سوال: غیبت کا کفارہ کیا ہے؟
راوی: أنس رضي الله عنه قال صاحب الزنا يتوب وصاحب الغيبة ليس له توبة . روى البيهقي الأحاديث الثلاثة في شعب الإيمان
” اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگو جس کی تم نے غیبت کی ہے اور اس طرح دعا مانگو کہ اے اللہ ہم کو اور اس شخص کو جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے اس روایت کو بہیقی نے اپنی کتاب دعوات کبیر میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں ضعف ہے۔
تشریح
دعا و مغفرت کے الفاظ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ غیبت کرنے والا پہلے خواہ اپنے حق میں مغفرت کی دعا کرے اس میں نکتہ یہ ہے کہ استغفار کرنے والے کے بارے میں حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کی دعا و مغفرت کو قبول کیا جائے گا لہذا غیبت کرنے والا جب پہلے خود اپنے حق میں استغفار کرے گا اور اس کے نتیجے میں وہ اس معصیت سے پاک ہو جائے گا تو دوسرے کے حق میں بھی اس کی دعاء مغفرت قبول ہو گئی۔
” اغفرلنا ” میں جمع متکلم کا صیغہ اس صورت کے اعتبار سے ہے کہ جب کہ غیبت کا صدور بھی لوگوں سے ہوا ہو یعنی اگر غیبت کرنے والے کئی لوگ ہوں تو سب اس طرح دعا مانگیں اور اگر غیبت کرنے والا ایک شخص ہو تو پھر ” اغفرلی ” کے الفاظ استعمال ہوں گے یا یہ مراد کہ استغفار کرنے والا اپنی دعاء مغفرت میں تمام مسلمانوں کو شامل کرے اس صورت میں اس دعا کے معنی یہ ہوں گے کہ اے اللہ ہم سب مسلمانوں کو اور خاص طور پر اس شخص کو کہ جس کی میں نے غیبت کی ہے بخش دے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مغفرت کی دعا کرنا اس صورت سے متعلق ہے جبکہ اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو نہ پہنچی ہو جس کی غیبت کی گئی ہے اور اگر یہ صورت ہو کہ جس شخص کی غیبت کی گئی ہے اس کو معلوم ہو گیا کہ فلاں شخص نے میری یہ غیبت کی ہے تو غیبت کرنے والے کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس شخص سے اپنے آپ کو معاف کرائے بایں طور کہ پہلے اس کو یہ بتائے کہ میں نے تمہاری غیبت میں اس طرح کہا ہے اور پھر اس سے معاف اپنے آپ کو معاف کرائے اور اگر غیبت کرنے والا کسی مجبوری اور عذر کی بناء پر ایسا نہ کر سکے تو پھر یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی ہو سکے گا اس سے اپنے آپ کو معاف کراؤں گا، چنانچہ اس کے بعد جب بھی وہ اپنے آپ کو معاف کروا لے اس سے تو اس ذمہ داری سے بری ہو جائے گا۔ اور اس غیبت کے سلسلہ میں اس پر کوئی حق ومواخذہ باقی نہیں رہ جائے گا، ہاں اگر وہ اپنے آپ کو معاف کرانے سے بالکل عاجز رہا بایں سبب کہ جس شخص کی اس نے غیبت کی ہے وہ مثلا مر گیا یا اتنی دور رہائش پذیر ہے کہ اس سے ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہو، اور اس کے فضل و کرم سے یہ امید رکھے کہ وہ اس شخص کو اس کے تئیں راضی کر دے گا۔
فقیہ ابوللیث رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ علماء نے غیبت کرنے والے کی توبہ کے بارے میں کلام کیا ہے کہ آیا اس کے لئے یہ جائز ہے یا نہیں؟ کہ اس نے جس شخص کی غیبت کی ہے اس سے معاف کروائے بغیر توبہ کرے چنانچہ بعض علماء نے اس کو جائز کہا ہے کہ جب کہ ہمارے نزدیک اس کی صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اگر اس کی غیبت کی خبر اس شخص کو پہنچ گئی ہے جس کی اس نے غیبت کی ہے تو اس کی توبہ بس یہی ہے کہ وہ اس سے معاف کرائے اور دوسرے یہ کہ اگر کسی شخص کو اس کی غیبت کی خبر پہنچی ہے تو اس صورت میں وہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کی دعا مانگے اور دل میں یہ عہد کر لے کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ بہیقی نے اس روایت کو گویا ضعیف قرار دیا ہے لیکن اس کا ضعف ہونا حدیث کے اصل مفہوم پر اثر انداز نہیں ہوتا کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث سے بھی استدلال کرنا کافی ہو جاتا ہے علاوہ ازیں جامع صغیر میں بھی اس طرح کی ایک حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے جو اس روایت کو تقویت پہنچاتی ہے اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ کفارۃ من الغیبۃ ان تستغفرلہ، یعنی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس شخص کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے جس کی غیبت کی گئی ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ آداب کا بیان۔ ۔ حدیث 808
غیبت کا کفارہ
…………..
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لئے استغفار کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے‘‘۔
………………
ہم مسلمانوں کو کسی بھی حال میں نا امید نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کو رحمةللعالمین،ایمان والوں پر انتہائی مہربان بنایا ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمام گناہوں سے بچنے،بالخصوص غیبت سے چھٹکارا پانے اور تلافی کا طریقہ بھی اپنی امت کو تعلیم فرمایا۔
(الف) مندرجہ ذیل دعا خوب اہتمام سے اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے۔
”اللہم، انی اتخذ عندک عھداً لن تخلفنیہ، فانما انا بشر، فایما رجل موٴمن اٰذیتہ، او شتمتہ، او لعنتہ، او جلدتہ، او ضربتہ، او غبتہ، او ظننتہ سوءً فاجعلھا لہ صلٰوة و زکٰوةً، تقربہ بھا الیک“․
(ب) ہر مجلس کے اختتام پر مجلس کے کفارہ والی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔
سبحانک اللہم وبحمدک، نشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک، ونتوب الیک۔دوسری دعا۔سبحان ربک رب العزت عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمدللہ رب العالمین․
(ج) جس مسلمان کی غیبت کی ہے اس سے معافی مانگی جائے۔ اگر معافی مانگنا ممکن نہ ہو تو خوب ایصال ثواب کیا جائے۔
(د) خود غیبت سے بچنے کی کوشش کریں کہ ہر مجلس کے بعد چند لمحوں کے لیے سوچیں کہ غیبت تو نہیں ہوئی۔
(ھ) کوئی غیبت کررہا ہے تو پیار محبت سے اس کو منع کریں یا خود اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”فوالذی نفسی بیدہ لا یوٴمن احدکم حتٰی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ“․
”تمہارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوگا جب تک تم اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کے لیے وہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو۔“
جب ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہماری غیبت کرے تو ہم بھی دوسرے کی غیبت نہ کریں۔
مضمون کی مناسبت سے باتیں تو اور بھی ذہن میں آرہی ہیں، لیکن فی الحال حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ واعلی اللہ مراتبہ کی دعا پر اسی قد پر اکتفا کرتاہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اس بلا (گناہ) سے محفوظ فرمائیں اور بزرگوں، دوستوں (مخلصین، قارئین) کی دعا سے مجھ ناکارہ وسیہ کار کو بھی غیبت سے محفوظ فرمائیں کہ بندہ باطنی امراض میں کثرت سے مبتلا ہے۔
کبر و نخوت، جہل وغفلت، حقد وکینہ
کون سی بیماری ہے یارب جو مجھ سے نھیں ہوئی
کذب وبد عہدی، ریا وبغض وغیبت دشمنی
عَافِنِیْ مِنْ کُُلِّ دَاءٍ وَاقْضِ عَنِّیْ حَاجَتَِی
اِنَّ لِیْ قَلْبًا سَقِیْمًا اَنْتَ شَافٍ لِّلْعَلِیْلِ
ربنا تقبل منا انک انت السمیعُ العلیم، وتب علینا، انک انت التواب الرحیم.