امام مالک رحمہ اللہ: وہ کون بادشاہ تھے؟

سوال: اہل علم کی خدمت میں؛
امام مالک رحمہ اللہ کسی بادشاہ کے پاس گئے تھے. اس بادشاہ نے ان کہا تھا کہ اگر آپ کا حکم ہو تو مؤطا کو پورے ملک میں پھیلا دیاجائے تاکہ لوگ صرف اسی کے مطابق عمل کریں امام مالک رحمہ اللہ نے ایسا کرنے سے منع کردیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کون بادشاہ تھے ان کا نام  مطلوب ہے
تفصیلات کے ساتھ اگر کسی کتاب کا حوالہ بھی مل جائے تو مہربانی ہوگی.

جواب: یہ بات خلیفہ منصور نے کہی تھی۔ حج کا موقع تھا. وقت جلیل القدر علماء کرام و محدثین عظام کی مجلس ام القری میں جمی ہوئی تھی. امام وقت مالک بن انس کے علاوہ وقت کے جبال العلم سفیان ثوری، سلیمان خواص وغیرہ اس میں رونق افروز تھے۔ اسی مجلس میں خلیفہ منصور بھی وارد ہوئے اور امام مالک رحمہ اللہ سے مخاطب ہوکر یوں گویا ہوئے:
اے ابو عبداللہ میں اختلافات سے گھبراگیا ہوں. عراق میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ شام میں جہاد کا شوق ہے۔ کوئی بڑا علم نہیں، جو کچھ ہے وہ حجاز میں ہے۔ اور علمائے حجاز کے سرخیل آپ ہیں. میں چاہتا ہوں کہ آپ کی تصنیف موطا کو خانہ کعبہ میں آویزاں کردوں تاکہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور تمام اطراف میں اس کی نقلیں ارسال کردوں تاکہ اسی کہ مطابق لوگ فتوی دیں۔
…….
جعفر بن سلیمان نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تشہیران کی تحقیر کے خیال سے کروائی تھی لیکن اس نے ان کی عزت ووقار کو اور بلند کردیا، خلیفہ منصور کو گورنر کا یہ فعل پسند نہ آیا کہ اتنے بڑے عالم کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے اس نے حکم بھیجا کہ:
’’میں جعفر کو معزول کرتا ہوں اس کو گدھے پر سوار کر کے ذلت کے ساتھ بغداد روانہ کیا جائے۔‘‘ (تذکرہ محدثین: جلد اول)
۱۴۸ھ/۷۶۵ء میں جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ منصور کے پاس تشریف لے گئے، تو منصور نے ان کو خلعت پیش کیا، اس کا قاعدہ یہ تھا کہ خلعت کے کپڑے اس شخص کے کندھے پر رکھ دئیے جاتے تھے جس کو خلعت عطا ہوتا تھا. اس میں کچھ حقارت کا احساس ہوتا تھا۔ حاجب نے جب خلعت کے کپڑے امام مالک رحمہ اللہ کے کندھے پر رکھنے چاہے تو وہ فوراً پیچھے ہٹ گئے اور خلعت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی۔ خلیفہ نے حاجب کو ڈانٹا کہ خلعت ان کے گھر پہنچایا جائے۔ (تذکرہ محدثین: جلد اول)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی بیباکانہ جرأت اور اعلان حق کی وجہ سے سخت سزائیں جھیلنی پڑیں۔ خلافت بنو عباس کے زمانہ میں ان کو کوڑوں کی سزادی گئی۔ ان کی پشت برہنہ کر کے ستر کوڑے لگا ئے گئے جس سے ان کی پیٹھ لہولہان ہوگئی۔ دونوں ہاتھ مونڈھے سے اُتر گئے، اونٹ پر بٹھا کر ان کی تشہیر کی گئی لیکن یہ سختیاں ان کی زبان کو کلمۃ الحق کے اعلان سے نہ روک سکیں۔ ان کو یقین تھا کہ ان کی حق گوئی کی وجہ سے انہیں کبھی بھی موت کی سز امل سکتی ہے، لیکن وہ اس سے گھبرانے کے بجائے اس کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔
ایک مرتبہ خلیفہ منصور عباسی کو پتہ چلا کہ امام مالک بن انس، ابن سمعان اور ابن ابی ذئب رحمہم اللہ وغیرہ علماء اس کی حکومت سے ناراض ہیں، اس نے ان سب کو فوراً اپنے دربار میں طلب کیا۔ امام مالک رحمہ اللہ نہا دھو کر کفن کے کپڑے پہن کر اور عطرو حنوط وغیرہ مل کردربار میں پہنچے، خلیفہ نے دریافت کیا کہ اس سے ان لوگوں کو کیا شکایات ہیں؟پھر جب ابن سمعان اور ابن ابی ذئب کو رخصت کردیا تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا:امام صاحب! آپ کے کپڑوں سے حنوط کی خوشبو آر ہی ہے، آپ نے یہ خوشبو کیوں لگائی ہے یہ تو مردے کو لگائی جاتی ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ کے دربار میں اس وقت بغیر کسی وجہ کے طلبی ہوئی تھی۔ اس بات سے مجھے یہ خیال ہوا کہ کچھ پوچھ تاچھ ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ میری حق گوئی آپ کو پسند نہ آئے اور آپ میرا سرقلم کروانے کا فیصلہ کرلیں۔ اس لئے میں مرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوکر آیا تھا۔
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
( اقبالؒ)
منصور نے کہا: سبحان اللہ! ابو عبداللہ! کیا میں خود اپنے ہاتھ سے اسلام کا ستون گراؤں گا۔ ( کتاب الامۃ والسیاسۃ: جلد دوم مطبع مصر)
امام مالک رحمہ اللہ بہت بلند مرتبہ فقیہ اور محدث تھے۔ ان کی کتاب ’مؤطا امام مالک‘ اپنے دور سے آج تک بہت شہرت یافتہ کتاب ہے، یہ کتاب بڑی معتبر احادیث کا مجموعہ ہے، ایک مرتبہ خلیفہ مہدی مدینہ منورہ گیا تو اس نے یہ کتاب سنی۔ وہ اس سے بہت بہت متاثر ہوا۔ اس نے اپنے بیٹے موسیٰ اور ہارون رشید کو حکم دیا کہ وہ بھی امام صاحب رحمہ اللہ سے مؤطا سنیں۔
…………..
موطأ امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو مشہور سنی عالم دین مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ – 179ھ) نے تصنیف کی۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
موطأ کےمصنف کا پورانام یہ ہے: ابوعبداللہ مالک بن انس بن ابی عامرالاصبحی الحمیری ہے۔ آپ کی تاریخ ولادت میں 90ھ سے 97ھ تک کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ذہبی نے یحیی بن کثیرکے قول کو اصح قراردیاہے جس کے مطابق آپ کی ولادت 93ھ میں ہوئی ہے۔ جبکہ آپ کی وفات ربیع؁ الاول179ھ کومدنیہ منورہ میں ہوءی امام مالک فقہ اورحدیث مین اھل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ آپ کی کتاب “الموطأ” حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔ موطأسے پہلے بھی احادیث کے کی مجموعے تیار ہوے اور ان میں سے کی ایک اج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اورمتداول نہیں ہیں۔ موطأ کے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پے در پے چل کر اتنا ہموار کردیا ہو کہ بعد میں انے والوں کے لیےاس پر چلنا اسان ہوگیا ہو۔ جمہورعلماء نے موطأکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولی میںشمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں”ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک” کہ میں نے روے زمین پر موطأامام مالک سے زیادہ کوی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد) نہیں دیکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطا کے بارے میں لکھتے ہیں:
“فقہ میں موطا امام مالک سےزیادہ کوءی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے.”
موطا میں احادیث کی تعداد کے بارے میں کی روایات ہیں، اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام مالک نے اپنی روایات کی تہذیب اورتنقیح برابر جاری رکھی لہذا مختلف اوفات میں احادیث کی تعداد مختلف رہی۔
موطا امام مالک اردو مترجم مع شرح
مختلف ادوار میں احادیث کی مختلف کتابیں مرتب ومدون کی گئیں لیکن امام مالک بن انس کا مجموعۂ احادیث بنام ’مؤطا امام مالک‘ کو سلسلہ تدوین ِحدیث میں اوّلین کتاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اور یہی وہ ذخیرہ ٔاحادیث جس کو پہلی مرتبہ فقہی انداز میں مرتب کیا گیا۔ نیز اس مجموعہ احادیث کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس میں صرف صحیح احادیث ہی کو نقل کرنے کی سعی جمیل کی گئی ہے اور اس بات پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی ؒ نے محدثین کا اتفاق نقل فرمایا ہے۔ اس کتاب کی اسی اہمیت کے پیش ِ نظر ہر دور میں اکابر امت نے اپنے اپنے حلقہ ہائے تدریس میں اس سے استفادہ کیا اور مختلف ادوار، میں مختلف دول ِ اسلامیہ میں اس کی شروحات و تعلیقات بھی تحریر کی گئیں۔ مؤطا اور اس کی شروحات چونکہ عربی میں تھیں اس لیے اردو داں طبقہ کے لیے اس سے استفادہ میں مشکلات تھیں اس ہی لیے ساجد الرحمن صدیقی نے شب و روز کی انتہک محنت سے نہ صرف اسے دور حاضر کے مطابق اردو قالب میں ڈھالا بلکہ ساتھ ساتھ ہر روایت و آثار کے تحت شرح حدیث کے عنوان سے شیخ الحدیث مولانا زکریا کی کتاب ’اوجز المسالک‘ اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی کی کتاب ’کشف المغطاء‘ کی تلخیص بھی ذکرکردی۔