السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بیعت کی کتنی قسمیں ہیں اور کیا کیا ہیں کچھ وضاحت کریں
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ
الجواب ومنہ الصدق الصواب
حامداً ومصلیا امابعد —
️بیعت کی اہمیت و مقصد اور اس کا ثبوت
بیعت تین (۳) طرح کی ہوتی ہے:
(۱) بیعتِ اسلام:- یعنی کوئی کافر شخص کسی مسلمان کے ہاتھ پر کلمہ شہادت پڑھے، اور اسلام کا اقرار کرے۔
(۲) بیعت اطاعت:- جس کا مطلب یہ ہے کہ امام المسلمین اور حاکم شرعی کے ہاتھ پر اس کی سمع وطاعت کا عہد کیا جائے، اسی میں بیعت ہجرت وجہاد بھی شامل ہے۔
(۳) بیعتِ توبہ:- جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی صالح، متبع شریعت شخص کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے برائیوں سے بچنے کی بیعت کی جائے، جیساکہ دورِ نبوت سے لے کر آج تک اہل اللہ مشائخ کے درمیان جاری ہے
ایسے صاحب نسبت متبع شریعت عالم دین کو نصب العین بنائے بغیر اعمال کی اصلاح اور دائرہ شریعت میں رہ کر اسلامی زندگی مشکل ودشوار ہے؛ جو لوگ صاحب نسبت، متبع شریعت عالم کے ہاتھ پر بیعت نہیں ہیں، ان کو عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ چاہے کتنے ہی بڑے عالم اور صاحب قلم کیوں نہ ہوں، بار بار راستے سےبھٹکتے رہے؛
میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں، ان کے ذریعہ سے اس کی ضرورت کہاں تک ہے سمجھ میں آسکتی ہے
۱ /مثلاً ماضی قریب کے مشہور ترین عالم اور صاحب ِقلم حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحبؒ اور عرب وعجم کے نمبر ۱؎ کے عالم دین حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحبؒ، یہ دونوں حضرات اپنی اپنی جگہ بڑے عالم اور صاحب قلم ہونے کے باوجود ابوالاعلیٰ مودودی کے قلم سے متأثر ہوکر خود بھی مودودی ہوگئے اور موددیت کی گمراہ کن ذہنیت لے کر ایک مدت تک ان حضرات نے مودودیت کی ترجمانی کی ہے؛ لیکن اللہ نے حفاظت فرمائی کہ دونوں حضرات حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوریؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے، تو اللہ نے ان کی برکت سے حفاظت فرمائی کہ دونوں حضرات نے مودودیت سے توبہ کرلی اور ندامت کا اعلان اپنی کتابوں میں کیا،پھر حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تو مودودیت کے گمراہ کن عقائد کو واضح کرکے مسلمانوں کو اس سے روشناس فرمایا.
۲ /نیز ماضی قریب کے مشہور مفسر قرآن حضرت مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادیؒ ان کو اپنی معلومات اور اپنے قلم پر ناز تھا، مگر ادھر ادھر بھٹکتے رہے، آخر کار جب خانقاہ تھانہ بھون میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے حکم سے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے اور تربیت کی ذمہ داری خود حضرت تھانویؒ نے لی،
۳ /نیز ماضی قریب کے مشہور ترین سیرت نگار حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ، ان کو بھی اپنی معلومات، شستہ تحریر پر بڑا ناز اور فخر تھا اور بیعت سے پہلے ان کی تحریر وتقریر بھی دائرہ اسلام سے باہر بھٹکتی رہی، جب ایک مدت کے بعد حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت ہوگئے، تو ان کو بھی اپنی تحریروں میں لغزشیں نظر آنے لگیں اور وہ بھی اپنی پچھلی بہت سی تحریروں سے رجوع فرما کر حضرت تھانویؒ سے اصلاح لیتے رہے،
تو جب اتنے بڑے بڑے علماء کو بھی اعمال کی اصلاح اور شریعت کے دائرہ میں رہ کر کتاب وسنت پر عمل کے لئے شیخ کامل کے ہاتھ پر بیعت ہونے کی ضرورت پڑی تو دوسرے لوگوں کو اس کام کی کہاں تک ضرورت ہے، ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے؛ اس لئے صاحب نسبت عالم کے ہاتھ پر بیعت ہوجانے کو سنت کہا جاتا ہے۔
مستفاد:-
فتاوی قاسمیہ
کتاب النوازل
فتاوی دینیہ
———————————–
بیعت کا مقصد:
بیعت کا مقصد یہ ہے کہ انسان غفلت اور معصیت سے نکل کر تقویٰ اور طاعت کی زندگی بسر کرنے لگے
مواہب رہبانیہ میں ہیں
اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کرلیں تو کسی سچے اللہ والے سے بیعت ہوجاؤ کیوں کہ دنیا میں اللہ سے مصافحہ کا کوئی راستہ نہیں، لیکن جو بیعت ہوتا ہے وہ اپنے شیخ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے اور شیخ کا ہاتھ اگلے شیخ کے ہاتھ پر ہے یہاں تک کہ یہ ہاتھ واسطہ در واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک تک پہنچتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ؎ نبی کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے تو جس کو اللہ سے مصافحہ کرنا ہو، زمین والے کو آسمان والے سے مصافحہ کرنا ہو تو وہ کسی راکٹ سے اللہ تک نہیں جاسکتا لیکن اگر کسی اللہ والے کا مرید ہوگیا تو اس کا ہاتھ واسطہ در واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک تک پہنچ گیا اور آپ کے دستِ مبارک کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے نبی کے ہاتھ کو نبی کا ہاتھ مت سمجھو یہ یَدُ اللہِ ہے۔ سچے اللہ والوں سے بیعت کا یہ راستہ اتنا پیارا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ اللہ سے مصافحہ کا کوئی اور راستہ مجھے دلائل سے بتادو۔ میں تو دلیل پیش کررہا ہوں۔
———————————
بیعت ہونا سنت ہے یا واجب
محققین علماء کے نزدیک بیعتِ توبہ جو مشائخ کراتے ہیں، یہ مسنون ہے؛
واعلم أن البیعۃ سنۃ ولیست بواجبۃ (القول البدیع)
اس پر نجات کا مدار نہیں ہے،پس اگر کوئی شخص بیعت کے بغیر دین پر صحیح طرح عمل کرنے والا ہے تو وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ نجات پائے گا،
اصل چیز اتباعِ شریعت ہے، بیعت اس میں معاون ہوتی ہے۔
انفاس عیسی میں ہیں
یہ یقینی صحیح بات ہے کہ بیعت طریقت کی ضرورت عام نہیں ۔ لیکن باوجود اس کے پھر بھی نفس میں بعض امراض خفیہ ہوتے ہیں کہ وہ بدون تنبیہ شیخ محقق عارف کے سمجھ میں نہیں آتے اور اگر سمجھ میں بھی آجاتے ہیں تو ان کا علاج سمجھ میں نہیں آتا اس لیے تعلق شیخ حق سے ضروری ہوتا ہے ۔
———————————–
بیعت کا ثبوت
اب مختصر بیعت کا ثبوت بھی جان لیجئے
بیعت کا سلسلہ صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ اس لئے یہ فعل شریعت کے حکم کے مطابق ہے۔ قرآن شریف کی آیتیں اور احادیث کے فرمان اس بارے میں خوب واضح ہیں
قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرمایا گیا
(۱) “یایہا النبی اذا جائک المؤمنات یبایعنک علیٰ ان لا یشرکن باﷲ شیئا الخ
ترجمہ: اے نبی جب آئیں تیرے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو اس بات پر کہ شریک نہ ٹھہرائیں اللہ کا کسی کو اور چوری نہ کریں اور بدکاری نہ کریں اور اپنی اولاد کو نہ مارڈالیں اور طوفان نہ لائیں باندھ کر اپنے ہاتھوں اور پائوں میں اور تیری نافرمانی نہ کریں کسی بھلے کام میں تو توان کو بیعت کرلے اور معافی مانگ ان کے واسطے اللہ سے بیشک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ (ترجمہ: حضرت شیخ الہندؒ)
(۲) “إن الذین يبايعونك إنما يبایعون اللہ يداللہ فوق أيدیھم الخ
ترجمہ:جولوگ آپﷺ سے بیعت کررہے ہیں تووہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کررہے ہیں (کوینکہ مقصود آپ سے اس پربیعت کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائیں گے اور جب یہ بات ہے توگویا) خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے؛ پھر(بیعت کے بعد) جوشخص عہد توڑیگا (یعنی بجائے اطاعت کے مخالفت کریگا) تواس عہد کے توڑنے کا وبال اسی پر پڑیگا اور جوشخص اس بات کوپورا کریگا جس پر (بیعت میں)خدا سے عہد کیا ہے توعنقریب خدا اس کوبڑا اجردیگا۔ (بیان القرآن)
مشکوۃ میں روایت ہیں: عن عبادۃ بن الصامت قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحولہ عصابۃ من أصحابہ: ’’بایعوني علی أن لا تشرکوا باللہ شیئاً ولا تسرقوا ، ولا تزنوا ، ولا تقتلوا أولادکم (مشکوة)
نسائی میں روایت ہے: عن عوف ابن مالک الاشجعی قال کنا عند رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تسعۃ اوثمانیۃ اوسبعۃ فقال الاتبایعون رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فبسطنا ایدینا وقلنا علی مانبایعک یارسول اﷲ؟ قال: علٰی ان تعبدوا اﷲ ولا تشرکوا باﷲ شیئاً وتصلوا الصلوٰات الخمس وتسمعوا وتطیعوا (نسائی)
واللہ اعلم بالصواب و علمہ اتم
کتبہ: عطاءالرحمن بن محمد حنیف بڑودوی
#واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم
#✍نقلہ: احمد بن محمد ارشد خان
#رکن : المسائل الشرعیہ الحنفیہ
……………
سوال # 36121
JENAB MOFTI صاحب
پیر طریقت سے کیا مرد ہے – اس کی بنیدیی پہچان ہے اور بیت کی کتنی اقسام ہیں بارہ کرم تفصیل سے جواب دیں – کون تصوّف کی بیت لے سکتا ہے –
Published on: Jan 14, 2012
جواب # 36121
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی (ل): 219=143-2/1433
پیر طریقت سے مراد شیخ کامل ہے جس کی پہچان یہ ہے کہ وہ بہ قدر ضرورت علم دین رکھتا ہو، عقائد حقہ، اعمالِ صالحہ، اخلاقِ فاضلہ سے متصف ہو، حب جاہ حب مال، ریا حسد بغض وغیرہ کی اصلاح کسی شیخ محقق کی تربیت میں رہ کر کرچکا ہو اور اس شیخ محقق نے اس پر اعتماد کیا ہو، اور اس کو بیعت کرنے کی اجازت بھی دی ہو، بدعات سے پرہیز کرتا ہو، متبع سنت ہو، مذکورہ بالا اوصاف کا حامل شخص ہی تصوف کی بیعت لے سکتا ہے، ہرکسی کے ہاتھ پر بیعت ہوجانا درست نہیں، بیعت کی پانچ قسمیں ہیں۔
(۱) بیعت اسلام۔
(۲) بیعت جہاد۔
(۳) بیعت خلافت۔
(۴) بیعت سلوک۔
(۵) بیعت معاہدہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Tasawwuf/36121