یہ وہ علم ہے جو تو نہیں جانتا


یہ وہ علم ہے جو تو نہیں جانتا
ایس اے ساگر

شاہ شمس تبریز رحمہ اللہ علیہ مولانا جلال الدین رومی المقلب بہ مولوی معنوی کے پیر و مرشد تھے.. مولانا رومی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیئے جاتے تھے، حتی کے ان حلقہ درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کہا اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گئے که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوئے بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگئے، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک ہونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچہ فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پروا اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا کہ
“ایں چیست..؟” (یہ کیا ھے..)
مولانا رومی نے ان کو کوئی عام ملنگ سمجھ کر جواب دیا..
“ایں آں علم است کہ تو نمی دانی..” (یہ وہ علم ھے جسکو تو نہیں جانتا..)
شاہ شمس یہ جواب سن کر چپ ھورھے..
تھوڑی دیر بعد مولانا رومی کسی کام سے اندر کسی جگہ گئے.. واپس آۓ تو اپنی وہ نادر و نایاب کتابیں غائب پائیں.. چونکہ شاہ شمس وھیں بیٹھے تھے تو ان سے پوچھا.. شاہ شمس نے مکتب کے اندر کے پانی کے تالاب کی طرف اشارہ کیا اور کہا..
“میں نے اس میں ڈال دیں..”
یہ سن کر مولانا رومی حیران و پریشان رہ گئے.. جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.. اتنی قیمتی کتابوں کے ضائع ھونے کا احساس انکو مارے جارھا تھا.. (تب کتابیں کچی سیاھی سے ھاتھ سے لکھی جاتی تھیں.. پانی میں ڈلنے سے ان کی سب سیاھی دھل جاتی تھی..) شاہ شمس سے دکھ زدہ لہجے میں بولے..
“میرے اتنے قیمتی نسخے ضائع کردئے..”
شاہ شمس ان کی حالت دیکھ کر مسکراۓ اور بولے..
“اتنا کیوں گبھراگئے ھو.. ابھی نکال دیتا ھوں..”
یہ کہہ کر شاہ شمس اٹھے اور تالاب سے ساری کتابیں نکال کر مولانا رومی کے آگے ڈھیر کردیں.. یہ دیکھ کر مولانا رومی کی حیرت کی انتہا نہ رھی کہ سب کتابیں بالکل خشک ھیں..
مولانا چلا اٹھے..
“ایں چیست..؟ ” (یہ کیا ھے..)
شاہ شمس نے جواب دیا..
“ایں آں علم است کہ تو نمی دانی..”
یہ کہہ کر شاہ شمس چل پڑے.. ادھر مولانا رومی کے اندر کی دنیا جیسے الٹ پلٹ چکی تھی.. اپنی دستار پھینک کر شاہ شمس تبریز کے پیچھے بھاگے اور جاکر ان کے پاؤں میں گرپڑے کہ خدا کے لئے مجھے معاف کردیجئے اور مجھے اپنے قدموں میں جگہ دیجئے…”
شاہ شمس نے انھیں اٹھاکر سینے سے لگایا اور کہا..
“میں تو خود ایک عرصے سے تیری تلاش میں تھا..

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلامی شمس تبریزے نہ شد

مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آئے۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گئے، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوئے تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگئے۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔
شمس تبریز کی جدائی مولانا رومی کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیئے۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئی۔

اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں ہمیشہ روشن اور تابنده رکھیں گی۔

سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا ۔ مئی کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، اسی مهینے میں تهران مین بھی ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ھوچکا ۔ قارئین مولانا سلوک کی اس منزل پر پهنچ چکے تھے که انهیں هر طرف الله هی کا جلوه نظر آتا تھا، جو قرآن کی آیت
[الله نور السموات و الارض]
کی گویا تفسیر ھے، وه حسن و زیبائی کے کائناتی، ملکاتی اور الهامی تصور کے علم بردار تھے۔ الله تعالی نے محبت رسول الله سے شیفتگی کے اس مرتبے پر پهنچ چکے تھے، جهاں ان کی اپنی هستی معدوم هوچکی تھی۔

مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لئے آج آٹھ سو سال گزرجانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئی کمی واقع نهین ھوئی.