اس کا مدار نہیں۔ دوم اس میں الاقرب فالاقرب کا اُصول جاری ہوتا ہے، یعنی جو شخص میّت کے ساتھ قریب تر رشتہ رکھتا ہو، اس کے موجود ہوتے ہوئے دُور کی قرابت والا وراثت کا حق دار نہیں ہوتا۔
ﺑﯿﭩﺎ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺗﺎ ﺍﺑﻌﺪ یعنی دور کا ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﮯ … ﺍﻭﺭ ﺍﻗﺮﺏ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺑﻌﺪ ﯾﻌﻨﯽ ﭘﻮﺗﺎ وراثت سے ﻣﺤﺮﻭﻡ رہے گا۔
آدمی کی موجودگی میں اس کا ایک بیٹا مرگیا ۔جو اپنا بیٹا یعنی پوتا چھوڑ کے مرا ہے۔
تو اب دادا کی جائیداد میں اس کے صلبی بیٹے اقرب ہیں۔ انہیں حق ملے گا۔ پوتا ابعد ہے۔ بیٹوں کی موجودگی میں پوتا شرعا وارث نہیں بن سکتا۔
اگر دادا کو اپنے پوتوں سے شفقت ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی جائیداد میں اس کے یتیم پوتے بھی شریک ہوں تو اس کے لئے شریعت نے دو طریقے تجویز کئے ہیں:
اوّل یہ کہ اپنے مرنے کا انتظار نہ کرے، بلکہ صحت کی حالت میں اپنی جائیداد کا اتنا حصہ ان کے نام منتقل کرادے جتنا وہ ان کو دینا چاہتا ہے، اور اپنی زندگی ہی میں ان کو قبضہ بھی دِلادے۔
دُوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے یتیم پوتوں کے حق میں تہائی جائیداد کے اندر اندر وصیت کرجائے کہ اتنا حصہ اس کے مرنے کے بعد ان کو دیا جائے۔