شیعے، خوجے اور بوہرے؛ ایک جائزہ
مفتی عزیز الرحمن
کچھ دنوں قبل بوہرہ فرقے کے تعلق سے ایک تحریر نظر سے گزری تھی…. اسی وقت سے خیال تھا کہ اس پر کچھ لکھوں گا…. مگر ہجومِ کار نے اجازت نہیں دی…. آج شب عاشور وقت نکال کر چند سطریں تحریر کررہا ہوں… یہ تو اکثر احباب جانتے ہوں گے یہ تشیع کے بطن سے نکلا ہوا ایک فرقہ ہے…. وہی شیعیت جس کا آغاز خلافت عثمانی میں ابن سبا اور اس کے متبعین کے ذریعئے ہوا تھا، ان کے جہاں اور بہت سےغلط عقائد تھے وہیں بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ حضرت علی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے بلا فصل جانشین، وصی اور حقیقی وارث ہیں… اگلے کچھ برسوں میں یہی شیعیت اس قدر تقسیم در تقسیم سے دوچار ہوئی ہے کہ اصل کی شناخت مشکل ہوگئی … مثلا شیعوں کے نزدیک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت علی پہلے، حضرت حسن دوسرے، حضرت حسین تیسرے، زین العابدین چوتھے اور امام باقر پانچویں امام ہیں..
اختلاف کا آغاز:
پانچویں امام تک سارے شیعہ متفق نظر آتے ہیں مگر چھٹے امام سے اختلاف شروع ہوتا ہے… اثنا عشری شیعے، بوہرے اور خوجے وغیرہ باقر کے لڑکے جعفر صادق کو امام مانتے ہیں.. مگر ایک طبقہ باقر کے دوسرے لڑکے زید کو امام تسلیم کرتا ہے. یہ زیدی فرقہ کہلاتا ہے. اگرچہ یہ فرقہ اعتقادی اور جذباتی طور پر شیعوں کے مقابلے میں ہمیشہ اہل سنت سے قریب رہا ہے .. مشہور مصنف قاضی شوکانی اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے … یمن کے حوثی بھی زیدی ہیں مگر آج کل ایرانی اثرات نے انھیں شیعوں سے زیادہ قریب کردیا ہے….
اگلا اختلاف:
امام جعفر کو چھٹا امام ماننے والے اثنا عشری، بوہرے اور خوجے ساتویں امام میں پھر مختلف ہوگئےہیں. اثنا عشری جعفر صادق کے لڑکے موسی کاظم کو ساتواں امام مانتے ہیں مگر بوہرے، خوجے جعفر صادق کے دوسرے لڑکے اسماعیل کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں.. اس کے بعد بالترتیب امام رضا، علی نقی، علی تقی اور حسن عسکری. اثنا عشریوں کے آٹھویں نویں دسویں آور گیارہویں امام ہیں ….. مگر حسن عسکری کے فرزند بارہویں امام مہدی اثناعشری عقیدے کے مطابق چھ سال کی عمر میں اصلی قران، عصائے موسی، انگشتری سلیماں اور تابوت سکینہ جیسے انبیا کے موروثی تبرکات لے کر سامرّہ (سرّمن راء) کے غار میں غائب ہوگئے … مبینہ طور پر اس وقت تک غائب رہیں گے جبتک دنیا میں ۳۱۳ پکے اور مخلص شیعہ نہ ہوجائیں …. چنانچہ بارہ صدیاں گزر گئیں ساری دنیا کے شیعوں کی زبانیں .. عجل اللہ فرجہ .. عجل اللہ فرجہ .. کہتے کہتے خشک ہوئی جارہی ہیں مگر غالبا اب تک مطلوبہ مقدار میں مخلص شیعے فراہم نہیں ہوسکے ہیں .. جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حسن عسکری لاولد فوت ہوئے تھے…. اسی فرضی بارہویں امام کو امام زمانہ، امام غائب، مہدی موعود وغیرہ بھی کہتے ہیں …. اسی مہدی موعود نے مسلمانوں کے اندر بابیت، بہائیت، مہدویت، قادیانیت، دینداریت اور شکیل حنیف جیسے گمراہوں کو جنم دیا ہے ….
بارہواں امام:
تو خیر، ذکر شیعوں کے بارہویں امام کا تھا جو کمسنی میں اپنے وزن سے کہیں زیادہ بھاری بھرکم اشیا لے کر پردہ غیب میں “تشریف بری” کرگئے… ابتدا میں موصوف کی غیبت “غیبوبت صغری” تھی، یعنی مخصوص افراد کو ان سے ملنے اور عام شیعوں کے پیغامات عریضے وغیرہ پہنچانے کی اجازت تھی …. انھیں مخصوصین میں یعقوب کلینی بھی تھے … اسی زمانے میں کلینی نے ‘اصول کافی’ نامی کتاب مرتب کی جو اثنا عشری شیعوں کے نزدیک صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے… اس کتاب کو امام غائب کا سرٹیفکٹ بھی حاصل ہے. اسی کتاب میں امام غائب کے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں…
“ھذا کافٍ لشیعتنا”..
اسی بنیاد پر اس کتاب کا نام اصول کافی رکھا گیا ہے ….. اس زمانے کی حکومت کو جب پتہ چلا کہ کچھ لوگ کسی غائب کا نمائندہ بن کر خلق خدا کو ٹھگ رہے ہیں تو تحقیقات شروع ہوئیں، نام نہاد نمائندوں کو تلاش کیا جانے لگا تو سارے نمائندے خود بھی انڈر گراونڈ ہوگئے … اور امام کی غیبت صغری اب “غیبوبت کبری” میں بدل گئی جو ہنوز جاری ہے ….. اس کے بعد سے شیعوں کی درخواستیں اور عریضے امام زمانہ تک پہنچانے کا کام سمندر کے سپرد کردیا گیا ہے … چنانچہ شعبان کی پندرہویں شب کو شیعے اپنی تمنائیں مرادیں اور ضروریات لکھکر سمندر میں ڈالتے نظر آتے ہیں. جن علاقوں میں سمندر نہیں ہے، وہاں عریضوں کو بہتے پانی دریا نہر وغیرہ میں اس امید کے ساتھ پوسٹ کیا جاتا ہے کہ یہ بالاخر بہتے ہوئے سمندر تک پہنچ جائیں گے……
بوہرے اور خوجے:
پہلے گزر چکا کہ چھٹےامام جعفر تک اثنا عشری، بوہرے اور خوجے متفق تھے، البتہ ساتویں امام شیعہ اثنا عشریوں کے نزدیک موسی کاظم بن جعفر اور بوہروں خوجوں کے نزدیک اسماعیل بن جعفر ہیں…. اب آگے مستنصر باللہ تک بوہرے اور خوجے متفق نظر آتے ہیں جو ان کا اٹھارواں امام ہے … مستنصر کے دو لڑکے تھے. “مستعلی” جس کو بوہرے انیسواں امام اور “نزار” جس کو خوجے انیسواں امام مانتے ہیں… آج کل کریم آغا خان خوجوں کا انچاسواں امام ہے … پیرس میں رہتا ہے انتہائی دولت مند ہے. مغربی معاشرت کا عادی ہے ریس کے گھوڑوں کا شوقین ہے … کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے تو وہاں اسےکسی سربراہ مملکت جیسا سرکاری پٹروکول دیا جاتا ہے… خوجے عام طور پر تجارت پیشہ اور متمول ہوتے ہیں. کچھ دنوں قبل تک ہندوستان کی سب سے مالدار شخصیت کہےجانے والے “پریم جی” بھی خوجہ ہیں…
باطنی مذاہب:
یوں تو شیعہ بوہرہ اور خوجہ سارے “باطنی” مذہب ہیں …جس میں نصوص کے ظاہری معنی جو بھی ہوں مگر امام کی طرف سے ملنے والی سینہ بسینہ تعلیم کی بنیاد پر بتائے جانے والے باطنی معنی ہی معتبر سمجھے جاتے ہیں… چنانچہ نماز روزہ حج زکوۂٰ سے لے کر شیطان فرعون ہامان وغیرہ تک کے حقیقی معنی وہی سمجھے جاتے ہیں جو امام نے خاموشی سے بتائے ہوں…. ان میں سب زیادہ باطنیت کا شکار خوجہ فرقہ نظر آتا ہے… چنانچہ خوجے نہ تو نماز پڑھتے ہیں، نہ روزہ حج زکات سے انھیں کوئی مطلب ہے …. ان کی مسجدیں نہیں ہوتیں…. جہاں ان کی قابل ذکر آبادی ہوتی ہے وہاں پر ایک عمارت ‘جماعت خانہ’ کے نام سے ضرور ہوتی ہے.. جہاں مختلف موقعوں پر کئی طرح کے پروگرام ہوتے ہیں جن میں مرد وعورتیں مشترکہ طور پر شامل ہوتے ہیں، میوزک وغیرہ بھی ہوتا ہے…. جماعت خانے کے ایک گوشے میں گرجاوں اور مندروں کی طرح موم بتیاں اور ناریل بھی دکھائی دیتے ہیں….. مجموعی طور پر خوجے صلح کلی مزاج رکھنے والے ہوتے ہیں. ان کےسربراہ آغا خاں کی طرف سے ان لوگوں کے لئے ہاوسنگ سوسائیٹاں، کوآپریٹو بنک، مفت علاج ومعالجہ کے لئے شاندار اسپتال وغیرہ کی سہولتیں دی جاتی ہیں… مذہب کے بارے میں عام خوجوں کو خود بھی کوئی معلومات نہیں ہوتی.اور نہ ہی ان مذہبی کتابیں ملتی ہیں ان کے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے مذہب پر کبھی بات نہیں کرتے… ان لوگوں کے درمیان اصلاحی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے… کچھ لوگوں نے ان کے درمیان کام کیا ہے، الحمداللہ اس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں ایک بڑی تعداد مذہب حق اختیار کرچکی ہے. ان کو سنی خوجہ کہا جاتا ہے.. الحمد اللہ سنی خوجوں کی مسجدیں ہیں قبرستان بھی ہیں….. لیکن افسوس یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان اثنا عشریوں نے بھی محنت کی اور ایک تعداد شیعہ خوجہ بن گئی ہے.. ان شیعہ خوجوں کی بھی اپنی مسجدیں اور قبرستان ہیں… ممبئی جیسے شہر میں شیعوں کی سرگرمیوں کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے یہی شیعہ خوجہ ہیں…
بوہرے:
اب آتے ہیں ایک اور باطنی فرقے بوہروں کی طرف…. پہلے گزر چکا کہ اٹھارویں امام کے بعد بوہرے اور خوجے الگ ہوگئے تھے. خوجوں نے نزار اور بوہروں نے مستعلی کو انیسواں امام مانا تھا… آگےبوہروں کا اکیسواں امام “طیب عامر” غائب ہوگیا …. بوہروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس کے بعد بھی امامت کا سلسلہ جاری رکھتا ہے اور چھبیسویں ویں امام سلیمان کو غائب مانتا ہے یہ سلیمانی بوہرہ کہلاتے ہیں…یہ بوہروں میں ایک چھوٹی سی ناقابل ذکر جماعت ہے…اس لئے ہم آگے اسی بوہرہ جماعت کا ذکر کریں گے جو اکیسویں کو غائب مانتے ہیں یہ داودی بوہرہ ہیں جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں…
داعی مطلق:
اکیسویں امام کی غیبت کے بعد داودی بوہروں میں “داعی مطلق ” کا سلسلہ شروع ہوتا ہے….. یہ امام کے بعد ان ہی کے نامزد کردہ ان کے نمائندے اور نائب ہوتے ہیں… ہر داعی اپنے بعد کا داعی نامزد کرتا ہے جس کو “نص” کرنا کہتے ہیں…. بوہرے اپنے داعی کو “سیدنا ” کا لقب دیتے ہیں.. ان داعیوں کو تمام بوہروں کے جان مال کا مالک اور بڑی حد تک خدائی اختیارات کا حامل بھی سمجھا جانے لگا ہے …… داعی کی اجازت کے بغیر کوئی بوہرہ نہ تو شادی کرسکتا ہے نہ اپنے بچے کا نام رکھ سکتا ہے… حج وعمرے کے لئے بھی اجازت جس کو “رضا” کہتے ہیں، لینا ضروری ہے … ہر موقعے پر داعی کی خدمت میں “نذرانہ” دینا لازم ہے …. میت کی تدفین کے لئے بھی داعی کی اجازت درکار ہوتی ہے ….. چنانچہ باغیوں کو ان کے قبرستانوں میں دفن نہیں کیا جاسکتا. غرض بوہرہ داعیوں کی ایک اپنی ریاست ہوتی ہے عرب ممالک میں انھیں “سلطان البواھر” بھی کہا جاتا ہے… بوہرہ داعی ہر علاقے میں عامل مقرر کرتا ہے جس کا کام مقامی بوہروں کے مذہبی امور نکاح وغیرہ انجام دینا اور نذرانوں کو داعی کے دفتر تک پہنچانا ہے ….. چند عاملوں کے اوپر ایک “مکاثر” ہوتا ہے جو عاملین کی کارکردی پر نظر رکھتا ہے … مکاثر کے اوپر “ماذون” ہوتا ہے …. ماذون کے اختیارات بہت زیادہ ہوتے ہیں ….. داعی کا دفتر ایک سکریٹریٹ کے طور پر کام کرتا ہے. مختلف امور کے الگ الگ نگراں ہوتے ہیں… مثلا اہل سنت اور دیگر اسلامی فرقوں سے تعلقات کے لئے الگ ذمہ دار ہے جو وقت ضرورت مسلمان مشاہیر سے رابطے میں رہتا ہے اور داعی کے حکم کے مطابق مشترکہ مسلم معاملات میں بوہروں کی نمائندگی کرتا ہے…. حکومتی سطح پر وزرا سے رابطے کا الگ ذمہ دار ہے جو آنے والی ہر حکومت تک بوہروں کی ہمدردی پہنچاتا ہے ….. چنانچہ چند سال قبل ممبئی میں ان کے سیفی اسپتال کے افتتاح کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ آئے تھے اور پچھلے دنوں وزیر اعظم مودی نے موجودہ داعی سے اس کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی ….. اس سے قبل کے وزرائے اعظم نہرو، اندرا، راجیو گاندھی وغیرہ سے بھی اس وقت کے داعیوں کے اچھے تعلقات رہے ہیں…. حد تو تب ہوگئی جب موجودہ ترپن ویں داعی مفضل سیف الدین جو اس سال پاکستان میں محرم کی مجلسیں پڑھ رہا ہے، اس سے مشہور مبلغ مولانا طارق جمیل نے بھی اس کی قیام گاہ پر ملاقات کرکے اس کی اڑھائی ہوئی شال قبول کی ….. اس کا ویڈیو شوشل میڈیا پر بھی دیکھا گیا … اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بوہروں کاشعبہ رابطہ عامہ کتنا مضبوط اور مستعد ہے….. بوہرہ داعی ہر سال الگ الگ ملک میں محرم کی مجلسیں پڑھتا ہے …جہاں بھی یہ مجلسیں ہوتی ہیں، وہاں بڑی تعداد میں ساری دنیا سے بوہرے پہنچتے ہیں …. ان مجلسوں میں تبرا بھی کیا جاتا ہے مگر چونکہ یہ مجلسیں گجراتی زبان میں ہوتی ہیں، اس لئے عموما مسلمانوں کے سمجھ میں نہیں آتیں…. دراصل غالبا ۱۹۹۰ میں اس وقت کے داعی برہان الدین نے ممبئی میں محرم منایا تھا اور آخری مجلس میں اس نے ام المومنین اور خلفاء ثلاثہ پر تبرا کیا … چونکہ ممبئی میں گجراتی عام طور پر سمجھی جاتی ہے اس لئے اسی وقت ہنگامہ ہوگیا …کچھ مسلمان اس کی مجلس میں گھس گئے مار پیٹ ہوئی … دوسرے دن بڑا احتجاجی جلسہ ہوا. تین دن کے اندر عوامی طور پر معافی کا مطالبہ کیا گیا … مگر معافی کی بجائے مضحکہ خیز وضاحتی بیان دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی …. پھر وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا… ہزاروں مسلمانوں نے بوہرہ علاقے کو گھیرلیا … توڑ پھوڑ ہنگامے ہوئے. دو بوہرے ہلاک بھی ہوئے…. بہرحال بعد از خرابی بسیار برہان الدین نے ٹیلیویزن پر اس وقت کے وزیر اعلی شرد پوار کی موجودگی میں تحریری معافی مانگی …. تب جاکر یہ معاملہ ختم ہوا….
بغیر نص کے دعوت:
پہلے گزر چکا کہ داعی کے لئے انتہائی ضروری یہ ہے کہ اس کو اس سے پہلے کے داعی نے نامزد کیا ہو اسی کو “نص” بھی کہتے ہیں … مگر بوہرہ تاریخ میں نص سے متعلق بھی ایک تنازعہ موجود ہے …… کہتے ہیں کہ چھیالیسویں داعی بدرالدین نے کی موت نص کرنے سے پہلے ہی ہوگئی تھی .. اس لئے سینتالیسویں داعی عبد القادر نجم الدین کو شرعی داعی نہیں کہا جاسکتا…. سورت میں بوہروں کا سب سے بڑا مذہبی مدرسہ جامعہ سیفیہ ہے. اس کے ایک سینئر شیخ نے اپنے درس میں یہی بات کہہ دی تھی کہ موجودہ دعوت بغیر نص کے چل رہی ہے …… نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ دنوں بعد پر اسرار طور پر ان کی موت ہوگئی…. موجودہ داعی مفضل سیف الدین کے بارے میں بھی تنازع ہے… پچھلے داعی برہان الدین کے بھائی حذیفہ نے باقاعدہ عدالت میں دعوی کیا ہے کہ نص میرے بارے میں ہے، اس لئے داعی ہونے کا حق مجھے ہے …. برہان الدین نے حذیفہ کو ماذون بھی بنایا تھا …. مگر عام بوہروں نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا… اور پھر حذیفہ کا انتقال بھی ہوگیا ہے …..
بوہرہ باغی گروپ:
اکیاونویں داعی طاہر سیف الدین کے وقت سےجب عام بوہروں پر ان کی زیادتیاں،چیرہ دستیاں اور ناانصافیاں زیادہ ہونے لگیں تو بوہروں کے درمیان اصغرعلی انجینئر، نعمان کنٹراکٹر وغیرہ کی قیادت میں اصلاحی تحریک شروع ہوئی…اس دوران نعمان کی لڑکی کی شادی میں کوئی بوہرہ قاضی نکاح پڑھانے کو تیار نہیں ہوا… اس کے انتقال پر کسی بوہرہ قبرستان میں اسے دفن نہیں کرنے دیا گیاـ ممبئی مرکنٹائل بنک ایک بوہرہ اللہ بخش نے قائم کیاتھا. زین الدین رنگون والا مینجگ ڈائرکٹر بھی بوہرہ تھے. یہ لوگ بھی بوہرہ سربراہ کے مظالم سے تنگ آکر اصلاحی تحریک کے ساتھ ہوگئے… چنانچہ داعی مطلق نے فرمان جاری کردیا کہ سارے بوہرے اس بنک کا بائیکاٹ کریں اپنا سارا سرمایہ نکال لیں…اس کی ملازمت چھوڑدیں …. تقریبا سارے بوہروں نے وہاں کے اپنے اکاونٹ بند کردئے … سرمایہ دوسری بنکوں میں منتقل کردیا… نوکریاں چھوڑدیں …..اس کا دوسرا فائدہ یہ ہواکہ یہ نوکریاں دوسرے مسلم نوجوانوں کو مل گئیں… اس اصلاحی تحریک کو عام مسلمانوں کی ہمدردیاں اور انصاف پسند غیر مسلموں کی حمایت بھی حاصل تھی یہ تحریک اور بھی کامیاب ہوتی مگر بوہرہ داعیوں کی دولت ان کی دادودہش نے بہتوں کو خاموش کردیا نیـز یہ تحریک بوہروں تک محدود رہنے کی بجائے چھاگلہ، حمید دلوائی وغیرہ کے اٹرات کا شکار ہوکر مسلم پرسنل لا اور کامن سول کوڈ وغیرہ کے سلسلے میں عام مسلمانوں کی مخالفت کرنے لگی جس کی وجہ سے مسلمان بھی اس سے دور ہوتے چلے گئے…
بوہرہ کالونی:
اکیاون ویں داعی طاہر سیف الدین کی موت کے بعد اسیے بھنڈی بازارممبئی کے بوہری محلہ میں دفن کیا گیا… پھر اس کی قبر پر عالیشان مقبرہ تعمیر ہوا…. ۱۹۷۸ میں اس کے افتتاح کے لئے صدرجمہوریہ فخرالدین علی احمد، شیخ الازہر ڈاکٹر عبد الحلیم، قاری باسط مصری، قاری خلیل الحصری، متعدد مسلم ممالک کے وزرا اور سفرا بھی شریک ہوئے… کچھ اور علما کا نام بھی لیا جاتا ہے مگر مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے…. پچھلے سال باونویں داعی برہان الدین کو بھی وہیں دفن کیا گیا ہے… اب مقبرے کی آس پاس کی تمام عمارتیں بوہروں نے زبردستی زور دباؤ اور لالچ دے کر خرید لی ہیں… ساری بلڈگیں توڑ کر از سر نو تعمیر کی جارہی ہیں ….. حکومت سے پلان منظور کروالیا گیا ہے …. آس پاس کی مساجد اور مزارات کو بھی ہٹانے کا پروگرام تھا مگر مقامی لوگوں کی مخالفت کے ڈر سے ایسا نہیں ہوپایا ہے ….. وہ دن دور نہیں جب بھنڈی بازار جیسا مسلم اکثریتی علاقہ بوہرہ اکثریتی علاقہ ہوجائے گا…
حرف آخر:
ابتدا میں صرف بوہروں پر ہی لکھنے کا ارادہ تھا مگر لکھتے لکھتے پوری شیعت بیان ہوگئی… شیعوں اور بوہروں کے کچھ اور چھوتے چھوٹے فرقے ہیں جیسے “نصیری” جو حضرت علی کو خدا مانتے ہیں، انھیں علوی بھی کہا جاتا ہے…. شام کا “بشار رجیم” اسی فرقے سے تعلق رکھتا ہے ….. اسی طرح شیعوں کا ایک فرقہ “اخباری” کہلاتا ہے… یہ تقلید کی بجائے ظاہری روایات پر عمل کرتے ہیں….. بوہروں کا ایک فرقہ” دروزی” اور ایک “علوی” بھی ہے ….. یہ سب چھوٹے فرقے ہیں اور ان کے بارے میں معلومات بھی میسر نہیں ہیں….
مولانا محمود دریابادی
……..
ھمارے اسماعیلی مذہب کا نظام اور اسکی حقیقت،، یہ کتاب اس موضوع پر سب سے مستند اور تفصیلی معلومات پر مشتمل ھے زاہد علی خود اسماعیلی بوہرہ شیعہ تھے ان حضرات کے نصاب میں دیگر علوم کے بعد دو علم اور پڑھائے جاتے ھیں علم التأويل اور علم حقیقت زاہد علی نے جامعہ سیفیہ سورت میں آخر تک پڑھا تھا انھوں نے لکھاھے کہ آخری درس میں استاد نے اپنے تمام شاگردوں کو اس امر سے آگاہ کیا تھا کہ موجودہ دعوت نص کے بغیر چل رہی ھے (نص کی بحث کسی اور وقت) اس درس میں ملا برہان الدین بھی تھے جو بعد میں داعی مطلق بنے استاد کا نام غالبا سید سجاد تھا وہ ہر سال آخری درس میں تلامذہ کو علمی اور دینی امانت سمجھ کر انقطاع نص سے آگاہ کیا کرتے تھے، ملا برہان الدین کے داعی مطلق بننے کے بعد سجاد صاحب کراچی منتقل ھوگئے تھے جہاں جماعت خانے میں آتشزدگی کے حادثے میں سجادصاحب زندہ جل گئے تھے (یا جلادئے گئے تھے واللہ اعلم) ترقی پسند بوہرہ جماعت کا تمام تر اختلاف یہی انقطاع نص کا مسئلہ ھے وہ بوہرہ ملا کو نص کے منقطع ھونے کی بناء پر مذہبی سربراہ ماننے سے انکاری ھیں البتہ غاصب منتظم ماننے کے لئے تیار ھیں جو بوہرہ انتظامیہ کو منظور نہیں، زاہد علی صاحب کو یہ کتاب لکھنے کی پاداش میں بڑی سخت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا یہانتک کہ بیٹی جو ساتھ ہی رہتی تھی وہ جماعتی بائیکاٹ کی وجہ سے باپ کو نہ دوائیں کھلاسکتی تھی نہ کھانا پانی دے سکتی ھے بوہرہ عالم جنکا مولانا محمود صاحب نے ذکر کیا ھے وہ اتوار کو پرانی کتابوں کی دوکان میں پابندی سے میرا انتظار کیا کرتے تھے مجھ سے گفتگو عربی ہی مین کرتے تھے اپنے عربی اشعار بھی سنایا کرتے تھے میں نے بھی کچھ اشعار عربی میں کہہ رکھے تھے وہ سناتا تو بہت خوش ھوتے، ذی علم آدمی تھے، مَیں نے بوہرہ تاریخ اور مذہبی کتابوں کی فرمائش کی تو بتایا کہ ھمارا سارا ذخیرہ قلمی ھے میں وقت نکال کر مطلوبہ کتابیں لیتا آؤنگا ایک ہوٹل میں لے جاکر گھنٹوں علمی موضوعات پر باتیں کیا کرتے تھے ایک دن میں نے یہ غلطی کردی کہ مسئلہ امامت کے متعلق شیعہ فرقوں کے اختلافات، پھر اثنا عشری سے اسماعیلیہ کی علحدگی اسکے بعد اسماعیلیوں کی نزاری (خوجے) اور مستعلیہ(بواہر) میں تقسیم پھر بوہرہ کے درمیان داؤدی اور سلیمانی نیز دیگر ذیلی فرقوں کے اختلافات کومع بنائے اختلاف کے بیان کربیٹھا شیخ سب حیرت کے عالم میں بہت غور سے سنتے رہے آخر میں جب میں نے انقطاع نص اور ترقی پسند بولروں کا ذکر کیا تو چونک ایسے گئے اسکے بعد میں نے ان سے دریافت کیا کہ شیخ ایمانداری سے بتائیے کیا علم حقیقت کے آخری درس میں آپکے استاد نے بھی یہ خبر دی تھی کہ نص منقطع ھے موصوف نے اس سوال کے جواب میں صاف لفظوں میں اس کا اقرار تو کیا لیکن ساتھ یہ بھی پوچھ بیٹھے کہ تمھیں یہ سب کیسے معلوم ھوا میں نے عرض کیا میں بھی بہت کچھ پڑھتارہتا ہوں اس وقت تک مجھے زاہد علی صاحب کی کتاب نہیں مل سکی تھی، لہذا موسم بہار کا حوالہ دیا جسکے متعلقہ حصے کو میں دیکھ چکاتھا یہ کتاب اردو رسم الخط اور بوہرہ گجراتی میں ھے اور اسکے غالبا دوسرے حصے میں انقطاع نص کا قصہ تفصیل کے ساتھ منقول ھے اس ملاقات کے بعدھمارا ملناجلنا کم ھوگیا ایک مرتبہ ملے تو میں نے پھر کتابوں کی فرمائش کی تو بتایا کہ میں کراچی منتقل ھوگیا تھا کتابیں سب وہیں رکھی ھیں اسکے بعد ہی وہ بالکل منقطع اللقاء ھوگئے زاہد صاحب کی کتاب ھندوستان میں دستیاب نہیں ھے لیکن پڑوسی ملک میں طبع ھوچکی ھے زاہد صاحب کی دوسری کتاب تاریخ فاطمین مصر جس میں تاریخ کے ساتھ اسماعیلی عقائد کو بھی تفصیل سے لکھاگیاھے یہ کتاب بھی پڑوسی ملک سے چھپ چکی ھے.
وقت نکال کر کسی وقت تفصیل سے اس موضوع پر ضرور کچھ لکھوں گا فی الحال چند دن تک مشغولیت زیادہ ھے.