لڑکی کی رخصتی میں سنت طریقہ کیا ہے؟

نکاح کے بعد لڑکی کی رخصتی میں اصل سنت طریقہ کیا ہے؟ عام طور پر لڑکے والے ہی جاتے ہیں اور لڑکی کو اپنے گھر لے آتے ہیں. کیا یہی سنت طریقہ ہے یا پھر یہ کہ لڑکی کے والد یا رشتہ داروں کی ذمہ داری ہے. اصل مسئلہ کیا ہے. وضاحت فرمائیں. اگر حوالہ بھی اس سلسلے میں مل جائے تو مہربانی ہوگی… شکریہ

الجواب بعون الملک الوھاب:
شادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے اور اس کی ترغیب بھی بہت سی روایات میں آئی ہے۔ شادی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عقد نکاح ہو، بہتر یہ ہے کہ عقد نکاح مسجد میں ہو، تاکہ سب لوگوں کو اس کا علم ہوجائے۔ اس کے بعد رخصتی کا عمل ہو، پھر شب زفاف کے بعد ولیمہ کا انعقاد ہوجائے۔
لڑکی کی رخصتی کیلئے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شادی میں دلہن کو لانے کے لئے ایک آدمی بھیجا ہے، خود دلہن کے گھر نہیں گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں عام معمول یہ تھا کہ لڑکی کا باپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اور کے واسطے سے دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں سب سے بہتر یہ ہے کہ لڑکی والے خود دلہن کو دولہا کے گھر پہنچائیں۔ اگر وہ پہنچانے کیلئے تیار نہ ہوں تو پھر دولہا خود یا کسی ایسے شخص کو (جو دلہن کا محرم بنتا ہو) لڑکی کو لانے کیلئے بھیج دے ۔ مروّجہ طریقوں سے بارات لے جانا اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، البتہ اگر خلافِ شرع امور سے اجتناب کرتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد بارات کی صورت میں جائیں اور لڑکی کو رخصت کر کے لے آئیں تو اس کی گنجائش ہے۔
لما فی صحیح البخاری (۷۷۵/۲): عن عائشة رضي الله عنها: ” تزوجني النبي ﷺ فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر ”
وفی جامع الترمذی (۲۰۷/۱):عن عائشة رضي الله عنهاقالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: أعلنوا هذا النكاح واجعلوه فى المساجد واضربوا عليه بالدفوف ۔
وفی إعلاء السنن تحت ھذا الحدیث(۵/۱۱۔۷) قال الفقھاء: المراد بالدف مالا جلا جل لہ ۔۔۔ فائدۃ:۔۔۔(واجعلوہ فی المساجد) ۔۔۔ فإن العلۃ إنما ھی الإعلان والمسجد أولی لہ لکونہ جامعا للمسلمین من غیر حاجۃ إلی الاھتمام بالتداعی، ولذا استحب لہ یوم الجمعۃ لھذہ العلۃ بعینھا واقتصر فی ”الفتح“ (ص۳: ۱۰۲) علی الجواب الأول، قال ویستحب عقد النکاح فی المسجد لأنہ عبادۃ وکونہ یوم الجمعۃ۔
وفی الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب (۴۰۱/۴۔ ۴۰۲): وروی عن سعید عن قتادۃ أن النجاشی زوج النبیﷺ أم حبیبۃبنت ابی سفیان رضی الله عنھمابأرض الحبشۃوأصدق عنہ بمائتی دینار۔۔ (الی أن قال) زوجھا إیاہ النجاشی وجھزھا الیہ واصدقھا اربعمائۃ دینار، و أولم علیھا عثمان بن عفان لحما وثریداً وبعث الیھا رسول الله ﷺ شرحبیل ابن حسنۃ فجآء بھا۔۔الخ۔
……………
Feb 02,2009
Answer: 10482
فتوی: 171=171/ م
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ حضرت فاطمہ کو پہنچادو۔ وہ برقعہ، چادر، پہناکر ہاتھ پکڑکر پہنچا آئیں، (مثالی دلہن، ص:۳۲، بحوالہ حقوق زوجین)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند