خلع کی اجازت کب ہے ؟
سوال
۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص شادی کے بارہ سال بعد اچانک چھت سے گرجانے کی وجہ سے لقوہ زدہ ہوگیا ہے. کمر سے نیچے تک جان نہیں ہے. پاخانہ پیشاب بذریعہ پائپ کروایا جاتا ہے. ۸ اور ۵ سال کی دوبیٹیاں بھی ہیں. اس حادثہ کے بعد وہ بیوی سے جنسی تعلقات بنانے سے معذور ہوگیا نیز بیوی بچوں کی کفالت پر بھی قادر نہیں ہے … اب بیوی اس سے خلع چاہتی ہے. کیا وہ ایسی حالت میں شوہر سے خلع لے سکتی ہے جب کہ اس کا شوہر اپاہج ہوگیا ہو اور بیوی کی جنسی خواہش کی تکمیل نہ ہورہی ہو اور نان و نفقہ بھی ادا نہ کیا جا رہا ہو.
براہ مہربانی جلد جواب عنایت فرمائیں.
ایس اے ساگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
نکاح زندگی بھر ساتھ نبھانے کا مقدس رشتہ ہے۔بلاوجہ اس بندھن کو توڑنا نہ صرف خداودند قدوس کی نظر میں مبغوض ہے بلکہ ایسا کرنے والے پر زبان رسالت سے سخت وعید سنائی گئی ہے۔ایک حدیث میں کہا گیا ہے جو عورت بلا وجہ اپنے شوہروں سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پہ جنت کی خوشبو بھی حرام ہے
1187 أَنْبَأَنَا بِذَلِكَ بُنْدَارٌ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ أَنْبَأَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَيُرْوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ عَنْ ثَوْبَانَ وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ (سنن الترمذي ۔باب المختلعات)
لیکن جس طرح دینی واخلاقی ومعاشرتی حق تلفی کے وقت طلاق مباح ہے، ٹھیک اسی طرح اگر جنسی جذبات وخواہشات کی تکمیل میں شوہر کی طرف سے رکاوٹیں آرہی ہوں اور عورت ناقابل تحمل مشقتوں کی شکار ہوگئی ہو تو آخری چارہ کار کے طور پر عورت اپنے شوہر سے اپنا مہر دین معاف کرکے یا کچھ لے دے کے شوہر سے چھٹکارا حاصل کرسکتی یعنی خلع لے سکتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ شوہر بھی اس پہ راضی ہو۔کیونکہ خلع دیگر عقود کی طرح ایک عقد ومعاملہ ہے جس میں فریقین کی رضامندی سے یہ معاملہ منعقد ہوسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ جس طرح زوجین میں نباہ نہ ہونے کی صورت میں خلع کی اجازت ہے، اسی طرح اخلاقی، معاشی اور صنفی حقوق کے متاثر ہونے کے وقت بھی اس کی اجازت ہے۔ قرآن کریم نے “حدود” کے لفظ کے ذریعہ بہت بلیغ وجامع اسلوب میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں بیوی جسمانی اعتبار سے مجبور شوہر سے اس کی رضامندی سے خلع لے سکتی ہے۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ طلاق ہی کی طرح محض لذت اندوزی کے طور پہ خلع کا مطالبہ کرنا بھی ناجائز اور بدبختانہ عمل ہے اور ایسا کرنے والی خاتون اللہ کی نظر میں ملعونہ ہے اور جنت کی خوشبو سونگھنے تک سے محروم رہے گی۔
1186 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا مُزَاحِمُ بْنُ ذَوَّادِ بْنِ عُلْبَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ لَيْثٍ عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمُخْتَلِعَاتُ هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ أَيُّمَا امْرَأَةٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِهَا مِنْ غَيْرِ بَأْسٍ لَمْ تَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ (سنن الترمذي) ۔
4971 حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ قَالَتْ نَعَمْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْبَلْ الْحَدِيقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ لَا يُتَابَعُ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ .صحيح البخاري .باب الخلع.
فی الملخص والإیضاح: الخلع عقد یفتقر إلی الإیجاب والقبول یثبت الفرقۃ و یستحق علیہا العوض۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۵/۵ رقم: ۷۰۷۱)
والخلع جائز عند السلطان وغیرہ لأنہ عقد یعتمد التراضی کسائر العقود وہو بمنزلۃ الطلاق بعوض۔ (المبسوط للسرخسی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۶/۱۷۳)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور۔ بہار ٨\١\١٤٣٩هجری