شکر وکفر؛ شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟


شکر وکفر
شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟
الشُّكْرُ: تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل: وهو مقلوب عن الکشر، أي: الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي:
ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه .
والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :
شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .
وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .
وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .
وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ،
(ش ک ر) الشکر
کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔
شکر تین قسم پر ہے
شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجورح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
كفر (ناشکری)
الكُفْرُ في اللّغة: ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152]
(ک ف ر) الکفر
اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94]
؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے:
۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان/ 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا: ۔
لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة/ 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔ (مفردات القرآن /امام راغب اصفہانی ۔آیت نمبر 027:040 )
نعمت شناسی کی اس قرآنی حقیقت بیانی کے بعد ارشاد نبوی ملاحظہ فرمائیں:
1955 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ح وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْ اللَّهَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
سنن الترمذي. كتاب البر والصلة
(جو شخص انسان کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا)
اس حدیث کی وضاحت میں امام خطابی کا خیال یہ ہے کہ جس شخص کی طبعیت اور مزاج میں انسانوں کی احسان شناسی نہ ہو وہ  لازما اللہ کی نعمتوں کی ناقدری بھی کرے گا۔یا مطلب یہ ہے کہ  اللہ اسی شخص کے شکریہ کو قبول فرماتے ہیں جو انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کا عادی ہو۔
قال الخطابي : هذا يتأول على وجهين : أحدهما أن من كان من طبعه وعادته كفران نعمة الناس وترك الشكر لمعروفهم كان من عادته كفران نعمة الله تعالى وترك الشكر له ، والوجه الآخر أن الله سبحانه لا يقبل شكر العبد على إحسانه إليه إذا كان العبد لا يشكر إحسان الناس ويكفر معروفهم لاتصال أحد الأمرين بالآخر انتهى.
شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟
اصل تو یہ ہے کہ انسان جب کسی کے ساتھ فضل وکرم کا معاملہ کرے تو حتی الوسع اس کے اس احسان کی مکافات وجزاء محسوس طور پر ادا کرے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ تھی کہ جب کوئی کچھ ھدیہ پیش فرماتا تو آپ اس کا برتن خالی واپس نہ فرماتے ! یہی محسوس مکافات منعم کی اصل تعریف وثناخوانی ہے ۔
تاہم اگر دست بدست حسی طور پہ بدلہ نہ دیا جاسکتا ہو تو کم از کم  زبان سے ہی  “جزاک اللہ خیرا” کہدینے سے اس کی نعمت کی مکمل مکافات ہوجائے گی ۔اور اسں منعم کی حقیقی تعریف بھی ہوجائے گی۔
بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّنَاءِ بِالْمَعْرُوفِ
2035 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
سنن الترمذي. كتاب البر والصلة
شکریہ ادا کرنے کا یہی نبوی اور افضل طریقہ ہے۔اس میں اس بات کا  اعتراف بھی ہے کہ میں تو آپ کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہوں ۔اللہ تعالی ہی آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔
صرف شکریہ شکریہ جیسے کلمات کہدینا ناقص اور ادھورا طریقہ ہے ۔ اس سے بچتے ہوئے نبوی طریقہ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔رسم ورواج کے آج کے سونامی لہر کے سامنے “مرغ حرم” کو متاثر نہیں ‘ “موثر” بننے کی ضرورت ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
شکیل منصور القاسمی