گانوں کے ذریعہ تبلیغ کرنا
س… ایک خاتون ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ وہ گانوں کے ذریعے یعنی ریکارڈ پر اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا چاہتی ہیں، اب آپ بتائیں کہ کیا اسلام کی رُو سے ایسا کرنا جائز ہے؟
ج… گانے کو تو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے، تو یہ گاکر اللہ کا پیغام کیسے پہنچائیں گی․․․؟ یہ تو شیطان کا پیغام ہے جو گانے کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
کیا موسیقی رُوح کی غذا اور ڈانس ورزش ہے؟
س… کیا یہ دُرست ہے کہ موسیقی رُوح کی غذا ہے؟ کیا رقص و موسیقی کو “فحاشی” کہنا دُرست ہے؟ ہم جب بھی رقص و موسیقی کے لئے لفظ “فحاشی” استعمال کرتے ہیں تو لوگ یوں گرم ہوتے ہیں جیسے ہم نے کوئی گناہِ کبیرہ کردیا ہو۔ ۲- کیا لوک رقص اور دُوسرے ڈانس اسلام کی رُو سے جائز ہیں؟ ۳-عموماً لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ اگر ڈانس ورزش کے خیال سے کیا جائے، خواہ وہ کسی بھی قسم کا ڈانس ہو، تو جائز ہے۔ کیا یہ دُرست ہے؟
ج… یہ تو صحیح ہے کہ موسیقی رُوح کی غذا ہے، مگر شیطانی رُوح کی غذا ہے، اِنسانی رُوح کی نہیں، اِنسانی رُوح کی غذا ذکرِ اِلٰہی ہے۔ ۲-رقص حرام ہے۔ ۳-یہ لوگ خود بھی جانتے ہیں کہ رقص اور ڈانس کو “ورزش” کہہ کر وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی شراب کا نام “شربت” رکھ کر اپنے آپ کو فریب دینے کی کوشش کرے۔
موسیقی غیرفطری تقاضا ہے
س… آپ فرماتے ہیں کہ: “موسیقی سے رُوح نہیں نفس خوش ہوتا ہے” یعنی آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اِنسانی جبلت میں جہاں بھوک پیاس اور جنسی خواہشات ہوتی ہیں وہاں موسیقی سے لطف اندوز ہونے کی جبلت بھی ہوتی ہے۔ اب بھوک کے لئے حلال روٹی اور جنسی تقاضے کے لئے نکاح تو ہمیں اسلام نے عطا کئے ہیں، لیکن جبلت نفس جو موسیقی طلب ہے اس کے لئے اسلام نے کیا دیا ہے؟ جبکہ اچھے قاری کی قرأت باسط اور لحنِ داوٴد علیہ السلام سے کائنات وجد میں آجاتی ہے، یہ کیوں؟
ج… ایک اُصول جو ہر جگہ آپ کے لئے کارآمد ہوگا، یاد رکھنا چاہئے کہ اِنسانی تقاضے کچھ فطری ہیں، کچھ غیرفطری، ان دونوں کے درمیان اکثر لوگ امتیاز نہیں کرتے۔ حق تعالیٰ شانہ جو خالقِ فطرت ہیں، انہوں نے اِنسان کے فطری تقاضوں کی تسکین کے لئے پورا سامان مہیا کردیا ہے، اور غیرفطری تقاضوں کی تکمیل سے ممانعت فرمادی ہے۔ خوش الحانی سے اچھا کلام پڑھنا اور سننا ایک حد تک فطری تقاضا ہے، اسلام نے اس کی اجازت دی ہے، لیکن ساز و آلات وغیرہ غیرفطری تقاضے ہیں، ان سے منع فرمایا ہے۔
موسیقی اور اسلامی ثقافت
س… جنگ کراچی میں جمعہ ۳۱/مارچ کو ایک حکومت کے ثقافتی شعبے نے اِشتہار دیا تھا، جس میں ان لوگوں سے تربیت کے لئے درخواستیں مانگی ہیں، ۱-موسیقی اور گانا سیکھنا چاہتے ہیں، ۲-رقص سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری اسلامی حکومت نے انتہائی جرأت سے اسلام ہی کی مخالفت کی ہے، آپ برائے مہربانی اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ضرور فرمائیں۔
ج… راگ رنگ، رقص و سرود اور موسیقی اسلامی ثقافت کا شعبہ نہیں بلکہ جدید جاہلی ثقافت کا شعبہ ہے، جو شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ پاکستان کی حکومت کا سرکاری سطح پر اس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنا، اسلامی نقطئہ نظر سے لائقِ صد مذمت ہے۔ افسوس کہ ہمارے حکمران (قیامِ پاکستان سے آج تک) نام تو اسلام کا لیتے ہیں، مگر سرپرستی شعارِ جاہلیت اور شعارِ کفار کی کرتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کی آخری حدوں کو پھلانگ رہا ہے۔
موسیقی اور سماع
س… چند دنوں پیشتر اِمام غزالی کی کتاب “کیمیائے سعادت” کا اُردو ترجمہ “نسخہٴ کیمیا” کا باب ہشتم بہ عنوان “آداب و اَحکامِ سماع و وجد” پڑھنے کا اتفاق ہوا، جس کو پڑھ کر مجھ ناچیز کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ موسیقی اگر کبھی کبھی اور خوشی کے مواقع پر سنی جائے تو جائز ہے۔ کیا یہ بات دُرست ہے؟
ج… دُرست نہیں! “سماع” کے معنی آج کی مروّجہ موسیقی کے نہیں، یہ خاص اصطلاح ہے اور اس کے آداب و شرائط ہیں۔
ڈراموں اور فلموں میں کبھی خاوند، کبھی بھائی ظاہر کرنا
س… جناب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے اسلامی ملک پاکستان میں فلمیں اور ڈرامے بنتے ہیں، ان میں عجیب سی روایات ہیں، وہ یہ کہ ایک آدمی کو ایک فلم یا ڈرامے میں ایک عورت کا خاوند دِکھایا جاتا ہے، اسی آدمی کو دُوسرے ڈرامے میں اسی عورت کا یا تو بھائی، بیٹا اور یا کسی اور رشتے سے دِکھایا جاتا ہے، یہ چیزیں ہمارے مذہب (اسلام) میں کہاں تک جائز ہیں؟ اور اگر ناجائز ہیں تو اس کے لئے کیا روک تھام ہوسکتی ہے؟
ج… جب فلمیں اور ڈرامے ہی جائز نہیں، تو جو چیزیں آپ نے لکھی ہیں، ان کے جائز ہونے کا کیا سوال ہے․․․؟
ورائٹی شو، اسٹیج ڈرامے وغیرہ میں کام کرنا اور دیکھنا
س… رقص و سرود، موسیقی، ورائٹی شو، اسٹیج ڈرامے وغیرہ میں کسی حیثیت سے بھی حاضری دینا، اسلامی رُوح کے خلاف ہے، یہ بات ہمیں علمائے دِین سے معلوم ہوئی ہے۔ آج کل کراچی میں اس قسم کی تفریحات کا بڑے زور و شور سے رواج بڑھ رہا ہے۔ ٹی وی اور فلم کے اداکار جب سے اسٹیج ڈراموں میں آنے لگے تو ڈراموں کے کرتا دھرتاوٴں نے ٹکٹ کی قیمت ۵۰ سے ۲۰۰ تک کرادی، پھر بھی لوگ پسند کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یہ پسند ہم کو کاہلی، تن آسانی اور عیاشی کی طرف مائل کرتی ہے، اسی طرح ہمیں اپنے فرضِ منصبی سے غافل کرتی ہے۔ میں آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اس طرح تفریح میں جتنے لوگ شریک ہیں، کیا سب گناہگار ہیں؟ جو پیشہ ور لوگ ہیں وہ تو محنت سے روزی کماتے ہیں، مثلاً اداکار، گلوکار اور دیگر ملازمین وغیرہ۔
ج:… گناہ کے کام میں شرکت کرنے والے سبھی گناہگار ہیں، گو درجات کا فرق ہو، اور غلط کام سے روزی کمانا بھی غلط ہے۔
بچے یا بڑے کی سالگرہ پر ناچنے والوں کا انجام
س… جو مسلمان اپنے گھر میں بچے یا بڑے کی سالگرہ مناتے ہیں، جو کہ یہودانہ رسم ہے، اس موقع پر گھر کے نوجوان لڑکے اور باہر کے غیرمحرَم لڑکے کیک کاٹنے کے بعد ہیجڑوں کی طرح اپنی ماں، بہنوں اور دُوسری مسلمان خواتین کے ساتھ مل کر ناچتے ہیں، اور پھر وہی لوگ کبھی اس ہی گھر میں ختمِ قرآن بھی کراتے ہیں۔ ان لوگوں کا آخرت میں کیا مقام ہوگا؟ شریعت کی رُو سے بیان فرمائیے۔
ج… آخرت میں ان کا مقام تو اللہ ہی کو معلوم ہے، البتہ ان کا یہ عمل کئی کبیرہ گناہوں کا مجموعہ ہے۔
ساز کے بغیر گیت سننے کا شرعی حکم
س… اگر کوئی شخص بغیر ساز و موسیقی کے سراً یا جہراً گیت گاتا ہے تو دونوں صورتیں جائز ہیں یا ناجائز؟ یا عورت انفرادی یا اجتماعی، سراً یا جہراً کہ اس کو اس عورت کے محرَم سنتے ہوں، گیت گائے تو کیا حکم ہے؟ اور اگر اس کو اس کے غیرمحرَم بھی سنتے ہوں تو کیا حکم ہے؟ جبکہ یہی گیت ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ میں ساز و موسیقی کے ساتھ گایا جاتا ہے۔ اب اگر ان تمام صورتوں میں دف بجاکر گیت گایا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس میں ہمارے بہت سارے رُفقاء مبتلا ہیں اور اس کو گناہ بھی نہیں سمجھتے ہیں، تو اس مسئلے کی وضاحت منظرِ عام پر لانا ضروری ہے۔
ج… ساز اور آلات کے ساتھ گانا حرام ہے، خواہ گانے والا مرد ہو یا عورت، اور تنہا گائے یا مجلس میں، اسی طرح جو اَشعار کفر و شرک یا کسی گناہ پر مشتمل ہوں ان کا گانا بھی (گو آلات کے بغیر ہو) حرام ہے۔ البتہ مباح اَشعار اور ایسے اَشعار جو حمد و نعت یا حکمت و دانائی کی باتوں پر مشتمل ہوں، ان کو ترنم کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ اور اگر عورتوں اور مردوں کا مجمع نہ ہو تو دُوسروں کو بھی سنانا جائز ہے۔ اگر عورت بھی تنہائی میں یا عورتوں میں ایسے اَشعار ترنم سے پڑھے (جبکہ کوئی مرد نہ ہو) جائز ہے۔ آج کل کے عشقیہ گیت کسی حکمت و دانائی پر مشتمل نہیں، بلکہ ان سے نفسانی خواہشات اُبھرتی ہیں اور گناہ کی رغبت پیدا ہوتی ہے، اس لئے یہ قطعی حرام ہیں، عورتوں کے لئے بھی اور مردوں کے لئے بھی۔ حدیث میں ایسے ہی راگ گانے کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ دِل میں نفاق پیدا کرتا ہے۔
معیاری گانے سننا
س… مجھے گانے سننے کا بہت شوق ہے، لیکن مجھے بے ہودہ اور اخلاق سے گرے ہوئے گانوں سے نفرت ہے، کیا میں اچھے اور معیاری گانے سن سکتا ہوں؟
ج… گانے معیاری ہوں یا گھٹیا، حرام ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
“من قعد الی قنیة یستمع منھا صبّ الله فی أُذنیہ الآنک یوم القیامة۔”
(کنز العمال ج:۱۵ ص:۲۲۰، حدیث نمبر:۴۰۶۶۹)
ترجمہ:… “جو شخص کسی گانے والی عورت کی طرف کان لگائے گا، قیامت کے دن ایسے لوگوں کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔”
موسیقی پر دھیان دئیے بغیر صرف اَشعار سننا
س… اگر کسی ایسے مجمع میں جانے کا اتفاق ہو جس میں جائز اَشعار مزامیر اور موسیقی کے ہمراہ پڑھے جارہے ہوں تو موسیقی پر دھیان دئیے بغیر وہ جائز اَشعار سن لینا چاہئے یا نہیں؟
ج… جس مجلس میں مزامیر، موسیقی اور دیگر لہو و لعب کی چیزیں اور محرّمات کا ارتکاب ہو رہا ہو، ایسی مجلس میں بیٹھنا ہی جائز نہیں ہے، اگرچہ اس کی جانب توجہ اور دھیان نہ کیا جائے۔
موسیقی کی لت کا علاج
س… میری عمر ۳۳ سال ہے، ۲۸ سال کی عمر تک مجھے موسیقی سے بے حد لگاوٴ رہا، ۱۹۸۱ء میں حج کی سعادت نصیب ہوئی، اس کے بعد سے میں نے ہر طرح کی موسیقی سننے، ٹیپ ریکارڈر اپنے پاس رکھنے یا گاڑی میں استعمال کرنے سے اور ٹی وی غیرہ تمام سے توبہ کرلی، لیکن اب کچھ عرصے سے جب بھی صبح فجر کی نماز کے لئے اُٹھتا ہوں تو دِماغ میں گانے بھرے ہوتے ہیں، عشاء کے بعد سوتے وقت یہی حالت ہوتی ہے اور دن میں اکثر اوقات یہی حالت رہتی ہے، اس کیفیت سے سخت پریشان ہوں، براہِ کرم کوئی رُوحانی علاج تجویز فرمائیے۔
ج… غیراختیاری طور پر اگر گانے دِماغ میں گھومنے لگیں تو اس پر کوئی موٴاخذہ نہیں، کثرتِ ذکر اور کثرتِ تلاوت سے رفتہ رفتہ اس کیفیت کی اصلاح ہوجائے گی، جیسے کوئی چیز دیکھنے کے بعد آنکھیں بند کرلیں تو کچھ دیر تک اس چیز کا نقشہ گویا آنکھوں کے سامنے رہتا، رفتہ رفتہ زائل ہوجاتا ہے۔ بقول شخصے “اَسّی سال کا گھسا ہوا “رام رام” نکلتے نکلتے نکلے گا، ایک دَم تھوڑا ہی نکلے گا۔” بہرحال اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، البتہ توبہ و اِستغفار کی تجدید کرلیا کریں۔
گانے سننے کی بُری عادت کیسے چھوٹے گی؟
س… میں گانے بجانے کا نہایت ہی شوقین ہوں، یہ شیطانی عمل ہے، چھوٹتا نہیں، اس لئے آپ صاحبان کی خدمت میں اِلتجا کی جاتی ہے کہ کوئی ایسا عمل، طریقہ، وظیفہ تجویز فرمائیں کہ اس عمل سے دِل و دِماغ خالی ہوجائے۔
ج… اختیاری عمل کے لئے استعمالِ ہمت کے سوا کوئی وظیفہ نہیں، البتہ دو چیزیں اس کی معین ہیں، ایک یہ کہ قبر اور حشر میں اس گناہ پر جو سزا ملنے والی ہے، اس کو سوچے، دُوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے نہایت اِلتجا کے ساتھ دُعا کرے۔ رفتہ رفتہ اِن شاء اللہ یہ عادت چھوٹ جائے گی۔
طوائف کا ناچ اور گانا
س… ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے ہر شہر میں کچھ مخصوص علاقوں میں ناچ گانے کا کاروبار ہوتا ہے، جسے “مجرا” کہتے ہیں، جس میں عورتیں، جنھیں “طوائف” کہا جاتا ہے، اپنی نازیبا حرکات اور لباس سے مرد حضرات کو، جنھیں “تماش بین” کہا جاتا ہے، گانا سناتی ہیں اور ناچتی ہیں۔ کیا اسلام میں یہ جائز ہے؟ اگر نہیں تو یہ کاروبار ہمارے ملک میں کھلے عام کیوں چل رہا ہے؟ کیا اس کا گناہ ہمارے حکمران پر نہیں آتا؟ کیا اس کا گناہ ہمارے علماء، صدر صاحب، علاقے کے کونسلر، ممبر صوبائی اور قومی اسمبلی پر نہیں آتا، جو اس کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے؟ کیا یہ گناہ محلے والوں پر ہوتا ہے جو اس علاقے میں رہتے ہیں؟
ج… طوائف کے ناچ اور گانے کے حرام ہونے میں کیا شبہ ہے․․․؟ جو لوگ اس فعلِ حرام کا ارتکاب کرتے ہیں، اور جو لوگ قدرت کے باوجود منع نہیں کرتے، وہ سب گناہگار ہیں۔ اہلِ علم کا کام زبان سے منع کرنا ہے، اور اہلِ حکومت کا کام زور اور طاقت سے منع کرنا ہے۔
بغیر ساز کے نغمے کے جواز کی شرائط
س… میرا ایک دوست کہتا ہے کہ نغمے بغیر ساز کے گانا گناہ نہیں ہے، وہ یہ کہتا ہے کہ گانے کے گناہ ہونے کی دو وجوہات ہیں، ایک ساز اور دُوسری اس کے بول۔ اگر گانے کے بول بھی غیراسلامی نہ ہوں اور ساز بھی نہ ہو تو گانا گایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ نغمے بغیر ساز کے گانا بُرا نہیں، جبکہ ان کے بول بھی اچھے ہوتے ہیں اور ان میں وطن سے محبت ہوتی ہے۔ براہِ کرم یہ بتائیں کہ آیا اس کی بات دُرست ہے کہ نہیں؟
ج… اچھے اَشعار ترنم کے ساتھ پڑھنا سننا جائز ہے، تین شرطوں کے ساتھ:
۱:… پڑھنے والا پیشہ ور گویا، فاسق، بے رِیش لڑکا یا عورت نہ ہو، اور اس مجلس میں بھی کوئی بچہ یا عورت نہ ہو۔
۲:… اَشعار کا مضمون خلافِ شرع نہ ہو۔
۳:… ساز و آلاتِ موسیقی نہ ہوں۔
ریڈیو کی جائز باتیں سننا گناہ نہیں
س… ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا رواج عام ہوگیا ہے، تقریباً ہر غریب اَمیر گھرانے میں پایا جاتا ہے، ریڈیو پر عموماً ہر قسم کے پروگرام نشر ہوتے رہتے ہیں، تلاوتِ قرآن مجید، اَذان، نمازِ حرم شریف، حمد و نعت، مناجات، دِینِ متین سے متعلق سوال و جواب، اسلامی تقریریں، طبّی سوالات و جوابات، محفلِ مشاعرہ، قوّالی ہارمونیم، ڈھولک کے ساتھ، ڈرامے، گانے وغیرہ وغیرہ نشر ہوتے رہتے ہیں۔ تحریر فرمائیے اس میں کس طرح کے پروگرام سننے چاہئیں اور کس طرح سننا چاہئے؟ جیسے تلاوت ہو رہی ہے تو کس طرح سنا جائے؟ اس کے آداب کیا ہوں گے؟ وغیرہ تفصیلات سے آگاہ فرمائیں، یعنی ریڈیو کا طریقہٴ استعمال اسلامی کیا ہے؟
ج… ریڈیو میں تو صرف آواز ہوتی ہے، اس لئے ریڈیو پر مفید اور جائز باتوں کا سننا جائز ہے، اور گانے باجے یا اس قسم کی لغو باتیں سننا گناہ ہے۔ ٹیلی ویژن پر تصویر بھی آتی ہے، اس لئے وہ مطلقاً جائز نہیں۔
کیا قوّالی جائز ہے؟
س… قوّالی جو آج کل ہمارے یہاں ہوتی ہے، اس کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ صحیح ہے یا غلط؟ جبکہ بڑے بڑے ولی اللہ بھی اس کا اہتمام کیا کرتے تھے اور اس میں سوائے خدا اور اس کے رسول کی تعریف کے کچھ بھی نہیں، اگر جائز نہیں تو کیا ہے؟ اور ہمارے اسلامی ملک میں فروغ کیوں پارہی ہے؟
ج… نعتیہ اَشعار کا پڑھنا سننا تو بہت اچھی بات ہے، بشرطیکہ مضامین خلافِ شریعت نہ ہوں۔ لیکن قوّالی میں ڈھول، باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال ہوتا ہے، یہ جائز نہیں۔ اور اولیاء اللہ کی طرف ان چیزوں کو منسوب کرنا، ان بزرگوں پر تہمت ہے۔
کیا قوّالی سننا جائز ہے جبکہ بعض بزرگوں سے سننا ثابت ہے؟
س… قوّالی کے جواز یا عدمِ جواز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ اور راگ کا سننا شرعاً کیسا ہے؟
ج… راگ کا سننا شرعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، شریعت کا مسئلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہمارے لئے دِین ہے، اگر کسی بزرگ کے بارے میں اس کے خلاف منقول ہو، اوّل تو ہم نقل کو غلط سمجھیں گے، اور اگر نقل صحیح ہو تو اس بزرگ کے فعل کی کوئی تأویل کی جائے گی، اور قوّالی کی موجودہ صورت قطعاً خلافِ شریعت اور حرام ہے، اور بزرگوں کی طرف اس کی نسبت بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔
سگے بہن بھائی کا اکٹھے ناچنا
س… ۱-کیا مذہبِ اسلام میں کسی سگے بہن بھائی کا ایک ساتھ ناچنا، گانا جائز ہے؟ اگر کوئی ایسا فعل کرے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور سزا کیا ہے؟ ۲-مذہبِ اسلام میں سگے بہن بھائی کا تصاویر میں قابلِ اعتراض ہونے کی شرعی حیثیت اور سزا کیا ہے؟
ج… اس پُرفتن دور میں دِینی انحطاط اور اخلاقی پستی کا عالم یہ ہے کہ معاشرے میں جو بھی بُرائی عام ہوجائے اسے حلال سمجھا جاتا ہے، ایک زمانہ وہ تھا کہ جو شخص گانے بجانے کا پیشہ اختیار کرتا وہ ڈوم اور میراثی کہلاتا تھا، اور لوگ اسے بُری نگاہ سے دیکھتے تھے، لیکن آج جو بھی یہ پیشہ اختیار کرتا ہے وہ “فنکار” کہلاتا ہے، اور اس کے پیشے کو “فن و ثقافت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور پھر ستم ظریفی یہ کہ جو بھی ان بُرائیوں کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اسے “رجعت پسند” اور “تنگ نظر” تصوّر کیا جاتا ہے۔
گانے بجانے کے متعلق ہادیٴ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند مبارک ارشادات ذیل میں ملاحظہ ہوں:
ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانا گانے اور گانا سننے سے منع فرمایا ہے۔”
“قال علیہ الصلٰوة والسلام: الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل۔” (درمنثور ج:۵ ص:۱۵۹)
ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: گانے کی محبت دِل میں اس طرح نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزہ اُگاتا ہے۔”
“عن عمران بن حصین رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: فی ھٰذہ الأُمّة خسف ومسخ وقذف۔ فقال رجل من المسلمین: یا رسول الله! ومتٰی ذٰلک؟ قال: اذا ظھرت القیان والمعازف، وشربت الخمور۔”(ترمذی شریف ج:۲ ص:۴۴)
ترجمہ:… “حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس اُمت میں بھی زمین میں دھنسنے، صورتیں مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے، اس پر ایک مسلمان مرد نے پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول! یہ کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا عام رواج ہوگا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔”
اسی طرح تصاویر کا معاملہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانداروں کی عام تصویر کشی کو حرام قرار دے کر تصویر بنانے والوں کو سخت عذاب کا مستحق قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:
۱:… “عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: أشد الناس عذابًا عند الله المصوّرون۔ متفق علیہ۔”
(مشکوٰة ص:۳۸۵)
ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ فرما رہے تھے کہ: لوگوں میں سے زیادہ سخت عذاب میں تصویر بنانے والے ہوں گے۔”
۲:… “عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: ․․․․․ من صوّر صورةً عذّب وکلّف ان ینفخ فیھا ولیس بنافخ۔ رواہ البخاری۔” (مشکوٰة ص:۳۸۶)
ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ: جس نے تصویر (جاندار کی) بنائی، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب میں رکھے گا جب تک وہ اس تصویر میں رُوح نہ پھونکے، حالانکہ وہ کبھی بھی اس میں رُوح نہیں ڈال سکے گا۔”
پس جب اسلام میں اس قسم کی عام تصویرکشی حرام ہے تو فحش قسم کی تصاویر بناکر شائع کرنا کیونکر جائز ہوگا؟ اور پھر بہن بھائی کا ایک ساتھ کھڑے ہوکر اور کمر میں ہاتھ ڈال کر تصاویر نکلوانا تو بے حیائی کی حد ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بہن بھائی کا رشتہ بہت ہی عزیز اور بہت ہی نازک ہے، اس لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں حکم دیا ہے:
“اذا بلغ أولادکم سبع سنین ففرقوا بین فروشھم۔” (کنز العمال حدیث نمبر:۴۵۳۲۹)
ترجمہ:… “جب تمہاری اولاد کی عمریں سات سال ہوجائیں تو ان کے بستر الگ الگ کرلو۔”
نیز فقہائے کرام نے خوفِ فتنہ کے وقت اپنے محارِم سے بھی پردہ لازمی قرار دیا ہے۔
الغرض! سوال میں جن حیاسوز واقعات کا ذکر ہے، وہ واقعی ایک غیور مسلمان کے لئے ناقابلِ برداشت ہیں، اور وہ اس پر احتجاج کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ فی الفور اس بے حیائی اور فحاشی کا سدِ باب کرے اور اس کے ذمہ دار افراد کو تعزیری طور پر سزائیں دِلوائے۔
ریڈیو اور ٹی وی کے ملازمین کی شرعی حیثیت
س… میں گورنمنٹ ادارے سے وابستہ ہوں، یعنی گورنمنٹ مالک اور میں ملازم، اس رشتے کے تحت مالک جو کہے غلام یا ملازم کا اس پر عمل کرنا ضروری ہے، اگر مالک کے حکم پر جھوٹ بولا جائے اور کسی پر بہتان تراشی کی جائے اور وہ بھی اس طرح کہ روزانہ لاکھوں کروڑوں افراد کے گوش گزار ہو تو اس عمل کی جزا اور سزا کا حق دار کون ہوگا، مالک یا ملازم؟ یعنی حکم دینے والا یا اس پر عمل کرنے والا؟ مزید وضاحت کردُوں کہ ریڈیو اور ٹی وی پر خبریں پڑھنا میری ڈیوٹی ہے، اور یہ اسکرپٹ افسرانِ بالا یعنی حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے اور اس میں میری مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا، بلاشبہ اس میں زیادہ تر مبالغہ آرائی اور بسااوقات الزام اور بہتان تراشی ہوتی ہے۔ اسلامی اُصول کے مطابق تبصرہ اور نصیحت فرمائیں تاکہ ضمیر مطمئن ہوسکے۔
ج… اللہ تعالیٰ کے بے شمار بندوں نے اس نوعیت کے خطوط لکھے، جن میں اپنی غلطیوں کے احساس کا اظہار کرکے تلافی کی تدبیر دریافت کی ہے۔ لیکن میرا خیال تھا کہ نشریاتی اداروں کے افسران اور کارکنان میں “ضمیر کا قیدی” شاید کوئی نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ آپ نے میری اس غلط فہمی کا اِزالہ کردیا اور معلوم ہوا کہ اس طبقے میں بھی کچھ باضمیر اور خدا ترس افراد ابھی موجود ہیں، جن کے طرزِ عمل پر ان کا ضمیر ملامت کرتا ہے اور ان کی ایمانی حس ابھی باقی ہے، اس بے ساختہ تمہید کے بعد اب آپ کے سوال کا جواب عرض کرتا ہوں۔
یہ بات تو ہر عام و خاص کے علم میں ہے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا اور اُجرت دے کر جرم کرانے والا قانون کی نظر میں دونوں یکساں مجرم ہیں، قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی ہوگی تو ہر شخص کو اَپنے قول و فعل کی جوابدہی کرنی ہوگی، اس وقت نہ کوئی آقا ہوگا، نہ ملازم، نہ کوئی اعلیٰ افسر ہوگا، نہ ماتحت، اگر کسی نے کوئی جرم سرکار کے کہنے پر کیا ہوگا تو یہ سرکار بھی پکڑی جائے گی اور اس کا کارندہ بھی۔
ہمارے نشریاتی ادارے (ریڈیو، ٹی وی) جو کچھ نشر کرتے ہیں ان کی چند قسمیں ہیں:
اوّل:… شریعتِ خداوندی کا مذاق اُڑانا، اہلِ دِین کی تضحیک کرنا، قرآن و سنت کی غلط سلط تعبیر کرنا، اور شرعی مسائل میں تحریف کرنا، یہ اور اس نوعیت کے دُوسرے اُمور ایسے ہیں جن کی سرحدیں کفر کے ساتھ ملتی ہیں، اور جو لوگ سرکار اور اعلیٰ افسران کے ایما پر ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، ان کا جرم ناقابلِ معافی ہے، خواہ وہ جان بوجھ کر ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہوں یا محض اعلیٰ افسران کی خوشنودی کے لئے۔
دوم:… سرکار کے مخالفین پر تہمت تراشی کرنا، ان پر غلط الزامات لگانا، کسی مسلمان کی تحقیر و تذلیل کرنا۔ اس قسم کی چیزیں حقوق العباد میں شامل ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی عدالت میں جب یہ مقدمات پیش ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ صاحبِ حق کو اس کا حق لازماً دِلائیں گے، اِلَّا یہ کہ صاحبِ حق اپنا حق معاف کردے، اور حق دِلانے کی صورت یہ ہوگی کہ حق تلفی کرنے والے کی نیکیاں صاحبِ حق کو دِلائی جائیں گی، اور اگر اس کے پاس نیکیاں ختم ہوگئیں تو صاحبِ حق کے گناہ اس پر ڈال دئیے جائیں گے، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ:
“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ: جانتے ہو مفلس کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: ہم میں تو وہ شخص مفلس شمار کیا جاتا ہے جس کے پاس نہ روپے پیسے ہوں، نہ ساز و سامان ہو۔ ارشاد فرمایا کہ: میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰة لے کر آئے، مگر اس حالت میں آئے کہ اس شخص کو گالی دی تھی، اس پر تہمت لگائی تھی، اس کا مال کھایا تھا، اس کا خون بہایا تھا، اس کی مارپیٹ کی تھی، پس ان تمام لوگوں کو جن کی حق تلفی کی تھی، اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی، پھر اگر نیکیاں ختم ہوگئیں اور لوگوں کے جو حقوق اس کے ذمہ تھے وہ پورے نہیں ہوئے تو ان لوگوں کے گناہوں میں سے کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دئیے جائیں گے، پھر اس کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔” (مشکوٰة ص:۴۳۵)
الغرض! اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ہر ظالم سے مظلوم کا بدلہ دِلایا جائے گا، اور قیامت کے دن نیکیوں اور بدیوں کے سوا اور کوئی سکہ نہیں ہوگا، لہٰذا ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دِلائی جائیں گی، اور اگر ظالم کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور مظلوم کا بدلہ ادا نہیں ہوسکا تو مظلوم کے گناہ ․․․بقدرِ حقوق․․․ ظالم کے ذمہ ڈال دئیے جائیں گے۔
سوم:… ظالم حکمرانوں کی مدح و تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا، ان کے جھوٹے کارناموں کی مبالغہ آرائی کے ساتھ تشہیر کرنا، وغیرہ وغیرہ۔
یہ چیزیں بھی گناہِ کبیرہ ہیں اور نشریاتی اداروں کے جتنے ملازمین ان گناہوں میں ملوّث ہیں قیامت کے دن ان کو ان گناہوں کی بھی جوابدہی کرنی ہوگی۔ پھر خواہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرمادیں، یا ان جرائم کے بقدر سزا دے دیں۔ ان اداروں کے ملازم ہونے کی حیثیت سے ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب تو آپ کے لئے ناگزیر ہے، اگر ان تمام گناہوں کا بوجھ اُٹھانے کی ہمت ہے تو بصد شوق ان اداروں میں ملازمت کیجئے، اور اگر ان گناہوں کا انبار کسی طرح بھی اُٹھائے نہیں اُٹھتا، تو اپنی آخرت بگاڑنے کے بجائے بہتر ہے کہ ملازمت سے استعفیٰ دے کر پیٹ کا دوزخ بھرنے کا کوئی اور انتظام کیجئے۔ اور اگر اس کی بھی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو کم سے کم درجے کی تدبیر یہ ہے کہ رات کی تنہائی میں یہ تصوّر کیجئے کہ میرا دفترِ عمل بارگاہِ اِلٰہی میں پیش ہے، اپنے تمام گناہوں پر توبہ و اِستغفار کیا کیجئے، اور جن جن لوگوں پر اتہام تراشی کی ہے، ان کے حق میں التزام کے ساتھ دُعائے مغفرت کرکے حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہ میں عرض کیا کیجئے کہ: “یا اللہ! جن جن بندوں کی میں نے حق تلفی کی ہے، ان کو میری طرف سے بدلہ ادا کرکے ان کو مجھ سے راضی کردیجئے اور مجھے ان سے معافی دِلادیجئے، اور جس قدر میں نے آپ کی حق تلفیاں کی ہیں، وہ بھی اپنی رحمت سے معاف کردیجئے۔” اگر آپ نے اس کو اپنا روزانہ کا معمول بنالیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے اُمید ہے کہ آپ کے گناہوں کا بوجھ ہلکا کردیں گے اور آپ کے ساتھ عفو و مغفرت کا معاملہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا یوم الحساب پیشِ نظر رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
ناجائز آمدنی اپنے متعلقین پر خرچ کرنا
س… اگر انسان حق و حلال اور محنت سے کمائے اور جائز دولت اپنی محنت سے کمائے تو کیا یہ آمدنی شرعی طور پر جائز ہوگئی؟ لیکن اگر انسان ناجائز، چوری، ڈکیتی، رِشوت اور غلط طریقے سے اَمیر بن جائے تو کیا اس کی اولاد کی پروَرِش، اس کے والدین کی پروَرِش، اس کی بیوی کے اخراجات کیا سب ناجائز ہوگئے؟ اور مولانا صاحب! کیا ناجائز آمدنی صرف غلط کاموں میں ہی خرچ ہوگی؟ کیا ناجائز اور رِشوت کی آمدنی سے حج نہیں کرسکتے؟
ج… جو شخص ناجائز طریقے سے کماتا ہے، مثلاً: چوری، ڈکیتی، رِشوت وغیرہ، وہ امیر نہیں بلکہ مفلس اور فقیر ہے، قیامت کے دن ایک ایک پیسہ اس کو ادا کرنا ہوگا، اور قیامت کے دن لوگوں کے گناہوں کا انبار اپنے اُوپر لادکر دوزخ میں جائے گا۔
۲:… ظاہر ہے کہ حرام کی آمدنی جہاں بھی خرچ کی جائے گی وہ ناجائز ہی ہوگی، خواہ اپنے والدین پر خرچ کرے یا بیوی بچوں پر، یہ شخص سب کو حرام کھلاتا ہے۔
۳:… تجربہ یہی ہے کہ حرام آمدنی حرام راستے جاتی ہے، اور قیامت کے دن وبالِ جان بنے گی۔
۴:… حرام آمدنی سے کیا گیا صدقہ و خیرات اور حج قبول نہیں ہوتا۔ حرام آمدنی سے صدقہ کرنا ایسا ہے کہ گندگی کی رکابی بھرکر کسی بڑے کی خدمت میں ہدیہ کرے، اور حج کرنا ایسا ہے کہ اپنے بدن اور کپڑوں پر گندگی مل کر کسی بڑے کی زیارت کے لئے اس کے گھر جائے۔
ناچ گانے سے متعلق وزیرِ خارجہ کا غلط فتویٰ
س… وزیرِ خارجہ سردار آصف احمد علی نے آسٹریلیا میں ایک فتویٰ دیا ہے کہ ناچ گانا، رقص، تھرتھراہٹ اسلام میں جائز ہے۔ کیا آپ اسلامی شریعتِ محمدی کی رُو سے سردار آصف کے اس فتویٰ پر بحث کرسکتے ہیں؟ کیا ایک اسلامی ملک کے وزیرِ خارجہ کا یہ فتویٰ شریعتِ محمدی کے خلاف نہیں ہے؟ اسلامی شریعتِ محمدی کی رُو سے کیا سزا وزیرِ خارجہ کو ملنی چاہئے؟ جواب گول مت کرجائیے گا کیونک اسلامی شریعتِ محمدی میں آپ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور جواب واضح دیں، ڈرئیے گا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ حق و انصاف کے ساتھ ہے۔
ج… سردار آصف احمد علی تو “سردار” ہے، مفتی تو نہیں کہ اس کے فتویٰ کا اعتبار کیا جائے۔ غلط فتویٰ خواہ وزیرِ خارجہ کا ہو یا اس سے بھی کسی بڑے وزیر کا، غلط ہے، اور اگر ملک میں اسلامی شریعت نافذ ہو تو کم سے کم تر سزا یہ ہے کہ اس شخص کو کسی بھی سرکاری عہدے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔