خبط عظمت اور عجب نفس کا انجام

خبط عظمت اور عجب نفس کا انجام
آج کل سوشلستان کے دینی حلقے کی اکثر تحریروں، تبصروں اور تجزیوں میں حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب ہی چھائے ہوئے ہیں۔جدھر دیکھتاہوں “تو ہی تو” کا منظر درپیش ہے۔
ایسی مقبولیت اور عوامی کشش تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
حضرت مولانا سلمان صاحب قسمت کے بہت دھنی واقع ہوئے کہ وہ ایسے خانوادے میں آنکھیں کھولیں جس کی وجاہت اور عظمت کی چھاپ دینی وادبی حلقوں میں بہت گہری  ہے۔ اسی خاندانی پس منظر اور نسبت نے ان کی شخصیت کو حلقہ علماء میں محبوبیت ومقبولیت بخشی۔ لوگوں سے عقیدت ومحبت کی بے تحاشہ سوغاتیں ملیں۔
مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے خاندانی وعلمی انتساب کی وجہ سے حلقہ علماء میں انھیں ایک عزت ووقار ملا۔ ہندوستان سے عربستان تک اسی نسبت نے ان کی شخصیت کو متعارف کروانے میں کردار ادا کیا۔
وہ ذاتی صلاحیت واستعداد سے بھی مالا مال تھے۔ شستہ زبانی، طلاقت لسانی، عربی زبان وادب پہ یکساں عبور و قدرت، طرز القاء، منفرد طرز خطابت اور پرکشس لب ولہجہ کے باعث وہ ہندوستان کے علاوہ عربوں میں بھی کافی مقبول ہوئے ۔۔۔۔
عوام وخواص کی اس ارزاں پذیرائی کے باعث شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ عشق ذات اور عجب نفس میں بری طرح گرفتار ہوگئے۔ ۔۔۔  انہیں اپنی مقبولیت، شہرت وخطابت پہ ناز ہونے لگا۔ شخصیت میں کبر ونخوت دبے پاؤں سرایت کرگئی۔ وہ اپنے خیال میں ہی خود کو اکلوتے ادیب، محدث، مفسر، داعی، مجاہد اور دین ودنیا کے سب سے قابل ترین فرد شمار کرنے لگے۔ اپنی رائے، اپنی عقل اور اپنے فہم کو اٹل جاننے لگے۔شاید انھیں شبہ ہوچلا کہ وہی ‘عقل کل’ ہیں۔ ان کے سارے اعمال ‘آب زمزم’ سے دھلے ہوئے ہیں۔
مغالطہ سے شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاعر نے غالبا انہی کے لئے کہا تھا:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو!
دامن نچوڑدیں تو فرشتے وضو کریں
یہی نشہ اعصاب پہ سوار تھا۔ دھیرے دھیرے سعودی حکومت، مختلف ادارے، افراد وشخصیات پہ کیچڑ اچھالنا شروع فرمادیا۔
بعض معاصر علمی شخصیات پہ علمی نقد کے ساتھ کردارکشی بھی کی۔ من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگانے سے بھی باز نہ آئے۔انتہائی قابل احترام شخصیات کو مباہلہ کا چیلنج تک کرنے لگے۔ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند  کے نصاب تعلیم پہ انتہائی توہین آمیز رکیک تبصرے اور جملے بازی کرنے لگے۔
جس پرسنل لا بورڈ کے پلیٹ فارم سے ان کی شناخت ہوئی۔ جس کے اسٹیج سے ان کی شعلہ بیانی عوامی حلقے میں متعارف ہوئی۔جسے وہ خود مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اچانک اب تیس سال بعد اسے انگریزوں کی تخلیق کہنے لگے ۔۔۔۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 25 سال تک خاموش رہنے والی شخصیت کو اب پچیس سال بعد بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اچانک یاد آگیا۔ کسی سے صلاح مشورہ کئے بغیر  مجتہد مطلق کی طرح اچانک مسجد کی اراضی کو مندر سے تبادلہ کی کوشش کرنے لگے۔
حسب عادت شریفہ میڈیا میں اپنی اس اجتہادی کوشش کو متعارف بھی کروایا۔
علم وفضل، صلاح وتقوی، خاندانی وجاہت وشرافت میں ان سے کافی ممتاز، لائق وفائق بورڈ کے ذمہ داران نے جب  پوری لجاجت وعاجزی، خیر خواہی ودلسوزی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی اور ان کے موقف کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو الٹے ان سے نوک جھونک اور تلخ کلامی پہ اتر آئے۔ ان کی ضد، ہٹ دھرمی اور تلون مزاجی کے باعث سینکڑوں اکابر علماء و مشائخ سمیت مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم کی جگ ہنسائی  ہوئی۔ سینکڑوں وہزاروں علماء اور لاکھوں کروڑوں عوام کو سخت ذہنی اذیت وتشویش لاحق ہوئی۔ بھگوائی میڈیا کو مسلمانوں پہ ہنسنے کا ایک نیا چٹپٹا عنوان ہاتھ آگیا۔ بالآخر بورڈ کے چار رکنی کمیٹی جس میں ان کے ماموں جان صدر بورڈ جیسے ولی صفت بزرگ بھی ہیں، نے افہام وتفہیم سے بات حل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن حضرت  مولانا سلمان صاحب انہی ذمہ داروں کے خلاف میڈیا اور ٹاک شوز میں آکر رکیک حملے کرکے انھیں ارایس ایس کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔ پرسنل لا بورڈ کے متوازی شرعیت اپلیکشن بنانے کا عندیہ  بھی دیدیا۔۔ جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور بات بننے کی بجائے مزید خراب تر ہوتی چلی گئی تو مجبورا انھیں بورڈ سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی۔
بورڈ سے برطرفی کے بعد مولانا سلمان صاحب کافی جذباتی نظر آئے۔ دوران درس ان کی آنکھ اشکبار بھی ہوئی۔ رونے کی آواز بھی آئی۔ رلانے والے کو بددعائیں بھی دیں۔۔۔۔لیکن یہ نہ سوچا کہ ان کی سابقہ زبان درازیوں اور حالیہ شرمناک موقف وہٹ دھرمی سے کتنے علماء، دانشوران، زاہد شب زندہ دار، وکلاء سماجی کارکن اور عوام روئے!
میرا ہی نہیں، امت کے سواد اعظم کا ماننا ہے کہ حضرت مولانا سلمان صاحب سے اس معاملے میں یقینا چوک ہوئی ہے۔ اپنی غلطی کے ادراک سے ہی شکست وہزیمت کے راز جانا جاتا ہے. غلطی کے تجزیہ کرنے کے بعد ہی فرد، قوم اور ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور مزید ہزیمت وفضیحت کے تدارک کی راہیں تلاشی جاتی ہیں۔ انسانی جبلت کا خاصہ ہے کہ وہ “کامیابیوں” سے نہیں، “ناکامیوں” سے سیکھتا ہے۔ ٹھوکریں کھاکر ہی اس کا شعور پختہ ہوتا ہے۔ اگر زندگی میں صرف کامیابیاں، خوشیاں اور حصولیابیاں ہی ہوں تو سیکھنے اور اخذ نتائج کا عمل رک جائے اور شعوری ارتقاء کا سلسلہ تھم جائے۔
حضرت مولانا ندوی صاحب کے بیشمار معتقدین، محبین، تلامذہ اور متوسلین ہونگے۔ یقینا حضرت مولانا کی ضد اور ناعاقبت اندیش فیصلے اور جمہور سے انحراف وتعزل سے وہ بھی اندر سے دکھی ہونگے۔ ان کی اس اجتہادی غلطی کی تاویل وتائید کرنے کی بجائے اس حقیقت کو سمجھیں کہ بورڈ  پہ کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ چلتا رہے گا۔ پھلتا پھولتا رہے گا۔
فرق اس سے پڑا اور بہت بڑا فرق پڑا کہ “آہنی اور فولادی آری پہ ڈنک مارنے والا ناگ ڈنک مار مارکے جب زخمی ہوگیا، اس کی نخوت و غیرت کو چوٹ لگی۔ تو فولادی آری کو جکڑکر دم گھونٹ کر مار ڈالنے کی کوشش کی۔ جس طاقت سے اس فولادی آری کو جکڑنا اور دم گھونٹنا چاہا اسی سرعت سے وہ ناگ خود مردہ ہوگیا.”
ابو اسامہ الحسنی
26/51439 ہجری