شادی کی عمر کی تحدید یوں تو اسلامی شادی کی عمرشریعت میں نہیں کی گئی ہے۔لیکن والدین کو تاکید کی گئی ہے کہ بلوغ کے بعد مناسب رشتہ مل جانے پر اولاد کی جلد سے جلد شادی کردیجائے تاکہ نوجوان نسل کے جذبات کا بہاؤ غلط رخ پہ نہ ہو اور وہ بے راہ روی کے شکار نہ ہوجائیں۔ فقہاء اسلام نے لڑکے اور لڑکیوں کے بلوغ کی علامتیں ذکر کردی ہیں۔ جب وہ علامتیں پائی جائیں تو سمجھئے کہ شادی کی عمر ہو گئی ہے۔ لڑکے کے بلوغ کی علامت انزال، احتلام کا ہونا یا عورت کوحاملہ بنانے کی صلاحیت وقوی کا موجود ہونا ہے۔ لڑکی کے بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ احتلام ہوجائے یا حیض آنا شروع ہوجائے یا حاملہ ہوجائے۔
اگر یہ علامتیں نہ پائی جائیں تو جب لڑکے اور لڑکیاں پندرہ سال کے ہوجائیں تو انھیں بالغ سمجھا جائے گا۔ نو سال کی عمر مکمل ہونے سے پہلے لڑکی کو بالغ نہیں کہہ سکتے۔
درمختار میں ہے؛
“بلوغ الغلام بالاحتلام والانزال والاحبال. والجارية بالاحتلام والحيض والحبل.
فإن لم يوجد فيهما شئ حتى يتم لكل منهما خمس عشرة.به يفتى. الدر المختار 132 /1.كتاب الحج.
در مختار میں ہے،
“بنت سنھا دون تسع لیست بمشتھاة وبه يفتى. الدر المختار 283 /2. باب المحرمات.
بلوغت کے بعد محض کشائش رزق کے انتظار میں شادی کے معاملہ کو ٹالتے رہنا بہت سے فتنہ وفساد کو جنم دینا ہے۔ آمدنی کم بھی ہو تو اللہ کے بھروسے پر شادی کرلینی چاہئے۔ کیونکہ اکثر حالات میں شادی انسان کے حالات درست کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔تکلف، تفاخر، نام ونمود، علاقائی اور سماجی رسم ورواج کے بندھنوں سے پاک “سادی” اور مختصر “شادی” کا تصور اسلام پیش کرتا ہے۔
أعظم النكاح بركة ايسره مؤنة.
لیکن خدا بھلا کرے، اس آسان شادی کو رسم ورواج کی زنجیروں سے لوگوں نے ایسا باندھ دیا اور مختلف قسم کی “ایجاد بندہ” نے اس سراپا “رحمت” پہ شدت کا ایسا نقطہ لگادیا کہ غریب تو غریب امیروں کے لئے بھی “زحمت” بن گئی ہے۔
شکیل منصور القاسمی