بعض لوگ اس بات پر غرور کرتے ہیں کہ وہ غرور نہیں کرتے۔ جبکہ تکبّر کی تعریف یہ ہے کہ انسان خود کو دوسروں سے افضل اور بڑا خیال کرے نہ کرے.
(مفردات امام راغب، صفحہ697)
حدثنا منجاب بن الحارث التميمي ، وسويد بن سعيد كلاهما، عن علي بن مسهر ، قال منجاب: اخبرنا ابن مسهر، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لا يدخل النار احد في قلبه مثقال حبة خردل من إيمان، ولا يدخل الجنة احد في قلبه مثقال حبة خردل من كبرياء “.
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم میں نہ جائے گا (یعنی ہمیشہ کے لیے) وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔ اور جنت میں نہ جائے گا وہ شخص جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر گھمنڈ اور غرور ہو۔“
39- باب تَحْرِيمِ الْكِبْرِ وَبَيَانِهِ: باب: تکبر کے حرام ہونے کا بیان
(صحیح مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل حدیث نمبر: 266:)
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یہ آخرت کا گھر ہم انہی لوگوں کے لیے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں بڑائی و بلندی چاہتے ہیں نہ فساد اور اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔” (سورةالقصص:83)
اور فرمایا: ”زمین پر اکڑ کر نہ چل۔” (سورة الٍاسراء:37)
نیز فرمایا: ”تو اَزراہ تکبر اپنا چہرہ لوگوں سے مت پھیر اور زمین پر اِترا کر بھی نہ چل بے شک اللہ تعالیٰ ہر تکبر کرنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا” (سورة لقمان:18)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”قارون (سیدنا) موسیٰ کی قوم سے تھا پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور جماعت بمشکل اٹھاتی تھی۔ جب اس سے اس کی قوم نے کہا “اِترا مت! یقیناً اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا” (اللہ تعالیٰ کے اس فرمان تک) ”پس ہم نے اس کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔” (سورة القصص:76)
حدیث نمبر 612
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔” ایک آدمی نے کہا: آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کے جوتے اچھے ہوں (تو کیا یہ بھی تکبیر ہے)؟ آپ نے فرمایا: ”بلا شبہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور وہ جمال کو پسند فرماتا ہے، تکبر تو حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔” (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (91)
حدیث نمبر 613
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا تو آپ نے فرمایا: ”دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔” اس نے کہا: میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ نے فرمایا: ”تو نہ ہی طاقت رکھے۔” صرف کبر نے اُسے آپ کی بات ماننے سے روکا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ اس دائیں ہاتھ کو اپنے منہ تک بھی نہ اٹھا سکا۔ (مسلم)
توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (159) ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر 614
حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”کیا میں تمہیں جہنمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہر سرکش، بخیل اور متکبر (جہنمی ہے)۔” (متفق علیہ) توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (252) ملاحظہ فرمائیں ۔
حدیث نمبر 615
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت اور دوزخ نے آپس میں جھگڑا کیا تو دوزخ نے کہا: “میرے اندر بڑے سرکش اور متکبر لوگ ہوں گے۔” اور جنت نے کہا: “میرے اندر کمزور اور مسکین قسم کے لوگ ہوں گے۔” پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرمادیا (فرمایا) ”اے جنت! تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے سے جس پر چاہوں گا رحم کروں گا اور اے آگ، تو میرا عذاب ہے میں تیرے ذریعے سے جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا۔ اور تم دونوں کو بھرنا میرے ذمے ہے۔” (مسلم) توثیق الحدیث کے لیے حدیث نمبر (254) ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر 616
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایسے شخص کو (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا جو اپنا ازار ازراہ تکبر ٹخنوں سے نیچے گھسیٹتا ہوا چلے۔”
(متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (25710۔فتح)، و مسلم2087)
حدیث نمبر 617
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے اللہ تعالیٰ روز قیامت کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ہی (نظر رحمت سے) ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا 1)بوڑھا زانی (2)جھوٹا بادشاہ (3) اور متکبر فقیر۔” (مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (107)
حدیث نمبر 618
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: “عزت میری ازار اور بڑائی میری چادر ہے، پس جو شخص ان میں سے کوئی چیز مجھ سے کھینچے گا تو میں اسے عذاب دوں گا۔
(مسلم)
توثیق الحدیث: أخرجہ مسلم (2620)
حدیث نمبر 619
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دفعہ ایک آدمی ایک حلہ (سوٹ، جو ڑا) پہنے ہوئے جارہا تھا اس کے نفس نے اسے خود پسندی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ اس نے بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی اور وہ اپنی چال میں اتراتا ہوا جارہا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ روز قیامت تک زمین میں دھنستا جائیگا۔ (متفق علیہ)
توثیق الحدیث: أخرجہ البخاری (25810۔فتح)، و مسلم (2088)
جس طرح تکبر تمام ذلتوں، رسوائيوں، ہلاکتوں، اور برباديوں کی بنياد ہے اسی طرح تواضع تمام رفعتوں، سربلنديوں، کاميابيوں اور کامرانيوں کی کليد ہے-
ابن عطا ؒ کہتے ہيں آدمی کی عزت تواضع ميں ہے لہذا جس نے تکبر ميں عزت تلاش کيا، وہ گويا کہ آگ سے پانی چاہتا ہے.
اور سنن بيہقی کی ايک حديث ميں آتا ہے:
من تواضع للہ رفعہ اللہ فھوفی نفسہ صغير وفی أعين الناس عظيم ومن تکبر وضعہ اللہ فھوفی أعين الناس صغير وفی نفسہ کبير حتی لھو أھون عليہم من کلب وخنزير.جو شخص اللہ کے ليے تواضع اختيار کرے تو اللہ تعالی اسے بلند کرتا ہے چنانچہ وہ اپنی نگاہ ميں تو چھوٹا دکھائی ديتا ہے ليکن لوگوں کی نگاہ ميں بڑا ہوتا ہے ۔ اور جو شخص تکبر کرے تو اللہ تعالی اس کو پست کرديتا ہے تووہ لوگوں کی نگاہ ميں چھوٹا اور اپنی نگاہ ميں بڑا ہوتا ہے۔ يہاں تک کہ وہ لوگوں کی نگاہ ميں کتوں اور خنزير سے بھی گھٹيا سمجھا جاتا ہے۔
يہ حديث واقعی انسانی طبيعت کی ترجمانی کرتی ہے خاکسار انسان اپنی خاکساری کے باعث عزت پاتا ہے اور متکبر انسان اپنے تکبر کے باعث لوگوں کی نظر ميں نہايت گھٹيا سمجھا جاتا ہے۔
سرکار دوعالم ﷺ ساری انسانيت ميں سب سے افضل تھے، آپ کے جيسا انسان نہ اس دھرتی پر پيدا ہوا نہ ہوسکتا ہے ليکن پھربھی آپ عاجزی وانکساری کے پيکر تھے، آپ کی پوری زندگی سراپا تواضع تھی آپ اہل خانہ کے کام کاج ميں ہاتھ بٹاتے، بکرياں دوہتے، جوتا سيتے، کپڑے پر پيوند لگاتے، بازاروں سے چيزيں خريدتے، آپ سے جو بھی ملتا اسے سلام کرنے ميں پہل کرتے، بچوں تک کو سلام کرتے، زمين پر بيٹھ کر کھانا کھاتے، موٹا پہنتے، گدہے پر سواری کرتے، اپنے غلام کو سواری پر پيچھے بيٹھا ليتے، اپنے جانوروں کو اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے، اپنے اصحاب کے ساتھ گھل مل کر رہتے اور ہرچھوٹے بڑے کام ميں ان کا ساتھ ديتے تھے۔
عمر فاروق رضي الله عنه اپنے زمانہ خلافت ميں ايک دن لوگوں کو اکٹھا کرکے منبر سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہيں:
”لوگو! تم نے مجھے ديکھا ہے‘ميں بنو مخزوم ميں سے اپنی خالاؤں کی ديکھ ريکھ کرتا جس کے بدلہ ميں وہ مجھے ايک مٹھی کھجور يا کشمش ديا کرتی تھیں، ميں پورا دن اسی پر گذربسر کرتا‘ وہ ميرے ليے کتنا سخت دن تھا‘ اتنا کہہ کر منبر سے اُترگئے.
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنه نے کہا :اميرالمومنين ! يہ بات کہہ کر آپ نے صرف اپنی بے عزتی کی ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه نے کہا : ابن عوف تم پر افسوس ہے …. ميں تنہائی ميں تھااتنے ميں ميرے دل ميں يہ خيال آيا کہ تم تواميرالمؤمنين ہو، تم سے افضل کون ہے ؟ چنانچہ ميں نے سوچا کہ ميں اپنے نفس کو اس کی اوقات بتادوں ۔
حضرت عمرفاروق رضي الله عنه کے تواضع سے متعلق ايک دوسرا واقعہ ہے:
شاہ فارس کسری نے خليفہ ثانی عمرفاروق رضي الله عنه کے نام ايک پيغام بھيجا، قاصد جب پيغام لے کر مدينہ پہنچا تولوگوں سے پوچھا کہ خليفہ کا محل سرا کہا ں ہے؟
لوگوں نے بتايا کہ ان کے پاس کوئی محل سرانہيں ، قاصد کويہ بات سن کربڑی حيرت ہوئی ،پھرايک صاحب اس کو لے کر گيے تاکہ اميرالمومنين سے اس کی ملاقات ہوسکے ، اميرالمومنين ايک درخت کے نيچے سو رہے تھے ،انہوں نے قاصد کو اشارہ سے بتاديا کہ وہ ديکھو اميرالمومنين سورہے ہيں۔ قاصد يہ ديکھ کر انگشت بدنداں رہ گيا کہ جس بادشاہ کے نام سے قيصر وکسری کی حکومتيں لرزہ براندام ہيں وہ بادشاہ معمولی مٹی پر سو رہا ہے۔
قريش کے چند افراد ايک دن حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه کے ساتھ بيٹھے تھے، اس وقت آپ مدائن کے گورنرتھے ، لوگ آپ کے سامنے اپنے اپنے حسب و نسب ، جاہ ومرتبہ، اور مال ودولت کا فخريہ انداز ميں ذکر کرنے لگے‘ تب سلمان فارسی رضي الله عنه نے ان سے کہا : جہاں تک ميری بات ہے توميں شروع ميں تو حقير نطفہ تھا ،پھر بدبودار لاش ہوجاؤں گا، پھر ايک دن ميزان کے پاس آؤں گا ، اگر ميزان پر ميرے نيک اعمال بھاري رہے توشريف ہوں ، اور اگر ہلکے پڑگيے تو رذيل ہوں۔
حضرت عمربن عبدالعزيز رحمه الله کے اندر بھی بڑی سادگی ، اور انکساری تھی:
ايک دن ان کے پاس ايک مہمان آيا، مہمان کی موجودگی ميں اچانک چراغ بجھ ہوگيا، عمربن عبدالعزيز رحمه الله فورا کھڑے ہوئے اور اپنے ہاتھ سے چراغ کو درست کيا‘ مہمان نے کہا: آپ کوتکليف اٹھانے کی کيا ضرورت تھی، ہميں حکم ديا ہوتا يا نوکر کو آواز دے ديتے۔ عمربن عبدالعزيز رحمه الله نے فرمايا: ميں کھڑا ہوا تو عمرہی تھا اور لوٹ کر آيا تو عمر ہی ہوں، ہمارے اندر کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور اللہ تعالی کے پاس بہتر وہ ہے جو متواضع اور خاکسارہو۔
بہرکيف تواضع ، اور خاکساری ايک مومن کی صفت ہے جس کا بدلہ جنت ہے اور تکبر وگھمنڈ سرکشوں ،ظالموں اور اللہ کے نافرمانوں کا وصف ہے جس کا بدلہ جہنم ہے تب ہی تو فرمايا گيا لايدخل الجنة من کان فی قلبہ مثقال ذرة من کبر جس کے دل ميں ذرا برابر بھی گھمنڈ ہوگا وہ جنت ميں داخل نہيں ہو سکتا ۔
ہم جس سے غصّہ سے بات کرتے ہیں، ڈانٹتے ہیں، جھاڑتے ہیں، کیا اس سے خود کو افضل اور بڑا جانتے ہیں؟ کہیں ہم تکبُّر میں مبتلا تو نہیں؟ اللہ تعالی ہمیں عاجزی کرنے کی سعادت عطا فرمائے.. ہم سب کو متواضع بنائے اور کبر وغرور سے دور رکھے آمين يا رب العالمين