حضرات ہر مکان کے لئے ستون ہواکرتے ہیں جن پر چھت کے بقاء کا مدار ہوتا ہے دنیا کے مکان کے ستون اولیاء اللہ ہیں جب تک دنیا میں اولیاء اللہ میں سے ایک ولی بھی باقی رہے گا قیامت قائم نہ ہوگی
قرآن کریم میں اگر توحید ورسالت نیزصحابہ واہل بیت کا ذکر ہے تواولیااللہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ بلاشبہ رضائے خدا حاصل کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے بعد اولیاء اللہ ہی وسائل وذرائع ہیں ،اولیاء اللہ کی اتباع سے نبوی سنت پر عمل کرنے کی توفیق پیدا ہوتی ہے اس لئے کہ اولیاء اللہ تعلیمات نبوی کے ترجمان اورعملی طور پر نمونہ ہوتے ہیں قرآن پاک نے متعدد مقامات میں اولیاء اللہ کے اوصاف کا ذکر کیا ہے۔
پہلی شہادت:۔
وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًاوَّاِذَاخَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْاسَلٰمًاz وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدً اوَّقِیَامًا (الفرقان رکوع ۶)
اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل مخاطب ہوتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں اور جو راتیں سجدوں او رقیام میں گزارتے ہیں
اس آیت میں اولیاء اللہ کا دوسرا عنوان عبادالرحمن قائم کیا گیا ہے عبادالرحمن کی پہلی نشانی عاجزی ہے ۔
معلوم ہوا کہ متکبر انسان ولی نہیں ہوتا او ر جوولی ہووہ متکبر نہیں ہوتااور نہ جھگڑالو ہوتا ہے اور نہ بداخلاق ہوتا ہے
تو کو اتنا مٹا کہ تو نہ رہے
تیری ہستی کا رنگ وبو نہ رہے
ہومیں اتنا کمال پیدا کر
کہ بجز ہوکے غیر ہو نہ رہے
دوسری شہادت :۔
عبادالرحمن کی دوسری نشانی عبادت کے لئے شب بیدار ہونا ۔
تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ
ان کے پہلو بستروں سے خالی رہتے ہیں اور خدا کو اس کی رضاء جوئی کے لئے پکارتے پھرتے ہیں
معلوم ہوا کہ جو اولیاء اللہ ہیں وہ متہجد اور متنفل ہوتے ہیں
حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا واقعہ :۔
یہ وہ اللہ کے ولی ہیں جنہوں نے نوے لاکھ کافروں کو کلمہ پڑھایا ہے جنہوں نے ذکر الہٰی کے نور سے پورے ملک کو منور فرمایا ہے۔
آپ اپنے پیرومرشد کے فرمان کے مطابق اجمیر سے باہر ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے ہیں شہر میں تو نہ کوئی واقف ہے اور نہ شناسائی بالجہر ذکر میں مشغول ہوجاتے ہیں سنتے سنتے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور اللہ کے ولی کے ارد گرد گھیر ا بنالیتے ہیں اللہ کے ولی نے اللہ کے نام کی ضرب لگاکردائیں دیکھابائیں دیکھاآگے دیکھاپیچھے دیکھاجدھر دیکھاحصے کے حصے لے لئے
آں بنگاہ مے کشند ایں بسپاہ مے کشند
آں ہمہ جذبہ کلیم ایں ہمہ سحر سامری
کافی لوگ نور ایمان سے منور ہوئے جو بد نصیب بچ گئے وہ واپس ہوگئے گھر گئے تو رشتہ داروں کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک فقیر آیا ہے اس نے ہمارے ساتھیوں کے دلوں کو موہ لیا ہے اور اپنا بنالیا ہے ۔
بصد تاسف یہ لوگ اس ارادے سے گئے کہ اگر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تو فورًا ایمان کو ترک کردیں گے چنانچہ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو نام لے لے کر بلایا ان سب نے جواب دیا کہ تمہیں چاہیئے کہ ہم سے ناامید ہوجاؤ اب ہمارے دل نور ایمان وایقان سے مستنیز ومستفیض ہوگئے ہیں ہم کفر کو قبول نہیں کرسکتے
تونے کیا آتش حل کردہ پلادی ساقی
پھونک ڈالا ہے جگر آگ لگادی ساقی
خواجہ معین الدین کی مرکزی مسجد :۔
جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپ نے مسجد بنانے کاحکم فرمایا ،سی ،آئی، ڈی، پولیس نے راجے کو اطلاع دی راجے نے حکم دیا کہ خواجہ صاحب کے مریدوں کو بیگار کے لئے پکڑ لیا جائے تاکہ مسجد نہ بناسکیں لیکن مریدوں کے دلوں میں جذبہ اس قدر تھا کہ انہوں نے دن کو بیگار میں کام کیا تو رات کو مسجدکی تعمیر شروع کردی ،
راجے کو جب اس کا پتہ چلا تو تیل کے کنستر خالی کردایئے تاکہ نہ تیل ہوگا اور نہ شمعیں جلیں گی اور نہ ہی روشنی میں مسجدکی تعمیر کرسکیں گے ۔
جب مریدین شام کو آئے دیکھا تو تیل پانی کی طرح بہہ رہا ہے حضرت کی خدمت میں عرض کیا،آپ نے فرمایاایمان والو!اتناتو بتاؤکہ تیل خودجلتاتھایاہمارارب اسے جلاتاتھا،عرض کیا یاحضرت خداتعالیٰ جلاتا تھا ۔فرمایا جو خداتیل کو جلا سکتا ہے کیاو ہ فقیر کے لوٹے کے پانی کو جلاکر روشنی کا انتظام نہیں فرما سکتا؟ بسم اللہ پڑھ کر پانی کو جلاؤ خدا تعالیٰ قادر ہے کہ اپنے دین کی لاج رکھ لے گا
چنانچہ جب فقراء نے پانی ڈالا تو پرور دگار نے اپنے نا م کی لاج رکھ لی اور الحمد للہ کفر اور کفار مایوس رہ گئے جب اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکی تو آرڈر دے دیا کہ فوج کو فقیر صاحب کی جھونپڑی کا محاصرہ کرلینا چاہئیے جب فقیر صاحب سوجائے تو فورًا آگ لگادیں حضرت صاحب اندر تشریف لائے تو مصلے بچھا کر نما زمیں مشغول ہوگئے رات گذر گئی مگر حضرت ہیں کہ نوافل میں مشغول ہیں۔
ایک سپاہی نے کپتان سے کہا کہ آپ سستی سے کام لے رہے ہیں جھونپڑی کو آگ نہ لگا کر اپنے فریضے کی انجام دہی سے قاصر ہورہے ہیں کپتان نے جواب دیا آرڈر میں تو یہ لکھاہوا ہے کہ فقیر جس وقت سوجائے اس وقت آگ لگا دو لیکن وہ تو ساری رات سویا ہی نہیں بھلا میں کیسے آگ لگا سکتا ہوں؟ ۔سپاہی نے کہا کہ حالت سجدہ کو حالت نوم قرار دے کر آگ لگادو
چنانچہ ایسا کیا گیا تو حضرت حمائل گلے میں لٹکا کر ذکر الہٰی کرتے ہوئے باہر تشریف لائے فرمایا حضرات جسے خدانہ جلائے کوئی جلا سکتا نہیں
آج بھی ہوجو ابراہیم ؑ کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے ۔یہ ہے اللہ کا ولی جن کے متعلق قرآن مجید میں ذکر کیا گیا ہے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ولی کی ایک تعریف تو وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کیا ہے اور ایک تعریف وہ ہے جسے حبیب کبریا ﷺ نے ذکر فرمایا ہے
اذارؤاذکر اللہ
جب ان کے چہروں پر نگاہ پڑے تو خد اتعالیٰ یاد آئے
خد اکی یاد اس لئے آتی ہے کہ خداوالے ہر وقت ذکر الہٰی میں مشغول رہتے ہیں
چنانچہ قرآن مجید میں مذکور ہے
یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیَامًاوَّقُعُوْدًاوَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
خدا تعالیٰ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے کرتے رہتے ہیں اور تفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں
اولیاء اللہ کے لئے قیامت کے دن نعمتیں :۔
اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًاz عَیْنًا یَّشْرَبُ بِہَاعِبَادُاللّٰہِ یُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِیْرًا (الدہر)
بلاشبہ اولیاء اللہ قیامت کے دن ایسے پیالوں سے پیئیں گے جن میں کافور ملاہوا ہوگا کافور کا بہشت میں ایک چشمہ ہے جس سے بہشتی پئیں گے اورخوب نہائیں گے
فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًاz وَجَزٰہُمْ بِمَاصَبَرُوْاجَنَّۃً وَّحَرِیْرًاz مُّتَّکِءِیْنَ فِیْہَاعَلَی الْاَرَآءِک لاَ یَرَوْنَ فِیْہَاشَمْسًاوَّلَازَمْہَرِیْرًاz(پ۲۹)
پس اولیاء اللہ کو خداتعالیٰ نے قیامت کے دن جہنم کے شر سے بچالیا اور ان کو تروتازگی اور خوشی دیدی ان کے صبر کی جزا ان کو جنت ملی ہے اور ریشم والی پوشاک وہاں تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھیں گے نہ اس میں سورج دیکھیں گے اور نہ سردی ۔
وَدَانِیَۃًعَلَیْہِمْ ظِلٰلُہَاوَذُلِّلَتْ قُطُوْفُہَاتَذْلِیْلًاz وَیُطَافُ عَلَیْہِمْ بِاٰنِیَۃٍمِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاz قَوَارِیرْامِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْہَاتَقْدِیْرًاz(پ۲۹)
اور ان پر بہشتی درختوں کے سائے جھکے ہوں گے اور ان پر جو برتن پھیرے جائیں گے وہ چاندی کے ہوں گے جن کو خدام جنت نے ٹھیک اندازے کے مطابق بنالیا ہوگا
حضرات یہ سارے انعامات ان لوگوں کو ملیں گے جنہوں نے ولایت کے مدارج طے کئے اور قرب الہٰی حاصل کیا۔
ایک کرامت :۔
میرے شیخ حضرت مولانا عبدالمالک مجددی نقشبندی ساکن کنری پاک ضلع تھر پارکر سندھ ،ایک دن مراقبہ کرارہے تھے میں نے دیکھا کہ بغیر ایک دوافراد کے سب پر گریہ طاری تھا ،فقراء ذکر الہٰی میں مست تھے ،ایک تین برس کے بچے کو دیکھا کہ وہ روتے روتے نہایت اچھے طریقے سے سورۃ انااعطینک الکوثر پڑھنے لگ گیا میں سن کر حیران رہ گیا میں نے یقین کیا کہ یہ ذکر الہٰی کی برکت ہے اور توجہ شیخ کا اثر ہے
دوسرا واقعہ:۔
کنری قادیانیوں کی آماجگاہ ہے وہاں مرزائی کثرت سے رہتے ہیں ان مرزائیوں میں سے ایک مرزائی جاسوسی کے لیے روزانہ حضرت صاحب کے پاس آتا اور بیٹھ بیٹھ کر چلاجاتا آخر کار جب کئی دن اسی گذرگئے تو ایک مرتبہ حضرت نے پوچھا بھائی آپ کیسے آیا کرتے ہیں؟
بس اتنا کہنا تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے روتا ہوا چلا گیا اپنے بال بچوں کو ساتھ لایا اور حضرت کے ہاتھ پر مسلمان ہوگیا ۔
ایک ضروری بات:۔
ولی اللہ وہ ہوتا ہے ،جس کے اٹھنے بیٹھنے سے ،چلنے پھرنے سے ،سونے جاگنے سے ،حرکات وسکنات سے ،کھانے پینے سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خوشبو آئے ایسے شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا بھی جائز اوران سے سلوک سیکھنا بھی جائز ہے۔
لیکن جوحاجات کی برآوری کے لئے غیر اللہ کو پکارتا ہو ،زیارت قرآن سے پہلے اپنے پیر کی تصویر کی زیارت کرتا ہو، غیر اللہ کی نام کی نذریں مانتا ہو ،اے فلاں مددی مددی کے ورد کرتا ہو ،زیارت قبور کے وقت قبروں کو سجدہ کرتا ہو سمجھ لو کہ اس کو طریقت ومعرفت کی ہوابھی نہیں لگی ایسا شخص سنت نبویہ ؐکا منکر ہے اس کی صحبت میں جو کچھ حاصل ہوگا استدراج کہلائے گا
خلاف پیغمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
جب تک عقائد صحیح نہ ہوں ،توحید کی غیرت قلب میں نہ ہو،تب تک نہ نوافل منظور ہوں گی اور نہ تسبیحات ۔
حضرت عارف رومی نے کیا خوب فرمایا ہے
کارشیطان مے کند نامش ولی
گرولی ایں است لعنت برولی
تصوف وسلوک والی ولایت کے لئے ضروری ہے کہ کم ازکم لطائف سبعہ طے ہوں ،مشارب پر عبور ہو ،لاتعین تک واقفیت ہو
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین