خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

س… آپ کو زحمت دے رہا ہوں، روزنامہ “نوائے وقت” اتوار ۱۰/جون ۱۹۹۰ء میں “نورِ بصیرت” کے مستقل عنوان کے ذیل میں میاں عبدالرشید صاحب نے “باز اور بڑھیا” کے عنوان سے ایک اقتباس تحریر کیا (تراشہ ارسالِ خدمت ہے)، جس میں احقر کے علم کے مطابق مصنف نے حدیثِ نبوی کی نفی، جہاد بالسیف اور جہاد باللسان کے بارے میں اپنی آراء اور مسواک (سنتِ رسول) کے بارے میں ہرزہ سرائی سے کام لیا ہے۔ آپ سے استدعا ہے کہ میاں عبدالرشید صاحب کی کوتاہ علمی اور ہرزہ سرائی کا مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ احقر اسے روزنامہ ہذا میں چھپواکر بہت سارے مسلمانوں کے شکوک، جو کہ مصنف نے تحریر ہذا کے ذریعے پیدا کئے ہیں، دُور کرسکے، اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عنایت فرمائیں۔

“نورِ بصیرت” کے عنوان سے لکھا ہوا میاں عبدالرشید کا متذکرہ بالا مضمون یہ ہے:

“باز اور بڑھیا”

“رومی نے ایک حکایت لکھی ہے، کسی بڑھیا کے مکان کی چھت پر ایک باز آکے بیٹھ گیا اور اتفاق سے بڑھیا کے ہاتھ آگیا، بڑھیا نے اسے پیار کرتے کرتے اس کی چونچ کو دیکھا تو بولی: ہائے افسوس! چونچ اتنی بڑھ گئی ہے اور آگے سے ٹیڑھی بھی ہوگئی ہے۔ پھر اس کے پنجے دیکھے تو اسے اور افسوس ہوا کہ ناخن اتنے بڑھ گئے ہیں۔ بڑھیا نے قینچی لی، پہلے باز کی بڑھی ہوئی چونچ کاٹی، پھر اس کے پنجے ٹھیک کئے، پھر اس کے پَر کاٹ کر دُرست کئے، اس کے بعد خوشی سے بولی: اب یہ کتنا پیارا لگتا ہے!

رومی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بعض لوگ اچھی بھلی چیزوں کو نکما اور بے کار بنادیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس کی اصلاح کردی ہے۔ یہی کچھ ہمارے اسلام سے کیا جارہا ہے۔ ایک طرف، اس کے اندر سے جہاد اور شوقِ شہادت نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دُوسری طرف، رسوم پر زور دے کر اعمال کو رُوح سے بے گانہ بنایا جارہا ہے، جس سے مسلمانوں میں تنگ نظری، تعصب اور فرقہ پرستی پھیل رہی ہے۔ تیسری طرف، مسلمانوں کو قصے کہانیوں میں اُلجھایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں وہ حقیقت پسندی سے دُور ہو رہے ہیں۔

ایک فوجی افسر نے مجھے بتایا کہ ان کے دفتر کے ساتھ جو مسجد ہے، وہاں نمازِ ظہر کے بعد ایک کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہے، ایک دن ابنِ ماجہ کے حوالے سے یہ “حدیث” بیان کی گئی کہ دو اشخاص تھے، ان میں سے ایک نے شہادت کی موت پائی، دُوسرا طبعی موت مرا، کسی نے خواب میں دیکھا کہ طبعی موت مرنے والا شہید سے کئی برس پہلے جنت میں داخل ہوا۔ پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ چونکہ طبعی موت مرنے والے نے نمازیں زیادہ پڑھی تھیں، اس لئے اسے شہید پر فوقیت ملی۔ ہے ماننے والی بات؟ کیا یہ بات اسلام کی تعلیم کے سراسر منافی نہیں؟ متفقہ مسئلہ ہے کہ شہادت کی موت افضل ترین موت ہے، شہید بغیر کسی حساب کتاب کے سیدھا جنت میں جاتا ہے، کیا یہ فوجیوں کے اندر سے شہادت کا شوق ختم کرنے کی کوشش تو نہیں؟

سورة الصف کی چوتھی آیت ہے (ترجمہ): “اللہ تعالیٰ فی الواقع انہیں محبوب رکھتے ہیں جو ان کی راہ میں صف بستہ لڑیں، جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔”

یہ واضح طور پر لڑائی کے بارے میں ہے۔

لیکن اسی افسر نے مجھے بتایا کہ وہاں اس آیت کو چھوڑ کر آیہ:۱۱ کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے: “جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد نہیں بلکہ) کوشش کرتے ہیں اپنے اموال سے اپنی جانوں سے۔” ظاہر ہے کہ کوشش سے مراد تبلیغی دوروں پر جانا ہے۔

ایک اور فوجی افسر نے واقعہ سنایا کہ بہاول پور کی طرف ان کے تین ٹینک بڑی نہر میں گرگئے جوانوں نے تلاش کی، دو مل گئے، تیسرا نہ ملا۔ شام کو کرنل نے جو ماشاء اللہ اسی پرہیزگار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، جوانوں کا اکٹھا کیا اور کہا: معلوم ہوتا ہے کہ آج تم نے مسواک ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی، اس وجہ سے ٹینک نہیں ملا، کل صبح مسواک اچھی طرح سے کرکے آنا۔ دُوسرے دن جوان اچھی طرح سے مسواک کرکے نہر میں اُترے تو تیسرا ٹینک بھی مل گیا۔”

ج… میاں صاحب نے پیر رُومی کے حوالے سے “باز اور بڑھیا” کی جو تمثیلی حکایت نقل کی ہے وہ بھی بجا، اور اس کو نقل کرکے میاں صاحب کا یہ ارشاد بھی سر آنکھوں پر کہ:

“یہی کچھ ہمارے اسلام کے ساتھ کیا جارہا ہے۔”

چنانچہ میاں صاحب کا زیرِ نظر مضمون بھی اسی کی اچھی مثال ہے، جس میں متعدّد پہلووٴں سے “روایتی بڑھیا” کا کردار ادا کیا گیا ہے۔

اوّل:… ایک اُمتی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو تعلق ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی سنتے ہی اس کا سر جھک جائے، اور اس کے لئے کسی چوں و چرا کی گنجائش نہ رہ جائے، اس لئے کہ ایک اُمتی کے لئے، اگر وہ واقعتا اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی سمجھتا ہے، سب سے آخری فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فیصلہ ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم و ارشاد کے بعد نہ کسی چوں و چرا کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف اپیل ہوسکتی ہے، قرآنِ کریم کا ارشاد ہے:

“فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔” (النساء:۶۵)

ترجمہ:… “پھر قسم ہے آپ کے رَبّ کی! یہ لوگ ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو اس میں یہ لوگ آپ سے تصفیہ کروالیں، پھر آپ کے اس تصفیے سے اپنے دِلوں میں تنگی نہ پاویں اور پورے طور پر تسلیم کرلیں۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

لیکن ارشادِ ربانی کے مطابق، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سن کر میاں صاحب کا سر اس کے سامنے نہیں جھکتا، بلکہ وہ اس کو: “جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت نکالنے کی کوشش اور رسوم پر زور دے کر اعمال کو رُوح سے بے گانہ بنانے کی غلطی” سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اس حدیثِ نبوی اور ارشادِ مصطفوی (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) کو “اسلام کی بڑھتی ہوئی چونچ” سمجھ کر روایتی بڑھیا کی طرح فوراً اسے مقراضِ قلم سے کاٹ ڈالتے ہیں، اور اسلام کی قطع و برید کا یہ عمل ان کے خیال میں “نورِ بصیرت” کہلاتا ہے۔ حالانکہ روایتی بڑھیا کی طرح نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اس حدیث شریف کا مدعا کیا ہے؟ نہ وہ یہ جانتے ہیں کہ جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟ وہ اس حدیث شریف کو جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کے منافی سمجھتے ہیں، اور انہیں یہ حدیث شریف اسی طرح فالتو نظر آتی ہے، جس طرح بڑھیا کو باز کی چونچ اور بڑھے ہوئے ناخن فالتو نظر آئے تھے۔

دوم:… میاں صاحب ایک فوجی افسر کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ: “ان کی مسجد میں ظہر کے بعد ایک کتاب پڑھ کر سنائی جاتی ہے، ایک دن وہاں “ابنِ ماجہ” کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی گئی۔”

یہ کتاب جو ظہر کے بعد پڑھ کر سنائی جارہی تھی، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجرِ مدنی نوّر اللہ مرقدہ کی کتاب “فضائلِ نماز” ہے، اور اس میں یہ “حدیث” صرف ابنِ ماجہ کے حوالے سے نہیں ذکر کی گئی، بلکہ اس کے حوالے کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا نام درج ہے:

۱:… موٴطا امام مالک ۲:… مسندِ احمد ۳:…ابوداوٴد

۴:… نسائی ۵:…ابنِ ماجہ ۶:… صحیح ابنِ خزیمہ

۷:… صحیح ابنِ حبان ۸:… مستدرک حاکم ۹:…بیہقی

۱۰:… ترغیب و ترہیب منذری ۱۱:…درِ منثور

لیکن ان کے فوجی افسر نے بتایا کہ ابنِ ماجہ کے حوالے سے یہ “حدیث” بیان کی گئی اور میاں صاحب نے بغیر تحقیق اس کو اپنے کالم میں گھسیٹ دیا۔ شاید میاں صاحب نے روایتی بڑھیا کی طرح قرآنِ کریم کی درج ذیل آیت کو بھی (نعوذ باللہ) فالتو سمجھا:

“یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْٓا اِنْ جَآئکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا مبِجَھَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ۔”

(الحجرات:۶)

ترجمہ:… “اے ایمان والو! اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے ضرر نہ پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

چنانچہ میاں صاحب نے بغیر تحقیق کے اس خبر پر اعتماد کرلیا اور حدیثِ نبوی کو اپنی ناروا تنقید کے نشانے پر رکھ لیا۔

سوم:… یہ “حدیث” جو میاں صاحب کے فوجی افسر کے بقول ابنِ ماجہ کے حوالے سے پڑھی جارہی تھی، مندرجہ ذیل صحابہ کرام سے مروی ہے:

۱:… حضرت سعد بن ابی وقاص:

موٴطا امام مالک ص:۱۶۱، مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۷۰، صحیح ابنِ خزیمہ ج:۱ ص:۱۶۰، مستدرک حاکم ج:۱ ص:۲۰۰۔

امام حاکم اس کو اپنی سند کے ساتھ نقل کرکے فرماتے ہیں: صحیح الاسناد۔ امام ذہبی تلخیص مستدرک میں فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام نورالدین ہیثمی اس کو مسند امام احمد اور طبرانی کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں: مسندِ احمد کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں۔

۲:… حضرت عبید بن خالد:

مسندِ احمد ج:۳ ص:۵۰۰، ج:۴ ص:۲۱۹، ابوداوٴد ج:۱ ص:۳۴۲، نسائی ج:۱ ص:۲۸۱، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۳ ص:۳۷۱، مصباح السنة ج:۳ ص:۴۴۲، مشکوٰة ص:۴۵۱۔ یہ حدیث بھی صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

۳:… حضرت طلحہ بن عبیداللہ:

مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۶۳، ابنِ ماجہ ص:۲۸۱، سننِ کبریٰ بیہقی ج:۳ ص:۳۷۲، مسندِ ابویعلیٰ ج:۲ ص:۹، صحیح ابنِ حبان ج:۵ ص:۲۷۷، مسندِ بزار (کشف الاستار عن زوائد البزار ج:۴ ص:۲۲۷)۔

امام نورالدین ہیثمی اس حدیث کو مسندِ احمد، مسندِ ابویعلیٰ اور مسندِ بزار کے حوالے سے نقل کرکے فرماتے ہیں: ان تمام کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔

(مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴)

۴:… حضرت ابوہریرہ:

مسندِ احمد ج:۲ ص:۳۳۳۔

امام ہیثمی فرماتے ہیں: باسناد حسن۔ (مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴) اور یہی بات شیخ نے امام منذری سے بھی نقل کی۔

۵:… حضرت عبداللہ بن شداد:

مسندِ احمد ج:۱ ص:۱۶۳، مشکوٰة ص:۴۵۱، مجمع الزوائد ج:۱۰ ص:۲۰۴ (حضرت شیخ نے بھی ان تمام احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے)۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ حدیث متعدّد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے، ائمہٴ حدیث نے اس کی تخریج فرمائی ہے اور اس کے راویوں کی توثیق و تعدیل فرمائی ہے۔ لیکن ہمارے میاں صاحب کے نزدیک شاید حضراتِ محدثین کی جرح و تعدیل اور تصحیح و تحسین بھی ایک فالتو چیز ہے اور وہ اسے روایتی بڑھیا کی طرح کاٹ دینا چاہتے ہیں۔

چہارم:… صحابہ کرام کے دور سے آج تک اہلِ علم اس حدیث کو سنتے سناتے اور پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں، لیکن کسی کے گوشہٴ خیال میں بھی یہ بات نہیں آئی کہ اس سے جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کی نفی ہوتی ہے، البتہ اس حدیث سے نماز کی فضیلت اور طاعت و عبادت کے ساتھ طویل عمر ملنے کی سعادت پر ضرور استدلال کیا گیا، چنانچہ صاحبِ مصابیح السنة اور صاحبِ مشکوٰة نے اس حدیث کو “باب استحباب المال والعمر للطاعة” کے تحت ذکر کیا ہے، امام نورالدین ہیثمی نے اسے ایک بار “نماز کی فضیلت” کے بیان میں اور دُوسری بار “باب فیمن طال عمرہ من المسلمین” کے ذیل میں ذکر کیا ہے، صحیح ابنِ حبان میں یہ حدیث درج ذیل عنوان کے تحت ذکر کی گئی ہے:

“ذکر البیان بأن من طال عمرہ وحسن عملہ قد یفوق الشھید فی سبیل الله تبارک وتعالیٰ۔”

ترجمہ:… “اس اَمر کا بیان کہ جس شخص کی طویل عمر ہو اور عمل اچھا ہو، وہ کبھی شہید فی سبیل اللہ سے بھی فوقیت لے جاتا ہے۔”

الغرض! جہاد فی سبیل اللہ اور شہادت فی سبیل اللہ کے بے شمار فضائل ہیں، لیکن یہ کون نہیں جانتا کہ جہاد فرضِ کفایہ ہے اور نماز فرضِ عین ہے، نماز کے تارک پر کفر کا اطلاق کیا گیا ہے، اور نماز ہی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دین کا ستون ہے، جس نے اس کو قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا، اور جس نے اس کو گرایا اس نے دین کو ڈھادیا۔ چنانچہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد دین کا سب سے بڑا اور سب سے اہم رُکن نماز ہے، نماز کے ان فضائل کو ذکر کرنے سے یہ کیسے لازم آیا کہ جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کو ختم کیا جارہا ہے؟ اور جو شخص نماز ہی نہیں پڑھتا (جیسا کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت کا حال ہے، جن میں فوجی افسر اور جوان بھی شامل ہیں) وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں کیا جہاد کرے گا؟ اور اس کے دِل میں کیا شوقِ شہادت ہوگا؟ لیکن میاں صاحب کے خیال میں شاید جذبہٴ جہاد اور شوقِ شہادت کے مقابلے میں نماز، روزہ اور دین کے دیگر اعمال و شعائر بھی فالتو چیز ہیں۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی چیز کی فضیلت کو شہادت فی سبیل اللہ سے بڑھ کر فرمائیں تو میاں صاحب اس کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں، اب انصاف فرمائیے کہ اسلام کے ساتھی روایتی بڑھیا کا کردار کون ادا کر رہا ہے․․․؟

میاں صاحب سورة الصف کی چوتھی آیت کا ذکر کرتے ہوئے اسے فوجی افسر کے حوالے سے ہمیں بتاتے ہیں کہ:

“وہاں اس آیت کو چھوڑ کر آیت نمبر۱۱ کی تفسیر یوں بیان کی گئی کہ: جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں (جہاد نہیں بلکہ) کوشش کرتے ہیں اپنے اموال سے، اپنی جانوں سے۔

ظاہر ہے کوشش سے مراد تبلیغی دوروں پر جانا ہے۔”

میں پہلے قرآنی آیت کا حوالہ دے چکا ہوں کہ بغیر تحقیق کے سنی سنائی بات پر اعتماد کرکے کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہئے، اور میاں صاحب کے فوجی افسر کی روایت کا حال بھی اُوپر معلوم ہوچکا ہے کہ حضرتِ شیخ ایک حدیث کے لئے ایک درجن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان “فوجی افسر” کا حافظہ صرف “ابنِ ماجہ” کے نام کا بوجھ بمشکل اُٹھاسکا، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بات کیا کہی جارہی ہوگی اور میاں صاحب کے راوی نے اس کو کیا سے کیا سمجھا ہوگا؟

جو بات کہی جارہی ہوگی وہ یہ ہوگی کہ دین کی دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں میں اسلامی شعائر قائم کرنے کی جو محنت بھی ہو اس پر “فی سبیل اللہ” کا اطلاق ہوتا ہے، خود جہاد فی سبیل اللہ بھی اسی محنت کی ایک شکل ہے، چنانچہ سب جانتے ہیں کہ جہاد سے پہلے مسلمانوں کے اَمیرِ لشکر کی طرف سے کافروں کو یہ دعوت دی جاتی ہے:

Y:… تم اسلام قبول کرلو، تمہارے حقوق بھی وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں، اور تمہاری ذمہ داریاں بھی وہی ہوں گی جو ہماری ذمہ داریاں ہیں۔

Y:… اگر تم اسلام لانا نہیں چاہتے تو ہم نے جو اسلام کے قانون کا نظام قائم کر رکھا ہے، اس کے ماتحت رہنے کو قبول کرلو، اور اس کے لئے جزیہ ادا کرو۔

Y:… اگر جزیہ دے کر اسلامی نظام کے ماتحت رہنا بھی قبول نہیں کرتے ہو تو مقابلے کے لئے تیار ہوجاوٴ، تلوار ہمارا اور تمہارا فیصلہ کرے گی۔

اسلامی جہاد کی یہ دفعات ہر طالبِ علم کو معلوم ہیں، جس سے واضح ہے کہ جہاد بھی دعوت الی اللہ اور اعلائے کلمة اللہ کے لئے ہے۔ اس کے بعد دعوت و تبلیغ کے “فی سبیل اللہ” ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ حضراتِ مفسرین نے “فی سبیل اللہ” کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس کو ملاحظہ فرمالیا جائے جس سے معلوم ہوگا کہ علمِ دین حاصل کرنے کے لئے سفر کرنا بھی “فی سبیل اللہ” میں داخل ہے، اور حج و عمرہ بھی “فی سبیل اللہ” میں شامل ہے، اب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ دین کی سربلندی اور احیائے اسلام کے لئے جو کوشش بھی کی جائے وہ “فی سبیل اللہ” میں داخل ہے، اور اس پر وہی اَجر و ثواب مرتب ہوگا جو “فی سبیل اللہ” کے لئے موعود ہے تو اس کی یہ بات کیا بے جا ہے؟

میں میاں صاحب سے یہ پوچھتا ہوں کہ تبلیغی سفروں پر جانا تو آپ کے خیال میں “فی سبیل اللہ” میں داخل نہیں، لیکن “جہاد فی سبیل اللہ” کی وہ تین دفعات جو میں نے ذکر کی ہیں، کیا آپ نے ان کو پورا کرلیا ہے․․․؟

کیا ہمارے فوجی افسران کافروں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ تم بھی ہمارے دین میں داخل ہوکر ہمارے بھائی بن جاوٴ․․․؟

کیا یہ دعوت دی جاتی ہے کہ اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو اسلامی نظام جو ہم نے قائم کر رکھا ہے، جزیہ دے کر اس کی ماتحتی قبول کرلو؟ اور کیا ہمارے ملک میں واقعتا اسلامی نظام نافذ بھی ہے جس کی ماتحتی کی کسی کافر قوم کو دعوت دے جائے․․․؟ جب تک آپ اسلامی نظام نہ قائم کرلیں، اس کی دعوت کیسے دیں گے؟ اور جب تک اس کی دعوت نہ دی جائے، اسلامی جہاد کیسے ہوگا؟ اور اس پر اسلامی جہاد کے فضائل کیسے مرتب ہوں گے؟ کیا میاں صاحب اس معمے کو حل فرمائیں گے․․․؟

اور مسواک کے بارے میں میاں صاحب نے جو گل افشانی فرمائی ہے، اس کا جواب خود ان کی تحریر کے آخر میں موجود ہے کہ:

“دُوسرے دن جوان اچھی طرح مسواک کرکے نہر میں اُترے تو تیسرا ٹینک بھی مل گیا۔”

اگر سنتِ نبوی (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) پر عمل کرنے سے مددِ خداوندی شاملِ حال ہوجائے تو اس پر ذرا بھی تعجب نہیں، اور جب تک مجاہدینِ اسلام سنتِ نبوی کے پابند نہ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت و مدد نہیں ہوسکتی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات اس کے شاہد ہیں، اور خود میاں صاحب نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ بھی اس کی روشن دلیل ہے، لیکن شاید میاں صاحب کے دِل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی کوئی اہمیت نہیں، اس لئے وہ اس صحیح واقعہ کو مذاق میں اُڑانا چاہتے ہیں، اور روایتی بڑھیا کی طرح باز کے پَر کاٹ دینا چاہتے ہیں، حق تعالیٰ شانہ فہمِ سلیم عطا فرمائیں۔

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں پر شبہات کی وضاحت

س… ہمارے ایک دوست جو بڑے فنکار ہیں، وہ اکثر دین کی باتوں پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اکثر و بیشتر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: میں اس بات پر حیران ہوں کہ اتنی شدید مصروفیات جہاد اور تبلیغِ دین کے باوجود ان کے پاس اتنا وقت کیسے تھا کہ وہ اتنی شادیاں کرتے اور عورتوں کے حقوق ادا کرسکتے تھے۔ ان کے تبصرہ کا میں کیا جواب دوں؟ وضاحت فرمائیں، مجھے شدید افسوس ہوتا ہے!

ج… یورپ کے مستشرقین نے اپنے تعصب، نادانی اور جہلِ مرکب کی وجہ سے اسلام کے جن مسائل کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان میں ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعدّدِ ازواج کا مسئلہ بھی ہے، جس پر انہوں نے خاصی زہرچکانی کی ہے۔ ہمارا جدید طبقہ مستشرقین سے مرعوب اور احساسِ کمتری کا شکار ہے، وہ ایسے تمام مسائل میں -جن پر مستشرقین کو اعتراض ہے- ندامت و معذرت کا انداز اختیار کرتا ہے، اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ مغرب کے سامنے سرخرو ہونے کے لئے ان حقائق کا ہی انکار کردیا جائے، چنانچہ وہ عقلی شبہات کے ذریعہ ان حقائق کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ آپ کے دوست کی گفتگو بھی اسی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، وہ بظاہر بڑے معصومانہ انداز میں یہ پوچھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بیویوں کے حقوق کیسے ادا کرتے تھے؟ لیکن سوال کا منشا اصل واقعہ پر اعتراض ہے۔

بہرحال آپ کے دوست اگر چند اصولی باتیں ذہن میں رکھیں تو مجھے توقع ہے کہ ان کے خدشات زائل ہوجائیں گے۔

۱:…سب سے پہلے یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ دین کے مسائل کو خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا موضوع بنانا نہایت ہی خطرناک مرض ہے۔ آدمی کو شدت کے ساتھ ان سے پرہیز کرنا چاہئے، خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی (جو اہل ایمان کا مرجعِ عقیدت ہی نہیں، مدارِ ایمان بھی ہے)، آپ کے بارے میں لب کشائی تو کسی مسلمان کے لئے کسی طرح بھی روا نہیں۔ قرآن کریم میں ان منافقوں کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے جو اپنی نجی محفلوں میں رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو، قرآن کریم کی آیاتِ شریفہ کو طنز و مذاق کا نشانہ بناتے تھے، جب ان سے بازپُرس کی جاتی تو کہہ دیتے: “اجی! ہم تو بس یونہی دل لگی اور خوش طبعی کی باتیں کر رہے تھے۔” ان کے اس “عذرِ گناہ، بدتر از گناہ” کے جواب میں ارشاد ہے: “کیا تم اللہ تعالیٰ سے، اس کی آیات سے اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کرتے تھے؟ بہانہ نہ بناوٴ، تم نے دعویٴ ایمان کے بعد کفر کیا ہے!” (التوبہ: ۶۵، ۶۶)

اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آیاتِ الٰہیہ کو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ عالی کو دل لگی اور خوش طبعی کا موضوع بنانا کتنا خطرناک ہے، جسے قرآن کریم کفر قرار دیتا ہے! اس لئے ہر مسلمان سے، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، میری ملتجیانہ درخواست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل کو اپنے ظریفانہ تبصروں کو موضوع بنانے سے مکمل پرہیز کریں، ایسا نہ ہو کہ غفلت میں کوئی غیرمحتاط لفظ زبان سے نکل جائے اور متاعِ ایمان برباد ہوکر رہ جائے، نعوذ بالله من ذالک!

۲:…ایک بنیادی غلطی یہ ہے کہ بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند و بالا ہستی کو اپنی سطح پر غور و فکر کرتے ہیں اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات اپنی ذہنی سطح سے اونچی دیکھتے ہیں تو ان کا ذہن اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے اور جن کمالات و خصوصیات سے آپ کو نوازا ہے وہ ہمارے فہم و ادراک کی حد سے ماورا ہے، وہاں تک کسی جن و ملک کی رسائی ہے، نہ کسی نبیٴ مرسل کی، جہاں جبریل امین کے پَر جلتے ہوں وہاں ما و شما کی عقلی تگ و دو کی کیا مجال ہے! آپ کے دوست بھی اسی بنیادی غلطی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات سے ناپتے تو انہیں کوئی حیرت نہ ہوتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود اتنی بیویوں کے حقوق کیسے ادا فرماتے تھے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا اپنے اندر اعجاز کا پہلو رکھتی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے قلیل عرصے میں بتوفیق خداوندی انسانی زندگیوں میں جو انقلاب برپا کیا اور امت کو روحانی و مادّی کمالات کی جس اوجِ ثریا پر پہنچادیا، کیا ساری امت مل کر بھی اس کارنامہ کو انجام دے سکتی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی بات ایسی ہے جو اپنے اندر حیرت انگیز اعجاز نہیں رکھتی، ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ میں: “آپ کا کون سا معاملہ عجیب نہیں تھا!”

۳:…آپ کے دوست کو یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ محض عقلی احتمالات یا حیرت و تعجب کے اظہار سے کسی حقیقت، واقعہ کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً: ایک شخص سر کی آنکھوں سے سورج نکلا ہوا دیکھ رہا ہے، اس کے برعکس ایک “حافظ جی” محض عقلی احتمالات کے ذریعہ اس کھلی حقیقت کا انکار اور اس پر حیرت و تعجب کر رہا ہے۔ اہل عقل اس “حافظ جی” کی عقل و فہم کی داد نہیں دیں گے بلکہ اسے اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ ضدی اور ہٹ دھرم بھی قرار دیں گے۔ ٹھیک اسی طرح سمجھئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ازواجِ مطہرات کے حقوق نہایت عدل و انصاف کے ساتھ ادا کرنا ایک حقیقتِ واقعیہ ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا سے تشریف لے گئے اس وقت آپ کے یہاں نو بیویاں تھیں، ان میں آٹھ کے یہاں باری باری شب باشی فرماتے تھے (حضرت سودہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دے رکھی تھی، اس لئے ان کے یہاں شب باشی نہیں فرماتے تھے)۔ (صحیح بخاری و مسلم، مشکوٰة ص:۲۷۹)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عدل و انصاف کے ساتھ ازواج کے حقوق ادا فرماتے تھے اور پھر یہ دعا کرتے تھے: “یا اللہ! جو بات میرے اختیار میں ہے اس میں تو پورا عدل و انصاف سے برتاوٴ کرتا ہوں، اور جو چیز آپ کے اختیار میں ہے، میرے اختیار میں نہیں (یعنی کسی بی بی کی طرف دل کا زیادہ میلان) اس میں مجھے ملامت نہ کیجئے!” (ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، مشکوٰة ص:۲۷۹)۔ اس قسم کی بہت سی احادیث صحابہ کرام اور خود امہات الموٴمنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہیں، گویا یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ازواجِ مطہرات کے حقوق ادا فرماتے تھے بلکہ اس میں آپ نے عدل و انصاف کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرکے دکھایا، خود ارشاد فرماتے تھے:

“تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لئے تم سب سے بہتر ہوں!”

(ترمذی، دارمی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۸۱)

اب اس ثابت شدہ حقیقت پر حیرت و تعجب کا اظہار کرنا اور اس سے انکار کی کوشش کرنا اس پر وہی “حافظ جی” کی مثال صادق آتی ہے جو آنکھیں بند کرکے محض عقلی احتمالات کے ذریعہ طلوعِ آفتاب کی نفی کی کوشش کر رہا ہے۔

۴:…اور اگر آپ کے دوست کو اس بات کا شبہ ہے کہ امت کے لئے چار تک شادیوں کی اجازت ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چار سے زائد شادیاں کیسے جائز تھیں؟ تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سے خصوصی احکام دئیے تھے، جن کو اہل علم کی اصطلاح میں “خصائصِ نبوی” کہا جاتا ہے۔ حافظ سیوطی نے “الخصائص الکبریٰ” میں، حافظ ابونعیم نے “دلائل النبوة” میں اور علامہ قسطلانی نے “مواہب لدنیہ” میں ان “خصائص” کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کردیا ہے۔ نکاح کے معاملے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد خصوصیات تھیں جن کو سورہٴ احزاب کے چھٹے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، ان میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ کے لئے چار سے زائد شادیوں کی اجازت تھی۔

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے پدری و مادری خاندان کی خواتین میں سے صرف اس سے نکاح کرنا جائز تھا جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کی ہو، آپ کے خاندان کی جن عورتوں نے ہجرت نہیں کی تھی ان سے آپ کا نکاح جائز نہیں تھا۔ ایک خصوصیت یہ تھی کہ اگر کوئی خاتون مہر کے بغیر آپ کے عقد میں آنے کی پیشکش کرے اور آپ اس کو قبول فرمالیں تو بغیر مہر کے آپ کا عقد صحیح تھا، جبکہ امت کے لئے نکاح میں مہر کا ہونا ضروری ہے، اگر زوجین نے یہ شرط کرلی ہو کہ مہر نہیں ہوگا تب بھی “مہرِ مثل” لازم آئے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ بیویوں کے درمیان برابری کرنا آپ کے ذمہ ضروری نہیں تھا (اس کے باوجود آپ ازواجِ مطہرات کے درمیان برابری اور عدل و انصاف کی پوری رعایت فرماتے تھے، جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں)، جبکہ امت کے وہ افراد جن کے عقد میں دو یا زیادہ بیویاں ہوں ان کے ذمہ بیویوں کے درمیان برابری رکھنا فرض ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ:

“جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان کے درمیان عدل اور برابری نہ کرے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔”

(ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، مشکوٰة ص:۲۷۹)

الغرض! نکاح کے معاملے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سے خصوصیات تھیں، اور بیک وقت چار سے زائد بیویوں کا جمع کرنا بھی آپ کی انہی خصوصیات میں شامل ہے، جس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے۔

حافظ سیوطی “خصائصِ کبریٰ” میں لکھتے ہیں کہ: شریعت میں غلام کو صرف دو شادیوں کی اجازت ہے، اور اس کے مقابلے میں آزاد آدمی کو چار شادیوں کی اجازت ہے، جب آزاد کو بمقابلہ غلام کے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے، تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عام افرادِ اُمت سے زیادہ شادیوں کی کیوں اجازت نہ ہوتی؟

متعدد انبیاء کرام علیہم السلام ایسے ہوئے ہیں جن کی چار سے زیادہ شادیاں تھیں، چنانچہ حضرت داوٴد علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی سو بیویاں تھیں، اور صحیح بخاری (ج:۱ ص:۳۹۵) میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سو یا ننانوے بیویاں تھیں۔ بعض روایات میں کم و بیش تعداد آئی ہے۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق کی ہے اور وہب بن منبہ کا قول نقل کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے یہاں تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں۔

(فتح الباری ج:۶ ص:۲۶۰)

بائبل میں اس کے برعکس ذکر کیا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں (۱۔ سلاطین، ۱۱۔۳) ظاہر ہے کہ یہ حضرات ان تمام بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہوں گے، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نو ازواجِ مطہرات کے حقوق ادا کرنا ذرا بھی محل تعجب نہیں!

۵:…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کے بارے میں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس جنتی مردوں کی طاقت عطا کی گئی تھی، اور ہر جنتی کو سو آدمیوں کی طاقت عطا کی جائے گی۔ اس حساب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں چار ہزار مردوں کی طاقت تھی۔ (فتح الباری ج:۱ ص:۳۷۸)

جب امت کے ہر مریل سے مریل آدمی کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جن میں چار ہزار مردوں کی طاقت ودیعت کی گئی تھی کم از کم سولہ ہزار شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے تھی․․․!

۶:…اس مسئلہ پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے، ایک داعی اپنی دعوت مردوں کے حلقے میں بلاتکلف پھیلاسکتا ہے، لیکن خواتین کے حلقے میں براہ راست دعوت نہیں پھیلاسکتا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا یہ انتظام فرمایا کہ ہر شخص کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے، جو جدید اصطلاح میں اس کی “پرائیویٹ سیکریٹری” کا کام دے سکیں اور خواتین کے حلقے میں اس کی دعوت کو پھیلاسکیں۔ جب ایک امتی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے یہ انتظام فرمایا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، جو قیامت تک تمام انسانیت کے نبی اور ہادی و مرشد تھے، قیامت تک پوری انسانیت کی سعادت جن کے قدموں سے وابستہ کردی گئی تھی، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت و رحمت سے امت کی خواتین کی اصلاح و تربیت کے لئے خصوصی انتظام فرمایا ہو تو اس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ حکمت و ہدایت کا یہی تقاضا تھا۔

۷:…اسی کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی کتابِ ہدایت تھی، آپ کی جلوت کے افعال و اقوال کو نقل کرنے والے تو ہزاروں صحابہ کرام موجود تھے، لیکن آپ کی خلوت و تنہائی کے حالات امہات الموٴمنین کے سوا اور کون نقل کرسکتا تھا؟ حق تعالیٰ شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان خفی اور پوشیدہ گوشوں کو نقل کرنے کے لئے متعدد ازواجِ مطہرات کا انتظام فرمادیا، جن کی بدولت سیرتِ طیبہ کے خفی سے خفی گوشے بھی امت کے سامنے آگئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب بن گئی جس کو ہر شخص، ہر وقت ملاحظہ کرسکتا ہے۔

۸:…اگر غور کیا جائے تو کثرتِ ازواج اس لحاظ سے بھی معجزہٴ نبوت ہے کہ مختلف مزاج اور مختلف قبائل کی متعدد خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی سے نجی زندگی کا شب و روز مشاہدہ کرتی ہیں، اور وہ بیک زبان آپ کے تقدس و طہارت، آپ کی خشیت و تقویٰ، آپ کے خلوص و للہیت اور آپ کے پیغمبرانی اخلاق و اعمال کی شہادت دیتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی میں کوئی معمولی سا جھول اور کوئی ذرا سی بھی کجی ہوتی تو اتنی کثیر تعداد ازواجِ مطہرات کی موجودگی میں وہ کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی کی پاکیزگی کی یہ ایسی شہادت ہے جو بجائے خود دلیلِ صداقت اور معجزہٴ نبوت ہے۔ یہاں بطورِ نمونہ ام الموٴمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں جس سے نجی زندگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس و طہارت اور پاکیزگی کا کچھ اندازہ ہوسکے گا۔ وہ فرماتی ہیں: “میں نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ستر نہیں دیکھا، اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میرا ستر دیکھا۔” کیا دنیا میں کوئی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ شہادت دے سکتی ہے کہ مدة العمر انہوں نے ایک دوسرے کا ستر نہیں دیکھا؟ اور کیا اس اعلیٰ ترین اخلاق اور شرم و حیا کا نبی کی ذات کے سوا کوئی نمونہ مل سکتا ہے؟ غور کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی کے ان “خفی محاسن” کو ازواجِ مطہرات کے سوا کون نقل کرسکتا تھا․․․؟

صحیح بخاری پر عدم اعتماد کی تحریک

س… مسئلہ یہ ہے کہ صحیح بخاری کی روایات و اسناد پر عدم اعتماد کی تحریک چل رہی ہے، اس تحریک کے پسِ پردہ جو لوگ ہیں اس کی تفصیل و فہرست خاصی طویل ہے، بہرحال نمونے کے طور پر صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ ادارہ فکرِ اسلامی کے جنرل سیکریٹری جناب طاہر المکی صاحب، جناب عمر احمد عثمانی صاحب کی کتاب “رجم اصل حد ہے یا تعزیر” کے تعارفی نوٹس میں لکھتے ہیں:

“اہلِ حدیث حضرات کے علاوہ دُوسرے اسلامی فکر خصوصاً احناف کا امام بخاری کی تحقیقات کے متعلق جو نقطہٴ نظر رہا ہے وہ مولانا عبدالرشید نعمانی مدرّس جامعہ بنوری ٹاوٴن، علامہ زاہدالکوثری مصری اور انور شاہ کشمیری کی کتابوں سے ظاہر ہے۔

مولانا عبدالرشید نعمانی کی تحقیقات سے صرف ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

“کیا دو تہائی بخاری غلط ہے”

ترجمہ:… علامہ مقبلی اپنی کتاب الأرواح النوافخ میں لکھتے ہیں:

ایک نہایت دین دار اور باصلاحیت شخص نے مجھ سے عراقی کی “الفیہ” (جو اُصولِ حدیث میں ہے) پڑھی اور ہمارے درمیان صحیحین کے مقام و مرتبہ خصوصاً بخاری کی روایات کے متعلق بھی گفتگو ہوئی ․․․․․ تو ان صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور آپ سے دریافت کیا کہ اس کتاب یعنی خصوصاً بخاری کی کتاب کے متعلق حقیقتِ اَمر کیا ہے؟

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو تہائی غلط ہے۔

خواب دیکھنے والا کا گمان غالب ہے کہ یہ ارشادِ نبوی بخاری کے راویوں کے متعلق ہے، یعنی ان میں دو تہائی راوی غیرعادل ہیں کیونکہ بیداری میں ہمارا موضوعِ بحث بخاری کے راوی ہی تھے، واللہ اعلم۔”

(دیکھئے: مقبلی کی کتاب الارواح النوافخ ص:۶۸۹، ۶۹۰)

اس اچھوتی اور نادر روزگار دلیل پر طاہر المکی صاحب لکھتے ہیں:

“یہ ہے بخاری کے فنی طور پر سب سے زیادہ صحیح ہونے کی حقیقت، اس کو ایڈٹ کرنے میں مولانا عبدالرشید نعمانی کے ساتھ جامعہ بنوری ٹاوٴن کے مفتی ولی حسن بھی شریک رہے ہیں جیسا کہ اپنی حواشی کے آخر میں نعمانی صاحب نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا ہے، عبدالرشید صاحب فرماتے ہیں:

جب بخاری کے دو تہائی راوی غیرعادل ہیں تو ان کی روایات کی کیا حیثیت جو یقینا بخاری کی دو تہائی روایات سے زیادہ بنتی ہیں، کیونکہ بہت سے راوی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ کئی کئی روایتیں بیان کرتے ہیں۔”

(بحوالہ رجم اصل حد ہے یا تعزیر ص:۳۹)

محترمی! اب آپ مجھے بتائیں کہ کیا مذکورہ حوالے سے جو کچھ بیان کیا گیا ہے، آیا وہ صحیح ہے یا غلط؟ اگر آپ کے نزدیک صحیح ہے تو کیا میں صحیح بخاری کے نسخے ضائع کردُوں؟ اور کیا مدارس کی انتظامیہ کو بذریعہ اخبار ترغیب دُوں کہ وہ اپنے مدارس کے نصاب سے صحیح بخاری کو خارج کردیں؟ مجھے اُمید ہے کہ میری اس اُلجھن کو دُور فرماکر عنداللہ مأجور ہوں گے۔

ج… درج بالا خط ملنے پر اس ناکارہ نے حضرت نعمانی مدظلہ العالی کی خدمت میں عریضہ لکھا، جو درج ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

“حضرت مخدوم و معظم! مدت فیوضہم وبرکاتہم، السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔

ایک صاحب نے طاہر المکی کے حوالے سے آنجناب کی ایک عبارت نقل کرکے تیز و تند سوال کیا ہے۔ یہ اس شخص کا چوتھا خط ہے، میں نے مناسب سمجھا کہ “توجیہ القول بما لا یرضٰی بہ قائلہ” کے بجائے آنجناب ہی سے اس سلسلے میں مشورہ کرلیا جائے۔ مختصر سا اشارہ فرمادیا جائے کہ طاہر مکی کی نقل کہاں تک صحیح ہے؟ اور ان صاحب کے اخذ کردہ نتیجے سے کہاں تک اتفاق کیا جاسکتا ہے؟ چونکہ مجھے ہفتہ کے دن سفر پر جانا ہے اس لئے میں اس خط کا جواب کل ہی نمٹاکر جانا چاہتا ہوں۔ دعواتِ صالحہ کی اِلتجا ہے، والسلام

خویدکم محمد یوسف عفا اللہ عنہ۔”

حضرتِ موصوف مدظلہ العالی نے درج ذیل جواب تحریر فرمایا:

“محترمی! وفقنی الله وایاکم لما یحب ویرضٰی!

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاتہ۔

اس وقت درس گاہ میں “الأرواح النوافخ” موجود نہیں، “دراسات اللبیب” معین سندھی کی تعلیقات میں عرصہ ہوا جب تلقی صحیحین کی بحث میں آپس کے اختلاف میں لکھا تھا کہ تلقی کا مسئلہ اختلافی ہے، اختلافی احادیث میں اجماع کا دعویٰ صحیح نہیں، اس پر بحث کرتے ہوئے کہیں اس خواب کا بھی ذکر آگیا تھا۔ “الارواح” کے مصنف علامہ مقبلی پہلے زیدی تھے پھر مطالعہ کرکے سنی ہوگئے تھے اور عام یمنیوں کی طرح جیسے امیر یمانی، وزیر یمانی، قاضی شوکانی وغیرہ ہیں غیرمقلد ہوگئے تھے، انہوں نے تلقی رواة کے سلسلے میں اس خواب کا ذکر کیا تھا، خواب کی جو حیثیت ہے ظاہر ہے، رواة کی تعدیل و تجریح میں اختلاف شروع سے چلا آتا ہے، جیسے مذاہبِ اربعہ میں اختلاف ہے، اس سے نہ کسی چیز کا بطلان لازم آتا ہے، نہ کسی مختلف چیز پر اجماع۔ یہ ہے اصل حقیقت تلقی امت کی بحث کی کہ نہ متون کی ساری امت کو تلقی ہے نہ رواة پر، جیسے تمام اختلافی مسائل کا حال ہے۔

قرآنِ کریم کا ثبوت قطعی ہے، لیکن اس کی تعبیر و تفسیر میں اختلاف ہے، پھر کیا اس اختلاف کی بنا پر قرآنِ کریم کو ترک کردیا جائے گا؟ یہی حال متونِ صحیحین و رُواةِ صحیحین کا ہے کہ نہ ان کا متن اُمت کے لئے واجب العمل ہے اور نہ ہر راوی بالاجماع قابلِ قبول ہے۔ اب منکرینِ حدیث اس سلسلے میں جو چاہیں رَوِش اختیار کریں۔ قرآنِ کریم کی تعبیر و تفسیر میں اختلاف تھا، اور رہے گا۔ روایات کے قبول، عدمِ قبول میں مجتہدین کا اختلاف تھا، اور رہے گا، فمن شاء فلیوٴمن ومن شاء فلیکفر۔

والسلام

محمد عبدالرشید نعمانی

۲۵/۲/۱۴۱۵ھ”

بسم الله الرحمن الرحیم

مکرّم و محترم! زید لطفہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

آپ کے گرامی نامے کے جواب پر چند اُمور مختصراً لکھتا ہوں، فرصت نہیں، ورنہ اس پر پورا مقالہ لکھتا۔

۱:… آپ کی اس تحریک کی بنیاد طاہر المکی صاحب کی اس تحریر پر ہے جس کا حوالہ آپ نے خط میں نقل کیا ہے، اور آپ نے اس تحریر پر اس قدر اعتماد کیا کہ اس کی بنیاد پر مجھ سے دریافت فرماتے ہیں کہ:

“مذکورہ حوالے سے جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط؟ اگر آپ کے (یعنی راقم الحروف کے) نزدیک بھی صحیح ہے تو کیا میں صحیح بخاری کے نسخے ضائع کردُوں؟ اور کیا مدارس کی انتظامیہ کو بذریعہ اخبار ترغیب دُوں کہ وہ اپنے مدارس کے نصاب سے صحیح بخاری کو خارج کردیں؟”

طاہر المکی صاحب کی تحریر پر اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان صاحب کا تعلق کہیں منکرینِ حدیث کے طائفے سے تو نہیں؟ اور یہ کہ کیا یہ صاحب اس نتیجے کے اخذ کرنے میں تلبیس و تدلیس سے تو کام نہیں لے رہے؟

طاہر المکی کا تعلق جس طبقے سے ہے، تلبیس و تدلیس اس طبقے کا شعار ہے، اور سنا گیا ہے کہ طاہر المکی کے نام میں بھی تلبیس ہے، اس کے والد میانجی عبدالرحیم مرحوم “مکی مسجد کراچی” میں مکتب کے بچوں کو پڑھاتے تھے، وہیں ان کی رہائش گاہ تھی، اسی دوران یہ صاحب پیدا ہوئے اور “مکی مسجد” کی طرف نسبت سے علامہ طاہر المکی بن گئے، سننے والے سمجھتے ہوں گے کہ حضرت “مکہ” سے تشریف لائے ہیں۔

۲:… مولانا عبدالرشید نعمانی مدظلہ العالی کے حوالے سے اس نے قطعاً غلط اور گمراہ کن نتیجہ اخذ کیا ہے، جیسا کہ مولانا مدظلہ العالی کے خط سے ظاہر ہے، اوّل تو مقبلی زیدی اور پھر غیرمقلد تھا، پھر اس کا حوالہ خواب کا ہے، اور سب جانتے ہیں کہ خواب دینی مسائل میں حجت نہیں۔ پھر مولانا نے یہ حوالہ یہ ظاہر کرنے کے لئے نقل کیا ہے کہ رُواةِ بخاری کے بارے میں بعض لوگوں کی یہ رائے ہے۔ مولانا عبدالرشید نعمانی مدظلہ العالی ایک دینی مدرسہ کے شیخ الحدیث ہیں، اگر ان کی وہ رائے ہوتی جو آپ نے طاہر المکی کی تلبیسانہ عبارت سے سمجھی ہے تو وہ آپ کی تحریک “عدم اعتماد” کے علم بردار ہوتے، نہ کہ صحیح بخاری پڑھانے والے شیخ الحدیث۔

۳:… طاہر المکی نے امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری کو بلاوجہ گھسیٹا ہے، حضرت نے بیس برس سے زیادہ صحیح بخاری کا درس دیا، اور تدریسِ بخاری شروع کرنے سے پہلے ۱۳ مرتبہ صحیح بخاری شریف کا بغور و تدبر مطالعہ فرمایا اور اس کی تمام شروح کا بغور و تدبر مطالعہ فرمایا، صحیح بخاری کی دو بڑی شرحیں “فتح الباری” اور “عمدة القاری” تو حضرت کو ایسے حفظ تھیں جیسے گویا سامنے کھلی رکھی ہوں۔

(مقدمہ فیض الباری ص:۳۱)

حضرت شاہ صاحب نہ صرف یہ کہ صحیح بخاری کو “أصح الکتب بعد کتاب الله” سمجھتے ہیں بلکہ صحیحین کی احادیث کی قطعیت کے قائل ہیں، چنانچہ “فیض الباری” میں فرماتے ہیں:

“صحیح کی احادیث قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے، جمہور کا قول ہے کہ قطعیت کا فائدہ نہیں دیتیں، لیکن حافظ رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے کہ قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں۔ شمس الائمہ سرخسی حنفیہ میں سے، حنابلہ میں سے حافظ ابنِ تیمیہ اور شیخ ابنِ صلاح بھی اسی طرف مائل ہیں۔ ان حضرات کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر ان کی رائے ہی صحیح رائے ہے، شاعر کا یہ قول ضرب المثل ہے:

میری بیوی مجھے عار دِلاتی ہے ہماری تعداد کم ہے، میں نے اس سے کہا کہ کریم لوگ کم ہی ہوا کرتے ہیں۔”

(فیض الباری ص:۴۵)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی “حجة اللہ البالغہ” میں لکھتے ہیں:

“محدثین کا اتفاق ہے کہ صحیحین میں جتنی حدیثیں متصل مرفوع ہیں، صحیح ہیں، اور یہ دونوں اپنے مصنّفین تک متواتر ہیں، اور جو شخص ان دونوں کی توہین کرتا ہے وہ متبدع ہے اور مسلمانوں کے راستے سے منحرف ہے۔”

۴:… کسی حدیث کا صحیح ہونا اور چیز ہے، اور اس کا واجب العمل ہونا دُوسری چیز ہے، اس لئے کسی حدیث کے صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ واجب العمل بھی ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ منسوخ ہو، یا مقید ہو، یا موٴوّل ہو، اس کے لئے ایک عامی کا علم کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے ہم ائمہٴ اجتہاد رحمہم اللہ کی اتباع کے محتاج ہیں۔ قرآنِ کریم کا قطعی ہونا تو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن قرآنِ کریم کی بعض آیات بھی منسوخ و موٴوّل یا مقید بالشرائط ہیں، صرف انہی اجمالی اشارات پر اکتفا کرتا ہوں، تفصیل و تشریح کی گنجائش نہیں، والله اعلم!

حقانی صاحب کی حج تجاویز

س… بتاریخ ۱۶/جون ۱۹۹۳ء کالم نویس جناب ارشاد احمد حقانی صاحب نے حالیہ نگران حکومت کے زیرِ انتظام حجِ بیت اللہ سے واپسی پر “حج کے انتظامات، بعض توجہ طلب پہلو” کے عنوان سے جن خیالات کا اظہار اخبار “جنگ” کراچی میں کیا ہے، اس کو پڑھ کر سخت تکلیف ہوئی اور طرح طرح کے خیالات کے اظہار سے ایسا محسوس ہوا کہ وہ منیٰ کی ساری غلاظت کو اپنے ساتھ کراچی لے آئے ہیں۔ جس شہر میں ہر راستے پر، ہر زمانے میں اور خصوصاً سخت گرمی کے زمانے میں جو گٹر بہہ رہا ہے اور حتیٰ کہ ہمارے مکان کے دروازے پر پڑوس کے گٹر کا سیاہ سیلاب سارے راستے پر پھیلا ہوا ہے اس کی طرف کسی کی نظر نہیں، جہاں مستقلاً لوگ رہائش پذیر ہیں اور سارے شہر میں گٹر کے ناپاک پانی نے طہارت اور صفائی کو مستقل عذاب اور خطرہ میں ڈال دیا ہے، اس کی اصلاح کے لئے زورِ قلم اور حکومت اور عمال کی توجہ مبذول نہ کراکر مفت کی مہمانی کا حق اس ذہنیت سے ادا کر رہے ہیں جو پاکستان کی بدنامی کا باعث ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ فقہی مسائل میں بھی اپنی قابلیت کا جس طرح اظہار کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت کی معلومات کی داد دینے والا سارے عالمِ اسلام میں کوئی نہیں۔

میں، آپ جیسے مُسلَّم بزرگ اور مفتیٴ وقت سے اس سلسلے میں رُجوع کرنا ایک اسلامی فریضہ سمجھ کر یہ خط لکھ رہا ہوں کہ برائے کرم جناب ارشاد احمد حقانی صاحب کے اظہارِ خیال کی روشنی میں جو انہوں نے “طوافِ زیارت” کے سلسلے میں تحریر فرمایا ہے، اس کی اسلامی اور فقہی حیثیت کیا ہے؟ جیسا کہ ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ:

“بعض فقہاء کے نزدیک اس بات کی اجازت موجود ہے کہ “طوافِ زیارت” عرفات جانے سے پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ میرے بہت سے قارئین کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہوگی، لیکن یہ اجازت موجود ہے۔ مگر اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے اور اس پر عمل بھی شاذ ہی کیا جاتا ہے۔” (کیا یہی صحیح ہے؟)

“اگر کمزور اور ضعیف حجاج اور خواتین کو اس کی اطلاع دی جائے اور انہیں طوافِ زیارت عرفات جانے سے پہلے ادا کرنے کی ترغیب دی جائے تو دو چار لاکھ حاجی تو ایسا کرسکتے ہیں، جس سے بعد از عرفات کے دنوں میں رش کم کیا جاسکتا ہے۔”

“ویسے میں اس بات کا بھی حامی اور قائل ہوں کہ عرفات سے واپسی پر کئے جانے والے طوافِ زیارت کے وقت میں بھی توسیع کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور جید علماء اس مسئلے پر غور کریں۔”

“حرم شریف کی غیرمعمولی توسیع کے باوجود بیس پچّیس لاکھ افراد کا تین روز میں طوافِ زیارت مکمل کرنا شدید اژدہام پیدا کئے بغیر نہیں رہ سکتا، جس سے ضعیف مردوں اور عورتوں کا تو کجا مضبوط اور جوان حاجیوں کا عہد برآ ہونا آسان نہیں۔”

“طوافِ زیارت کو آسان کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔”

اس کے بعد حقانی صاحب نے منیٰ اور عرفات کے سلسلے میں عام حجاج کی سہولت کے حوالے سے جس طرح جو کچھ لکھا ہے اس سے ہم جیسے مسلمان دین دار حاجیوں کو قطعی اتفاق نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے علم و قلم مسلمان کو اس لئے عطا نہیں کیا کہ وہ اپنے کو ساری مخلوق سے بالاتر اور اپنی محدود عقل کو سب سے افضل و برتر سمجھے اور ان خیالات کا ہر موقع پر اظہارِ خیال کرے۔ سعودی حکومت تو ٹھنڈے پانی کا تھیلا مفت میں حجاجِ کرام کے لئے منیٰ اور عرفات میں مسلسل تقسیم کیا کرتی ہے، اور روز بروز ہر طرح کی سہولت فراہم کر رہی ہے، اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

منیٰ میں میرا بھی قیام تھا، مگر میں نے وہ تعفن اور گندگی نہیں دیکھی جو حقانی صاحب کو نظر آئی، اگر کسی کا قیام بدقسمتی سے کوڑاکرکٹ اور گٹر کے پاس ہو تو پھر بھی اس کا اظہار عوامی انداز سے ہونا چاہئے، یہ اخبار والوں کو بھی لازم ہے کہ ایسے جذباتی برانگیختی کے مضامین کو اخبار میں جگہ نہ دیں، جو اخبار کے رویہ کو متنازع بنادے اور نفرت و فساد کو جنم دے۔ بہرکیف! اس مسئلے پر علماء اور حجاجِ کرام کو اپنے مُسلَّمہ واضح خیالات کا اظہار کرنا لازم ہے۔

ج… جناب حقانی صاحب کا کالم میں نے آپ کا خط موصول ہونے کے بعد اخبار منگواکر پڑھا، موصوف نے اپنے مضمون (۱۶/جون ۱۹۹۳ء) کی قسط میں چند مسائلِ شرعیہ پر اظہارِ خیال فرماتے ہوئے ان میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ہے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

پہلا مسئلہ

جناب حقانی صاحب رقم طراز ہیں:

“سعودی وزارتِ اطلاعات کے حکام نے عقلمندی کی، ہمیں مزدلفہ سے رات کے گیارہ بجے ہی بسوں پر سوار کرادیا اور سیدھے جمرة العقبیٰ پر لے گئے، اس وقت وہاں کوئی ہجوم نہیں تھا اور ہم سب نے سات سات کنکریاں ماریں۔”

موصوف کی اس تحریر سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ رات ڈھلنے سے پہلے ہی گیارہ بجے مزدلفہ سے چل کھڑے ہوئے اور آدھی رات سے پہلے پہلے وہ جمرة العقبہ کی رَمی سے بھی فارغ ہوچکے تھے۔ اگر میں نے ان کی اس عبارت کا مفہوم صحیح سمجھا ہے تو سعودی حکام کی عقلمندی نے ان سے مناسکِ حج کی ادائیگی میں دو سنگین غلطیاں کرادیں۔ ایک یہ کہ مزدلفہ پر وقوف کرنا حج کے واجبات میں سے ہے، اس کے فوت ہوجانے پر دَم لازم آتا ہے اور اسے قصداً چھوڑ دینا حرام ہے۔

وقوفِ مزدلفہ کا وقت حنفیہ کے نزدیک یوم النحر (ذوالحجہ کی دسویں تاریخ) کی صبحِ صادق سے شروع ہوتا ہے، شافعیہ و حنابلہ کے نزدیک نصف شب کے بعد ہے، البتہ مالکیہ کے نزدیک رات کے کسی حصے پر وہاں ٹھہرنا واجب ہے، چونکہ حقانی صاحب اور ان کے رفقاء رات کے گیارہ بجے ہی مزدلفہ سے چل پڑے، اس لئے حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے قول کے مطابق ان کا وقوفِ مزدلفہ فوت ہوگیا، جس کی وجہ سے ان پر دَم بھی واجب ہوا اور گناہ بھی لازم آیا۔

دُوسری غلطی یہ کہ یوم النحر کو جمرة العقبہ کی رَمی کا وقت شافعیہ و حنابلہ کے نزدیک آدھی رات کے بعد سے شروع ہوتا ہے اور حنفیہ و مالکیہ کے نزدیک صبحِ صادق کے بعد سے۔ اب اگر حقانی صاحب صبحِ صادق سے پہلے جمرة العقبہ کی رَمی سے فارغ ہوچکے تھے تب تو حنفیہ و مالکیہ کے نزدیک ترکِ واجب کی وجہ سے ان پر دَم لازم آیا اور اگر نصف شب سے پہلے ہی رَمی کرلی تھی تو تمام ائمہ کے نزدیک ان پر دَم لازم ہوا۔

دُوسرا مسئلہ

حقانی صاحب سفارش کرتے ہیں:

“اس ضمن میں کمزور حجاج بالخصوص خواتین کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ وہ اپنا وکیل مقرّر کرکے رَمیٴ جمرات کا فرض ادا کریں۔”

اس ضمن میں یہ وضاحت کافی ہے کہ شریعت نے رَمیٴ جمرات کا وقت بہت وسیع رکھا ہے، مثلاً: پہلے دن یوم النحر کو صرف جمرة العقبہ کی رَمی کرنی ہے، مگر اس کا وقت پورے آٹھ پہر (چوبیس گھنٹے) تک پھیلا ہوا ہے، کیونکہ یہ وقت یوم النحر کی صبحِ صادق سے شروع ہوکر گیارہویں تاریخ کی صبحِ صادق تک ہے۔ اور رات کے وقت خصوصاً بارہ بجے کے بعد جمرات پر کوئی ہجوم نہیں ہوتا، اس لئے کمزور مرد اور خواتین رات کو اطمینان سے رَمی کرسکتے ہیں۔ اور رَمیٴ جمرات کے لئے کسی کو وکیل بنانا صرف اس صورت میں صحیح ہے کہ کوئی دن میں یا رات میں خود چل کر جمرات تک پہنچنے اور رَمی کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اس لئے حقانی صاحب کی یہ سفارش کہ معذور اور غیرمعذور مرد اور خواتین کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کہ بغیر عذرِ شرعی کے وہ کسی کو اپنا وکیل مقرّر کردیں، قطعاً لائقِ التفات نہیں۔

حقانی صاحب کا اپنے اجتہاد پر عمل

حقانی صاحب خود معذور نہیں تھے، لیکن انہوں نے پہلے دن کی رَمی تو وقت سے پہلے کرلی اور باقی دنوں کی رَمی کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

“بقیہ دو دنوں کے لئے میں نے تو اپنے نوجوان ساتھیوں کو وکیل مقرّر کیا اور انہی کے ذریعہ اپنے حصے کے پتھر مروائے۔”

حالانکہ منیٰ کے دنوں میں حاجی کو رَمیٴ جمرات کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا۔

اب اس کو تساہل پسندی کے سوا کیا کہا جائے کہ بغیر کسی عذرِ شرعی کے موصوف نے رَمی کے لئے نوجوان ساتھیوں کو وکیل مقرّر کردیا اور انہی کے ذریعہ رَمی کروالی۔ ظاہر ہے کہ شرعاً ان کا وکیل مقرّر کرنا دُرست نہ تھا، اور وہ ترکِ واجب کے مرتکب ہوئے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انہیں اس ترکِ واجب پر افسوس بھی نہیں بلکہ وہ اس ضمن میں فقہائے اُمت کی “اصلاح” کے درپے ہیں، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

“فقہاء نے رَمیٴ جمرات کے حوالے سے بعض ایسے اَحکام اور شرائط مقرّر کر رکھی ہیں غالباً جن میں قدرے اجتہاد کی گنجائش ہے۔”

حضراتِ فقہائے اُمت نے رَمیٴ جمرات کے بارے میں جو اَحکام و شرائط مقرّر کی ہیں وہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہٴ حسنہ سے مستنبط ہیں، تمام فقہائے اُمت کے اجماعی فیصلوں کو نظرانداز کرکے نئی راہ اختیار کرنے کا نام “اجتہاد” نہیں بلکہ خواہشِ نفس کی پیروی ہے۔

تیسرا مسئلہ

تیسرا مسئلہ جس میں موصوف نے “اجتہاد” کی ضرورت پر زور دیا ہے وہ ہے وقوفِ عرفات سے پہلے طوافِ زیارت سے فارغ ہوجانا، موصوف لکھتے ہیں کہ:

“بعض فقہاء کے نزدیک اس بات کی اجازت موجود ہے کہ طوافِ زیارت، عرفات جانے سے پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ میرے بہت سے قارئین کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہوگی، لیکن یہ اجازت موجود ہے، مگر اس کا علم بہت کم لوگوں کو ہے اور اس پر عمل بھی شاذ ہی کیا جاتا ہے۔ اگر کمزور اور ضعیف حجاج اور خواتین کو اس کی اطلاع دی جائے اور انہیں طوافِ زیارت، عرفات جانے سے پہلے ادا کرنے کی ترغیب دی جائے تو دو چار لاکھ حاجی تو ایسا کرسکتے ہیں، جس سے بعد از عرفات کے دنوں میں رش کم کیا جاسکتا ہے۔”

جناب حقانی صاحب نے جو تحریر فرمایا ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک وقوفِ عرفات سے پہلے طوافِ زیارت کرنے کی اجازت موجود ہے۔ یہ اس ناکارہ کے لئے بالکل جدید انکشاف ہے، قریباً نصف صدی تک فقہی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے بال سفید ہوگئے، لیکن افسوس ہے کہ مجھے ایسے کسی فقیہ کا سراغ نہیں مل سکا جو وقوفِ عرفات سے پہلے طوافِ زیارت سے فارغ ہوجانے کا فتویٰ دیتا ہو۔ اگر موصوف ان “بعض فقہاء” کا نام نشان بتادیں تو اہلِ علم ان کے ممنون ہوں گے اور اس پر غور کرسکیں گے کہ ان “بعض فقہاء” کے فتویٰ کی قدر و قیمت کیا ہے․․․؟

جہاں تک اس ناکارہ کے ناقص مطالعے کا تعلق ہے، مذاہبِ اربعہ اس پر متفق ہیں کہ وقوفِ عرفات سے قبل طوافِ زیارت نہیں ہوسکتا، کیونکہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک طوافِ زیارت کا وقت یوم النحر کی صبحِ صادق سے شروع ہوتا ہے، اور امام شافعی اور احمد کے نزدیک یوم النحر کی نصف شب کے بعد سے اس کا وقت شروع ہوجاتا ہے، گویا یوم النحر کی نصف شب سے پہلے طوافِ زیارت کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں۔ اور جس مسئلے میں مذاہبِ اربعہ متفق ہوں ان کے خلاف فتویٰ دینا “اجتہاد” نہیں بلکہ “اِلحاد” ہے۔

القرآن ریسرچ سینٹر تنظیم کا شرعی حکم

س… مولانا صاحب! آج کل ایک نیا فتنہ قرآن سینٹر کے نام سے بہت زوروں پر ہے، اس کا بانی محمد شیخ انگلش میں بیان کرتا ہے اور ضروریاتِ دین کا انکار کرتا ہے۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ “آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں آپ کی کوئی مفصل تحریر شائع ہوگی، مگر آپ کے مسائل میں ایک خاتون کے سوال نامہ کے جواب میں آپ کا مختصر سا جواب پڑھا، اگرچہ وہ تحریر کسی حد تک شافی تھی مگر اس سلسلہ کی تفصیلی تحریر کی اب بھی ضرورت ہے۔ اگر آپ نے ایسی کوئی تحریر لکھی ہو یا کہیں شائع ہوئی ہو تو اس کی نشاندہی فرمادیں، یا پھر ازراہ کرم امتِ مسلمہ کی اس سلسلے میں راہ نمائی فرماویں۔

ج… آپ کی بات درست ہے، “آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں میرا نہایت مختصر سا جواب شائع ہوا تھا، اور احباب کا اصرار تھا کہ اس سلسلے میں کوئی مفصل تحریر آنی چاہئے، چنانچہ میری ایک مفصل تحریر ماہنامہ “بینات” کراچی کے “بصائر و عبر” میں شائع ہوئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے افادہٴ عام کے لئے قارئین کی خدمت میں پیش کردیا جائے، جو حسبِ ذیل ہے۔

“مسلمانانِ ہندوستان کی دلی خواہش اور چاہت تھی کہ ایک ایسی آزاد ریاست اور ملک میسر آجائے جہاں مسلمان آزادی سے قرآن و سنت کا آئین نافذ کرسکیں اور انہیں دین اور دینی شعائر کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، چونکہ مسلمانوں کا جذبہ نیک تھا، اس لئے اس میں جوان، بوڑھے، عوام و خواص اور عالم و جاہل سب برابر کے متحرک و فعال تھے۔ بالآخر لاکھوں جانوں اور عزتوں کی قربانی کے بعد ۱۴/اگست ۱۹۴۷ء کو ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ قیامِ پاکستان کا مقصد اسلامی نظامِ حکومت یعنی حکومتِ الٰہیہ کا قیام باور کرایا گیا تھا، جس کا عنوان تھا: “پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ!” اور یہ ایسا نعرہ تھا جس کے زیر اثر تمام مسلمان مرمٹنے کے لئے تیار تھے، حتیٰ کہ وہ مسلمان جن کے علاقے تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی حدود میں آتے تھے وہ بھی اس کے قیام میں پیش پیش تھے، لیکن: اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی!” کے مصداق، آج نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی پاکستانی مسلمانوں کو اسلامی نظامِ حکومت نصیب نہیں ہوا، انا لله وانا الیہ راجعون!

اُلٹا پاکستان روز بروز مسائلستان بنتا چلا گیا، اس میں مذہبی، سیاسی، روحانی غرض ہر طرح کے فتنے پیدا ہوتے چلے گئے، ایک طرف اگر انگلینڈ میں مرتد رشدی کا فتنہ رونما ہوا، تو دوسری طرف پاکستان میں یوسف کذاب نام کا ایک بدباطن دعویٴ نبوت لے کر میدان میں آگیا، اسی طرح بلوچستان میں ایک ذکری مذہب ایجاد ہوا جس نے وہاں کعبہ اور حج جاری کیا، یہاں رافضیت اور خارجیت نے بھی پَرپُرزے نکالے، یہاں شرک و بدعات والے بھی ہیں اور طبلہ و سارنگی والے بھی، اس ملک میں ایک گوہر شاہی نام کا ملعون بھی ہے جن کے مریدوں کو چاند میں اس کی تصویر نظر آتی ہے، اور خود اس کو اپنے پیشاب میں اپنے مصلح کی شبیہ دکھائی دیتی ہے، اس میں ایک بدبخت عاصمہ جہانگیر بھی ہے جو تحفظِ حقوق انسانیت کی آڑ میں کتنی لڑکیوں کی چادرِ عفت کو تار تار کرچکی ہے۔

اسی طرح اس ملک میں “جماعت المسلمین” نامی ایک جماعت بھی ہے جو پوری امت کی تجہیل و تحمیق کرتی ہے، یہاں ڈاکٹر مسعود کی اولاد بھی ہے جو اپنے علاوہ کسی کو مسلمان ماننے کے لئے تیار نہیں، یہاں غلام احمد پرویز کی ذرّیت بھی ہے جو امت کو ذخیرہٴ احادیث سے بدظن کرکے اپنے پیچھے لگانا چاہتی ہے، اور ان سب سے آگے اور بہت آگے ایک نیا فتنہ اور نئی جماعت ہے جس کے تانے بانے اگرچہ غلام احمد پرویز سے ملتے ہیں، مگر وہ کئی اعتبار سے غلام احمد پرویز کو پیچھے چھوڑ گئی ہے، غلام احمد پرویز نے امت کو احادیث سے برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی، ہاں! البتہ اس نے چند آیاتِ قرآنی پر بھی اپنی تاویلاتِ باطلہ کا تیشہ چلایا تھا، مگر اس نئی جماعت اور نئے فتنے کے سربراہ محمد شیخ نامی شخص نے تقریباً پورے اسلامی عقائد کی عمارت کو منہدم کرنے کا تہیہ کرلیا ہے، چنانچہ وہ توراة، زبور، انجیل اور دوسرے صحفِ آسمانی کے وجود اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت و برتری اور انبیاء کرام کے مادّی وجود کا منکر ہے، بلکہ وہ بھی اصل میں تو مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح مدعیٴ نبوت ہے، مگر وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی ناکام حکمتِ عملی کو دہرانا نہیں چاہتا، کیونکہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح براہِ راست نبوت اور عقیدہٴ اجراء وحی کا دعویٰ کرکے قرآن و سنت اور علمائے امت کے شکنجے میں نہیں آنا چاہتا، یہ تو وہ بھی جانتا ہے کہ وحیٴ نبوت بند ہوچکی ہے، اور جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنے لئے اجراء وحیٴ نبوت کا دعویٰ کرے وہ دجال و کذاب اور واجب القتل ہے۔ اس لئے محمد شیخ نامی اس شخص نے اس کا عنوان بدل کر یہ کہا کہ: “جو شخص جس وقت قرآن پڑھتا ہے اس پر اس وقت قرآن کا وہ حصہ نازل ہو رہا ہوتا ہے، اور جہاں قرآن مجید میں “قل” کہا گیا ہے، وہ اس انسان ہی کے لئے کہا جارہا ہے۔” یوں وہ ہر شخص کو نزولِ وحی کا مصداق بتاکر اپنے لئے نزولِ وحی اور اجراء نبوت کے معاملہ کو لوگوں کی نظروں میں ہلکا کرنے کی کوشش کرتا ہے، چنانچہ وہ اس کو یوں بھی تعبیر کرتا ہے:

“انبیاء، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں اور میں بھی یہی کام انجام دے رہا ہوں۔”

نعوذ بالله! منصبِ نبوت کو اس قدر خفیف اور ہلکا کرکے پیش کرنا اور یہ جرأت کرنا کہ میں بھی وہی کام کر رہا ہوں جو – نعوذ بالله- انبیاء کرام کیا کرتے ہیں، کیا یہ دعویٴ نبوت اور منصبِ نبوت پر فائز ہونے کی ناپاک کوشش نہیں․․․؟

لوگوں کی نفسیات بھی عجیب ہے، اگر وہ ماننے پر آئیں تو ایک ایسا شخص جو کسی اعتبار سے قابلِ اعتماد نہیں، جس کی شکل و شباہت مسلمانوں جیسی نہیں، جس کا رہن سہن کسی طرح اسلاف سے میل نہیں کھاتا، ابلیسِ مغرب کی نقالی اس کا شعار ہے، اسوہٴ نبوی سے اسے ذرّہ بھر مناسبت نہیں، اس کی چال ڈھال، رفتار و گفتار اور لباس و پوشاک سے کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ یہ شخص مسلمان بھی ہے کہ نہیں؟ پھر طرہ یہ کہ وہ نصوصِ صریحہ کا منکر ہے، اور تأویلاتِ فاسدہ کے ذریعہ اسلام کو کفر، اور کفر کو اسلام باور کرانے میں مرزا غلام احمد قادیانی کے کان کاٹتا ہے، فلسفہٴ اجراء نبوت کا نہ صرف وہ قائل ہے بلکہ اس کا داعی اور مناد ہے۔

وہ تمام آسمانی کتابوں کا یکسر منکر ہے، وہ انبیاء کے مادّی وجود کا قائل نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی وجود کی بھول بھلیوں کے گورکھ دھندوں سے آپ کی نبوت و رسالت اور مادّی وجود کا انکاری ہے، انبیائے بنی اسرائیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دیتا ہے۔

ذخیرہٴ احادیث کو من گھڑت کہانیاں کہہ کر ناقابلِ اعتماد گردانتا ہے، غرضیکہ عقائدِ اسلام کے ایک ایک جز کا انکار کرکے ایک نیا دین و مذہب پیش کرتا ہے، اور لوگ ہیں کہ اس کی عقیدت و اطاعت کا دَم بھرتے پھرتے ہیں، اور اس کو اپنا پیشوا اور راہ نما مانتے ہیں۔

اس کے برعکس دوسری جانب اللہ کا قرآن ہے، نصوصِ صریحہ اور احادیثِ نبویہ کا ذخیرہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت و کردار کی شاہراہ ہے، اور اجماعِ امت ہے، جو پکار پکار کر انسانوں کی ہدایت و راہ نمائی کے خطوط متعین کرتے ہیں، مگر ان ازلی محروموں کے لئے یہ سب کچھ ناقابلِ اعتماد ہے۔

کس قدر لائقِ شرم ہے کہ یہ حرماں نصیب، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری کی بجائے اپنے گلے میں اس ملحد و بے دین کی غلامی کا پٹہ سجانے اور اس کی امت کہلانے میں “فخر” محسوس کرتے ہیں۔ حیف ہے اس عقل و دانش اور دین و مذہب پر! جس کی بنیاد الحاد و زندقہ پر ہو، جس میں قرآن و سنت کی بجائے ایک جاہل مطلق کے کفریہ نظریات و عقائد کو درجہ استناد حاصل ہو، سچ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تو عقل و خرد چھین لیتے ہیں، جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور ہدایت کی توفیق سلب ہوجاتی ہے۔

گزشتہ ایک عرصہ سے اس قسم کی شکایات سننے میں آرہی تھیں کہ سیدھے سادے مسلمان اس فتنے کا شکار ہو رہے ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں کچھ لکھنے کا خیال ہوا تو ایک صاحب راقم الحروف اور دارالعلوم کراچی کے فتاویٰ کی کاپی لائے اور فرمائش کی کہ اس فتنہ کے خلاف آواز اُٹھائی جائے، اس لئے کہ حکومت اور انتظامیہ اس فتنہ کی روک تھام کے لئے نہایت بے حس اور غیرسنجیدہ ہے، جبکہ یہ فتنے روزبروز بڑھ رہا ہے، کس قدر لائقِ افسوس ہے کہ اگر کوئی شخص بانیٴ پاکستان یا موجودہ وزیراعظم کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوجائے تو حکومت کی پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، لیکن یہاں قرآن و سنت، دینِ متین اور حضراتِ انبیاء اور ان کی نبوت کا انکار کیا جاتا ہے، ان کی شان میں نازیبا کلمات کہے جاتے ہیں، مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی، اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ان ہر دو تحریروں کو یکجا شائع کردیا جائے، تاکہ مسلمانوں کا دین و ایمان محفوظ ہوجائے، اور لوگ اس فتنہ کی سنگینی سے واقف ہوکر اس سے بچ سکیں۔

راقم الحروف کا مختصر جواب اگرچہ روزنامہ جنگ کے کالم “آپ کے مسائل اور ان کا حل” میں شائع ہوچکا ہے، مگر دارالعلوم کراچی کا فتویٰ شائع نہیں ہوا، چنانچہ سب سے پہلے ایک ایسی خاتون کا مرتب کردہ سوال نامہ ہے جو براہ راست اس فتنے سے متأثر رہی ہے، اس کے بعد راقم الحروف کا جواب ہے، اور آخر میں دارالعلوم کراچی کا جواب ہے، اور سب سے آخر میں اختتامیہ کلمات ہیں، چونکہ دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں قرآنی آیات اور دوسری نصوص کے ترجمے نہیں تھے اس لئے افادہٴ عام کی خاطر قرآنی آیات اور عربی عبارتوں کے ترجمے کردئیے گئے ہیں، قرآنی آیات کا ترجمہ حضرت تھانوی کے ترجمہ سے نقل کیا گیا ہے۔

سوال نامہ

س… محترم مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب۔ السلام علیکم ورحمة الله وبرکاتہ!

احوال حال کچھ اس طرح ہے کہ بحیثیت مسلمان میں اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے دین کو ضرب پہنچانے اور اس کے عقائد کی عمارت کو مسمار کرنے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، اس کے متعلق غلط فہمیوں کو دُور کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنا چاہتی ہوں۔

محترم! یہاں پر چند تنظیموں کی جانب سے نام نہاد پمفلٹ آڈیو / ویڈیو کیسٹس کے ذریعے ایسا لٹریچر فراہم کیا جارہا ہے جس سے بڑا طبقہ شکوک و شبہات اور بے یقینی کی کیفیت کا شکار ہو رہا ہے۔ پاکستان، جسے اسلامی فلسفہ و فکر کے ذریعے حاصل کیا گیا، اس کے شہر کراچی میں ایک تنظیم “القرآن ریسرچ سینٹر” کے نام سے عرصہ چھ سات سال سے قائم ہے، اس تنظیم کے بنیادی عقائد مندرجہ ذیل ہیں:

۱:…دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے انسانیت کی بھلائی کے لئے قرآن پاک معجزانہ طور پر اکٹھا دنیا میں موجود تھا، مختلف انبیاء پر، مختلف ادوار میں، مختلف کتابیں نازل نہیں ہوئیں، بلکہ اس کتاب یعنی قرآن پاک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے پکارا گیا، کبھی توریت، کبھی انجیل اور کبھی زبور کے نام سے۔

قرآن جو جہاں اور جس وقت پڑھ رہا ہے اس پر اسی وقت نازل ہو رہا ہے، اور جہاں “قل” کہا گیا ہے وہ اس انسان کے لئے کہا جارہا ہے جو پڑھ رہا ہے۔

۲:…انبیاء کا کوئی مادّی وجود نہیں رہا، اس دنیا میں وہ نہیں بھیجے گئے، بلکہ وہ صرف انسانی ہدایت کے لئے Symbols کے طور پر استعمال کئے گئے اور موجودہ دنیا سے ان کا کوئی مادّی تعلق نہیں۔ قرآن شریف کے اندر وہ انسانی رہنمائی کے لئے صرف فرضی کرداروں اور کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں۔

۳:…قرآن شریف میں چونکہ حضور کو زمان حال یعنی Present میں پکارا گیا ہے، لہٰذا حضور بحیثیتِ روح ہر جگہ اور ہر وقت موجود ہیں، اور وہ مادّی وجود سے مبرا ہیں اور نہ تھے۔

۴:…حضور کی دیگر انبیاء پر کوئی فضیلت نہیں، وہ دیگر انبیاء کے برابر ہیں، بلکہ حضرت موسیٰ، بعض معنوں اور حیثیتوں میں یعنی قرآن پاک نے بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ کا کثرت سے ذکر کیا، جس کی وجہ سے ان کی فضیلت حضور پر زیادہ ہے، حضور کے متعلق جتنی بھی احادیث تاریخ اور تفسیر میں موجود ہیں وہ انسانوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔

ان تمام عقائد کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ قرآن و سنت کے مطابق یہ فتویٰ دیں کہ:

۱:…یہ عقائد اسلام کی رُو سے دُرست ہیں یا نہیں؟

۲:…اس کو اپنانے والا مسلمان رہے گا؟

۳:…ایسی تنظیموں کو کس طرح روکا جائے؟

۴:…ایسے شخص کی بیوی کے لئے کیا حکم ہے، جس کے عقائد قرآن و سنت کے مطابق ہیں، جو تمام انبیاء، تمام کتابوں، آخرت کے دن اور احادیث پر مکمل یقین اور ایمان رکھتی ہو؟

۵:…آخر میں مسلمانیت کے ناطے اپیل ہے کہ ایسے اشخاص سے بھرپور مناظرہ کیا جائے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی بات کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، کیونکہ ہم سچے مسلمان ہیں۔ ایک خاتون۔ کراچی

راقم الحروف کا جواب

ج… السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، میری بہن! یہ فتنوں کا زمانہ ہے اور جس شخص کے ذہن میں جو بات آجاتی ہے، وہ اس کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلف بیزاری اور انکارِ حدیث کا نتیجہ ہے، اور جو لوگ حدیث کا انکار کرتے ہیں وہ پورے دین کا انکار کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں میں اپنے رسالہ “انکارِ حدیث کیوں؟” میں لکھ چکا ہوں کہ:

“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشادات کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والوں اور آپ کے اقوالِ شریفہ کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کے متعلق اعلان کیا گیا کہ ان کے قلوب پر خدائی مہر لگ چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایمان و یقین اور رُشد و ہدایت کی استعداد گم کرچکے ہیں، اور ان لوگوں کی ساری تگ و دو خواہشِ نفس کی پیروی تک محدود ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

“وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّسْتَمِعُ اِلَیْکَ، حَتّٰیٓ اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ ٰانِفًا، اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَاتَّبُعْوْٓا اَھْوَآئَھُمْ۔” (محمد:۱۶)

ترجمہ:…”اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اُٹھ کر باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحقیر کے طور پر) کہتے ہیں کہ: حضرت نے ابھی کیا بات فرمائی تھی؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

قرآن کریم نے صاف صاف یہ اعلان بھی کردیا کہ انبیا ٴکرام علیہم السلام کو صرف اسی مقصد کے لئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے، پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار اور آپ کے ارشادات سے سرتابی کرنا گویا انکارِ رسالت کے ہم معنی ہے۔ اس طرح آپ کی اطاعت کے منکرین، انکارِ رسالت کے مرتکب ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جب قرآن ہی وحیٴ خداوندی بتلاتا ہے (وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی)، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلماتِ طیبات کو جب قرآن ہی “گفتہ او گفتہ اللہ بود” کا مرتبہ دیتا ہے، تو بتلایا جائے کہ حدیثِ نبوی کے حجتِ دینیہ ہونے میں کیا کسی شک و شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے․․․؟ اور کیا حدیثِ نبوی کا انکار کرنے سے، خود قرآن ہی کا انکار لازم نہیں آئے گا؟ اور کیا فیصلہٴ نبوت میں تبدیلی کے معنی خود قرآن کو بدل ڈالنا نہیں ہوں گے؟ اور اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم بھی تو امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبانِ مبارک سے سنا، اور سن کر اس پر ایمان لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ: “یہ قرآن ہے۔” یہ ارشاد بھی تو حدیثِ نبوی ہے۔ اگر حدیثِ نبوی حجت نہیں تو قرآن کریم کا “قرآن” ہونا کس طرح ثابت ہوگا؟ آخر یہ کون سی عقل و دانش کی بات ہے کہ اس مقدس و معصوم زبان سے صادر ہونے والی ایک بات تو واجب التسلیم ہو اور دوسری نہ ہو․․․؟

امیر شریعت سید عطا ٴاللہ شاہ بخاری نے ایک موقع پر فرمایا تھا:

“یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اور یہ میرا کلام ہے۔” ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا۔”

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ: “قرآن تو حجت ہے، مگر حدیث حجت نہیں ہے۔” ان ظالموں کو کون بتلائے کہ جس طرح ایمان کے معاملے میں خدا اور رسول کے درمیان تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کو مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ٹھیک اسی طرح کلام اللہ اور کلامِ رسول کے درمیان بھی اس تفریق کی گنجائش نہیں کہ ایک کو واجب الاطاعت مانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے، ایک کو تسلیم کرلیجئے تو دوسرے کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا۔ اور ان میں سے ایک کا انکار کردینے سے دوسرے کا انکار آپ سے آپ ہوجائے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا جائے اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ٹھکرادیا جائے، وہ ایسے ظالموں کے خلاف صاف اعلان کرتا ہے:

“․․․․․․فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللهِ یَجْحَدُوْنَ۔” (الانعام:۳۳)

ترجمہ:…”پس اے نبی! یہ لوگ آپ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے، بلکہ یہ ظالم، اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں۔”

لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور کلام اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں لامحالہ رسول اور کلامِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر بھی ایمان لانا ہوگا، ورنہ ان کا دعویٴ ایمان حرفِ باطل ہے۔”

جس تنظیم کا آپ نے تذکرہ کیا ہے ان عقائد کے رکھنے والے مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے دین کی پوری کی پوری عمارت کو مسمار کردینے کا عزم کرلیا ہے، نیز انہوں نے تمام شعائرِ اسلام اور قرآن و حدیث اور انبیاء اور ان پر نازل ہونے والی کتابوں کا انکار کیا ہے، اور جو لوگ اسلامی معتقدات کا انکار کریں، ان میں تاویلاتِ باطلہ کریں، اور اپنے کفر کو اسلام باور کرائیں، وہ ملحد و زندیق ہیں، اور زندیق، کافر و مرتد سے بڑھ کر ہے، اس لئے کہ وہ بکرے کے نام پر خنزیر کا گوشت فروخت کرتا ہے، اور امتِ مسلمہ کو دھوکا دے کر ان کے ایمان و اسلام کو غارت کرتا ہے، اسی بنا پر اگر زندیق گرفتار ہونے کے بعد توبہ بھی کرلے تو اس کی توبہ کا اعتبار نہیں، اس لئے حکومتِ پاکستان کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو اس الحاد و زندقہ سے روکے، اگر رُک جائیں تو فبہا ورنہ ان پر اسلامی آئین کے مطابق ارتداد و زندقہ کی سزا جاری کرے۔

اہل ایمان کا ان سے رشتہ ناطہ بھی جائز نہیں، اگر ان میں سے کسی کے نکاح میں کوئی مسلمان عورت ہو تو اس کا نکاح بھی فسخ ہوجاتا ہے۔

جہاں تک مناظرے کا تعلق ہے، ان حضرات سے مناظرہ بھی کرکے دیکھا، مگر ان کے دل میں جو بات بیٹھ گئی ہے اس کو قبر کی مٹی اور جہنم کی آگ ہی دور کرسکتی ہے، والله اعلم!

دارالعلوم کراچی کا جواب

الجواب حامدًا ومصلیًا

۱،۲:… سوال میں ذکر کردہ اکثر عقائد قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی تصریحات اور موقف کے بالکل خلاف ہیں، اس لئے اگر کسی شخص کے واقعتا یہی عقائد ہیں تو وہ کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے، اور اس کے ماننے والے بھی کافر اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں۔

مذکورہ نظریات و عقائد کا قرآن و سنت کی رو سے باطل ہونا ذیل میں ترتیب وار تفصیل سے ملاحظہ فرمائیں:

۱:…یہ (کہنا کہ قرآن پاک کو مختلف زمانوں میں مختلف ناموں سے پکارا گیا، کبھی تورات، کبھی انجیل اور کبھی زبور، اور مختلف ادوار میں مختلف کتابیں نازل نہیں ہوئی) کفریہ عقیدہ ہے، کیونکہ پوری امت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ صحفِ آسمانی کے علاوہ آسمانی کتابیں چار ہیں، اور قرآن کریم میں اس کی تصریح ہے کہ قرآن کے علاوہ تین آسمانی کتابیں اور ہیں، جن میں سے توراة حضرت موسیٰ علیہ السلام پر، انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اور زبور حضرت داوٴد علیہ السلام پر نازل کی گئی، لہٰذا قرآن کے علاوہ مذکورہ تین کتب کے مستقل وجود کا انکار کرنا درحقیقت قرآنِ کریم کی ان آیات کا انکار کرنا ہے جن میں ان کتابوں کے مستقل وجود کا ذکر ہے، درج ذیل آیات اور ان کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

“وَاَنْزَلَ التَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ۔ مِنْ قَبْلُ ھُدًی لِّلنَّاسِ۔” (آل عمران:۳، ۴)

ترجمہ:…”اور (اسی طرح) بھیجا تھا تورات اور انجیل کو اس کے قبل لوگوں کی ہدایت کے واسطے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰةُ وَالْاِنْجِیْلُ اِلَّا مِنْم بَعْدِہ۔”

(آل عمران:۶۵)

ترجمہ:…”حالانکہ نہیں نازل کی گئی تورات اور انجیل مگر ان کے (زمانہ کے بہت) بعد۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَٰاتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ۔” (المائدة:۴۶)

ترجمہ:…”اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور وضوح تھا۔”

“وَلْیَحْکُمْ اَھْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فِیْہِ۔”

(المائدة:۴۷)

ترجمہ:…”اور انجیل والوں کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم کیا کریں۔”

“وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرٰةَ وَالْاِنْجِیْلَ۔” (المائدة:۱۱۰)

ترجمہ:…”اور جبکہ میں نے تم کو کتابیں اور سمجھ کی باتیں اور توارت اور انجیل تعلیم کیں۔”

“اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ۔”

(الاعراف:۱۵۷)

ترجمہ:…”جو لوگ ایسے رسول نبی اُمّی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔”

“وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْم بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔” (الانبیاء:۱۰۵)

ترجمہ:…”اور ہم (سب آسمانی) کتابوں میں لوحِ محفوظ (میں لکھنے) کے بعد لکھ چکے ہیں کہ اس زمین (جنت) کے مالک میرے نیک بندے ہوں گے۔”

“وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّنَ عَلٰی بَعْضٍ وَٰاتَیْنَا دَاودَ زَبُوْرًا۔” (الاسراء:۵۵)

ترجمہ:…”اور ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور ہم داوٴد (علیہ السلام) کو زبور دے چکے ہیں۔”

“فَأْتُوْا بِالتَّوْرٰةِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔”

(آل عمران:۹۳)

ترجمہ:…”پھر توراة لاوٴ، پھر اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو۔”

“وَکَیْفَ یُحِکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَھُمُ التَّوْرٰةُ فِیْھَا حُکْمُ اللهِ۔” (المائدة:۴۳)

ترجمہ:…”اور وہ آپ سے کیسے فیصلہ کراتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم ہے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“اِنَّآ أَنْزَلْنَا التَّوْرٰةَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ۔”(المائدة:۴۴)

ترجمہ:…”ہم نے تورات نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت تھی اور وضوح تھا۔”

“وَقَفَّیْنَا عَلٰٓی ٰاثَارِھِمْ بِعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ التَّوْرٰةِ۔” (المائدة:۴۶)

ترجمہ:…”اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو اس حالت میں بھیجا کہ وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق فرماتے تھے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“اِنِّیْ رَسُوْلُ اللهِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰةِ۔” (الصف:۶)

ترجمہ:…”میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (آچکی) ہے، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللهِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا م بَعِیْدًا۔” (النساء:۱۳۶)

ترجمہ:…”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے، اور اس کے فرشتوں کا، اور اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا، اور روزِ قیامت کا، تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“کُلٌّ ٰامَنَ بِاللهِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔”

(البقرة:۲۸۵)

ترجمہ:…”سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ، اور اس کے فرشتوں کے ساتھ، اور اس کی کتابوں کے ساتھ، اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ۔”

اور یہ کہنا کہ: “قرآن جو جس وقت پڑھ رہا ہے، اس پر اسی وقت نازل ہو رہا ہے، اور “قل” اسی کے لئے کہا جارہا ہے جو پڑھ رہا ہے۔” یہ بھی تعبیر کے لحاظ سے غلط ہے، کیونکہ قرآن کریم ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا نازل ہوچکا ہے، اس کے اولین اور آخرین براہ راست مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اب جو شخص پڑھ رہا ہے وہ قرآن کا اولین اور براہِ راست مخاطب نہیں ہے، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے مخاطب ہے اور اس اعتبار سے اپنے آپ کو مخاطب سمجھنا بھی چاہئے۔

۲:…یہ عقیدہ بھی کفریہ ہے (کہ انبیاء کا مستقل کوئی وجود نہیں تھا)، کیونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء کا مستقل وجود تھا، وہ دنیا میں لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے اور وہ بشریت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، انہوں نے عام انسانوں کی طرح دنیا میں زندگی گزاری، ان میں بشری حوائج اور مادّی صفات پائی جاتی تھیں، چنانچہ وہ کھاتے بھی تھے، پیتے بھی تھے اور انہوں نے نکاح بھی کئے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ سے معجزات بھی ظاہر فرمائے، انہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا، یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو اپنے وجود کے لئے مادّہ اور مستقل وجود کا تقاضا کرتی ہیں، اس کے بغیر ان کا وجود اور ظہور ہی محال ہے، لہٰذا یہ کہنا کہ: “انبیاء کا مادّی وجود نہیں رہا، قرآن میں وہ صرف فرضی کرداروں اور کہانیوں کی صورت میں موجود ہیں” بالکل غلط اور قرآن و سنت کی صریح نصوص کے خلاف ہے، اس سلسلے میں درج ذیل آیاتِ قرآنیہ ملاحظہ فرمائیں:

“کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ۔” (البقرة:۲۱۳)

ترجمہ:…”سب آدمی ایک ہی طریق کے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو کہ خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور ڈراتے تھے اور ان کے ساتھ (آسمانی) کتابیں بھی ٹھیک طور پر نازل فرمائیں، اس غرض سے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں میں ان کے امورِ اختلافیہ (مذہبی) میں فیصلہ فرمادیں۔”

“وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ۔”

(الانعام:۴۸)

ترجمہ:…”اور ہم پیغمبروں کو صرف اس واسطے بھیجا کرتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور ڈراویں۔”

“یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَأْتُکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ ٰایٰتِیْ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا۔”

(الانعام:۱۳۰)

ترجمہ:…”اے جماعت جنات اور انسانوں کی! کیا تمہارے پاس تم ہی میں کے پیغمبر نہیں آئے تھے؟ جو تم سے میرے احکام بیان کرتے تھے اور تم کو آج کے دن کی خبر دیا کرتے تھے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّةً۔” (الرعد:۳۸)

ترجمہ:…”اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے ان کو بیبیاں اور بچے بھی دئیے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ۔” (النحل:۳۶)

ترجمہ:…”اور ہم ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر بھیجتے رہے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچتے رہو۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَمَا کُنَّا مُعَذَّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا۔”

(الاسراء:۱۵)

ترجمہ:…”اور ہم (کبھی) سزا نہیں دیتے جب تک کسی رسول کو نہیں بھیج دیتے۔”

“وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ۔” (الفرقان:۲۰)

ترجمہ:…”اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں بھی چلتے پھرتے تھے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَکَمْ اَرْسَلْنَا مِنْ نَّبِیٍّ فِی الْاَوَّلِیْنَ۔ وَمَا یَأْتِیْھِمْ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّا کَانُوْا بِہ یَسْتَھْزِئُوْنَ۔” (الزخرف:۶،۷)

ترجمہ:…”اور ہم پہلے لوگوں میں بہت سے نبی بھیجتے رہے ہیں، اور ان لوگوں کے پاس کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا ہو۔”

“کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ ٰایٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعِلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ۔” (البقرة:۱۵۱)

ترجمہ:…”جس طرح تم لوگوں میں ہم نے ایک (عظیم الشان) رسول کو بھیجا تم ہی میں سے ہماری آیات (واحکام) پڑھ پڑھ کر تم کو سناتے ہیں اور (جہالت سے) تمہاری صفائی کرتے رہتے ہیں اور تم کو کتاب (الٰہی) اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور تم کو ایسی (مفید) باتیں تعلیم کرتے رہتے ہیں جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ یَأْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ۔” (الفرقان:۷)

ترجمہ:…”اور یہ (کافر) لوگ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت) یوں کہتے ہیں کہ اس رسول کو کیا ہوا کہ وہ (ہماری طرح) کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔”

(ترجمہ حضرت تھانوی)

“لَقَدْ مَنَّ اللهُ عَلَی الْمُوٴْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ٰایٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ۔” (آل عمران:۱۶۴)

ترجمہ:…”حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں، اور ان کو کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں۔”

“ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ۔” (الفتح:۲۸)

ترجمہ:…”وہ اللہ ایسا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو ہدایت دی، اور سچا دین (یعنی اسلام) دے کر دنیا میں بھیجا ہے تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔” (ترجمہ حضرت تھانوی)

“رَسُوْلًا یَّتْلُوْا عَلَیْکُمْ ٰایٰتِ اللهِ مُبَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ۔”

(الطّلاق:۱۰)

ترجمہ:…”ایک ایسا رسول (بھیجا) جو تم کو اللہ کے صاف صاف احکام پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ ایسے لوگوں کو کہ جو ایمان لاویں اور اچھے عمل کریں (کفر و جہل کی) تاریکیوں سے نور کی طرف لے آویں۔”

“لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوٴْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔”

(التوبة:۱۲۸)

ترجمہ:…”(اے لوگو) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں، جو تمہاری جنس (بشر) سے ہیں، جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں، (یہ حالت تو سب کے ساتھ ہے بالخصوص) ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق (اور) مہربان ہیں۔”

“یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْھَرُوْا لَہ بِالْقَوْلِ۔” (الحجرات:۲)

ترجمہ:…”اے ایمان والو! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیا کرو، اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو۔”

قرآن کریم میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زمانہٴ حال میں جو خطاب کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت قرآن کریم کا نزول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو رہا تھا اس وقت آپ اپنے مادّی وجود کے ساتھ دنیا میں موجود تھے، اس لئے زمانہٴ حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کیا گیا، یہ مطلب نہیں کہ آپ بحیثیت روح ہر وقت، ہر جگہ موجود ہیں۔

یہ عقیدہ (رکھنا کہ چونکہ قرآن شریف میں صیغہ حال سے پکارا گیا ہے، اس لئے حضور بحیثیتِ روح ہر جگہ موجود ہیں، اور وہ مادّی وجود سے مبرا ہیں) قرآن و سنت کی صریح نصوص اور اہل السنة والجماعة کے موقف کے خلاف ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر جگہ موجود ہیں، اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر وقت، ہر جگہ موجود ہیں، تو یہ کھلا ہوا شرک ہے، اور نصاریٰ کی طرح رسول کو خدائی کا درجہ دینا ہے، اور اگر کوئی شخص کسی تأویل کے ساتھ یہ عقیدہ رکھتا ہے تب بھی اس عقیدہ کے غلط اور فاسد ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ایسا شخص گمراہ ہے۔ ملاحظہ ہو: جواہر الفقہ ج:۱ ص:۱۱۵، تبرید النواظر مصنفہ مولانا سرفراز صفدر صاحب مدظلہم۔

۴:…اہل السنة والجماعة کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ مجموعی تمام انبیاء سے افضل ہیں، البتہ بعض جزئیات اور واقعات میں اگر کسی نبی کو کوئی فضیلت حاصل ہے تو وہ اس کے معارض نہیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شرفِ کلام حاصل ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو صفت “خلت” حاصل ہے، وغیرہ وغیرہ، یہ تمام جزئی فضیلتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجموعی فضیلت کے منافی اور اس کے معارض نہیں ہیں۔

اور یہ کہنا کہ: “حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جتنی بھی احادیث، تاریخ اور تفسیر میں موجود ہیں وہ انسانوں کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔” درحقیقت احادیثِ نبویہ کا انکار ہے، جو کہ موجبِ کفر ہے، پوری امتِ محمدیہ کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث، قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا اہم مأخذ ہے، قرآن کریم نے جس طرح اللہ رب العزت کے احکام کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، اسی طرح جنابِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اقوال کی بھی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے، لہٰذا قرآن میں بہت سے ایسے احکام ہیں جن کی تفصیل قرآن میں مذکور نہیں، بلکہ ان کی تفصیلات اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان اور عمل پر چھوڑ دی ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں ان کی تفصیلات اور ان پر عمل کرنے کا طریقہ اپنے قول و فعل سے بیان کیا، اگر احادیث انسانوں کی من گھڑت ہیں تو قرآن کریم کے ایسے احکام پر عمل کرنے کا طریقہ کیا ہوگا؟ اور یہ ہمیں کیسے معلوم ہوں گے؟

اور اللہ رب العزت نے جس طرح قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اسی طرح قرآن کریم کے معانی کی بھی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور معانی قرآن کی تعلیم حدیث ہی میں ہوئی، اور جن ذرائع سے قرآن کریم ہم تک پہنچا ہے، انہی ذرائع سے احادیث بھی ہم تک پہنچی ہیں، اگر یہ احادیث من گھڑت ہیں اور ذرائع قابلِ اعتماد نہیں، تو یہ امکان قرآن کریم میں بھی ہوسکتا ہے، تو پھر قرآن کریم کو بھی -نعوذ بالله- من گھڑت کہنا لازم آتا ہے، لہٰذا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس طرح قرآن کریم اب تک محفوظ چلا آرہا ہے، اسی طرح احادیث بھی محفوظ چلی آرہی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا بے نظیر انتظام فرمایا ہے، جس کی تفصیل تدوینِ حدیث کی تاریخ سے معلوم ہوسکتی ہے، لہٰذا احادیث کو انسانوں کی من گھڑت کہانیاں قرار دینا صریح گمراہی اور موجبِ کفر ہے۔

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: “حجیتِ حدیث” مصنفہ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم، “کتابتِ حدیث عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ میں” مصنفہ مولانا محمد رفیع عثمانی صاحب مدظلہم، “حفاظت و حجیتِ حدیث” مصنفہ مولانا فہیم عثمانی صاحب۔

۳:…مسلمانوں کو چاہئے کہ جو شخص یا تنظیم ایسے عقائد کی حامل ہو اس سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں، اور ان کے لٹریچر اور کیسٹ وغیرہ سے مکمل احتراز کریں، خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں، اور اربابِ حکومت کو بھی ایسی تنظیم کی طرف توجہ دلائیں تاکہ ان پر پابندی لگائی جاسکے۔

۴:…جو شخص مذکورہ عقائد کو بغیر کسی مناسب تأویل کے مانتا ہے وہ شخص مرتد اور دائرہٴ اسلام سے خارج ہے، اس کی مسلمان بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی، اب اس کے عقد میں کوئی مسلمان عورت نہیں رہ سکتی، اور نہ کسی مسلمان عورت کا اس سے نکاح ہوسکتا ہے۔

مذکورہ بالا شخص کے عقائد قرآن و سنت، اجماعِ امت اور اکابر علمائے اہل سنت والجماعت کی تصریحات کے خلاف ہیں، اس کے لئے درج ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں:

“فی شرح العقائد ص:۲۱۷: ولله تعالیٰ کتب انزلھا علی انبیائہ وبین فیھا امرہ ونھیہ ووعدہ ووعیدہ وکلھا کلام الله تعالیٰ ․․․․․ وقد نسخت بالقرآن تلاوتھا وکتابتھا بعض احکامھا۔ وفی الحاشیة قولہ “ولله کتب” رکن من ارکان ما یجب بہ الایمان مما نطقت النصوص القرآنیة والاخبار النبویة۔”

ترجمہ:…”شرح عقائد ص:۲۱۷ میں ہے کہ: اللہ تعالیٰ کی (قرآن کے علاوہ) کئی کتابیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء پر نازل فرمایا اور ان کتابوں میں امر و نہی، وعدہ و وعید کو بیان فرمایا اور یہ تمام کتابیں کلامِ الٰہی ہیں ․․․․․․ اور قرآن مجید کے نازل ہونے پر ان سابقہ کتب کی تلاوت اور کتابت اور ان کے بعض احکام کو منسوخ کیا گیا۔ اور حاشیہ میں ہے: قولہ “ولله کتب” یعنی ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن یہ بھی ہے کہ ان سابقہ کتب پر ایمان لایا جائے جن کے بارے میں نصوصِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ شہادت دیتی ہیں۔”

“وفیہ ص:۴۵: والرسول انسان بعثہ الله تعالیٰ الی الخلق لتبلیغ الاحکام۔”

ترجمہ:…”اور شرح عقائد ص:۴۵ میں ہے: اور رسول وہ انسان ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف تبلیغِ احکام کے لئے مبعوث فرماتے ہیں۔”

“وفی شرح المقاصد ج:۵ ص:۵: النبی انسان بعثہ الله تعالیٰ لتبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول۔”

ترجمہ:…”اور شرح مقاصد ج:۵ ص:۵ میں ہے کہ: نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ ان احکام کی تبلیغ کے لئے بھیجتے ہیں جو ان کی طرف وحی فرماتے ہیں اور رسول کی تعریف بھی یہی ہے۔”

“وفی شرح العقیدة الطحاویة لابن ابی العز ص:۲۹۷۰: قولہ: ونوٴمن بالملٰئکة والنبیین والکتب المنزلة علی المرسلین نشھد انھم کانوا علی الحق المبین۔ ھذہ الامور من ارکان الایمان، قال تعالیٰ: “ٰامَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہ وَالْمُوٴْمِنُوْنَ، کُلٌّ ٰامَنَ بِاللهِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ، لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ۔”

(البقرة:۲۸۵)

وقال تعالیٰ: “لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ ٰامَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَةِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّنَ۔” (البقرة:۱۷۷)

فجعل الله سبحانہ وتعالیٰ الایمان ھو الایمان بھذہ الجملة وسمی من آمن بھذہ الجملة موٴمنین، کما جعل الکافرین من کفر بھذہ الجملة بقولہ: وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللهِ وَمَلٰٓئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا۔” (النساء:۱۳۷)

ترجمہ:…”اور ابن ابوالعز کی شرح عقیدہٴ طحاویہ کے ص:۲۹۷ میں ہے کہ: ہم ایمان لاتے ہیں ملائکہ پر، نبیوں پر اور ان پر نازل ہونے والی تمام کتابوں پر اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ وہ (رسول) سب کے سب حق پر تھے۔ اور یہ تمام امور ارکانِ ایمان میں سے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “اور موٴمنین بھی سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں اللہ کے ساتھ، اور اس کے فرشتوں کے ساتھ، اور اس کی کتابوں کے ساتھ، اور اس کے پیغمبروں کے ساتھ، اور اس کے پیغمبروں میں سے کسی سے تفریق نہیں کرتے۔” اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “کچھ سارا کمال اس میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کو کرلو یا مغرب کو، لیکن کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر یقین رکھے اور قیامت کے دن پر، اور فرشتوں پر اور کتب پر اور پیغمبروں پر۔”

(ان دلائل سے معلوم ہوا کہ) اللہ تعالیٰ نے ایمان ہی اس چیز کو قرار دیا ہے کہ ان تمام چیزوں پر ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں “موٴمنین” نام ہی ان لوگوں کا رکھا ہے جو ان تمام چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ “کافرین” ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو ان تمام چیزوں کا انکار کرتے ہیں، جیسے کہ ارشادِ الٰہی ہے: “اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا انکار کرے، اور اس کے فرشتوں کا، اور اس کی کتابوں کا، اور اس کے رسولوں کا، اور روزِ قیامت کا، تو وہ شخص گمراہی میں بڑی دور جاپڑا۔”

“وقال فی الحدیث المتفق علی صحتہ، حدیث جبریل، وسوالہ للنبی صلی الله علیہ وسلم عن الایمان فقال: ان توٴمن بالله وملٰئکتہ وکتبہ ورسلہ ․․․․ الخ۔ فھذہ الاصول التی اتفقت علیھا الانبیاء والرسل صلوات الله علیہم وسلامہ، ولم یوٴمن بھا حقیقة الایمان الا اتباع الرسل۔”

ترجمہ:…”اور حدیثِ جبریل (جس کی صحت پر بخاری و مسلم متفق ہیں) میں ہے کہ: حضرت جبریل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی تمام کتابوں پر، اور تمام رسولوں پر․․․․․” پس یہ وہ اصول ہیں جن پر تمام پیغمبروں اور رسولوں کا اتفاق ہے، اور اس پر صحیح معنی میں کوئی ایمان نہیں لایا مگر وہ جو انبیاء و رسل کے متبعین ہیں۔”

“وفیہ ص:۳۱۱: واما الانبیاء والمرسلون فعلینا الایمان بمن سمی الله تعالیٰ فی کتابہ من رسلہ، والایمان بان الله تعالیٰ ارسل رسلا سواھم وانبیاء لا یعلم اسمائھم وعددھم الا الله تعالیٰ الذی ارسلھم ․․․․․ وعلینا الایمان بانھم بلغوا جمیع ما ارسلوا بہ علی ما امرھم الله بہ وانھم بینوہ بیانا لا یسع احدا ممن ارسلوا الیہ جھلہ ولا یحل خلافہ ․․․․ الخ۔

․․․․․ واما الایمان بالکتب المنزلة علی المرسلین فنوٴمن بما سمی الله تعالیٰ منھا فی کتابہ من التوراة والانجیل والزبور، ونوٴمن بان الله تعالیٰ سوی ذالک کتبا انزلھا علی انبیائہ لا یعرف اسمائھا وعددھا الا الله تعالیٰ۔”

ترجمہ:…”اور اسی کتاب کے ص:۳۱۱ پر ہے: رہے انبیاء اور رسول! پس ہمارے ذمہ واجب ہے کہ ان میں سے ان تمام نبیوں پر ایمان لائیں جن کا قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، (اسی طرح) اس پر بھی ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ دوسرے انبیاء اور رسول بھی بھیجے کہ جن کے نام اور تعداد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ․․․․․․ اور ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کو جن احکام کے پہنچانے کا حکم دیا تھا، ان انبیاء نے وہ تمام احکام پہنچادئیے، اور انبیاء نے ان احکام کو اتنا کھول کھول کر بیان کردیا کہ امت میں سے ناواقف سے ناواقف آدمی کو بھی کوئی اشکال نہ رہا، اور ان کے خلاف کرنا حلال نہ رہا ․․․․․․ اور رہا ان کتابوں پر ایمان لانا جن کو رسولوں پر نازل کیا گیا، سو ہم ان تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں، جن کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نام لیا ہے، یعنی تورات، انجیل اور زبور، اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان مذکورہ کتابوں کے علاوہ اور کتابیں بھی اپنے انبیاء پر نازل فرمائیں، جن کا نام اور ان کی تعداد سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔”

“وفی شرح العقیدة الطحاویة للمیدانی ص:۱۰۴: والایمان المطلوب من المکلف ھو الایمان بالله وملٰئکتہ وکتبہ بانھا کلام الله تعالیٰ الازلی القدیم المنزہ عن الحروف والاصوات وبانہ تعالیٰ انزلھا علیٰ بعض رسلہ بالفاظ حادثة فی الواح او علیٰ لسان ملک وبان جمیع ما تضمنتہ حق وصدق، ورسلہ بانہ ارسلھم الی الخلق لھدایتھم وتکمیل معاشھم معادھم وایدھم بالمعجزات الدالة علیٰ صدقھم فبلغوا عنہ رسالتہ ․․․․․الخ۔”

ترجمہ:…”اور میدانی کی شرح عقیدہٴ طحاویہ ص:۱۰۴ پر ہے: مکلف (یعنی جن و انس) سے جو ایمان مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ: اللہ پر ایمان لانا، اور اس کے فرشتوں پر، اور اس کی تمام کتابوں پر، اس طرح ایمان لانا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام، کلامِ ازلی اور قدیم ہے، جو حروف اور آواز سے پاک ہے، اور نیز اللہ تعالیٰ نے اس کلام کو اپنے بعض رسولوں پر تختیوں میں حادث الفاظ کی صورت میں نازل کیا، یا فرشتہ کی زبان پر اتارا۔ اور نیز وہ تمام کا تمام کلام جس پر کتاب مشتمل ہے حق اور سچ ہے۔ اور اللہ کے رسول جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی طرف ان کی ہدایت، اور ان کی تکمیل معاش و معاد کے لئے بھیجا، اور ان انبیاء کی ایسے معجزات سے تائید کی جو ان انبیاء کی سچائی پر دلالت کرتے ہیں۔ ان انبیاء نے اللہ کے پیغام کو پہنچایا۔”

“قال القاضی عیاض فی شرح الشفاء ص:۳۳۵: واعلم ان من استخف بالقرآن او المصحف او بشیء منہ او سبہ او جحدہ او حرف منہ او آیة او کذب بہ او بشیء مما صرح بہ فیہ من حکم او خبر او اثبت ما نفاہ او نفی ما اثبتہ علیٰ علم منہ بذالک او شک فی شیء من ذالک فھو کافر عند اھل العلم باجماع۔”

ترجمہ:…”علامہ قاضی عیاض شرح شفاء ص:۳۳۵ میں لکھتے ہیں: جان لیجئے کہ جس نے قرآن یا کسی مصحف، یا قرآن کی کسی چیز کو ہلکا جانا یا قرآن کو گالی دی یا اس کے کسی حصہ کا انکار کیا یا کسی حرف کا انکار کیا یا قرآن کو جھٹلایا، یا قرآن کے کسی ایسے حصہ کا انکار کیا جس میں کسی حکم یا خبر کی صراحت ہو، یا کسی ایسے حکم یا خبر کو ثابت کیا جس کی قرآن نفی کر رہا ہے، یا کسی ایسی چیز کی جان بوجھ کر نفی کی جس کو قرآن نے ثابت کیا ہے، یا قرآن کی کسی چیز میں شک کیا ہے، تو ایسا آدمی بالاجماع، اہل علم کے نزدیک کافر ہے۔”

“وفی شرح العقائد ص:۲۱۵: وافضل الانبیاء محمد صلی الله علیہ وسلم، لقولہ تعالیٰ: “کنتم خیر امة۔” ولا شک ان خیریة الامة بحسب کمالھم فی الدین وذالک تابع لکمال نبیھم الذی یتبعونہ۔”

ترجمہ:…”شرح عقائد ص:۲۱۵ میں ہے کہ: انبیاء میں سے سب سے افضل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ تعالیٰ کے اس قول کی وجہ سے کہ: “تم بہترین امت ہو!” اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امت کا بہترین ہونا دین میں ان کے کمال کے اعتبار سے ہے، اور امت کا دین میں کامل ہونا یہ تابع ہے ان کے اس نبی کے کمال کے، جس کی وہ اتباع کر رہے ہیں۔”

“وفی المشکوٰة: عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ سلم: انا سید ولد آدم یوم القیامة واول من ینشق عنہ القبر واول شافع واول مشفع۔” (رواہ مسلم)

ترجمہ:…”اور مشکوٰة شریف میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کی قبر کھلے گی، اور میں سب سے پہلے سفارش کرنے والا ہوں گا، اور سب سے پہلے میری سفارش قبول کی جائے گی۔”

“وفی المرقاة ج:۷ ص:۱۰: فی شرح مسلم للنووی ․․․․․ وفی الحدیث دلیل علیٰ فضلہ علیٰ کل الخلق لان مذھب اھل السنة ان الآدمی افضل من الملٰئکة وھو افضل الآدمیین بھذا الحدیث۔”

ترجمہ:…”اور مرقاة ج:۷ ص:۱۰ میں ہے کہ: یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام مخلوق پر فضیلت کی دلیل ہے، کیونکہ اہل سنت کا مذہب ہے کہ آدمی ملائکہ سے افضل ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حدیث کی بنا پر تمام آدمیوں سے افضل ہیں (تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے افضل ہوئے)۔”

الغرض یہ شخص ضال و مضل اور مرتد و زندیق ہے، اسلام اور قرآن کے نام پر مسلمانوں کے دین و ایمان پر ڈاکہ ڈال رہا ہے، اور سیدھے سادے مسلمانوں کو نبیٴ آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے دامنِ رحمت سے کاٹ کر اپنے پیچھے لگانا چاہتا ہے۔

حکومتِ پاکستان کا فرض ہے کہ فوراً اس فتنہ کا سدباب کرے، اور اس بے دین کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے اور اسے ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ اس کی آئندہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں، اور کوئی بدبخت آئندہ ایسی جرأت نہ کرسکے۔

نیز اس کا بھی کھوج لگایا جائے اور اس کی تحقیق کی جائے کہ کن قوتوں کے اشارہ پر یہ لوگ پاکستان میں اور مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی کی فضاء پیدا کر رہے ہیں؟