حج و عمرہ کی فضیلت


حج سے گناہوں کی معافی اور نیکیوں کا باقی رہنا

س… سنا ہے کہ حج ادا کرنے کے بعد وہ انسان جس کا حج قبول ہوجائے وہ گناہ سے پاک ہوجاتا ہے جیسے کہ پیدا ہونے کے بعد کوئی بچہ، کیا یہ بات دُرست ہے؟ اگر یہ بات دُرست ہے تو کیا اس شخص نے جو اَب تک نیکیاں کیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی؟

ج… گناہوں کے معاف ہونے سے نیکیوں کا ختم ہونا کیسے سمجھ لیا گیا ہے؟ حج بہت بڑی عبادت ہے جس سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، مگر عبادت سے نیکیاں تو ضائع نہیں ہوا کرتیں! اور یہ جو فرمایا کہ: ”گویا وہ آج اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے“ یہ گناہوں سے پاک ہونے کو سمجھانے کے لئے ہے، کہ جس طرح نومولود بچہ گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے، اسی طرح ”حجِ مبرور“ کے بعد آدمی گناہوں سے پاک صاف ہوجاتا ہے۔

حجِ مقبول کی پہچان

س… اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ: ”ہم نے حج تو کرلیا ہے مگر معلوم نہیں خدا نے قبول کیا کہ نہیں؟“ میں نے یہ سنا ہے کہ اگر کوئی مسلمان حج کرکے واپس آئے اور واپس آنے کے بعد پھر سے بُرائی کی طرف مائل ہوجائے یعنی جھوٹ، چوری، غیبت، دِل دُکھانا وغیرہ شروع کردے تو یہ ان لوگوں کی نشانی ہوتی ہے جن کی عبادت خدا نے قبول نہیں کی ہوتی، کیونکہ انسان جب حج کرکے آتا ہے تو خدا اس کا دِل موم کی طرح نرم کرتا ہے اور سوائے نیکی کے وہ اور کوئی کام نہیں کرتا۔ یہ کہاں تک دُرست ہے؟

ج… حجِ مقبول وہی ہے جس سے زندگی کی لائن بدل جائے، آئندہ کے لئے گناہوں سے بچنے کا اہتمام ہو اور طاعات کی پابندی کی جائے۔ حج کے بعد جس شخص کی زندگی میں خوشگوار انقلاب نہیں آتا اس کا معاملہ مشکوک ہے۔

نفل حج زیادہ ضروری ہے یا غریبوں کی استعانت؟

س… حج، اسلام کا ایک اہم رُکن ہے۔ دورانِ حج اسلامی یکجہتی اور اجتماعیت کا عظیم الشان مظاہرہ ہوتا ہے جس کی افادیت کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ مگر جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ آج کل نفل حج جائز ہے یا نہیں؟ خاص طور پر ان ممالک کے باشندوں کے لئے جہاں سے حج کے لئے جانے پر ہزارہا روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ جبکہ ایک مولانا صاحب نے روزنامہ ”جنگ“ کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ: ”کمیونزم“ اور ”سوشلزم“ یعنی لادینیت کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کی روٹی کا مسئلہ حل کردیا جائے۔ پاکستان اور بہت سے مسلم ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان محض پیٹ کی مجبوری کی خاطر عیسائیت اختیار کر رہے ہیں، پاکستان کے غریب مسلمانوں میں اگر سوشلزم سے کوئی ہمدردی ہے تو محض پیٹ کی خاطر، ورنہ یہ لوگ بھی ہماری طرح مسلمان ہیں اور ضرورت پڑنے پر اسلام کے لئے جان بھی دینے کو تیار ہیں۔ نفل حج پر خرچ کی جانے والی رقم اگر پاکستان کے غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردی جائے تو میرا خیال ہے کہ ملک سے غربت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائے گا اور اسلامی نظام کی راہ میں حائل بہت سی رُکاوٹیں خودبخود ختم ہوجائیں گی۔ پچھلے سال اس سلسلے میں، میں نے دُوسرے مولانا صاحب کو لکھا تھا تو انہوں نے میری تائید میں جواب دیا تھا کہ: ”موجودہ حالات میں نفل حج کے لئے جانا گناہ ہے، اس رقم کو ملکی یتیموں اور محتاجوں میں تقسیم کرنے سے زیادہ ثواب ملے گا۔“ آپ سے گزارش ہے کہ اس پر مزید وضاحت فرمائیں اور پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کو اس حقیقت سے باخبر فرمائیں تاکہ اسلامی نظام کی راہ آسان سے آسان تر ہوجائے۔

ج… ایک مولانا کے ”زور دار فتویٰ“ اور دُوسرے مولانا کی ”تائید و تصدیق“ کے بعد ہمارے لکھنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے! مگر ناقص خیال یہ ہے کہ نفل حج کو تو حرام نہ کہا جائے، البتہ زکوٰة ہی اگر مال داروں سے پوری طرح وصول کی جائے اور مستحقین پر اس کی تقسیم کا صحیح انتظام کردیا جائے تو غربت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ مگر کرے کون․․․؟

حج و عمرہ جیسے مقدس اعمال کو گناہوں سے پاک رکھنا چاہئے

س… یہاں سعودیہ میں ہمارے گھروں میں وی سی آر پر مخرّبِ اخلاق انڈین فلمیں بھی دیکھی جاتی ہیں اور ہر ماہ باقاعدگی سے عمرہ اور مسجدِ نبوی میں حاضری بھی دی جاتی ہے۔ کیا اس سے عمرہ و مسجدِ نبوی کی حاضری کی افادیت ختم نہیں ہوجاتی؟ لوگ عمرہ ثواب کی نیت سے اور مسجدِ نبوی میں بھی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت کی غرض سے جاتے ہیں، فلمیں دیکھنا بُرا بھی نہیں سمجھتے، عام خیال ہے کہ وطن سے دُوری کی وجہ سے وقت کاٹنے کو دیکھتے ہیں اور یہاں تفریح کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔

ج… عمرہ اور مسجدِ نبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰة والسلام) کی حاضری میں بھی لوگ اتنی غلطیاں کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ! دین کے مسائل نہ کسی سے پوچھتے ہیں، نہ اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ جو شخص ٹی وی جیسی حرام چیزوں سے پرہیز نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کو اس کے حج و عمرہ کی کیا ضرورت ہے؟ ایک عارف کا قول ہے:

بطوافِ کعبہ رفتم زحرم ندا برآمد

کہ بروں درچہ کردی کہ درون خانہ آئی

ترجمہ:…”میں طوافِ کعبہ کو گیا تو حرم سے ندا آئی کہ: تو نے باہر کیا کیا ہے کہ دروازے کے اندر آتا ہے۔“

لوگ خوب داڑھی منڈاکر روضہٴ اطہر پر جاتے ہیں اور ان کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر شکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دُشمنوں جیسی بناتے ہیں۔ اس تحریر سے یہ مقصود نہیں کہ لوگوں کو حج و عمرہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان مقدس اعمال کو گناہوں اور غلطیوں سے پاک رکھنا چاہئے۔ ایسے حج و عمرہ ہی پر پورا ثواب مرتب ہوتا ہے۔

مکہ والوں کے لئے طواف افضل ہے یا عمرہ؟

س… مکة المکرمہ میں زیادہ طواف کرنا افضل ہے یا عمرہ جو کہ مسجدِ عائشہ سے اِحرام باندھ کر کیا جاتا ہے؟ کیونکہ ہمارے امام کا کہنا ہے کہ طواف مکہ مکرّمہ میں سب سے زیادہ افضل ہے، اور دلیل یہ بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں بیت اللہ کے طواف کا حکم ہے نہ کہ عمرہ کا۔ اس لئے مقیمِ مکہ مکرّمہ کے لئے طواف افضل ہے عمرہ سے۔ اور ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدینہ منوّرہ سے عمرہ کا اِحرام باندھ کر ضرور آنا چاہئے۔ پوچھنا ہے کہ کیا یہ باتیں امام کی ٹھیک ہیں یا نہیں؟

ج… زیادہ طواف کرنا افضل ہے، مگر شرط یہ ہے کہ عمرہ کرنے پر جتنا وقت خرچ ہوتا ہے اتنا وقت یا اس سے زیادہ طواف پر خرچ کرے، ورنہ عمرہ کی جگہ ایک دو طواف کرلینے کو افضل نہیں کہا جاسکتا۔

جو لوگ مدینہ منوّرہ سے مکہ مکرّمہ جانے کا قصد رکھتے ہیں ان کو ذوالحلیفہ سے (جو مدینہ شریف کی میقات ہے) اِحرام باندھنا لازم ہے اور ان کا اِحرام کے بغیر میقات سے گزرنا جائز نہیں، اور اگر مدینہ منوّرہ سے مکہ مکرّمہ جانے کا قصد نہیں بلکہ جدہ جانا چاہتے ہیں تو ان کے اِحرام باندھنے کا سوال ہی نہیں۔

صرف امیر آدمی ہی حج کرکے جنت کا مستحق نہیں، بلکہ غریب بھی نیک اعمال کرکے اس کا مستحق ہوسکتا ہے

س… حج کرکے صرف امیر آدمی ہی جنت خرید سکتا ہے، کہ اس کے پاس حج پر جانے کے لئے مناسب رقم ہے اور وہ ہزاروں لاکھوں نمازوں کا ثواب حاصل کرسکتا ہے، جبکہ غریب محروم ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل صرف امیروں پر ہے۔ آج کے زمانے میں کسی کا حج بھی قبول نہیں ہو رہا کیونکہ میدانِ عرفات میں لاکھوں فرزندانِ توحید اعدائے اسلام (خاص طور پر اسرائیل، امریکہ، رُوس) کے نابود ہونے کے لئے دُعا بڑے خشوع و خضوع سے کرتے ہیں اور ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ دُنیا سے بُرائی ختم ہونے کی دُعا کرتے ہیں، لیکن بُرائیاں بڑھ رہی ہیں۔ گویا یہ ان دُعاوٴں کے نامقبول ہونے کی علامات ہیں۔

ج… حج صرف صاحبِ استطاعت لوگوں پر فرض ہے۔ مگر جنت صرف حج کرنے پر نہیں ملتی، بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ غریب آدمی ان کے ذریعہ جنت کما سکتا ہے۔ حدیث میں تو یہ آتا ہے کہ فقراء و مہاجرین، اُمراء سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے۔ حج کس کا قبول ہوتا ہے اور کس کا نہیں؟ یہ فیصلہ تو قبول کرنے والا ہی کرسکتا ہے، یہ کام میرے آپ کے کرنے کا نہیں۔ نہ ہم کسی کے بارے میں یہ کہنے کے مجاز ہیں کہ اس کی فلاں عبادت قبول ہوئی یا نہیں، البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس نے شرائط کی پابندی کے ساتھ حج کے ارکان صحیح طور پر ادا کئے اس کا حج ہوگیا۔ رہا دُعاوٴں کا قبول ہونا یا نہ ہونا، یہ علامت حج کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی نہیں۔ بعض اوقات نیک آدمی کی دُعا بظاہر قبول نہیں ہوتی اور بُرے آدمی کی دُعا ظاہر میں قبول ہوجاتی ہے، اس کی حکمتیں اور مصلحتیں بھی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بُرائی اور شر کے غلبے کی وجہ سے نیک لوگوں کی دُعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ نیک آدمی عام لوگوں کے لئے دُعا کرے گا، حق تعالیٰ شانہ فرمائیں گے کہ: ”تو اپنے لئے جو کچھ مانگنا چاہتا ہے مانگ، میں تجھ کو عطا کروں گا، لیکن عام لوگوں کے لئے نہیں، کیونکہ انہوں نے مجھے ناراض کرلیا ہے۔“ (کتاب الرقائق ص:۱۵۵، ۳۸۴)

اور یہ مضمون بھی احادیث میں آتا ہے کہ: ”تم لوگ نیکی کا حکم کرو اور بُرائی کو روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو عذابِ عام کی لپیٹ میں لے لیں، پھر تم دُعائیں کرو تو تمہاری دُعائیں بھی نہ سنی جائیں۔“ (ترمذی ج:۲ ص:۳۹)

اس وقت اُمت میں گناہوں کی کھلے بندوں اشاعت ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بہت کم بندے رہ گئے ہیں جو گناہوں پر روک ٹوک کرتے ہوں۔ اس لئے اگر اس زمانے میں نیک لوگوں کی دُعائیں بھی اُمت کے حق میں قبول نہ ہوں تو اس میں قصور ان نیک لوگوں کا یا ان کی دُعاوٴں کا نہیں، بلکہ ہماری شامتِ اعمال کا قصور ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائیں۔