بینک وغیرہ سے سود لینا دینا

سود کو حلال قرار دینے کی نام نہاد مجدّدانہ کوشش پر علمی بحث

س… ”لندن میں ایک عیسائی دوست نے مشورہ دیا کہ میں ایک مسلم علاقے میں شراب کی دُکان کھول لوں اور اس کا نام ”مسلم وائن شاپ“ رکھوں۔ میں کچھ وقفے کے لئے حیرت زدہ رہ گیا، مگر جلد ہی اس سے مخاطب ہوا کہ بھائی! میرے لئے شراب کا کاروبار کرنا حرام ہے، مزید برآں آپ اس دُکان کا نام بھی ”مسلم وائن شاپ“ (شراب کی اسلامی دُکان) رکھوا رہے ہیں! عیسائی دوست ایک طنز آمیز مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا کہ: ”اگر سود کا کاروبار کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی ”مسلم کمرشل بینک“ کے نام سے، تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے“ اس دوست نے مجھے لاجواب کردیا۔“

یہ ایک مسلمان کے خط کا اقتباس ہے جو ”اخبارِ جہاں“ کے ایک شمارے میں شائع ہوا تھا، اس عیسائی دوست نے طنز کا جو نشتر ایک مسلمان کے جگر میں پیوست کیا ہے، اس کی چبھن ہر ذی حس مسلمان اپنے دِل میں محسوس کرے گا، لیکن کیا کیجئے ہماری بدعملی نے عقل و فہم ہی کو نہیں، ملّی غیرت و حمیت اور احساس کو بھی کچل کر رکھ دیا ہے۔ ڈُوب مرنے کا مقام ہے کہ ایک عیسائی، مسلمانوں پر یہ فقرہ چست کرتا ہے کہ ”اسلامی بینک“ کے نام سے سود کی دُکان کھل سکتی ہے تو ”اسلامی شراب خانہ“ کے نام سے شراب خانہ خراب کی دُکان کیوں نہیں کھل سکتی؟ لیکن ہمارے دور کے ”پڑھے لکھے مجتہدین“ اس پر شرمانے کے بجائے بڑی جسارت سے سود کے حلال ہونے کا فتویٰ صادر فرمادیتے ہیں۔ پاکستان میں وقتاً فوقتاً سود کے جواز پر موشگافیاں ہوتی رہتی ہیں، کبھی یونیورسٹیوں کے دانشور سود کے لئے راستہ نکالتے ہیں، تو کبھی کوئی جسٹس صاحب رِبا کی اقسام پر بحث فرماتے ہوئے ایک خاص نوعیت کے سود کو جائز گردانتے ہیں۔ جناب کا ان موشگافیوں کے متعلق ایک مفتی اور محدث کی حیثیت سے کیا رَدِّعمل ہے؟

ج… قریباً ایک صدی سے جب سے غلام ہندوستان پر مغرب کی سرمایہ داری کا عفریت مسلط ہوا، ہمارے مجتہدین سود کو ”اسلامی سود“ میں تبدیل کرنے کے لئے بے چین نظر آتے ہیں، اور بعض اوقات وہ ایسے مضحکہ خیز دلائل پیش کرتے ہیں جنھیں پڑھ کر اقبال مرحوم کا مصرعہ:

”تم تو وہ ہو جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود!“

یاد آجاتا ہے۔ ہمارے قریبی دور میں ایوب خان کے زیر سایہ جناب ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب نے سود کو ”اسلامیانے“ کی مہم شروع فرمائی تھی، جس کی نحوست یہ ہوئی کہ ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب اپنے فلسفہٴ تجدّد کے ساتھ ایوب خان کے اقتدار کو بھی لے ڈُوبے۔ اب نئی حکومت نے اسلام کے نظامِ معاشیات کی طرف پیش رفت کا ارادہ کیا، ابھی اس سمت قدم اُٹھنے نہیں پائے تھے کہ ہمارے لکھے پڑھے مجتہدوں کی جانب سے ”الامان و الحفیظ“ کی پکار شروع ہوگئی۔ ان حضرات کے نزدیک اگر انگریز کا نظامِ کفر مسلط رہے تو مضائقہ نہیں، مغرب کا سرمایہ داری نظام قوم کا خون چوس چوس کر ان کی زندگی کو سراپا عذاب بنا دے تو کوئی پروا نہیں، کمیونسٹوں کا ملحدانہ نظام انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی صف میں شامل کردے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اسلام کے عادلانہ نظام کا اگر کوئی نام بھی بھولے سے لے ڈالے تو خطرات کا مہیب جنگل ان کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے، گویا ان کے ذہن کا معدہ دورِ فساد کی ہر گلی سڑی غذا کو قبول کرسکتا ہے، نہیں قبول کرسکتا تو بس اسلام کو، اِنَّا ِللهِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

اس موضوع پر چند دن پہلے عالی جناب جسٹس (ریٹائرڈ) قدیرالدین صاحب کا ایک مضمون دو قسطوں میں ”رِبا قطعی حرام ہے“ کے زیر عنوان کراچی کے روزنامہ ”جنگ“ میں شائع ہوا، معلوم نہیں جناب جسٹس صاحب کا اسلامی مطالعہ کس حد تک وسیع ہے؟ وہ دورِ جدید کے کس اِجتہادی مکتبِ فکر سے وابستہ ہیں؟ اور خود آں موصوف کو منصبِ اِجتہاد پر سرفرازی کا شرف کب سے حاصل ہوا ہے؟ لیکن ہمارے مجتہدین اپنے دعوے کو جس قسم کے دلائل سے آراستہ کرنے کے خوگر ہیں، افسوس ہے کہ موصوف کا معیارِ استدلال ان سے کچھ زیادہ بلند نہیں ہے۔ بلکہ اس مضمون میں علم و فہم کی وہ ساری بوالعجبیاں موجود ہیں، جو ہمارے نومشق مجتہدین کا طرہٴ افتخار ہے۔

ان کی تحریر پڑھ کر قاری کو جو سب سے بڑی مشکل پیش آتی ہے وہ یہ کہ جسٹس صاحب ”رِبا قطعی حرام ہے“ کا عنوان دے کر آخر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ کبھی یہ فرماتے ہیں کہ ہماری زبان میں جس چیز کو ”سود“ کہا جاتا ہے، وہ ”رِبا“ نہیں۔ کبھی یہ بتاتے ہیں کہ بینکوں کے ”سود“ کو دورِ جدید کے بعض علماء نے حلال و مطہر قرار دیا ہے۔ کبھی یہ سمجھاتے ہیں کہ متقدمین بھی ”سود“ کی بعض صورتوں کو جائز قرار دیتے تھے۔ کبھی سود کی حرمت کو تسلیم فرماکر ”نظریہٴ ضرورت“ ایجاد فرماتے ہیں۔ کبھی یہ وعظ فرماتے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے ”سود“ چھوڑنے کی غلطی کی تو خدانخواستہ ہماری معیشت تلپٹ ہوجائے گی، وغیرہ وغیرہ۔

ایک جسٹس جو برسہا برس تک عدالتِ عالیہ کی کرسی پر رونق افروز رہا ہو، جس کی ساری عمر ماشاء اللہ انگریزی قانون کی موشگافیوں میں گزری ہو، اور سچ جھوٹ کے درمیان امتیاز جس کی خوبی بن گئی ہو، کیا اس سے ایسی ژولیدہ فکری کی توقع کی جاسکتی ہے․․․؟

جسٹس صاحب کو پہلے دو ٹوک بتانا چاہئے تھا کہ وہ بینک کے سود کو حرام سمجھتے ہیں یا حلال اور مطہر؟ اگر حرام سمجھتے ہیں تو ان کی یہ ساری کہانی غیرمتعلق ہوجاتی ہے کہ سود کی فلاں فلاں قسمیں ․․․معاذ اللہ․․․ حلال بھی سمجھی گئی ہیں۔ اس صورت میں ان کا فرض یہ تھا کہ وہ ہمیں بتاتے کہ وہ کون کون سے اضطراری حالات ہیں جن کی بنا پر وہ بینکوں کو اس حرام خوری کی ”رُخصت“ عطا فرما رہے ہیں۔ اور اگر وہ بینک کے سود کو ”حلال و مطہر“ سمجھتے ہیں تو ان کی نظریہٴ ضرورت و رُخصت کی بحث قطعاً لغو اور غیرمتعلق بن جاتی ہے۔ اس صورت میں انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ قرآن و سنت کے وہ کون کون سے دلائل ہیں جن سے بینک کے ”سود“ کا تقدس ثابت ہوتا ہے۔ آخر دُنیا کا کون عاقل ہے جو ایک پاک اور حلال چیز کا جواز ثابت کرنے کے لئے ”اضطرار“ کی بحث شروع کردے․․․؟

خلاصہ یہ کہ موصوف کے مضمون سے قاری کو یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ان کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کس چیز کو ثابت کرنے کے درپے ہیں؟ اس طرح ان کا سارا مضمون ایک مبہم دعویٰ کے اثبات میں فکری انتشار کا شاہکار بن کر رہ جاتا ہے۔

دعویٰ کے بعد دلائل پر نظر ڈالئے تو اس میں بھی افسوسناک غلط فہمیاں نظر آتی ہیں، سب سے پہلے انہوں نے ”مقصدِ کلام“ کے عنوان سے ”رُخصت“ کی بحث چھیڑی ہے، اور چلتے چلتے وہ یہ تک لکھ گئے ہیں:

”بڑے بڑے علمائے دِین نے بھی اس حقیقت کو پہچانا ہے اور ”رِبا“ (یا سود) کے معاملے میں مجبوری بلکہ خاص حالات میں ”رُخصت“ یا ”اجازت“ کو تسلیم کیا ہے۔“

جسٹس صاحب کا یہ فقرہ میرے لئے ”جدید اِنکشاف“ کی حیثیت رکھتا ہے، مجھے معلوم نہیں وہ کون کون ”بڑے بڑے علماء“ ہیں جنھوں نے ”خاص حالت“ میں سود لینے کا فتویٰ صادر فرمایا ہے۔ اگر جناب جسٹس صاحب اس موقع پر ان ”بڑے بڑے علماء“ کے ایک دو فتوے بھی نقل کردیتے تو نہ صرف ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا، بلکہ ان کا ہولناک دعویٰ ”خالی دعویٰ“ نہ رہتا۔

رُخصت کی بحث:

رُخصت اور اضطرار کی بحث میں فاضل جج صاحب نے جو کچھ لکھا ہے، اسے ایک نظر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نہ تو ”اضطرار“ اور ”رُخصت“ کی حقیقت سے واقف ہیں، نہ ”رُخصت“ کے مدارج اور ان کے الگ الگ اَحکام ہی انہیں معلوم ہیں، نہ انہوں نے اس کے لئے فقہ و اُصول کے ابتدائی رسالوں ہی کو دیکھنے کی زحمت فرمائی ہے، انہوں نے کہیں سے سن لیا کہ مجبوری کی حالت میں حرام کھانے کی بھی اجازت ہے، اس کے بعد سود کھانے کی مجبوری کا سارا افسانہ ان کے اِجتہاد نے خود ہی تراش لیا۔

اسلام کی نظر میں سودخوری کس قدر گھناوٴنا اخلاقی، معاشی اور معاشرتی جرم ہے، اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ زنا اور قتل ایسے افعالِ شنیعہ پر بھی وہ لرزہ خیز سزا نہیں سنائی گئی جو سودخوری پر سنائی گئی ہے، قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا گیا ہے:

”یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّوٴْمِنِیْنَ، فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلہ“ (البقرة: ۲۷۸، ۲۷۹)

ترجمہ:… ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود کا جو بقایا رہتا ہے اسے یک لخت چھوڑ دو، اگر تم مسلمان ہو۔ اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو!“

تمام بد سے بدتر کبیرہ گناہوں کی فہرست سامنے رکھو اور دیکھو کہ کیا کسی گنہگار کے خلاف خدا اور رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا گیا ہے؟ اور پھر یہ سوچو کہ جس بدبخت کے خلاف خدا اور رسول میدانِ جنگ میں اُتر آئیں اس کی شورہ بختی کا کیا حشر ہوگا؟ اس کو خدائی عذاب کے کوڑے سے کون بچاسکتا ہے؟ اور اس بدترین مجرم کو جو خدا اور رسول کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے، کون عقل مند ”اُصولِ رُخصت“ کا پروانہ لاکر دے سکتا ہے․․․؟

یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ جو شخص انفرادی طور پر سودخوری کے جرم کا مرتکب ہے وہ انفرادی حیثیت سے خدا اور رسول کے خلاف میدانِ جنگ میں ہے، اور اگر یہ جرم انفرادی دائرے سے نکل کر اجتماعی جرم بن جائے اور مجموعی طور پر پورا معاشرہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے لگے تو خدائی عذاب کا کوڑا پورے معاشرے پر برسنے لگے گا، اور دُنیا کا کوئی بہادر ایسا نہ ہوگا جو اس جرم کے ارتکاب کے باوجود اس معاشرے کو خدا کے عذاب سے نکال لائے۔

یہ بدنصیب ملک ابتدا ہی سے خدا اور رسول کے خلاف بڑی ڈھٹائی سے مسلح جنگ لڑ رہا ہے، اس پر چاروں طرف سے خدائی قہر و غضب کے کوڑے برس رہے ہیں، ”فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَاب“ کا منظر آج ہر شخص کو کھلی آنکھوں نظر آرہا ہے۔ ملک ستر اَرب روپے کا مقروض ہے، نوّے ہزار جوان ذلیل بنیوں کے ہاتھ میں قیدی بناچکا ہے، دِلوں کا سکون چھن چکا ہے، راتوں کی نیند حرام ہوچکی ہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ”روٹی، روٹی“ کی پکار چاروں طرف سے سنائی دے رہی ہے، لیکن وائے حسرت اور بدبختی کہ اب بھی عبرت نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے نومجتہد صاحب پروانہٴ ”رُخصت“ لئے پہنچ جاتے ہیں۔ اور حالات کی دُہائی دے کر سود کو حلال کرنے کے لئے ذہانت طباعی کے جوہر دِکھاتے ہیں۔ قرآنِ کریم، خدا اور رسول کے ساتھ ”صلح“ کو سود چھوڑ دینے کے ساتھ مشروط کرتا ہے، اور جو لوگ سود چھوڑ دینے کا اعلان نہ کریں انہیں مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتا، لیکن محترم جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ سود بھی کھاوٴ اور مسلمان بھی رہو، سود کا لین دین خوب کرو اور میدانِ جنگ میں خدائی عذاب کے ایٹم بم سے حفاظت کے لئے اُصولِ رُخصت کی خانہ ساز ململ جسٹس صاحب سے لیتے جاوٴ․․․!

جسٹس صاحب بتائیں کہ ”سودخور“ کے خلاف تو قرآنِ کریم اعلانِ جنگ کرچکا ہے، قرآنِ کریم کی وہ کون سی آیت ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی خودساختہ مجبوری میں ”سود خور“ کی ”صلح“ خدا اور رسول سے ہوسکتی ہے اور حالات کا بہانہ بناکر خدا اور رسول کو میدانِ جنگ سے واپس کیا جاسکتا ہے؟ انہیں ”الف“، ”ب“، ”ج“ کے برخود غلط حوالے دینے کے بجائے قرآنِ کریم کے حوالے سے بتانا چاہئے تھا کہ اس اعلانِ جنگ سے فلاں فلاں صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ جسٹس صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ”سودخور“ بہ نصِ قرآن، خدا اور رسول سے جنگ لڑ رہا ہے، خواہ امریکہ کا باشندہ ہو یا پاکستان کا، اس کی صلح خدا اور رسول سے نہیں ہوسکتی، جب تک وہ اپنے اس بدترین جرم سے باز آنے کا عہد نہیں کرتا۔ نہ آپ کی نام نہاد ”رُخصت“ کا تارِ عنکبوت اسے خدائی گرفت سے بچاسکتا ہے۔

قرآنِ کریم کے بعد حدیثِ نبوی کو لیجئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف سود کھانے، کھلانے والوں پر بلکہ اس کے کاتب و شاہد پر بھی لعنت کی بددُعا کی ہے، اور انہیں راندہٴ بارگاہِ خداوندی ٹھہرایا ہے:

”عن علی رضی الله عنہ أنہ سمع رسول الله صلی الله علیہ وسلم لعن آکل الربا أو موکلہ وکاتبہ۔“

(مشکوٰة ص:۲۴۶)

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ:

”عن عبدالله بن حنظلة غسیل الملائکة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: درھم ربا یأکلہ الرجل وھو یعلم أشد من ستة وثلاثین زنیةً۔“

(مشکوٰة ص:۲۴۶)

ترجمہ:… ”سود کا ایک درہم کھانا ۳۶ بار زنا کرنے سے بدتر ہے۔“

اور ایک حدیث میں ہے کہ:

”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: الربا سبعون جزءً أیسرھا أن ینکح الرجل أمہ۔“ (مشکوٰة ص:۲۴۶)

ترجمہ:… ”سود کے ستر درجے ہیں، اور سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے منہ کالا کرے۔“

جسٹس صاحب فرمائیں! کہ کیا دُنیا کا کوئی عاقل ”مجبوری“ کے بہانے سے لعنت خریدنے، ۳۶ بار زنا کرنے اور اپنی ماں سے منہ کالا کرنے کی ”رُخصت“ دے سکتا ہے․․․؟

جسٹس صاحب کو معلوم ہی نہیں کہ ”مجبوری“ کسے کہتے ہیں؟ اور آیا جس مجبوری کی حالت میں مردار کھانے کی ”رُخصت“ دی گئی ہے، وہ مجبوری پاکستان کے کسی ایک فرد کو بھی لاحق ہے․․․؟

دینیات کا معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ جس ”مجبوری“ میں مردار کھانے کی اجازت دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص کئی دن کے متواتر فاقے کی وجہ سے جاں بلب ہو اور اسے خدا کی زمین پر کوئی پاک چیز ایسی نہ مل سکے جس سے وہ تن بدن کا رشتہ قائم رکھ سکے، تو اس کے لئے سدِ رمق کی بقدر حرام چیز کھاکر اپنی جان بچانے کی اجازت ہے، اور اس میں قرآنِ کریم نے ”غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ“ کی کڑی شرط لگا رکھی ہے۔

یہ ہے وہ ”اُصولِ ضرورت“ جس کو جسٹس صاحب کا ”آزاد اِجتہاد“ کروڑپتی سیٹھ صاحبان پر چسپاں کر رہا ہے۔ جسٹس صاحب بتائیں کہ پاکستانی سودخوروں میں کون ایسا ہے جس پر ”تین دن سے زیادہ فاقہ“ گزر رہا ہو اور اسے جان بچانے کے لئے گھاس، ترکاری بھی میسر نہ ہو․․․؟

مضاربت کا کاروبار کرنے والے بینک میں رقم جمع کرانا

س… یہاں بینک میں ایک رقم ایسی بھی جمع کرتے ہیں جس کو بینک والے تجارت میں لگاتے ہیں، اور دِکھاتے بھی ہیں کہ فلاں تجارت میں پیسہ لگادیا گیا ہے، اور پیسے جمع کرنے والے کو نفع اور نقصان دونوں میں شریک سمجھا جاتا ہے، اگر نقصان ہو تو پیسہ کاٹتے ہیں اور نفع ہو تو نفع دیتے ہیں، کیا یہ نفع لینا جائز ہے اور کیا یہ مضاربت کے حکم میں داخل ہے؟

ج… اگر اس رقم کو مضاربت کے صحیح اُصولوں کے مطابق تجارت میں لگایا جاتا ہے تو جائز ہے، لیکن اگر محض نام ہی نام ہے، تو نام کے بدلنے سے اَحکام نہیں بدلتے۔

سود کے بغیر بینک میں رکھا ہوا پیسہ حلال ہے

س… بینک میں ہمارے پیسے پر جو سود ملتا ہے اگر ہم اسے علیحدہ کرکے کسی ضرورت مند کو دے دیں، زکوٰة یا صدقے کی نیت سے نہیں بلکہ صرف سود کے پیسوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے، تو کیا باقی ماندہ ہمارا پیسہ جو کہ بینک میں ہے، حلال ہے یا نہیں؟ یعنی وہ پیسہ سود کی شرکت سے پاک ہوگیا یا نہیں؟

ج… یہ طریقہ صحیح ہے، باقی ماندہ پیسہ آپ کا حلال ہے۔

مقرّرہ رقم، مقرّرہ وقت کے لئے کسی کمپنی کو دے کر، مقرّرہ منافع لینا

س… اگر کوئی فرم یا ادارہ ایک مقرّرہ رقم، مقرّرہ وقت پر بطور قرض لے اور ہر سال منافع کے طور پر ایک مقرّرہ منافع دے، جب تک کہ وہ راقم واپس نہ لوٹادے۔ اب آپ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیے کہ یہ منافع واقعی ایک منافع ہے یا سود ہے؟ بعض حضرات اس کو سود کہتے ہیں اور بعض حضرات اس کو منافع کہتے ہیں، برائے مہربانی اس کا حل بتادیں۔

ج… شرعاً یہ سود ہے، جس سے باز نہ آنے والوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے اعلانِ جنگ کیا ہے۔ مسلمانوں کو اس سے توبہ کرنی چاہئے اور جن لوگوں نے ایسی فرم میں رقم دے رکھی ہو، انہیں یہ رقم واپس لے لینی چاہئے۔

منافع کی متعین شرح پر روپیہ دینا سود ہے

س… میں عرصہ دو سال سے سعودی عرب میں ملازم ہوں، معقول آمدنی ہے اور اس سال چھٹی کے دوران ایک لاکھ روپیہ قومی بچت میں جمع کرادیا ہے، جس کے منافع کی شرح سالانہ ۱۵ فیصد ہے قرآن و سنت کی روشنی میں یہ بتائیں کیا یہ کاروبار صحیح ہے؟ جبکہ سروس میں رہ کر میں کوئی اور کام نہیں کرسکتا۔

ج… متعین شرح پر روپیہ دینا سود ہے، یہ کسی طرح بھی حلال نہیں، آپ اپنا سرمایہ کسی ایسے ادارے میں لگائیں جو جائز کاروبار کرتا ہو، اور حاصل شدہ منافع تقسیم کرتا ہو۔

زَرِ ضمانت پر سود لینا

س… میری ملازمت کیش (رقم) پر کام کرنے سے متعلق ہے، اس لئے اس کی نقد ضمانت ۰۰۰,۲ روپے جمع کرانی پڑتی ہے، اس دو ہزار روپے پر ہم کو سالانہ ۲۰۰ روپے منافع میں ملتے ہیں۔ یہ منافع جائز ہے یا ناجائز؟ یہ بھی واضح کردُوں کہ جب تک میری ملازمت ہے، میری رقم بینک کے قبضے میں رہے گی۔ دینے والا رقم دینے پر مجبور ہے جبکہ رقم لینے والا یعنی مقروض قرض لینے پر مجبور نہیں ہے۔ اگر یہی رقم میں کسی کاروبار میں لگا دُوں تو مجھ کو اس سے کہیں زیادہ نفع حاصل ہوسکتا ہے، مگر میں ایسا کرنے سے قاصر ہوں، چونکہ میں رقم واپس لینے پر قادر نہیں ہوں۔

ج… بصورتِ مسئولہ مذکورہ منافع سود ہے اور اس کا لینا حرام ہے۔ ہر وہ منافع جو کسی مال پر بلاعوض دیا جائے وہ سود ہے۔ فقہ کا مشہور اُصول ہے: ”ہر وہ قرض جس سے کوئی نفع اُٹھایا جائے، تو وہ نفع سود ہے“ لہٰذا مذکورہ منافع سود ہے اور حرام ہے۔

واضح رہے کہ بینک میں جو رقم جمع کی جاتی ہے، چاہے اپنی مرضی سے یا مجبوراً جمع کرے، بینک کی طرف سے اس پر ایک متعین شرح دی جاتی ہے، چونکہ یہ شرح دینا معروف ہے اور ”المعروف کالمشروط“ کے تحت جو شرح وہ دیتے ہیں، وہ سود ہی ہے، لہٰذا اس کا لینا حرام ہے۔ کسی غریب آدمی کے لئے رقم قرض دے کر سود لینا جائز نہیں، جیسا کہ امیر آدمی کے لئے جائز نہیں ہے۔

بینک کے سرٹیفکیٹ پر ملنے والی رقم کی شرعی حیثیت

س… جس وقت میرے شوہر کا انتقال ہوا تو میرے دو چھوٹے بچے عمر ۳ سال لڑکا اور ۵ ماہ کی لڑکی تھی، میرے شوہر کے پاس دس ہزار کی رقم کا ایک سرٹیفکیٹ تھا، شوہر کے انتقال کے بعد یہ سرٹیفکیٹ اپنے جیٹھ کے ہاتھ میں دیتے ہوئے میں نے کہا کہ: میرے نام منتقل کرادیں، تو بینک والوں نے کہا: اس رقم کے چار حصہ دار ہیں: بیوہ، والدہ، لڑکی، لڑکا، اس لئے یہ بیوہ کے نام منتقل نہیں ہوگا، اگر بیوہ اور والدہ اپنا حصہ لینا چاہیں تو نابالغ کی رقم بینک میں جمع رہے گی ان کے بالغ ہونے تک، اور اگر بیوہ، والدہ اپنا حصہ معاف کردیں تو یہ سرٹیفکیٹ عدالت میں جمع ہوجائے گا، بچوں کے بالغ ہونے پر انہیں ملے گا۔ اس رقم پر چونکہ منافع دیا جاتا ہے اس لئے جب لڑکا ۱۸ برس کا ہوگا تو یہ رقم ایک لاکھ سے زیادہ ہوگی، جب میری ساس نے یہ سنا تو انہوں نے اپنا حصہ معاف کردیا، لازماً مجھے بھی معاف کرنا پڑا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مجھے دِینی معلومات رَتی برابر نہیں تھی، میں نے بھی سوچا جب لڑکا بڑا ہوگا لکھ پتی ہوجائے گا۔ مجھے سود اور منافع کا فرق معلوم نہ تھا۔ اب مجھے جبکہ اللہ نے دِینی معلومات دیں اور میں سمجھنے لگی سود اور منافع کیا ہے، سود کھانے والوں کا انجام کیا ہوگا، میں اس سلسلے میں آپ سے چند سوالات کرتی ہوں۔

س… دس ہزار کی رقم بشکل سرٹیفکیٹ میرے شوہر کے نام ہے، یہ رقم تقریباً مجھے سولہ سال کے بعد ملے گی، بچوں کے بالغ ہونے پر، اس سولہ سال کے عرصے میں یہ رقم بینک میں جمع رہی، کیا مجھے اس کی زکوٰة دینی ہوگی جبکہ یہ میرے شوہر کے نام ہے؟

ج… جب یہ رقم آپ بچوں کے لئے چھوڑ چکی ہیں تو آپ کے ذمہ زکوٰة نہیں، اور بالغ ہونے تک بچوں کے ذمہ بھی نہیں، بالغ ہونے کے بعد ان پر زکوٰة واجب ہوگی۔

س… میں صرف اصل رقم لینا چاہتی ہوں تو کیا بقایا رقم جو ایک لاکھ ہوگی، مجھے یہ رقم کسی فلاحی ادارے کو دینا چاہئے؟

ج… یہ سود کی رقم بغیر نیتِ صدقہ کے محتاجوں کو دے دی جائے۔

س… یہ رقم جو میرے شوہر نے اپنی زندگی میں اپنے ہاتھ سے بینک ڈپازٹ سرٹیفکیٹ کے طور پر خریدا اور اب تک ان کے نام ہے، کیا اس رقم پر ملنے والے سود کا گناہ مرحوم کو نہ ہوگا؟

ج… اگر مرحوم نے اس رقم کا سرٹیفکیٹ سود لینے کی نیت سے خریدا تھا تو گناہ ان کے ذمہ بھی ہوگا، اللہ تعالیٰ معاف فرمائے۔