تمہید :۔
حضرات عبادات اربعہ میں سے تین عبادتیں ایسی ہیں جن کا علم عابد کے علاوہ اوروں کو بھی حاصل ہوتا ہے لیکن روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کی خبر بغیر خدا تعالیٰ اور بغیر روزے دار کے کسی کو نہیں ہوتی چونکہ یہ عبادت بے ریا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بے ریا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے اس لئے حدیث قدسی میں خداتعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
الصوم لی وانا اجزی بہ
روزہ میرا ہے اور اس کی جزا میں دوں گا
حالانکہ باقی عبادتیں بھی اسی کے لئے تھیں مگر چونکہ ان میں اظہار ہے اور روزے میں اخفاء ہے اس لئے یہ عبادت مولاکے نزدیک زیادہ مؤقر مکرم ہے اور ہوسکتا ہے کہ باقی اعمال کی جزاء اپنے حکم سے ملائک کے سپرد فرمادے اور روزے دار کو اپنی رحمت خاصہ سے خود عنایت فرمائیں ۔
اور بعض حضرات اس حدیث کو مجہول کے صیغے سے پڑھتے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ قیامت کے دن روزے دار کی جزاء خود بن جاؤں گا۔
سلطان محمود سبکتگین کا واقعہ :۔
سلطان محمود ایک دن تخت شاہی پر جلوہ افروز تھے اور سامنے میز پر جواہر موتی ہیرے رکھے ہوئے تھے آپ نے حکم دیا کہ جس جس وزیر کا ہاتھ جس پر پڑجائے گا وہ ہیرا اسی کا ہوجائے گا بحکم بادشاہ سب نے جلدی جلدی جواہرات اٹھالیئے لیکن سیاہ رنگ لونڈی نے جو بادشاہ پر پنکھاہلارہی تھی فورا پنکھے کو زمین پر رکھ دیا اور بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا
سلطان محمود نے مسکرا کر دریافت کیا اے سیاہ لونڈی کسی کے ہاتھ زمرد آیا کسی کے ہاتھ ہیرا آیا کسی کے ہاتھ لعل آیا لیکن تیرا ہاتھ خالی آیا اور خالی گیا۔
لونڈی نے جواب دیا ،بادشاہ سلامت بخت بلند باد کسی کے ہاتھ لعل آیا اور کسی کے ہاتھ موتی لیکن میرے ہاتھ موتی والا آیا ۔
اسی طرح دوستوقیامت کے دن کسی کو جنت الفردوس ملے گی اور کسی کو جنت الماوی ،لیکن روزے دار کے حصے میں خود خداتعالیٰ کی ذات آئے گی۔
سچ ہے کہ من کان للہ کان اللہ لہ
روزہ اور قرآن :۔
رمضان کا مہینہ کتنا برگزیدہ مہینہ ہے اسی میں قرآن کریم نازل ہوا
شَہْرُرَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ
رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ۔
اس التزام کی وجہ قیامت کے دن رمضان وقرآن دونوں بارگاہ رب العالمین میں پیش خدمت ہونگے اور دونوں شفاعت کرکے اپنے محب یعنی قرآن پڑھنے والے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے والے کوبہشت بریں میں پہنچائیں گے ۔
عن عبداللہ بن عمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال الصیام والقران یشفعان للعبد یوم القیامۃ
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ اور قرآن بندے کے لئے قیامت کے دن شفاعت کریں گے
عبادت سے مقصد کیا ہوتا ہے ؟
عبادت واطاعت سے مقصود چار ہوتے ہیں
(۱)۔۔۔تزکیہ نفس (۲)۔۔۔قرب خداوندی( ۳)۔۔۔بلندی مرتبت( ۴)اُخروی نجات
تز کیہ نفس اس کی اہمیت اور روزہ رمضان :۔
تزکیہ نفس مسلمان کے لئے ضروری ہے اور اسی پر فوز وفلاح کا مدار ہے۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا
بلاشبہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا کامیاب ہوگا۔
لیکن تزکیہ نفس کے لئے روزہ اکسیر ہے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صومو اتصحوا
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھو تندرست رہو ۔
تندرستی سے مراد ظاہری تندرستی بھی ہے اور باطنی بھی یعنی انسا ن اگر روزہ رکھتا ہے تو اسے انشاء اللہ تعالیٰ ظاہری تندرستی بھی نصیب ہوگی اور روحانی تندرستی بھی اور روحانی تندرستی کا نام تزکیہ نفس ہے۔
حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :۔
عن ابی ھریرۃؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکل شی زکوٰۃ وزکوٰۃ الجسد الصوم
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس نے فرمایا ہرشے کے لئے زکوٰ ۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے ۔
جس طرح زکوٰۃاداکرنے سے مال کا میل کچیل نکل جاتا ہے اسی طرح انسان جب روزہ رکھتا ہے تو انسان کے گناہوں کی میل کچیل نکل جاتی ہے اور انسان گناہوں سے صاف ہوجاتا ہے۔
روزے سے قرب خداوندی حاصل ہوتا ہے :۔
رحمۃ للعالمین کا ارشاد گرامی
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم للصائم فرحتان فرحۃ حین یفطرو فرحۃ حین یلقی ربہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزیدار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس وقت ہے جبکہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی اس وقت ہوگی جبکہ وہ اپنے رب کو ملے گا
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفس محمد بیدہ لخلوف فم الصائم اطیب عنداللہ من ریح المسک
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضرت کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کی قبضے میں میری جان ہے البتہ روزے دار کے منہ کی خوشبو خداتعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے۔
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولصیام للہ عزوجل لا یعلم ثواب عاملہ الا اللہ عزوجل
حضر ت ابن عمرؓ سے روایت ہے حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا روزے دار کے روزے کا ثواب بغیر خداتعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا
بلاشبہ سب عبادتیں برحق ہیں لیکن روزے کا مقام خداوند جل شانہ کے نزدیک بہت ہی اہم ہے
بلندی مرتبت بھی روزے سے حاصل ہوتی ہے :،
عن سلمانؓ قال خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی اخریوم شعبان فقال یایہا الناس قد اظلکم شہر عظیم مبارک شہر فیہ لیلۃ خیر من الف شہر جعل اللہ صیامہ فریضۃ وقیام لیلہ تطوعا من تقرب فیہ بحضلۃ کان کمن اوی فریضۃ فیما سواہ ومن ادی فریضۃ فیہ کان کمن ادی سبعین فریضۃ فیما سواہ
حضرت سلمانؓ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر میں ہمیں خطبہ دیا تھا پس آپ نے فرمایا اے لوگو تمہارے اوپر ایک بڑے برکت والے مہینے نے سایہ کرلیا ہے جس کی ایک رات ہزار مہینے کی راتوں سے بہتر ہے اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزہ کو فرض بنادیا ہے اور اس کی راتوں میں نوافل کو نفل جو شخص ایک نیک خصلت کے ذریعے اس میں قرب حاصل کرتا ہے گویا کہ اس نے ماسوارمضان میں فرض ادا کیا اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کیئے
غور فرمایئے کس قدر عنایات ہیں پرور دگار عالم کی اس مہینے کی معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اس مہینے میں خداتعالیٰ کی رحمت مسلمانوں پر موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے اور نیک بخت انسا ن رحمت خداوندی سے اپنی جھولیاں بھر کر ذخیرہ آخرت بناتے ہیں اور بدقسمت انسان ویسے کے ویسے راندہ درگاہ رہتے ہیں
اعتکاف کے متعلق :۔
عن علیؓ بن حسین عن ابیہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اعتکف عشرافی رمضان کان کحجتین وعمرتین
حضرت امام زین العابدینؓ سے روایت ہے وہ اپنے باپ حضرت علیؓ سے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں فرمایا کہ جو شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بیٹھے اسے دوحجوں اور دو عمروں کا ثواب ملے گا۔
حضرت کریم ا کا ایک اور ارشاد :۔
عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاکان اول لیلۃ من رمضان فتحت ابواب السماء فلا یفلق منہا باب حتی یکون اخر لیلۃ فی رمضان ولیس عبدمؤمن یصلی فی لیلۃ فیہا الاکتب اللہ لہ الفاوخمسماءۃحسنۃبکل سجدۃ وبنی لہ بیتا فی الجنۃ من یاقوت حمراء فاذاصام اول یومہ من رمضان غفرلہ ماتقدم من ذنبہ الی مثل ذلک الیوم من شہر رمضان واستغفرلہ کل یوم سبعون من صلوٰۃ الغداۃ الی عن تواری بالحجاب وکان لہ بکل سجدۃ یسجدہا فی شہر رمضان بلیل ونہار شجرۃ یسیر الراکب فی ظلہا خمس ماءۃ عام۔
(ترغیب وترہیب صفحہ ۲۰۲
حضرت ابو سعیدؓ خدری سے روایت ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت رمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور وہ آخر رمضان تک کھلے رہتے ہیں جو مؤمن رمضان شریف کی رات میں نماز پڑھتا ہے ہر سجدے کے عوض خداتعالیٰ اس کے لئے ڈیڑھ ہزار نیکی لکھتا ہے اور اس کے لئے سرخ یاقوت کا بہشت میں محل تیار ہوتا ہے ،جس کے ستر ہزار دروازے ہوتے ہیں ہر دروازے کے لئے ایک سونے کا محل ہوتا ہے جو یاقوت سرخ سے مزین ہوتا ہے پس جب انسان پہلا روزہ رکھتا ہے اس کے گذشتہ گناہ اس دن تک معاف ہوجاتے ہیں اور اس کے لیے بخشش مانگتے ہیں ہرروز ستر فرشتے صبح سے غروب آفتاب تک اور رمضان کے مہینہ میں جو سجدہ کرتا ہے خواہ وہ رات کوکرے یا دن کو کرے ہرسجدے کے عوض اللہ تعالیٰ ایک درخت عنایت فرماتے ہیں جس کے نیچے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے۔
روزے کی ایک اور فضیلت اور ترقی درجات :۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صیام رمضان وسن لکم قیامہ فمن صامہ وقامہ ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ
حضرت روح دو عالم ؐ نے فرمایا بلاشبہ خداتعالیٰ نے رمضان کا روزہ فرض کیا اور ا سکی راتوں میں نوافل پڑھنا سنت کیا ہے پس جو شخص دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نوافل ادا کرتا ہے ایمان اور طلب ثواب کی خاطر ،تو گناہوں سے اسطرح نکل جائے گا جیسا کہ آج اپنی ماں کے پیٹ سے بے گناہ نکلا ہے۔
اس قدر بہشتی مقامات اور ترقی درجات کا حصول ہرگز ممکن نہیں جب تک وہ عبادت جس کے عوض میں اس قدر عنائتیں ہورہی ہیں خداتعالیٰ کے ہاں اعلی ترین نہ ہو۔
اُخروی نجات :۔
ابرار جس قدر نیکیاں کررہے ہیں محض رضائے خداوندی اور نجا ت اخروی کے لئے اور یقیناًاس میں روزے کو بے حد دخل ہے چنانچہ
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الصیام جنۃ وحصن حصین من النار (ترغیب وترہیب صفحہ ۱۹۹)
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزہ ڈھال ہے اور جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ایک زبردست قلعہ ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوامامہؓ نے حضور اقدس ؐکی خدمت عرض کیا
امرنی بعمل قال بالصوم فانہ لا عدل لہ قلت یا رسول اللہ امرنی بعمل قال علیک بالصوم فانہ لاعدل لہ قلت یا رسول اللہ امرنی بعمل قال علیک بالصوم قال علیک بالصوم فانہ لا عدل لہ
آپ ؐ مجھے کوئی عمل بتایئے آپ نے فرمایا روزہ رکھ اس لئے کہ اس کے برابر کوئی نیکی نہیں میں نے کہا یا حضرت مجھے عمل بتائیے آپ نے فرمایا روزہ رکھ اس لئے کہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے عمل بتایئے آپ نے فرمایا روزہ رکھو اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے
آپ ا کا یہ ارشاد اوربار بار یہ ارشاد اس میں نص صریح ہے کہ یہ عمل نجات کے لئے اکسیر ہے
تنبیہہ درتنبیہہ :۔
لیکن اس قدر ثواب سننے کے بعد روزے دار کو اترانا نہیں چاہیئے جس طرح انسان کے لیے روح ہے اور روح کے بغیر انسان مردہ ہے بالکل اسی طرح روزے کے لئے بھی ایک جان ہے رو ح ہے جب تک وہ حاصل نہ ہوتب تک روح بے جان ہے اور اللہ کے دربار میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے اور یقیناًروزے کی روح تقویٰ ہے
خ۔۔۔روزے دار نگاہ بد سے بھی پرہیز کرے ۔
خ۔۔۔روزے دار بیہودہ باتوں اور لغوکلام سے بچتا رہے۔
خ۔۔۔روزے داربرے گانوں سے بھی احتراز کرے۔
خ۔۔۔روزے دار چوری اور خیانت نہ کرے ۔
خ۔۔۔روزے دار برے مقام پر بھی نہ جائے۔
خ۔۔۔روزے دار جھگڑے وغیرہ سے بھی کنارہ کشی کرے۔
بلکہ :۔
تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہے ذکرالہٰی میں مصروف رہے آخری عشرے میں اعتکاف کے لئے مسجد میں رہ جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من اعتکف عشرا فی رمضان کان کحجتین وعمرتین
جو شخص رمضان مبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھے اسے ثواب دو حجوں اور دو عمروں کا ملے گا
اور رمضان مبارک کے روزے رکھ کر خدا کا شکر بجالائے اور عید الفطر کے دن نہایت فرحت وسرور کے ساتھ نماز عید ادا کرے تو خداتعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے
ارجعواقد غفرت لکم وبدلت سیاتکم حسنات
(مشکوٰۃ صفحہ ۱۸۲)
واپس جاؤ بلاشبہ میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا ہے۔
خداتعالیٰ ہم سب کو ان تمام ارشادات پر عمل کرنے کی اور عنایات خاصہ کے مستحق بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔آمین
واخر دعونا ان الحمد للہ رب العالمین