قریبی رشتہ دار میں نکاح کی ممانعت شرعی نہیں، تجرباتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریعت اسلامیہ نے لڑکی کے نکاح میں اس کے حسب یعنی خاندانی شرافت ودینداری کو معیار اور بنیاد بنایا ہے۔ دینداری، خواہ اقارب میں ہو یا اجانب میں۔ اسے اختیار کیا جائے گا۔ نہ اجانب قابل ترجیح وترغیب ہیں نہ اقارب قابل نفور۔ ورع وتقوی اور ذہنی ہم آہنگی ویگانگت معیار ہیں خواہ جہاں ملیں۔
اقارب میں شادی کی ممانعت ہے اور نہ غیر خاندان میں شادی کرنے کی ترغیب۔ البتہ رشتہ کے انتخاب کے موقع سے لڑکی کی فطری شرافت، دینداری اور مستقبل میں ذہنی موافقت جیسےامور کا خیال رکھنا بہر حال ضروری ہے۔ اور اگر اپنے قریبی خاندان میں شادی کرنا کسی مصلحت کے خلاف ہو جس میں طبی مصلحت بھی داخل ہے تو پھر دوسرے خاندان میں شادی کرنا بہتر ہے۔
عن عبدالرزاق عن معمرعن یحیی بن بای کثیر قال قال رسول اذا جاءکم من ترضون امانتہ وخلقہ فانکحوا کائنا من کان فان لاتفعلوا تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیراً واقال عریض (مصنف عبدالرزاق 6:153)
مصنف عبدالرزاق ”میں روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
جب تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کی امانت داری اچھےاخلاق سے تم رضامند ہو تو نکاح کردیا کرو” وہ کوئی بھی ہو” اس لیے اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فساد پیدا ہوجائے گا۔)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (بخاری 762،2 ۔۔۔۔۔ چار چیزوں کی وجہ سے عورت سے شادی کی جاتی ہے۔مال، حسب، خوبصورتی، دینداری۔
تم دیندار کے ذریعہ کامیابی حاصل کرو (اگر کسی عورت میں یہ چاروں خوبیاں موجود ہوں تو سبحان اللہ! ورنہ دینداری ہی کو معیار وبنیاد بنانا چاہئے)
قرآن کریم نے اس موقع سے تفصیل کے ساتھ ان جائز رشتوں کی نشاندہی کی ہے اور ناجائز رشتوں کی بھی۔ (سورہ الاحزاب آیت نمبر 50 میں بیان ہے:
“اے نبی ہم نے تمہارے لئے تمہاری وہ بیویاں حلال کردی ہیں جنہوں ان کا مہر دے چکے ہو اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ تعالیٰ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموں کی بیٹیاں اور خالائوں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ ایماندار عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کردے یہ اس صورت میں کہ خود نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہے، یہ خاص طور پر صرف آپ کے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں، ہم اسے بخوبی جانتے ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں احکام مقرر کر رکھے ہیں، یہ اس لئے کہ تجھ پر حرج واقع نہ ہو،۔ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔”
جن رشتہ داروں سے نکاح کرنا واقعی مضر ، موجب نقصان اور حرام ہیں ان کا بیان بھی بالتفصیل آیا ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا
(004:023)
تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں ۔ اور تمہاری بہنیں ۔ اور تمہاری پھوپھیاں ۔ اور تمہاری خالائیں ۔اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ۔ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ۔ اور تمہاری بیبیوں کی مائیں ۔ اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں ۔ جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ۔ اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بی بیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں ۔ اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں۔
ان جائز النکاح رشتہ داروم میں چچا خالہ اور ماموں کی بیٹیوں سے نکاح کو نبی کے واسطہ سے امت کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے ۔اگر ان قریبی رشتہ داروں میں نکاح جائز نہ ہوتا تو اللہ تعالی اپنے نبی کو اس کی اجازت کیوں مرحمت فرماتے؟ پہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی رشتہ داری میں نکاح فرماکر اس کے جواز کی راہ کھلی رکھی ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺنے خود اپنی پھوپھی کی لڑکی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور اپنی لخت جگر فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چچا کے لڑکے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کیا ہے۔
ان نصوص کو سامنے رکھنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قریبی ترین رشتہ داروں مثلا کزنس میں شادی کرنے کی ممانعت کہیں سے ثابت نہیں ہے۔اس سلسلے میں جو شکوک وشبہات پیدا کردیئے گئے ہیں کہ حضور نے ایسی رشتہ داری سے ممانعت فرمائی ہے نیز یہ کہ قریبی رشتہ داری میں شادی کرنے سے موروثی بیماری منتقل ہوتی ہے اور بچہ جسمانی طور پر کمزور پیدا ہوتا ہے ۔اس بابت بعض لوگ یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں : “لاتنكحوا القرابة القريبة فإن الولد يخلق ضاويا ”
(یعنی قریبی ترین رشتہ داروں میں شادی نہ کرو ۔ورنہ بچہ کمزور ولاغر پیدا ہوگا )
تو خیال رہے کہ یہ یا اس قسم کی حدیث اگرچہ بعض کتابوں مثلا اتحاف السادة المتقين للزبيدي وغیرہ میں مذکور ہے “لاتنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا لیس بمرفوع تذکرۃ الموضوعات للفتی 137)
ان لا تکون من القرابۃ القریبۃ فان ذالک یقلل الشھوۃ قال رسول اللہ ﷺ لا تنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا اصلہ ضاووی وزنہ فاعول ( ای نحیفاً ) قلیل الجسم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ ( اتحاف السادۃ المتقین للزبیدی 5:349)
لیکن یہ حدیث صحیح کیا ؟ حدیث ہی نہیں ہے۔یعنی اس کا حدیث ہونا ہی ثابت نہیں ہے۔
( الف ) محقق ابن الصلاح فرماتے ہیں” لم أجد له أصلا معتمدا ”
تلخيص الحبير للحافظ ٢\١٤٦
( ب ) حافظ شوکانی اسے غیر ثابت مانتے ہوئے موضوعات کی فہرست میں شامل کرتے ہیں :
لاتنکحوا القرابۃ فان الولد یخلق ضاویا نحیفا وال المختصر لیس بمرفوع ( الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی 131)
(ج )لا تنكِحوا القرابةَ القريبةَ ، فإنَّ الولدَ يُخلَقُ ضاويًا .
الراوي: – المحدث: ابن الملقن /خلاصة البدر المنير – الصفحة: 2/179
والحديث غريب [يعني لا يعلم من رواه كما قال في المقدمة]
(د )لا تَنكحوا القرابةَ القريبةَ فإنَّ الولدَ يُخلقُ ضاويًا .
السبكي (الابن) / طبقات الشافعية الكبرى – الصفحة : 6/310
و الحديث: [لم أجد له إسنادا]
(ھ ) – لا تنكحوا القرابةَ القريبةَ ؛ فإن الولدَ يخلقُ ضاويًا . .
الألباني – السلسلة الضعيفة – الرقم: 5365
والحدث: لا أصل له مرفوعاً
(و )حافظ طاہر پتنی بھی اسے حدیث ماننے کو تیار نہیں :
لاتنکحوا القرابۃ القریبۃ فان الولد یخلق ضاویاً ای نحیفا لیس بمرفوع تذکرۃ الموضوعات للفتی 137)
اما قول بعض الشافعیۃ یستحب ان لا تکون المراۃ ذات ۔۔۔الخ ( فتح الباری 135:9)
ہاں اتنا ضرور ہے کہ بالکل قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے سے گھریلو معاملات ونزاعات پریشان کن بنے رہتے ہیں جس کی وجہ سے زوجین کے تعلقات بدمزگی کے شکار رہتے ہیں اور دونوں کے مابین مودت ومحبت ، قلبی لگائو اور دلی میلان ویگانگت کی کمی رہنے کے باعث مرد کا نطفہ کمزور ہوجاتا ہے جو ضعف نسل کا بسااوقات سبب بن جاتا ہے۔
اسی کے پیش نظر ابراہیم الحربی نے غریب الحدیث میں ذکر کیا ہے کہ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاندان صائب سے کہا تھا کہ تم نے اپنی اولاد کو کمزور کردیا ہے ۔سو اجانب میں نکاح کیا کرو ۔(یعنی بالکل قریبی رشتہ داری میں نکاح نہ کرو ) {تلخیص الحبیر ٢\١٤٦ .بحوالہ شمائل کبری 69/11 }
لیکن اس کے باوجود قریبی رشتہ دار میں شادی کرنا شرعا منع نہیں ہے۔ہاں طبی اور تجرباتی اعتبار سے اگر ذہنی انتشار وخلفشار کے باعث ایسی شادی کسی کسی کے لئے نقصان دہ ہو تو اسے فائدہ نقصان کو دیکھ کر رائے قائم کرنے کا اختیار ضرور ہے۔لیکن ایسی شادی کا ہمیشہ ہر شخص کے لئے اولاد کی خلقی وجسمانی نقائص کا موجب بننے کا قائل ہونا شرعا درست نہیں ۔اسے قول رسول کے طور پر بیان کرنا بھی ثابت نہیں۔واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٩ /جمادی الاولی ١٤٣٩هجري ۔6 فروری 2018 ع روز منگل