اعلائے کلمتہ الحق کی روشن مثال؛مولانا سید حسین احمد مدنی
آپ فدائے ملت، امیر الہند ثانی، ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم قائد، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ کے بڑے فرزند و جانشین، جمعیتہ علما ہند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن رکین تھے۔آپ کی ولادت 6 ذی قعدہ 1346ہجری مطابق 27 اپریل 1928 بروز جمعہ دیوبند میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ محترمہ سائرہ صاحبہ سے حاصل کی، جو قابل رشک صفات کی حامل خاتون تھیں، 1355ہجری مطابق 1936 میں فوت ہوگئی تھیں، اس وقت آپ 9 سال کے تھے۔ آپ نے اپنے والد صاحب سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر آپ کے والد صاحب حضرت مدنی رحمہ اللہ کے خادم خاص حضرت مولانا قاری اصغر علی سہسپوری رحمہ اللہ نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور انہیں کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کی، پھر آپ نے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوکر سارے تعلیمی مراحل طے کئے اور 1365ھ مطابق 1946 میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی رحمہ اللہ، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ ابراھیم بلیاوی رحمہ اللہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی ، حضرت مولانا فخرالحسن مرادآبادی، حضرت مولانا عبدالحق رحمہم اللہ بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک جیسے اساطین علم و فضل شامل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد عرصہ تک مدینہ منورہ میں قیام فرمایا ، پھر 28 شوال 1370ہجری مطابق اگست 1951میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لئے آپ کا تقرر ہوا اور 1382ہجری مطابق 1962 تک مسلسل بارہ سال تک باقاعدہ متوسط کتابوں کا درس دیا۔ اس کے بعد ملی ضرورتوں اور قومی خدمات کے پیش نظر درس و تدریس کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ رمضان المبارک 1368ہجری میں اپنے والد ماجد حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے، سفر و حضر میں ساتھ رہ کر سلوک و تصوف کے تمام مراحل طے کئے۔ حضرت شیخ الاسلام رح کے چشمہ علم و عرفان سے بھر پور فیضیاب ہوئے ، آپ کے وصال کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة اللہ علیہ کے حکم سے خلافت دی اور حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے خلفانے اجازت بیعت سے نوازا اور جانشین شیخ الاسلام رح مقرر کیا ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمة اللہ علیہ نے بھی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔اپریل 1956کے دوران جمعیتہ علما دیوبند کے نائب صدر منتخب ہوئے ، 24 جون 1960کو آپ کو جمعیتہ علما اترپردیش کا صدر منتخب کیا گیا۔ 9 اگست 1963کو حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی رحمة اللہ علیہ کی زیر صدارت میں آپ کو جمعیتہ علماہند کا ناظم عمومی بنایا گیا۔ 11 اگست 1973کو آپ کو جمعیتہ علماہند کا بالاتفاق صدر منتخب کیا گیا جس پر تادم حیات فائز رہ کر ملک و ملت کے لئے عظیم خدمات انجام دیں جن کا احاطہ دشوار ہے۔ 1968کے دوران آپ راجیہ سبھا سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے اور 1994تک ممبر رہ کر پارلیمنٹ میں ملک و ملت کے تمام مسائل کی پوری جرات و بیباکی کے ساتھ ترجمانی کی۔ اس عرصہ میں آپ کی 56 تقریریں پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں جو جرات و بیباکی اور حق گوئی کی زریں شاہکار اور اعلائے کلمتہ الحق کی روشن مثال ہیں، 1405 ہجری مطابق 1985میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اور تاعمر دارالعلوم دیوبند کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دارالعلوم دیوبند میں شورائی نظام کی بحالی و بالادستی میں آپ نے نمایاں خدمات انجام دیں ، دارالعلوم دیوبند کی نشاہ ثانیہ کے بعد اس کی تعلیمی و تبلیغی خدمات کی توسیع و ترقی میں آپ کا بڑا ہاتھ ہے۔
آپ کی زندگی کا ایک اہم کارنامہ 2 نومبر 1986کو کل ہند امارت شرعیہ ہند کا قیام ہے، جس کے اولین اجلاس منعقدہ 1986میں محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رح کو امیرالہند اور آپ کو نائب امیرالہند منتخب کیا گیا۔ 1992میں امیرالہند حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمة اللہ علیہ کے انتقال کے بعد 9 مئی 1992کے عظیم الشان نمائندہ اجلاس نے آپ کو امیرالہند منتخب کیا جس پر تادم واپسیں فائز رہے اور دینی ، قومی ، ملی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رہے۔ جمعیتہ علماہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی شاندار مثالی قیادت کی اور بے لوث خدمات کی ایک روشن تاریخ رقم کی ، ملک میں مسلمانوں کو پیش آنے والے تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر موڑ پر ملت اسلامیہ کی شاندار قیادت کی، آزاد ہند میں مسلم اقلیت کی خدمات کے حوالے سے آپ کا نام تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا۔
آپ کو حرمین شریفین کی حاضری اور حج و زیارت کا والہانہ ذوق نصیب ہوا تھا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی قابل رشک توفیق بھی ملی۔ اس سعادت و خصوصیت میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق آپ نے 37 حج اور 32 عمرہ کے سفر فرمائے۔ ایں سعادت بزور نیست۔ 5 نومبر 2005 مطابق 2 شوال المکرم 1426ہجری بروز شنبہ کو آپ وہیل چیئر پر دارالعلوم دیوبند کی مسجد رشید سے دیوبند میں اپنے گھر واپس آرہے تھے کہ اس سے پھسل گئے ، جس کے نتیجے میں دماغ میں گہرا زخم آیا، دماغ کی رگیں ناکارہ ہوگئیں اور آپ مفلوج ہوگئے۔ نئی دہلی کے معروف اپولواسپتال میں داخل کئے گئے، جہاں اعلی سے اعلی علاج ہوتا رہا، لیکن آپ مسلسل تین ماہ تک بیہوش رہے، وقت آخر آچکا تھا، اس لئے ساری تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور 7 محرم الحرام 1427 مطابق 6 فروری 2006 بروز دوشنبہ کی شام پونے چھ بجے بمقام اپولو اسپتال دہلی یہ آفتاب عزیمت غروب ہوگیا۔ 8 محرم الحرام 1427ہجری مطابق 7 فروری 2006 کو صبح 7 بجکر 25 منٹ پر دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم نے نماز جنازہ پڑھائی، جس میں ایک لاکھ سے زائد علما، مشائخ، طالبان علوم نبوت اور عام مسلمانوں نے شرکت کی اور مزار قاسمی دیوبند میں اپنے والد ماجد حضرت شیخ الاسلام رحمة اللہ علیہ کے پہلو میں ہمیشہ کے لئے آسودہ خواب ہوگئے۔
رحمہ اللہ رحمتہ واسعہ
احقر محمد طاہر غفرلہ قاسمی دہلوی