“بچوں کو سیکس ایجوکیشن دی جاۓ.”


قربان جائیں اپنے ملک وملت کے ان خیرخواہو، پر اس کائنات کا بنانے والا میرا اور آپ سب کا خالق و مالک جس چیز کو ہمارے معاشرے کی تباہی و بربادی کی وجہ بتا رہا ہے، یہ عقل کے اندھے، پڑھے لکھے جاھل بیوقوف، مغربی تہذیب کے دلدادہ، اسی زہر کو شفاء مرض بتا رہے ہیں،
ان عقل کے اندھوں سے کوئی پوچھے۔ سوال کرے کہ جن بےحیاء، ضمیر فروش، جانوروں نے اپنے ممالک میں سیکس ایجوکیشن کو رواج دیا ہے تو کیا اب وہاں امن آگیا ہے،
☆ کیا وہاں عورت کی عزت محفوظ ہوگئی ہے؟
☆ کیا وہاں پر عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کا مقام حاصل ہے؟
☆ کیا وہاں پر عورت کو ماں کے مقدس روپ میں خدمت کرنے کیلئے بیٹا، بیٹی کی صورت میں اولاد میسر ہے۔؟
☆ کیا وہاں پر عورت کو بہن کے روپ میں اس کی عزت کا محافظ کرنے والا بھائی موجود ہے؟
☆ کیا وہاں پر عورت کو زندگی گزارنے کیلئے سچا ہمسفر میسر ہے، جو ساری زندگی اس کو گھر کی ملکہ بناکر رکھ سکے اور خود اس فیملی سسٹم کا بے تاج بادشاہ بن کر زندگی گزارسکے؟
☆ کیا وہاں کی عورت کو پیار و محبت کرنے والا شفیق باپ کی صورت میں کوئی رشتہ میسر ہے جو اس کی پیدائش پر اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اس پر فخر محسوس کرے، اس کی خاطر دن رات محنت مزدوری کرکے اس کو اچھی تعلیم دلوائے، اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کیلئے گھر کی چار دیواری میں رکھتے ہوئے اس کی ہر ضرورت کو پورا کرے، اور جب وہ بڑی ہوجائے تو خود اس کے لئے ایک اچھا سا نیک صالح اللہ سے ڈرنے والا انسان ڈھونڈکر اس کے ساتھ اسلام کے مطابق جائز طریقے سے رخصت کردے اور رخصتی کے بعد بھی اس کی دیکھ بھال کرتا رہے، اس طرح کا کوئی رشتہ میسر ہے؟
نہیں اور یقینًا نہیں۔۔۔ وہاں پر سیکس ایجوکیشن کو رواج دینے کا نقصان یہ ہوا ہے کہ وہاں کی عورت آزاد ہوکر مرد کیلئے ایک رکھیل بن کے رہ گئی ہے،
وہ صرف گرل فرینڈ ہے،
اس کی حثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے جسے ہر آنے والا مرد خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہے؛ دوست، خاوند، باپ، بیٹا یا بھائی اسے استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں۔۔۔
وہاں رشتوں کا تقدس ہی ختم ہو گیا ہے وہاں کا فیملی سسٹم تباہ ہوکر رہ گیا ہے.
اب ان پڑھے لکھے جاہلوں سے میرا سوال ہے کہ۔۔۔
“کیاتم بھی ہماری اس نوجوان نسل کو جو پہلے سے ہی مغربی تہذیب پہ دل ہار بیٹھی ہے اور انہی کے پیچھے چلنے کو اپنے لئے ترقی کا معیار سمجھ بیٹھی ہے، اسی معاشرے کی طرف دھکیلنا چاہتے ہو؟
حلانکہ تقسیم ہند کو 70 سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس عرصے میں آپ سے موجودہ نظام تعلیم تو آج تک ٹھیک ہو نہیں سکا اور بارہا مرتبہ آپ ہی کے اداروں کے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ نظام تعلیم قابل اصلاح ہے..
لیکن پہلے نظام تعلیم کی کمزوریوں کی اصلاح تو کیجئے،
آپ سے سوال ہے۔۔۔
☆ آپ کا نظام تعلیم کیوں ایک مہذب شہری دینے سے قاصر رہا؟
☆ کیوں تعلیم کے باوجود نوجوان جنسی مناظر دیکھنے پر اول آئے؟
☆ کیا وجہ ہے کہ آپ کے ہاں بیرونی ملک سے پڑھنے والے کو ترجیح دی جاتی ہے؟
☆ کیا وجہ ہے کہ جن سرکاری اداروں پہ آپ اربوں خرچ کرتے ہیں، انکو چھوڑ کر عوام پرائیویٹ اداروں میں بچے بھیجتے ہیں۔ بلکہ وہاں پر پڑھانے والوں کے اپنے بچے پرائیویٹ اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں؟
☆ کیوں آپ کا نظام ابھی تک 100% شرح خواندگی نہیں دے سکا؟
بصد افسوس کہ آپکے ہاں پرائیویٹ ڈاکٹر و انجنیئر تو ممکن نہیں، لیکن قوم کا معمار، استاد مواصلاتی نظام سے بھی بن جاتے ہیں..!
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ…
☆ آپ  70 سالہ طویل سفر کے باوجود طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے مساواتی نظام دینے میں ناکام ہیں؟
☆ ورنہ کیوں صحراء تھر اور اسلام آباد کے بچے ایک چھت کے نیچھے اکٹھا پڑھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔؟
آپ کے دانشوروں کو بس مدارس کی فکر پڑی ہے، سوال یہ ہے کہ اگر مدارس کو ایک لمحہ کیلۓ معدوم تصور کرے، تو
☆ کیا آپکا نظام تعلیم معاشرے کی بنیادی دینی ضروریات بھی پورا کرتے ہوئے ممبر و محراب سنبھال سکے گا۔؟
☆ جبکہ حال یہ ہے آپکے ہائی ایجوکٹیڈ شخصیات کو سورۃ اخلاص تک نہیں آتی..!
☆ کہاں سے یہ ذہنیت بنی، کہ ایک مسلمان معاشرے میں حافظ قرآن کو انجنیئر سے کم تصور کیا جاتا ہے؟
☆اگر مقصد دینی و اخلاقی تربیت نہیں بلکہ روزگار فراہم کرناہے تو کیا ایک بڑا تعلیم یافتہ طبقہ بے روزگار نہیں؟
☆کیوں ہماری آج کی نسل کا آئیڈئیل کوئی غیر مسلم شخصیت ہوتی ہے؟
جب کہ پسندیدہ ہیرو کا تصور تو یہاں کسی ہندوستانی اداکار سے آگے نہیں بڑھتا..!
☆ کیوں ہر مہذب باپ یونیورسٹی کے ماحول سے خوف زدہ ہے حالانکہ وہاں تو سب سیکس ایجوکیشن سے بھی واقف ہیں..!
..” معاف کیجیۓ گا سرکار..!
لیکن سیکولرزم کا جو بیج آپ نے سکول و کالج میں ڈالا ہے، یونیورسٹی میں وہ اب الحاد و خدا بیزاری کا تناور درخت بن جاتا ہے.
جناب من..! لارڈ میکالے کا دیا ہواوہ ناقص اور بدبودار کالا نظام نظرثانی کا محتاج ہے. اس لۓ سیکس کو چھوڑیئے اور اپنے ملک و ملت کا خیال کرتے ہوئے اپنی زندگی کے مقاصد متعین کیجئے…!!
ورنہ …….
محمد یاسر قریشی