تمہید:۔
حضرات اس دور میں افراط وتفریط کی وجہ سے متعدد فرقے جنم لے رہے ہیں اور ہر فرقہ اس بات کامدعی ہے کہ میں حق پر ہوں سیدھے راستے پر چل رہا ہوں ظاہر ہے کہ اہل مذہب کے لئے مشعل اللہ تعالیٰ کا قرآن ہے اس بنا پر قرآن مجید کی روشنی میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ سیدھے راستے پر کون سے مذہب والے ہیں ؟
سورۃ فاتحہ میں قدرے اس طرف اشارہ ہے کہ منعم علیہم لوگوں کا راستہ سیدھا ہے اور مغضوب علیہم نیز ضآلین کا راستہ ٹیڑ ھا اور باعث عذاب ہے ۔
منعم علیہم لوگ کون ہیں ؟
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیُہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیَقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًاz (پارہ وَالْمُحْصَنٰتُ)
اور جس نے اطاعت کی اللہ او راس کے رسولؐ کی پس روز محشر یہ منعم علیہم لوگوں کے ساتھ ہوں گے یعنی نبیوں صدیقین شہیدوں اور نیک لوگوں کے ساتھ اور یہ بہترین رفیق ہونگے
اس آیت نے وضاحت کردی کہ چار قسم کے لوگوں پر مولائے کریم کے خصوصی انعامات ہوئے
(۱)۔۔۔انبیاء علیہم السلام
(۲)۔۔۔صدیقین
(۳)۔۔۔شہداء
(۴)۔۔۔صالحین (اولیاء اللہ )
جب قرآنی آیات سے یہ چار گروہ متعین ہوگئے تو اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا مذہب کیا تھا؟ جوان کا مذہب تھا وہی صراط سوی سیدھا راستہ کہلائے گا اور اس کے خلاف سب راستے اور مذہب اور سب مسلک جھوٹے قرار پائیں گے
انبیاء علیہم السلام کا مذہب :۔
وَمَآاَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّانُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہ‘ لَآاِلٰہَ اِلَّآاَنَا فَاعْبُدُوْنz (پارہ اِقْتَرَبَ)
اے پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے جس قدر رسول بھیجے سب کے پاس وحی کی تھی کہ میرے بغیر کوئی مشکل کشا نہیں ہے لہذا میری ہی عبادت کرو
تفصیلی دلائل
حضرت نوح علیہ السلام کا پروگرام :۔
وَلَقَدْاَرْسَلْنَانُوْحًااِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ‘ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ z (پارہ قد افلح)
بیشک ہم نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس کہا اے قوم اللہ کی عبادت کرو تمہار اخدا تعالیٰ کے بغیر کوئی حاجت روا نہیں ہے۔
حضر ت ہود علیہ السلام کا اعلان :۔
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ‘ اَفَلَاتَتَّقُوْنَz (پارہ وَلَوْاَنَّنَا)
اور قوم عاد کی طرف ہود علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو تمہار اخدا تعالیٰ کے بغیر کوئی حاجت روا نہیں ہے
حضرت صالح علیہ السلام کا پروگرام :۔
وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًام قَاَل یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ‘ (پارہ وَلَوْاَنَّنَا)
قوم ثمود کی طرف صالح علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی پرستش کروتمہارے لئے خدا تعالیٰ کے بغیر نفع رساں نہیں ہے
حضرت شعیب علیہ السلام کا اعلان :۔
وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًاقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ‘ قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌمِّنْ رَّبِّکُمْ (پارہ وَلَوْاَنَّنَا)
قوم مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب علیہ السلام کو بھیجا فرمایا اے میری قوم خدا تعالیٰ کی عبادت کرو تمہار اکوئی خدا تعالیٰ کے بغیر مشکل کشانہیں ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ فرعون کے دربار میں :۔
سیاست کی باگ دوڑ فرعون کے ہاتھ میں تھی کسی کی کیا مجال کہ مقابلے میں دم مارسکے وہاں تو آنکھوں میں آنکھیں ملا کر دیکھنا بھی باعث ہلاکت اور موت کے پروانے پر دستخط کرنا تھا رعب اس قدر کہ دائیں بائیں ہر وقت فوج چوکنی رہتی تھی ۔فرعون کا دعوی بادشاہی کا نہیں تھا خدائی کا تھا اور صرف خدائی کا نہیں بلکہ اَنَارَبُکُمْ الْاَعلٰی ادھر مولائے کریم نے فرعون کی تبلیغ کے لئے موسیٰ علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۔انہوں نے حضرت ہارونؑ کے متعلق سفارش کی جسے مان لیا گیا دونوں بحکم رب کائنات فرعون کے پایہ تخت کے قریب جاپہنچے او ر اس کے دریافت کرنے پر فرمایا
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَیْنَہُمَا اگر تمہیں یقین آئے تو جس رب کا میں فرستادہ ہوں وہ آسمانوں اور زمین او ر اس کے درمیان میں رہنے والی تمام چیزوں کا رب ہے
موسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب فرعون پر ضرب کاری کا کام کرگیا دل میں سوچنے لگا کہ یہ دو بہادر نوجوان جو کچھ کہہ رہے ہیں کہہ تو سچ رہے ہیں لیکن ربوبیت باطلہ کے نشے نے اسے ضلالت سے نہ نکلنے دیا اور لگا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منہ پھیرنے اور بے رخی برتنے چنانچہ اس نے تخاطب ہی قوم سے شروع کردیا کہ لوگوسنتے نہیں موسیٰ کیا کہہ رہا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام فطرتاً ذکی الطبع تھے انہوں نے اس کی مغلوبیت کو بھانپ لیا تو بڑھ چڑھ کر فرمایا دیکھ ورب ابائکم الاولین وہ رب تمہار ابھی ہے تمہارے باپ دادوں کا بھی رب ہے فرعون نے نہایت متحیر ہو کرکہا کہ تمہارا پیغمبر مجنون ہوچکا ہے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ترقی کرکے فرمایا
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا
میرا رب مشرق کا بھی رب ہے اور مغرب کا بھی رب ہے اور ان کے درمیان رہنے والی چیزوں کا بھی رب ہے۔
فرعون نے جوش میں آکر کہا خبردار اگر تم نے میرے بغیر کوئی کار ساز رب تسلیم کرلیا میں تمہیں حوالات میں بھیج دوں گا
موسیٰ علیہ السلام :۔
خواہ کوئی دلیل واضح بھی لاؤں
فرعون :۔
اگر ہے تو لاؤ بات تھوڑی کرو
موسی ٰ علیہ السلام :۔
موسیٰ علیہ السلام نے عصا ڈالا تو سانپ بن گیا ہاتھ بغل میں سے باہرنکالا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمکنے لگا
فرعون :۔
فرعون نے لوگوں کویہ غلط تأثر دیا کہ موسیٰ علیہ السلام جادوگر ہے کوئی مناظرے کے متعلق مشورہ کرو۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ بر سر عام مقابلہ کراؤ جادو گر بلائے جائیں اور لوگوں کے سامنے ہر شخص اپنے اپنے فن کا مظاہر ہ کرے ہارجیت واضح ہوجائے گی۔
بالآخر جادو گر بلائے گے جادوگروں نے بناوٹی سانپ بنا کر پیش کیئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عصا ڈالا سانپ بن کر تمام سانپوں کو کھا گیا جاد وگر سجدے میں گر گئے اور کھلم کھلا رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار کرلیا
ان تمام واقعات صادقہ سے پتہ چلتا ہے کہ جملہ انبیاء علیہم السلام کا مذہب توحید اور ان کی راہ توحید والی تھی
صدیقین کا مذہب :۔
انبیاء میں سے صدیق کا لقب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ملا ہے اور صحابہ کرامؓ میں سے صدیق اکبر صکو ۔ابراہیم علیہ السلام کا موقف توحید واضح ہے کہ ایام طفولیت میں بتوں کو گھسیٹتے پھرتے اور جب ذرا بڑے ہوئے تو تمام بتوں کا ستیاناس کردیا اور جب بہت بڑے ہوئے تو باپ کے سامنے بات واضح کردی
اباجان یہ ٹھیک ہے کہ آپ میرے باپ ہیں اور میں بیٹا ہوں لیکن حق میرے پاس خدا تعالیٰ کی طرف سے آچکا ہے سنو یہ معبودان باطلہ تمہارے حاجت روا نہیں بن سکتے ان کو چھوڑ دو باپ نے ہر چند دھمکیاں دیں مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام جادہ حق سے ذرابھر نہ ہٹے اور صدیق اکبرصکا مذہب تو واضح ہے کہ جب حضور علیہ السلام کی وفات ہوئی تولوگ تحیر میں پڑگئے تو آپ ص نے فرمایا حضرات اگر تم حضور اکی عبادت کرتے تھے تو ان کی وفات ہوچکی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے تو رب قدوس حی لا یموت ہیں وہ زندہ جاوید قدیم ہیں ان پر کبھی موت آئے گی ہی نہیں صدیق اکبر صکے اس بیان نے متحیر ا ور غمگینوں کی ڈھارس بندھادی پس واضح ہوگیا مسئلہ کہ جملہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور صدیقین کا مذہب توحید ہی تھا ۔
شہداء کا مذہب :۔
ویسے تو جمیع شہدا کرام کا مذہب وہی مذہب تھا جو تمام انبیاء علیہم السلام کا تھا لیکن مثال کے طور پر ایک حضرت شہید رضی اللہ عنہ کا ذکر کیئے دیتے ہیں قریہ انطاکیہ کی طرف دور عیسوی میں مولائے کریم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے چند رسول بھیجے لوگوں نے انہیں جھوٹا گردانا، قحط سالی کا باعث ظاہر کیا ،بشریت کو رسالت کے منافی بتلا کر ضد پر اڑے ۔مگر پیغمبروں نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے توحید ورسالت کی تبلیغ فرمائی جب لوگ زیادہ بگڑے توایک شخص آنمودار ہوا حقیقت میں اس کا پیام پیام رحمت تھا آکر کہنے لگا ،،لوگو تمہیں ذرا شرم تو کرنی چاہیئے بھلا ایسے حضرات کی باتیں نہیں مانتے جو بلا اجرت تمہیں تبلیغ کرتے اور توحید کا راستہ دکھاتے ہیں،،
ان کا یہ کہنا تھا کہ لوگ شیرنر کی طرح بپھر گئے اور اس کے وجود پر پتھر برسائے جب وجود لہولہان ہوگیا اور خون شہید کے چھینٹے زمین کو سیراب کرنے لگے تو انہوں نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور زبان حال سے کہا
خونے نہ کردہ ایم کسے رانکشۃ ایم
جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم
مولائے کریم کا دریائے رحمت جوش میں آیا اور فرمایا فرشتو میرے شہید کا مقام اسے دکھا دو ،پردے ہٹے حجابات دور ہوئے ،شہید کو رضائے خداوندی کا ٹکٹ ملنے لگا تو ایک سردآہ بھری اور کہا
یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَz بِمَاغَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ z
اے کاش کہ میر ی قوم جان لیتی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بخش بھی دیا ہے اور مجھے مکرم بھی بنایا ہے۔
حضرات دنیا میں بہشت کا سر ٹیفکیٹ، نزول رحمت ،پیام مغفرت ،محض عقیدہ توحید کے سبب سے ظہور میں آئے ۔
اولیاء اللہ کا مذہب :۔
رجسٹرڈ اولیا ء اللہ جس کا ذکر قرآن مجید میں مرقوم ہے میری مراد اصحاب کہف ہیں وقیانوس بادشاہ کا زمانہ تھا وقیانوس بت پرست قسم کا انسان تھا نیز منکر قیامت بھی ،لیکن رعیت ایماندار اور قیامت کی قائل تھی رعیت کو آزمانے اور اپنانے کے لئے اس کے سامنے بت بٹھایا اور دوسری طرف آگ جلائی تاکہ جو بت کے سجدے سے انکار کرے اسے آگ میں ڈال دیا جائے سب لوگ بت کو سجدہ کرتے گئے اور اپنی جان بچاتے گئے۔ لیکن اصحاب کہف جو ایک ٹولہ اولیاء اللہ کا تھا انہوں نے انکار کیا ۔
بادشاہ نے ان کو سوچنے کا موقع دیا وہ غار میں چلے گئے ٹھنڈا ہوا دار او ردلنواز مقام کی وجہ سے سب کو نیند آگئی تین سو سال کے بعد جاگے ایک نے پوچھا کس قدر اس غار میں رہے ہو سب نے جواب دیا ایک دن یا کچھ کم ،جسم کی تھکاوٹ کے اثرات کا لحاظ کیا اللہ تعالیٰ ہی حقیقت مدت کو جانتے ہیں ۔
اتنے میں ایک نے بھوک کا اظہار کیا اور روٹی کی خواہش ظاہر کی دوسرے نے بھی اسی طرح، تیسرے نے بھی، سب نے بیک آواز کہا کسی کو بازار میں بھیجو تاکہ بازار سے پاکیزہ غذالے آئے یعنی کسی موحد کی مذبوحہ اور نمازی کی تیار کی ہوئی ہو۔
چنانچہ ایک ان میں سے رقم لے کر غار سے باہر نکل آیا پیچھے سے آواز آئی بات سخت نہ کرنا ورنہ ان کو پتہ چل گیا تو شرکیہ عقائد میں ہمیں واپس کرنے کی کوشش کریں گے یا ہمیں جان سے مار ڈالیں گے۔
سب کے مشورے سے ایک ولی اللہ رقم لے کر شہر میں تشریف لائے تین سو سال کی مدت کے بعد شہر کا نقشہ بدلا ہوا تھا ،لوگوں کا تمدن مختلف ہوچکا تھا، مکان در مکان بن چکے تھے۔ واقفوں کے مکانات میں ناواقف مکین نظر آئے ایک جگہ نانبائی کی دوکان نظر آئی تو روٹی کے متعلق فرمائش کی اس نے رقم کا مطالبہ کیا اس اللہ کے ولی نے روپے دیئے تو سکہ تین سو سال پہلے کا تھا ،پکڑا گیا ۔مجرم بن کر بادشاہ کے سامنے آیا ،بادشاہ مسلمان تھا قوم قیامت کی منکر تھی تختی منگوائی گئی تو اس کا نام اس میں درج تھا معلوم ہوا کہ یہ شخص اصحاب کہف میں سے ایک ہے
بادشاہ نے نعرہ تکبیر لگایا لوگوں نے وجہ پوچھی فرمایا جو خدا تعالیٰ تین سو سال کے بعد ان کو جگا سکتا ہے وہ مردوں کو بھی زندہ کرنے پر قادر ہے ان کے وطن کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ہم تو غار میں رہنے والے لوگ ہیں ۔اختلاف پڑگیا کسی نے کہا اصحاب کہف تو تین ہیں چوتھا کتا ہے
بعض نے کہا پانچ ہیں چھٹا کتا ہے
مولائے کریم نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ
ولِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
آسمانوں اور زمین کا غیب اللہ کے لئے ہے
نتیجہ یہ ثابت ہوا کہ یہ اولیاء اللہ اس لئے غار میں تشریف لے گئے کہ انہوں نے توحید کا اظہار کیا تھا اور مولائے کریم نے بھی ان کی حفاظت اسی عقیدے کے وسیلے سے کی تھی۔ نیز یہ کہ غیب کا علم نہ اندر والوں کو تھااو ر نہ باہر والوں کوتھا یا یوں کہہ لیجئے کہ اندر والوں کواندر کا پتہ نہیں تھا ،اگر باہر والوں کو اندر کا پتہ ہوتا تو ایک دن یا کچھ کم نہ کہتے ۔اگر اندر والوں کو باہر کا علم ہوتا اللہ کے ولی کو نہ بھیجتے اور اگر باہر والوں کو اندر کا علم ہوتا تو اتنے اشخاص کے تعین میں اختلاف نہ کرتے
حضرات انبیاء علیہم السلام ،صدیقین ،شہداء کے واقعات آپ کے سامنے ہیں سب کو چاہیئے کہ ان کے مسلک سے ہوکر شرک وبدعت کو ترک کریں اور توحید کے ساتھ وابستہ ہوں اور وابستہ رہیں ۔نہ مشکل کشاء خدا تعالیٰ کے بغیر کسی اور کو سمجھیں اور نہ حاجت روا اور نہ حاضر ناظر، نہ بیٹا بیٹی دینے والا اور نہ ہر وقت دور سے سب باتوں کو سننے والا
اس بناء پر سب مسلمان انہی عقائد پر پختہ رہیں
وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ