فضائل امام ابوحنیفہ ؒ

تمہید :۔
حضرات امام اعظم حضرت ابوحنیفہ ؒ کا اسم گرامی نعمان ہے ،اور ملت حنفیہ یعنی علمی طور پر ملت حنیفہ کی خدمت کے باعث کنیت کے لحاظ سے ابوحنیفہ مشہور ہوگئے آپ کے فضائل ومناقب کے سلسلے میں علماء امت نے کافی سے زیادہ کتابیں لکھیں ہیں مثلاً
(۱)۔۔۔تیسری صدی ہجری میں امام احمد بن طحاوی نے حضر ت امام صاحب کے متعلق تین کتابیں لکھیں ہیں ۔عقود المرجان ۔قلائد ،الروضۃ العالیہ
(۲)۔۔۔ چوتھی صدی میں امام محمد بن احمد بن شعیب نے مناقب النعمان لکھی ہے اسی نام سے ایک کتاب شیخ ابوعبداللہ الضمیری ،حسین ابن علی اورابو عبداللہ احمد بن الصلت الحمانی نے بھی لکھی ہے ۔
(۳)۔۔۔پانچویں صدی میں علامہ جار اللہ زمخشری نے شقائق النعمان کے نام سے ایک بے نظیر تصنیف پیش کی ہے ۔
(۴)۔۔۔ چھٹی صدی میں مناقب النعمان کے نام سے موفق الدین بن احمد اکملی الخوارزمی نے ایک کتاب لکھی ہے۔
(۵)۔۔۔ساتویں صدی میں شیخ محی الدین عبدالقادر القرشی نے بستان فی مناقب النعمان لکھی ہے
(۶)۔۔۔آٹھویں صدی میں شیخ صارم الدین ابراہیم بن محمد دقاق نے نظم الجمان لکھی ہے ۔
(۷)۔۔۔ نویں صدی میں امام محمد الکرور ی نے مناقب النعمان کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے
(۸) ۔۔۔دسویں صدی میں حافظ ابو الحماس نے عقود الجمان کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔
(۹)۔۔۔گیارہویں صدی میں مولانا محمد کامی آفندی قاضی بغداد نے ترکی زبان میں ایک کتاب مناقب الامام الاعظم کے نام سے لکھی ہے۔
(۱۰)۔۔۔بارہویں صدی میں مستقیم زادہ سلیمان سبدالدین آفندی نے مناقب الامام الاعظم کے نام سے ایک کتاب لکھی ۔ان کے علاوہ،
حضرت حافظ جلال الدین سیوطی نے تبییض الصحیفہ فی مناقب ابی حنیفہ ،
حافظ ابن حجر مکی نے الخیرات الحسان ،
قاضی ابن عبدالبر نے کتاب الانتہا فی مناقب الثلاثۃ ،الفقہاء
مشہور مؤرخ سبط بن جوزی نے الانتصار لامام ائمۃا لامصار کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح چودہویں صدی تک علماء حق نے حضرت امام صاحب کی مدح وتوصیف میں کتابیں لکھی ہیں جو شما ر سے باہر ہیں۔
ذکر پیدائش :۔
آپ کی پیدائش بالاتفاق ۰ ۸ ہجری کی ہے اور ظاہر ہے کہ سوسال تک حبیب کبریا ا کے چہرے کے جلوؤں کو دیکھنے والے باقی رہے ہیں اس لحاظ سے جب آخری صحابیؓ رسول کی وفات ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر بیس بر س کی تھی ،لامحالہ آپ کو صحابہ کرامؓ کی زیارتیں بھی ہوئی ہیں اور انکی خدمتوں میں بیٹھنے کا شرف بھی نصیب ہوا ہے کیونکہ حضرت انسؓ بن مالک کی وفات ۹۳ھ میں ہوئی ہے اور ابوالطفیلؓ عامر بن واثلہؓ کی وفات ۱۰۰ھ میں۔
روایت اس لئے نہیں کہ اس وقت محدثین کی مبارک عادت تھی کہ وہ روایت کرنے کے لئے درس میں اس کو اجازت ملتی تھی جس کی عمر ذرا زیادہ ہو بہر حال تابعی ہونے میں شک ہی نہیں ۔
آپ حضرت حماد کے تلامذہ خاص میں سے ہیں اور حضرت حماد حضرت انسؓ کے تلامذہ میں سے ہیں گویا کہ حضرت فوقانی نسبت علم کے لحاظ سے یوں بنے گی۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے استاد حضرت حماد اور حضرت حماد کے استاد حضرت انسؓ اور حضرت انسؓ کے استا د حضر ت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت رسول مقبول ا کے استاد خدا تعالیٰ جل جلالہ
امام ابوحنیفہ کی پیشانی امام محمد باقر نے چومی تھی :۔
امام ابوحنیفہ کی ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں امام محمد باقر سے ملاقات ہوئی حضرت محمد باقرنے فرمایا اے ابوحنیفہ آپ قیاس سے میرے دادا کی حدیث کی مخالفت کرتے ہیں
حضرت امام صاحب نے جواب دیا ،حضرت تشریف تو رکھیئے چنانچہ آپ بیٹھ گئے
حضرت امام ابوحنیفہ نے عرض کیا۔ یا امام مرد ضعیف ہے یاعورت ؟
امام محمد باقر نے جواب دیا۔ عورت ضعیف ہے
امام ابوحنیفہ نے عرض کیا !کہ وراثت میں عورت کا حصہ زیادہ ہے یا مرد کا
آپ نے فرمایا، مرد کا
پس امام صاحب ؒ نے عرض کیا ،اگر میں قیاس کو ترجیح دیتا تو عورت کا حق زیادہ مقرر کرتا کیونکہ ضعیف کی امداد زیادہ ہونی چاہیئے ،اچھا یہ بتایئے کہ نماز افضل ہے یا روزہ؟
امام محمد باقر صاحب نے فرمایا ،نماز
اما م ابوحنیفہ نے دریافت کیا کہ حائضہ عورت پر قضاروزے کی واجب ہوتی ہے یا نمازوں کی ،پھر عرض کیا اگر میں قیاس سے مسائل کو رد کرتا تو میں نمازوں کی قضا واجب سمجھتا۔
امام محمد باقر نے یہ سنا اور اٹھ کر امام ابوحنیفہ کو گلے لگایا اور پیشانی پر بوسہ دیا ۔
یہ اس زمانہ کی باتیں ہیں کہ جب آپ طالب علم اور استفادہ کے لئے امام صاحب کے پاس اپنے گھر سے نکلے تھے امام محمد باقر کے علم کا کافی حصہ امام صاحب کے پاس موجود ہے۔
اور چشم فلک نے امام ابوحنیفہ کا وہ زمانہ بھی دیکھا جبکہ آپ ایک دفعہ مدینہ میں تشریف لے گئے تو مسجد میں اس قدر لوگ جمع ہوگئے کہ تل دھرنے کی جگہ بھی نہ تھی سب علماء محدثین حضر ت امام صاحب کے اردگر د جمع ہوگئے۔
علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ کان ابوحنیفہ من اذکیا ء بنی آدم یعنی حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اولاد آدم میں سے ذکیوں کی فہرست میں شمار ہوتے تھے۔
ایک فتوٰی او ر جودت طبع کا ایک نمونہ :۔
حسن اتفاق سے ایک دن امام سفیان ثوری ،قاضی ابن ابی لیلٰی شریک امام ابوحنیفہ ؒ ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے حاضر ہوکر مسئلہ دریافت کیا کہ حضرت چند آدمی جمع ہیں ،اتفاق سے ایک سانپ نکلااورایک شخص پر چڑھنے لگا اس نے گھبرا کر پھینک دیا کہ دوسرے پر جاپڑا ،اس نے پھینکا تو تیسرے پر جاپڑا اسی طرح پھینکتے رہے کہ سانپ نے اخیر والے کو جاکر کاٹ لیا ۔
اب فرمایئے کہ دیت کس پر لازم ہوگی؟
اب لگی جواب میں بحث ہونے کسی نے کہا ،سب پر واجب ہوگی کیونکہ سب اس میں شریک ہیں ،بعض نے کہا کہ پہلے پر واجب ہوگی اگرو ہ نہ پھینکتا تو کاٹنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔
امام صاحب چپ بیٹھے سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے آخر کا رجب فیصلہ نہ ہوسکا تو سب نے آپ کی طرف توجہ کی۔ آپ نے فرمایا :جب پہلے نے سانپ پھینکا اور سانپ نے دوسرے کو نہ کاٹا تو پہلا بری الذمہ اسی طرح باقی سب بری الذمہ ہوگئے لیکن بحث صرف آخری کے متعلق باقی رہے گی کہ اگر اس کے پھینکنے سے فورًا سانپ نے کاٹ لیا تو دیت اس پر لازم ہوگی اور اگر کچھ دیر کرکے کاٹا تو دیت کسی پر نہیں ہوگی اس لیے کہ اس نے اپنی حفاظت میں خود سستی سے کام لیا ۔سب نے آپ کی ذہانت کی داد دی
خشیت الہٰی کے متعلق چند واقعا ت :۔
بیشک عالم وہ ہے جس کے دل میں خشیۃ الہٰی ہو۔ اسی لئے پرور دگا ر عالم نے فرمایا ہے اِنَّمَایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآء بلاشبہ خدا تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں
اور افضلیت کا مدار متقی ہونے پر ہے حضرت امام ابوحنیفہ کا مقام تو خشیت الہٰی کے پیش نظر بہت زیادہ تھا چنانچہ
(۱)۔۔۔ ابراہیم بصری کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت امام اعظم کے پیچھے نماز میں شریک تھا آپ نے نماز میں وَلَاتَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًاعَمَّایَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ پڑھی۔ امام ابوحنیفہ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ سارا بدن کانپنے لگا
(۲)۔۔۔ زاہدہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک ضروری مسئلہ دریافت کرناتھا امام صاحب کے ساتھ نماز عشاء میں شریک ہوااور انتظار کرتا رہا کہ نوافل سے فارغ ہوں تو دریافت کرو ں وہ قرآن پڑھتے پڑھتے اس آیت پر پہنچے وَقِنَاعَذَابَ السَّمُوْمِ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا
بار بار اسی آیت کو پڑھتے تھے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور وہ یہی آیت پڑھتے رہے
(سیرت النعمان مؤلفہ شبلی صفحہ ۱۰۵)
یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ سب سے سبقت لے گئے
امام صاحب کے متعلق علماء ملت کے اقوال
اما م اوزاعی کا ارشاد :۔
ہو من اعلم الناس بمعضلات المسائل (تبیض الصحیفہ
مشکل مسائل کو اپنے زمانہ کے علماء سے زیادہ جاننے والے ابوحنیفہ ہیں
ابن ہارون کا ارشاد:۔
اقاویل ابی حنیفہ لا یحبہا الا الذکی من الرجال ولا یضبطہا الا الفہیم منہم (مناقب موافق جلد ۲ صفحہ ۴۸
ابوحنیفہ کے اقوال کو وہ محبوب رکھتا ہے جو ذکی آدمی ہو اور ان کو ذہن میں وہ ضبط رکھتا ہے جو دانائے قوم ہو

تقوٰی کے متعلق چندواقعات :۔
منقول از مقام ابوحنیفہ مصنفہ حضرت مولانا صفدر مدظلہ العالی :۔
مسہر بن مالک کا بیان ہے کہ ایک شخص کپڑا لایا اور امام صاحب کے ہاتھ فروخت کرنا چاہا آپ نے پوچھا اس کی کتنی قیمت ہے وہ بولاایک ہزار درہم :امام صاحب نے فرمایا اسکی قیمت اس سے بدرجہا زیادہ ہے حتی کہ آٹھ ہزار درہم پر ان کا معاملہ طے ہوا
(مناقب فوق جلد ۱ صفحہ ۱۲۲)
ایک دفعہ حضرت امام کے ایک شاگرد نے ان کی غیر حاضری میں مدینہ طیبہ کے ایک باشندہ کو چار سو درہم کی قیمت کا گرم کپڑا دھوکے سے ایک ہزار درہم پر فروخت کردیا جب حضرت امام صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو شاگرد کو سخت تنبیہہ کی اور ا س دوکان کے سلسلہ سے الگ کردیا اور اس خریدار کا حلیہ پوچھ کر اس کے پیچھے ہوئے جب اس کو مدینہ طیبہ میں جاملے تو کافی اصرار وتکرار کے بعد چھ سو درہم اس پر رد کیا اور کپڑا اس پر چھوڑ کر پھر کوفہ لوٹ آئے۔
امام عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ لوٹ مار کی کچھ بکریاں ایک دفعہ کوفہ آگئیں اور کوفہ والوں کی بکریوں سے ان کا اختلاط ہوگیا امام صاحب نے دریافت کیا کہ بکری زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ زندہ رہ سکتی ہے لوگوں نے کہا سات سال :اما م صاحب نے سات سال تک بکری کا گوشت ترک کردیا۔