فتنہ ارتداد اور علمائے عصر کی ذمہ داری

غلبہ اسلام اور فتنہ ارتداد کی پیش گوئی
علمائے عصر کی ذمہ داری
خدائے قادر مطلق کا پسندیدہ دین، مذہب اسلام ہے۔ خدانے اس کی حفاظت اور ابدی بقاء وغلبہ کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ہے۔۔۔۔خدائے اسلام، یا دین اسلام  اپنی تائید  وحفاظت  کے لئے کسی فرد یا جماعت کا محتاج نہیں۔ اگر کوئی اسلامی کلمہ گو فرد  یا جماعت اسلام سے منحرف ہوکے مذہب چھوڑ بیٹھے تو اس سے اسلام کو کوئی گزند یا نقصان پہنچنے والا نہیں۔ دین اسلام ہمیشہ غالب وفتح یاب ہونے کے لئے ہی آیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
005:054
اے ایمان والو، تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے، سو اللہ عنقریب ایسے لوگوں کو (وجود میں) لے آئے گا، جنھیں وہ چاہتا ہوگا اور وہ اسے چاہتے ہوں گے ایمان والوں پر وہ مہربان ہوں گے اور کافروں کے مقابلہ میں سخت ہوں گے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت گر کی ملامت کا اندیشہ نہ کریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہے عطا کرے، اور اللہ بڑا وسعت والا ہے، بڑا علم والا ہے،
اس آیت میں ارتداد کی سزا ارشاد فرماتے ہیں اور عنقریب پیش آنے والے فتنہ ارتداد اور اسلام کے غلبہ اور اسی کے ابدی بقاء اور حفاظت اور تائید غیبی کے متعلق ایک عظیم الشان پیش گوئی فرماتے ہیں اور نزول آیت کے وقت جو مسلمان موجود تھے ان کو پہلے ہی سے یہ خبر دیتے ہیں کہ عنقریب فتنہ ارتداد پیش آئے گا اور تم میں کے کچھ لوگ مرتد ہوجائیں گے اس خبر کی ساتھ ہی ساتھی یہ بشارت سناتے ہیں کہ اس فتنہ سے اسلام اور مسلمانوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کے قلع قمع کرنے کے لئے عالم غیب سے یہ تدبیر مقرر کی ہے کہ خاصان خدا کی ایک جماعت ان مرتدین کے قتل و قتال کے لئے من جانب اللہ تیار کی جائے گی جو ان مرتدین کی ایسی سرکوبی کرے گی کہ کفر سر اٹھانے کے قابل نہ رہیگا اور یہ حق جل شانہ کی سنت ہے کہ جو شخص یا جو جماعت اسلام میں فتنہ اور رخنہ ڈالنے کے لئے کھڑی ہوتی ہے تو اللہ ان کی سرکوبی کے لئے ایسے جاں نثار اور وفادار مسلمانوں کو کھڑا کردیتا ہے جنھیں خدا کی راہ میں کسی کی ملامت اور طعن وتشنیع کی پروا نہیں ہوتی
کماقال تعالی، وان تتولوا یستبدل۔۔۔ الی۔۔۔ بعزیز۔
دین سے پھر جانے یا دین کے کسی  مسلمات وفرائض  کا انکار کردینے کو “ارتداد” کہتے ہیں۔ جس طرح کلمہ پڑھ لینے سے انسان اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اسی طرح اسلام کے نام لیوا کلمہ گو مسلمان اپنے باطل نظریات اور فاسد خیالات کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے اسلام سے نکل بھی جاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے سورۃ النّصر کے نازل ہونے پر جس میں لوگوں کے اِسلام میں فوج در فوج داخل ہونے کا تذکرہ ہے، آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نےفرمایا:
اِس سورت میں جس طرح اِس بات کی بشارت دی گئی ہے کہ لوگ اِسلام میں فوج در فوج داخل ہوں گے اسی طرح ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ اِسلام سے فوج در فوج نکل بھی جائیں گے (العیاذ باللہ):
– حدثَنِي جارٌ لجابرِ بنِ عبدِ اللهِ قال قَدِمْتُ مِنْ سفَرٍ فجاءَنِي جابِرٌ يُسَلِّمُ علَيَّ فجَعَلْتُ أُحَدِّثُهُ عنِ افْتِرَاقِ النَّاسِ وَمَا أَحْدَثُوا فَجَعَلَ جابِرٌ يَبْكِي ثم قال سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يقولُ إنَّ الناسَ دخلُوا في دينِ اللهِ أفواجًا وسيخْرُجُونَ منه أفْوَاجًا .
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: الهيثمي – المصدر: مجمع الزوائد – الصفحة أو الرقم: 7/284
خلاصة حكم المحدث: [فيه ] جار جابر لم أعرفه وبقية رجاله رجال الصحيح ۔
و عن جارٍ لجابرِ بنِ عبدِ اللَّهِ قالَ قَدِمْتُ من سفرٍ فجاءَني جابرُ بنَ عبدِ اللَّهِ فسلِّمُ عليَّ فجعَلتُ أحدِّثُهُ عنِ افتراقِ النَّاسِ وما أحدَثوا. فجعلَ يبكي ثمَّ قالَ سَمِعْتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ دخلَ النَّاسُ في دينِ اللَّهِ أفواجًا وسيَخرُجونَ منهُ أفواجًا .
الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: ابن حجر العسقلاني – المصدر: الكافي الشاف – الصفحة أو الرقم: 326
خلاصة حكم المحدث: له شاهد
عرب کے دوردرازعلاقوں میں آباد متعدد قبائل سے تعلق رکھنے والے بہت سے ایسے افراد تھے جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی حیاتِ طیبہ کے بالکل آخر دنوں میں مدینہ آکر دینِ اسلام قبول کیا تھا، رسول اللہﷺ کی خدمت میں زیادہ وقت گذارنے اور دینِ اسلام کی تعلیمات مفصل طور پر سیکھنے کا انھیں موقع نہیں مل سکا تھا، یہی وجہ تھی کہ دینِ اسلام ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوا تھا۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی وفات کی خبر سنتے ہی ان کے قدم ڈگمگانے لگے، گذشتہ تمام عمر جن فضولیات وخرافات میں اور جس لہوولعب میں بسر کی تھی، اب دوبارہ انہیں اسی میں کشش محسوس ہونے لگی، اور رفتہ رفتہ یہ لوگ دینِ اسلام سے منحرف ہونے لگے، دیکھا دیکھی یہ فتنہ بہت سے قبائل میں نہایت سرعت کے ساتھ پھیلتا چلا گیا…اور بڑی تیزی کے ساتھ لوگ دینِ اسلام سے برگشتہ ومنحرف ہوتے چلے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے فوری بعد بہت سے قبائل نے یہ اعلان کردیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بعد اب ہم نماز تو پڑھیں گے، لیکن زکوٰۃ ادانہیں کریں گے، یہ فتنہ بھی مرورِوقت کے ساتھ شدت پکڑتا چلاگیا۔
صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ مرتدوں کے گیارہ گروہ تھے جن میں سے تین آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو ہوئے تھے:
(١) بنو مدلج ان کا سردار ذوالحمارا سود عنسی ساحر تھا جس نے اطراف یمن میں قبضہ کرکے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمال کو نکال دیا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رضی اللہ تعالٰی علیہ و سلم) اور یمن کے رئیسوں کی طرف لکھا آخر یہ شخص فیروز دیلمی کے ہاتھوں سے قتل ہوا۔ اس کے قتل کی خبر اسی روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی تھی گو وہاں سے خبر دو مہینے بعد آئی تھی۔
(٢) بنو حنیفہ مسیلمہ کذاب کی قوم ملک یمامہ میں جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ (٣) بنو اسد طلحہ بن خویلد کی قوم جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور شکست کھاکر ملک شام میں بھاگ گیا تھا مگر اخیر میں پھر توبہ کرکے سچا اسلام اختیار کرلیا تھا اور سات قومیں حضرت ابوبکر (رضی اللہ تعالٰی علیہ) کے عہد میں مرتد ہوگئی تھیں۔ فزارہ عیینہ بن حصن کی قوم غطفان‘ فُزہ بن سلمہ قشیری کی قوم بنو سلیم‘ فجاہ بن عبدیا لیل کی قوم بنو یربوع‘ مالک بن نویرہ کی قوم اور بعض لوگ بنی تمیم کے جو سجاح بنت منذر کے مرید ہوگئے تھے. اس عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور مسیلمہ سے نکاح کیا تھا۔ کندہ اشعت بن قیس کی قوم اور بحرین میں بنوبکر بن وائل حطم بن زید کی قوم اور عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کے عہد میں غسان کے لوگ جبلہ کے مرتد ہوجانے سے مرتد ہوگئے تھے۔ جبلہ نے ایک شخص کے طمانچہ مارا تھا۔ حضرت عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) نے قصاص کا حکم دیا۔ اس نے ہزارہا روپیہ معاوضہ میں دینا چاہا مگر مدعی نے کہا میں بدلہ ہی لوں گا۔ اس خوف کے مارے وہ مرتد ہوکر روم چلاگیا۔
ان تفسیری وتاریخی روایات سے واضح ہے کہ دین اسلام سے انحراف کی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ پرانی ہے۔ فتنہ ارتداد کی تاریک گھٹائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ سے مسلمانوں کی طرف مسیلمہ کذاب کی شکل میں بڑھ رہی ہیں۔لیکن آفتاب حقیقی کے سامنے یہ تاریکی غالب نہ آسکی۔
جہالت، پسماندگی، غربت، ناواقفیت، صہیونی سازش اور تقسیم امت کے مذموم مقاصد واسباب کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں میں فتنہ ارتداد پہر سے جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ اور “فتنہ شکیلیت” کی شکل میں ہم پھر تشویشناک اور خاصی خطرناک فتنے کی زد میں ہیں۔
عہد صدیقی میں نماز روزہ حج کی ادائی کے ساتھ صرف منع زکات کی وجہ سے ہزاروں لوگ مرتد ہوگئے تھے تو آج بعینہ یہی صورت حال ہے کہ صوم وصلات کی پابندی کے ساتھ شکیل بن حنیف کے پیروکار اسے مسیح موعود تسلیم کرنے کی وجہ سے مرتد ہورہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کی دینی و مذہبی تحریکوں، تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کا فریضہ ہے کہ وہ اس سیلاب ارتداد کے سدباب کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں اور مسلمانوں میں عملی طور پہ شعور وآگہی پیدا کریں۔
سوشل میڈیا اور سماجی رابطے کی سائیٹس پہ اس فتنہ کو زیادہ ہائیلائیٹ کرنے کی بجائے علماء کرام اور ائمہ مساجد کے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں۔ مساجد کے منبر ومحراب اور عوامی اجتماعات کی وساطت سے عوام الناس میں بیداری لائیں۔
ایسے پر خطر موقع سے آنکھیں موندلینا کافی خطرناک ہے۔ اگر ایک مرتبہ یہ فتنہ ہمارے گھروں میں گھس گیا تو پھر  بعد میں قابو پانا اور اس کا تدارک کرنا مشکل ہوجائے گا۔ دین مبین کے امین وپاسبان حضرات علماء کرام  کی  اخلاقی، روحانی اور علمی  وذہنی ذمہ داری بنتی ہے کہ آزمائش وکشمکش کے ان حالات میں انفرادی وذاتی مفادات پہ اجتماعی اور ملی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے سیرت وکردار اور جذبہ صدیقی کا اعلی جوہر دکھائیں ۔۔
ایسے موقع پر ایک ایک  لمحہ مہینہ اور سال کے برابر ہوتا ہے، اور ایک سانس ایک عمر کے برابر، اس وقت اگر علماء اور علوم دینیہ کے حاملین و منتسبین نے اپنے کو نہ سنبھالا، انھوں نے اپنی اخلاقی بلندی، اپنی بے غرضی، سچی خدا پرستی کا ۔۔۔جس کے اندر نفاق نہ ہو، ۔۔۔۔۔۔ثبوت نہ دیا تو سخت خطرہ ہے۔۔۔
وما توفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه انيب .۔۔
شكيل منصور القاسمی
سيدپور / بیگوسرائے